Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
Ref. No. 41/1007
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کرایہ کے مکان وغیرہ میں اصلاح و مرمت کی اصل ذمہ داری مالک مکان کی ہوتی ہے اس لیے کہ کرایہ دار نفع وصول کرتا ہے اور اس نفع کے عوض وہ اجرت دیتاہے اس لیے کرایہ کے سامان میں اگر کوئی خرابی ہوتی ہے اس کی ذمہ داری مالک کے اوپر ہوتی ہے۔تاہم اگر دونوں باہم مشورہ سے یہ طے کرلیں کہ کرایہ کے سامان میں اصلاح و مرمت کی ذمہ داری کرایہ دار پر ہوگی اور جن چیزوں کے اصلاح کی بات کی گئی ہے وہ متعین بھی ہے تواس طرح کی شرط لگانا درست ہے اور خراب ہونےکی صورت میں اصلاح کی ذمہ داری کرایہ دار پر ہوگی ۔تاہم مذکورہ مسئلہ میں جو خرابی ہوئی ہے اس کی ذمہ داری مالک پر ہوگی کرایہ دار پر نہیں ہوگی اس لیے کہ کرایہ دار پر اصلاح و مرمت کی ذمہ ڈالنے کا مطلب ہوتا ہے کہ اگر کرایہ دار کی کوتاہی اور غلطی سے سامان خراب ہوا تو اس کی اصلاح کی ذمہ داری کرایہ دار پر ہوگی جب کی یہاں پر جو سامان خراب ہوا ہے اس میں کرایہ دار کی کوئی غلطی نہیں ہے اس لیے ان چیزوں کی اصلاح کی ذمہ داری مالک مکان پر ہوگی۔"وإن تكارى داراكل شهر بعشرة على أن يعمرها ويعطي أجر حارسها ونوابها فهذا فاسد؛ لأن ما يعمر به الدار على رب الدار والثانيةكذلك عليه فهي الجباية بمنزلة الخ راج فهي مجهولة فقد شرط لنفسه شيئاً مجهولا مع العشرة. وضم المجهول إلى المعلوم يجعل الكل مجهولا "(السرخسي: المبسوط ( ١٥/١٤٩)فإن قلت: «نهى - صلى الله عليه وسلم - عن بيع وشرط» فيلزم أن يكون العرف قاضيا على الحديث.قلت: ليس بقاض عليه، بل على القياس؛ لأن الحديث معلوم بوقوع النزاع المخرج للعقد عن المقصود به وهو قطع المنازعة، والعرف ينفي النزاع فكان موافقا لمعنى الحديث، فلم يبق من الموانع إلا القياس. والعرف قاض عليه اهـ ملخصا. قلت: وتدل عبارة البزازية والخانية، وكذا مسألة القبقاب على اعتبار العرف الحادث، ومقتضى هذا أنه لو حدث عرف في شرط غير الشرط في النعل والثوب والقبقاب أن يكون معتبرا إذا لم يؤد إلى المنازعة،(فتاوی شامی ٥/٨٨)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 990/41-146
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلاق کے لئے لفظ طلاق یا اس کے ہم معنی الفاظ کو زبان سے ادا کرنا ضروری ہے۔ محض وسوسہ سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔ لفظ "جا" سے اگر طلاق کی نیت نہ ہو تو طلاق واقع نہیں ہوتی، جبکہ یہاں پر "جا" کے بولنے کا بھی یقین نہیں ہے۔ اس لئے مذکورہ صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔
ورکنہ لفظ مخصوص ھو ماجعل دلالۃ علی معنی الطلاق من صریح او کنایۃ فخرج الفسوخ الخ (ردالمحتار رکن الطلاق 3/230- نظام الفتاوی 2/144)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1197/42-488
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس سے مہر کی ادائیگی نہیں ہوگی، کیونکہ یہ جو کچھ مل رہا ہے وہ سرکار کی طرف سے بطور تبرع اس کی بیوی کو مل رہا ہے جس کی مالک خود اس کی بیوی ہے، اس میں شوہرمرحوم کا کوئی حق نہیں ہے۔تاہم اگر شوہر نے کوئی ترکہ نہیں چھوڑا ہے جس سے بیوی کا مہرادا کیا جاسکے تو بیوی کو چاہئے کہ شوہر کو مہر سے بری کردے، خاص طور پر جب کہ عورت شوہر کی وجہ سے پینشن بھی پارہی ہے۔ عورت کے مہر معاف کرنے سے بھی شوہر کے ذمہ سے مہر کا دین ساقط ہوجائے گا۔ اور ان شاء اللہ آخرت میں مواخذہ کا باعث بھی نہیں ہوگا۔
(قوله وصح حطها) أي حط المرأة من مهرها؛ لأن المهر في حالة البقاء حقها والحط يلاقيه حالة البقاء والحط في اللغة الإسقاط كما في المغرب أطلقه فشمل حط الكل أو البعض وشمل ما إذا قبل الزوج أو لم يقبل (البحرالرائق باب المھر 3/161)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Ref. No. 1318/42-687
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وقتی طور پر سرکار نے جو کرایہ بڑھایا، اور آنے کی اجازت دی اس کا آپ نےفائدہ اٹھایا۔ اس میں جو کچھ خرچ کئے وہ آپ کے ذاتی پیسے خرچ ہوئے۔ سود کی رقم آپ کی ذاتی رقم نہیں ہے، اس لئے سودی رقم کو اس میں لگانا یا سودی رقم سے اس کی تلافی کرنا جائز نہیں ہے۔ سود کی رقم غریبوں پر بلا نیت ثواب صدقہ کرنا لازم ہے۔ اس سے کسی طرح استفادہ جائز نہیں ہے۔
ولا يأخذون منه شيئا وهو أولى بهم ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه (شامی فصل فی البیع 6/385)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1446/42-910
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فقہ حنفی کی رو سے، میمونہ کا کل ترکہ 18 حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے میمونہ کی والدہ کو 3 حصے اور بھائی کو دس اور بہن کو پانچ حصے ملیں گے۔ بھتیجے، بھتیجی اور بھانجی کو کچھ نہیں ملے گا۔
وَ لِاَبَوَیْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَهٗۤ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ١ۚ فَاِنْ كَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ (سورۃ النساء 11)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1550/43-1124
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔انڈیا اور دیگر کسی بھی ملک سے محبت اور اس کی ترقی کی خواہش کرنا ، اور ملک میں امن و امان قائم رہے اس کی دعا کرنا ایمانی جذبہ ہے، اسلام اس کی مخالفت نہیں کرتا ہے۔ انڈیا کے جھنڈے میں کوئی ایمان کے منافی چیز نہیں ہے اس لئے اس کی تصویر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ایمان کے لوازمات کو برتتے ہوئے ، انسانیت سے محبت اور انسانیت کی ترقی کے لئے کوشاں رہنا ضروری ہے۔ اللہ تعالی انڈیا اور دنیا کے تمام ممالک میں امن و سلامتی اور انصاف قائم فرمائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 2029/44-1999
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلاق دینے کا اختیار صرف مرد کو ہے۔ عورت کو طلاق کا اختیار بالکل نہیں ہے۔ اگر عورت اپنے شوہر کو طلاق دے گی تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔ تاہم شریعت نے عورت کے لئے خلع رکھا ہے۔ عورت اپنے شوہرسے مہر کی معافی یا کچھ پیسوں کے عوض شوہر سے طلاق لے سکتی ہے۔ اگر شوہر کسی صورت طلاق دینے کے لئے تیار نہ ہو تو عورت دارالقضاء سے رجوع کرسکتی ہے؛ قاضی اپنے اعتبار سے مناسب سمجھے گا تو نکاح کو فسخ کردے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:میت کے لئے ایصال ثواب کرنا بلا تعیینِ ایام شریعت مطہرہ میں جائز ہے اور مقصود بھی ہے؛ لیکن اس کے لئے ہر شخص اپنے اپنے مقام پر تلاوت کر سکتا ہے اور تسبیحات بھی پڑھ سکتا ہے اجتماعی طور پر مجلس لگانے کی ضرورت نہیں ہے، علامہ شاطبی رحمۃ اللہ علیہ نے اجتماعی طور پر قرآن کی تلاوت کو بدعت کہا ہے:
’’ومن البدع الإضافیۃ التي تقرب من الحقیقۃ أن یکون الأصل العبادۃ مشروعا إلا أنہا تخرج عن أصل شرعیتہا بغیر دلیل توہما أنہا باقیۃ علی أصلہا تحت مقتضی الدلیل وذلک بأن یقید إطلاقہا بالرأي أو یطلق تقییدہا وبالجملۃ فتخرج عن حدہا الذي حد لہا‘‘(۱)
مزید امام شاطبی رحمۃ اللہ علیہ آگے لکھتے ہیں: ’’ومن ذلک قراء ۃ القرآن بہیئۃ الاجتماع‘‘(۲) یہ سب رسم رواج کے طور پر کیا جاتا ہے جو کہ غیر مشروع ہے؛ اس لیے ایسے رسم ورواج اور بدعات میں شرکت کرنے سے آس پڑوس اور محلہ وغیرہ کے سب ہی لوگوں کو پر ہیز کرنا چاہئے۔
’’وہذا کلہ إن فرضنا أصل العبادۃ مشروعا فإن کان أصلہا غیر مشروع فہي بدعۃ حقیقیۃ مرکبۃ‘‘(۱) ’’فالحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراء ۃ القرآن لأجل الأکل یکرہ‘‘(۲)
آج کل ایصال ثواب کے لئے خود ساختہ طور پر رسمیں گھڑھ لی گئی ہیں شریعت کی نظر میں یہ بے اصل اور اکابر اسلاف سے یہ ثابت نہیں ہے ’’من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد‘‘ (۳) ایسے ہی قرآن خوانی ایصال ثواب کے لئے ہو، تو اس کی اجرت ممنوع ہے اور قرآن خوانی کے بعد کھانا کھلانا شیرنی وغیرہ تقسیم کرنا اجرت میں شمار ہوگا؛ اس لئے ایصال وثواب کے لئے اس طرح مجلس قائم کرنا دعوت کرنا بدعت اور ناجائز ہے، اس سے نہ پڑھنے والے کو ثواب ملتا ہے اور نہ ہی میت کو جیسا کہ علامہ حصکفیؒ نے لکھا ہے:
’’إن القرآن بالأجرۃ لا یستحق الثواب لا للمیت ولا للقاري‘‘(۴) ’’فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراء ۃ الأجزاء بالأجرۃ لا یجوز‘‘(۵)
(۱) أبو إسحاق، الشاطبي، ’’کتاب الاعتصام، البدع‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵۔
(۲) ’’أیضاً‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۸۔
(۱) أبو إسحاق، الشاطبي، ’’کتاب الاعتصام، البدع‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۲۔
(۲) ابن عابدین،الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ، من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸۔
(۳) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷۔
(۴) أبو إسحاق الشاطبي، ’’کتاب الاعتصام، ’’البدع‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵۔
(۵) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب: تحریر مہم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ، مطلب في الاستئجار علی المعاصي‘‘: ج ۹، ص: ۷۷۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص417
اسلامی عقائد
Ref. No. 2529/45-3876
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والدہ کی وفات کے وقت جو اولاد زندہ تھی ، ان کو میراث میں شرعاً حصہ ملے گا، اور جن اولاد کا انتقال والدہ کی حیات میں ہی ہوگیاتھاان کو شرعا میراث میں حصہ نہیں ملے گا، لہذا جس بھائی کا انتقال والدہ کی حیات میں ہوگیا تھا اس کا یا اس کی اولاد کا میراث میں شرعا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ البتہ جس بھائی کا انتقال والدہ کی وفات کے بعد ہوا ہے، وہ تمام بھائی بہنوں کے ساتھ میراث میں اپنے حصہ کا حقدار ہے، اس کا حصہ اس کی اولاد کو دیدیاجائے گا جو وہ آپس میں شرعی ضابطہ سے تقسیم کرلیں گے۔
بہر حال اب کل ترکہ تین بھائی اور پانچ بہنوں میں اس طرح تقسیم ہوگا کہ ہر ایک بھائی کو دوہرا ،اور ہر ایک بہن کو اکہرا حصہ ملے گا۔ لہذا ماں کا کل ترکہ گیارہ حصوں میں تقسیم کریں گے؛ ہر ایک بھائی کو دو دو حصے اور ہر ایک بہن کو ایک ایک حصہ ملے گا۔
تقسیم کے بعد اگر یہ ورثاء اپنے حصہ میں سے اپنی مرضی سے متوفی بھائی کی اولاد پر کچھ خرچ کریں یا ان کو دیدیں توبہت اچھا ہے، اس کار ثواب پر اجر عظیم کے مستحق ہوں گے، ان شاء اللہ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جس وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے اس وقت حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا، اسلام سے قبل آپ آتش پرست تھے اور آپ کا پہلا نام مابہ ابن بوزخشاں تھا ۔(۱)
(۱) قال حدثني سلمان الفارسي: من فیہ قال: کنت رجلا فارسیاً من أہل قریۃ یقال لہا جی (اسم المدینۃ) وکان أبي دہقان قریتہ وکنت أحب خلق اللّٰہ إلیہ لم یزل حبہ إیاي حتی حبسني في بیتہ کما تحبس الجاریۃ واجتہدت في المجوسیۃ حتی کنت قطن النار التی یوقدہا لا یترکہا تخبو ساعۃ الخ۔ (أبو الفداء ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ، إسلام سلمان الفارسي: ج ۳، ص: ۳۸۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص237