Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: واضح رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو تین اوقات میں نماز پڑھنے سے منع کیا ہے ایک طلوع شمس کے وقت یہاں تک کہ سورج اچھی طرح نکل جائے، دوسرے نصف النہار (زوال) اور تیسرا غروبِ آفتاب (سورج کے غروب) کے وقت، ان تینوں وقتوں کے علاوہ قضاء نمازوں کے لیے کوئی خاص وقت متعین نہیں ہے آپ ان کے علاوہ باقی تمام اوقات میں جس وقت چاہیں قضاء نماز پڑھ سکتی ہیں، شریعت مطہرہ آپ کو اس کی اجازت دیتی ہے، جیسا کہ علامہ کاسانی رحمۃ اللہ علیہ نے بدائع الصنائع میں تحریر فرمایا ہے۔’’ثم لیس للقضاء وقت معین بل جمیع أوقات العمر وقت لہ إلا ثلاثۃ: وقت طلوع الشمس ووقت الزوال ووقت الغروب‘‘(۱)’’إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نھی عن الصلاۃ في ثلاث ساعات: عند طلوع الشمس حتی تطلع ونصف النھار وعند غروب الشمس‘‘(۲)مراقی الفلاح میں ہے:’’ثلاثۃ أوقات لا یصح فیھا شيء من الفرائض والواجبات التي لزمت في الذمۃ قبل دخولھا، عند طلوع الشمس إلی أن ترتفع و عند استوائھا إلی أن تزول وعند اصفرارھا إلی أن تغرب‘‘(۳)’’وجمیع أوقات العمر وقت القضاء إلا الثلاثۃ المنھیۃ‘‘(۴)’’قولہ: ’’إلا الثلاثۃ المنھیۃ‘‘: وھي الطلوع والاستواء والغروب‘‘(۵)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الحادي عشر: في قضاء الفوائت‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۰۔
(۲) سلیمان بن أحمد الطبراني، المعجم الأوسط، ’’ ‘‘: ج ۵، ص: ۵۳، دار الکتب العلمیہ، بیروت۔(۳) حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الایضاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الأوقات المکروہۃ‘‘: ج ۱، ص: ۷۳۔(۴) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت، مطلب: في تعریف الإعادۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۲۴۔(۵) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’أیضاً‘‘:ج ۲، ص: ۵۲۴۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 163
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں زید فجر کی نماز کی ادائیگی کے بعد طلوعِ آفتاب سے قبل سنت کی قضاء نہ کرے، سورج کے طلوع ہونے کے بعد زید کے لیے سنت کی قضاء کرنا درست ہے، ایسے ہی اگر طلوعِ آفتاب کے بعد فجر کی نماز پڑھی جائے تو فرض نماز سے پہلے دو رکعت سنت پڑھے، پھر اس کے بعد فرض نماز ادا کی جائے، جیسا کہ کتب حدیث وفقہ میں تفصیل سے ذکر کیا ہے:’’عن أبي ہریرۃ، قال: نہی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن صلاتین: بعد الفجر حتی تطلع الشمس، وبعد العصر حتی تغرب الشمس‘‘(۱)’’عن أبي ھریرۃ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من لم یصل رکعتی الفجر فلیصلھما بعد ما تطلع الشمس‘‘(۲)’’وفي المضمرات: لو اقتدی فیہ لأساء (وإذا خاف فوت) رکعتي (الفجر لاشتغالہ بسنتہا ترکہا) لکون الجماعۃ أکمل (وإلا) بأن رجا إدراک رکعۃ في ظاہر المذہب۔ وقیل التشہد واعتمدہ المصنف والشرنبلالی تبعا للبحر، لکن ضعفہ في النہر (لا) یترکہا بل یصلیہا عند باب المسجد إن وجد مکانا وإلا ترکہا لأن ترک المکروہ مقدم علی فعل السنۃ۔ (ولا یقضیہا إلا بطریق التبعیۃ لقضاء (فرضہا قبل الزوال لا بعدہ في الأصح)؛ لورود الخبر بقضائہا في الوقت المہمل‘‘(۳)’’(قولہ: ولا یقضیہا إلا بطریق التبعیۃ إلخ) أي لا یقضی سنۃ الفجر إلا إذا فاتت مع الفجر فیقضیہا تبعاً لقضائہ لو قبل الزوال؛ وأما إذا فاتت وحدہا فلا تقضی قبل طلوع الشمس بالإجماع؛ لکراہۃ النفل بعد الصبح۔ وأما بعد طلوع الشمس فکذلک عندہما۔ وقال محمد: أحب إلی أن یقضیہا إلی الزوال کما فی الدرر۔ قیل: ہذا قریب من الاتفاق؛ لأن قولہ: أحب إلی دلیل علی أنہ لو لم یفعل لا لوم علیہ۔ وقالا: لا یقضی، وإن قضی فلا بأس بہ، کذا في الخبازیۃ۔ ومنہم من حقق الخلاف وقال: الخلاف فی أنہ لو قضی کان نفلاً مبتدأً أو سنۃً، کذا في العنایۃ یعني نفلاً عندہما، سنۃً عندہ کما ذکرہ في الکافی إسماعیل‘‘(۴)’’(ولا یقضیہا إلا بطریق التبعیۃ ل) قضاء (فرضہا قبل الزوال لا بعدہ في الأصح)؛ لورود الخبر بقضائہا في الوقت المہمل‘‘(۱)’’ولم تقض سنۃ الفجر إلا بفوتہا مع الفرض إلی الزوال‘‘(۲)مذکورہ عربی عبارتوں کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ:اگر فجر کی صرف سنت رہ جائیں تو امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے مطابق طلوعِ آفتاب کے بعد زوال سے قبل سنت پڑھنا جائز ہے اور اگر فجر کی نماز قضاء ہو جائے تو پہلے دو رکعت سنت پھر فرض نماز پڑھی جائے۔’’قال محمد: وتقضی منفردۃ بعد الشمس قبل الزوال فلا قضا لہا قبل الشمس ولا بعد الزوال اتفاقًا‘‘(۳)(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب مواقیت الصلاۃ: باب الصلاۃ بعد الفجر حتی ترتفع الشمس‘‘: ج ۱،ص: ۸۳، دار الاشاعت، دیوبند۔(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ما جاء في إعادتہما بعد طلوع الشمس‘‘: ج ۱، ص: ۹۴، رقم: ۴۲۳، دار الاشاعت، دیوبند۔(۳) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب إدراک الفریضۃ، مطلب: في کراہۃ الخروج من المسجد بعد الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۵۱۰، ۵۱۱، ۵۱۲۔(۴) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’أیضاً‘‘: ج ۲، ص: ۵۱۲۔
(۱) الحصکفي، الد المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب إدراک الفریضۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۱۲۔(۲) أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب إدراک الفریضۃ‘‘: ص: ۴۵۳۔(۳) أیضاً:
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 161
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسے شخص پر (جس کی نماز جمعہ کسی عذر کی وجہ سے فوت ہوجائے) نماز ظہر ادا کرنا فرض ہے اور سعی نہ کرنے کا گناہ ہوگا اور اگر غسل واجب نہیں ہوا تھا تو غسل میں وقت ضائع کرنا بھی جائز نہیں تھا۔(۳)(۳) وہي فرض عین کذا في التہذیب (ثم لوجو بہا شرائط في المصلی) (ومنہا وقت الظہر) … (ومنہا الجماعۃ) … الخ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السادس عشر: في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۵، ۲۰۶)وکرہ) تحریما (لمعذور ومسجون) ومسافر (أداء ظہر بجماعۃ في مصر) قبل الجمعۃ وبعدہا لتقلیل الجماعۃ وصورۃ) المعارضۃ وأفاد أن المساجد تغلق یوم الجمعۃ إلا الجامع وکذا أہل مصر فاتتہم الجمعۃ) فإنہم یصلون الظہر بغیر أذان ولا إقامۃ ولا جماعۃ، ویستحب للمریض تأخیرہا) إلی فراغ الإمام وکرہ إن لم یؤخر ہو الصحیح۔قولہ: وکذا أہل مصر إلخ) الظاہر أن الکراہۃ ہنا تنزیہیۃ لعدم التقلیل والمعارضۃ المذکورین، ویؤیدہ ما في القہستاني عن المضمرات: یصلون وحدانا استحبابا قولہ: (بغیر أذان ولا إقامۃ) قال في الولوالجیۃ: ولا یصلي یوم الجمعۃ جماعۃ بمصر ولایؤذن ولا یقیم في سجن وغیرہ لصلاۃ الظہر اہـ قال في النہر: وہذا أولیٰ مما في السراج معزیا إلی جمع التفاریق من أن الأذان والإقامۃ غیر مکروہین۔ قولہ: (ویستحب للمریض) عبارۃ القہستاني: المعذور وہي أعم۔ قولہ: (وکرہ) ظاہر قولہ: ’’یستحب‘‘ أن الکراہۃ تنزیہیۃ، نہر، وعلیہ فما في شرح الدرر للشیخ إسماعیل عن المحیط من عدم الکراہۃ اتفاقا محمول علی نفی التحریمیۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في شروط وجوب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۳۳)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 160
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:فجر کی نماز کے وقت جان بوجھ کر سونے والا شخص تارک نماز اور گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے، انتہائی درجہ محروم القسمت ہے۔ وقت پر اٹھنے اور ادا نماز پڑھنے کی عادت بنانی واجب ہے۔{فَخَلَفَ مِنْ م بَعْدِھِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَاتَّبَعُوا الشَّھَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّاہلا ۵۹}(۱)’’عن جابر رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: بین العبد وبین الکفر ترک الصلاۃ‘‘(۲)’’عن عبد اللّٰہ بن عمرو عن رسول اللّٰہ علیہ وسلم أنہ ذکر الصلاۃ یوما فقال من حافظ علیہا کانت لہ نوراً وبرہانا ونجاۃ یوم القیمۃ ومن لا یحافظ علیہا لم یکن لہ برہان ولا نور ولا نجاۃ وکان یوم القیمۃ مع قارون وہامان وفرعون وأبي بن خلف‘‘(۳)’’عن نوفل بن معاویۃ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال من فاتتہ الصلاۃ فکأنہا وتر أہلہ ومالہ‘‘(۴)’’قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم العہد الذي بیننا وبینہم الصلاۃ فمن ترکہا فقد کذا‘‘(۱){مَاسَلَکَکُمْ فِيْ سَقَرَہ۴۲ قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَہلا ۴۳وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَہلا۴۴}(۲)
(۱) سورۃ مریم: ۵۹۔(۲) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا: باب ما جاء فیمن ترک الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۷۵، رقم: ۱۰۷۸، دار الإشاعت، دیوبند۔(۳) صحیح ابن حبان، ’’باب ذکر الزجر عن ترک المرء المحافظ‘‘: ج ۴، ص: ۳۲۹، رقم: ۱۴۶۷، دار الکتب العلمیہ، بیروت۔(۴) أخرجہ أحمد بن حنبل، في مسندہ: ج ۳۹، ص: ۴۹، رقم: ۲۳۶۴۲، دار الکتب العلمیہ، بیروت۔
(۱) أیضاً: ’’ ‘‘: ج ۳۸، ص: ۲۰، رقم: ۲۲۹۳۷۔(۲) سورۃ المدثر: ۴۲ تا ۴۴۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 159
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں پہلے قضاء شدہ نمازیں پڑھے پھر اگر وقت بچ جائے تو تہجد و نوافل وغیرہ پڑھ سکتا ہے۔(۱)(۱) (ویجوز تأخیر الفوائت) وإن وجبت علی الفور لعذر السعی علی العیال (وفي الحوائج علی الأصح، أي ما یحتاجہ لنفسہ من جلب نفع ودفع ضرہ وأما النفل فقال في المضمرات: الاشتغال بقضاء الفوائت أولٰی وأہم من النوافل إلا سنن المفروضۃ وصلاۃ الضحی وصلاۃ التسبیح والصلاۃ التی رویت فیہا الأخبار اہـ ط: أي کتحیۃ المسجد والأربع قبل العصر والست بعد المغرب۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت، مطلب: في بطلان الوصیۃ بالختمات والتہالیل‘‘: ج ۲، ص: ۵۳۵، ۵۳۶)والاشتغال بقضاء الفوائت أولیٰ وأہم من النوافل إلا السنۃ المعروفۃ وصلاۃ الضحی وصلاۃ التسبیح والصلاۃ التي وردت في الأخبار، فتلک بنیۃ النفل وغیرہا بنیۃ القضاء کذا في المضمرات عن الظہیریۃ وفتاوی الحجۃ، ومرادہ بالسنۃ المعروفۃ المؤکدۃ وقولہ: وغیرہا بنیۃ القضاء مرادہ بہ أن ینوی القضاء إذا أراد فعل غیر ما ذکر فإنہ الأولیٰ بل المتعین۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب فضاء الفوائت‘‘: ص: ۴۴۷)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 158
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ بچہ نے نا بالغ ہونے کی صورت میں جو عشاء کی نماز پڑھی وہ نفل ہوئی اور رات میں عشاء کا وقت باقی تھا جب کہ وہ بالغ ہوگیا تو اس پر عشاء کی نماز فرض ہوگئی اگر اس وقت غسل کرکے عشاء کی فرض نماز نہ پڑھی تو اس پر عشاء کی نماز کی قضاء لازم ہوگئی۔(۲)(۲) صبي صلی العشاء ثم نام واحتلم، وانتبہ قبل طلوع الفجر، یقضي العشاء۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الحادي عشر: في قضاء الفوائت‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۱)وفي الفتاوی الظہیریۃ: صبي بلغ قبل الزوال ونصراني أسلم ونویا الصوم قبل الزوال لایجوز صومہا عن الفرض غیر أن الصبي یکون صائما عن التطوع بخلاف الکافر؛ لفقد الأہلیۃ في حقہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الصوم: فصل في العوارض‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۶)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 157
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں غور کیا جائے کہ بالغ ہونے کے بعد سے اب تک کتنی نمازیں اور روزوں کی قضا کرنی لازم ہے صرف توبہ اس کے لئے کافی نہیں ہے، نمازوں اور روزوں کی قضا کی جائے اور لاپرواہی کی وجہ سے جو تاخیر ہوئی ہے اس کے لیے توبہ و استغفار کریں۔(۱)(۱) فالأصل فیہ أن کل صلاۃ فاتت عن الوقت بعد ثبوت وجوبہا فیہ فإنہ یلزم قضاؤہا، سواء ترکہا عمداً أو سہواً، أو بسبب نوم، وسواء کانت الفوائت قلیلۃ أو کثیرۃ۔ (ابن نجیم، البحرالرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۱)کثرت الفوائت نوی أول ظہر علیہ أو آخرہ۔ قولہ: (کثرت الفوائت إلخ) مثالہ: لو فاتہ صلاۃ الخمیس والجمعۃ والسبت فإذا قضاہا لا بد من التعیین، لأن فجر) الخمیس مثلاً غیر فجر الجمعۃ، فإن أراد تسہیل الأمر، یقول: أول فجر مثلاً، فإنہ إذا صلاہ یصیر ما یلیہ أولا، أو یقول: آخر فجر،فإن ما قبلہ یصیر آخرا، ولا یضرہ عکس الترتیب؛ لسقوطہ بکثرۃ الفوائت۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت، مطلب: إذا أسلم المرتد ہل تعود حسناتہ أم لا؟‘‘: ج ۲، ص: ۵۳۸)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 156
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر وہ صاحب ترتیب ہے تو پہلے اپنی فجر کی نماز قضا کرے اس کے بعد جتنا بھی ہوسکے خطبہ سنے۔(۱)(۱) الترتیب بین الفائتۃ والوقتیۃ وبین الفوائت مستحق۔ حتی لایجوز أداء الوقتیۃ قبل قضاء الفائتۃ۔ وکذا بین الفروض والوتر۔ ہکذا في شرح الوقایۃ، ولو صلی الفجر وہو ذاکر أنہ لم یوتر فہي فاسدۃ عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ۔ ولو تذکر فائتۃ في تطوعہ لم یفسد تطوعہ۔ لأن الترتیب عرف واجبا في الفرض بخلاف القیاس فلا یلحق بہ غیرہ۔ کذا في محیط السرخسي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الحادي عشر، في قضاء الفوائت‘‘: ج۱، ص: ۱۸۱)وکذا الترتیب بین نفس الفوائت القلیلۃ مستحق أي لازم لأنہ فرض عملي یفوت الجواز بفوتہ والأصل في لزوم الترتیب، قولہ علیہ الصلاۃ والسلام: من نام عن صلاۃ أو نسیہا فلم یذکرہا إلا وہو یصلي مع الإمام فلیصل التي ہو فیہا ثم لیقض التي تذکرہا ثم لیعید التي صلی مع الإمام۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت‘‘: ص: ۴۴۱)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 155
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جائز ہے۔ اگر ایک سے زائد افراد کی ایک ہی وقت کی نماز قضاء ہو جائے اور وہ ایک ہی جگہ قضا نماز پڑھ رہے ہوں تو ان کا باجماعت قضاء کرنا درست ہے، اگر جہری نماز کی قضاء باجماعت پڑھی جا رہی ہے تو امام جہراً قرأت کرے اور سری نماز میں سرا قرأت کرے۔غزوہ خندق کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فوت شدہ نمازوں کو باجماعت ادا کیا ہے؛ البتہ اپنی غفلت سے نماز قضاء کرنا گناہ کبیرہ ہے، اگر کبھی ایسا ہو جائے تو لوگوں سے چھپ کر جماعت کرے۔’’ومتی قضی الفوائت إن قضاہا بجماعۃ فإن کانت صلاۃ یجہر فیہا، یجہر فیہا الإمام بالقراء ۃ، وإن قضاہا وحدہ یتخیر بین الجہر والمخافتۃ، والجہر أفضل کما في الوقت، ویخافت فیما یخافت فیہ حتما‘‘(۱)(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الحادي عشر في قضاء الفوائت‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۱۔روي أنہ علیہ السلام شغلہ المشر کون عن أربع صلوات یوم حفر الخندق حتی ذہب من اللیل ما شاء اللّٰہ تعالیٰ فأمر بلالا فأذن ثم أقام فصلی الظہر ثم أقام فصلی العصر ثم أقام فصلی المغرب ثم أقام فصلی العشاء۔ (أحمد بن إسماعیل الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت‘‘: ص: ۴۴۱)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 154
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر جماعت کے شروع کئے جانے کا وقت ہوگیا تھا تو جماعت کے شروع کرنے میں تاخیر نہ کرتے ہوئے جماعت شروع کردینا صحیح تھا اپنی سنتیں ترک ہونے کی بنا پر نمازیوں کو انتظار کرانا غلط ہوتا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ سوال کون سی سنتوں سے متعلق ہے؟ سوال میں اس کی تصریح نہیں۔ اگر یہ واقعہ فجر کی سنتوں کا ہے تو وہ مؤکدہ ہیں ان کی تاکید بھی ثابت ہے اگر جماعت سے قبل وہ نہیں پڑھ سکے تھے تو طلوع آفتاب کے بعد امام کو وہ پڑھنی چاہئے تھیں(۱) اس لیے امام صاحب کا جواب قطعاً نامناسب تھا اور اگر ظہر کے فرض سے قبل کی سنتوں سے متعلق سوال ہے تو وہ بھی مؤکدہ ہیں؛ اگرچہ فجر کی سنتوں سے درجہ میں کم ہیں؛ لیکن فرض کے بعد دو سنتیں پڑھ کر ان چار سنتوں کو پڑھنا چاہئے۔(۲) اس اعتبار سے بھی امام صاحب کا جواب صحیح نہیں اور اس جواب سے دوسرا اہم نقصان یہ ہے کہ مصلیوں کے ذہن سے سنتوں کی اہمیت ختم ہونے کا قوی اندیشہ ہے؛ امام صاحب کو اپنا ذہن، دماغ اور زبان قابو میں رکھنی چاہئے کہ غلط الفاظ کا نمازیوں پر غلط اثر ہوتا ہے اور اس کا گناہ امام ہی کو ہوتا ہے۔(۱) واذا خاف فوت رکعتي الفجر لاشتغالہ بسنتہا ترکہا وإلا لا، ولا یقضیہا إلا بطریق التبعیۃ لقضاء فرضہا قبل الزوال لابعدہ في الأصح۔ أي لا یقضی سنۃ الفجر إلا إذا فاتت مع الفجر فیقضیہا تبعاً لقضائہ لو قبل الزوال، وأما إذا فاتت وحدہا فلا تقضی قبل طلوع الشمس بالإجماع بکراہۃ النفل بعد الصبح، وأما بعد طلوع الشمس فکذلک عندہما، وقال محمد: أحب إلی أن یقضیہا إلی الزوال کما في الدرر، قیل: ہذا قریب من الاتفاق۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب إدراک الفریضۃ، مطلب ہل الإسائۃ دون الکراہۃ أو أفحش‘‘: ج ۲، ص: ۵۱۰)
(۲) بخلاف سنۃ الظہر فانہ یترکہا ویقتدي ثم یأتي بہا علی أنہا سنۃ في وقتہ أي الظہر قبل شفعہ عند محمد وبہ یفتی۔ (أیضاً: ص: ۵۱۴)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 153