Frequently Asked Questions
متفرقات
Ref. No. 2760/454328
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ۔ {بِسْمِ اللہِ مَجْرٖہَا وَمُرْسَاہَا إِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ} (الحصن الحصین، 208،)
مذکورہ دعا بحری جہاز یا کشتی پرسوار ہوں تو پڑھی جائے، البتہ پل پر سے گزرتے ہوئے، جب بلندی پر چڑھے تو ’’اَللّٰہُ اَکْبَرُ‘‘ پڑھے، اور جب بلندی سے نیچے اترے تو ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ‘‘ کہے، اور جب کسی میدان یا پانی بہنے کی جگہ سے گزرے تو ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکْبَرُ ‘‘پڑھے۔
نیز مذکورہ دعا پانی پینے کے بعد پڑھنا امام حسن بصری ؒسے ثابت ہے۔ امام ابن ابی الدنیا نے کہا: مجھے اسحاق بن اسماعیل الطالقانی نے حدیث بیان کی: ہمیں جریر بن عبدالحمید نے عبداللہ بن شبرمہ سے حدیث بیان کی کہ حسن بصری جب پانی پیتے تو یہ دعا پڑھتے تھے۔ (کتاب ا لشکر:۷۰؍ وسندہ صحیح موسوعۃ الامام ابن ابی الدنیا: ج ۱، ص: ۴۸۷)
لہٰذا پانی پینے کے بعد آثار سلف صالحین کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ دعا پڑھنا جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اس بندے سے راضی ہوجاتا ہے جو کھانا کھاتا ہے تو اس پر اللہ کی حمد بیان کرتا ہے اور مشروب پیتا ہے تو اس پر اللہ کی حمد بیان کرتا ہے۔ (صحیح مسلم: رقم: ۲۷۳۴)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: واضح رہے کہ اذان کا مقصد اعلان اور لوگوں کو نماز کے لیے اطلاع دینا ہے، اگر بجلی کٹ جانے کی وجہ سے لوگوں کو نماز کی اطلاع نہیں دی جا سکی تو ایسی صورت میں مؤذن اپنے کمرے سے نکل کر پوری اذان مستقل کہے گا تا کہ سب لوگ اس کو پورے طور پر سن لیں اور کوئی اشتباہ نہ رہے؛ لیکن اگر لوگوں کو اذان کے بعض کلمات سننے کی وجہ سے اطلاع ہو گئی اس کے بعد بجلی کے کٹ جانے کی وجہ سے بقیہ اذان کی آواز نہیں پہونچ سکی تو دوبارہ اذان دینے کی ضرورت نہیں ہے تاہم اگر دوبارہ اذان دے ہی دی گئی تو اس صورت میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اذان دینے کی وجہ سے کوئی گناہ نہیں ہوگا جیسا کہ کتب فقہ میں اس کی تفصیلات موجود ہیں۔
’’لأن تکرارہ مشروع کما في أذان الجمعۃ لأنہ لإعلام الغائبین فتکریرہ مفید لاحتمال عدم سماع البعض‘‘(۱)
’’ولأن ما یخفض بہ صوتہ لا یحصل بہ فائدۃ الأذان وہو الإعلام فلا یعتبر‘‘(۲)
’’لأن المقصود منہ الإعلام ولا یحصل بالإخفاء فصار کسائر کلماتہ‘‘(۳)
’’إذا حصر المؤذن فی خلال الأذان۔۔۔ وعجز عن الإتمام یستقبل غیرہ‘‘(۴)
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۸۔
(۲) فخر الدین عثمان بن علي، حاشیۃ الشبلی علی تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۹۰۔
(۳) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۵۔
(۴) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان‘‘ الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن: ج ۱، ص: ۱۱۲، فیصل، دیوبند۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص165
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: شریعت مطہرہ میں خون ناپاک اور نجس ہے آپ کی ناک میں چوٹ لگنے سے جو خون نکلا اور آپ نے ٹیشو پیپر سے پونچھ کر جیب میں رکھ لیا اور جیب میں رکھنے کی حالت میں آپ نے نماز پڑھ لی اس سلسلے میں ایک اصول یاد رکھیں کہ: اگر دستی رومال یا ٹیشو پیپر وغیرہ میں ایک درہم یا اس سے زائد خون لگا ہوا ہے اور اسی حالت میں اس کو جیب میں رکھ کر نماز پڑھ لی گئی تو وہ نماز درست نہیں ہوگی نماز فاسد ہوگئی اس نماز کا اعادہ کرنا لازم ہے اور اگر خون ایک درہم سے کم لگا ہوا ہو اور وہ کپڑا یا ٹیشو پیپر جیب ہی میں ہے اور نماز پڑھ لی گئی ہو تو نماز ادا ہو جائے گی۔
’’لو حمل نجاسۃ مانعۃ فإن صلاتہ باطلۃ فکذا لوکانت النجاسۃ في طرف عمامتہ أو مندیلہ المقصود ثوب ہو لابسہ فألقی ذلک الطرف علی الأرض وصلی فإنہ إن تحرک بحرکتہ لا یجوز وإلا یجوز؛ لأنہ بتلک الحرکۃ ینسب لحمل النجاسۃ وفي الظہیریۃ‘‘(۱)
’’وإذا صلی وہو لابس مندیلاً أو ملائۃ وأحد طرفیہ فیہ نجس والطرف الذي فیہ النجاسۃ علی الأرض فکان النجس یتحرک بتحرک المصلي لم تجز صلاتہ، وإن کان لا یتحرک تجوز صلاتہ؛ لأن في الوجہ الأول مستعمل للنجاسۃ وفي الوجہ الثاني‘‘(۲)
ایسے ہی شیشی یا بوتل جس میں پیشاب ہو اس کو جیب میں رکھ کر نماز پڑھنے سے نماز ادا نہیں ہوگی اس لیے کہ حامل نجاست کی نماز درست نہیں ہوتی ہے آپ دوبارہ اس نماز کا بھی اعادہ کریں جیسا کہ فتاوی ہندیہ میں ہے:
’’رجل صلی وفي کمہ قارورۃ فیہا بول لا تجوز الصلاۃ سواء کانت ممتلئۃ أو لم تکن لأن ہذا لیس في مظانہ ومعدنہ بخلاف البیضۃ المذرۃ لأنہ في معدنہ ومظانہ وعلیہ الفتوی کذا في المضمرات‘‘(۳)
’’ولو صلی وفي کمہ قارورۃ مضمومۃ فیہا بول لم تجز صلاتہ؛ لأنہ في غیر معدنہ ومکانہ‘‘(۱)
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۶۴۔
(۲) أبوالمعالي برہان الدین محمود، المحیط البرہاني في الفقہ النعماني، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الرابع في فرائض الصلاۃ وسننہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۱۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثاني في طہارۃ یستر بہ العورۃ وغیرہ، ومما یتصل بذلک‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۰۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۹، ۳۹۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص289
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: فجر اور عصر کی نماز کے بعد چوں کہ نفل وسنت نماز نہیں ہے اس لیے کمزور، بیمار اور کام کاج والے مصلیوں کی رعایت کر کے قدرے طویل دعا کی گنجائش ہے اور ظہر، مغرب، عشاء جن نمازوں کے بعد سنت ونوافل ہیں ان میں معمولی درجہ کی دعاء مانگنی چاہیے۔
اور چوں کہ نماز جمعہ کے بعد بھی سنتیں ہیں، لہٰذا مختصر دعا کرنی چاہیے فیض الباري شرح بخاري میں اسی طرح منقول ہے۔(۱)
(۱) وفي الحجۃ الإمام إذا فرغ من الظہر والمغرب والعشاء یشرع في السنۃ ولا یشتغل بأدعیۃ طویلۃ، کذا في التتارخانیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث: في سنن الصلاۃ وآدابہا وکیفیتہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۵)
وإذا سلم الإمام ففي الفجر والعصر یقعد في مکانہ لیشتغل بالدعاء؛ لأنہ لا تطوع بعدہما۔ أیضاً: فأما في صلاۃ الظہر والعشاء والمغرب یکرہ لہ المکث قاعدا؛ لأنہ مندوب إلی التنفل بعد ہذہ الصلوات۔ (السرخسي، المبسوط، ’’کتاب الصلاۃ: باب افتتاح الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۸)
وأنہ یکرہ تاخیر السنۃ إلا بقدر اللہم أنت السلام الخ۔ (الحصکفي، الدر المختار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: باب الاستبراء وغیرہ، فصل في البیع‘‘: ج ۹، ص: ۶۰۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص433
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: نوافل بقرأۃ طویلہ افضل ہے کہ اس میں نماز اور تلاوت دونوں موجود ہیں اور صرف تلاوت کرنے میں تلاوت ہی تلاوت ہے۔(۱)
(۱) بل الصلاۃ أفضل من القراء ۃ في غیر الصلاۃ نص علی ذلک أئمۃ العلماء - لکن من حصل لہ نشاط و تدبر و فھم للقرائۃ دون الصلاۃ فالأفضل في حقہ ما کان أنفع لہ۔ (ابن تیمیۃ، مجموع الفتاویٰ، سئل أیما أفضل قاریٔ القرآن الذی لا یعمل أو العابد ج۲۳، ص۶۱)
عن ثوبان قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: استقیموا ولن تحصوا واعلموا أن خیر أعمالکم الصلاۃ و لا یحافظ علی الوضوء إلا مؤمن۔ (أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ: ج۱، ص۱۸۴، رقم: ۲۷۶ )
لأن السجدۃ المتلوۃ في الصلاۃ أفضل من غیرھا، لأن قراء ۃ القرآن في الصلاۃ أفضل منہا في غیرھا۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ج۲، ص۱۳۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص230
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض سے قبل کی سنت ظہر اگرچھوٹ جائے، تو فرض کے بعد ضرور پڑھنا چاہئے۔(۱)
(۱) وقضی السنۃ التي قبل الظہر في الصحیح في وقتہ قبل صلاۃ شفعہ علی المفتی بہ، کذا في شرح الکنز۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’باب ادراک الفریضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۳، مکتبہ: شیخ الہند دیوبند)
قولہ: وقضی التي قبل الظہر في وقتہ قبل شفعہ بیان لشیئین: أحدہما: القضاء والثاني: محلہ۔ أما الأول: ففیہ اختلاف والصحیح أنہا تقضی کما ذکرہ قاضیخان في شرحہ مستدلاً بما عن عائشۃ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان إذا فاتتہ الأربع قبل الظہر قضاہن بعدہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۸۷، زکریا دیوبند؛ جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’الباب التاسع في النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۱، مکتبہ: زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص357
طلاق و تفریق
Ref. No. 39 / 0000
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں زید پر کفارہ یمین اداکرنا لازم ہے۔ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا ان کو کپڑے یا غلہ دینا اس کا کفارہ ہے۔ مدرسہ کا طالب علم ہو یا کوئی اور ہو مستحق ہونا ضروری ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 41/864
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جان بوجھ کر خلاف ترتیب پڑھنا مکروہات قرات میں سے ہے۔ اور اگر غلطی سے ہوجائے تو مکروہ بھی نہیں ہے، تاہم بہرصورت نماز درست ہوجاتی ہے، سجدہ سہو کی ضرورت نہیں ۔ باقی رکعتوں میں سورہ ناس بھی پڑھ سکتے ہیں اور اگر یاد ہو تو سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات بھی پڑھ سکتے ہیں۔ یا کوئی بھی سورت پڑھ لیں نماز درست ہوجائے گی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1032/41-258
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شادی کے موقع پر اس طرح کا پروگرام، جس میں شادی کے فضائل ومسائل کا تذکرہ ہو، اور نکاح کے دوام و بقاء کی دعا کی جائے ،درست ہے۔ اس کے علاوہ اگر مزید کچھ امور انجام دئے جاتے ہوں تو اس کی وضاحت کرکے مسئلہ معلوم کرلیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 1141/42-370
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زید نے چونکہ اپنی زندگی میں مکان فروخت کردیا اور آٹھ بیٹوں اور ایک بیٹی کا حصہ متعین کردیا تھا، اس لئے باپ کے مرنے کے بعد بقیہ رقم ان بیٹوں وبیٹی میں تقسیم کی جائے گی جن کو ان کا حصہ نہیں ملا۔ یہ رقم ترکہ شمار نہ ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند