Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 1218/42-524

In the name of Allah the most Grcious the most merciful

The answer to your question is as follows:

It is Mustahab (desirable) to start dua with the praise of Allah and durood and end it with the same. It is sunnah way of supplication. However, ending dua with kalima is not found in authentic books.

أجمع العلماء علی استحباب ابتداء الدعا بالحمد للہ تعالی والثناء علیہ، ثم الصلاة علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، وکذلک تختم الدعا بھما، والآثار في ھذا الباب کثیرة معروفة (الأذکار للنواوي، باب استفتاح الدعا بالحمد للہ تعالی والصلاة علی النبي صلی اللہ علیہ وسلم، ص: ۹۹،ط: مطبعة الملاح، دمشق)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایمان جو کفر کے مقابل ہے اس میں کمی زیادتی نہیں ہوتی؛ کیونکہ کمی کی صورت میں وہ شرعاً ایمان ہی نہیں کہلائے گا۔ اہل علم نے ایمان میں کمی و زیادتی کی جو بحث کی ہے اس کا تعلق اس معنی (ایمان بمقابل کفر) سے نہیں ہے؛ بلکہ ایمان کے تقاضہ کے مطابق

 احکام شرعیہ پر اخلاص کے ساتھ عمل کرنے اور تقویٰ اختیار کرنے کی وجہ سے دل میں جو نور پیدا ہو اور احکام شرعیہ کی اطاعت کرنے سے اعمال صالحہ میں روز بروز جو اضافہ ہوتا ہے اور مخالفت کرنے کی صورت میں جو گناہ کا صدور ہوتا ہے اس کو ایمان میں کمی زیادتی کہا گیا ہے۔ اور یہ صورت حال حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے ایمان میں بھی پائی جاتی ہے۔ اہل علم نے اس کے علاوہ بھی دوسرے معانی بیان کئے ہیں۔

 وذہب جمہور المحققین إلی أن الإیمان ہو التصدیق بالقلب، وإنما الإقرار شرط لإجراء الأحکام في الدنیا لما أن تصدیق القلب أمر باطني لا بد لہ من علامۃ، فمن صدق بقلبہ ولم یقر بلسانہ فہو مؤمن عند اللّٰہ تعالیٰ وإن لم یکن مؤمنا في أحکام الدنیا۔ (أبو حنیفہ -رحمہ اللّٰہ- شرح الفقہ الأکبر، ”بحث في أن الإیمان ہو التصدیق والإقرار“: ص: ۳۴۱)

(أَلَّذِیْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ إِیْمَانًاصلے ق وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ ہ۳۷۱) (سورۃ آل عمران، آیۃ: ۳۷۱)

قالوا: ولا تظہر المغایرۃ بین قول أصحاب الحدیث وبین سائر أہل السنۃ، لأن امتثال الأوامر واجتناب الزواجر من کمال الإیمان إتفاقاً لا من ماہیتہ فالنزاع لفظي لا علی حقیقۃ، وکذلک اختلافہم في نقصان الإیمان وزیادتہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ”کتاب الإیمان: الفصل الأول“: ج ۱، ص: ۶۰۱)

فقہ

Ref. No. 2128/44-2172

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگرعورت  حالت حیض و نفاس میں ہو تو قرآن کریم کی تلاوت ممنوع ہے، البتہ ترجمہ پڑھ سکتی ہے، اس کی تشریح کرسکتی ہے، اور جس کتاب میں قرآن  کریم کی آیات کم ہوں،  اور دیگر عبارات مثلا تفسیر احادیث اور تشریحات زیادہ ہوں ، اس  کتاب کو چھوسکتی ہے تاہم بہتر ہے کہ دستانے پہن کر ایسی کتاب کو چھوئے اور آیات کی تفسیر میں قرآن کی آیت تلاوت نہ کرے۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Hadith & Sunnah

Ref. No. 2252/44-2401

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Many companies have been brought in the past few years, where the profit is given on the wing system. And the referrer gets a commission for adding a member to this company, then as many people join the company by him, all the members in the wing above him get more or less commission. This is also called Network Marketing or Multi Level Marketing.

The aim of the participants in these companies is not to buy the products of the company, but to earn commission and get profit only, as if the purpose is only to receive commission and not to buy goods. According to Shari'ah, it is similar to interest and gambling; putting condition in deal; combining two separate trades into one; And in some cases, " charging an excessive price for a product" etc. These are few reasons for which, participation in it is not permissible.

In the 16th seminar of the Islamic Fiqh Academy of Delhi, scholars have declared it unlawful. So, withdraw your money from the company you have invested in as it’s earnings are not halal.

العِبْرَةُ فِیْ الْعُقُوْدِ لِلْمَقَاصِدِ وَالْمَعَانِیْ لاَ لِلْألْفَاظِ وَالْمَبَانِیْ . (قواعد الفقہ ص:۹۱) ہُوَ کُلُّ لَعِبٍ یُشْتَرَطُ فِیْہِ غَالِبًا أن یَّأخُذَ الْغَالِبُ شَیْئًا مِنَ الْمَغْلُوْبِ وَأصْلُہ أن یَّأخُذَ الْوَاحِدُ مِنْ صَاحِبِہ شَیْئًا فَشَیْئًا فِی اللَّعِبِ“ (ص:۴۳۴) انَّہ تَعْلِیقُ الْمِلْکِ عَلَی الْخَطَرِ وَالْمَالُ فِی الْجَانِبَیْنِ (قواعد الفقہ ص:۴۳۴، فتاوی ابن تیمیہ ۱۹/۲۸۴) المَیْسِرُ... امَّا من الیُسْرِ لأنہ أخذُ المال بِیُسْرٍ وَسُہُوْلَةٍ (روح المعانی: ۲/۱۱۳) الغَرَرُ مَا یَکُوْنُ مَسْتُوْرَ الْعَاقِبَةِ . (المبسوط:۱۲/۱۹۴)

نَہٰی رَسُوْلَ اللّٰہ صلى الله عليه وسلم عَنْ صَفْقَتَیْنِ فِیْ صَفَقَةٍ وَاحِدَةٍ . (مسند احمد حدیث نمبر:۳۷۷۴)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہرجگہ حاضر وناظر ہونا خدا تعالیٰ کی صفت ہے جس میں کوئی مخلوق (خواہ عام انسان ہوں یا انبیاء علیہ السلام ہوں) اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک نہیں ہے۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر جاننا گویا اس صفت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرنا ہے جو جرأت اور جسارت بیجا ہوگی اور بسا اوقات اس سے شرک تک پہونچ سکتا ہے، پس ایسے مسلمانوں کے غلط عقائد سے ہر مسلمان کو پرہیز کرنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے خصوصی اوصاف میں کسی کو شریک کرنے سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔(۱) باقی رہا سلام پڑھنا اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر ناظر جان کر سلام پڑھا جائے، تو مطلقاً جائز نہیں؛ البتہ اس عقیدے کے بغیر اگر پڑھا جائے تو انفرادی اور اجتماعی طور پر درورد شریف پڑھنا جائز ہے اور ثواب کا باعث ہے؛ البتہ اجتماعی ہیئت پر درود شریف پڑھنے کو لازم اور ضروری سمجھنا درست نہیں ہے۔(۲)

(۱) {إِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیْْئٍ شَھِیْدًا ہع۳۳} (سورۃ النساء: ۳۳)

{إِنَّہٗ بِکُلِّ شَیْئٍم بَصِیْرٌہ۱۹} (سورۃ الملک: ۱۹)
{وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُھَآ إِلَّا ھُوَط} (سورۃ الأنعام: ۵۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص220

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شادی کے موقعہ پر گھر میں صفائی کرنا جائز ہے(۱)؛ البتہ فوٹو وغیرمہذب تصاویر باعث گناہ ہے۔(۲)

(۱) النظافۃ من الإیمان۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الاستئذان والأدب، باب ما جاء فی النظافۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۷، رقم: ۲۷۹۹)
(۲) وظاہر الکلام النووي في شرح مسلم الإجماع علی تحریم تصویر الحیوان، وقال: وسواء صنعہ لما یمتہن أو لغیرہ فصنعتہ حرام بکل حال۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’فروع لا بأس بتکلیم المصلی وإجابتہ برأسہ‘‘: ج ۱، ص: ۶۴۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص432

حج و عمرہ

Ref. No. 2546/45-3885

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عمرہ  کے احرام سے پہلے  ایسی خوشبو لگانا جائز ہے جس کا عین باقی نہ رہے، اگر خوشبو کا اثر بعد میں بھی باقی رہے تو اس سے  عمرہ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا،   لیکن اگر ایسی خوشبو لگائی جس کا عین باقی رہے تو یہ ممنوع ہوگا۔   اس لئے  جو پھولوں کا گجرابالوں میں  لگایا گیا اور پھر اس کو عمرہ کی نیت کے وقت  بھی نکالا نہیں گیا توعین خوشبو کا استعمال  حالت احرام  میں پایا گیا جو ممنوع  ہے، اس لئے  دم دینا لازم ہوگا۔

"قال: ولايلبس ثوباً مصبوغاً بورس، ولا زعفران، ولا عصفر؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: «لايلبس المحرم ثوباً مسه زعفران، ولا ورس إلا أن يكون غسيلاً". البناية شرح الهداية (4/ 186):
"(قوله: وتطيب) أطلقه فشمل ما تبقى عينه بعد كالمسك والغالية، وكره محمد ما تبقى عينه، والأصح عدم الكراهة كما في البرهان. وقال في البحر: وسن استعمال الطيب في بدنه قيد بالبدن إذ لايجوز التطيب في الثوب مما يبقى عينه على قول الكل على إحدى الروايتين عنهما، قالوا: وبه نأخذ اهـ.
وقال الكمال: المقصود من استنان الطيب عند الإحرام حصول الارتفاق به حالة المنع منه فهو على مثال السحور للصوم إلا أن هذا القدر يحصل بما في البدن فيغني عن تجويزه أي تجويز ما تبقى عينه في الثوب إذ لم يقصد كمال الارتفاق في حال الإحرام؛ لأن الحاج الشعث التفل، وقد قيل: يجوز في الثوب أيضاً على قولهما اهـ". درر الحكام شرح غرر الأحكام (1/ 219
):

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دیگر مسالک کے لوگوں کا بھی احترام لازم ہے، اچھے اخلاق سے پیش آنا ایمان کی علامت ہے،(۱) اسے بہرحال ملحوظ رکھنا چاہئے۔ دوسروں کا مذاق بنانے اور نازیبا حرکت کرنے سے کسی خیرکی توقع نہیں کی جاسکتی۔(۲) ان کو اچھے اور مشفقانہ لہجے میں سمجھانا  چاہئے، ان سے اچھے تعلقات اگر رکھیں گے، تو وہ آپ کی بات سنیں گے اور حق کو قبول کریں گے، ان کے دل میں صحابہ کرامؓ کی عظمت پیدا کرنے کے لئے صحابہ کرامؓ کے واقعات سنائے جائیں۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہوگا، جبکہ وہ صحابہؓ کی شان اپنے اندر پیداکریں؛ اس لئے اہل حق کو ان باتوں کا خیال رکھنا چاہئے ۔(۱)

(۱) لا تحقرن من المعروف شیئاً ولو أن تلقی أخاک بوجہ طلق۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب البر والصلاۃ والآداب: استحباب طلاقۃ الوجہ عند اللقاء‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۵، رقم: ۲۶۲۶)

(۲) {لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی أَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْھُمْ} (سورۃ الحجرات: ۱۱)

(۱) {إِدْفَعْ بِالَّتِيْ ھِيَ أَحْسَنُ السَّیِّئَۃَ ط نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَہ۹۶} (سورۃ المؤمنون: ۹۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص254

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو کے بعد دعا کرتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھنا جائز ہے اور حدیث شریف میں اس کا ثبوت موجود ہے؛ البتہ شہادت کی انگلی اٹھانے کی روایت نہیں ملتی ہاں حضرات فقہاء احناف نے اس کا بھی تذکرہ کیا ہے؛ اس لیے اس عمل کی بھی گنجائش ہے ،تا ہم یہ عمل سنت یا ضروری سمجھ کر نہ کیا جائے۔
’’حدثنا الحسین بن عیسی قال ثنا عبد اللّٰہ بن یزید المقرئ عن حیوۃ بن شریح عن أبي عقیل عن ابن عمہ عن عقبۃ بن عامر الجہني عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولم یذکر أمر الرعایۃ قال عند قولہ فأحسن الوضوء ثم رفع نظرہ إلی السماء، فقال وساق الحدیث یعنی حدیث معاویۃ‘‘(۱)
’’ذکر الغزنوي أنہ یشیر بسبّابتہ حین النظر إلی السماء‘‘(۲)
’’وزاد في المنیۃ: وأن یقول بعد فراغہ سبحانک اللہم وبحمدک، أشہد أن لا إلہ إلا أنت، أستغفرک وأتوب إلیک، وأشہد أن محمدا عبدک ورسولک ناظرا إلی السماء‘‘(۳)

(۱) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب ما یقول الرجل إذا توضأ‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۔(کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)
(۲)  طحطاوی، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ: فصل، من آداب الوضوء أربعۃ عشر شیئاً‘‘: ص: ۷۷۔
(۳) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في بیان ارتقاء الحدیث الضعیف إلی مرتبۃ الحسن‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۳۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص181

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر جوتا ٹخنوں سمیت پورے قدم کو ڈھانپ لیتا ہے، تو اس پر مسح کرنا جائز ہے؛ اس لیے کہ اس وقت وہ جوتا ’’خف‘‘ کے حکم میں ہے اور موزوں پر مسح کے سلسلے میں حکم یہ ہے کہ کم از کم ان میں تین میل مسلسل چلا جا سکے، بغیر رکاوٹ کے پاؤں پر رکے رہیں اور ان میں سے پاؤں تک پانی (چھن کر) نہ پہنچے اگر یہ مذکورہ شرائط جوتوں میں بھی پائی جاتی ہیں تو ان پر مسح کرنا جائز ہے ایسے ہی اگرجوتا پاؤں کے اتنے حصے کو نہیں ڈھانپتا جسے وضو میں دھونا لازمی ہے یعنی ٹخنوں سمیت پورا قدم تو ایسی حالت میں جمہور علماء کرام کے یہاں اس پر مسح کرنا جائز نہیں ہے۔

’’وأما المسح علی الجوارب فلایخلو: إما إن کان الجوارب رقیقاً غیر منعل، وفي ہذا الوجہ لایجوز المسح بلا خلاف، وأما إن کان ثخیناً منعلاً وفي ہذا الوجہ یجوز المسح بلا خلاف، لأنہ یمکن قطع السفر، وتتابع المشي علیہ فکان بمعنی الخف۔ والمراد من الثخین: إن کان یستمسک علی الساق من غیر أن یشد بشيئٍ، ولایسقط، فأما إذا کان لایستمسک ویسترخي، فہذا لیس بثخین ولایجوز المسح علیہ‘‘(۱)
’’(قولہ: شرط مسحہ) أي مسح الخف المفہوم من الخفین، وأل فیہ للجنس الصادق بالواحد والإثنین، ولم یقل مسحہما لأنہ قدیکون واحدا لدی رجل واحد (قولہ: ثلاثۃ أمور الخ) زاد الشر نبلالي: لبسہما علی طہارۃ، وخلو کل منہما عن الخرق المانع، واستمساکہما علی الرجلین من غیرشد، ومنعہما وصول الماء إلی الرجل، وأن یبقی من القدم قدر ثلا ثۃ أصابع‘‘(۲)

(۱) محمود بن أحمد، المحیط البرہاني، ’’الفصل السادس في المسح علی الخفین بیان ما یجوز علیہ المسح من الخفاف وما بمعناہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۹۔(مکتبہ شاملہ)
(۲) ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المسح علی الخفین‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۶۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص279