Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 903/41-11B
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ علماء وصلحاء کا لباس اختیار کرنا چاہئے، اور لباس کواس کی اصلی حالت پر ہونا چاہئے۔ ہاف آستین میں ہیئت معروفہ کی خلاف ورزی ہے اس لئے مکروہ ہے۔
(و) كره (كفه) أي رفعه ولو لتراب كمشمر كم أو ذيل (الدرالمختار 1/640)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1340/42-718
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح متعین منافع پر کاروبار کرنا درست نہیں ہے۔ کاروبار میں جتنے لوگ شریک ہیں سب نفع و نقصان میں شریک ہوں تو معاملہ درست ہے۔ اس لئےمنافع فی صد کے اعتبار سے متعین ہونے چاہئیں۔ صورت مذکورہ میں پچاس ہزار سے زائد جوروپئے آپ کو ملیں گے وہ حلال نہیں ہیں۔
وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا (القرآن: سورۃ البقرۃ 275"(
ومنها : أن يكون الربح جزءًا شائعًا في الجملة، لا معينًا، فإن عينا عشرةً، أو مائةً، أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدةً؛ لأن العقد يقتضي تحقق الشركة في الربح والتعيين يقطع الشركة لجواز أن لايحصل من الربح إلا القدر المعين لأحدهما، فلايتحقق الشركة في الربح". (بدائع الصنائع 6/ 59، کتاب الشرکة، فصل في بيان شرائط جواز أنواع الشركة)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1469/42-908
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عصر کی فرض نماز کے بعد کسی فرض یا واجب کی قضا پڑھنا درست ہے لیکن سنت کی قضاء یا نفل پڑھنا درست نہیں ہے۔ اس لئے ظہر کی فرض کی قضاء کے ساتھ اسکی سنتیں پڑھنا درست نہیں ہے۔
2۔ انفرادی طور پر فرض نماز پڑھتے ہوئے سجدہ میں اللہ کی عظمت اور اپنی کوتاہیوں کا تصور کرکے رونادرست بلکہ احسن ہے،اور عربی میں ماثور دعائیں مانگنا بھی درست ہے لیکن بہتر نہیں ہے، کیونکہ دعا کا سنت طریقہ قبلہ رو ہو کر بیٹھ کر ہاتھ اٹھاکر دعا کرنا ہے، اس لئے سجدہ کی حالت میں دعا کرنامسنون طریقہ نہیں ہے۔ نفل نماز میں جو وسعت ہے وہ فرض نمازوں میں نہیں ہے۔ اس لئے نفل میں سجدہ میں دعاکرنا بہترہے لیکن فرض میں نہ کرنا بہتر ہے۔ نیز اس بات کا بھی خیال رہے کہ یہ دعا ایسے امور سے متعلق نہ ہو جو مخلوق سے مانگی جاتی ہیں۔
وفيه جواب عما أورد من أن قوله - صلى الله عليه وسلم - «لا صلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس، ولا صلاة بعد الفجر حتى تطلع الشمس» رواه الشيخان يعم النفل وغيره: وجوابه أن النهي هنا لا لنقصان في الوقت بل ليصير الوقت كالمشغول بالفرض فلم يجز النفل، ولا ما ألحق به مما ثبت وجوبه بعارض بعد ما كان نفلا دون الفرائض. وما في معناها، بخلاف النهي عن الأوقات الثلاثة فإنه لمعنى في الوقت وهو كونه منسوبا للشيطان فيؤثر في الفرائض والنوافل، وتمامه في شروع الهداية. (قوله: حتى لو نوى إلخ) تفريع على ما ذكره من التعليل: أي وإذا كان المقصود كون الوقت مشغولا بالفرض تقديرا وسنته تابعة له، فإذا تطوع انصرف تطوعه إلى سنته لئلا يكون آتيا بالمنهي عنه فتأمل. (قوله: بلا تعيين) لأن الصحيح المعتمد عدم اشتراطه في السنن الرواتب، وأنها تصح بنية النفل وبمطلق النية، فلو تهجد بركعتين يظن بقاء الليل فتبين أنهما بعد الفجر كانتا عن السنة على الصحيح فلا يصليها بعده للكراهة أشباه. (شامی، کتاب الصلوۃ 1/376)
قال فی العلائیہ وکذا لایأتی فی رکوعہ وسجودہ بغیر التسبیح علی المذہب وماورد محمول علی النفل قال ابن عابدین رحمہ اللہ تعالٰی (قولہ محمول علی النفل) ای تھجدًا (اوغیرہ، خزائن، وکتب فی ھامشہ فیہ رد علی الزیلعی حیث خصہ بالتھجد ۱ھ\x0640 ثم الحمل المذکور صرح بہ المشائخ فی الوارد فی الرکوع والسجود وصرح بہ فی الحلیۃ فی الوارد فی القومۃ والجلسۃ وقال علی انہ ان ثبت فی المکتوبۃ فلیکن فی حالۃ الانفراد اوالجماعۃ والمأمون محصوروں لایتثعلون بذلک کما نص علیہ الشافیعۃ ولاضرر فی التزامہ وان لم یصرح بہ مشایخنا فان القواعد الشرعیۃ لاتنبوعنہ کیف والصلٰوۃ والتسبیح والتکبیر والقرأۃ کما ثبت فی السنۃ اھ\0640۔ (شامی، فروع قرا بالفارسیۃ او التوراۃ او الانجیل 1/505)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1843/43-1662
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بیوی کے انتقال کے وقت جو کچھ اس کی ملکیت میں تھا نقد یا ادھار، سب میں وراثت جاری ہوگی۔ شوہر پر لازم ہے کہ مہر کی رقم بیوی کے ترکہ میں شامل کرے۔ بیوی کے کل مال بشمول مالِ مہر کو 15 حصوں میں تقسیم کریں گے جن میں سے تین حصے مرحومہ کے شوہر کو، چار چار حصے ہر ایک بیٹی کو، دو دو حصے والدین میں سے ہر ایک کو ملیں گے۔ تقسیم کے بعد والدین اپنا حصہ جس کو چاہیں دیدیں یا مسجد ومدرسہ میں صدقہ کردیں، یہ ان کی صوابدید پر ہے۔ اگر موروثین میں سے کوئی کمزورہے تو اس کی مدد کرنا زیادہ بہتر ہے۔
مسئلہ کی تخریج حسب ذیل ہے: مسئلہ ۱۲ ۱۵
زوج ----- بنت ----- بنت ------ اب -------- ام
۳ ------ ۴ ------ ۴ ------ ۲ ------ ۲
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1924/43-1834
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر ڈالر سے سامان خریدا گیا اور جس شخص کے لئے وہ سامان آپ نے خریدا وہ آپ کو بدلے میں ڈالر سے ہی ادائیگی کرے تب تو کمی و زیادتی جائز نہیں ہے، چاہے ڈالر کی ویلیو گھٹ جائے یا بڑھ جائے۔ البتہ دوسری کرنسی دینے کی صورت میں ادائیگی کے وقت ڈالر کی جو قیمت بازار میں ہوگی ، وہی قیمت معتبر ہوگی۔ اس لئے ادائیگی کے دن کی قیمت کا اعتبار کرتے ہوئے آپ ان سے پاکستانی کرنسی لے سکتے ہیں۔
سئل) في رجل استقرض من آخر مبلغاً من الدراهم وتصرف بها ثم غلا سعرها فهل عليه رد مثلها؟ (الجواب) : نعم ولاينظر إلى غلاء الدراهم ورخصها كما صرح به في المنح في فصل القرض مستمداً من مجمع الفتاوى". (العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (1/ 279) وفیه أیضاً (2/ 227):" الديون تقضى بأمثالها".
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حج و عمرہ
Ref. No. 1968/44-2265
بسم اللہ الرحمن الرحیم: عرفات کے میدان میں ہونا کسی بھی طرح پایا جائے وہ حج کے لئے کافی ہوگا۔لیکن اگر جہاز پر سوار ہوکر عرفات کے حدود سے گزرے گا تو وقوف عرفہ متحقق نہیں ہوگا۔کیونکہ اس میں زمین سے کسی طرح کا تعلق نہیں ہے کہ جس کو وقوف عرفہ کے قائم مقام قرار دیاجائے۔
الوقوف (ليست بشرط ولا واجب فلو كان جالسا جاز حجه و) ذلك لأن (الشرط الكينونة فيه) فصح وقوف مجتاز وهارب وطالب غريم ونائم ومجنون وسكران۔۔۔ قال ابن عابدین: والمراد بالكينونة الحصول فيه على أي وجه كان ولو نائما أو جاهلا بكونه عرفة أو غير صاح أو مكرها أو جنبا أو مارا مسرعا (قوله مجتاز) أي مار غير واقف (الدرالمختار مع رد المحتار ، فصل فی الاحرام وصفۃ المفرد 2/506 سعید)
(ومن اجتاز بعرفات نائما أو مغمى عليه أو لا يعلم أنها عرفات جاز عن الوقوف) لأن ما هو الركن قد وجد وهو الوقوف (فتح القدیر للکمال ابن الھمام 2/510)
(کنزالدقائق،
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
اسلامی عقائد
Ref. No. 2418/45-3683
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اللہ تعالی ہر چیزپر قادر ہیں، کوئی بھی چیز اور کوئی بھی کام اللہ کی قدرت سے باہر نہیں ہے۔ تاہم کسی کام پر قادر ہونا، اور کسی کام کو بالفعل کرنا دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔ اللہ تعالی جنتی کو جہنم میں اور جہنمی کو جنت میں ڈالنے پر مکمل قادر ہے اس کو کوئی روکنے یا ٹوکنے والا ہرگز نہیں ہے، البتہ اللہ تعالی کا یہ وعدہ ہے کہ بے ایمان کو ہرگز جنت میں داخل نہیں کریں گے، اور یہ بھی فرمادیا کہ اللہ تعالی وعدہ خلافی نہیں کرتے۔ اس لئے اللہ تعالی قدرت کے باوجود کسی بےایمان شخص کو جنت میں کبھی بھی داخل نہیں فرمائیں گے۔ البتہ ایمان والوں کے ساتھ معاملہ مختلف ہوگا، جس کو چاہیں سزا کے بعد جنت میں داخل کریں اور جس کو چاہیں بغیر کسی سزا کے جنت میں داخل کردیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:درود شریف، گیارھویں، بارھویں اولیا کرام کے مزارات پر سجدہ کرنا نماز جنازہ کے بعد فاتحہ دعاء، تیجہ، چالیسواں، دعاء بعد جنازہ مخصوص اوقات میں، مخصوص طریقہ پر زیارت قبور فرقہ رضاخانیت کے مروجہ امور ہیں، شریعت اسلامیہ میںان کا کوئی ثبوت نہیں؛ لہٰذا ان مروجہ طریقوں پر، ان امور کو انجام دینا، بدعت وخلاف شریعت ہے۔ تفصیل کے لئے ’’اصلاح الرسوم‘‘ حضرت تھانوی، ’’فاتحہ کا صحیح طریقہ‘‘، ’’رضاخانیت کا تنقیدی جائزہ‘‘، ’’اعلی حضرت کا دین‘‘، ’’مسئلہ ایصالِ ثواب‘‘ وغیرہ اکابر دیوبند کی کتابوں کا مطالعہ کریں۔(۱)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم (من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو ردٌّ) متفق علیہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۷، رقم: ۱۴۰)
من تعبد للّٰہ تعالیٰ بشيء من ہذہ العبادات الواقعۃ في غیر أزمانہا، فقد تعبد ببدعۃ حقیقۃ لا إضافیۃ فلاجہۃ لہا إلی المشروع، بل غلبت علیہا جہۃ الإبتداع، فلا ثواب فیہا۔ (أبو اسحاق الشاطبي، الاعتصام، ’’فصل البدع الإضافیۃ ہل یعتد بہا عبادات‘‘: ج ۲، ص: ۲۶)
وشر الأمور محدثاتہا، وکل بدعۃ ضلالۃ۔ وفي روایۃ: وشر الأمور محدثاتہا، وکل محدثۃ بدعۃ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ: ج ۲۳، ص: ۲۴۱، رقم: ۱۴۹۸۳)
ویکرہ عند القبر ما لم یعہد من السنۃ والمعہود منہا لیس إلا زیارۃ والدعاء عندہ قائماً، کذا في البحر الرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند،الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الحادي والعشرون، في الجنائز، الفصل السادس: في القبر والدفن والنقل من مکان إلیٰ آخر‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۷)
ولا یمسح القبر ولا یقبلہ ولا یمسہ فإن ذلک من عادۃ النصاریٰ، کذا في شرح الشرعۃ۔ (أحمد بن محمد الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، فصل في زیارۃ القبور‘‘: ج ۱، ص: ۶۲۱)
لا یجوز ما یفعلہ الجہال بقبور الأولیاء والشہداء من السجود والطواف حولہا واتخاذ السرج والمساجد علیہا ومن الاجتماع بعد الحول کالأعیاد ویسمونہ عرساً۔ (المظہري، التفسیر المظہري، ’’سورۃ آل عمران: ۶۴‘‘: ج ۲، ص: ۶۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص538
فقہ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسے جاہل کو جس کو صحیح مسائل یاد نہ ہوں، مسئلہ نہ بتلانا چاہئے، بلکہ علماء اور مفتیان سے رجوع کرنا چاہئے ورنہ تو وہ شخص گنہگار ہوگا، جس سے پرہیز لازم ہے۔(۱)
(۱) عن عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول إن اللّٰہ لایقبض العلم انتزاعاً ینتزعہ من العباد ولکن بقبض العلم یقبض العلماء حتی إذا لم یبق عالماً اتخذ الناس رؤساً جہالا فسئلوا فأفتوا بغیر علم فضلوا وأضلوا، متفق علیہ۔ (مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب العلم: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳، رقم: ۲۰۶)
وحدثني أبو الطاہر أحمد بن عمرو بن عبد اللّٰہ بن عمرو بن سرح قال: أنا ابن وہب قال: قال لي مالک رحمہ اللّٰہ: إعلم أنہ لیس یَسلَم رجل حدّث بکل ما سمع ولا یکون إماماً أبداً وہو یحدث بکل ما سمع۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’المقدمۃ، باب النہي عن الحدیث بکل ما سمع‘‘: ج ۱، ص: ۹، رقم: ۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص157