نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:امام کا اذان پڑھنا درست ہے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے روایات سے ایک ہی شخص کا اذان دینا اور نماز پڑھانا ثابت ہے۔(۳)

(۳) عن عقبۃ بن عامر، قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: یعجب ربک من راعي غنم، في رأس شظیۃ بجبل، یؤذن للصلاۃ ویصلي، فیقول اللّٰہ عز وجل: انظروا إلی عبدي ہذا: یؤذن ویقیم للصلاۃ یخاف مني، قد غفرت لعبد، وأدخلتہ الجنۃ۔ (أخرجۃ أبو داؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان في السفر‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۰، رقم: ۱۲۰۳)
عن عقبۃ بن عامر قال: کنت مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی سفر، فلما طلع الفجر أذن وأقام، ثم أقامنی عن یمینہ۔ (أخرجہ ابن أبي شیبۃ، فيمصنفہ، ’’کتاب الصلاۃ:  باب من کان یخفف القراء ۃ في السفر، مؤسسۃ علوم القرآن‘‘: ج ۳، ص: ۲۵۴، رقم: ۳۷۰۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص168

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کسی مصلحت کے تحت کبھی مخصوص طریقہ پر پڑھ لیا جائے تو حرج نہیں؛ لیکن اس کو لازم سمجھنا اور اس پر دوام اور استمرار درست نہیں؛ اس لیے غیر لازم چیز کو لازم سمجھنا شرعاً جائز نہیں(۱) آیت کریمہ (مذکورہ فی السوال) کے سنتے ہی درود فرض نہیں ہے۔(۲)

(۱) لأن الشارع إذا لم یعین علیہ شیئاً تیسیرًا علیہ کرہ لہ أن یعین۔ (ابن عابدین،  رد الحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۵، زکریا دیوبند)
(۲) ولو قرأ القرآن فمر علی إسم النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأصحابہ فقراء ۃ القرآن علی تالیفہ ونظمہ أفضل من الصلوٰۃ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأصحابہ في ذلک الوقت فإن فرغ ففعل فہو أفضل وإن لم یفعل فلا شيء علیہ کذا في الملتقط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الرابع في الصلاۃ والتسبیح‘‘: ج ۵،ص: ۳۶۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص436

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: فرض نماز میں جان بوجھ کر دونوں رکعتوں میں ایک ہی سورت پڑھنا مناسب نہیں ہے۔ فقہاء نے مکروہ تنزیہی لکھا ہے۔ البتہ اگر بھول  سے ایسا ہوا تو کوئی حرج نہیں ہے۔ بہرصورت نہ سجدہ سہو کی ضرورت ہے اور نہ ہی نماز لوٹانے کی ضرورت ہے۔ اور نوافل میں ایک ہی سورت دو رکعتوں میں پڑھنا بلاکراہت جائز ہے۔
’’لا بأس أن یقرأ سورۃً ویعیدہا في الثانیۃ۔ (قولہ: لا بأس أن یقرأ سورۃً إلخ) أفاد أنہ یکرہ تنزیہا، وعلیہ یحمل جزم القنیۃ بالکراہۃ، ویحمل فعلہ علیہ الصلاۃ والسلام لذلک علی بیان الجواز، ہذا إذا لم یضطر، فإن اضطر بأن قرأ في الأولیٰ: {قل أعوذ برب الناس} أعادہا في الثانیۃ إن لم یختم، نہر‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فروع في القراء ۃ خارج الصلاۃ، مطلب: الاستماع للقرآن فرض کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۸۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص232

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جان بوجھ کر خلاف ترتیب پڑھنا مکروہات قرأت میں سے ہے۔ اور اگر غلطی سے ہوجائے، تو مکروہ بھی نہیں ہے، تاہم بہر صورت نماز درست ہوجاتی ہے، سجدہ سہو کی ضرورت نہیں۔ باقی رکعتوں میں سورہ ناس بھی پڑھ سکتے ہیں اور اگر یاد ہو، تو سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات بھی پڑھ سکتے ہیں۔ یا کوئی بھی سورت پڑھ لیں نماز درست ہوجائے گی۔(۱)

(۱) ویکرہ الفصل بسورۃ قصیرۃ وأن یقرأ منکوساً إلا إذا ختم فیقرأ من البقرۃ۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار’’باب صفۃ الصلاۃ: مطلب الاستماع للقرآن فرض کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۹)
قالوا: یجب الترتیب في سور القرآن، فلو قرأ منکوساً أثم، لکن لا یلزمہ سجود السہو؛ لأن ذلک من واجبات القرائۃ لا من واجبات الصلاۃ کما ذکرہ في البحر في باب السہو۔ (الحصکفي، ردالمحتار مع الدرالمختار، باب صفۃ الصلاۃ، ’’مطلب کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۸، زکریا دیوبند؛ و ابن نجیم، البحر الرائق، ’’باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۶، زکریا دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص360

 

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Red. No. 2832/45-4435

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ماہِ رمضان شروع ہونے سے پہلے بھی صدقہ فطر ادا کرنا درست ہے اور اس سے بھی آدمی برئ الذمہ ہو جائے گا گرچہ بہتر یہی ہے کہ رمضان شروع ہونے کے بعد ہی آداکرے، لیکن اگر کسی نے رمضان سے پہلے اداکردیا تو واجب اس کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گا۔ یہی قول راجح اور مفتی بہ ہے۔

"(وصح أداؤها إذا قدمه على يوم الفطر أو أخره) اعتبارا بالزكاة والسبب موجود إذ هو الرأس (بشرط دخول رمضان في الأول) أي مسألة التقديم (هو الصحيح) وبه يفتى جوهرة وبحر عن الظهيرية لكن عامة المتون والشروح على صحة التقديم مطلقا وصححه غير واحد ورجحه في النهر ونقل عن الولوالجية أنه ظاهر الرواية. قلت: فكان هو المذهب.

 (قوله: اعتبارا بالزكاة) أي قياسا عليها. واعترضه في الفتح بأن حكم الأصل على خلاف القياس فلا يقاس عليه؛ لأن التقديم، وإن كان بعد السبب هو قبل الوجوب وأجاب في البحر بأنها كالزكاة بمعنى أنه لا فارق لا أنه قياس اهـوفيه نظر والأولى الاستدلال بحديث البخاري وكانوا يعطون قبل الفطر بيوم أو يومين قال في الفتح وهذا مما لا يخفى على النبي صلى الله عليه وسلم بل لا بد من كونه بإذن سابق فإن الإسقاط قبل الوجوب مما لا يعقل فلم يكونوا يقدمون عليه إلا بسمع اهـ(قوله: فكان هو المذهب) نقل في البحر اختلاف التصحيح ثم قال لكن تأيد التقييد بدخول الشهر بأن الفتوى عليه فليكن العمل عليه وخالفه في النهر بقوله واتباع الهداية أولى. قال في الشرنبلالية قلت: ويعضده أن العمل بما عليه الشروح والمتون، وقد ذكر مثل تصحيح الهداية في الكافي والتبيين وشروح الهداية. وفي البرهان وابن كمال باشا وفي البزازية الصحيح جواز التعجيل لسنين رواه الحسن عن الإمام اهـوكذا في المحيط. اهـ.

قلت: وحيث كان في المسألة قولان مصححان تخير المفتي بالعمل بأيهما إلا إذا كان لأحدهما مرجح ككونه ظاهر الرواية أو مشى عليه أصحاب المتون والشروح أو أكثر المشايخ كما بسطناه أول الكتاب وقد اجتمعت هذه المرجحات هنا للقول بإطلاق فلايعدل عنه، فافهم".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 367):

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 849 Alif

 

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  مذکورہ فیصلہ شرعی دارالقضاء سے ہوا ہے، اور شرعی دارالقضاء کے فیصلہ پر دارالقضاء ہی سے نظرثانی کی جاسکتی ہے۔ اس لئے اسی دارالقضاء میں اپیل کریں یا کسی دوسرے دارالقضاء سے رجوع کیا جائے۔ واللہ تعالی اعلم 

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 41/872

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جمعہ کے خطبہ کے دوران  کسی  بھی قسم کا چندہ کرنا درست نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 930/41-64

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  سجدہ تلاوت نماز فجر و عصر کے بعد کرنے میں  کوئی حرج نہیں ہے۔ جو سجدے ذمہ میں واجب ہیں ان کو مکروہ اوقات میں ( طلوع شمس، زوال سے قبل اور بوقت غروب) اداکرنا درست نہیں ہے۔تاہم اگرآیت سجدہ کی تلاوت مکروہ وقت میں کی اور اسی وقت سجدہ کیا  تو درست ہے۔

ثلاث ساعات لا تجوز فيها المكتوبة ولا صلاة الجنازة ولا سجدة التلاوة إذا طلعت الشمس حتى ترتفع وعند الانتصاف إلى أن تزول وعند احمرارها إلى أن يغيب إلا عصر يومه ذلك فإنه يجوز أداؤه عند الغروب۔۔۔هذا إذا وجبت صلاة الجنازة وسجدة التلاوة في وقت مباح وأخرتا إلى هذا الوقت فإنه لا يجوز قطعا أما لو وجبتا في هذا الوقت وأديتا فيه جاز؛ لأنها أديت ناقصة كما وجبت (الفتاوی الھندیۃ 1/52)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد
السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں۔ ہمارے یہاں میت کو جنازہ کے لئے لے جانے کے بعد گھر میں عورتیں اجتماعی دعا کرتی ہیں کیا اس طرح عورتوں کا اجتماعی دعا کرنا شرعاً درست ہے یا نہیں۔ اگر درست ہے تو اسکی دلیل اور اگر درست نہیں ہے تو اسکی وجہ قرآن وحدیث کی روشنی میں لکھ کر ممنون فرمائیں Md Sabir Shah Lilong Ushoipokpi Dist. Thoubal St. Manipur Pin. 795130

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 1365/42-0000

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Wearing pajamas, trousers, lingerie, etc. which hang loose below the ankles is a grave sin for men. There are many warnings in Ahadith for those who let the garment come below the ankles. Thus, one must avoid it in each and every case.

عن أبى هريرة - رضى الله عنه - عن النبى - صلى الله عليه وسلم - قال «ما أسفل من الكعبين من الإزار ففى النار». (فیض الباری، باب من جر ثوبہ من الخیلاء 6/73) (فتح الباری لابن رجب، باب بالتنوین مااسفل من الکعبین 10/257) عَن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أُزرة المؤمن إلى نصف الساق ولا حرج ولا جناح فيما بينه وبين الكعبين ما كان أسفل من الكعبين فهو في النار، من جر إزاره بطراً لم ينظر الله إليه. (معالم السنن، ومن باب قدر موضع الازار 4/197)

And Allah knows best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband