اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں ایمان و نکاح باقی ہے۔ (۱) البتہ یہ عمل فوراً ترک کر کے توبہ کرنی چاہئے، (۲) حرام کو بار بار کرنے سے ایمان میں خطرہ ضرور پیدا ہو جاتا ہے۔

 

(۱) ولا نکفر مسلما بذنب من الذنوب وإن کانت کبیرۃ إذا لم یستحلہا، ولا نزیل عنہ إسم الإیمان، ویجوز أن یکون مؤمناً فاسقاً غیر کافر۔ (أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ-، شرح الفقہ الأکبر، ’’الکبیرۃ لا تخرج المؤمن عن الإیمان‘‘: ص: ۱۱۷)

(۲) والفسق لیس في معنی الکفر فلا یلحق بہ في الإحباط۔ (أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ-، شرح الفقہ الأکبر، ’’مسألۃ في التوبۃ وشرائطہا وفیہا أبحاث جلیلۃ‘‘: ص: ۲۶۱)

والکبیرۃ لا تخرج العبد المؤمن من الإیمان ولا تدخل لہ في الکفر۔ (علامہ سعد الدین تفتازاني، شرح العقائد النسفیۃ، ’’مبحث الکبیرۃ‘‘: ص: ۱۰۶)

 

دار الافتاء

دار العلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 2472/45-3745

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ساس کی نگاہ داماد کی شرمگاہ پر پڑی ہے یا نہیں، یہ امر مشکوک ہے، اور اگر نگاہ پڑی  تو بھی بغیر شہوت کے پڑی ہوگی، اس لئے محض شک کی بناء پر حرمت ثابت نہیں ہوگی، اور زید کی بیوی بدستور بیوی رہےگی، اور اس سے  زید کےنکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

"وناظرة إلى ذكره  .... والعبرة للشهوة عند المس والنظر لا بعدهما وحدها فيهما تحرك آلته أو زيادته به يفتى، وفي امرأة ونحو شيخ كبير تحرك قبله أو زيادته.

(قوله: وناظرة) أي بشهوة ... (قوله: وفي امرأة ونحو شيخ إلخ) قال في الفتح: ثم هذا الحد في حق الشاب، أما الشيخ والعنين فحدهما تحرك قلبه أو زيادته إن كان متحركاً لا مجرد ميلان النفس، فإنه يوجد فيمن لا شهوة له أصلاً كالشيخ الفاني، ثم قال: ولم يحدوا الحد المحرم منها أي من المرأة، وأقله تحرك القلب على وجه يشوش الخاطر قال ط: ولم أر حكم الخنثى المشكل في الشهوة، ومقتضى معاملته بالأضر أن يجري عليه حكم المرأة". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 33):

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اللہ کے خوف سے اللہ کے اوامر کو بجا لا نے اور اللہ کی منہیات کو ترک کردینے کا نام تقوی ہے۔(۱)

(۱) {وَإِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا فَإِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُوْرِہ۱۸۶} (سورۃ آل عمران: ۱۸۶)
{ ٰٓیأَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَہ۱۰۲} (سورۃ آل عمران: ۱۰۲)
وقال أبو نعیم روي عن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ: مرفوعاً أیضاً ہو أن یطاع فلا یعصی ویشکر فلا یکفر ویذکر فلا ینسیٰ، وقال البغوي: قال ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ وابن عباس ہو أن یطاع فلا یعصي ہذا إجمال ما ذکر … إلی … فمقتضیٰ ہذہ الآیۃ وجوب اکتساب کمالات الولایۃ۔ (محمد ثناء اللّٰہ پاني پتي، تفسیر المظہري، ’’سورۃ آل عمران: ۱۰۲‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص167

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر ان صفات کی نسبت کرنے میں غلو سے کام لے اور نبی کے حاضر وناظر وعالم الغیب ہونے اور اللہ کے عالم الغیب وحاضر ناظر ہونے میں کوئی فرق نہ کرے  تو اسلام سے خارج ہے، اور اگر دونوں میں فرق کرتا ہے اور تاویل کرتا ہے، تو اس کو اسلام سے خارج نہیں کہا جائے گا۔ (۱)

(۱) لا یفتی بکفر مسلم أمکن حملہ علی محمل حسن۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد:  باب المرتد، مطلب في حکم من شتم دین مسلم‘‘: ج ۶، ص: ۳۶۷)

ولا نکفر مسلماً بذنب من الذنوب وإن کانت کبیرۃ إذا لم یستحلہا ولا نزیل عنہ اسم الإیمان ونسمیہ مؤمناً حقیقۃ۔ (أبو حنیفۃ، شرح الفقہ الأکبر، ’’بحث في أن الکبیرۃ لا تخرج المؤمن عن الإیمان‘‘: ص: ۱۱۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص264

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ٹرین کے باتھ روم میں لوگ کھڑے ہوکر بھی پیشاب کرتے ہیں اور بیت الخلا میں پورے طور پر نکاسی نہ ہونے سے گندہ پانی جمع ہو جاتا ہے؛ اس لیے غالب گمان یہ ہے کہ یہ پانی ناپاک ہے لہٰذا اگر یہ ناپاک پانی کپڑے پر لگ جائے یا بدن کے کسی حصہ یا پیروں میں لگ جائے، تو اس کا دھونا اور پاک کرنا ضروری ہوگا، اٹیچی میں اگر پانی اندر چلا گیا اور کپڑا گیلا ہو گیا، تو کپڑا ناپاک ہو جائے گا اور اس کا دھونا ضروری ہوگا تاہم اگر بیت الخلا صاف ہے اور غالب گمان ہے کہ پانی پاک ہے، تو پھر اس سے بدن اور کپڑے ناپاک نہ ہوں گے اگرچہ پانی کے پاک ہونے میں شک ہو۔
اور اگر پانی باہر کے واش بیسن میں بھر کر بہہ پڑے، تو وہ پانی گرچہ گندہ ہے، مگر ناپاک نہیں ہے، اس کے لگنے سے کپڑے اور بدن ناپاک نہ ہوں گے۔
’’عن أبي أمامۃ الباہلي قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إن الماء لا ینجسہ شيء إلا ما غلب علی ریحہ وطعمہ ولونہ‘‘(۱)
’’وینبغي حمل التیقن المذکور علی غلبۃ الظن والخوف علی الشک أو الوہم کما لا یخفی‘‘(۱)
’’قالوا لو ألقی عذرۃ أو بولا في ماء فانتفخ علیہ ماء من وقعہا لا ینجس ما لم یظہر لون النجاسۃ أو یعلم أنہ البول وما ترشش علی الغاسل من غسالۃ المیت مما لا یمکنہ الامتناع عنہ مادام في علاجہ لا ینجسہ لعموم البلویٰ بخلاف الغسلات الثلاث إذا استنقعت في موضع فأصابت شیئا نجستہ‘‘(۲)

(۱) أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’أبواب الطھارۃ: باب الحیاض‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۱۔رقم:۱۹۰۳ (کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۶۔
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ: النجس المرئي یطہر بزوال عینہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۸۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص67

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو کرنے کے بعد اگر سر کے بالوں کو مونڈوا لیا، تو اس سے وضو پر کوئی فرق نہیں آئے گا اور سر پر دوبارہ مسح کرنا لازم نہیں ہوگا، بلا مسح کے اعادہ کے نماز پڑھ سکتے ہیں۔
’’ومسح الرأس ثم حلق الشعر حیث لا یلزمہ إعادۃ المسح لأن الشعر من الرأس خلقۃ فالمسح علیہ مسح علی الرأس‘‘ (۱)

(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ: باب ما ینقض المسح علی الخفین‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۶۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص197

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بحالت جنابت موئے زیر ناف دور کرنا جائز ہے؛(۲)   لیکن خلاف اولیٰ ہے، حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’امداد الفتاویٰ‘‘ میں یہ جزئیہ نقل فرمایا ہے ’’حلق الشعر حالۃ الجنابۃ مکروہ وکذا قص الأظافیر کذا في الغرائب‘‘ (۳)
نیز حضرت مفتی عزیز الرحمن رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ اس مکروہ سے ’’مکروہ تنزیہی‘‘ یعنی خلاف اولیٰ مراد ہے۔

(۲)قال عطاء: یحتجم الجنب و یقلم أظفارہ و یحلق رأسہ و إن لم یتوضأ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الغسل، باب للجنب یخرج و یمشي في السوق وغیرہ‘‘ ج ۱، ص:۴۲مکتبہ نعیمیہ، دیوبند)
(۳) جماعۃ من علماء الھند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الکراہیۃ، الباب التاسع عشر في الختان ،‘‘ج۵، ص:۴۱۴

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص288

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حیض کی کم سے کم مدت تین دن ہے، اس سے کم اگر خون آئے تو وہ بیماری اور استحاضہ کا خون کہلاتا ہے۔ استحاضہ کی حالت میں عورت عام حالات کی طرح نماز اور روزہ ادا کرے گی۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں تیسرے دن پورے دن انتظار کرے۔ اگر تیسرے دن خون آیا تو تین دن حیض کے ہوگئے اور اگر تیسرے دن بالکل بھی خون نہیں آیا تو یہ دو دن استحاضہ اور بیماری کے شمار ہوں گے اور عورت ان دونوں دنوں کی نمازوں کی قضا کرے گی۔ حیض کی اکثر مدت دس دن ہے۔ اگر دس دن پورے ہونے سے پہلے کسی دن بھی خون آگیا تو سارے ایام حیض کے شمار ہوں گے، اور اگر دو دن کے بعد خون بند ہوگیا اور ۹ ؍دن بند رہنے کے بعد پھر شروع ہوا تو یہ گیارہواں دن ہے اس لیے یہ ایام حیض کے شمار نہ ہوں گے۔(۱)

(۱)و أقلّہ ثلاثۃ أیام بلیالیھا… و أکثرہ عشرۃ، و ما نقص عن أقلہ أو زاد علی أکثرہ، فھو استحاضۃ۔ (ابراہیم بن محمد، ملتقی الأبحر مع مجمع الأنہر، ’’باب الحیض‘‘ ج۱، ص:۷۷-۷۸) ؛ وأقل الحیض ثلاثۃ أیام و ثلاث لیال في ظاھر الروایۃ، ھکذا في التبیین، و أکثرہ عشرۃ أیام و لیالیھا، کذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب السادس: في الدماء المختصۃ للنساء، الفصل الأول: في الحیض، و منھا النصاب‘‘ ج۱،ص:۹۱)؛ و أقل الحیض ثلاثۃ أیام و لیالیھا وما نقص من ذلک فھو استحاضۃ، و أکثرہ عشرۃ أیام والزائد استحاضۃ۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’باب الحیض والاستحاضۃ‘‘ج ۱، ص:۶۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص388

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر امام صاحب نے باوجود علم کے عدت میں نکاح پڑھایا ہے تو نکاح پڑھانے والا اور اس نکاح میں شریک گاؤں کے لوگ سب کے سب گناہگار ہوں گے ان سب پر توبہ اور استغفار لازم ہے۔
’’قال اللّٰہ تعالیٰ: {إِلَّاالَّذِیْنَ تَابُوْا وَ أَصْلَحُوْا وَ بَیَّنُوْا}(۱)
’’یدل علی أن التوبۃ من الکتمان إنما یکون بإظہار البیان، وأنہ لا یکتفی فی صحۃ التوبۃ بالندم علی الکتمان فیما سلف دون البیان فیما استقبل‘‘(۲)
’’عن أبي سعید الخدري رضي اللّٰہ عنہ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ’’من رأی منکم منکراً فلغیرہ بیدہ، فإن لم یستطع فبلسانہ، فإن لم یستطع فبقلبہ، وذلک أضعف الإیمان‘‘(۳)

نیز اگر مذکورہ امام سے بہتر اور لائق کوئی دوسرا شخص امامت کے لیے موجود ہو تو ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ ہے؛ البتہ توبہ اور استغفار کے بعد اس امام کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
’’ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق وأعمی ومبتدع لا یکفر بہا، وإن کفر بہا فلا یصح الاقتداء بہ أصلاً، وولد الزنا، ہذا إن وجد غیرہم، وإلا فلا کراہۃ‘‘(۱)

(۱) سورۃ البقرۃ: ۱۶۰۔
(۲) الجصاص، أحکام القرآن: ’’سورۃ البقرۃ: ۱۶۰‘‘ ج ۱، ص: ۱۴۳۔
(۳) أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب: النہي عن المنکر من الإیمان‘‘: ج ۱، ص: ۵۰، رقم: ۴۹۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص170

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مغرب کی نماز میں تعجیل بہتر ہے؛ البتہ کسی عذر کی وجہ سے تاخیر ہوجائے اور وقت کے اندر ہی نماز پڑھ لی جائے تو کوئی حرج نہیں مذکورہ صورت میں عذر بھی ہے اور تاخیر بھی اتنی نہیں ہے جس سے نماز میں کوئی کمی آئے اس لیے درست ہے۔(۱)
(۱) تأخیر المغرب مکروہ إلا بعذر السفر أو بأن کان علی المائدۃ، (علي بن عثمان، الفتاویٰ السراجیۃ، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ص: ۵۷، مکتبہ اتحاد دیوبند)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص372