Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
Ref. No. 2045/44-2184
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ امام صاحب کا تعویذپر پیسے لینا جائز ہےبشرطیکہ تعویذ کے مشمولات درست ہوں اور اس کو تجارت نہ بنایاجائے، پھر ان کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نماز درست ہوجائے گی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 2194/44-2396
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر آسمان ابر آلود نہ ہو تو حضرات فقہا نے رویت ہلال کے لئے جم غفیر کی رویت کو ضروری قرار دیا ہے، البتہ جم غفیر کی تفسیر کیا ہے، اس سلسلہ میں مختلف اقوال ہیں، اور صحیح قول یہ ہے کہ جن لوگوں کی خبر پر امام یا کمیٹی کو اعتماد ہو اس کے مطابق فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ لہذا اگر رویت ہلال کی خبر دینے والوں میں کبھی اتفاق ایسا ہو کہ صرف عورتیں ہی ہوں، اور وہاں یا تو مرد نہ ہوں یا مردوں نے کسی مصروفیت کی بنا پر چاند دیکھنے کا اہتمام نہ کیا ہو، تو تنہا عورتوں کی خبر پر اعتماد کیا جا سکتا ہے، جس طرح کہ آسمان کے ابر آلود ہونے کی صورت میں تنہا ایک عورت کی خبر بھی قبول کر لی جاتی ہے۔
وإذالم تكن بالسماءعلة لم تقبل الشهادة حتى يراه جمع كثير يقع العلم بخبرهم"
لأن التفردبالرؤية في مثل هذه الحالة يوهم الغلط فيجب التوقف فيه حتى يكون جمعاكثيرا ثم قيل في الكثيرأهل المحلة وعن أبي يوسف رحمه الله خمسون رجلا اعتبارا بالقسامة (بداية، 216/1)
فإن كانت السماء مصحية ورأى الناس الهلال صاموا وإن شهد واحد برؤية الهلال لاتقبل شهادته ما لم تشهد جماعة يقع العلم للقاضي بشهادتهم، في ظاهرالرواية ولم يقدرفي ذلك تقديرا- وجه رواية الحسن – رحمه الله تعالى – أن هذامن باب الإخبارلامن باب الشهادة، بدليل أنه تقبل شهادةالواحدإذاكان بالسماءعلة ولوكان شهادةلما قبل- لأن العدد شرط في الشهادات وإذاكان إخبارا لاشهادة فالعدد ليس بشرط في الإخبارعن الديانات، وإن كانت السماء متغيمة تقبل شهادة الواحد بلاخلاف بين أصحابنا، سواءكان حرا،أوعبدا رجلاأوامرأة غيرمحدود في قذف أومحدودا تائبا، بعدأن كان مسلماعاقلا بالغا عدلا (بدائع، 220/2)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2268/44-2427
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پاک پانی میں اگر کسی محدث نے( جس کا وضو نہیں تھایا غسل نہیں تھا) ہاتھ ڈال دیا اس حال میں کہ اس کے ہاتھ پر کوئی نجاست نہیں تھی تو وہ پانی ناپاک نہیں ہوگااور وہ مستعمل پانی کےحکم میں نہیں ہوگا۔ ماء مستعمل اس قلیل پانی کو کہتے ہیں جس کو حدث دور کرنے کے لئے یا قربت کی نیت سے استعمال کیاگیا ہو۔
الدر المختار مع رد المحتار: (197/1، ط: دار الفکر)
(ولايجوز)۔۔۔۔بماء (استعمل ل) أجل (قربة) أي ثواب ولو مع رفع حدث أو من مميز أو حائض لعادة۔۔۔۔(وهو طاهر) ولو من جنب وهو الظاهر۔۔۔(و) حكمه أنه (ليس بطهور) لحدث بل لخبث على الراجح المعتمد.
(قوله: على الراجح) مرتبط بقوله بل لخبث: أي نجاسة حقيقية، فإنه يجوز إزالتها بغير الماء المطلق من المائعات۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 2289/44-3455
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والد کی حیات میں والد کےساتھ کام کرنے والے درحقیقت والدکا تعاون کرتے ہیں اور اصل مالک اس کاروبار کے والد ہی ہوتے ہیں ، اولاد کی شرکت والد کے کام میں از راہ تبرع ہوتی ہے، اس لئے والد کی حیات میں جو بھی زمین خریدی گئی جو والد کی جانب منسوب ہے تو اس کی تقسیم میں پانچواں بھائی بھی برابر کا شریک ہوگا، البتہ جس زمین یا مکان یا دوکان کو والد نے خاص طور پر کسی لڑکے یا لڑکی کو دے کر مالک بنادیا ہو تو وہ اس کا اپنا ذاتی ہوگا جس میں دوسروں کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔
سئل في رجل مات عن ثلاثۃ أولاد ذکور وکان في حیاتہ معہ من الثلاثۃ إثنان في کسبٍ واحدٍ ومعیشۃ واحدۃٍ والثالث من حَمَلَۃِ القرآن في معیشۃ علی حدتہٖ وجمیع کسب المیت والولدین لا یتمیز الخ أجاب: جمیع ما ترکہ الأب المذکور یقسم بین أولادہ الثلاثۃ بالسویۃ حیث لا وارث لہ سواہم ولیس للاثنین الذین ہما في عائلۃ أبیہم ومعیناہُ لہ منع أخیہما عما یخصہ في ترکۃ والدہ بدون وجہ شرعي۔ (فتاویٰ مہدیہ (۲/۳۱۴ مصر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مزارات پر جو چیزیں شیرنی وغیرہ چڑھائی جاتی ہیں وہ غیر اللہ کے نام پر ہونے کی وجہ سے حرام وناجائز ہوں گی(۱) بہتر یہ ہے کہ ان چیزوں کو مالکوں کو واپس کردیا جائے؛ لیکن اگر مالکوں کا پتہ نہ چل سکے تو ان چیزوں کو بدرجہ مجبوری غیر مسلموں کو فروخت کردی جائے اور اس کی قیمت کسی غریب کو بلا نیت ثواب دیدیں یا یہی سامان غریبوں کو دیدیں۔(۲)
(۱) {وَ مَا أُہِلَّ بِہِ لِغَیْرِ اللّٰہِ} (سورۃ البقرۃ: ۱۷۳)
إن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء العظام تقرباً إلیہم فہو بالاجماع باطل وحرام۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم ومالا یفسدہ، مطلب في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳،ص: ۴۲۷)
(۲) وإلا تصدقوا بہا لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: باب الاسبراء وغیرہ، فصل في البیع‘‘: ج۹، ص: ۵۵۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص362
اسلامی عقائد
Ref. No. 2480/45-3770
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہر شخص کو شرعی طور پر اس کا اختیار ہوتاہے کہ وہ اپنی مملوکہ چیز کوجس قیمت پر چاہے گاہک کے ساتھ باہمی رضامندی سے فروخت کرے، شرعا نفع کی کوئی حد متعین نہیں ہے،تاہم مارکیٹ ریٹ سے زیادہ مہنگے داموں پر فروخت کرنا مناسب نہیں ہے۔ البتہ اگر کوئی میڈیکل اسٹور کسی کمپنی کا ڈیلر ہے یا کسی کمپنی سے کوئی معاہدہ ہے تو پھر وہ کمپنی کی طرف سے مقرر کردہ قیمت پرہی بیچنے کا پابندہے، معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے زیادہ قیمت پر بیچنے کی صورت میں گنہگار ہوگا۔ البتہ اضافی نفع کو ناجائز نہیں کہاجائے گا، بشرطیکہ حرمت کی کوئی اور وجہ نہ پائی جائے۔
والثمن ما تراضی علیہ المتعاقدان سواء زاد علی القیمة أو نقص (درمختار مع الشامي: ۷/۱۲۲، ط: زکریا)
وللبائع ان یبیع بضاعتہ بما شاء من ثمن، ولا یجب علیہ ان یبیعھا بسعر السوق دائما. (بحوث فی قضایا فقھیة معاصرۃ: (13/1، ط: دار القلم)
المسلمون علی شروطھم الا شرطا حرم حلالا او احل حراماً (سنن الترمذی: (ابواب الاحکام، 251/1، ط: مکتبة بلال دیوبند)
لا ينبغي مخالفة هذا السعر، إما لأن طاعة الإمام فيما ليس بمعصية واجب، وإما لأن كل من يسكن دولة فإنه يلتزم قولا أو عملا بأنه يتبع قوانينها، و حينئذ يجب عليه اتباع أحكامها، مادامت تلك القوانين لا تجبر على معصیة دينية. (بحوث في قضايا فقهية معاصرة: (ص: 169، ط: دار القلم)
فإن كان أرباب الطعام يتحكمون ويتعدون عن القيمة تعديا فاحشا، وعجز القاضي عن صيانة حقوق المسلمين إلا بالتسعير فحينئذ لا بأس به بمشورة من أهل الرأي والبصيرة، فإذا فعل ذلك وتعدى رجل عن ذلك وباع بأكثر منه أجازه القاضي. (الهداية: (378/4، ط: دار احیاء التراث العربی)
وَاَوْفُوْا بِالْعَهْدِ ۖ اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُوْلًاo (القرآن الکریم: (الاسراء، الایة: 34)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جو حدیث سوال میں مذکورہ ہے، وہ بعض کے نزدیک متکلم فیہ ہے؛ تا ہم مذکورہ صورت میں حدیث شریف سے مؤمن کا جھوٹا پینے کا وجوب ثابت نہیں ہوتا؛ بلکہ اباحت واستحباب کا ثبوت ہے۔ اور وہ بھی کمالِ ایمان کے ساتھ؛ اس لئے کہ ’’المؤمن‘‘ پر ’’الف، لام‘‘ سے کمالِ ایمان پر دلالت ہے، اور اس صورت میں واضح ہے کہ اگر دیگر عوارض بیڑی، سگریٹ یا کسی اور مرض وغیرہ کی وجہ سے کراہت ہو، تو اس کے جھوٹے سے احتراز میں کوئی حرج نہیں ہے اور اگر کوئی صاحبِ ایمان ایسا ہے کہ اس میں کراہت کی کوئی وجہ نہ ہو، تو خوامخواہ اس کے جھوٹے سے کراہت بھی درست نہیں؛ بلکہ کسی صاحب نسبت کا جھوٹا ہو، تومستحسن ہے۔(۱)
(۱) وأما حدیث (سؤر المؤمن شفاء) فغیر معروف۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الحج: باب خطبۃ یوم النحر ورمي أیام التشریق‘‘: ج ۵، ص: ۱۸۳۹، رقم: ۲۶۶۶)
حدیث ریق المؤمن شفاء کذا سؤر المؤمن شفاء لیس لہ اصل مرفوع۔ (ملا علي القاري، المصنوع، في معرفۃ الحدیث الموضوع: ج ۱، ص: ۱۰۶، رقم: ۱۴۴)
عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما، قال: سمعت أبي یقول: سمعت عمر بن الخطاب یقول: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: (کلوا جمیعاً، ولا تفرقوا، فإن البرکۃ مع الجماعۃ)۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب الأطعمۃ: باب الاجتماع علی الطعام‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۶، رقم: ۳۲۸۷)
عن ابن عباس رفعہ من التواضع أن یشرب الرجل مع سؤر أخیہ۔ (شمس الدین ابن محمد، المقاصد الحسنۃ: ج ۱، ص: ۲۷۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص88
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جس ڈھیلے سے استنجا کر لیا گیا ہے، پھر دوبارہ اسی سے استنجا کرنا درست نہیں ہے؛ البتہ اگر اس کے دوسرے کنارے سے استنجا کرے، تو پاکی حاصل ہوجائے گی۔(۲)
(۲) وکرہ تحریما بعظم و طعام و روث یابس کعذرۃ یابسۃ و حجر استنجی بہ إلابطرف آخر أي لم تصبہ النجاسۃ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب إذا دخل المستنجي في ماء قلیل،‘‘ ج۱، ص:۵۵۱)؛ ولا یستنجی بالأشیاء النجسۃ، و کذا لا یستنجی بحجر استنجی بہ مرۃ ھو أو غیرہ إلا إذا کان حجراً لہ أحرف، لہ أن یستنجي کل مرۃ بطرف لم یستنج بہ فیجوز من غیر کراھۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الثالث في الاستنجاء،‘‘ ج۱،ص:۱۰۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص91
طلاق و تفریق
Ref. No. 2707/45-4184
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ "جا میں نے تجھے چھوڑدیا" یہ جملہ طلاق کے لئے صریح ہے، اس لئے بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں اس جملہ سے بیوی پر طلاق واقع ہوگئی، اگر ایک مرتبہ بولا تو ایک طلاق،اور دو مرتبہ بولا تو دو طلاقیں رجعی واقع ہوگئیں۔ اب اگر عورت عدت میں ہے اور تین ماہواری ابھی پوری نہیں گزری ہے تو شوہر رجعت کرسکتاہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر بیوی سے کہے کہ میں نے تجھ کو اپنی نکاح میں واپس لے لیا یا میاں بیوی والا تعلق قائم کرلے۔پھر یہ دونوں میاں بیوی ایک ساتھ رہ سکتے ہیں اور نکاح وغیرہ کی ضرورت نہیں ہوگی ۔ البتہ شوہر آئندہ طلاق دینے میں بہت احتیاط کرے کیونکہ اگر یہ دو طلاق ہوچکیں تو آئندہ صرف ایک طلاق دینے سے عورت بالکل حرام ہوجائے گی اور نکاح بھی نہیں ہوسکے گا۔
وإذا قال رہا کردم أي سرحتک یقع بہ الرجعي مع أن أصلہ کنایة أیضًا وما ذاک إلا لأنہ غلب في عرف الفرس استعمالہ في الطلاق وقد مر أن الصریح ما لم یستعمل إلا في الطلاق من أي لغةٍ کانت،( فتاوی شامی، كتاب الطلاق)
"(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) ... (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة ( بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس.
(قوله: بنحو راجعتك) الأولى أن يقول بالقول نحو راجعتك ليعطف عليه قوله الآتي وبالفعل ط، وهذا بيان لركنها وهو قول، أو فعل... (قوله: مع الكراهة) الظاهر أنها تنزيه كما يشير إليه كلام البحر في شرح قوله والطلاق الرجعي لا يحرم الوطء رملي، ويؤيده قوله في الفتح - عند الكلام على قول الشافعي بحرمة الوطء -: إنه عندنا يحل لقيام ملك النكاح من كل وجه، وإنما يزول عند انقضاء العدة فيكون الحل قائماً قبل انقضائها. اهـ. ... (قوله: كمس) أي بشهوة، كما في المنح". الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 397):
"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية". (الفتاوی الهندیة، ج:3، ص: 473، ط: ماجدية)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ امام کے پیچھے شرعاً نماز جائز و درست ہے۔(۲)
(۲) وإن قدموا غیر الأولیٰ فقد أساؤا ولکن لا یأثمون وفیہ لوأمّ قوماً وہم لہ کارہون فہو علی ثلاثۃ أوجہ: إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ أو کانوا أحق بالإمامۃ منہ یکرہ: وإن کان ہو أحق بہا منہم ولافساد فیہ ومع ہذا یکرہونہ لایکرہ لہ التقدم۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۱، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص55