طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حیض کی اصل مدت تین دن تین رات ہے، دو روز خون آکر موقوف ہو گیا، پھر ایک روز آکر بند ہو گیا، یہ حیض نہیں استحاضہ ہے(۱) لہٰذا عورت کو جب تک باقاعدہ تین مرتبہ حیض نہ آجائے، عدت ختم نہ ہو گی(۲) اور دوسرے سے نکاح بھی درست نہ ہوگا؛ البتہ عورت کا آئسہ ہونا متحقق ہو جائے تو تین ماہ کے بعد کیا ہوا نکاح درست ہوگا۔(۳)

(۱)أقل الحیض ثلاثۃ أیام و لیالیھا وما نقص من ذلک فھو استحاضۃ۔ (المرغینانی، ہدایہ، ’’کتاب الطہارات، باب الحیض والاستحاضۃ‘‘ ج۱، ص:۶۲، مکتبۃ الاتحاد دیوبند)؛ و عن أبی أمامۃ الباھلي قال: قال رسول اللّٰہ: لایکون الحیض للجاریۃ والثیب التي قد أیست من الحیض اقل من ثلاثۃ أیام ولا أکثر من عشرۃ أیام فھي مستحاضۃ الخ (أخرجہ دار قطني، في سننہ، ’’کتاب الحیض‘‘ ج۱، ص:۳۰۷،رقم:۸۳۳)
(۲)  وَالْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِھِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوٓئٍ الخ۔ (سورۃ البقرہ:۲۲۹)
(۳) وَاللَّائِيْ یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِّسَائِکُمْ إنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُھُنَّ ثَلٰثَۃُ أشْھُرٍ۔ (سورۃ البقرہ، آیت۲۲۹)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص377

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر مذکورہ شیعہ مسجد میں جماعت سے نماز پڑھتا ہے تو اس کی وجہ سے دوسرے نمازیوں کی نماز میںکوئی فرق نہیں آئے گا اگرچہ وہ رفع یدین بھی کرتا ہو؛ کیوں کہ رفع یدین احناف کے نزدیک غیر اولیٰ ہے، اگر وہ مسجد میں قرآن پاک پڑھتا ہے یا وظیفہ پڑھتا ہے، تواس کو منع کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے اور اگر وہ تنہا نماز پڑھتا ہے جب بھی اس کو مسجد میں آنے سے روکنا صحیح نہیںہے اپنے بچوں کی خود تربیت کی جائے۔(۱)

(۱) واختلف الأئمۃ في دخول الکفار المسجد فجوزہ الإمام ابوحنیفۃ رضي اللّٰہ عنہ مطلقاً للآیۃ (ومن اظلم ممن منع الخ) فإنہا تفید دخولہم بخشیۃ وخشوع ولأن وفد ثقیف قدموا علیہ علیہ الصلاۃ والسلام فأنزلہم المسجد ولقولہ علیہ السلام: من دخل دار أبي سفیان فہو آمن ومن دخل الکعبۃ فہو آمن والنھي محمول علی التنزیۃ أو الدخول للحرم بقصد الحج۔ ومنعہ مالک رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ مطلقاً۔ لقولہ تعالیٰ إنما المشکرون نجس۔ (التوبۃ آیۃ: ۲۸)
والمساجد یجب تطہیرہا عن النجاسات ولذا یمنع الجنب عن الدخول وجوزہ لحاجۃ۔ وفرق الإمام الشافعي رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ بین المسجد الحرام وغیرہ وقال الحدیث منسوخ بالآیۃ۔ (آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ البقرۃ: ۱۱۴، ۱۱۶‘‘: ج۱، ص: ۵۷۳، ۵۷۴، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص258

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر جلدی کی وجہ سے ننگے سر یا بے وضو اذان پڑھ دی گئی تو وہ اذان ادا ہوگئی، اعادہ کی ضرورت نہیں ہے؛ البتہ جان بوجھ کر ایسا نہ کرے اور اگر کوئی شخص عادت ہی بنالے کہ ہمیشہ بے وضو اذان دیتا رہے، تو یہ کراہت سے خالی نہیں۔
’’قال: أبوہریرۃ لا ینادي بالصلاۃ إلا متوضئ‘‘ (۲)
’’واختلف أہل العلم فی الأذان علیٰ غیر وضوء فکرہہ بعض أہل العلم وبہ یقول الشافعي وإسحاق، ورخص في ذلک بعض أہل العلم وبہ یقول: سفیان وابن المبارک وأحمد۔
ویکرہ أذان جنب وإقامتہ وإقامۃ محدث لا أذانہ علی المذہب‘‘ (۱)

 

(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ: باب ما جاء في کراہیۃ الأذان بغیر وضوء‘‘: ج ۱، ص: ۵۰، رقم: ۲۰۱، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج ۲، ص: ۶۰، زکریا دیوبند۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص145

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کوئی نمازی عمل کثیر کے ذریعہ سانپ یا بچھو کو قتل کردے تو اس کی نماز باطل ہوجاتی ہے تفصیلات و دلائل کے لیے (امدادالفتاویٰ ج۱، ص ۴۴۱) کا مطالعہ کریں۔(۱)
(۱) لکن صحح الحلبي الفساد حیث قال تبعاً لابن الہمام: فالحق فیما یظہر ہوالفساد، والأمر بالقتل لایستلزم صحۃ الصلاۃ مع وجودہ کما في صلاۃ الخوف، بل الأمر في مثلہ لإباحۃ مباشرتہ وإن کان مفسدا للصلاۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ج۲، ص: ۴۲۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص102

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: ترتیب کے خلاف کرنا مکروہ ہے، لیکن  نماز صحیح ہوگئی، ترتیب اگرچہ واجب ہے، لیکن اس کے ترک کرنے سے سجدۂ سہو واجب نہیں۔(۱)
(۱) قالو: یجب الترتیب في سور القرآن، فلو قرأ منکوسا أثم لکن لایلزمہ سجود السہو، لأن ذلک من واجبات القراء ۃ لامن واجبات الصلاۃ کما ذکرہ في البحر في باب السہو۔ (الحصکفي،  الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۸)
وإذا قرأ في رکعۃ سورۃ، وفي الرکعۃ الأخریٰ أو في تلک الرکعۃ سورۃ فوق تلک السورۃ یکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الرابع‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص220

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: حوادثات اور فتنوں کے وقت صبح کی نماز میں دعاء قنوت احناف کے یہاں بھی جائز ہے۔
’’لما رواہ الإمام أبوحنیفۃ رحمہ اللّٰہ عن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یقنت في الفجر قط إلا شہراً واحدا لم یر قبل ذلک ولا بعدہ وإنما قنت فی ذلک الشہر یدعوا علی أناس من المشرکین وکذا في الصحیحین أنہ علیہ الصلاۃ والسلام قنت شہرا یدعوا علی قوم من العرب ثم ترکہ‘‘(۱)

(۱) ابن نجیم، البحر الرائق: ج ۲، ص: ۴۴۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص328

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بعض فقہاء کہتے ہیں کہ سنت وفرض کے درمیان دنیاوی باتیں کرنے سے سنت باطل ہوجاتی ہیں مگر اقویٰ یہ ہے کہ سنت کا بطلان نہیں ہوتا البتہ ثواب کم ہوجاتا ہے۔(۱)

(۱) یکرہ تاخیر السنۃ إلا بقدر اللّٰہم أنت السلام الخ۔ قال الحلواني: لا بأس بالفصل بالأوراد، واختارہ  الکمال۔ قال الحلبي: إن أرید بالکراھۃ التنزیھیۃ ارتفع الخلاف۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۶،۲۴۷)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص438

Masajid & Madaris

Ref. No. 912/41-48B

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Yes, the salah offered leaving two or more rows or in varanda inside the masjid will be valid.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom waqf Deoband

اسلامی عقائد

Ref. No. 1219/42-000

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   قبرستان میں موجود درختوں  کو اگر کسی خاص مصرف کے لئے وقف نہ کیا گیا ہو تو ان  کو بیچ کر ان کی  رقم مسجد میں لگائی جاسکتی ہے۔  البتہ درختوں کو کاٹتے ہوئے قبروں کی حرمت کا پورا خیال رکھاجائے۔

سئل نجم الدین فی مقبرۃٍ فیھا اشجار ھل یجوز صرفھا الی عمارۃ المسجد قال نعم ان لم تکن وقفاً علی وجہ آخر۔ (الھندیۃ 4/476)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

Ref. No. 1342/42-732

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ذکر کا مذکورہ طریقہ اکابرو اسلاف سے ثابت نہیں ہے، ذکرجہری متبع سنت و شیخ کی رہبری ورہنمائی میں درست ہے، کہ اس کا مقصد خدا کا قرب حاصل کرنا  ہے۔ بلا ومصیبت کے وقت یا دوکان ومکان کے افتتاح کے وقت ذکر کا مذکورہ طریقہ بدعت ہے، اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند