اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ شخص اپنے مذکورہ قول و فعل کی وجہ سے اسلام سے خارج ہوگیا ہے، اس سے اسلامی تعلق باقی رکھنا درست نہیں اور ضروری ہے کہ ہر طرح سے رابطہ منقطع کرلیا جائے۔ تاہم اگر وہ توبہ کرلے او راگر شادی شدہ ہے، تو اپنے نکاح کی تجدید کرے تو اس کے ساتھ مسلمانوں جیسا معاملہ کیا جائے گا۔ (۱)

’’إذا أنکر آیۃ القرآن أو استخف بالقرآن أو بالمسجد، أو بنحوہ مما یعظم في الشرع، أوعاب شیئاً من القرآن … أو سخر بآیۃ منہ کفر‘‘(۲)

 

(۱) إذا أنکر الرجل آیۃ من القرآن أو تسخر بآیۃ من القرآن، وفي ’’الخزانۃ‘‘: أو عاب کفر، کذا في التاتار خانیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالقرآن‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۹)

(۲) عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنہر في شرح ملتقی الأبحر، کتاب السیر والجہاد: باب المرتد، ثم إن ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۷)

 

دارالافتاء

دار العلوم وقف دیوبند

 

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:عرف میں کسی معتبر ادارہ سے علوم دینیہ کے مخصوص نصاب کوپڑھ کر فارغ ہونے والے شخص کو عالم کہا جاتا ہے، جب کہ حقیقت میں عالم اسے کہتے ہیں جس کے اندر علم دین کی وجہ سے خشیت الٰہی پیدا ہو جائے؛ اس لئے عالم بننے کے لئے کسی ادارے سے فارغ ہونا ضروری نہیں ہے۔(۲)

(۲) {إِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُاط إِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ غَفُوْرٌہ۲۸} (سورۃ الفاطر: ۲۸)
وأفادت الآیۃ الکریمۃ أن العلماء ہم أہل الخشیۃ وأن من لم یخف من ربہ فلیس بعالم: ابن کثیر۔
ولہٰذا قال شیخ الإسلام عن الآیۃ: وہذا یدل علی أن کل من خشي اللّٰہ فہو عالم وہو حق ولا یدل علی أن کل عالم یخشاہ۔ (ابن تیمیہ، انتہی من مجموع الفتاویٰ: ج ۷، ص: ۵۳۹)
قال الذہبي رحمہ اللّٰہ: لیس العلم عن کثرۃ الروایۃ ولکنہ نور یقذفہ اللّٰہ في القلب وشرطہ الإتباع والفرار من الہوی والابتداع۔ (جامع بیان القرآن: ج ۲، ص: ۲۵)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص166

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:تمام بریلوی مشرک نہیں ہیں، بلکہ جو لوگ قبروں پر سجدہ کرتے ہیں اور صاحب قبر کو مشکل کشا وحاجت روا اور مختار سمجھتے ہیں، ان کے بارے میں اندیشۂ کفر ہے۔ تاہم تاویل کی گنجائش ہے؛ اس لئے ان کو مشرک نہیں کہیں گے(۱)۔ غیرمسلم اور مشرک دونوں کا درجہ ایک ہی ہے۔ اسلام کے بنیادی عقائد سمجھائے جائیں کہ اسلام میں اصل شرک وبت پرستی سے روکنا اور تمام امور میں اللہ تعالیٰ کو ہی مشکل کشا وحاجت روا ہونے کا عقیدہ رکھنا ضروری ہے۔ دین کی بنیادی باتوں کا انکار کفر ہے۔ (۲) البتہ جو بریلوی حضرات شرکیہ اعمال میں مبتلا ہیں اور ان کے اعمال کی کوئی مناسب تاویل کی جا سکتی ہے، تو ان کو مشرک قرار دینے سے گریز کریں گے، ہمارے اکابر کا مزاج؛ بلکہ اصول یہ ہے کہ وہ کسی کلمہ گو مسلمان کو کافر قرار دینے میں عجلت سے کام نہیں لیا کرتے تھے۔

(۱) {لاَ تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ الَّذِيْ خَلَقَہُنَّ إِنْ کُنْتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَہ۳۷} (سورۃ حٓم سجدۃ: ۳۷)

لا یفتی بکفر مسلم أمکن حمل کلامہ علی محمل حسن۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد:  باب المرتد، مطلب في حکم من شتم دین مسلم‘‘: ج ۶، ص: ۳۶۷)

(۲) وإن أنکر بعض ما علم من الدین ضرورۃ کفر بہا۔ (ابن عابدین،  الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۰)

ولا نکفر مسلماً بذنب من الذنوب وإن کانت کبیرۃ إذا لم یستحلہا ولا نزیل عنہ اسم الإیمان ونسمیہ مؤمناً حقیقۃ۔ (أبو حنیفۃ، شرح الفقہ الأکبر، ’’بحث في أن الکبیرۃ لا تخرج المؤمن عن الإیمان‘‘: ص: ۱۱۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص263

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں تعلیم وتربیت کے نقطۂ نظر سے نابالغ بچے کو ہاتھ میں قرآن کریم یا سپارے دینے سے قبل والدین کو وضو کرانا چاہئے تاکہ بچے کو وضو کا طریقہ معلوم ہو سکے؛ البتہ بچے احکامِ شرع کے مکلف نہیں ہیں، نماز، روزہ، وضو اور غسل وغیرہ بھی ان پر فرض نہیں ہے؛ اس لیے بچوں کو بے وضو قرآن کریم چھونے کی شریعت نے رخصت دی ہے، والدین یا اساتذہ اگر بے وضو ان کے ہاتھ میں قرآن کریم یا سپارے دے دیں تو ان پر کوئی گناہ بھی نہیں ہوگا۔
بچوں کے بے وضوقرآن پکڑنے پر والدین اور اساتذہ کے گنہگارنہ ہونے کے بارے میں علامہ ابن عابدینؒ لکھتے ہیں:
’’إن الصبي غیر مکلف والظاھر أن المراد لا یکرہ لولیہ أن یترکہ یمس‘‘(۱)
نابالغ کوبے وضوقرآن چھونے کی اجازت کے بارے میں مجمع الانہر میں ہے:
’’ولا مس صبي لمصحف ولوح لأن في تکلیفہم بالوضوء حرجا بہا وفي تأخیرہ إلی البلوغ تقلیل حفظ القرآن فرخص للضرورۃ‘‘(۲)
تبیین الحقائق میں ہے:
’’وکرہ بعض أصحابنا دفع المصحف واللوح الذي کتب فیہ القرآن إلی الصبیان ولم یر بعضھم بہ بأسا وھو الصحیح لأن في تکلیفھم بالوضوء حرجا بھم وفي تأخیرھم إلی البلوغ تقلیل حفظ القرآن فیرخص للضرورۃ‘‘(۳)
ہمارے بعض اصحاب نے قرآن پاک اور وہ تختی جس پر قرآن لکھا ہو،بچوں کو دینے کو مکروہ قرار دیا ہے اوربعض کے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور یہی صحیح ہے، کیونکہ بچوں کو وضو کا مکلف بنانے میں حرج ہے اور اگر ان کے بالغ ہونے تک قرآن انہیں نہ دیا جائے، تو حفظِ قرآن میں کمی واقع ہوگی؛ لہٰذا بوجہ ضرورت بچوں کو قرآن پاک دینے کی رخصت دی گئی ہے۔

(۱) ابن عابدین، ردالمحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطھارۃ:…  باب سنن الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۴۔
(۲) عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنھر، ’’کتاب الطھارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۔
(۳) عثمان بن علي، تبیین الحقائق، ’’کتاب الطھارۃ: باب الحیض‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۸۔(زکریا بک ڈپو دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص195

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسے غسل خانے میں جس کی دیواریں بڑی بڑی ہوں، بے پردگی نہ ہوتی ہو، وہاں برہنہ غسل کرنا جائز ہے؛ البتہ اولیٰ اور کمال حیا یہ ہے کہ ننگا ہوکر غسل نہ کرے ہاں اگر کوئی ضرورت ہو، تو کر سکتا ہے۔(۱)

(۱) عن یعلی أن رسول اللّٰہ ﷺ رأی رجلا یغتسل بالبراز فصعد المنبر فحمد اللّٰہ و أثنی علیہ ثم قال: إن اللّٰہ عز و جل حیيّ ستیر یحب الحیاء والستر، فإذا اغتسل أحدکم فلیستتر۔ (أخرجہ ابو داود، في سننہ، ’’کتاب الحمام، باب النھي عن التعري‘‘ج۱، ص:۵۵۷)؛  و قال ابن حجر: حاصل حکم من اغتسل عاریا أنہ إن کان بمحل خال لا یراہ أحد ممن یحرم علیہ نظر عورتہ حل لہ ذلک لکن الأفضل الستر حیاء من اللّٰہ تعالی (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’باب الغسل، الفصل الثالث،‘‘ ج۲، ص:۱۳۸، مکتبۃ فیصل دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص287

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: غیر معتادہ کے لیے حیض کی اکثر مدت دس دن ہے۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں جب کہ اس کی کوئی عادت متعین نہیں ہے، دس دن مکمل ہونے سے پہلے جب بھی خون دیکھے گی وہ حیض میں شمار ہوگا۔ نویں دن غسل کرنے کے بعدجو خون دیکھا وہ حیض ہے ابھی نماز نہ پڑھے۔(۲)

(۲) الطھر المتخلل من الدمین والدماء في مدۃ الحیض یکون حیضاً۔(جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب السادس: في الدماء المختصۃ بالنساء ، الفصل الأول: في الحیض، و منھا: تقدم نصاب الطہر‘‘ج۱، ص:۹۱)؛ الطھر إذا تخلل بین الدمین في مدۃ الحیض،…فھو کا لدم المتوالی۔(المرغیناني، ہدایۃ، ’’باب الحیض والاستحاضہ‘‘ ج۱، ص:۶۶)؛ وما تراہ في مدتہ سوی بیاض خالص ولو طھرامتخللاً بین الدمین فیھا حیض، لأن العبرۃ لأولہ و آخرہ و علیہ المتون فلیحفظ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع ردالمختار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض ، مطلب: لو أفتی مفت بشيء من ھذہ الأقوال الخ‘‘ ج۱، ص:۴۸۲-۴۸۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص387

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں جب کہ بکری کی قیمت بھی مقرر ہوگئی اور امام صاحب نے قیمت دینے کا وعدہ بھی کیا مگر اب قیمت کی ادائیگی سے انکار کر رہا ہے ان کے لیے سخت گناہ کی بات اور دھوکہ بازی ہے۔(۱)
اگر امام صاحب کو مدرس کے کام کا معاوضہ طلب کرنا تھا، تو اس کا مطالبہ مدرسہ کے ذمہ داروں سے کرتے یہی اصولی بات تھی مگر انہوں نے ایسا نہ کرکے زید کا ذاتی حق دبانا چاہا یہ ان کے لیے درست اور جائز نہیں ہے۔ اگر وہ اس سے توبہ کرلیں اور حق زید ادا کردیں تو وہ قابلِ امامت ہیں(۲) اور اگر ایسا نہ کریں تو وہ قابل امامت نہیں ہیں ،اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے۔(۳)

(۱) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من غشنا فلیس منا۔ (أخرج الترمذي في سننہ، ’’کتاب البیوع‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵، رقم: ۱۳۵)
(۲) التائب من الذنب کمن لاذنب لہ۔ (أخرجہ ابن ماجۃ  في سننہ، ’’کتاب الزہد: باب: ذکر التوبۃ‘‘: ص:۳۱۳، رقم: ۴۲۵۰)
(۳) وفاسق: من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص169

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسجد میں فرداً فرداً نماز پڑھیں گے اور خارج مسجد جماعت کر سکتے ہیں، اس صورت میں جاعت سے نماز پڑھنے کا ثواب ملے گا۔(۱)
(۱) ویکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ لا في مسجد طریق أو مسجد لاإمام لہ ولا مؤذن، قولہ ویکرہ، أي تحریماً لقول الکافي لایجوز والمجمع لایباح وشرح الجامع الصغیر إنہ بدعۃ کما في رسالۃ السندي، (قولہ بأذان وإقامۃ، الخ … والمراد بمسجد المحلۃ مالہ إمام وجماعۃ معلومون کما في الدر وغیرہا قال في المنبع والتقیید بالمسجد المختص بالمحلۃ احتراز من الشارع وبالأذان الثاني احتراز عما إذا صلی في مسجد المحلۃ، جماعۃ لغیر أذان حیث یباح اجماعاً۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب إذا صلی الشافعي قبل الحنفي ہل الأفضل الصلاۃ مع الشافعي أم لا‘‘: ج۲، ص: ۳۰۷)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص372

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: قبلہ مشتبہ ہونے کی صورت میں بلا تحری نماز پڑھنا درست نہیں، لیکن اگر پڑھ لی اور بعد میں معلوم ہوا کہ صحیح سمت میں پڑھی ہے، تو نماز ہو گئی اعادہ کی ضرورت نہیں، آپ نے جن کتابوں کے حوالے دئے ہیں وہ بھی درست ہیں۔
’’وإن شرع بلا تحر لم یجز وإن أصاب لترکہ فرض التحري إلا إذا علم إصابتہ بعد فراغہ فلا یعید اتفاقاً‘‘(۱)
’’فلو صلی من اشتبہ علیہ حالہا بلا تحری أعادہا لترک ما افترض علیہ من التحري إلا إذا علم أنہ أصاب بعد الفراغ لحصول المقصود‘‘(۲)
’’قولہ: اجتہد فلو صلی من اشتبہت علیہ بلا تحری فعلیہ الإعادۃ إلا إن علم بعد الفراغ أنہ أصاب‘‘(۳)
(۱) ابن عابدین، رد المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب مسائل التحري في القبلۃ‘‘: ج۲، ص: ۱۱۹۔
(۲) أبوالبرکات، عبداللّٰہ بن أحمد النسفي، حاشیہ کنز الدقائق: ص: ۲۱، مکتبہ: تھانوی، دیوبند۔
(۳) المرغیناني، حاشیہ ہدایہ: ج ۱، ص: ۹۷، حاشیہ: ۷،یاسر ندیم، کمپنی، دیوبند۔
وإن اشتبہت علیہ القبلۃ ولیس بحضرتہ من یسألہ عنہا اجتہد وصلیّ، کذا في الہدایۃ فإن علم أنہ أخطأ بعد ما صلیّ لا یعیدہا وإن علم ہو في الصلاۃ استدار إلی القبلۃ وبنی علیہا، کذا في الزاہدي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث: في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۱، زکریا، دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص269

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نماز میں قیام کی حالت میں دونوں کے درمیان چار انگشت کے بقدر جگہ رکھنا افضل ہے اور یہ خشوع کے زیادہ قریب ہے شامی میں ہے ’’لأنہ أقرب إلی الخشوع‘‘ (۱) یہ افضلیت عام حالات میں ہے اگر کسی کو اس سے زیادہ فاصلہ رکھنے میں سکون ملے کہ کوئی موٹے جسم کا لحیم شحیم ہو تو اس کے لیے وہی افضل ہے جس میں اس کو سکون حاصل ہو اور خشوع و خضوع پایا جاسکے۔(۲)
(۱) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، بحث القیام‘‘: ج ۲، ص:۱۳۱۔
(۲) عن أبي عبیدۃ قال: مر ابن مسعود برجل صاف بین قدمیہ، فقال: أما ہذا فقد أخطأ السنۃ، لو راوح بہما کان أحب إلي۔ (أخرجہ عبد الرزاق الصنعاني في مصنفہ، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۵، رقم: ۳۳۰۶)

عن عیینۃ بن عبد الرحمن، قال: کنت مع أبي في المسجد، فرأی رجلاً صافاً بین قدمیہ، فقال: الزق إحداہما بالأخری، لقد رأیت في ہذا المسجد ثمانیۃ عشر من أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ما رأیت أحداً منہم فعل ہذا قط۔ (أخرجہ مصنف ابن أبي شیبۃ، في مصنفہ من کان راوح بین قدمیہ في الصلاۃ: ج ۲، ص: ۱۰۹، رقم: ۷۰۶۳)
وقال الکمال: وینبغي أن یکون بین رجلیہ حالۃ القیام قدر أربع أصابع۔ (فخر الدین بن عثمان، تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق وحاشیۃ الشلبي، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۴)
ویسن تفریج القدمین في القیام قدر أربع أصابع؛ لأنہ أقرب إلی الخشوع۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ص: ۹۸)
وینبغي أن یکون بینہما مقدار أربع أصابع الید؛ لأنہ أقرب إلی الخشوع، ہکذا روي عن أبي نصر الدبوسي إنہ کان یفعلہ، کذا في الکبری۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، بحث القیام‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۱)
ویکرہ أن یلصق إحدی قدمیہ بالأخری في حال قیامہ؛ لما روي الأثرم،  عن عیینۃ بن عبد الرحمن، قال: کنت مع أبي في المسجد، فرأی رجلاً یصلي، قد صف بین قدمیہ، وألزق إحداہما بالأخری، فقال أبي: لقد أدرکت في ہذا المسجد ثمانیۃ عشر رجلاً من أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما رأیت أحداً منہم فعل ہذا قط۔ وکان ابن عمر لا یفرج بین قدمیہ ولا یمس إحداہما بالأخری، ولکن بین ذلک، لا یقارب ولا یباعد۔ (ابن قدامۃ، المغني: ج ۲، ص: ۹)

 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص:  414