نکاح و شادی

Ref. No. 1006/41-257

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ الفاظ طلاق کی دو قسمیں ہیں، صریح اور کنائی۔ صریح وہ الفاظ ہیں جو طلاق کے لئے استعمال ہوتے ہیں، جیسے طلاق۔ اور کنائی وہ لفظ ہے جس میں طلاق اور طلاق کے علاوہ دوسرے معنی کا بھی احتمال ہوتا ہے، مثلا چلی جاؤ، اس میں طلاق کا بھی معنی ہے کہ چلی جاؤ میں نے طلاق دیدی یا چلی جاؤ جو کرنا ہے کرو؛ یہ طلاق کے علاوہ معنی ہے۔ کنائی طلاق میں اگر طلاق کی نیت کرلے تو ایک طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے۔ جو لوگ نکاح کرتے ہیں ان کو نکاح کے ساتھ طلاق کے اصول کا بھی علم ہونا چاہئے، اگر طلاق دینے کے بعد وہ خلاف شرع بیوی کے ساتھ رہتے ہیں تو وہ گنہگار ہوں گے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1113/42-340

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہاں، لگاسکتے ہیں۔ اس سوال کی کیا وجہ ہے اس کو بھی لکھنا چاہئے۔ اگر پپیتا کے بارے میں کوئی غلط عقیدہ ہو تو اس کی اصلاح ضروری ہے۔    

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 1349/42-731

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔شادی کی تاریخ کی تعیین کے لئے لال خط بھیجنا محض ایک رسم ہے ، اسلام رسموں کو مٹانے کے لئے آیاہے، نہ کہ رواج دینے کے لئے۔ اس لئے لال خط بھیجنا اور یہ خط لکھنے و پڑھنے کے نام پر لوگوں کا جمع ہونا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح اس موقع پر اجرت لینے سے احتراز ضروری ہے۔تاہم بطور ہدیہ ہو تو اس کا لینا درست ہے۔ مگر اس طرح کی مجلسیں باعث گناہ ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1834/43-1668

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   خشک نجاست کے ذرات اگر جوتے چپل میں آجائیں تو ان کو جھاڑ کر صاف کردیں، اور نماز ادا کرلیں، البتہ اگرنجاست گیلی ہو اور  پیروں میں لگ جائے  تو اس کو دھونا ضروری ہے۔ نیز اگر راستہ پر کیچڑ ہو اور اس کی پاکی و ناپاکی کا یقین نہ ہو تو چھینٹیں ناپاک نہیں  سمجھی جائیں گی اور ان کپڑوں میں نماز درست ہوجائے گی، اور اگر ناپاکی کا غالب گمان یا  یقین ہو تو ناپاک سمجھ کر دھولینا ضروری ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 2131/44-2181

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زمین پر طلاق کے الفاظ اس طور پر  لکھ دئے کہ ہر شخص اس کو پڑھ سکتاہو یعنی بالکل واضح طور پر طلاق لکھی ہوئی ہوتو اس سے بھی طلاق واقع ہوجائے گی۔اور اگر اس طرح لکھا کہ زمین پر انگلی پھیری لیکن زمین پر کچھ واضح نہیں ہے تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔  

يجب أن يعلم بأن الكتابة نوعان: مرسومة وغير مرسومة. فالمرسومة: أن تكتب على صحيفة مصدرا ومعنونا وإنها على وجهين: الأول: أن تكتب هذا كتاب فلان بن فلان إلى فلانة أما بعد: فأنت طالق. وفي هذا الوجه يقع الطلاق عليها في الحال. وإن قال: لم أعن به الطلاق لم يصدق في الحكم، وهذا لأن الكتابة المرسومة بمنزلة المقال. (المحیط البرھانی: (274/3، ط: دار الکتب العلمیۃ)

وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو (رد المحتار: (246/3، ط: دار الفکر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔ {وَلَوْکُنْتُ أَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ، وَمَا مَسَّنِيَ السُّوْٓئُ} (الآیۃ) دوسر جگہ ارشاد باری {ھُوَ اللّٰہُ الَّذِيْ لَآ إِلٰہَ إِلَّا ھُوَج عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِج ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُہ۲۲} (الآیۃ) جس کا واضح مقصد یہ ہے کہ عالم الغیب درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اس کے سواء کوئی بھی عالم غیب ہوتا تو آپ اپنے لئے اچھائیاں جمع کرتے اور آپ کو کوئی تکلیف نہ پہونچتی۔ حالانکہ آپ کو زہر بھی دیا گیا اور آپ کو تیر مار کر لہولہان بھی کیا گیا۔ دندان مبارک بھی شہید ہوا جس کا آپ کو پہلے سے علم نہیں تھا۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جو علم دیا گیا وہ اللہ تعالیٰ نے دیا اور بتلایا آپ کو ذاتی طور پر اس کا علم نہیں ہوا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہیں ہیں؛ کیونکہ یہ صفت خاص خداوند قدوس کی ہے اس لئے یہ عقیدہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب ہیں کھلی ہوئی بدعت اور گمراہی ہے مسلمانوں کو ایسے عقیدے سے باز رہنا چاہئے۔(۱

(۱) {وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُھَآ إِلَّا ھُوَط} (سورۃ الأنعام: ۵۹)
{قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ الْغَیْبَ إِلَّا اللّٰہُط} (سورۃ النمل: ۶۵)
{عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلاَ یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہٖٓ أَحَدًا ہلا ۲۶ إِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ} (سورۃ الجن: ۲۷)
ولعل الحق أن یقال: إن علم الغیب المنفي عن غیرہ جل وعلا ہو ما کان للشخص لذاتہ أي لا واسطۃ في ثبوتہ لہ۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، (تابع) ’’سورۃ النمل‘‘: ج ۱۰، ص: ۱۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص223

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بشرطِ صحت سوال صورت مسئولہ میں مزاروں پر یا درخت وغیرہ پر غیر اللہ کے نام پر مٹھائیاں، شیرنی یا مرغہ وغیرہ چڑھانا سخت گناہ ہے، غیراللہ کے نام پر مذکورہ فعل کا ارتکاب حرام اور ناجائز ہے اس طرح کے چڑھاوے سے غیراللہ سے مدد اور نصرت مانگنا ہوا جو بالاجماع باطل ہے اور اہل سنت والجماعت کے عقیدے اور طریقے کے خلاف بھی ہے؛ اس لئے ایسی غلط باتوں سے پرہیز کرنا اور بچنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔
’’واعلم ان النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام‘‘(۱)۔ ’’ومنہ أنہ إن ظن أن المیت یتصرف في الأمور دون اللّٰہ تعالیٰ واعتقادہ ذلک کفر‘‘(۲) لا یجوزما یفعلہ الجہال بقبور الأولیاء من السجود والطواف حولہا واتخاذ السرج والمساجد علیہا‘‘(۳)

(۱) ابن عابدین، الدر الختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: مطلب في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج۲، ص: ۴۳۹۔                        (۲) ’’أیضاً‘‘:
(۳) ثناء اللّٰہ پاني پتي رحمہ اللّٰہ، تفسیر مظہري، ’’سورۃ آل عمران: ۶۴‘‘: ج ۲، ص: ۶۸۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص340

طلاق و تفریق

Ref. No. 2470/45-3744

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   جب اپنی علاتی بہن کی پوتی سے نکاح حرام تھا تو یہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوا، لہذا  طلاق دینے کی ضرورت نہیں، البتہ  زبانی طور پرضرورکہدے کہ میں نے اس سے علیحدگی اختیار کرلی ،یا قاضی دونوں کے درمیان تفریق کا حکم کردے۔  اور ایسی صورت میں چونکہ خلوت ہوچکی ہے اس لئےعورت پر عدت ، اور شوہر پر مہر مثل اور مہر مسمی میں سے جو کم ہوگا وہ واجب ہوگا۔

 (الباب الثامن في النكاح الفاسد وأحكامه) إذا وقع النكاح فاسدًا فرق القاضي بين الزوج والمرأة فإن لم يكن دخل بها فلا مهر لها ولا عدة." (الفتاوى الهندية"،الباب الثامن في النكاح الفاسد وأحكامه 1/ 330)

قولہ( في نكاح فاسد ) وحكم الدخول في النكاح الموقوف كالدخول في الفاسد فيسقط الحد ويثبت النسب ويجب الأقل من المسمى ومن مهر المثل"(ردالمحتار،مطلب في النكاح الفاسد،ج4ص274)

"لأن الطلاق لا يتحقق في النكاح الفاسد بل هو متاركة۔۔۔في البزازية المتاركة في الفاسد بعد الدخول لا تكون إلا بالقول كخليت سبيلك أو تركتك ومجرد إنكار النكاح لا يكون متاركة"(ردالمحتار،مطلب في النكاح الفاسد،ج4ص276)

"وَلَا نَفَقَةَ في النِّكَاحِ الْفَاسِدِ وَلَا في الْعِدَّةِ منه"۔ (الهندية،النفقات ،ج1ص597)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Zakat / Charity / Aid

Ref. No. 2544/45-3883

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

It is correct to buy a car/auto with Zakat money and give it to a poor person, Zakat will be paid, and he will be able to pay off his debt by earning from the auto/car.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بدعت کہتے ہیں کہ کوئی ایسا کام کرنا جس کی شریعت میں کوئی اصل ثابت نہ ہو اور اس کو اپنے لئے شریعت سمجھ کر لازم اور ضروری قرار دے لینا۔(۱)
ابجد کے قاعدہ سے حروف کے جو عدد ہوتے ہیں ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ کا عدد نکالا گیا تو ۷۸۶؍ نکلا، ۷۸۶؍ کا عدد تحریر کے شروع میں بطور لزوم یا یہ سمجھ کر نہیں لکھا جاتا کہ اس میں خیر وبرکت ہے، بلکہ مقصد بے ادبی سے تحفظ ہوتا ہے(۲)ا ور چونکہ یہ سمجھ کر مذکورہ اعداد لکھے جاتے ہیں کہ یہ ’’بسم اللّٰہ‘‘ کی جانب مشیر اعداد ہیں، تو مدار ثواب ہے چونکہ نیت بھی ہے؛ اس لئے اس سے بھی محرومی نہیں ہوئی۔(۳)

(۱) البدعۃ: کل ما خالف أصول الشریعۃ ولم یوافق السنۃ۔ (شرح أبي داؤد للعیني، ’’باب في التثویب‘‘: ج ۳، ص: ۷)
إحداث ما لم یکن لہ أصل في عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (العیني، عمدۃ القاري، ’’باب إمامۃ المفتون والمبتدع‘‘: ج ۵، ص: ۲۳۰، رقم: ۶۹۴) 

(۲) {لَّا یَمَسُّہٗٓ إِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَہط ۷۹} (سورۃ الواقعۃ: ۷۹)
(۳) عن عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إنما الأعمال بالنیات؛ وأخرجہ البخاري في صحیحہ، باب کیف کان بدء الوحي، ج۱، ص:۳، رقم:۱


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص162