Frequently Asked Questions
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:غیر مقلد اگر ائمہ اربعہ کو برا نہیں کہتا، تو اس کے پیچھے نماز درست ہے بشرطیکہ طہارت وغیرہ میں مواقع اختلاف کی رعایت رکھتا ہو، تاکہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس کی امامت درست ہوجائے۔(۱)
(۱) وعن عبادۃ ابن الصامت، قال: بایعنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی السمع والطاعۃ في العسر والیسر والمنشط والمکرہ وعلی أثرۃ علینا وعلی أن لا ننازع الأمر أہلہ وعلی أن نقول بالحق أینما کنا لا نخاف في اللّٰہ لومۃ لائم، وفي روایۃ: وعلی أن لا ننازع الأمر أہلہ إلا أن تروا کفراً بواحاً عند کم من اللّٰہ فیہ برہان، متفق علیہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإمارۃ والقضاء، الفصل الأول‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۹، رقم: ۳۶۶۶)
أن تیقن المراعاۃ لم یکرہ أو عدمہا لم یصح۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص258
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو ایک اہم ضرورت اور عبادت ہے، اس کے لیے مناسب درجہ کے پانی کا نظم کیا جانا چاہئے، سورج کی تپش سے جو پانی معمولی درجہ میں گرم ہو اس کے استعمال میں تو حرج نہیں ہے؛ لیکن جب پانی بہت زیادہ گرم ہو جائے، تو اس کا استعمال مضر ہوتا ہے، طبعی طور پر بھی اس کے استعمال سے آدمی کو وحشت ہوتی ہے، اگر مجبوری ایسی ہو کہ اس کے علاوہ کوئی پانی نہ ہو اور اس سے وضو کی جاسکتی ہو، تو اس سے وضو کی جائے؛ لیکن دوسرے مناسب پانی کا نظم کیا جا سکتا ہو، تو مناسب پانی کا نظم کیا جانا چاہئے، اس گرم پانی کا استعمال کراہت سے خالی نہیں ہے۔
’’منہا الماء المسخن بالشمس فإنہ یکرہ استعمالہ في الوضوء والغسل بشرطین: الشرط الأول: أن یکون موضوعاً في إناء مصنوع من نحاس أو رصاص أو غیرہما من المعادن غیر الذہب والفضۃ أما الماء الموضوع في إناء من ذہب أو فضۃ فإنہ إذا سخن بالشمس لا یکرہ الوضوء منہ، الشرط الثاني: أن یکون ذلک في بلد حار فإذا وضع الماء المطلق في إناء من نحاس ووضع في الشمس حتی سخن فإنہ یکرہ الوضوء منہ والاغتسال بہ‘‘(۱)
(۱) عبد الرحمن الجزیري، کتاب الفقہ علی المذاہب الأربعۃ، ’’کتاب الطہارۃ: حکم الماء الطہور‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص184
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایام حیض میں مذکورہ عذر کی وجہ سے قرآن پاک تلاوت کی اجازت نہیں ہوگی(۱) اگر بھولنے کا خطرہ ہے تو ایسا کرے۔ قرآن پاک کو کسی کپڑے وغیرہ سے پکڑ کر کھولے اور قرآن میں دیکھ کر دل ہی دل میں یاد کرتی رہے، زبان سے حروف والفاظ کی ادائیگی نہ کرے۔ کوئی تلاوت کر رہا ہو، تو اس کے پاس بیٹھ کر سنتی رہے، ان شاء اللہ یاد کیا ہوا یاد رکھنا آسان ہو جائے گا۔
(۱)عن ابن عمر رضی اللّٰہ عنھما عن النبي ﷺ قال لا تقرء الحائض ولا الجنب شیئا من القرآن۔ (أخرجہ الترمذی، فی سننہ، ’’أبواب الطہارۃ، باب ما جاء في الجنب والحائض، و منھا لا یقرأالقرآن‘‘ج۱، ص:ـ۳۴، رقم:۱۳۱، مکتبہ نعیمیہ دیوبند)؛ ومنھا حرمۃ قراء ۃ القرآن: لا تقرأ الحائض والنفساء والجنب شیئا من القرآن، والآیۃ وما دونھا سواء في التحریم علی الأصح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب السادس: في الدماء المختصۃ بالنساء، الفصل الرابع: في أحکام الحیض والنفاس والاستحاضۃ، ومنھا حرمۃ قراء ۃ القرآن‘‘ج۱، ص:۳۷) و منھا أن لا تقرأ القرآن عندنا (عالم بن العلاء،فتاویٰ تاتارخانیہ، ’’کتاب الطہارۃ، نوع آخر فی الأحکام التي تتعلق بالحیض‘‘ج۱، ص:۴۸۰مکتبۃ زکریا دیوبند) و قراء ۃ القرآن أي یمنع الحیض قراء ۃ القرآن، و کذا الجنابۃ لقولہ ﷺ لا تقرأ الحائض ولا الجنب شیئا من القرآن، ولا فرق بین الآیۃ ومادونھا في روایۃ الکرخیّ، و في روایۃ الطحاوی یباح لھما قراء ۃ ما دون الآیۃ… ھذا إذا قرأہ علی قصد التلاوۃ، و أما إذا قرائہ علی قصد الذکر والثناء الخ (لایمسہ إلا المطھرون) و لقولہ ﷺ لا یمس المصحف إلا طاھرٌ قال رحمہ اللّٰہ (و منع الحدث المسّ) أي مسّ القرآن لما تقدم قال (ومنعھما الجنابۃ والنفاس) أي منع من القراء ۃ والمسّ الجنابۃ والنفاسُ۔(فخرالدین عثمان بن علی، تبیین الحقائق، کتاب الطہارۃ، باب الحیض، ج۱، ص:۶۴-۱۶۵، مکتبۃ زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص379
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: راجح اور مفتی بہ قول یہ ہے کہ فاسق اور بدعتی کے پیچھے جس کی بد اعتقادی حد کفر تک پہونچی ہوئی نہ ہو پڑھی ہوئی نماز دہرانا ضروری نہیں ہے اور اگر مجبوراً پڑھنا پڑھے، تو مکروہ بھی نہیں ہے۔ ’’ہذا إن وجد غیرہم وإلا فلا کراہۃ‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۲۔
وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لایہتم لأمردینہ وبأن في تقدیمہ للامامۃ تعظیمہ وقد وجب علیہم إہانتہ شرعا، ولایخفی أنہ إذا کان أعلم من غیرہ لاتزول العلۃ، فإنہ لایؤمن أن یصلي بہم بغیر طہارۃ فہو کالمبتدع تکرہ إمامتہ بکل حال، بل مشی في شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم لما ذکرنا (أیضًا: ج۲، ص: ۲۹۹)
کرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعاً فلا یعظم بتقدیمہ للإمامۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳)
قولہ فتجب إہانتہ شرعاً فلایعظم بتقدیمہ للإمامۃ تبع فیہ الزیلعي، ومفادہ کون الکراہۃ في الفاسق تحریمیۃ، کرہ إمامۃ الفسق لغۃ خروج عن الاستقامۃ وہو معنی قولہم، خروج الشيء عن الشيء علی وجہ الفساد وشرعاً خروج عن طاعۃ اللّٰہ تعالیٰ بارتکاب کبیرۃ قال القہستاني أي أو إصرار علی صغیرۃ (فتجب إہانتہ شرعاً فلایعظم بتقدیمہ الامامۃ) تبع فیہ الزیلعی ومفادہ کون الکراہۃ في الفاسق تحریمیۃ۔ (أیضًا:)
وفي صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ، وفي الشامیۃ قولہ: نال فضل الجماعۃ أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولیٰ من الإنفراد لکن لاینال کما ینال خلف تقي ورع۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب إمامۃ الأمرد‘‘: ج۲، ص: ۳۰۱، ۳۰۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص156
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں امام بغیر سنت پڑھے فرض نماز پڑھا سکتا ہے، نماز مکروہ نہ ہوگی، پھر ظہر فرض کے بعد دو رکعت سنت پڑھ کر فوت شدہ چار سنتیں پڑھ لی جائیں۔ لیکن اس کی عادت بنانا اچھا نہیں ہے، حدیث شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم امام ہوا کرتے تھے اور ظہر سے قبل چار سنتیں نہ پڑھ سکتے تھے تو بعد میں پڑھ لیا کرتے تھے۔(۲)
(۲) بخلاف سنۃ الظہر وکذا الجمعۃ، فإنہ إن خاف فوت رکعۃ یترکہا ویقتدی ثم یأتي بہا علی أنہا سنۃ في وقتہ أي الظہر۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب إدراک الفریضۃ، مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش‘‘: ج۲، ص: ۵۱۰)
’’عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان إذا لم یصل أربعاً قبل الظہر صلاہا بعدہا‘‘(۱)
(۱) أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ، عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ماجاء في الرکعتین قبل الظہر‘‘: ج۱، ص: ۵۷، رقم: ۴۲۶، نعیمیہ دیوبند۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص362
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: یہ کوئی خلاف شرع بات نہیں ہے؛ کیوں کہ نابالغ، ہوشیار اذان کو اچھی طرح صحیح طریقہ پر پڑھنے والے بچے کی اذان درست اور جائز ہے۔(۱)
(۱) أذان الصبي العاقل صحیح من غیر کراہۃ في ظاہر الروایۃ، ولکن أذان البالغ أفضل۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان‘‘: الفصل الأول: في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۰، زکریا دیوبند)
قولہ وقیل الذي یعقل أیضاً: ظاہر الروایۃ صحتہ بدون کراہۃ لأنہ من أہل الجماعۃ کما في السراج والبحر۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ص: ۱۹۹، شیخ الہند دیوبند)
ویجوز بلا کراہۃ أذان صبي مراہق وعبد۔ (الحصکفي، الدر مع الرد، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في أذان الجوق‘‘: ج ۲، ص: ۵۹، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص148
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: تشہد میں اثبات کے وقت انگلی اٹھانے کے لیے جو انگلی کا حلقہ بنتا ہے آخر تک اس کا باقی رکھنا افضل ہے اس کو کھولنے کا تذکرہ ہمیں کتب فقہ میں نہیں ملتا؛ لیکن اگرکوئی حلقہ کھول دے تو اس کو مطعون نہ کرنا چاہیے؛ اس لیے کہ یہ صرف افضلیت کی بات ہے۔(۱)
(۱) وعن أبن عمر قال کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا جلس في الصلاۃ وضع یدیہ علی رکبتیہ ورفع أصبعہ الیمنی التي تلی الإبہام، فدعا بہا ویدہ الیسری علی رکبتیہ باسطہا علیہا، وفي لفطٍ: کان إذا جلس في الصلاۃ وضع کفہ الیمنی علی فخذہ الیمنی وقبض أصابعہ کلہا وأشار بأصبعہ التي تلي الإبہام وضع کفہ الیسری علی فخذہ الیسری، رواہما أحمد، ومسلم، والنسائي۔ (محمد بن علي الشوکاني، نیل الأوطار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإشارۃ بالسبابۃ وصفۃ وضع الیدین‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۸، رقم: ۷۷۹)(شاملہ)
وفي المحیط إنہا سنۃ یرفعہا عند النفي ویضعہا عند الإثبات وہو قول أبي حنیفۃؒ ومحمدؒ وکثرت بہ الآثار والأخبار فالعمل بہ أولیٰ، فہو صریح في أن المفتي بہ ہو الإشارۃ بالمسبحۃ مع عقد الأصابع علی الکیفیہ المذکورۃ لا مع بسطہا فإنہ لا إشارہ مع البسط عندنا۔(ابن عابدین، رد المحتار، ’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۷)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 404
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز درست ہوگئی لیکن امام کو اس کی عادت نہ بنانی چاہئے، لفظ صحیح ادا کرنا چاہئے صحیح لفظ السلام علیکم ورحمۃ اللہ ہے۔(۲)
(۲) الأفضل فیہما بعدہ قائلاً السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ ہو السنۃ۔ (الحصکفی، الدر المختار مع رد المحتار،’’باب صفۃ الصلاۃ‘‘ج ۲، ص: ۲۴۰، ۲۴۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص104
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: دوسری رکعت میں پڑھی گئیں دو آیتیں اگر تین چھوٹی آیتوں کے برابر تھیں تو نماز درست ہوگئی ورنہ نہیں، تاہم امام صاحب کو اتنی چھوٹی آیات پر اکتفا نہ کرنا چاہئے کہ مقتدیوں کو شبہ ہونے لگے۔
’’وضم أقصر سورۃ کالکوثر أو ما قام مقامہا، وہو ثلاث آیات قصار، نحو {ثُمَّ نَظَرَہلا ۲۱ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَہلا ۲۲ ثُمَّ أَدْبَرَ وَاسْتَکْبَرَہلا ۲۳} وکذا لو کانت الآیۃ أو الآیتان تعدل ثلاثا قصاراً، ذکرہ الحلبي أي في شرحہ الکبیر علی المنیۃ۔ وعبارتہ: وإن قرأ ثلاث آیات قصارًا أو کانت الآیۃ أو الآیتان تعدل ثلاث آیات قصار خرج عن حد الکراہۃ‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۹، ۱۵۰، زکریا دیوبند۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص223
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں نماز فاسد نہیں ہوئی، نماز صحیح اداء ہوگئی نماز میں تسبیحات بھی ہیں قرآن بھی ہے تکبیرات بھی ہیں التحیات بھی الی آخرہ ہے اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھی ہے اور دعاء بھی ہے والدین کے لیے استغفار اور جمیع مؤمنین ومؤمنات کے لیے دعاء بھی ہے؛ البتہ فجر کی نماز میں دعاء قنوت کا پڑھنا رسول اکرم علیہ الصلاۃ والسلام سے ثابت ہے یہ بھی دعا پڑھی ’’اللہم إنا نستعینک سے یا اللہم إہدنا في من ہدیت‘‘ سے شروع ہو۔
(بدائع الصنائع) میں ہے: ’’ و أما دعاء القنوت فلیس في القنوت دعاء مؤقت … لأنہ روي عن الصحابۃ أدعیۃ مختلفہ في حال القنوت … ولأنہ لا توقیت في القرآن لشيء من الصلاۃ ففي دعاء القنوت أولیٰ‘‘(۱) اور یہ دعامصائب ونوازل میں پڑھی جاتی ہے اور اس کا اصل حکم باقی ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاء قنوت میں قبیلہ مضر، رعل، اور ذکوان کا نام لے کر ان کے خلاف دعا کی ہے ’’أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یدعوا علی قبائل‘‘ اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرامؓ کی جماعت سے منقول ہے کہ: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ تک فجر کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھی:
’’أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قنت شہراً یدعوا في الصبح علی أحیاء من أحیاء العرب علی رعل وذکوان‘‘(۱)
(۱)الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’فصل في القنوت‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۴، زکریا دیوبند۔)
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب المغازي، باب غزوۃ الرجیع، و رعل الخ‘‘: ج ۲، ص:۵۸۵، رقم: ۴۰۹۰۔)
سالم عن أبیہ أنہ سمع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا رفع رأسہ من الرکوع الرکعۃ الآخرۃ من الفجر یقول: اللہم العن فلانا وفلانا وفلانا بعد ما یقول: سمع اللّٰہ لمن حمدہ، ربنا ولک الحمد۔ فأنزل اللّٰہ {لیس لک من الأمر شیء} إلی قولہ {فإنہم ظالمون}۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب المغازي‘‘: ج ۲، ص: ۵۸۲، رقم: ۳۹۲۲، ف: ۴۰۴۹)
أن نبي اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قنت شہرا في صلاۃ الصبح یدعو علی أحیاء من أحیاء العرب علی رعل وذکوان وعصیۃ وبنی لحیان۔ زاد خلیفۃ: حدثنا یزید بن زریع، حدثنا سعید، عن قتادۃ، حدثنا أنس أن أولئک السبعین من الأنصار قتلوا ببئر معونۃ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’باب غزوۃ الرجیع، ورعل وذکوان،و بئر معونۃ۔ النسخۃ الہندیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۸۴، رقم: ۴۰۹۰)
غیرہا من الصلوات الجہریۃ أو السریۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۹)
وأنہ یقنت بعد الرکوع لا قبلہ، بدلیل أن ما استدل بہ الشافعي علی قنوت الفجر۔ وفیہ التصریح بالقنوت بعد الرکوع، حملہ علماؤنا علی القنوت للنازلۃ، ثم رأیت الشرنبلالي في مراقي الفلاح صرح، بأنہ بعدہ؛ واستظہر الحموي أنہ قبلہ، والأظہر ما قلناہ، واللّٰہ أعلم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص331