اسلامی عقائد

Ref. No. 2693/45-4156

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی شدید ضرورت کے بغیر وقف کی تبدیلی جائز نہیں ہے جو زمین جس نام سے وقف ہو اسی میں استعمال کرنا ضروری ہے، ہاں اگر مدرسہ کی زمین ضرورت سے زائد ہو اور مسجد میں توسیع کی واقعی ضرورت ہو اور کوئی دوسری صورت نہ ہو تو مدرسہ کی وقف زمین کو باہمی مشورہ سے مسجد میں شامل کیا جا سکتا ہے اس لیے کہ دونوں عام مسلمانوں کےلیے وقف ہے۔

لا یجوز تغیر الوقف (فتاوی ہندیۃ: ج ٦، ص: ٤٩٠) جعل شیئ أي جعل البانی شیئا من الطریق مسجدا لضیقہ ولم یضر بالمارین جاز لأنہا للمسلمین‘‘

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں ممانعت کی کوئی وجہ نہیں ہے؛ اس لیے اس وضو سے فرض ہو یا نفل ہر نماز پڑھی جا سکتی ہے۔
’’عن سلیمان بن بریدۃ عن أبیہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلی الصلوات یوم الفتح بوضوء واحد ومسح علیٰ خفیہ، فقال لہ عمر: لقد صنعتہ الیوم شیئاً لم تکن تصنعہ …؟ قال عمداً صنعتہ یا عمر … قال الإمام النووي … وجواز الصلوات المفروضات والنوافل بوضوء واحد ما لم یحدث وہذا جائز بإجماع من یعتد بہ‘‘(۱)

(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب جواز الصلوات کلہا بوضوء واحد‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۵۔ (کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الطہارۃ: باب ما جاء أنہ یصلی الصلوات بوضوء واحد‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۔(کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند) ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الطہارۃ: باب کفایۃ الوضوء الواحد لصلوات متعددۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۴۔(مکتبۃ أشرفیہ، دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص185

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حالت حیض میں عورت کے لیے نماز وتلاوت قرآن منع ہے، مگر دیگر وظائف اور کلمہ طیبہ پڑھ سکتی ہے؛ بلکہ بہتر ہے کہ حائضہ عورت نماز کا وضو بنا کر مصلی پر بیٹھ کر نماز کی مقدار تسبیحات پڑھے مثلاً ’’سبحانک أستغفر اللّٰہ الذی لا إلہ إلا ہو الحی القیوم‘‘ تو اس کے نامہ اعمال میں ہزاروں کتابوں کے برابر ثواب لکھا جاتا ہے ستر ہزار گناہوں کی معافی ہوتی ہے۔(۱)

(۱)لَا یَمَسُّہٗ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ (واقعۃ:۷۹) یمنع صلٰوۃ ۔۔۔إلی۔۔۔ و قراء ۃ قرآن و قال فی رد المحتار: یستحب لھا أن تتوضأ لکل صلاۃ و تقعد علی مصلاھا تسبح و تھلل و تکبر بقدر أدائھا، کي لا تنسی عادتھا، و في روایۃ: یکتب لھا ثواب أحسن صلاۃ کانت تصلي۔( ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض، مطلب لو أفتی مفت بشيء من ھذہ الأقوال‘‘ج۱،ص:۴۸۴، مکتبۃ زکریا دیوبند) ؛(و لیس للحائض والجنب والنفساء قراء ۃ القرآن) لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: لا تقرأ الحائض ولا الجنب شیئا من القرآن۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض والاستحاضۃ‘‘ ج۱،ص:۱۶۹)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص380

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: احکام شریعت (خواہ تحریری ہوں یا زبانی) کو حقیر وذلیل سمجھنا اور ان کے ساتھ تذلیل وتحقیر کا معاملہ کرنا سخت ترین گناہ ہے اور ایسا کرنے والے شخص کے لیے کفر کا اندیشہ ہے ایسی باتوں سے مسلمانوں کو پرہیز کرنا لازم ہے، پس مذکورہ صورت میں شریعت کے حکم کو نہ ماننا اور اس کو پیروں تلے روندنا سخت گناہ کا باعث ہے اس شخص کو چاہئے کہ خدا سے توبہ اور استغفار کرے اگر امام بھی ایسا کرنے میں شریک رہا تو وہ بھی سخت گنہگار ہے اور اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے، کسی دوسرے نیک صالح دیندار پرہیزگار شخص کو امام بنانا چاہئے۔(۱)
(۱) وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لایہتم لأمر دینہ، وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ، وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً، ولایخفی أنہ إذا کان أعلم من غیرہ لاتزول العلۃ، فإنہ لایؤمن أن یصلي بہم بغیر طہارۃ فہو کالمبتدع تکرہ إمامتہ بکل حال، بل مشی في شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریماً۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۹)
کرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعاً فلا یعظم بتقدیمہ للإمامۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۱،  ص: ۳۰۳)
قولہ فتجب إہانتہ شرعاً یعظم بتقدیمہ للإمامۃ تبع الزیلعي، ومفادہ کون الکراہۃ في الفاسق تحریمیۃ، أیضاً:
الفاسق والفسق لغۃ خروج عن الاستقامۃ وہو معنی قولہم خروج الشيء …عن الشيء علی وجہ الفساد وشرعاً خروج عن طاعۃ اللّٰہ تعالیٰ بارتکاب کبیرۃ، قال القہستاني أي أو إصرار علی صغیرۃ (فتجب إہانتہ شرعاً فلا یعظم بتقدیمہ الإمامۃ) تبع فیہ الزیلعي ومفادہ کون الکراہۃ في الفاسق تحریمیۃ۔ (أیضاً:)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص157


 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں اس شخص کو جماعت میں شامل نہ ہونا چاہئے چوں کہ وہ شخص اپنی فرض نماز ادا کر چکاہے، اب جماعت کے ساتھ شامل ہونے سے اس کی نماز نفل ہوگی جب کہ فجر و عصر میں ادائے فرض کے بعد طلوع آفتاب وغروب آفتاب تک نوافل کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔(۲)
(۲) وعن ابن عمر کان یقول من صلی المغرب أو الصبح ثم أدرکہا مع الإمام فلا یعد لہما، وعن جابر قال: کان معاذ یصلی مع النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم العشاء ثم یرجع إلی قومہ فیصلي بہم العشاء وہي لہ نافلۃ‘‘ (مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ، باب من صلی صلاۃ مرتین، الفصل الأول‘‘: ج۱، ص: ۱۰۳، قم: ۱۱۵۱، یاسر ندیم دیوبند)
وکرہ نفل بعد صلاۃ فجر وصلاۃ عصر، لایکرہ قضاء فائتۃ وکذا بعد طلوع فجر سوی سنتہ، الخ … قال الشامي، قولہ کرہ: الکراہیۃ ہنا تحریمیۃ کما صرح بہ في الحلیۃ، وقولہ بعد صلاۃ فجر وعصر أي إلی ماقبل الطلوع والتغیر۔ (ابن عابدین،  رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۳۷، زکریا دیوبند)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص363

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: ریکارڈ شدہ اذان کو سنا دینے سے اذان کی سنت ادا نہیں ہوگی؛ اس لیے ایسا کرنا کافی نہیں ہے۔
’’وذکر في البدائع أیضاً أن أذان الصبي الذي لا یعقل لا یجزی ویعاد: لأن ما یصدر لا عن عقل لا یعتد بہ کصوت الطیور … ہو أن المقصود الأصلي من الأذان في الشرع الإعلام بدخول أوقات الصلاۃ ثم صار من شعار الإسلام في کل بلدۃ أو ناحیۃ من البلاد الواسعۃ علی ما مر، فمن حیث الإعلام بدخول الوقت وقبول قولہ لا بد من الإسلام والعقل والبلوغ والعدالۃ‘‘ (۱)

(۱) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في أذان الجوق‘‘: ج ۲، ص: ۶۲، زکریا، دیوبند۔
وأذان الصبي الذي لا یعقل لا یجوز ویعاد، وکذا المجنون، ہکذا في النہایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان‘‘: الفصل الأول: في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۰، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص148

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱) اگر امام کی آواز مقتدیوں تک نہ پہنچ سکتی ہو، تو مکبر مقرر کرنا مستحب ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الوفات میں جب آپ کی آواز کمزور ہوگئی تھی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کی آواز کو لوگوں تک پہنچایا تھااس لیے یہ عمل بہتر ہے۔
(۲) اگر خود بخود امام کی آواز پہنچ رہی ہو، تو وہاں مکبر مقرر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
(۳) جو شخص نماز میں ہواور اس نے نماز میں تکبیر تحریمہ کے ساتھ تکبیر کی نیت کی ہو اسی کو مکبر ہونا چاہیے خارجِ نماز کوئی شخص مکبر نہیں بن سکتا ہے، اسی طرح اگر کوئی شخص صرف بات پہوچانے کی نیت کرے خود اپنی تکبیر تحریمہ کی نیت نہ کرے تو نہ اس کی نماز ہوگی اور نہ ہی اس کی تکبیر کی اقتدا کرنے والوں کی نماز ہوگی۔
’’إعلم أن الإمام إذا کبر للافتتاح فلابد لصحۃ صلاتہ من قصدہ بالتکبیر الإحرام، و إلا فلا صلاۃ لہ إذا قصد الإعلام فقط، فإن جمع بین الأمرین بأن قصد الإحرام و الإعلان للإعلام فذلک ہو المطلوب منہ شرعا، وکذلک المبلغ إذا قصد التبلیغ فقط خالیاعن قصد الإحرام فلا صلاۃ لہ، ولا لمن یصلي بتبلیغہ في ہذہ الحالۃ لأنہ اقتدی بمن لم یدخل في الصلاۃ، فإن قصد بتکبیرہ الإحرام مع التبلیغ للمصلین فذلک ہو المقصود منہ شرعا، کذا في فتاویٰ الشیخ محمد بن محمد الغزي‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في التبلیغ  خلف الإمام‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۱، مکتبہ: زکریا دیوبند
لکن إذا کان بقرب الإمام یسمع التکبیرات منہ فأما إذا کان یبعد منہ یسمع من المکبّرین یأتي بجمیع ما یسمع۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع عشر في صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۲)
ولقولہ … یقتدی بہ أبو بکر رضي اللّٰہ عنہ وقال کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلي بالناس وکان أبو بکر مبلغاً۔ (العیني، البنایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۶۱، مکتبہ: نعیمیہ دیوبند
)
 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص:  405

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایک بڑی آیت یا تین چھوٹی آیتوں کے پڑھنے سے نماز درست ہوجاتی ہے صورت مسئولہ میں دو آیتیں اگر چھوٹی تین آیتوں کے برابر تھیں تو نماز درست ہوگئی ورنہ نہیں، تین چھوٹی آیتوں کے برابر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سورہ عصر ، اخلاص ، کوثر وغیرہ کے برابر ہو یاکم از کم درج ذیل آیتوں کے برابر ہوجائے۔ {ثُمَّ نَظَرَہلا ۲۱ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَہلا ۲۲ ثُمَّ اَدْبَرَ وَاسْتَکْبَرَہلا ۲۳} اگر آپ دوسری رکعت میں پڑھی گئی دونوں آیتیں لکھ دیں تو واضح طور پر بتادیا جائے گا کہ یہ دو آیتیں چھوٹی تین آیتوں کے برابر ہیں یا نہیں، نیز امام کو اتنی کم قرأت نہیں کرنی چاہئے کہ شبہ ہونے لگے کہ نماز ہوئی یا نہیں۔(۱)
(۱) وضم أقصر سورۃ کالکوثر أو ما قام مقامہا، وہو ثلاث آیات قصار، نحو {ثُمَّ نَظَرَہلا ۲۱ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَہلا ۲۲ ثُمَّ أَدْبَرَ وَاسْتَکْبَرَہلا ۲۳} وکذا لو کانت الآیۃ أو الآیتان تعدل ثلاثا قصاراً۔ ذکرہ الحلبي أي في شرحہ الکبیر علی المنیۃ۔ وعبارتہ: وإن قرأ ثلاث آیات قصاراً أو کانت الآیۃ أو الآیتان تعدل ثلاث آیات قصار خرج عن حد الکراہۃ المذکورۃ: یعنی کراھۃ التحریم (الحصکفي، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۹، ۱۵۰، زکریا)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص105

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: امام صاحب کو یہ عادت بنا لینا خلاف سنت ہے اور مکروہ ہے اگر کوئی عذر نہ ہو تو نماز فجر میں سورہ حجرات سے لے کر سورہ بروج تک سورتوں میں سے ایک ایک سورت یا اس کے بقدر ایک ایک رکعت میں پڑھے یہ ہی مسنون اور مستحب ہے۔ البتہ اگر وقت کی تنگی ہو یا کسی اور ضرورت یا عذر کی بنا پر قرآت مختصر کرنی پڑے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔(۱)
(۱) واستحسنوا في الحضر طوال المفصل في الفجر والظہر … ویکرہ أن یوقت شیئاً من القرآن لشيء من الصلوات، قال الطحاوي و الإسبیجابي: وہذا إذا رآہ حتماً واجباً بحیث لایجوز غیرہ، أو رأي قراء ۃ غیرہ مکروہۃ، وأما إذا قرأ لأجل الیسر علیہ أو تبرکاً بقراء تہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلا کراہۃ في ذلک ولکن یشترط أن یقرأ غیرہ أحیانا لئلا یظن الجاہل أن غیرہ لایجوز۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الھندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الرابع‘‘: ج۱، ص: ۱۳۵، زکریا دیوبند)
ومشایخنا استحسنوا قراء ۃ المفصل لیستمع القوم ، و لیتعلموا … اختار في البدائع أنہ لیس في القراء ۃ تقدیر یعني، بل یختلف باختلاف الوقت، وحال الإمام والقوم، کما في البحر۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان سننہا‘‘: ص: ۲۶۳، شیخ الہند دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص224

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بلیہ ونوازل کی حالت میں فجر کی نماز میں قنوت نازلہ کا اصل حکم قائم ہے۔ فقہاء کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں رفع یدین افضل نہیں ہے۔
’’والذي یظہر لي أن المقتدي یتابع إمامہ إلا إذا جہر فیؤمن وإنہ یقنت بعد الرکوع لا قبلہ‘‘(۱)
اس کے لیے ارسال تو ہے ہی؛ لیکن رفع یدین کے بارے میں بدائع الصنائع جلد: ۳، ص: ۳۷۲ میں ہے۔
’’روي عن علي رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ کان إذا أراد أن یقنت کبر وقنت وأما رفع الیدین، فلقول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا ترفع الیدین إلا في سبعۃ مواطن وذکر من جملتہا القنوت‘‘(۲)
لیکن شامی میں یہ حدیث اس طرح منقول ہے۔
’’لا ترفع الأیدي إلا في سبع مواطن: عند افتتاح الصلاۃ وفي العیدین والقنوت في الوتر وعند استلام الحجر الخ‘‘(۳)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رفع یدین قنوت وتر کے ساتھ ہے قنوت نازلہ کے وقت نہیں؛ لیکن عمومی جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قنوت نازلہ سے قبل بعد الرکوع رفع یدین ہے۔
بظاہر دونوں صورتیں جائز ہیں، فرق اولیت اور افضلیت کا ہوگا۔ لہٰذا اس مسئلہ میں نزاع اور بحث نہ ہونی چاہیے۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مطلب في القنوت للنازلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۹۔)
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، وقت الوتر و صفۃ القرائۃ فیہ‘‘: ج ۱، ص:  ۶۱۲۔)
(۳) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، حکم رفع الیدین‘‘: ج ۱، ص: ۴۸۵۔)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص332