زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Ref. No. 2889/45-4575 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو قسطیں ادا ہوچکی ہیں وہ ادا ہوچکی ہیں۔ قسطوں کا قرضہ دین مؤجل ہے، سال پورا ہونے پر آپ کے پاس جو بھی رقم موجود ہے، اس میں سے آئندہ کی قسطوں میں جانے والی ایک سال کی رقم منہا کی جائے گی ۔ اس کے بعد جو کچھ رقم آپ کے پاس باقی رہ جائے اگر وہ خود نصاب کے بقدر ہو یا دوسرے اموال کے ساتھ مل کر نصاب کے بقدر ہوجائے تو اس پر زکوۃ واجب ہوگی۔ فارغ عن دین لہ مطالبٌ من جھۃ العباد سواء کان ﷲ کزکاۃ .… ولو کفالۃ او موجلا قال ابن عابدین رحمہ اﷲ تحت قولہ او موجلا عزاہ فی المعراج الی شرح الطحاوی وقال وعن ابی حنیفۃ لایمنع وقال الصدر الشھید لاروایۃ فیہ، زاد القھستانی عن الجواھر والصحیح انہ غیر مانع۔ (الدر المختار مع رد المحتار: (کتاب الزکوٰۃ، 260/2، ط: سعید) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2888/45-4574 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مرحوم بڑے ابو کا کل ترکہ 40 حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے ہر ایک بڑی امی کو پانچ پانچ حصے، ہر ایک بھائی کو بارہ بارہ حصے اور بہن کو چھ حصے ملیں گے۔ جن بھائی بہنوں کا مرحوم کی زندگی میں انتقال ہوگیا ان کے لئے وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ تاہم اگر ان کی اولاد مالی اعتبار سے کمزور ہو تو از راہِ صلہ رحمی ان کو بھی ورثاء کا اپنے حصہ میں سے کچھ دیدینا کار ثواب ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد
Ref. No. 2887/45-4573 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرآن مجید میں محض کسی کا ذکر آنا یا کسی کا ذکر کئی بار آنا اس کی فضیلت کی دلیل نہیں ہے۔ قرآن مجید میں تو شیطان ، فرعون و ہامان اور ابولہب وغیرہ کا بھی ذکر ہے، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ جن صحابہ وانبیاء کا نام قرآن میں نہیں ہے ان سے یہ افضل ہوگئے۔ قرآن میں شیطان کا ذکر تقریبا 88 بار آیاہے، جہنم کا ذکر 77 بار آیاہے ، اس لئے اس طرح کی بات کے ذریعہ افضلیت پر استدلال انتہائی نادانی اور کم علمی کی وجہ سے ہے۔ مزید یہ کہ قرآن کریم رسالتمآب حضرت محمد مصطفی ﷺ پر نازل ہوا ہے اور آپ ﷺ کو مخاطب کرکے احکام اور آیتیں اتری ہیں اور جس کو مخاطب کیاجاتاہے اس کا نام عام طور پر نہیں لیاجاتاہے۔اس لئے نام کا ذکر گرچہ کم ہے مگر آپ کی صفات اور آپ کے لئے ضمائر کا ذکر سیکڑوں میں ہیں۔ اس لئے اگر سائل کے یہاں کثرت ذکر افضلیت کی دلیل ہے تو اس صورت میں آپ ﷺ کے ذکر کثیر سے قرآن مجید بھرا ہوا ہے۔ یا ایھا المدثر، یاایھا المزمل، یاایھاالنبی، یا ایھا الرسول کے ذریعہ تخاطب کے علاوہ کہیں 'بعبدہ' انزل الیک، وما انت علیھم بوکیل، لست علھم بمصیطر وغیرہ سیکڑوں آیتیں ہیں جن میں آپ ﷺ کا ذکر ہے۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات
Ref. No. 2886/45-4572 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مرد کی شرمگاہ جس کو چھپانافرض ہے اور دوسرے کا دیکھنا ناجائز ہے، وہ ناف سے لے کر گھٹنوں تک ہے۔ ناف اور گھٹنے کے درمیان کے تمام اعضاء کا ستر فرض ہے۔ و ) من ( الرجل إلى ما ينظر الرجل من الرجل ) أي إلى ما سوى العورة ( إن أمنت الشهوة ) وذلك ؛ لأن ما ليس بعورة لا يختلف فيه النساء والرجال، فكان لها أن تنظر منه ما ليس بعورة، وإن كانت في قلبها شهوة أو في أكبر رأيها أنها تشتهي أو شكت في ذلك يستحب لها أن تغض بصرها، ولو كان الرجل هو الناظر إلى ما يجوز له النظر منها كالوجه والكف لا ينظر إليه حتماً مع الخوف''. '' وينظر الرجل من الرجل إلى ما سوى العورة وقد بينت في الصلاة أن العورة ما بين السرة إلى الركبة والسرة ليست بعورة (مجمع الانہر، 4/200،دارالکتب العلمیۃ) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات
Ref. No. 2885/45-4571 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لفظ 'حلیم' اسم مشترک ہے، اللہ کا نام بھی ہے اور اس کے علاوہ کسی شخص اور چیز پر بھی اس کا اطلاق درست ہوتاہے، اس لئے اپنی برانڈ کا نام 'حلیم ' رکھنا جائز ہے، تاہم بہتر ہوگا کہ کوئی اور مناسب نام رکھ لیا جائے ۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Ref. No. 2883/45-4569 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زکوۃ کی ادائیگی کے وجوب کے لئے قرض وغیرہ جیسی حوائج اصلیہ سے مال کا فارغ ہونا ضروری ہے۔ قرض حوائج اصلیہ میں سے ہے اس لئے قرض کی رقم منہا کرنے کے بعد جو کچھ آپ کے پاس باقی بچے اس پر زکوۃ ہے، لیکن صورت مسئولہ میں آپ کے پاس صرف ڈھائی لاکھ کا زیور ہے اور وہ بھی گروی رکھا ہوا ہے جبکہ پانچ لاکھ قرض ہے تو اس ڈھائی لاکھ کے گروی رکھے زیور ات پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔ "ومنها الملك التام وهو ما اجتمع فيه الملك واليد وأما إذا وجد الملك دون اليد كالصداق قبل القبض أو وجد اليد دون الملك كملك المكاتب والمديون لاتجب فيه الزكاة، كذا في السراج الوهاج ... ولا على الراهن إذا كان الرهن في يد المرتهن، هكذا في البحر الرائق". (الفتاوى الهندية (1/ 172) "ولا في مرهون بعد قبضه.۔ قوله: ولا في مرهون) أي لا على المرتهن؛ لعدم ملك الرقبة، ولا على الراهن؛ لعدم اليد، وإذا استرده الراهن لايزكي عن السنين الماضية، وهو معنى قول الشارح بعد قبضه، ويدل عليه قول البحر: ومن موانع الوجوب الرهن ح، وظاهره ولو كان الرهن أزيد من الدين (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 263) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Ref. No. 2882/45-4568 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شریعت میں زکوۃ کے حساب میں میاں بیوی الگ الگ ہیں۔ دونوں کی ملکیت الگ الگ ہے، اس لئے ہر ایک کا حساب الگ ہوگا۔ بیوی کے پاس اگر صرف سونا ہے جو نصاب سے کم ہے تو اس پر زکوۃ فرض نہیں ہے، ہاں اگر سونا اور چاندی یا سونا اور کیش دونوں اس پر ہو اور پھر دونوں کی مجموعی مالیت چاندی کے نصاب کے برابر ہو تو زکوۃ کا حساب ہوگا۔ زکوۃ کے حساب میں شوہر کا مال بیوی کے زیورات کے ساتھ نہیں ملایا جائے گا۔ میاں بیوی میں جو صاحب نصاب ہواس پر زکوۃ فرض ہے اور جو صاحب نصاب نہیں ہے اس پر زکوۃ فرض نہیں ہے ۔ ویضم الذہب إلی الفضة وعکسہ بجامع الثمنیة قیمةً وقالا بالأجزاء ․․․․․․․ قولہ: ویضمّ الخ أي عند الاجتماع ، أمّا عند انفراد أحدہما فلا تعتبر القیمة اجماعاً الخ (درمختار مع الشامی: ۳/۳۳۴، ط: زکریا) ۔ ’’إن الذكور مع الإناث إذا اجتمعا غلب الذكور الإناث، و يتناول اسم الذكور الذكور و الإناث، و إن كان لا يتناولهن حالة الانفراد؛ و لهذا تتناول الخطابات التي في القرآن العظيم باسم الجمع الذكور و الإناث جميعًا.‘‘ (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (ج:7، ص:344، ط: دار الكتب العلمية) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

روزہ و رمضان
Ref. No. 2881/45-4567 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ روزہ کی حالت میں اگر ڈکار کے ساتھ کھانا یا کھٹا پانی وغیرہ حلق میں آگیا اور ابھی حلق میں ہی تھا کہ اس کو نگل لیا یا خود بخود وہ اندر چلاگیا تو اس سے روزہ فاسد نہیں ہوگا، اسی طرح اگر منھ میں کھانا یا پانی آگیا اوراس کو تھوک دیا اور کلی کرلی تو اس سے بھی روزہ فاسد نہیں ہوگا، البتہ اگر کھانا یا پانی منھ میں آگیا اور واپس اس کو نگل لیا تو اب روزہ فاسد ہوجائے گا اور قضا لازم ہوگی، کفارہ نہیں ۔ (فإن عاد بنفسه لم يفطر وإن أعاده ففيه روايتان) أصحهما لايفسد محيط (وهذا) كله (في قيء طعام أو ماء أو مرة) أو دم (فإن كان بلغما فغير مفسد) مطلقا خلافا للثاني واستحسنه الكمال وغيره. )الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 415) "وَإِنْ ذَرَعَهُ الْقَيْءُ وَخَرَجَ) وَلَمْ يَعُدْ (لَايُفْطِرُ مُطْلَقًا) مَلَأَ أَوْ لَا (فَإِنْ عَادَ) بِلَا صُنْعِهِ (وَ) لَوْ (هُوَ مِلْءُ الْفَمِ مَعَ تَذَكُّرِهِ لِلصَّوْمِ لَايَفْسُدُ) خِلَافًا لِلثَّانِي". (قَوْلُهُ: لَايُفْسِدُ) أَيْ عِنْدَ مُحَمَّدٍ، وَهُوَ الصَّحِيحُ؛ لِعَدَمِ وُجُودِ الصُّنْعِ؛ وَلِعَدَمِ وُجُودِ صُورَةِ الْفِطْرِ، وَهُوَ الِابْتِلَاعُ وَكَذَا مَعْنَاهُ؛ لِأَنَّهُ لَايَتَغَذَّى بِهِ بَلْ النَّفْسُ تَعَافُهُ، بَحْرٌ". (الدر المختار مع رد المحتار: (بَابُ مَا يُفْسِدُ الصَّوْمَ وَ مَا لَا يُفْسِدُهُ الْفَسَادُ، 424/2، ط: سعید) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت
Ref. No. 2880/45-4566 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جان بوجھ کر حرام کمائی استعمال کرنا جائز نہیں تھا، تاہم جب آپ نے علم حاصل کرلیا اورملازمت مل گئی اور ملازت ایمانداری سے کررہے ہیں تو اب اس سرکاری نوکری سے ملنے والی تنخواہ آپ کے لئے حلال ہے۔ حرام کمائی سے پڑھائی کرنے کی بناء پر اب محنت کرکے جائز ملازمت سے کمائی حاصل کرنے پر کمائی حرام نہیں ہوگی۔ تاہم اگر وسعت ہو اور پڑھائی میں استعمال ہوئے حرام مال کے بقدر تھوڑا تھوڑا مال غریبوں میں تقسیم کرتےر ہیں تو بہت بہتر ہوگا، اور اس طرح حرام کمائی کا گناہ شاید کم ہوجائےگا۔ "والقبح المجاور لا يعدم المشروعية أصلا كالصلاة في الارض المغصوبة والبيع وقت النداء" (البحر الرائق: 346/4) "ويكره له أن يستأجرامرأة حرة أو أمة يستخدمها ويخلو بها لقوله صلى الله عليه وسلم لايخلون رجل بامرأة ليس منها بسبيل فان ثالثهما الشيطان ولانه لايأمن من الفتنة على نفسه أو عليها إذا خلا بها ولكن هذا النهى لمعنى في غير العقد فلا يمنع صحة الاجارة ووجوب الاجر إذا عمل كالنهي عن البيع وقت النداء" (المبسوط للسرخسي: 101/9) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق
Ref. No. 2879/45-4565 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر شوہر نے یہ کہا کہ طلاق دیدوں گا تو اس میں طلاق دینے کا وعدہ ہے، دھمکی ہے، طلاق دینا نہیں ہے، اس لئے اس ممنوعہ کام کے کرنے کے بعد طلاق خود بخود واقع نہیں ہوگی، بلکہ شوہر دھمکی کے مطابق طلاق دے گا تب طلاق واقع ہوگی۔اس لئے اگر شوہر نے اس کام کے کرنے کی اجازت دیدی تو آپ کے لئے اس کام کو کرنا جائز ہے اورمحض دھمکی کے الفاظ سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔ صيغة المضارع لا يقع بها الطلاق إلا إذا اغلب في الحال۔ (تنقيح الحامدية،كتاب الطلاق،ج:1،ص:38) وفي المحيط ”لو قال بالعربية :أطلق لا يكون طلاقا إلا إذا غلب استعماله للحال فيكون طلاقا .... “ . سئل نجم الدين عن رجل قال لامرأته :اذهبي إلى بيت أمك .فقالت :”طلاق ده تابروم “فقال :”تو برو من طلاق دمادم فرستم “،قال :لا تطلق ؛لأنه وعد كذا في الخلاصة . (الفتاوى الهندية: 2/ 384مکتبۃرشیدیۃ) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند