Frequently Asked Questions
Fiqh
Ref. No. 3404/46-9305
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ جس زیور کے بنانے کا موصوفہ نے آرڈر دیا ہے اس کی زکوۃ ان پر لازم نہیں ہوگی جب تک کہ ان کے پاس وہ زیور تیار ہوکر نہ آجائے۔ البتہ سال پورا ہونے کے دن جتنے پیسے ان کے پاس تھے اور جو اڈوانس رقم جمع کی تھی وہ سب زکوۃ میں محسوب ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 3403/46-9306
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ اس طرح کی نوکری میں بظاہر کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ اگر کوئی ایسی تقریب ہو جو اسلام مخالف نہ ہو تو اس میں شرکت کرکے اپنی حق بات آپ پیش کرسکتے ہیں۔ اگر کوئی غیراسلامی تقریب ہو تو اس میں شرکت سے گریز کیا جائے اور اگر جانا ضروری ہو تو افعال شرکیہ سے بچتے ہوئے شرکت کی اجازت ہوگی۔ اعمال شرکیہ کے لئے اگر مجبور کیاجائے تو بھی اس کو کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 3402/46-9307
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ مسجد کمیٹی نے موجودہ امام صاحب کا تقرر کیاتھا، اور آئندہ کے امام کا تقرر بھی کمیٹی ہی کرے گی۔ نئے امام کے تقرر کے لئے موجود امام سے اجازت لینا یا مشورہ لینا ضروری نہیں ہے۔ تاہم اگر کمیٹی کا موجودہ امام کے ساتھ تقرری کے وقت کوئی معاہدہ ہوا ہو تو اس کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ معاہدہ کی خلاف ورزی درست نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Hajj & Umrah
Ref. No. 3401/46-9308
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ سرسوں کا تیل خوشبودار تیلوں میں شامل نہیں ہےتاہم اسے سر پر لگانے کی وجہ سے زینت کا درجہ حاصل ہوجاتاہے ، اس لئے اس کے استعمال سے کوئی دم لازم نہ ہوگا البتہ اس کے لگانے سے بھی حالت احرام میں پرہیز کرنا چاہئے۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 190): "ولو ادهن بدهن فإن كان الدهن مطيبا كدهن: البنفسج، والورد، والزئبق، والبان، والحرى، وسائر الأدهان التي فيها الطيب فعليه دم إذا بلغ عضوا كاملا. وحكي عن الشافعي أن البنفسج ليس بطيب، وأنه غير سديد؛ لأنه دهن مطيب فأشبه البان وغيره من الأدهان المطيبة، وإن كان غير مطيب بأن ادهن بزيت أو بشيرج فعليه دم في قول أبي حنيفة، وعند أبي يوسف ومحمد عليه صدقة".
الفتاوى الهندية (1/ 224): "ولايمس طيباً بيده، وإن كان لايقصد به التطيب، كذا في فتاوى قاضي خان ولا يدهن كذا في الهداية".
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 3399/46-9309
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ اگر زید نے نومنیشن کے کاغذات میں یہ لکھا ہے کہ میں نے یہ مکان ان دوبچیوں کو دیدیا ہے تو یہ مکان صرف ان دو نابالغ بچوں کا ہی ہوگا اور اس میں کسی وارث کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ لیکن اگر کاغذات میں یہ ہو کہ میرے مرنے کے بعد یہ مکان میرے دو نابالغ بچوں کو دیاجائے تو پھر اس میں وراثت جاری ہوگی۔ اس لئے کاغذات کو غور سے پڑھ لیاجائے۔ مرنے والے نے اپنی زندگی میں جس کو جو چیز دے کر مالک بنادیا وہ اسی کا ہوگیا اس میں دیگر ورثا کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ اور مابقیہ ڈھائی روپئے میں وراثت جاری ہوگی۔
(و) شرائط صحتھا (في الموھوب: أن یکون مقبوضا، غیر مشاع، ممیزا غیر مشغول) کما سیتضح (ورکنھا):ھو (الإیجاب والقبول) کما سیجیئ‘‘. وتحتہ في الرد:’’(قولہ:أن یکون مقبوضا) فلا یثبت الملک للموھوب لہ قبل القبض کما قدمنا. وفي الزیلعي: وأما القبض فلا بد منہ لثبوت الملک، إذ الجواز ثابت قبل القبض بالاتفاق‘‘.(التنویر مع الدر: (کتاب الھبۃ: ١٢/ ٥٣٨:دار الفکر بیروت)
الھبۃ عقد مشروع لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام:تھادوا تحابوا وعلی ذلک انعقد الإجماع، وتصح بالإیجاب والقبول والقبض، أما الإیجاب والقبول فلأنہ عقد، والعقد ینعقد بالإیجاب والقبول، والقبض لا بد منہ لثبوت الملک، وقال مالک رحمہ اللہ: یثبت الملک فیہ قبل القبض اعتبارا بالبیع، وعلی ھذا الخلاف الصدقۃ، ولنا قولہ علیہ الصلاۃ والسلام: لا تجوز الھبۃ إلا مقبوضۃ‘‘.(الھدایۃ: کتاب الھبۃ: ٣/ ٢٨٥:رحمانیۃ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Divorce & Separation
Ref. No. 3398/46-9310
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔شوہر کے ساتھ بیوی کا اس امر پر اتفاق ہوا کہ اگر شوہرآئندہ کسی بھی قسم کے ولوگ دیکھے گا تو بیوی پر طلاق ہوگی، تو اس جملہ میں کسی طرح کی کوئی قید نہیں ہے کہ کس قسم کے ولوگ دیکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس لئے عام الفاظ کے مطابق شوہر کے ولوگ دیکھنے سے ایک طلاق واقع ہوگئی اور قسم پوری ہوگئی۔ اب اس کے بعد اگر شوہر ولوگ دیکھتاہے تومزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ صورت مسئولہ میں چونکہ ایک طلاق واقع ہوئی ہے اس لئےشوہر عدت کے اندر رجعت کرسکتاہے۔ اور اگر عدت گزرچکی ہو تو آپسی رضامندی سے نکاح کرکے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ البتہ خیال رہے کہ آئندہ شوہر کو صرف دو طلاق کا اختیار رہے گا۔
"(وتنحل) اليمين (بعد) وجود (الشرط مطلقا) لكن إن وجد في الملك طلقت وعتق وإلا لا." (الد المختار، کتاب الطلاق، باب التعلیق، ج:3، ص:355، ط:سعید)
لو حلف لا يدخل دار فلان يحنث بوضع القدمين وإن كان باقي بدنه خارجها. (البحر الرائق شرح كنز الدقائق: (28/2، ط: دار الكتاب الإسلامي)
عن أبي يوسف رحمه الله: رجل حلف بطلاق امرأته أن لا تشرب نبيذاً إلا بإذن فلان، ولا تأكل طعاماً إلا بإذن فلان، قائماً هذا الإذن على شربة واحدة، وعلى لقمة واحدة. (المحيط البرهاني في الفقه النعماني: (370/3، ط: دار الكتب العلمية)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 3397/46-9311
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ جب تک زبان سے طلاق کا تلفظ نہیں کرے گا، خواہ وہ کتنے ہی یقین کے ساتھ طلاق کا ارادہ اور نیت کرلے اس کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ طلاق کا تلفظ زبان سے واضح طور پر کرنا ضروری ہے، چاہے وہ کسی بھی طرح کے الفاظ ہوں جو طلاق کے معنی رکھتے ہوں۔ اس لئے اگر طلاق کی پکی نیت کرے یا دل ہی دل میں طلاق دیدے تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔
وأما ركنه فهو اللفظ الدال على منع النفس عن الجماع في الفرج مؤكدا باليمين بالله تعالى أو بصفاته أو باليمين بالشرط والجزاء (بدائع، كتاب الطلاق، ج:3، ص:161، دار الكتب العلم )
"(قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس والإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي. ۔ ۔ ۔ وبه ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق ولم يذكر لفظا لا صريحا ولا كناية لا يقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره، وكذا ما يفعله بعض سكان البوادي." (شامی، كتاب الطلاق،ركن الطلاق،ج:3، ص:230، ط: سعيد)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 3396/46-9295
In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful
The answer to your question is as follows:
Engaging in sexual relations with one’s wife during her menstrual period is considered a major sin (kabīrah) in Islam. The narration referenced highlights the gravity of this transgression. Therefore, it is incumbent upon the individual to immediately turn to Allah in sincere repentance (tawbah) and seek His forgiveness (istighfār). Additionally, it is recommended that he give an appropriate amount in charity (sadaqah), according to his financial capacity.
If he repents sincerely and firmly resolves never to return to this sin, it is hoped that he will be spared from divine punishment. Since the act was committed out of ignorance, there is greater hope that Allah, the Most Merciful, will accept his repentance.
However, it must be clearly understood that if she gets pregnant, it will not be not permissible to terminate the pregnancy unless there exists a valid reason.
And Allah knows best.
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf, Deoband
طلاق و تفریق
Ref. No. 3394/46-9276
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ ’ ’اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوں کہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔ ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔ ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے‘‘۔
ایک ساتھ تین طلاق دینے سے بھی تین طلاقیں واقع ہوتی ہیں۔ اس لئے بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں عورت پر طلاق مغلظہ واقع ہوگئی اور وہ اپنے شوہر کے لئے حرام اور اجنبی ہوگئی۔
﴿ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ﴾ [البقرة: 229] ﴿ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾ [البقرة: 230]
'' عن عائشة، أن رجلاً طلق امرأته ثلاثاً، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله عليه وسلم: أتحل للأول؟ قال: «لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول (صحيح البخاري(2/791، ط:قدیمی):
'' عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، فِي هَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: فَطَلَّقَهَا ثَلَاثَ تَطْلِيقَاتٍ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْفَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ مَا صُنِعَ عِنْدَ النَّبِيِّ صلّىالله عليه وسلم سُنَّةٌ''۔ (سنن ابی داؤد ، 1/324، باب فی اللعان)
عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: قُلْتُ لِفَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ: حَدِّثِينِي عَنْ طَلَاقِكِ، قَالَتْ: «طَلَّقَنِي زَوْجِي ثَلَاثًا، وَهُوَ خَارِجٌ إِلَى الْيَمَنِ، فَأَجَازَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»۔ (سنن ابن ماجه (1 /145):
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 3393/46-9275
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ نشہ کی حالت میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے، اس لئے اگر شوہر نے دو طلاقیں دی ہیں تو دو طلاقیں واقع ہوگئیں۔ اگر میاں بیوی دونوں ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو رجعت کرکے ایک ساتھ رہ سکتے ہیں ، البتہ شوہر کو آئندہ صرف ایک طلاق کا اختیار باقی رہے گا، آئندہ اگر ایک طلاق بھی دی تو عورت طلاق مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی۔
اگر شوہر طلاق کا اقرار کررہاہے تو طلاق واقع ہوگی، اور اگر انکار کررہاہے اور طلاق پر گواہ بھی نہیں ہیں تو طلاق واقع نہیں ہوگی، تاہم اگر عورت کو یقین ہے کہ شوہر نے دو طلاقیں دی ہیں تو بھی ابھی رجعت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ شوہر کے ساتھ رہ سکتی ہے۔
طلاق السكران واقع إذا سكر من الخمر أو النبيذ. وهو مذهب أصحابنا رحمهم الله تعالى كذا في المحيط (الھندیۃ، جلد1، کتاب الطلاق، الباب الاول، فصل فیمن یقع طلاقہ و فیمن لا یقع طلاقہ، ص: 353، ط: مکتبہ رشیدیہ)
وبه ظهر أن المختار قولهما في جميع الأبواب فافهم. وبين في التحرير حكمه أنه إن كان سكره بطريق محرم لا يبطل تكليفه فتلزمه الأحكام وتصح عبارته من الطلاق والعتاق، والبيع والإقرار، وتزويج الصغار من كفء، والإقراض والاستقراض لأن العقل قائم، وإنما عرض فوات فهم الخطاب بمعصيته، فبقي في حق الإثم ووجوب القضاء۔ (شامی، جلد3، کتاب الطلاق، مطلب فی تعریف السکران و حکمہ، ص: 239، ط: ایچ ایم سعید)
"وَاسْتَشْہِدُوْا شَہِیْدَیْنِ مِنْ رِجَالِکُمْ فَاِنْ لَمْ یَکُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَاَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّہَدَآءِ". (البقرۃ، الآیۃ: 282)
"والمرأۃ کا لقاضی إذا سمعتہ أو أخبرہا عدل لا یحل لہا تمکینہ والفتویٰ علی أنہ لیس لہا قتلہ ولا تقتل نفسہا بل تفدی نفسہا بمال أوتھرب (إلی قولہ) فان حلف ولا بینۃ لہا فالإثم علیہ الخ". رد المحتار: (کتاب الطلاق، مطلب فی قول البحر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند