طلاق و تفریق

Ref. No. 1861/43-1716

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عورت نے تین طلاق کا دعوی کیا ہے، اور شوہر انکار کرہاہے ، توایسی صورت میں عورت پر لازم ہے کہ بینہ اور گواہ پیش کرے، اگر عورت اپنے دعوی پر بینہ پیش کردے تو اس کے حق میں فیصلہ  کردیا جائے گا، اور  اگر اس کے دعوی پر کوئی دلیل نہ ہو تو شوہر سے حلف لیا جائے گا،  اگر شوہر حلف اٹھانے سے انکار کرے تو بھی عورت کے حق میں فیصلہ کردیاجائے گا، اور اگر حلف اٹھاتاہے تو اب مرد کے حق میں فیصلہ ہوگا، اور یہ عورت اس کی بیوی  رہے گی، نہ تو عدت گزارے گی، نہ کسی اور مرد سے شادی کرے گی، بلکہ نان و نفقہ بھی  شوہر پر ہی ہوگا ۔ لیکن ایسی صورت میں جبکہ عورت کو تین طلاق کا یقین ہے، اس کو چاہئے  کہ مرد کو اپنے اوپر قابو نہ دے، اور اس سے خلع حاصل کرنے کی کوشش کرے۔  بہتر ہے کہ اس مسئلہ میں  شرعی دارالقضاء سے رجوع کیاجائے۔

عن عمران بن حصین رضي اللّٰہ عنہ قال: أمر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بشاہدین علی المدعي، والیمین علی المدعی علیہ۔ (سنن الدار قطنی: (باب في المرأۃ تقتل إذا ارتدت، رقم الحدیث: 4466)  والمرأۃ کالقاضي إذاسمعتہ أو أخبرہا عدل لا یحل لہا تمکینہ … فإن حلف ولا بینۃ لہا فالإثم علیہ۔ (رد المحتار: (251/3)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1946/44-1861

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر ناپاکی کا یقین ہو تو پھر چاہے بو یا ذائقہ محسوس نہ ہو  توبھی کپڑا ناپاک ہوجائے گا۔ اور اگر چھینٹیں ناپاک ہیں یا پاک ہیں اس بارے میں شک ہو اور نجاست کا کوئی اثر ظاہر نہ ہو تو پھر ان کو پاک ہی شمار کیا جائے گا اور ان کپڑوں  میں نماز درست ہوگی۔

"فتاوی شامی" (1/ 324) میں ہے : "مطلب في العفو عن طين الشارع: قوله: وطين شارع) مبتدأ خبره قوله: عفو والشارع الطريق ط. وفي الفيض: طين الشوارع عفو وإن ملأ الثوب للضرورة ولو مختلطا بالعذرات وتجوز الصلاة معه. اهـ. . وقدمنا أن هذا قاسه المشايخ على قول محمد آخرا بطهارة الروث والخثي، ومقتضاه أنه طاهر لكن لم يقبله الإمام الحلواني كما في الخلاصة. قال في الحلية: أي: لا يقبل كونه طاهرا وهو متجه، بل الأشبه المنع بالقدر الفاحش منه إلا لمن ابتلي به بحيث يجيء ويذهب في أيام الأوحال في بلادنا الشامية لعدم انفكاك طرقها من النجاسة غالبا مع عسر الاحتراز، بخلاف من لايمر بها أصلاً في هذه الحالة فلايعفى في حقه حتى إن هذا لايصلي في ثوب ذاك. اهـ.

أقول: والعفو مقيد بما إذا لم يظهر فيه أثر النجاسة كما نقله في الفتح عن التجنيس. وقال القهستاني: إنه الصحيح، لكن حكى في القنية قولين وارتضاهما؛ فحكى عن أبي نصر الدبوسي أنه طاهر إلا إذا رأى عين النجاسة، وقال: وهو صحيح من حيث الرواية وقريب من حيث المنصوص؛ ثم نقل عن غيره فقال: إن غلبت النجاسة لم يجز، وإن غلب الطين فطاهر. ثم قال: وإنه حسن عند المنصف دون المعاند اهـ.

والقول الثاني مبني على القول بأنه إذا اختلط ماء وتراب وأحدهما نجس فالعبرة للغالب، وفيه أقوال ستأتي في الفروع.
والحاصل أن الذي ينبغي أنه حيث كان العفو للضرورة، وعدم إمكان الاحتراز أن يقال بالعفو وإن غلبت النجاسة ما لم ير عينها لو أصابه بلا قصد وكان ممن يذهب ويجيء، وإلا فلا ضرورة. وقد حكى في القنية أيضًا قولين فيما لو ابتلت قدماه مما رش في الأسواق الغالبة النجاسة، ثم نقل أنه لو أصاب ثوبه طين السوق أو السكة ثم وقع الثوب في الماء تنجس
". 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2042

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ کاروبار میں عمر کے پیسے اور زید کی زمین استعمال ہوئی، مگر اس تجارت میں کوئی فائدہ نہیں ہوا، اور اب دونوں شریک شرکت ختم کرنا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ اگر کچھ نفع ہوا ہے تو اس کو دونوں کے درمیان شرط کے مطابق تقسیم کرلیا جائے،  اور اگر بالکل  نفع نہیں ہوایا نقصان ہوگیا  تو اب جو کچھ سرمایہ بچا ہے وہ معر کا ہوگا، اس میں سے زید کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ عمر اگر اپنے طور پر از راہِ سلوک  کچھ دیدے تو الگ بات، لیکن شرعا کچھ دینا لازم نہیں ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء            

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 2183/44-228

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلاق کے تکلم کے وقت بیوی  کی جانب طلاق کی نسبت صراحۃً یا اشارۃ یا دلالۃ ہونا  ضروری ہے۔  اگر جنید نے تنہائی میں طلاق کا تکلم کیا اور بیوی کا صرف تصور کیا توطلاق واقع نہیں ہوگی۔ اور اگر بیوی کی جانب طلاق کو منسوب کیا تھا تو اب طلاق کے الفاظ زبان سے نکلتے ہی طلاق واقع ہوجائے گی، نیت طلاق کی رہی ہویا نہ رہی ہو۔ صریح الفاظ میں نیت معتبر نہیں ہوتی ہے۔

"أما الصريح فهو اللفظ الذي لا يستعمل إلا في حل قيد النكاح، وهو لفظ الطلاق أو التطليق مثل قوله: " أنت طالق " أو " أنت الطلاق، أو طلقتك، أو أنت مطلقة " مشددا، سمي هذا النوع صريحا؛ لأن الصريح في اللغة اسم لما هو ظاهر المراد مكشوف المعنى عند السامع من قولهم: صرح فلان بالأمر أي: كشفه وأوضحه، وسمي البناء المشرف صرحا لظهوره على سائر الأبنية، وهذه الألفاظ ظاهرة المراد؛ لأنها لا تستعمل إلا في الطلاق عن قيد النكاح فلا يحتاج فيها إلى النية لوقوع الطلاق؛ إذ النية عملها في تعيين المبهم ولا إبهام فيها." (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع،کتاب الطلاق، فصل في النية في أحد نوعي الطلاق وهو الكناية، 3/101، ط: دارالکتب العلمیة)

وقد مر ان الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لايستعمل عرفا الافيه من اي لغة كانت،وهذا في عرف زمانناكذالك فوجب اعتباره صريحا كما افتي المتاخرون في انت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلانية ۔ (ردالمحتار علي الدر المختار ،كتاب الطلاق ،باب الصريح ،مطلب الصريح نوعان رجعي وبائن(3 /252)ط:سعيد)

رد المحتار - (10 / 500):

"باب الصريح (صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة) بالتشديد قيد بخطابها، لأنه لو قال: إن خرجت يقع الطلاق أو لاتخرجي إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت لم يقع لتركه الإضافة إليها (ويقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح ، ويدخل نحو طلاغ وتلاغ وطلاك وتلاك أو " ط ل ق " أو " طلاق باش " بلا فرق بين عالم وجاهل ، وإن قال: تعمدته تخويفًا لم يصدق قضاء إلا إذا أشهد عليه قبله وبه يفتى."

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مزار پر جو کچھ چڑھایا گیا خواہ وہ از قبیلِ رقوم ہو یا مٹھائی وغیرہ ہوں وہ سب غیر اللہ کے نام پر ہے، جو قرآن کریم کی آیت {وما أہل لغیر اللّٰہ بہ} میں داخل ہے(۲)؛ اس لئے وہ مال حرام ہے اور جب مال حرام ہوا تو اس کو اپنی یا مدرسہ کی ضروریات میں صرف کرنا نیز مدرسہ کے بچوں پر صرف کرنا بھی ناجائز وحرام ہی ہے۔ (۳)

(۲) {وَ مَا أُہِلَّ بِہِ لِغَیْرِ اللّٰہِ} (سورۃ البقرۃ: ۱۷۳)       (۳) {وَلَا تَاْکُلُوْٓا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ} (سورۃ البقرۃ: ۱۸۸)
واعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام ما لم یقصدوا صرفہا لفقراء الأنام۔ (ابن عابدین، الد المختارمع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم ومالا یفسدہ، مطلب: في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳، ص:
۴۲۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص344

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:{وألنا لہ الحدید}(۱) (اور ہم نے ان کے لیے لوہا نرم کردیا) کی تفسیر میں ائمہ تفسیر حضرت حسن بصری، قتادہ، اعمش وغیرہم نے فرمایا: کہ یہ اللہ نے بطور معجزہ لوہے کو ان کے لیے موم کی طرح نرم بنادیا تھا (۲) دوسری بات: اللہ تعالیٰ کا ان کاموں کو اپنی طرف منسوب کرنا کہ میں نے ایسا کردیا اس بات کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے کہ یہ ایک معجزہ تھا، ایک خرق عادت امر تھا، نبی کے ہاتھ پر خرق عادت امر کا ظاہر ہونا ہی معجزہ کہلاتا ہے۔ تیسری بات: یہاں پر حضرت داؤد علیہ السلام کی خصوصیات کا بیان ہے اگر ان کو معجزہ نہ مانا جائے تو آپ علیہ السلام کے مخصوص فضل وشرف کے بیان میں ان کا شمار کرنا بے معنی ہوجائے گا (العیاذ باللہ)۔ چوتھی بات: ذاتی کارنامے دنیاوی اسباب پر منحصر ہوتے ہیں، جبکہ معجزات کی بنیاد اسباب پر نہیں ہوتی۔(۳)

(۱) {وَلَقَدْ أٰتَیْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلاً ط یٰجِبَالُ أَوِّبِيْ مَعَہٗ وَالطَّیْرَج وَأَلَنَّا لَہُ الْحَدِیْدَا ہلا ۱۰} (سورۃ سبأ: ۱۰)
(۲) مفتی محمد شفیع عثمانیؒ، معارف القرآن: ج ۷، ص: ۲۶۱۔
(۳) وقیل: ہو مرفوع بالابتداء والخبر محذوف، أي: والطیر تؤب وألنالہ الحدید وجعلناہ في یدہ کالشمع والعجین یصرفہ کما یشاء من غیر نار ولا ضرب مطرقۃ قالہ السیدي وغیرہ۔ وقیل: جعلناہ بالنسبۃ إلی قوتہ التي آتیناہا إیاہ لینا کالسمع بالنسبۃ إلی قوي سائر البشر أن الحمل سابقات إن مصدریۃ وہي علی إسقاط حرف الجرأی ألنا لہ الحدید یعمل سابقات أو أمرناہ بعمل سابقات الخ۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ السباء: ج ۱۰‘‘: ج ۱۱، ص: ۲۸۹)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص32

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایک عورت چا ر مردوں کو جہنم میں لے کر جائے گی۔ اس کے لیے عربی عبارت اس طرح ذکر کی جاتی ہے ’’إذا دخلت امرأۃ النار ادخلت معہا أربعۃ، أباہا و زوجہا و أخاہا و إبنہا‘‘۔ اس طرح صراحت کے ساتھ کوئی روایت میری نظرسے نہیں گزری ہے۔ غور کیا جائے، تو معلوم ہوتاہے کہ یہ روایت اصول شریعت کے بھی خلاف ہے؛ اس لیے کہ قرآن میں ہے {وَلَا  تَکْسِبُ کُلُّ  نَفْسٍ إِلَّا عَلَیْھَاج وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃ۔ٌ وِّزْرَ  أُخْرٰیج}(۱) کہ کل قیامت میں کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، یعنی کوئی کسی کے گناہ کی سزاکسی دوسرے کو نہیں دی جائے گی۔ اسی طرح دوسری آیت میں بھی یہی مضمون بیان کیا گیا ہے۔ {أَمْ لَمْ یُنَبَّأْ بِمَا فِي صُحُفِ مُوسَی{۳۶} وَإِبْرَاہِیمَ الَّذِي وَفَّی{۳۷} أَلا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ أُخْرَی{۳۸} وَأَنْ لَیْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَی}(۲) ایک حدیث ترمذی میں ہے کہ کوئی جنایت کرتا ہے، تو اس کی سزا اسی کو ہوگی، کسی کے باپ کے جرم کی سزا اس کے بیٹے کو یا بیٹے کے جرم کی سزا باپ کو نہیں دی جائے گی ’’إن دمائکم وأموالکم وأعراضکم بینکم حرام کحرمۃ یومکم ہذا في بلدکم ہذا، ألا لا یجني جان إلا علی نفسہ، ألا لا یجني جان علی ولدہ ولا مولود علی والدہ‘‘(۱)
حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی جہنم میں جائیں گی؛ لیکن ان کے شوہر حضرت لوط اور حضرت نوح علیہ السلام جنت میں جائیں گے؛ اس لیے اصول شریعت پر یہ حدیث منطبق نہیں ہوتی ہے؛ البتہ بعض دوسری روایات سے اس کی تائید ضرور ہوتی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ تم میں سے ہر ایک ذمہ دار اور نگراں ہے، اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ امام نگراں ہے، اس سے اس کی رعایہ کے بارے میں سوال کیا جائے گا اور مرد نگراں ہے، اس سے اس کی بیوی بچوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا، عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگراں ہے، اس سے اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
’’أن عبد اللّٰہ بن عمر، یقول: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: کلکم راع، وکلکم مسئول عن رعیتہ، الإمام راع ومسئول عن رعیتہ، والرجل راع في أہلہ وہو مسئول عن رعیتہ، والمرأۃ راعیۃ في بیت زوجہا ومسئولۃ عن رعیتہا، والخادم راع في مال سیدہ ومسئول عن رعیتہ‘‘(۲) بہت ممکن ہے کہ اس طرح کی روایت کو سامنے رکھ کر یہ مضمون بنایا گیا ہو، ورنہ سوال میں درج کردہ الفاظ احادیث کے ذخیرہ میں نہیں ملتے ہیں۔

(۱) سورۃ الأنعام: ۱۶۴۔
{وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُھُمْ أَوْلِیَآئُ بَعْضٍم یَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ  وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَیُطِیْعُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ ط أُولٰٓئِکَ سَیَرْحَمُھُمُ اللّٰہُط إِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌہ۷۱} (سورۃ التوبۃ: ۷۱)
(۲) سورۃ النجم: ۳۶ - ۳۹۔
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الفتن: باب ما جاء دماؤکم وأموالکم علیکم حرام‘‘: ج ۲، ص: ۱۸۸، رقم: ۲۱۵۹۔
(۲) أخرجہ البخاری، في صححیہ، ’’کتاب الجمعۃ: باب الجمعۃ، في القریٰ والمدن‘‘: ج ۱، ص: ۸۲۰، رقم: ۸۹۳
۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص79

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:نبیوں اور پیغمبروں کے وسیلہ سے دعا کرنے کی اجازت ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ کی جو رحمتیں ان کے ساتھ وابستہ ہیں ان کے صدقہ سے ہمارا کام ہوجائے؛ لیکن وسیلہ ضروری نہیں ہے (۱) صرف اللہ تعالیٰ کے فضل پر اکتفاء بھی درست ہے۔ (۲)
(۱) یحسن التوسل بالنبي إلی ربہ ولم ینکرہ أحد من السلف۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: فصل في البیع‘‘: ج ۶، ص: ۳۹۷)

(۲) وأن یسأل اللّٰہ تعالیٰ بأسمائہ الحسنی وصفاتہ العلی۔ (علامہ محمد بن محمد زجري شافعي، حصن حصین: ص: ۱۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص371

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مذکورہ میں بہتر ہے کہ کر رونا کٹ پہننے سے قبل وضو کر لیا جائے اور نماز با وضو ادا کی جائے، کٹ پہننے کے بعد اگر وضو ٹوٹ جائے، تو نماز سے قبل نیا وضو کرنا ہی ضروری ہوگا، جس طرح کٹ پہننے کی حالت میں استنجا کیا جا سکتا ہے، اسی طرح وضو بھی کیا جا سکتا ہے، بے وضو نماز ادا کرنا جائز نہیں اس صورت میں نماز ادا نہ ہوگی، نیز مسئولہ صورت میں چوں کہ تیمم کے جائز ہونے کے اسباب میں سے کوئی سبب بھی نہیں پایا جاتا ہے، لہٰذا تیمم کی بھی اجازت نہ ہوگی۔
’’عن مصعب بن سعد، قال: دخل عبد اللّٰہ بن عمر علی ابن عامر یعودہ وہو مریض، فقال: ألا تدعو اللّٰہ لي یا ابن عمر؟ قال: إني سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: لا تقبل صلاۃ بغیر طہور ولا صدقۃ من غلول، وکنت علی البصرۃ‘‘(۱)
’’ثم الشرط ہي ستۃ طہارۃ بدنہ من حدث بنو عیہ وقدمہ لأنہ أغلط وخبث‘‘(۲)
’’ہي طہارۃ بدنہ من حدث وخبث وثوبہ ومکانہ أما طہارۃ بدنہ من الحدث فبآیۃ الوضوء والغسل ومن الخبث فبقولہ علیہ السلام تنزہوا من البول فإن عامۃ عذاب القبر‘‘(۳)

(۱)  أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب وجوب الطہارۃ للصلاۃ: ج ۱، ص: ۱۱۹، رقم: ۲۲۴۔
(۲)  ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۳۔
(۳)  ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۶۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص188

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:نفاس کے لئے چالیس دن پورے کرنے ضروری نہیں ہے، جب خون نفاس بند ہو جائے تو نفاس ختم ہو گیا، اب وہ عورت غسل کرے نماز پڑھے، ورنہ تو عورت گنہگار ہوگی، اور نماز اس کے ذمہ پر باقی رہے گی، جب تک قضا نہ کرے، یہ عقیدہ غلط ہے کہ چالیس دن پورے کرنے ضروری ہیں۔(۱)
 ’’روی الطبراني وابن ماجہ عن انس رضی اللہ عنہ أنہ صلی اللہ علیہ وسلم وقّت للنفساء اربعین یوماً إلا أن تری الطہر قبل ذالک۔(۲)

(۱)والنفاس دم یعقب الولد، وحکمہ حکم الحیض، ولا حدّ لأقلہ (ولا حدّ لأقلہ) وھو مذھب الأئمۃ الثلاثۃ و أکثر أھل العلم و قال الثوري: أقلہ ثلاثۃ أیام، و قال المزني: أربعۃ أیام، و قال شیخ الاسلام: اتفق أصحابنا علی أن أقل النفاس ما یوجد، فإنھا کما ولدت إذا رأت الدم ساعۃ، ثم انقطع عنھا الدم، فإنھا تصوم و تصلي (ابراہیم بن محمد، مجمع الأنہر، ’’باب الحیض‘‘ج۱، ص:۸۲، بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
(۲) ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المختار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض، مطلب في حکم وطیٔ المستحاضۃ‘‘ ج۱، ص: ۴۹۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص382