Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: سمت قبلہ کی تعیین اور تعمیر مساجد کے سلسلے میں سلف و صحابہ و تابعین سے لے کر آج تک طریقہ یہ ہے کہ جس شہر میں پرانی مسجدیں مسلمانوں کی تعمیر کردہ موجود ہوں انھیں کے مطابق نمازیں کرلی جائیں، ایسی جگہوں میں آلات رصدیہ اور قواعد ریاضیہ کی باریکیوں میں پڑنا خلاف سنت اور نامناسب ہے؛ اس لیے آپ اپنے آس پاس کی پرانی مسجدوں میں نمازیں پڑھیں، آلات جدیدہ پر کلی اعتماد نہ کریں، کمپاس یا قبلہ نماکی تعیین کا لازمی اعتبار نہیں ہے۔ ہاں اس سے آپ مدد لے سکتے ہیں فیصلہ نہیں کرسکتے ہیں۔
اگر عین قبلہ سے پینتالیس ڈگری سے کم انحراف ہو، تو نماز ہوجاتی ہے؛ لیکن جان بوجھ کر انحراف رکھنا درست نہیں ہے۔
اگر واقعی مسجد جہت قبلہ سے منحرف ہے، تو مسجد کو از سر نو توڑ پھوڑ کرنے کی ضرورت نہیں ہے البتہ صفیں اس طرح لگادی جائیں کہ تمام صفوں کا رخ جہت قبلہ کی طرف ہو جائے۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ قدیم ترین مسجد کو معیار بنایا جائے؛ لیکن اس کی کوئی حتمی تعیین نہیں کی جاسکتی ہے، بلکہ شہر میں جو سب سے قدیم مسجد ہو اس کو معیار بنالیا جائے۔
’’فللمکي إصابۃ عینہا ولغیرہا أي: غیر معاینہا إصابۃ جہتہا بأن یبقی شيء من سطح الوجہ مسامتا للکعبۃ أو لہوائہا، بأن یفرض من تلقاء وجہ مستقبلہا حقیقۃ في بعض البلاد الخ قال الشامي: فیعلم منہ أنہ لو انحرف عن العین انحرافاً لاتزول منہ المقابلۃ بالکلیۃ جاز، ویؤیدہ ما قال في الظہیریۃ: إذا تیامن أو تیاسر تجوز لأن وجہ الإنسان مقوس، لأن عند التیامن أو التیاسر یکون أحد جوانبہ إلی القبلۃ‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، ’’باب شروط الصلاۃ‘‘: مبحث في استقبال القبلۃ، ج ۲، ص: ۱۰۹، مکتبہ: زکریا، دیوبند۔
ومن کا خارجاً عن مکۃ فقبلتہ جہۃ الکعبۃ، وہو قول عامۃ المشائخ ہو الصحیح: ہکذا في التبیین۔
وجہۃ الکعبۃ تعرف بالدلیل، والدلیل في الأمصار والقریٰ المحاریب التي نصبہا الصحابۃ والتابعون فعلینا اتباعہم فإن لم تکن فالسوال من أہل ذلک الموضع، وأما في البحار والمفاوز فدلیل القبلۃ النجوم ہکذا في فتاویٰ قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث: في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۰، زکریا، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص270
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: تشہد میں اثبات کے وقت انگلی اٹھانے کے بعد انگلیوں کا حلقہ بنایا جاتا ہے۔ آخر نماز تک اس کا باقی رکھنا افضل ہے اس کو کھولنے کا تذکرہ کسی کتاب میں نظر سے نہیں گذرا۔ شامی میں ہے ’’أي حین الشہادۃ فیعقد عندہا الخ‘‘(۱) لیکن اگر کوئی حلقہ کھول دے تو اس کو مطعون نہ کیا جائے اس لیے کہ یہ صرف افضلیت کی بات ہے۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۸۔
عن عبد اللّٰہ بن الزبیر أنہ ذکر أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یشیر بأصبعہ إذا دعا ولا یحرکہا۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: تفریع أبواب الرکوع والسجود باب:الإشارۃ في التشہد‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۲، رقم: ۹۹۰)
قال الطحطاوي في حاشیۃ علی مراقي الفلاح: قولہ، وتسن الإشارۃ، أي من غیر تحریک فإنہ مکروہ عندنا۔ (ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن: ج ۳، ص: ۱۱۲)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 416
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1051
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سب سے پہلے نجاست کو دور کیجیے۔ پھر کپڑے کو تین بار دھوییے اور ہر باراچھی طرح نچوڑیے۔ اس طرح تین بار دھونے سے اور ہر بار نچوڑنے سے آپ کا کپڑا پاک ہوجاءے گا۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Business & employment
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 919/41-37
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ زمین جو باپ نے چھوڑی ہے، اگر اس کے علاوہ بھی کوئی مال ہو تو تمام مال و جائداد کو جمع کر کے سب میں تقسیم کیاجائے گا۔ اگر صرف یہی زمین ہے جس کا معاوضہ پچاس لاکھ ملنے والا ہے تو اس رقم کو تمام ورثاء میں شریعت کے مطابق تقسیم کیا جائے گا اور بیٹی کو بھی حصہ ملے گا جیسے بیٹوں کو ملے گا۔ فقہ اسلامی کے اعتبار سے پوری جائداد میں سے ماں کو آٹھواں حصہ دے کر باقی سات حصے اولاد میں اس طرح تقسیم ہوں گے کہ بیٹی کو اکہرا اور بیٹوں کو دوہرا حصہ ملےگا۔ اب کل پچاس لاکھ میں سے مرحوم کی بیوی کو چھ لاکھ پچیس ہزار (625000)اور بیٹی کو چار لاکھ چھیاسی ہزار ایکسو گیارہ (486111)، اور ہر ایک بیٹے کو نو لاکھ بہتر ہزار دو سو بائیس (972222) روپئے حصہ میں ملیں گے۔ بیٹی کو شریعت نے حصہ دار بنایا ہے، والد وصیت کرے یا نہ کرے اس کو شریعت کا متعین کردہ حصہ ضرور ملے گا، اگر اس کے بھائیوں نے اپنی بہن کو حصہ نہیں دیا تو گنہگار ہوں گے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1574/43-1100
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ euthanasia کا مطلب: لاعلاج اور انتہائی تکلیف دہ بیماری یا ناقابل واپسی کوما میں مبتلا مریض کو بلا کسی تکلیف و درد کے بذریعہ انجکشن یا دوا جان سے مارڈالنااور قتل کرنا۔
زندگی اللہ کی امانت ہے، اللہ نے دی ہے اور وہی اس کا مالک ہے، اپنی حیات کو ختم کرنے کا کسی کو اختیار نہیں دیا گیا اس لئے خود کشی حرام ہے اور احادیث میں خود کشی پر سخت وعید آئی ہے ، اگرخدا نخواستہ کوئی بقول ڈاکٹر لاعلاج بیماری میں مبتلا ہوجائے تو بھی خلاصی حاصل کرنے کی خاطر خودکشی کا راستہ اختیار کرنا جائز نہیں ہوگا۔ نیز کسی آدمی کا خودکشی کرنا اور دوسرے کو قتل کرنا، دونوں کا ایک حکم ہے، دونوں حرام ہیں۔کوئی کسی ناقابل برداشت تکلیف میں ہو اور اس سے نجات حاصل کرنے کے لئے خودکشی کرنا چاہے تو یہ ایسا ہی حرام ہے، جیساکہ بلاوجہ خودکشی کرنا حرام ہے۔ تکلیف سے نجات حاصل کرنے کے لئے بجائے خودکشی کے کسی ایسے فعل کا ارتکاب کرنا جو موت کا سبب بن جائے وہ بھی بحکم خودکشی کے ہے۔ان سب کی ممانعت بہت صراحت کے ساتھ قرآن و حدیث میں موجود ہے۔تاہم اگر دوا سے کوئی خاص فائدہ نہ ہو اور دوا چھوڑدی جائے تو یہ قتل نفس کے زمرے میں نہیں آئے گا، اسی طرح اگر مصنوعی آلہ تنفس کو اگر ہٹادیاجائے اور سانس رک جائے اور موت واقع ہوجائے تو یہ بھی قتل نفس کے زمرے میں نہیں آئے گا۔ قتل نفس کے لئے انجکشن لینا یا دینا دونوں حرام ہے اور بعض صورتوں میں لگانے والے یا دوا دینے والے پر دیت بھی لازم ہوسکتی ہے۔ جو صورت پیش آئے اس کی وضاحت کے ساتھ سوال کرلیا جائے تاکہ اسی کے مطابق جواب دیا جاسکے۔
”وَلاَ تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ الاَّ بِالْحَقِّ“ (سورۃ الانعام 151) ”یکرہ تمنی الموت لغضب، أو ضیق عیش، وفی صحیح مسلم: لا یتمنین أحدکم الموت لضرّ نزل بہ(شامی 5/270) ”استعجالا للموت أو لغیر مصلحة، فانہ لو کان علی طریق المداواة التي یغلب الظن علی نفعہا، لم یکن حراما“ شرح مسلم للنووی 1/73) ”وان قیل: لا ینجو أصلا․ لا یتداوی بل یترک، کذا فی الظہیریة“ ((الھندیۃ 6/239) ”الأسباب المزیلة للضرر تنقسم الی مظنون کالفصد وسائر أبواب الطب وترکہ لیس محظورا“ ((الھندیۃ کتاب الکراہیة باب الثامن عشر) بخلاف من امتنع عن التداوي حتی مات (یعنی لایکون عاصیًا)“(شامی 5/512) ”من تردّی من جبل فقتل نفسہ فہو فی نار جہنم یتردّی فیہا خالدًا مخلدًا فیہا ابدًا، ومن تحسّی سمًا فقتل نفسہ فسمہ فی یدہ یتحساہ فی نار جہنم خالدًا مخلدًا فیہا ابدًا، ومن قتل نفسہ بحدیدة فحدیدتہ فی یدہ یتوجأ بہا فی بطنہ فی نار جہنم خالدًا مخلدًا ابدًا (مسلم مع فتح الملہم 1/265) ن جندب بن عبد اللہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: کان فیمن کان قبلکم رجل بہ جرح، فجزع، فأخذ سکینا فحز بہا یدہ، فما رقأ الدم حتی مات، قال اللہ تعالی: بادرَنی عبدی بنفسہ، حرمت علیہ الجنة․ رواہ البخاری (3463) عن أبی ہریرة قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من قتل نفسہ بحدیدة فحدیدتہ فی یدہ یتوجأ بہا فی بطنہ فی نار جہنم“ ومن شرف سما فقتل نفسہ (الحدیث)“ قولہ فحدیدتہ فی یدہ، قال ابن دقیق العید: ․․․ ویوٴخذ منہ أن جنایة الانسان علی نفسہ کجنایتہ علی غیرہ فی الاسلام، لأن نفسہ لیست ملکا لہ مطلقا بل ہی للّٰہ تعالیٰ فلا یتصرف فیہا الا بما أذن فیہ (فتح الملہم: 1/562)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
سیاست
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں ایمان و نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑا(۱)، ایمان و نکاح باقی ہے(۲)۔ تاہم یہ روش ترک کر دینی چاہئے، ورنہ یہ صورت ایمان کے لئے ضرور خطرہ بن سکتی ہے، گناہ تو ہے ہی۔
(۱) ولا نکفر مسلما بذنب من الذنوب وإن کانت کبیرۃ إذا لم یستحلہا، ولا نزیل عنہ إسم الإیمان، ویجوز أن یکون مؤمناً فاسقاً غیر کافر۔ (أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ-، شرح الفقہ الأکبر، ’’الکبیرۃ لا تخرج المؤمن عن الإیمان‘‘: ص: ۱۱۷)
والکبیرۃ لا تخرج العبد المؤمن من الإیمان ولا تدخلہ في الکفر…(علامہ سعد الدین تفتازاني، شرح العقائد النسفیۃ، ’’مبحث الکبیرۃ‘‘: ص: ۱۰۶)
دار الافتاء
دار العلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
Ref. No. 2256/44-2411
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حدیث شریف میں وارد ہے کہ کھانا کھانے کے لئے بیٹھنے میں تواضع کی ہیئت اختیار کرنی چاہئے، لہذا جس طرح تشہد میں دو زانو بیٹھتے ہیں، اس طرح کھانے کے لئے دو زانو بیٹھنا یا دو نوں قدموں کے بل اکڑوں ہوکربیٹھنا یا دائیں پیر کو اٹھاکر اور بائیں پیر کو بچھا کر بیٹھنا سنت طریقہ ہے۔ تاہم اگر کسی کو کوئی عذر ہو تو وہ حسبِ سہولت جس طرح چاہے بیٹھ سکتاہے، اس معاملے میں کسی پر سختی سے نکیر کرنا ہر گز درست نہیں، بلکہ ترغیب سے کام لینا چاہیے۔
2۔ مولانا سعد صاحب کا نسب نامہ مجھے معلوم نہیں، براہِ راست ان سے ہی اس کو معلوم کرنا چاہئے، یا پھر اس طرح کی غیرمفید بحث سے اجتناب کرنا چاہئے۔
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اٰکل کما یأکل العبد، وأجلس کما یجلس العبد؛ فإنما أنا عبد۔ (شعب الإیمان للبیہقي ۵؍۱۰۷ رقم: ۵۹۷۵)
عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال: رأیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم مُقعِیًا یأکل تمرًا۔ (صحیح مسلم، کتاب الأشربۃ / باب استحباب تواضع الآکل وصفۃ قعودہ ۲؍۱۸۰ رقم: ۲۰۴۴)
عن أپی جحیفة قال: قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: لا أکل متکئًا ۔ رواہ البخاری (مشکاة المصابیح: ۳۶۳، کتاب الأطعمة الفصل الأول)
فالمستحب في صفۃ الجلوس للآکل أن یکون جاثیًا علی رکبتیہ وظہور قدمیہ، أو ینصب الرجل، یجلس علی الیسریٰ۔ (فتح الباري، کتاب الأطعمۃ / باب الأکل متکأً، الجزء التاسع ۱۲؍۶۷۶ تحت رقم: ۵۳۹۹)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2473/45-3740
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دونوں کے لئے ضروری ہے کہ گناہوں سے بچنے کی کوشش کریں، اور سابقہ گناہوں سے توبہ کرکے اعمال صالحہ پر جمنے کی کوشش کریں ۔ ہر فرض نماز کے بعد داہنا ہاتھ سر پر رکھ کر 'یاقوی' گیارہ مرتبہ پڑھ لیا کریں، سوتے وقت گیارہ مرتبہ سورہ فاتحہ ، اول و آخر گیارہ مرتبہ درود شریف پڑھ لیا کریں،اور خمیرہ گاؤزبان عنبری جواہر والا خاص ہمدرد کا اور خمیرہ ابریشم حکیم ارشد والا دونوں برابر مقدار میں صبح کو پانچ گرام گرم پانی سے لے لیا کریں، انشاء اللہ جسم میں طاقت رہے گی اور حافظہ بھی قوی ہوگا، اس کے علاوہ ضرورت ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند