آداب و اخلاق

Ref. No. 3496/47-9507

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔       مستورات کا واٹساپ گروپ، جس میں صرف خواتین ہوں اس میں ایک مرد کا ہونا فتنہ کا سبب بن سکتاہے، اس لئے ایسا کرنا مناسب نہیں ہے۔ نوجوان عالم صاحب اپنی اہلیہ کو واٹساپ گروپ میں شامل کردیں اور گروپ میں پیش آمدہ مسئلہ ان کی اہلیہ ان سے معلوم کرکے گروپ میں بتادیں تو یہ زیادہ بہتر طریقہ ہوگا۔ اہلیہ کے موبائل پر وائس میسیج کے ذریعہ متعلقہ مسئلہ کی وضاحت کرنے میں بھی عالم صاحب کے لئے کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔

    واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 3488/47-9420

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔      کفو کا مطلب یہ ہے کہ  لڑکا دین،دیانت، نسب، پیشہ ، مال اور تعلیم میں لڑ کی کے ہم پلہ ہو ، اس سے کم نہ ہو۔  نیز  کفاءت میں مرد کی جانب کا اعتبار ہے یعنی لڑکے کا لڑکی کے ہم پلہ اور برابر ہونا ضروری ہے۔  لڑکی کا لڑکے کے برابر ہونا ضروری نہیں ہے۔ لہذا  سوال میں ذکرکردہ   احوال کی روشنی میں ،  مذکور لڑکا مذکورہ لڑکی کا کفو نہیں ہے۔

"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول، سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر، غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض۔ ( بدائع الصنائع،  2/ 247،کتاب النکاح، فصل ولایۃ الندب والاستحباب فی النکاح، ط: سعید )

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 3487/47-9423

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔      متعدد بیویوں کے درمیان   صرف رات کے اوقات میں برابری ضروری ہے، رات میں سب کو برابر وقت دینا شوہر پر واجب ہے،اس میں کوتاہی نہیں کرنی چاہئے، تاہم  دن کے اوقات میں یہ پابندی نہیں ہے۔   دن کے اوقات میں دیگر بیویوں کے پاس جانے میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ  صحبت کی اجازت نہیں ہے۔ کیونکہ اس صورت میں اس عورت کی حق تلفی ہوگی جس کے لئے وہ  دن متعین ہے۔

"(ويقيم عند كل واحدة منهن يوماً وليلةً) لكن إنما تلزمه التسوية في الليل، حتى لو جاء للأولى بعد الغروب وللثانية بعد العشاء فقد ترك القسم، ولا يجامعها في غير نوبتها، وكذا لايدخل عليها إلا لعيادتها ولو اشتد، ففي الجوهرة: لا بأس أن يقيم عندها حتى تشفي أو تموت، انتهى، يعني إذا لم يكن عندها من يؤنسها.

 (قوله: لكن إلخ) قال في الفتح: لانعلم خلافاً في أن العدل الواجب في البيتوتة والتأنيس في اليوم والليلة، وليس المراد أن يضبط زمان النهار، فبقدر ما عاشر فيه إحداهما يعاشر الأخرى، بل ذلك في البيتوتة، وأما النهار ففي الجملة اهـ يعني لو مكث عند واحدة أكثر النهار كفاه أن يمكث عند الثانية ولو أقل منه بخلافه في الليل، نهر (قوله: ولا يجامعها في غير نوبتها) أي ولو نهاراً ط".  (شامی، کتاب النکاح، باب القسم بين الزوجات، ج: 3،صفحه:207، ط: ایچ، ایم، سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

روزہ و رمضان

Ref. No. 3485/47-9508

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔        بنیادی طور پریہ بات واضح رہنی چاہیے کہ حضراتِ فقہاء کے مابین اختلافِ مطالع کے سلسلے میں جو اختلاف ہے وہ اس بارے میں نہیں ہے کہ اختلاف ِ مطالع ہے یا نہیں؟اس لیے کہ اختلافِ مطالع ایک مسلّم اور ثابت شدہ شئی ہے جس کے بارے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں؛ البتہ اختلاف اس سلسلے میں ہے کہ کیا یہ اختلافِ مطالع احکام میں مؤثر ہوں گے یا نہیں؟چناں چہ علامہ شامیؒ لکھتے ہیں: ’’اعلم أن نفس اختلاف المطالع لا نزاع فيه بمعنى أنه قد يكون بين البلدتين بعد بحيث يطلع الهلال له ليلة كذا في إحدى البلدتين دون الأخرى وكذا مطالع الشمس  ۔۔۔ وإنما الخلاف في اعتبار اختلاف المطالع ۔۔ الخ ۔‘‘    (رد المحتار، ج ۳، ص: ۳۶۳۔۳۶۴، ط: زکریا دیوبند) اس عبارت سے واضح ہو ا کہ اختلافِ فقہاء اختلافِ مطالع کے اعتبار وعدمِ اعتبار کے سلسلے میں ہے ، چناں چہ اس بارے میں تین  نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں: (۱)  پہلا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اختلافِ مطالع کا مطلقاً کوئی اعتبار نہیں،نہ بلادِ قریبہ میں نہ بلادِ بعیدہ میں، لہٰذا ایک شہر میں رؤیت ہوجائے تو بطریقِ موجب جس شہر وعلاقہ میں بھی یہ خبر پہنچے ،وہاں کے لوگوں پر اس رؤیت کا اعتبار لازم ہوگا: امام ابوحنیفہؒ، امامِ مالکؒ، امام احمدؒ وغیرہ کا یہی مسلک ہے ، اور کتب ِ فقہ ِ حنفی میں اسی قول کو ’’ظاہر الروایۃ‘‘ قرار دیا گیاہے ۔(الفقہ علی المذاھب الأربعۃ، ۵۰۰/۱،البحر الرائق،۴۷۰/۲،الدر مع الرد،۳۶۳/۳،بدایۃ المجتھد، ۲۹۴/۱، الاقناع، ۴۸۶/۱)   (۲) دوسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اختلافِ مطالع کا ہر حال میں اعتبار کیا جائے ، بلادِ قریبہ میں بھی اور بلادِ بعیدہ میں بھی : ابن حجر عسقلانی ؒ نے بحوالہ ابن المنذر اس قول کو عکرمہ، قاسم ، سالم واسحاق رحمہم اللہ کی طر ف منسوب کیا ہے اور فرمایا کہ امام ترمذیؒ نے اہلِ علم سے صرف اسی قول کو نقل کیا ہے اور علامہ ماوردی شافعیؒ نے شافعیہ کا ایک قول یہی بیان کیا ہے ۔   (فتح الباری لا بن حجر، ج ۴، ص: ۱۲۳) (۳) تیسرا نقطۂ نظر اس سلسلے میں یہ ہے کہ بلادِ قریبہ میں اختلافِ مطالع معتبر نہیں ،اوربلادِ بعیدہ میں معتبر ہے ،لہٰذا ایک جگہ کی رؤیت اس جگہ سے قریب علاقوں میں مانی جائے گی ،اس سے بعید علاقوں میں نہیں ۔ شافعیہ میں سے اکثر حضرات نے اسی قول کو اختیار کیاہے ۔ (شرح النووی علی صحیح مسلم، ۱۹۷/۷، الفقہ علی المذاھب الأربعۃ،۵۰۰/۱) علماء ِ احناف میں سے بھی کچھ حضرات نے اسی تیسرے قول کو راجح قرار دیا ہے ، چناں چہ علامہ عبدالحی لکھنویؒ نے علامہ طحطاویؒ، امام قدوریؒ، صاحب فتاویٰ تاتارخانیہ ، صاحبِ ہدایہ ، علامہ زیلعی رحمہم اللہ اور دیگر فقہاء کی عبارات سے واضح کیاہے اور خود علامہ عبدالحی لکھنویؒ نے بھی (مجموعۃ الفتاویٰ، ۱/۲۶۷) میں اسی قول کو اختیار کیاہے ، نیز محققین حنفیہ میں علامہ انور شاہ کشمیریؒ، علامہ محمد یوسف بنوریؒ ، علامہ شبیر احمد عثمانیؒ، مفتی محمد شفیع عثمانیؒ، مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے درسِ ترمذی میں، حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی نےجدید فقہی مسائل میں اسے قول کو اختیار کیا ہے اور اس پر مفصل بحث کی ہے ۔ (معارف السنن، ۵/۳۳۷، فتح الملہم ،۳/۱۱۳، جواہر الفقہ، ۳/۲۷۹، درسِ ترمذی،۲/۵۳۷ ، جدید فقہی مسائل، ۳/۱۵۹وغیرہم) نیز مجلسِ تحقیقات ِ شرعیہ ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ۳،۴ مئی ۱۹۶۷ ؁ء میں منعقدہ اجلاس میں باتفاقِ علماء ِ مسالک یہ تجویز طے پائی تھی کہ :  ’’نفس الا ٔمر میں پوری دنیا کا مطلع ایک نہیں ہے ،بلکہ اختلافِ مطالع مسلّم ہے، یہ ایک واقعاتی چیز ہے ۔۔ البتہ فقہاء اس باب میں مختلف ہیں کہ صوم اور افطارِ صوم کے باب میں یہ اختلافِ مطالع معتبر ہے یا نہیں؟ محققین فقہاء ِ احناف اور علماء ِ امت کی تصریحات کے مطابق اور ان کے پیش کردہ دلائل کی روشنی میں مجلس کی متّفقہ رائے ہے کہ بلادِ بعیدہ میں اس باب میں بھی اختلافِ مطالع معتبر ہے ؛ البتہ بلادِ قریبہ میں اس کا اعتبار نہیں ہے ۔‘‘ (رؤیتِ ہلال کا مسئلہ، ص: ۱۱۳۔۱۱۴، مجلسِ تحقیقاتِ شرعیہ ) ۔ اس سے معلوم ہوا کہ متأخرینِ حنفیہ میں سے اکثر کے نزدیک راجح تیسرا قول ہے کہ بلادِ بعیدہ میں اختلافِ مطالع معتبر ہے ،بلادِ قریبہ میں نہیں ۔ اس قول کے راجح ہونے کی وجہ یہ ہے کہ قرآن وسنت میں یہ بات منصوص اور قطعی ہے کہ کوئی مہینہ انتیس دن سے کم اور تیس دن سے زائد نہیں ہوسکتا، بلادِ بعیدہ اور مشرق ومغرب کے فاصلوں میں اگر اختلافِ مطالع کو مطلقاً نظر انداز کردیا جائے تو اس نصِ قطعی کے خلاف لازم آئے گا بایں طور کہ کسی شہر میں اٹھائیس کو بعید ملک سے اس کی شہادت پہنچ جائے کہ آج وہاں چاند دیکھ لیا گیا ہے تو اگر اس شہر کو دوسرے کے تابع کیا جائے تو اس کا مہینہ اٹھائیس کا رہ جائے گا، اسی طرح اگر کسی شہر میں رمضان کی تیس تاریخ کو کسی بعید ملک سے بذریعۂ شہادت یہ ثابت ہوجائے کہ وہاں ۲۹؍تاریخ ہے اور اگر چاند نظر نہ آیا توکل وہاں روزہ ہوگا اور اتفاقاً چاند نظر نہ آیا تو تیس تاریخ والوں کو اکتیس روزے رکھنے پڑیں گے اور ان کامہینہ اکتیس کا قرار دینا پڑے گا جو نصِ قطعی کے خلاف ہے ،اس لیے ناگزیر ہے کہ بلادِ بعیدہ میں اختلافِ مطالع کا اعتبار کیا جائے ۔ اب جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ متقدمین حنفیہ نے اس کا اعتبار نہیں کیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جن بلاد میں مشرق ومغرب کا فاصلہ ہے ،وہاں ایک جگہ کی شہادت دوسری جگہ پہنچنا ان حضرات کے لیے محض ایک فرضی قضیہ اور تخیل سے زائد کوئی حیثیت نہیں رکھتاتھا اور ایسے فرضی قضایا سے احکام پر کوئی اثر نہیں پڑتا،یہی وجہ ہے کہ متقدمین فقہاء نے اختلافِ مطالع کو غیر معتبر قرار دیا ، لیکن موجودہ دور میں وسائل کی بہتات نے ساری دنیا کو ایک قالب میں ڈھال دیا ہے ، ایک جگہ کی شہادت دوسری جگہ پہنچنا چند منٹوں میںممکن ہوگیا ہے ؛ بلکہ ہوائی جہازوں کے ذریعہ مشرق ومغرب کے فاصلے چند گھنٹوں میں طے کیے جاسکتے ہیں ،لہٰذا اس صورت میں اگر مشرق کی شہادت مغرب میں اور مغرب کی مشرق میں حجت مانی جائے تو کسی جگہ مہینہ اٹھائیس دن کا ، کسی جگہ اکتیس دن کا ہونا لازم آئے گا ، اس لیے ایسے بلادِ بعیدہ میں جہاں مہینہ کے دنوں میں کمی بیشی کا امکان ہو تو اختلافِ مطالع کا اعتبار کرنا ہی ناگزیر اور مسلکِ حنفیہ کے عین مطابق ہوگا ، نیز یہ فقہی ضابطہ ’’تتغیر الأحکام بتغیر الزمان‘‘ کے بھی مطابق ہوگا ، یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں اکثر علماء ِ مذاہب ِ اربعہ نے اختلافِ مطالع کے اعتبار کا فتویٰ دیاہے ۔ لہٰذا سوالِ مذکور میں ذکر کردہ حوالہ جات میں ظاہر الروایۃ والے قول کو اختیار کیا گیاہے ؛ جب کہ بعد کے فقہاء ِ حنفیہ کے فتاویٰ جات میں تیسرے قول کو اختیار کیا گیاہے ،اور اب یہی فقہاء کے مابین معمول بہا بھی ہے ،لہٰذا عمومی احوال میں اب اسی رائے پر عمل کرنا چاہیے ۔ فقط واللہ أعلم بالصواب

    واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 3484/47-9426

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔       رقم جمع کرنے کی حیثیت شرعی قرض کی ہے۔ اور قرض پر   مشروط یا غیرمشروط  نفع حاصل کرنا  شرعا سود کے زمرے میں  آتاہے۔ اس لئے پیسے جمع کرکے قرعہ اندازی کے ذریعہ جو انعام دیاجاتاہے وہ قرض  پر نفع لینے کی وجہ سے سود میں داخل ہے  جوبلاشبہ ناجائز و حرام ہے۔ اس لئے اس  طرح کے  غیر شرعی اور ناجائز معاملات میں حصہ دار بننا اور انعام لینا جائز نہیں ہے۔

کما في اعلاء السنن : عن فضالة بن عبيد، أنه قال: كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا أهـ (ج 14 ص510 ط: ادارة القرآن)۔ وفي الدر المختار: و في الأشباه كل قرض جر نفعاً حرام اھ (ج5 ص166، ط:سعید)۔ وفي رد المحتار: تحت (قولہ کل قرض جر نفعاً حرام) إذا كان مشروطاً ( إلى قوله ) وان لم يكن النفع مشروطاً في القرض فعلى قول الکرخی لا بأس به اھ (ج 5، ص166، ط: سعید)۔ وفي فقه البيوع : الثالث ما جرى به عمل بعض التجار أنهم يعطون جوائز لعملا ئھم الذين اشتروا منهم كمية مخصوصة، ولو في صفقات مختلفة ، وقد تعطی هذه الجوائز بقدر الكمية لكل أحد، وقد تعطى بالقرعة (إلى قوله) فھی هبة مبتداة موعودة من البائع لتشجيع الناس على أن يشتروا البضائع منه، وجواز اخذها مشروط بأن لا يكون البائع زاد في ثمن البضاعة من اجل هذه الجوائز والا صار نوعا من القمار، لأن ما زاد على ثمن المثل انما طولب به على سبيل الغرر (إلى قوله) وكذلك ان كان الثمن ثمن المثل ، فإنه يشترط أن يكون المشتري يقصد شراء البضاعة حقيقۃ ولا يشتريها لمجرد احتمال الحصول على الجائزة والا ففيه شبهة القمار اهـ ( ج ۲ ص ۷۷ ، مكتبه معارف القرآن)۔ وفي رد المحتار: ويردونها على اربابها ان عرفوهم والا تصدقوا بھا،لان الكسب الخبيث التصدق اذا تعذر الرد على صاحبہ اھ (ج6، ص،385،ط:سعید)۔

    واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 3479/47-9404

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔      معنوی اعتبار سے اس جملہ  دعائیہ کا استعمال غیرنبی کےلئے بھی جائز ہے، لیکن اصطلاحی اعتبار سے براہ راست غیرنبی کے لئے  اس جملہ کا استعمال  تعامل اہل سنت والجماعت کے خلاف ہے، اس لئے  کہ  اہلِ سنت والجماعت کے ہاں "علیہ السلام"انبیاء کے ساتھ خاص ہے، لہذا اس  کو غیرنبی کے لئے استعمال کرنے سے بچنا ضروری ہے۔  البتہ نبی کریم ﷺ  کے ذکر کے بعد تبعا  صحابہ وتابعین وغیرہم کے لئے جائز ہے۔

"أن قوله "علي علیه السلام" من شعار أهل البدعة، فلایستحسن في مقام المرام". (الفقه الأکبر، ص:167،ط:قدیمی)

(بابُ الصَّلاة على الأنبياءِ وآلهم تبعاً لهم صلى الله عليه وسلم)

أجمعوا على الصلاة على نبيّنا محمّدٌ صلى الله عليه وسلم، وكذلك أجمع من يُعتدّ به على جوازها واستحبابها على سائر الأنبياء والملائكة استقلالاً. ۔ ۔ وأما غيرُ الأنبياء، فالجمهور على أنه لا يُصلّى عليهم ابتداء، فلا يقال: أبو بكر صلى الله عليه وسلم.۔ ۔ ۔ واختُلف في هذا المنع، فقال بعض أصحابنا: هو حرام، وقال أكثرهم: مكروه كراهة تنزيه، وذهب كثير منهم إلى أنه خلاف الأوْلَى وليس مكروهاً، والصحيحُ الذي عليه الأكثرون أنه مكروه كراهة تنزيه لأنه شعار أهل البدع، وقد نُهينا عن شعارهم. ۔ ۔ ۔ والمكروه هو ما ورد فيه نهيٌ مقصود. ۔۔۔ قال أصحابنا: والمعتمدُ في ذلك أن الصَّلاةَ صارتْ مخصوصةً في لسان السلف بالأنبياء صلواتُ الله وسلامُه عليهم، كما أن قولنا: عزَّ وجلَّ، مخصوصٌ بالله سبحانه وتعالى، فكما لا يُقال: محمد عزَّ وجلَّ - وإن كان عزيزاً جليلاً - لا يُقال: أبو بكر أو عليّ صلى الله عليه وسلم وإن كان معناه صحيحاً. ۔ ۔ ۔ واتفقوا على جواز جعل غير الأنبياء تبعاً لهم في الصلاة، فيُقال: اللَّهمّ صل على محمد وعلى آل محمد، وأصحابه، وأزواجه وذرِّيته، وأتباعه، للأحاديث الصحيحة في ذلك، وقد أُمرنا به في التشهد، ولم يزل السلفُ عليه خارج الصلاة أيضاً. ۔ ۔ وأما السلام، فقال الشيخ أبو محمد الجوينيُّ من أصحابنا: هو في معنى الصلاة، فلا يُستعمل في الغائب، فلا يفرد به غير الأنبياء، فلا يُقال: عليّ عليه السلام، وسواء في هذا الأحياء والأموات.  ۔ ۔ ۔ وأما الحاضر، فيُخاطب به فيقال: سلام عليكَ، أو: سلام عليكم، أو: السَّلام عليكَ، أو: عليكم، وهذا مجمع عليه (الاذکار للنووی۔ كتاب الصّلاة على رسول الله صلى الله عليه وسلم، ص: ١١٨، ط: دار الفكر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Business & employment

Ref. No. 3478/47-9405

In the name of Allah the most Gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

You have done a lawful (halal) activity and are charging a fee for work that is itself permissible. Therefore, your earnings are halal. If someone misuses your product after receiving it, the responsibility for that misuse does not fall on you. Once you have developed and delivered the product to the company, you are rightfully entitled to your payment, and that payment is halal for you. There should be no doubt regarding its permissibility — similar to how the sale of grapes remains halal, even if the buyer later uses them to produce wine. The seller is not accountable for the buyer’s misuse.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband 

The Holy Qur’an & Interpretation

Ref. No. 3477/47-9425

In the name of Allah, the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows: 

(1) Every individual has full authority over their own property. A woman, indeed, has the right to relinquish her share of inheritance—but only after the inheritance has been formally distributed. If she gives up her right before the distribution, such renunciation is not valid in Shari'ah. However, once the inheritance has been divided, it is entirely up to her whether to accept or forgo her share. Her children cannot compel her to take it, and it is not permissible under Islamic law for them to demand it later.

(2) If someone voluntarily and lawfully gives up their rightful share, they cannot later revoke that decision. Any subsequent claim to inheritance would be considered impermissible in Shari'ah.

(3) If the male heirs (e.g., brothers) have distributed the inheritance among themselves without giving their sisters their rightful Islamic shares, the division must be redone. The sisters must be given their due share in accordance with Islamic law.

It should be clearly understood that the share of inheritance belongs solely to your mother. She has full authority to claim it, renounce it, or give it to someone else as she pleases. It is not permissible to pressurize or compel her in any way. Her children have no right to that portion of the inheritance unless she herself chooses to give it to them.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

تجارت و ملازمت

Ref. No. 3476/47-9406

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔     جب کاروبار کے لئے کوئی معاہدہ نہیں ہوا یا معاہدہ شرعی طور پر غلط ہوا یا آپ نے خیانت کی اور غلط کاروبار کیا، ان تمام صورتوں میں آپ رقم کے ذمہ دار ہیں، جتنی رقم آپ نے لی ہے  وہ بطور قرض کے ہے ، اس کو واپس کرنا آپ کی شرعی ذمہ داری ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 3473/47-9399

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔    نابالغ بہن کے حصہ کی زمین کو بیچنے کا اختیار اس کے بھائی کو حاصل نہیں ہے۔ لہذا نابالغ بہن کی زمین بیچنا کسی کے لئے جائز نہ ہوگا۔ جب تک بالغ نہ ہوجائے اس زمین میں کسی طرح کے تصرف کا کسی کو اختیار نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند