نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: دوران سفر ظہر عصر عشاء فوت ہوجائیں تو گھر پر رہ کر قصر ہی پڑھی جائیں گی اور اس کے برعکس میں پوری نماز پڑھی جائے گی۔(۱) (۱) والمعتبر في تغییر الفرض آخر الوقت وہو قدر ما یسع التحریمۃ فإن کان المکلف في آخرہ مسافراً وجب رکعتان و إلا فأربع لأنہ المعتبر في السببیۃ عند عدم الأداء قبلہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۶۱۳)وفائتۃ السفر وفائتۃ الحضر تقضی رکعتین أربعاً فیہ لف ونشر مرتب لأن القضاء بحسب الأداء۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ص: ۴۲۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 153

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں بہتر تو یہ ہے کہ فرض کے بعد پہلے دو سنت پڑھے اور اس کے بعد پہلے کی چھوٹی ہوئی چار سنت ادا کرے لیکن اس کے برعکس کرلیا تب بھی درست ہے۔(۱) (۱) بخلاف سنۃ الظہر فإنہ یترکہا ویقتدي ثم یأتي بہا علی أنہا سنۃ في وقتہ قبل شفعہ عند محمد وبہ یفتی: وقال الشامي: وبہ یفتی وعلیہ المتون، لکن رجح في الفتح: تقدیم الرکعتین، قال في الإمداد وفي فتاویٰ العتابی: إنہ المختار، وفي مبسوط شیخ الإسلام: أنہ الأصح لحدیث عائشۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہا أنہ علیہ الصلاۃ والسلام کان إذا فاتتہ الأربع قبل الظہر یصلیہن بعد الرکعتین وہو قول أبي حنیفۃ، وکذا في جامع قاضي خان۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب إدراک الفریضۃ ہل الإسائۃ دون الکراہۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۲، ۱۳، ۱۴؛ و الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الصلاۃ: باب إدراک الفریضۃ‘‘: ص: ۴۵۳، مکتبہ شیخ الہند)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 152

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز قضا عمری ہو یا ادا ہو نماز کے سنن و مستحبات میں اختصار ہو سکتا ہے مثلاً رکوع، سجدے کی تسبیح میں فرائض وواجبات میں اختصار جائز نہیں ہے کہ مثلاً سورۂ فاتحہ کی دو چار آیت پڑھے اور باقی چھوڑ دے یا ضم سورۃ چھوڑ دے ایسے اختصار سے نماز واجب الاعادہ ہوگی پس فرائض و واجبات میں اختصار درست نہیں ہوگا۔(۲)(۲) عن أبي ہریرۃ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال إذا صلی أحدکم للناس فلیخفف فإن منہم الضعیف والسقیم والکبیر، وإذا صلی أحدکم لنفسہ فلیطول ماشاء۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب إذا صلی لنفسہ‘‘: ج ۱، ص: ۹۷، رقم: ۷۰۳)الأفضل: أن یقرأ في کل رکعۃ الفاتحۃ والسورۃ الکاملۃ في المکتوبۃ فإن عجز لہ أن یقرأ السورۃ في الرکعتین، کذا في الخلاصۃ، ولو قرأ بعض السورۃ في رکعۃ والبعض في رکعۃ، قیل: یکرہ، وقیل لایکرہ، وہو الصحیح، ولکن لاینبغي أن یفعل ولو فعل لا بأس بہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الرابع في القرآن‘‘: ج۱، ص: ۳۶، ۱۳۵)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 151

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اصول یہ ہے کہ جو نماز مکلف انسان پر فرض ہو اور وہ اس کو وقت میں ادا نہ کرسکے تو اس کی قضا اس پر لازم ہے خواہ وہ نماز جان بوجھ کر فوت ہوجائے یا غفلت اور نسیان کی وجہ سے فوت ہوجائے توبغیر ادا کیے اس کاذمہ بری نہیں ہوگا اور نہ ہی محض توبہ سے وہ نماز ذمہ سے ساقط ہوگی۔ جس مسلمان نے اپنی عمر کی ابتداء میں نمازیں اپنی غفلت یا لاپروائی کی وجہ سے نہ پڑھی ہوں او ربعد میں اسے تنبہ ہوا تو اس کے ذمہ ضروری ہے کہ اپنی چھوٹی ہوئی نمازوں کا محتاط حساب لگاکر انہیں ادا کرے اسی کا نام قضائے عمری ہے۔ قضاء عمری کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پوری زندگی قضاء کرتا رہے۔ یہ موقف صرف احناف کا نہیں؛ بلکہ ائمہ اربعہ کا متفقہ موقف ہے؛ اس لیے مذکورہ بیان درست نہیں ہے احادیث سے نماز کی قضاء کا ثبوت ہے۔ حدیث شریف میں ہے:’’من نسي صلاۃ فلیصلّ إذا ذکرہا لا کفارۃ لہا إلا ذلک‘‘(۱)اور مسلم شریف میں ہے:’’إذا رقد أحدکم عن الصلاۃ أو غفل عنہا فلیصلہا إذا ذکرہا فإن اللّٰہ عز وجل یقول: أقم الصلاۃ لذکري‘‘(۲)اور البحر الرائق میں ہے:’’فالأصل فیہ أن کل صلاۃ فاتت عن الوقت بعد ثبوت وجوبہا فیہ فإنہ یلزم قضاؤہا سواء ترکہا عمدًا أو سہوًا أو بسبب نوم وسواء کانت الفوائت کثیرۃ أو قلیلۃ‘‘(۳)امام مالک کی المدونۃ الکبری میں ہے:

’’من نسي صلوات کثیرۃ أو ترک صلوات کثیرۃ فلیصل علی قدر طاقتہ و لیذہب إلی حوائجہ، فإذا فرغ من حوائجہ صلی أیضا ما بقی علیہ حتی یأتي علی جمیع ما نسي أو ترک‘‘(۱)(۱) أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب مواقیت الصلاۃ: باب من نسي صلاۃ فلیصل‘‘: ج ۱، ص: ۸۴، رقم:۵۹۷۔(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ واستحباب تعجیل قضائہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۱، رقم: ۱۵۸۹۔(۳) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۱۔

(۱) الإمام مالک، المدونۃ الکبري، ’’کتاب الصلاۃ: الثاني: ماجاء في قضاء الصلاۃإذا نسیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۶۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 149

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صاحب ترتیب اس کو کہتے ہیں کہ بالغ ہونے کے بعد اس کے ذمہ چھ نمازیں قضا نہ ہوں؛ بلکہ پانچ یا اس سے کم نمازیں قضا ہوں اور اگر قضا نمازیں زیادہ ہوں، پھر اس نے ان کو اداء کر لیا ہو تو وہ بھی صاحب ترتیب ہے اس پر لازم ہے، اگر اس کے ذمہ کوئی نماز قضا ہو تو اس کو وقتیہ نماز سے پہلے پڑھے۔’’وصیرورتہا ستا أي ویسقط الترتیب بصیرورۃ الفوائت ست صلوات‘‘(۱)’’وقید بقضاء البعض لأنہ لوقضی الکل عاد الترتیب عند الکل‘‘(۲)’’ویسقط الترتیب عند کثرۃ الفوائت، وہو الصحیح، وحد الکثرۃ أن تصیر الفوائت ستاً‘‘(۳)

(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۹۔(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت، مطلب في تعریف الإعادۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۲۹۔(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الحادي عشر في قضاء الفوائت‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۲۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 149

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں جماعت چھوٹ گئی اور مذکورہ شخص نے مسجد کے حجرہ میں نماز پڑھ لی تو نماز درست وادا ہوگئی ہے۔(۱)(۱) أعطیت خمسا لم یعطہن أحد قبلي نصرت بالرعب مسیرۃ شہر وجعلت لي الأرض مسجدا وطہورا الخ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۴۸، رقم: ۳۳۳)عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: فضلت علی الأنبیاء بستِ أعطیت جوامع الکلم ونصرت بالرعب وأحلت لي المغانم وجعلت لي الأرض طہوراً و مسجداً وأرسلت إلی الخلق کافۃ وختم بي النبیون۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد: ومواضع الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۹، رقم: ۵۲۳)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 148

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مناسب یہ ہے کہ جو شخص نماز قضا کرے اس پر دوسروں کو مطلع نہ کرے یعنی پوشیدہ طور پر پڑھے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کرنا معصیت اور گناہ ہے اور معصیت کو ظاہر نہیں کرنا چاہئے۔ شامی میں ہے کہ قضاء نماز کو علی الاعلان پڑھنا مکروہ تحریمی ہے تاہم اگر اعلان نہ کرے اور نہ کسی کو بتلائے اور ہر نماز کے وقت میں قضاء نماز پڑھ لے تو اس میں مضائقہ نہیں ہے۔(۲)(۲) تقدم في باب الأذان أنہ یکرہ قضاء الفائتۃ في المسجد وعللہ الشارح بما ہنا من أن التاخیر معصیۃ فلا یظہرہا۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۳۹)أن رسول اللّٰہ ﷺ أقبل من نواحيالمدینۃ یرید الصلاۃ فوجد الناس قد صلوا، فمال إلی منزلہ فجمع أہلہ فصلی بہم۔ (سلمان بن أحمد، الطبراني، المعجم الأوسط: ج ۵، ص: ۳۵، رقم: ۴۶۰۱، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)قولہ: وینبغي الخ، أنہ یکرہ قضاء الفائتۃ في المسجد وعللہ الشارح بما ہنا من أن التأخیر معصیۃ فلا یظہرہا و ظاہرہ أن الممنوع ہو القضاء مع الإطلاع علیہ سواء کان في المسجد أو غیرہ، قلت: والظاہر أن ینبغي ہنا الوجوب وأن الکراہۃ تحریمیۃ الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۳۹)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 147

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: چھ نمازوں کے فوت ہونے تک ترتیب باقی رہتی ہے اور جب فوت شدہ نمازیں اس سے زیادہ ہوجائیں تو ترتیب ختم ہوجاتی ہے پس اگر وہ شخص (جس کی ترتیب فوت ہوگئی) اپنی نمازوں کی قضاء شروع کردے اور قضاء کرتے کرتے صرف چھ نمازوں سے کم باقی رہ جائیں تو اس کی ترتیب لوٹ آئے گی وہ صاحب ترتیب مثل سابق شرعاً قرار پائے گا اوراس پر صاحب ترتیب ہونے کا حکم نافذ ہوگا۔ایسے شخص کو اگر اپنی قضاء نمازیں یاد ہیں اور اس نے ان کو قضاء کرنا شروع کردیا اور قضاء کرتے کرتے چھ نمازوں سے کم باقی رہ گئیں، تو وہ بھی صاحب ترتیب ہوجائے گا۔(۱)(۱) لا یلزم الترتیب بین الفائتۃ والوقتیۃ ولا بین الفوائت إذا کانت ستا۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت، مطلب: في تعریف الإعادۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۲۶)وقید بقضاء البعض لأنہ لو قضی الکل عاد الترتیب عند الکل۔ (أیضاً: ص: ۵۲۹)ویسقط الترتیب عند کثرۃ الفوائت، وہو الصحیح، … وحد الکثرۃ أن تصیر الفوائت ستاً۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الحادي عشر: في قضاء الفوائت‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۲)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 146

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس شخص نے چوں کہ سنت شروع کرنے کے بعد توڑی پس اس لیے وہ سنت اس پر واجب ہوگئی ہیں، لہٰذا فرض کے بعد فوراً اس کو ادا کر سکتا ہے اگر ادا نہ کر سکا تو بعد میں ادا کرے کیوں کہ توڑ دینے پر اس کی قضا لازم ہوگئی ہے۔(۱)(۱) ولزم نفل أي لزم المضی فیہ حتی إذا أفسدہ لزم قضائہ۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب: في صلاۃ الحاجۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۷۴)ومن دخل في صلاۃ النفل ثم أفسدہا قضاہا۔ (أحمد بن محمد، القدوري، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأوقات التي تکرہ فیہا الصلاۃ باب النوافل‘‘: ص: ۳۹، مکتبہ بلال دیوبند)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 145

نماز / جمعہ و عیدین

 الجواب وباللّٰہ التوفیق: قضا نمازیں فرض وسنت کے درمیان پڑھنا درست ہے۔(۱)

(۱) وجمیع أوقات العمر وقت القضاء إلا الثلاثۃ المنہیۃ کما مر۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت، مطلب: في تعریف الإعادۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۲۴، مکتبہ زکریا دیوبند)ثم لیس للقضاء وقت معین؛ بل جمیع أوقات العمر وقت لہ إلا ثلاثۃ: وقت طلوع الشمس،ووقت الزوال، ووقت الغروب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الحادي عشر: في قضاء الفوائت‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۰، مکتبہ فیصل دیوبند)ثم لیس للقضاء وقت معین، بل جمیع أوقات العمر وقت لہ إلا ثلاثۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۱، دارالکتاب دیوبند)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:145