Frequently Asked Questions
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 41/1013
In the name of Allah the most gracious the most merciful
The answer to your question is as follows:
The hadith mentioned ‘fourteen thousand years’ instead of ‘forty thousand years’. The wording “fourteen thousand years” is mentioned in the book of Hazrat Thanvi. This hadith is reported in several books with the reference of Ahkam ibne Qattan, but we found no remark on the status of the above mentioned hadith. ۔ کنت نورا بین یدی ربی عزوجل قبل ان یخلق باربعۃ عشر الف عام نقلہ العجلونی فی الخفاء عن العلقمی عن علی بن الحسین عن ابیہ عن جدہ مرفوعا فی ھذا الاسناد علی وابنہ صحابیان وسبطہ علی بن الحسین الملقب بزین العابدین تابعی واوردہ القسطلانی فی باب اول المخلوقات عن مرزوق عن علی بن الحسین عن ابیہ عن جدہ۔ (فرحۃ اللبیب بتخریج احادیث نشرالطیب ص 69)۔
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 901/41-13B
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ چیٹنگ کرتے ہوئے شہوت کی وجہ سے جو پانی نکلتا ہے اس کو مذی کہتے ہیں، اس سے صرف وضو واجب ہوتا ہے ، اس میں غسل کی ضرورت نہیں۔
(وليس في المذي والودي غسل وفيهما الوضوء) (فتح القدیر 1/67) وليس في المذي والودي غسل وفيهما الوضوء " لقوله عليه الصلاة والسلام: " كل فحل يمذي وفيه الوضوء " (الھدایۃ 1/20)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1215/42-522
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کمیشن پر چندہ کرنے کو مفتیان کرام نے ممنوع لکھا ہے ، ہاں خرچ و انعام درست ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1341/42-717
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح صرف تین پتھر ہاتھ میں دیدینے سے اور صرف یہ کہنے سے کہ تم گھر چلی جاؤ، اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی جبکہ شوہر کا بیان ہے کہ میں نے طلاق کی نیت نہیں کی تھی۔
قَوْلُهُ: وَرُكْنُهُ لَفْظٌ مَخْصُوصٌ: هُوَ مَا جُعِلَ دَلَالَةً عَلَى مَعْنَى الطَّلَاقِ مِنْ صَرِيحٍ أَوْ كِنَايَةٍ فَخَرَجَ الْفُسُوخُ عَلَى مَا مَرَّ، وَأَرَادَ اللَّفْظَ وَلَوْ حُكْمًا لِيُدْخِلَ الْكِتَابَةَ الْمُسْتَبِينَةَ وَإِشَارَةَ الْأَخْرَسِ وَالْإِشَارَةَ إلَى الْعَدَدِ بِالْأَصَابِعِ فِي قَوْلِهِ: أَنْتِ طَالِقٌ هَكَذَا، كَمَا سَيَأْتِي. وَبِهِ ظَهَرَ أَنَّ مَنْ تَشَاجَرَ مَعَ زَوْجَتِهِ فَأَعْطَاهَا ثَلَاثَةَ أَحْجَارٍ يَنْوِي الطَّلَاقَ وَلَمْ يَذْكُرْ لَفْظًا لَا صَرِيحًا وَلَا كِنَايَةً لَايَقَعُ عَلَيْهِ، كَمَا أَفْتَى بِهِ الْخَيْرُ الرَّمْلِيُّ وَغَيْرُهُ". ( فتاوی شامی، کتاب الطلاق، رُكْن الطَّلَاق،3/230)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1470/42-952
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وباللہ التوفیق:۔(1)فرض نماز کی پہلی دو رکعتوں میں قرأت واجب ہے اور آخر کی دو رکعتوں میں سنت ہے،پہلی رکعت میں اگر ثنا کی جگہ پر التحیات پڑھ لی تو تشہد ثنا کے قائم مقام ہو جائے گااس لئے اس سے سجدہ سہووا جب نہیں ہوگا۔البتہ دوسری رکعت میں بلا تاخیر قرأت واجب ہے اس لئے اگر دوسری رکعت میں فاتحہ سے قبل تشہد پڑھ لیا تو واجب میں تاخیر ہوئی جس کی وجہ سے سجدہ سہو واجب ہوگا،علاوہ ازیں تیسری اور چوتھی رکعت میں چونکہ قرأت سنت ہے اس لئے اگر تیسری اور چوتھی رکعت کے شروع میں تشہد پڑھ لیا تو کسی واجب میں تاخیر کا سبب نہیں بنا اس لئے اس صوت میں سجده سہو واجب نہیں ہوگا۔
(2)دوسرے مسئلہ کی جو تفصیل آپ نے لکھی ہے وہ درست نہیں ہے، بلکہ مذکورہ صورت میں تفصیل یہ ہے کہ مسبوق امام کے ساتھ سجدہ سہو اور تشہد میں شریک ہوگا ، سلام میں امام کی متابعت نہیں کرے گا۔ اگر مسبوق نے امام کے ساتھ جان بوجھ کر سلام پھیرا تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی۔ اور بناء نہیں کرسکے گا، لیکن اگر بھول کر امام کے ساتھ سہو کا سلام پھیردیا تو اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی اوراس پر سجدہ سہو بھی لازم نہیں ہوگا، کیونکہ امام ابھی نماز میں ہے اور مسبوق نے امام کی اقتداء میں سہوا سلام پھیرا ہے۔ اور مقتدی جب تک امام کی اقتداء میں ہو اس کا سہو غیر معتبر ہے۔
ان قرأ التشہد فی قیام الاولی قبل الفاتحۃ أو فی الثانیۃ بعد السورۃ أو فی الأخر يین مطلقاً لا سہو علیہ وان قرأفی الاولیین بعد الفاتحۃ والسورۃ او فی الثانیۃ قبل الفاتحۃ وجب علیہ السہو لانہ اخر واجباً(حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی ص:۱۶۴،باب سجود السہو،الھندیہ ص:۷۲۱،ج:)وان قرأ الفاتحۃ مکان التشہد فعلیہ السہو دکذلک اذا قرأالفاتحۃ ثم التشہد کان علیہ السہو (الھندیۃ ص:۲۷۱،ج1) (کبیری ص397)
المسبوق إنما يتابع الإمام في السهو دون السلام، بل ينتظر الإمام حتى يسلم فيسجد فيتابعه في سجود السهو لا في سلامه. وإن سلم فإن كان عامدا تفسد صلاته، وإن كان ساهيا لا تفسد، ولا سهو عليه؛ لأنه مقتد، وسهو المقتدي باطل، فإذا سجد الإمام للسهو يتابعه في السجود ويتابعه في التشهد، ولا يسلم إذا سلم الإمام؛ لأن هذا السلام للخروج عن الصلاة وقد بقي عليه أركان الصلاة فإذا سلم مع الإمام فإن كان ذاكرا لما عليه من القضاء فسدت صلاته؛ لأنه سلام عمد، وإن لم يكن ذاكرا له لا تفسد؛ لأنه سلام سهو فلم يخرجه عن الصلاة (علاء الدین الکاسانی، بدائع الصنائع، فصل بیان من یجب علیہ سجود السھو و من لا، 1/176)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اعتکاف
Ref. No. 1852/43-1677
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شہر کی ہر مسجد میں جمعہ قائم کرنا ضروری نہیں ہے، جمعہ جامع مسجد میں قائم کرنا چاہئے، اور شہر کے لوگوں کو جامع مسجد کا رخ کرنا چاہئے تاکہ اجتماعیت کا ظہور ہو۔
اگر کسی نے ایسی مسجد میں اعتکاف کیا جہاں جمعہ کی نماز نہیں ہوتی ہے تو اس کے شہر میں ہونے کی وجہ سے اس پر جمعہ فرض ہے، اس لئے ایسی مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھنے کے لئے نکلنا ضروری ہے جہاں جمعہ کی نماز ہوتی ہو۔ جمعہ کی شرائط پائی جانے کے باوجود چونکہ جمعہ ہر مسجد میں قائم کرنا ضروری نہیں ہے،۔ اس لئے جب تک جمعہ اس مسجدِ معتکَف میں قائم نہ ہوگا، اس کے لئے دوسری مسجد کا رخ کرنا ضروری ہوگا۔ اور اس سے اعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔
وحرم عليه) ... (الخروج إلا لحاجة الإنسان) طبيعية كبول وغائط وغسل لو احتلم ولايمكنه الاغتسال في المسجد، كذا في النهر (أو) شرعية كعيد وأذان لو مؤذناً وباب المنارة خارج المسجد و (الجمعة وقت الزوال ومن بعد منزله) أي معتكفه (خرج في وقت يدركها) مع سنتها يحكم في ذلك رأيه، ويستن بعدها أربعاً أو ستاً على الخلاف، ولو مكث أكثر لم يفسد؛ لأنه محل له وكره تنزيهاً؛ لمخالفة ما التزمه بلا ضرورة" (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 444)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان عالی میں مذکورہ جملہ بولنا رسول خدا کی توہین کرنا ہے اوراہانت رسول کفر ہے بس ایسا جملہ بولنے والا شرعاً کافر ہوجاتا ہے۔ اس کو چاہئے کہ ایمان قبول کرے اور ہمیشہ ہمیشہ توبہ و استغفار کرتا رہے اورمولانا اسماعیل شہید ؒ کی کتاب میں یا کسی تحریر میں ایسا جملہ نہیں ہے جو شخص ان کی طرف ایسی باتوں کو منسوب کرتا ہے وہ بہتان طراز اور گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے۔(۱)
۱) {إِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَیَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ یُّقَتَّلُوْٓا أَوْ یُصَلَّبُوْٓا أَوْ تُقَطَّعَ أَیْدِیْہِمْ وَأَرْجُلُھُمْ مِّنْ خِلَافٍ أَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِط ذٰلِکَ لَھُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْیَا وَلَھُمْ فِي الْأٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْم’‘ ہلا ۳۳ إِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ أَنْ تَقْدِرُوْا عَلَیْھِمْ ج فَاعْلَمُوْٓا أَنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ہع ۳۴} (سورۃ المائدہ: ۳۳، ۳۴)
والحاصل أن من تکلم بکلمۃ الکفر ہازلاً أو لا عباً کفر عند الکل۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب السیر: باب أحکام المرتدین‘‘: ج ۵، ص: ۲۱۰)
وقال مع ذلک: إن الأنبیاء -علیہم السلام- عصواً فکافر، … ولو قال: ’’محمد در ویشک بود‘‘ أو قال: ’’جامد پیغمبر ربماک بود‘‘ أو قال: قد کان طویل الظفر، فقد قیل: یکفر مطلقاً، وقد قیل یکفر إذا قال علی وجہ الإہانۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص220
مساجد و مدارس
Ref. No. 2371/44-3575
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سڑکیں سرکار کی ہوتی ہیں، اس میں سرکار کی اجازت کے بغیر کسی طرح کا تصرف جائز نہیں ہے۔اس لئے مسجد والوں کو اس کا خیال رکھنا چاہئے تھا۔ لیکن اب جبکہ بورنگ ہوچکی ہے بہتر ہوگا کہ سرکاری طور پر اجازت لے لی جائے اور رسید کٹوالی جائے، تاہم اس پانی سے وضو اور نماز میں کوئی حرج نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:فتوی کے ذریعہ قرآن وحدیث کا حکم بتلایا جاتا ہے، فتوی دینے والا در اصل اللہ تعالیٰ کا حکم بتلاتا ہے، دارالافتاء فتوی دیتا ہے ماننے پر مجبور نہیں کرتا، اس کا ماننا اور اس پر عمل کرنا ایک مسلمان کا دینی فریضہ ہوتا ہے، اس سے انکار کرنابے جا جرأت اوربے دینی کا عمل ہے، ہاں اگر فتوی میں کوئی بات سمجھ میں نہ آئے یاقابل اشکال ہو، تو اس کو دوبارہ معلوم کیا جاسکتا ہے۔ (۱)
(۱) رجل عرض علیہ خصمہ فتوی الأئمۃ فردہا وقال: ’’چہ بار نامہ فتوی آوردہ‘‘ قیل یکفر لأنہ رد حکم الشرع وکذا لو لم یقل شیئاً لکن ألقی الفتویٰ علی الأرض وقال: ’’ایں چہ شرع است‘‘ کفر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفرأنواع، ومنہا: ما یتعلق بالعلم والعلماء‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۳)
الہازل أو المستہزئ إذا تکلم استخفافاً واستہزاء ومزاحاً یکون کفراً عند الکل، وإن کا اعتقادہ خلاف ذلک۔ (أیضا: ’’ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص158