Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: ایسا شخص امامت نہ کرے اور اگر امامت کرنے کی ضرورت ہے، تو پہلے قضاء شدہ نماز ادا کرے پھر وقتی نماز کی امامت کرے اگر وہ وقت ہونے کے باوجود قضاء نماز نہ پڑھے اور امامت وقتی نماز کی کرے گا، تو اس کی امامت میں نماز جائز نہیں ہوگی جس کا اعادہ واجب ہوگا۔(۱)(۱) الترتیب الوقتیۃ وبین الفوائت مستحق، حتی لایجوز أداء الوقتیۃ قبل قضاء الفائتۃ،وکذا بین الفروض والوتر … لأن الترتیب عرف واجباً في الفرض، (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الصلاۃ: الباب الحادي عشر، في قضاء الفوائت‘‘: ج۱، ص: ۱۸۱)الترتیب بین الفائتۃ القلیلۃ وہي مادون ست صلوات وبین الوقتیۃ المتسع وقتہا مع تذکر الفائتۃ لازم۔ (أحمد بن إسماعیل الططاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت‘‘: ص: ۴۴۱)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 176
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: فائتہ نمازوں میں ترتیب واجب ہے یا مستحب اس میں ائمہ کا اختلاف ہے۔امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ اور امام احمدؒ یہ تینوں حضرات ترتیب کو ضروری قرار دیتے ہیں خلاف ترتیب ناجائز ہے۔ امام شافعی ؒ ترتیب کو مستحب قرار دیتے ہیں۔ صاحب ہدایہ نے لکھا ہے:’’إن الترتیب بین الفوائت و فرض الوقت مستحق عندنا و مستحب عند الشافعي‘‘(۱)ہمارے نزدیک ترتیب کے ساقط ہونے کی تین صورتیں ہے ایک تو فوائت کی کثرت ہو، اگر فائتہ نمازیں کثیر ہوں تو ترتیب کا وجوب ساقط ہو جائے گا۔ کثرت کی مقدار چھ نمازیں ہیں یعنی چھ نمازیں اس طرح فوت ہوجائیں کہ چھٹی نماز کا وقت نکل چکا ہو تو وہ کثرت کی حد میں آجاتاہے پھر ترتیب واجب نہیں۔ دوسرا سبب سہو یعنی فائتہ نماز بھول گئے اور وقتیہ نماز پڑھ لی بعد میں یاد آیا تو اب نماز کو دہرانے کی ضرورت نہیں؛ کیوں کہ سہو کی وجہ سے بھی فائتہ کی ترتیب کاوجوب ساقط ہو جاتاہے۔تیسرا سبب ضیق وقت ہے: ادا نماز کا اتنا تنگ وقت رہ گیا کہ اگر فائتہ نماز پڑھیں تو وقتیہ نماز فوت ہو جائے گی تو ایسی صورت میں ترتیب ساقط ہو جائے گی۔ تو ہمارے یہاں ترتیب کے ساقط ہونے کے تین اسباب ہے۔کثرت فوائت، نسیان اور ضیق وقت۔ ’’لأن الترتیب یسقط بضیق الوقت، وکذا بالنسیان وکثرۃ الفوائت‘‘(۲)امام مالکؒ کے نزدیک ضیق وقت کی وجہ سے بھی ترتیب ساقط نہیں ہوتی ہے، امام احمد کے نزدیک کثرت فوائت کی وجہ سے بھی ترتیب کا وجوب ساقط نہیں ہوتا ہے۔ائمہ ثلاثہ اسی روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضاخندق کے موقع پر ترتیب سے کیا ہے اگر ترتیب واجب نہ ہوتی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ترتیب کے ساتھ کیوں کرتے۔’’لأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم شغل عن أربع صلوات یوم الخندق فقضاہن مرتبا ثم قال صلوا کما رأیتموني أصلي‘‘(۳)
امام شافعی ؒ کہتے ہیں کہ ترتیب کے ساتھ آپ نے نماز قضا کی ہے لیکن یہ وجوب کی دلیل نہیں ہے یہ استحباب کی دلیل ہے؛ اس لیے کہ فعل وجوب پر دلالت نہیں کرتا ہے جب تک کہ امر کا صیغہ نہ ہو محض فعل سے وجوب ثابت نہیں ہوتا یہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی مضبوط دلیل ہے۔ احناف میں سے علامہ ابن ہمام، صاحب بحر، مولانا عبدالحئی لکھنوی ؒوغیرہ حضرات نے امام صاحب کا مسلک چھوڑ کر امام شافعیؒ صاحب کا ساتھ دیا ہے کہ صرف فعل کی وجہ سے وجوب ثابت نہیں ہو سکتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ استحباب ثابت ہوسکتاہے۔ تاہم حنفی کے لئے ضروری ہے کہ احناف کے مسلک پر ہی عمل کرے۔(۱) المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۴۔(۲) أیضاً: ۔(۳) أیضاً: ج ۱، ص: ۱۵۵۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 174
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: حج ادا کرنے سے قضاء نمازیں معاف نہیں ہوں گی۔ قضاء نمازوں کا پڑھنا فرض اور ضروری ہے کہ دونوں فرض علیحدہ علیحدہ ہیں۔(۱)(۱) ولا قائل بسقوط الدین ولو حقاً للّٰہ تعالیٰ کدین صلاۃ وزکاۃ؛ نعم إثم المطل وتأخیر الصلاۃ ونحوہا یسقط وفي الشامیہ: وقد یقال بسقوط نفس الحق إذا مات قبل المقدرۃ علی أدائہ سواء کان حق اللّٰہ تعالیٰ أو حق عبادہ ولیس في ترکتہ مایفي بہ الخ … والحاصل کما في البحر أن المسئلۃ ظنیۃ فلا یقطع بتکفیر الحج للکبائر من حقوقہ تعالیٰ فضلاً عن حقوق العباد۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الحج: باب الہدي، مطلب: في تکفیر الحج الکبائر‘‘: ج ۴، ص: ۴۸ تا ۵۰)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 174
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: قضاء عمری کی نیت سے عصر وفجر کی نمازیں دونوں مذکورہ وقتوں میں پڑھنا جائز اور درست ہیں۔(۱)
(۱) تسعۃ أوقات یکرہ فیہا النوافل وما في معناہا لا الفرائض۔ ہکذا في النہایۃ والکفایۃ فیجوز فیہا قضاء الفائتۃ وصلاۃ الجنازۃ وسجدۃ التلاوۃ۔ کذا في فتاویٰ قاضي خان۔منہا ما بعد طلوع الفجر قبل صلاۃ الفجر۔ کذا في النہایۃ والکفایۃ یکرہ فیہ التطوع بأکثر من سنۃ الفجر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول في المواقیت وما یتصل بہا، الفصل الثالث: في بیان الأوقات التي لا تجوز فیہا الصلاۃ وتکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۹)الثاني مابین الفجر والشمس وما بین صلوۃ العصر إلی الا صفرار ینعقد فیہ جمیع الصلوات التي ذکرناہا من غیر کراہۃ إلا النفل والواجب وغیرہ۔ثلاث ساعات لاتجوز فیہا المکتوبۃ ولا صلاۃ الجنازۃ ولا سجدۃ التلاوۃ، إذا طلعت الشمس حتی ترتفع، وعند الانتصاف إلی أن تزول، وعند احمرارہا إلی أن تغیب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الثالث: في بیان الأوقات التي لا تجوز فیہا الصلاۃ وتکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۸)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 173
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: بعد نماز عصر کامل وقت میں اصفرار شمس سے پہلے قضاء نماز پڑھ سکتا ہے۔’’ولا باس بأن یصلی في ہذین الوقتین الفوائت …… لأن الکراہۃ کانت لحق الفرض لیصیر الوقت کالمشغول بہ لا لمعنی في الوقت فلم تظہر في حق الفرض‘‘(۲)(۲) المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب المواقیت‘‘: ج ۱، ص: ۸۶، دار الکتاب دیوبند۔(لا) یکرہ (قضاء فائتۃ … بعد طلوع فجر سوی سنۃ … (وقبل) صلاۃ (مغرب) … قولہ: الکراہۃ تاخیرہ) … تنبیہ: یجوز قضاء الفائتۃ وصلاۃ الجنازۃ وسجدۃ التلاوۃ في ہذا الوقت بلا کراہۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب: یشترک العلم بدخول الوقت‘‘: ج ۲، ص: ۳۷، ۳۸)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 172
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: اگر واقعی طور پر بھیڑ وغیرہ کی وجہ سے نماز ادا کرنے کا موقع نہ مل سکے اور نماز قضاء ہوجائے اور بعد میں موقع ملنے پر بلا تاخیر اس کو قضاء کرے تو ایسی صورت میں زید گناہگار نہ ہوگا۔(۱)(۱) وکذا لو اجتمعوا في مکان ضیق لیس فیہ إلا موضع یسع أن یصلي قائماً فقط یصبر ویصلي قائماً بعد الوقت کعاجز عن القیام والوضوء في الوقت ویغلب علی ظنہ القدرۃ بعدہ۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۶)وفي الخلاصۃ: وفتاویٰ قاضي خان وغیرہما: الأسیر في ید العدو إذا منعہ الکافرعن الوضوء والصلاۃ یتیمم ویصلي بالإیماء ثم یعید إذا خرج … فعلم منہ أن العذر إن کان من قبل اللّٰہ تعالیٰ لا تجب الإعادۃ وإن کان من قبل العبد وجبت الإعادۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۸)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 171
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: مذکورہ صورت میں اگر صاحب ترتیب (جس کے ذمہ میں صرف چھ سے کم نمازوں کی قضاء لازم ہو) نہیں ہے تو اس کو چاہئے کہ مغرب کی جماعت میں شامل ہوکر پہلے مغرب کی نماز با جماعت ادا کرے پھر عصر کی نماز قضاء کرے۔(۱)
(۱) الترتیب بین الفائتۃ والوقتیۃ وبین الفوائت مستحق، کذا في الکافي حتی لا یجوز أداء الوقتیۃ قبل قضاء الفائتۃ، کذا في محیط السرخسي۔ وکذا بین الفروض والوتر، ہکذا في شرح الوقایۃ … وإن کانت المتروکۃ أکثر من واحدۃ والوقت یسع فیہ بعضہا مع الوقتیۃ لاتجوز الوقتیۃ مالم یقض ذلک البعض حتی لو تذکر في وقت الفجر أنہ لم یصل العشاء والوتر وبقي من الوقت مالایسع فیہ إلا خمس رکعات علی قول أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ یقضي الوتر ثم یصلي الفجر ثم یقضي العشاء بعد طلوع الشمس۔ وکذا لو تذکر في وقت العصر أنہ لم یصل الفجر والظہر ولم یبق من الوقت إلا مایسع فیہ ثماني رکعات فإنہ یقضي الظہر ثم یصلي العصر وإن کان لا یسع فیہ إلا ست رکعات فإنہ یصلي الفجر ثم العصر ثم الفائتۃ، ہکذا في فتاویٰ قاضي خان۔والعبرۃ في العصر لآخر الوقت عند أبي حنیفۃ وأبي یوسف رحمہما اللّٰہ تعالیٰ کذا في التبیین وذکر شمس الأئمۃ السرخسي رحمہ اللّٰہ تعالیٰ في المبسوط إن أمکنہ أداء الظہر والعصر قبل تغیر الشمس فعلیہ مراعاۃ الترتیب وإن کان لایمکنہ أداء الصلاتین قبل غروب الشمس فعلیہ أداء العصر وإن کان یمکنہ أداء الظہر قبل تغیر الشمس وتقع العصر کلہا أو بعضہا بعد تغیر الشمس فعلیہ مراعاۃ الترتیب إلا علی قول حسن بن زیاد فإن عندہ ما بعد تغیر الشمس لیس بوقت العصر، کذا في النہایۃ۔ ولو کان بقي من الوقت المستحب قدر ما لایسع فیہ الظہر سقط الترتیب بالإجماع، کذا في التبیین۔ ولو افتتح العصر في أول الوقت وہو لا یعلم أن علیہ الظہر وأطالہا حتی دخل وقت الکراہۃ ثم تذکر أن علیہ الظہر فلہ أن یمضي علی صلاتہ، کذا في الجوہرۃ النیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الحادي عشر في قضاء الفوائت‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۱ تا ۱۸۳)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 170
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: شریعت مطہرہ میں بغیر کسی عذر شرعی کے کسی بھی مسلمان کے لیے نماز چھوڑنا جائز نہیں ہے اس لیے پہلے وہ شخص جس نے نماز چھوڑی ہے وہ توبہ واستغفار کرے اس بات پر ائمہ ثلاثہ کا اتفاق ہے کہ فوت شدہ نمازوں کی فورا قضا کرے چاہے وہ نماز کسی عذر کی وجہ سے کیوں نہ فوت ہوئی ہو لیکن امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر تاخیر کسی شرعی عذر کی بناپر نہیں ہے تو قضا واجب ہے اور اگر شرعی عذر کی بنا پر ہوئی ہو تو تاخیر سے واجب ہوتا ہے اور تاخیر القضا کسی عذر کی بنا پر ہی جائز ہے، اس سلسلے میں علا مہ شوکانی رحمہ اللہ نیل الاوطار میں فرماتے ہیں کہ فوت شدہ نمازوں کوفوراً قضا کیا جائے۔’’(عن أنس بن مالک أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من نسي صلاۃ فلیصلہا إذا ذکرہا لا کفارۃ لہا إلا ذلک) ’’متفق علیہ، ولمسلم: (إذا رقد أحدکم عن الصلاۃ أو غفل عنہا فلیصلہا إذا ذکرہا، فإن اللّٰہ عز وجل یقول: {أَقِمِ الصَّلاۃَ لِذِکْرِي} (سورہ طٰہٰ: ۱۴)(۱)شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کا بھی مسلک یہی ہے۔ جیسا کہ حجۃ اللہ البالغہ میں لکھا ہے:’’ووقت القضاء إذا ذکر، وہو قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من نسي صلاۃ أو نام عنہا فلیصلہا إذا ذکرہا‘‘(۲)لیکن علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ ان تمام باتوں کا جواب دیتے ہیں کہ ’’فلیصلھا إذا ذکرھا‘‘ سے یہ لازم نہیں آتا کہ یاد آنے کے وقت فوراً ہی پڑھ لے کیوں کہ اگر اس کو یاد آجائے اور ایک مدت تک یاد بھی رہے اور وہ اس مدت میں کبھی بھی ادا کرتا ہے تو یہ بھی تو حالت یاد داشت ہی میں ہے اور دوسرا جواب یہ ہے کہ ’’إذا‘‘شرط کے لیے ہے یعنی اگر یاد آجائے تو پڑھے اور نہ یاد آئے تو قضا لازم نہیں آتی، جیسا کہ عمدۃ القاری شرح البخاری میں ہے:’’من نام عن صلاۃ أو نسیہا فلیصلہا إِذا ذکرہا‘‘(۳)
(۱) محمد بن علي الشوکاني، نیل الأوطار، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت‘‘: ج ۲، ص: ۲۸، رقم: ۴۷۸، دار الکتب العلمیہ، بیروت۔(۲) الشاہ ولي اللّٰہ، الدہلويؒ، حجۃ اللّٰہ البالغۃ: ج ۱، ص: ۴۰۲، دار الکتاب، دیوبند۔(۳) العیني، عمدۃ القاري شرح البخاري، ’’باب الصید الطیب وضوء المسلم یکفیہ‘‘: ج ۴، ص: ۱۳۱، زکریا بکڈپو، دیوبند۔الحاصل: فوت شدہ نمازوں کی ادائیگی اگرچہ فوری طور پر واجب ہے؛ لیکن عیال کی پرورش اور حاجت کے کاموں میں سعی اور کوشش کے عذر کی وجہ سے اصح قول کے مطابق تاخیر بھی جائز ہے جیسا کہ الدر المختار میں لکھا ہے:’’أي ما یحتاجہ لنفسہ من جلب نفع ودفع ضرر وأما النفل فقال في المضمرات: الاشتغال بقضاء الفوائت أولٰی وأہم من النوافل إلا سنن المفروضۃ وصلاۃ الضحی وصلاۃ التسبیح والصلاۃ التي رویت فیہا الأخبار، أي کتحیۃ المسجد والأربع قبل العصر والست بعد المغرب‘‘(۱)
(۱) الحصکفي، رد المحتارعلی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت‘‘: ج ۲، ص: ۵۳۶۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 168
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں فرض رکعات سے پہلے والی سنت مؤکدہ اگر رہ جائیں تو ان کو بعد میں قضاء کرنا جائز ہے اور اس کی وضاحت احادیث میں بھی موجود ہے۔ فجر کی سنتیں اگر رہ جائیں تو اس سلسلے میں امام حاکم نے مستدرک میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو فجر کی دو رکعت کو ادا نہ کر سکے وہ طلوعِ آفتاب کے بعد ادا کر لے۔’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من لم یصل رکعتي الفجر فلیصلہما بعد ما تطلع الشمس‘‘(۱)ایسے ہی ظہر کی پہلی چار رکعتیں سنت مؤکدہ رہ جائیں تو ان کے بارے میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جب ظہر کی فرض سے قبل کی چار رکعت سنت مؤکدہ رہ جاتیں تو انہیں ظہر کی دو رکعت سنت مؤکدہ پڑھنے کے بعد اس چار رکعت سنت مؤکدہ کو ادا فرماتے تھے۔’’عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم إذا فاتتہ الأربع قبل الظہر صلاہا بعد الرکعتین بعد الظہر‘‘(۲)نیز سنت مؤکدہ کل بارہ ہیں: چار رکعتیں ظہر سے پہلے اور دو رکعتیں اس کے بعد، دو رکعتیں مغرب کے بعد، دو رکعتیں عشاء کے بعد اور دو رکعتیں فجر سے پہلے۔مذکورہ عبارتوں میں جن سنتوں کے بارے میں تاکید آئی ہے احادیث مبارکہ میں ان کی فضیلت بھی بیان کی گئی ہے کہ: جس نے بارہ سنتوں کی پابندی کی اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں مکان بنائے گا، جیسا کہ امام ترمذی رحمہ اللہ علیہ نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت نقل کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’من ثابر علی ثنتي عشرۃ رکعۃ من السنۃ بنی اللّٰہ لہ بیتا في الجنۃ أربعِ رکعات قبل الظہر ورکعتین بعدہا ورکعتین بعد المغرب ورکعتین بعد العشاء ورکعتین قبل الفجر‘‘(۱)
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: باب ماجاء في إعادتہما بعد طلوع الشمس‘‘: ج ۱، ص: ۹۶، رقم: ۴۲۳۔(۲) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، باب من فاتتہ الأربع قبل الظہر‘‘: ج ۱، ص: ۸۰، رقم: ۱۱۵۸۔
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ: باب ما جاء فیمن صلی فی یوم ولیلۃ ثنتی عشرۃ رکعۃ من السنۃ ومالہ فیہ من الفضل‘‘: ج ۱، ص: ۹۴، رقم: ۴۱۴۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 166
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: ذکر کردہ سوال میں آپ نے لکھا ہے کہ آپ پر کئی نمازیں قضاء ہیں اس سلسلے میں شریعت مطہرہ کا حکم یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کے لیے بغیر عذرِ شرعی نماز چھوڑنا جائز نہیں ہے اس لیے اوّلاً آپ سچے دل سے اللہ کے حضور میں توبہ واستغفار کریں اور جو نمازیں چھوٹ گئی ہیں اور آپ کے ذمہ میں ابھی تک باقی ہیں ان کی ادائیگی کریں، یاد رکھیں نوافل نہ پڑھنے پر آپ سے سوال نہیں کیا جائے گا، لیکن فرائض کے چھوڑنے پر سوال کیا جائے گا اور آپ عذاب کے مستحق بھی ہوں گے، لہٰذا نوافل میں مشغول ہونے سے زیادہ اہم اور ضروری ہے کہ آپ پہلے چھوٹی ہوئی نماز کی قضاء کریں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نمازوں کی قضاء کے سلسلے قولا اور فعلاً دونوں طرح کا عمل ثابت ہے، جیسا کہ امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کی ہے:’’عن أنس بن مالک أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من نسي صلاۃًفلیصلہا إذا ذکرہا لا کفارۃ لہا إلا ذلک‘‘(۱)علامہ حصکفی رحمۃ اللہ علیہ نے الدر المختار میں لکھا ہے: فوت شدہ نمازوں کی ادائیگی اگرچہ فوری طور پر واجب ہے، لیکن عیال کی پرورش اور حاجت کے کاموں میں سعی وکوشش کے عذر کی وجہ سے اصح قول کے مطابق تاخیر جائز ہے۔’’(ویجوز تأخیر الفوائت) وإن وجبت علی الفور (لعذر السعي علی العیال وفي الحوائج علی الأصح)‘‘مزید آگے لکھتے ہیں:’’أي ما یحتاجہ لنفسہ من جلب نفع ودفع ضرر وأما النفل فقال في المضمرات: الاشتغال بقضاء الفوائت أولی وأہم من النوافل إلا سنن المفروضۃ وصلاۃ الضحی وصلاۃ التسبیح والصلاۃ التي رویت فیہا الأخبار۔ ط أي کتحیۃ المسجد والأربع قبل العصر والست بعد المغرب‘‘(۲)
(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ: باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ واستحباب تعجیل قضاء ہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۱، رقم: ۶۸۴، دار الاشاعت، دیوبند۔(۲) الحصکفي، رد المحتارعلی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت، مطلب: في بطلان الوصیۃ بالختمات والتہالیل‘‘: ج ۲، ص: ۵۳۶۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 165