روزہ و رمضان

Ref. No. 37/1147

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: تراویح کے لئے پیسے جمع کرنا درست نہیں ہے، ہر آدمی اپنی حیثیت کے بقدر امام صاحب کو دیدے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔   واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Eating & Drinking

Ref. No. 1213/42-516

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Being Halal or Haram according to shariah is a matter of concern for Muslims as they themselves are obliged to obey shariah rules and regulations. And the Hindus and non-believers are not bound by subsidiaries of Shariah. So, for non-Muslims, all their earnings will be considered as halal. Therefore, if they gift something to a Muslim, there is nothing wrong taking it. However, extra precaution should be taken in food as it should not be mixed with anything impure (Najas) and should not be offered to any deity.

ولو اھدی لمسلم ولم یرد تعظیم الیوم  بل جری علی عادۃ الناس لایکفر وینبغی ان یفعلہ قبلہ اور بعدہ نفیا للشبھۃ۔ 6/754)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1335/42-722

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح کی شرط بھی مقتضائے عقد کے خلاف ہے۔ اگر کسی وقت بالکل فائدہ نہ ہوا تو کام کرنے والا پندرہ فیصد فائدہ آپ کو کہاں سے دے گا۔ کوئی بھی متعین فائدہ خاص کرلینا مضاربت میں درست نہیں ہے۔

(وكون الربح بينهما شائعا) فلو عين قدرا فسدت (وكون نصيب كل منهما معلوما) عند العقد. ومن شروطها: كون نصيب المضارب من الربح حتى لو شرط له من رأس المال أو منه ومن الربح فسدت، وفي الجلالية كل شرط يوجب جهالة في الربح أو يقطع الشركة فيه يفسدها، وإلا بطل الشرط وصح العقد اعتبارا بالوكالة۔ (شامی، کتاب المضاربۃ 5/648)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1565/43-1086

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔یہ مسئلہ دونوں صورتوں میں ہے کہ نماز ہوجاتی ہے، تاہم اگر نماز سے پہلے معلوم ہوجائے تومعفو عنہ مقدار  نجاست کے ساتھ پڑھنا مکروہ ہے۔ اور اگر کسی کو خبر ہی نہیں ہوئی اور نماز کے بعد معلوم ہوا کہ  اس قدر نجاست لگی تھی تو کراہت نہیں آئے گی۔ بہر حال نماز سے قبل شرائط نماز پر ایک بار توجہ کرلینی چاہئے تاکہ ایسی غلطی نہ ہو۔

"قلت: فَإِن أصَاب يَده بَوْل أَو دم أَو عذرة أَو خمر هَل ينْقض ذَلِك وضوءه؟ قَالَ: لَا وَلَكِن يغسل ذَلِك الْمَكَان الَّذِي أَصَابَهُ. قلت: فَإِن صلى بِهِ وَلم يغسلهُ؟ قَالَ: إِن كَانَ أَكثر من قدر الدِّرْهَم غسله وَأعَاد الصَّلَاة وَإِن كَانَ قدر الدِّرْهَم أَو أقل من قدر الدِّرْهَم لم يعد الصَّلَاة". (المبسوط للسرخسی 1/60)

(وعفا) الشارع (عن قدر درہم) وإن کرہ تحریما، فیجب غسلہ، وما دونہ تنزیہا فیسن، وفوقہ مبطلُ فیفرض والصلاة مکروہة مع ما لا یمنع، حتی قیل لو علم قلیل النجاسة علیہ فی الصلاة یرفضہا ما لم یخف فوت الوقت أو الجماعة(شامی، زکریا 1/520)

   واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1645/43-1318

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تمباکو وغیرہ کی تجارت  کو علماء نے جائز قرار دیاہے، اس لئے  اس کی تجارت  جائز ہے اور  اس کی آمدنی اور نفع   حلال ہے، تاہم یہ کوئی  اچھا کاروبار نہیں ہے، کوئی مناسب اور غیرمشکوک کاروبار تلاش کرنا چاہئے۔

(وصح بيع غير الخمر) مما مر، ومفاده صحة بيع الحشيشة والأفيون. (شامی، کتاب الاشربۃ 6/454)

قلت التوفيق بينهما ممكن بما نقله شيخنا عن القهستاني آخر كتاب الأشربة ونصه أن البنج أحد نوعي القت حرام؛ لأنه يزيل العقل وعليه الفتوى بخلاف نوع آخر منه، فإنه مباح كالأفريت؛ لأنه وإن اختل العقل لكنه لا يزيل وعليه يحمل ما في الهداية وغيرها من إباحة البنج كما في شرح اللباب (البحرالرائق، انکرالزانی الاحصان 5/30)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2173/44-2289

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسافر پر جمعہ واجب نہیں ہے، آپ اپنی سہولت کے اعتبار سے ٹکٹ بنواسکتے ہیں۔ آپ کا مقصد سفر کی ضرورت کو پورا کرنا ہے، آپ کا ارادہ ہرگز نمار جمعہ کی توہین نہیں ہے، اس لئے اگر نماز جمعہ کے وقت آپ مسافر ہیں تو ظہر کی نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔  اور آپ پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔  البتہ اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ زوال کے بعد سفر شروع کرنے سے احتراز کیا جائے الا یہ کہ شدید مجبوری ہو کہ ٹرین کا ٹائم وہی ہو، تو زوال کے بعد بھی سفر شروع کیا جاسکتاہے۔

سنن ابی داؤد: (باب متی یتم المسافر، رقم الحدیث: 1229)
"
عن عمران بن حصین -رضي اﷲ عنہ- قال: غزوت مع رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم، وشہدت معہ الفتح، فأقام بمکۃ ثماني عشرۃ لیلۃ لا یصلي إلا رکعتین یقول: یا أہل البلد! صلوا أربعا، فإنا قوم سفر". مسند أحمد بن حنبل: (رقم الحدیث: 20105- 20119)
بدائع الصنائع: (فصل في بیان شرائط الجمعۃ، 262/1، ط: سعید)
"
ولنا ما روي عن النبي صلی اﷲ علیہ وسلم أنہ صلی الجمعۃ بالناس عام فتح مکۃ وکان مسافرا".
رد المحتار: (کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، 155/2)
"
الظهر لهم رخصة فدل علی ان الجمعة عزيمة وهي افضل
..."

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وبا اللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں میلاد کی منت درست نہیں؛ اس لئے اس منت کا پورا کرنا زید پر ضروری نہیں بلکہ اگر زید نے مروجہ طریقہ پر میلاد کرایا تو مرتکب بدعت ہوگا۔ اس سے پرہیز اولیٰ ہے؛ البتہ علماء وصلحاء سے وعظ کہلوانا اور نعت پڑھوانا اس میں اجر و ثواب ہے اس میں بھی مٹھائی وغیرہ کا رواجی انتظام نہ کیا جائے تاکہ جو حضرات اس میں شریک ہوں وہ اخلاص کے ساتھ اللہ کے لئے شریک ہوں مٹھائی یا کسی قسم کے کھانے کا لالچ نہ ہو اس سے ثواب ختم ہوجائے گا۔ (۱)

(۱) لا یلزم النذر إلا إذا کان طاعۃ ولیس بواجب وکان من جنسہ واجب … علی التعیین فلا یصح النذر بالمعاصي ولا بالواجبات إلخ۔ (ابن نجیم، الأشباہ والنظائر، ’’کتاب الصوم: الفن الثاني‘‘: ج ۲، ص: ۷۱)
واعلم أنہم صرحوا بأن شرط لزوم النذر ثلاثۃ کون المنذور لیس بمعصیۃ وکونہ من جنسہ واجب إلخ۔ (ابن نجیم البحر الرائق، ’’کتاب الصوم: فصل ومن نذر صوم یوم النحر‘‘: ج ۲، ص: ۵۱۴)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص336

 

حج و عمرہ

Ref. No. 2416/45-3669

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  احرام باندھتے وقت حج یا عمرہ کی نیت کرنے کے بعد تلبیہ یا اس کے قائم مقام کوئی ذکر پڑھنا  فرض ہے، اس کے بغیر آدمی محرم نہیں ہوگا البتہ اگر احرام باندھتے وقت تلبیہ پڑھنا بھول گیا لیکن میقات میں داخل ہونے سے پہلے تلبیہ یا اس کے قائم مقام کلمہ پڑھ لیا تو اس کا احرام درست ہوگیا۔ صورت مذکورہ میں عمرہ کا احرام باندھنے کے وقت آپ نے تلبیہ پڑھا ہے اور میقات سے گزرتے وقت آپ کا احرام صحیح تھا، اس لئے آپ کا عمرہ صحیح ہوگیا، پھر آٹھ ذی الحجہ کو آپ نے  مکہ میں حج کا احرام باندھا اور تلبیہ کے مخصوص کلمات نہیں پڑھے، لیکن ظاہر ہے آپ نے احرام کے بعد کوئی نہ کوئی ذکر سبحان اللہ ،الحمد للہ، لاالہ الا اللہ وغیرہ عربی یا اردو میں کیا ہوگا، اگرچہ احرام باندھنے کے متصلا بعد نہ کیاہو، تو صورت مذکورہ میں آپ کا احرام درست ہوگیا، اور اس طرح حج بھی درست ہوگیا، ہاں اگر تلبیہ کے قائم مقام ذکر تاخیر سے پڑھا ہو، احرام سے متصلا بعد نہ پڑھا ہو تو یہ مکروہ ہے مگر موجب دم نہیں ہے۔  (2)  گیارہویں اور بارہویں ذی الحجہ میں رمی جمرات کا وقت زوال سے شروع ہوتاہے، زوال سے پہلے رمی صحیح نہیں ہوتی ہے، لہذا بارہویں ذہ الحجہ کی رمی زوال سے پہلے کرلینے کی صورت میں صبح صادق سے پہلے  اس رمی کا اعادہ کرنا ضروری ہے اور اعادہ نہ کرنے کی صورت میں  دم واجب ہے۔ (انوار مناسک ص487)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:درست بات یہ ہے کہ آندھی، طوفان، زلزلہ یا دیگر آفات سماویہ پر اذان دینا سنت سے ثابت نہیں ہے؛ لہٰذا اگر یہ عمل سنت یا حکم شرعی سمجھ کر کرتے ہیں، تو غلط ہے؛ لیکن اگر لوگ محض غموں کو دور کرنے کے لیے اذان دیتے ہیں تاکہ لوگوں کو جمع خاطر نصیب ہو، تو یہ ایک مستحب عمل ہے علامہ شامی نے مواقع اذان میں کتب شافعیہ کے حوالے سے اسے سنت کہا ہے:
’’قالوا یسن للمہموم أن یأمر غیرہ أن یؤذن في أذنہ فإنہ یزیل الہم‘‘(۱) اسی طرح اذان کے علاوہ بعض دعاء حدیث سے ثابت ہے ’’اللہم إني أسئلک خیرہا وخیرما فیہا وخیر ما أرسلت بہ وأعوذ بک من شرہا وشرما فیہا وشرما أرسلت بہ، اللہم اجعلہا ریاحاً ولا تجعلہا ریحا اللہم اجعلہا رحمۃ ولا تجعلہا عذاباً ارحمني یا ارحم الراحیم‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب: في المواضع التي یندب لہا الأذان في غیر الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۔
(۱)علامہ محمد بن محمد جزري شافعيؒ، حصن حصین: ص: ۱۵۹۔…

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص364

طلاق و تفریق

Ref. No. 2678/45-4139

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں کسی  معتبر شرعی دارالقضاء سے رجوع کیاجائے،  اورپوری صورت حال بیان  کرنے کے بعد قاضی شرعی  جو فیصلہ کرے اس کے مطابق عمل کیاجائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند