Frequently Asked Questions
Miscellaneous
Ref. No. 3252/46-8038
Answer
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Masha Allah! This is wonderful news. "Minha" (منحہ) is an Arabic word that means "gift" or "blessing," referring to something given as a favor or bestowed as a divine gift. It is a meaningful and beautiful name.
In addition, you may also consider the following names:
Ni'mah (نعمت): Blessing or divine favor.
Hibah (ہبہ): Gift or donation, symbolizing something given out of kindness.
Atiyah (عطیہ): Grant or bestowal, signifying a precious gift or blessing.
Fareeha (فریحہ): Joy and happiness, bringing a sense of delight and contentment.
Moreover, choosing names inspired by the companions of the Prophet (PBUH) and the female companions is a beautiful idea. Insha Allah, the blessings of these names will reflect in your children’s lives, bringing them prosperity and goodness.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Family Matters
Ref. No. 3251/46-8039
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بھائی کو جس بنیاد پر شبہہ ہو آپ ایسا کام ہی نہ کریں کہ الزام لگانے کی نوبت آئے، تاہم اگر آپ الگ مکان میں اپنے کرایہ پر رہنا چاہتے ہیں تو اس کی گنجائش ہے۔ زنا کا الزام لگانا بڑا گناہ ہے، اور بڑے بھائی کا رویہ شرعا بہت غلط ہے، بڑے بھائی کو بے بنیاد الزام لگانے سے گریز کرنا لازم ہے، اور آپ سے معافی مانگنا بھی اس پر لازم ہے۔ اگر کوئی شخص کسی پر زنا کا الزام لگائے اور اس کو ثابت نہ کرسکے تو اسلامی حکومت میں اس کے لئے حد جاری کی جاتی ہے یعنی زنا کرنا بھی بڑا گناہ ہے اور کسی پر زنا کاالزام لگانا بھی اسی طرح بہت بڑا گناہ ہے۔
وَ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَةً وَّ لَا تَقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًاۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ(4)اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَ اَصْلَحُوْاۚ-فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(سورۃ النور، 5)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3250/46-8042
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایام بیض کے روزے رکھنا اور پیر و جمعرات کے روزے رکھنا سنت سے ثابت ہے۔ صوم داؤدی بھی حدیث سے ثابت ہے اور یہ نفلی روزے ہر آدمی کی قدرت و استطاعت کے اعتبار سے افضل ہوں گے، ورنہ عام حالات میں ایام بیض کے روزے افضل ہوں گے، تاہم صوم داؤدی سے زیادہ روزہ رکھنے سے آپ نے منع فرمایا ہے۔ والدین اگر نفلی روزے سے منع کرتے ہیں تو اس کی کیا وجہ ہے؟ اگر ان کو آپ سے جسمانی خدمت کی ضرورت ہے اور آپ کے روزہ رکھنے سے یہ خدمت متاثر ہو تو آپ روزہ نہ رکھیں، آپ کو ان شاء اللہ ثواب ملے گا، اور اگر کوئی وجہ نہ ہو تو والدین کے سامنے نفلی عبادات کے اجر وثواب کی قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان کریں، علماء کے بیانات سنوائیں تاکہ بخوشی آپ کو اجازت دیدیں۔
میں ہے:
"2449- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ أَنَسٍ، أَخِي مُحَمَّدٍ، عَنْ ابْنِ مِلْحَانَ الْقَيْسِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُنَا أَنْ نَصُومَ الْبِيضَ ثَلَاثَ عَشْرَةَ، وَأَرْبَعَ عَشْرَةَ، وَخَمْسَ عَشْرَةَ، قَالَ: وَقَالَ: «هُنَّ كَهَيْئَةِ الدَّهْرِ»." (سنن ابی داؤد، بَابٌ فِي صَوْمِ الثَّلَاثِ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، 2 / 328، ط: المكتبة العصرية، صيدا – بيروت)
"حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا أَبَانٌ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي الْحَكَمِ بْنِ ثَوْبَانَ ، عَنْ مَوْلَى قُدَامَةَ بْنِ مَظْعُونٍ ، عَنْ مَوْلَى أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ ، أَنَّهُ انْطَلَقَ مَعَ أُسَامَةَ إِلَى وَادِي الْقُرَى فِي طَلَبِ مَالٍ لَهُ، فَكَانَ يَصُومُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ، فَقَالَ لَهُ مَوْلَاهُ : لِمَ تَصُومُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ وَأَنْتَ شَيْخٌ كَبِيرٌ ؟ فَقَالَ : إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَصُومُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ، وَسُئِلَ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ : " إِنَّ أَعْمَالَ الْعِبَادِ تُعْرَضُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ ". (سنن ابی داؤد ، سنن أبي داود ، كِتَاب الصَّوْمُ ، بَابٌ فِي صَوْمِ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ ، رقم الحديث : ٢٤٣٦)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبندآداب و اخلاق
Ref. No. 3248/46-8041
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ طریقہ پر دعاکرنے میں کوئی خرابی نہیں ہے، بشرطیکہ الفاظ ولہجہ سے شکوہ کا اظہار نہ ہو، اور اگر ماضی کے حوالہ کے بغیر دعا کی جائے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ اپنے تمام گناہوں سے سچے دل سے توبہ کرلینا کافی ہوگا، گناہوں کا نام لینا ضروری نہیں ہے۔
’’قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ‘‘ [الزمر:53]
ذكر أكثر الفقهاء والمفسرين أن للتوبة أربعة شروط: الإقلاع عن المعصية حالا، والندم على فعلها في الماضي، والعزم عزما جازما أن لا يعود إلى مثلها أبدا." (الموسوعة الفقهية الكويتيه، ص:120، ج:14، ط:دار السلاسل)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Prayer / Friday & Eidain prayers
Ref. No. 3245/46-8034
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئو لہ میں امام نے قرات مکمل نہیں کی، اور 'حرم' کے بعد دونوں نمازوں میں مفعول کا تذکرہ نہیں کیا یعنی یہ کہا کہ اللہ نے حرام کیا ہے مگر کیا حرام کیا ہے اس کی تصریح نہیں ہے؛ تو ایسی صورت میں معنی میں کوئی خرابی پیدانہیں ہوئی جس سے نماز فاسد ہو، اس لئے دونوں نمازیں درست ہوگئیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Hadith & Sunnah
Ref. No. 3242/46-9016
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اپنے نام کے ساتھ اپنے والد کے نام کو جوڑ نا اور اپنا نام تبدیل کرنا جائز اور درست ہے اور آپ اپنا ثاقب بن محسن (Saqib bin mohsin) رکھ سکتے ہیں۔ عربی میں نام کے بعد ابن بن اور بنت کا ضابطہ یہ ہے کہ نام یا تو مذکر ہوگا یا مؤنث ہوگا، اگر مذکر ہو تو مندرجہ ذیل شروط پائی جائیں گی تو پھر نام کے بعد لفظ بن لکھا جائے گا۔(۱) لفظ ابن سے پہلے اور بعد میں کوئی علم ہو۔(۲) ابن اور اس علم کے درمیان کوئی فاصلہ نہ ہو، بلکہ دونوں متصل ہوں۔ (۳) لفظ ابن ماقبل والے اسم کی صفت ہو۔(۴) دوسرا اسم پہلے والے اسم کا حقیقی والد ہو۔تو اگر مذکورہ چاروں شرطیں پائی جائیں تو پھر لفظ بن بغیر ہمزہ کے لکھا جائے گا، اور اس کے علاوہ باقی صورتوں میں لفظ ابن ہمزہ کے ساتھ لکھا جائے گا، جیسا کہ:(۱) جب کسی انسان کی نسبت دادا، یا پر دادا یا اس سے اوپر شجرہ نسب کی طرف کردی جائے، جیسے محمد ابن عبد المطلب، یاابن آدم وغیرہ۔(۲) جب دونوں میں باپ بیٹے کا رشتہ نہ ہو، جیسے زید ابن الجزائز، ابن السبیل وغیرہ۔(۳) جب دونوں میں حقیقی باپ بیٹے کا رشتہ نہ ہو، جیسے زید ابن محمد۔(۴) جب دونوں (لفظ بن اور علم) کے درمیان اتصال نہ ہو، جیسے طارق ہوا بن زیاد۔(۵) جب بیٹے کی نسبت ماں کی طرف ہو، جیسے عیسی ابن مریم۔(۶) جب پہلے یا بعد میں علم نہ ہو، جیسے زید ابن الشجعان۔(۷) جب لفظ ابن سے ابتداء کی جائے جیسے ابن عبد اللہ، ابن مسعود۔(۸) جب التقائے ساکنین ہو، جیسے رسولنا ابن عبد اللہ۔(۹) جب لفظ ابن خبر واقع ہو، جیسے کوئی پوچھے محمد ابن من؟(۱۰) جب فلاں کو ولد اور فلاں کو والد بنایا جائے جیسے فلاں ابن فلاں۔(۱۱) جب لفظ ابن کو تثنیہ بنایا جائے جیسے قاسم، ابراہیم، ابا محمد۔ (۱۲) جب لفظ ابن پر حرف ندا داخل ہو جیسے یا ابن اخی۔پس مذکورہ سب صورتوں میں لفظ ابن ہمزہ کے ساتھ لکھا جائے گا اور اگر وہ مؤنث ہے تو پھر لفظ بنت لکھا جائے گا، جیسے فاطمۃ بنت محمد۔نیز اسلامی نام رکھنے کا کوئی متعین طریقہ نہیں ہے، بہتر ہے کہ اچھے معنی پر مشتمل نام رکھا جائے، نام کا اثر بچے پر پڑتا ہے، اس لیے یا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر نام رکھا جائے یا جو آپ نے نام پسند کئے ہیں وہ نام رکھے جائیں، مختلف احادیث میں محمد نام رکھنے کی فضیلت وارد ہوئی ہے، اس سلسلہ میں آب نام کیسے رکھیں مصنف مفتی خالد قاسمی، راہنمائے اسلامی نام مصنف مولانا عبد الشکور قاسمی ،نام ہوں تو ایسے ہوں مصنف مولانا غیاث الدین رشادی، اسلامی ناموں کی فہرست مصنف مفتی محمد رضوان راولپنڈی ،اسلامی ناموں کی لغت مصنف پروفیسر ندیم احمد صدیقی جیسی کتابوں سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
’’ما ضر أحدکم لو کان في بیتہ محمد ومحمد ان وثلثۃ‘‘ (فیض القدیر: ج ۵، ص: ۴۵۳)’’قال بعض الحفاظ واصحہا أي اقربہا للصحۃ مر ولد لہ مولود فسماہ محمد حبایی وتبرکا باسمي کان ہو ومولودہ في الجنۃ‘‘ (السیرۃ الحلبیۃ: ج ۱، ص: ۱۲۱، دار الکتب، العلمیۃ، بیروت)’’عن ابن عمر عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال أحب الأسماء إلی اللّٰہ عز وجل عبد اللّٰہ وعبد الرحمن‘‘ (ابن ماجہ: رقم الحدیث: ۳۷۲۸)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Ijmaa & Qiyas
Ref. No. 3241/46-8027
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ این ایف ٹی کے بارے میں پڑھنے سے معلوم ہوا کہ اس میں جاندار یا غیرجاندار تصویر کی خریدوفروخت ملٹی لیول مارکیٹنگ کےطور پرکرپٹو کرنسی کے ذریعہ ہوتی ہے۔ شرعی اعتبار سے ملٹی لیول مارکیٹنگ کا معاملہ ناجائز ہے، اور کرپٹو کرنسی کو ابھی تک حکومت کی ذمہ داری ، منظوری اور کرنسی کی حیثیت حاصل نہیں ہوئی ہے۔ اس لئے اگر صرف غیرجاندار کی تصویر کی خریدوفروخت ہو اور معاملہ مروجہ پیسوں میں اور حکومت کی منظورشدہ کرنسی میں قیمت طے کی جائے تو اس حد تک اس میں کوئی خرابی نہیں ہے، لیکن اگر تصویر جاندار کی ہو یاغیرجاندار کی تصویر ہو جس کی قیمت میں کئی لوگ شریک ہوں اور اس میں شاخ در شاخ لوگ جڑتے ہوں ، اور اس کو کسی ملک کی خاص کرنسی میں نہ بیچاجاتاہو تو ایسامعاملہ ناجائز ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3240/46-8007
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مرحومہ کو خواب میں بیمار یا غمزدہ دیکھنا اس بات کا اشارہ دیتاہے کہ ان کو ثواب اور دعائے مغفرت کی ضرورت ہے۔ اس لئے آپ ان کے لئے ایصالِ ثواب اورصدقۂ جاریہ کا اہتمام کریں۔ نیز یہ بھی معلوم کریں کہ ان کے ذمہ کچھ (نماز و روزہ وغیرہ) واجب الاداء تو نہیں ہیں اگر ہوں تو ان کی ادائیگی کی کوشش کریں۔ ان شاء اللہ آپ کے ایصال ثواب اور صدقہ جاریہ کا ان کو پورا فائدہ پہونچے گا اور ان کو قبرکی راحتیں میسر ہوں گی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3239/46-8009
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ڈھول باجا اور آلاتِ موسیقی کا استعمال شریعت میں ناجائز ہے اور حمدونعت رسول ﷺ کے ساتھ موسیقی کے استعمال اور بھی برا ہے۔آج کےمروجہ قوالی میں بہت زیادہ مفاسد پائے جاتے ہیں، اس لئے ایسی قوالی جس میں آلات موسیقی کا استعمال بہت نمایاں طور پر کیاگیا ہو، گرچہ قوالی کےمضامین کتنے ہی عمدہ ہوں ، اس کا سننا جائز نہیں ہے۔ ہاں اگر قوالی کے مضامین اچھے اور شریعت کے مطابق ہیں ، عشقیہ اشعار پر مشتمل نہیں ہیں تو ان کو بغیر موسیقی کے سننا جائز ہے۔
"قال الشارح: زاد في الجوهرة: وما يفعله متصوفة زماننا حرام لا يجوز القصد والجلوس إليه ومن قبلهم لم يفعل كذلك، وما نقل أنه - عليه الصلاة والسلام - سمع الشعر لم يدل على إباحة الغناء. ويجوز حمله على الشعر المباح المشتمل على الحكمة والوعظ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/349)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Miscellaneous
Ref. No. 3238/46-8028
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لیٹر آف کریڈٹ کی شرعی حیثیت کفالت اور ضمانت کی ہے یعنی لیٹر آف کریڈٹ جاری کرنے والا بینک گاہک کی جانب سے کفیل اور ضامن بنتاہے اور اس کے عوض بینک اپنی اجرت مثل وصول کرتاہے یہ شرعا درست ہے جس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ بینک بائع سے یہ کہتاہے کہ مشتری کو یہ سامان دے دو اور چار ماہ میں یہ پیسے ادا کردے گا لیکن اگر اس مدت میں اس نے ادا نہ کیا تو بینک خود ادا کرے گا ۔یہاں تک کا معاملہ شرعا درست ہے لیکن صورت مسؤلہ میں گویا بائع 120 دن کے لیٹر آف کریڈٹ سے راضی نہیں ہوتاہے اور وہ اپنی رقم جلدی لینا چاہتاہے اس کے جواب میں گاہک نے اس کو یہ پیش کش کی ہے کہ لیٹر آف کریڈت کا ڈسکاؤنٹ کرائے یعنی وہ بینک سے وہ رقم تیس دن میں وصول کرے اور اس کا ڈسکاؤنٹ چارج گاہک برداشت کرے گا یہ صورت ناجائز ہے اس لیے کہ اس صورت میں بینک گویا گاہک کی جانب سے بطور قرض بائع کو رقم دیتاہے اور گاہک سود کے ساتھ اس قرض کوواپس کرتاہے لہذا بینک سے سودی قرض لینا ہوا اور سودی قرض بلا ضرورت شدیدہ کے لینا جائز نہیں ہے اس لیے یہ دوسری صورت ناجائز ہے ۔تجوز التجارۃ عن طریق فتح الاعتماد فی البنک ویجوز دفع عمولۃ فتح الا عتماد الی البنک تجاہ الخدمات التی یقدمہابشرط ان لا یستلزم دفع فائدۃ ربویۃ ( فقہ البیوع،2/1168( جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے کہ ہمارے پیش نظر یہ رہنا چاہیے کہ محض حالات اور مارکیٹ کی صورت حال دیکھ کر چاہے وہ سودی قرضے پر مشتمل ہو یا ناجائز طریقے پر مشتمل ہو عمل کرنا جائز نہیں ہے بلکہ شریعت کو پیش نظر رکھ اس میں موجود گنجائش پر ہی عمل کرناچاہیے خواہ اس کی وجہ سے کاروبار کا کچھ نقصان کیوں نہ ہوجائے ۔اللہ تعالی پر بھروسہ کرتے ہوئے کاروبار کے متبادل پر غور کرنا چاہیے نہ یہ ہے کہ حلال و حرام سے بے پرواہ ہوکر کاروبار کرنا چاہیے ۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند