Fiqh

Ref. No. 3091/46-4973

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  نجاست کو  مگ سے پانی پھینک کر دھونے میں کوئی حرج نہیں ہے، اس سے نجاست دھلتی اور زائل ہوتی ہے، نجاست اس سے پھیلتی نہیں ہے۔ پانی جو نجاست پر لگا وہ بھی گرگیا اور جو ارد گرد لگا وہ بھی نیچے چلاگیا، ہاں اگر نجاست کے ذرات  بھی پھیلے ہوں تو پھر ان کو دھونا لازم ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 3088/46-4975

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  1:۔ اگر کسی ناپاک جگہ پر اتنا پانی بہادیاجائے کہ جس سے غالب گمان ہو کہ نجاست زائل ہوگئی تو وہ جگہ پاک ہوجائے گی۔ 2:۔ پاخانہ کے مقام کو دھونے میں جو پانی سائڈ میں لگ جاتاہے اس کو ناپاک نہیں کہاجائے گا بشرطیکہ کوئی نجاست لگی ہوئی نہ ہو، اگر نجاست لگی ہو  تو اس کا دھونا لازم ہوگا۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Miscellaneous

Ref. No. 3090/46-4972

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اللہ تعالی آپ کی بہن کو صحت و عافیت عطافرمائے، دنیا وآخرت میں خیر مقدر فرمائے، تمام آفتوں اور مصیبتوں سے  اور آسیبی اثرات سے محفوظ رکھے۔ تاہم مندرجہ ذیل وظیفہ بھی پڑھیں کہ اللہ تعالی ان آیات کی برکت سے ان کو شفایاب کرے۔ 

سورہ فاتحہ 7 مرتبہ۔سورہ تغابن 1 مرتبہ۔سورہ التحریم 1 مرتبہ۔سورہ الطارق 3 مرتبہ۔{ وَ أَرَادُوا۟ بِهِ كَیۡدا فَجَعَلۡنَـٰهُمُ ٱلۡأَخۡسَرِینَ } [الانبیاء: 70]۔ اللھم أنْتَ شَافِي أنْتَ كَافِي فِي مُهِمَّاتِ الْأمُوْرِ، أنَتَ حَسْبِیْ، أنْتَ رَبِّيْ، أنْتَ لِي نِعْمَ الْوَكِیْلُ.

ان آیات و دعاء کو دس مرتبہ روزانہ صبح کو پڑھ کر ایک لیٹر پانی پر دم کریں اور شام تک تھوڑا تھوڑا پلائیں۔ان شاء اللہ آسانی ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Miscellaneous

Ref. No. 3089/46-4971

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  آپ کا سوال میں ذکرکردہ  خواب ، جانے انجانے میں والد صاحب کو ناراض کرنے والے اعمال کے سرزد ہونے دلیل ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر "و بالوالدین احسانا" "أنِ اشکُر لی و لوالدیک" وغیرہ کلمات وارد ہوئے ہیں۔ ان کے تناظر میں آپ کے خواب کی تعبیر یہ واقع ہوتی ہے کہ ان کے ساتھ حسن سلوک کریں۔ آپ کے کسی عمل سے ان کو ناگواری یا ان کی حق تلفی ہو رہی ہے اس کا بغور جائزہ لے کر، محاسبہ کرکے تلافیِ مافات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس طرح کا خواب اعمال شریعت بجالانے میں کوتاہی کی بھی دلیل ہے۔اس  کے لئے تسبیح و تحمید اور استغفار و درود کی کثرت کرنا بہت مفید ثابت ہوگا ان شاء اللہ۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref.  No.  3087/46-4969

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  کوئی ایمان والا بندہ خواہ وہ کتنا ہی بڑا گنہگار ہو، اور کتنے ہی بڑے جرم کا مرتکب ہو،  اگراس  گناہ کا تعلق حقوق اللہ سے ہے تو اس  کی  توبہ کے لئے اللہ تعالی کا دربار ہر وقت کھُلارہتاہے، اور جس طرح ایک ماں اپنے گمشدہ بیٹے کی واپسی کا بہت شدت  سے انتظار کرتی ہے، اللہ تعالی اپنے بھٹکے ہوئے بندہ کی واپسی کا  اس سے زیادہ شدت سے انتظار کرتے ہیں۔ جب بندہ توبہ کوتاہے تو اللہ تعالی اس کے دل کو صاف کردیتے ہیں مہر اور قساوت قلبی کو دور فرمادیتے ہیں،حدیث شریف میں آیا ہے" التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ"۔  اور اگر اس کا تعلق بندوں سے ہے تو بندوں  سے معافی مانگنا ضروری ہے۔ خیال رہے کہ  نزع کے وقت جبکہ آخرت کے احوال منکشف ہوجاتے ہیں  اورایمان بالغیب کا وقت نکل چکاہوتاہے، اس  وقت توبہ کا دروازہ بند ہوجاتاہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref.  No.  3086/46-4968

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مریض کو اپنے مرض کے مطابق دوائیاں لینے میں کوئی حرج نہیں ہےآپ کسی ماہر طبیب سے رابطہ کریں اور ان کی ہدایات کے مطابق علاج کریں، اور اس سلسلہ میں بیوی کو مطلع کرنا ضروری نہیں ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Miscellaneous

Ref. No. 3083/46-4976

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کی جائداد اس کے ورثہ میں شرعی اعتبارسے تقسیم کرنا لازم ہے، ہر ایک کو شریعت نے جوحق دیا ہے اس تک حق کا پہنچانا فرض ہے، کسی کے حق پر قبضہ کرنا یا کسی کا حق دبالینا شرعی طور پر حرام ہے۔ جو لوگ دوسروں کے مال و اسباب پر ناجائز قبضہ کریں گے ان سے حقوق العباد میں خرد برد کرنے کی بناء پر قیامت میں سخت بازپرس ہوگی۔ دنیا میں قانونی کارروائی کرکے آپ اپنا حق حاصل کرسکتے ہیں۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں دوکان گھر اور کاروباری زمین  میں تمام ورثہ کا حق ہے جس کو 72 حصوں میں تقسیم کیاجائے گا، 9 حصے مرحوم کی بیوی کو، چودہ چودہ حصے  ہر ایک بیٹے کو اور سات سات حصے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Death / Inheritance & Will

Ref. No. 3082/46-4975

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  میت کی وفات کے وقت جو ورثہ موجود تھے، ان کو وراثت میں حصہ ملے گا اور میت کے انتقال سے پہلے جن کا انتقال ہوگیا ان کو وراثت میں حصہ نہیں ملے گا۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں دو بیٹے اور ایک بیٹی اور ایک بیوی کے درمیان کل ترکہ تقسیم ہوگا۔ مرحوم (سسر) کا کل ترکہ 40 حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے پانچ حصے، موجود بیوی کو، 14 چودہ حصے دونوں بیویوں سے ہر ایک بیٹے کو  ملیں گے، اور 7 حصے مرحومہ بیٹی کا حق ہیں جو باپ کے انتقال کے وقت با حیات تھی اور یہ سات حصے اس کی اولاد اور شرعی ورثہ میں حسب ضابطہ تقسیم ہوں گے۔  مرحومہ بیٹی کے ورثاء کی تفصیل لکھ کر دوبارہ سوال کیاجاسکتاہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref.  No.  3077/46-4947

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   جس عورت کو جو زمین بطور مہر کے دی گئی ہے، اور جس عورت کو جورقم بطور مہر دی گئی وہ خاص اس کی ملکیت ہے، اس میں کوئی وراثت جاری نہیں ہوگی، لہذا راجہ بیگم اور نسیمہ کو ان کے سسر نے اپنے بیٹوں کی طرف سے بطور مہر جو زمین دی ہے یا حنیفہ اور فاطمہ کو جو رقم دی ہے  وہ ان کی اپنی ملکیت ہے، اس میں کسی بھی وارث کا دعوی کرنا درست نہیں ہے۔ راجہ بیگم اور نسیمہ کو جو زمین  مہر میں دی گئی ان کو منہا کرکے اسی طرح حنیفہ اور فاطمہ کو جو رقم دی گئی  ان کو منہا کرکے ہی وراثت کی تقسیم ہوگی۔ راجہ بیگم اور نسیمہ کا دعوی کہ مہر پر ان کا ہی حق ہے، درست ہے۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Taharah (Purity) Ablution &Bath

Ref. No. 3078/46-4948

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ناپاکی کی حالت میں نماز اداکرنا جائز نہیں ہے، یہ گناہ کبیرہ ہے، اس لئے  غسل کرکے ہی نماز کی قضاء کی جائے گی۔ اگر کسی نے ایسی حالت میں نماز اداکی ہے تو اس پر توبہ و استغفار لازم ہے۔ تاہم اگر کوئی تنگئ وقت کی بناء پر تیمم کرکے نماز پڑھے تو گناہ نہیں لیکن بعد میں اس نماز کی قضاء  بہرحال ضروری ہوگی۔

قلت: وبه ظهر أن تعمد الصلاة بلا طهر غير مكفر كصلاته لغير القبلة أو مع ثوب نجس، وهو ظاهر المذهب كما في الخانية۔۔۔(قوله: غير مكفر) أشار به إلى الرد على بعض المشايخ، حيث قال المختار أنه يكفر بالصلاة بغير طهارة لا بالصلاة بالثوب النجس وإلى غير القبلة۔۔۔لأن الموجب للإكفار في هذه المسائل هو الاستهانة، فحيث ثبتت الاستهانة في الكل تساوى الكل في الإكفار، وحيث انتفت منها تساوت في عدمه، وذلك لأنه ليس حكم الفرض لزوم الكفر بتركه، وإلا كان كل تارك لفرض كافرا۔۔۔(قوله: كما في الخانية) حيث قال بعد ذكره الخلاف في مسألة الصلاة بلا طهارة وأن الإكفار رواية النوادر وفي ظاهر الرواية لا يكون كفرا، وإنما اختلفوا إذا صلى لا على وجه الاستخفاف بالدين، فإن كان وجه الاستخفاف ينبغي أن يكون كفرا عند الكل۔۔۔أقول: وهذا مؤيد لما بحثه في الحلية لكن بعد اعتبار كونه مستخفا ومستهينا بالدين كما علمت من كلام الخانية، وهو بمعنى الاستهزاء والسخرية به، أما لو كان بمعنى عد ذلك الفعل خفيفا وهينا من غير استهزاء ولا سخرية، بل لمجرد الكسل أو الجهل فينبغي أن لا يكون كفرا عند الكل تأمل۔ (رد المحتار على الدر المختار، كتاب الطهارة، ج:1، ص:185)

قال الحلبی فالاحوط ان یتیمم ویصلی ثم یعید(قوله: قال الحلبي): اي البرهان الحلبي في شرحه علي المنية، وذكر مثله العلامة ابن امير الحاج الحلبي في الحلية شرح المنية، حيث ذكر فروعاً عن المشايخ، ثم قال: ماحاصله: ولعل هذا من هؤلاء المشايخ اختيار لقول زفر؛ لقوة دليله، وهو ان التيمم انما شرع للحاجة الی اداء الصلاة في الوقت فيتيمم عند خوف فوته … فينبغي العمل به احتياطاً، ولاسيما كلام ابن الهمام يميل الی ترجيح قول زفر كماعلمته، بل قدعلمت من كلام القنية انه رواية عن مشايخنا الثلاثة ونظیر ھذا مسالہ الضیف الذی خاف ریبہ فانھم قالو یصلی ثم یعید“ (درمختار مع ردالمحتار ،باب التیمم، جلد1 ،صفحہ 434،دار المعرفۃ ،بیروت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند