نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: بشرط صحت سوال امام صاحب کے لیے مذکورہ بالا امور شرعاً و اخلاقاً ناجائز اور منصب امامت کے لیے کسی بھی طرح مناسب نہیں ان کو ان تمام حرکتوں سے فوری توبہ کرلینی چاہئے اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے بصورت دیگر اراکین کمیٹی کو چاہئے کہ ایسے امام کو تبدیل کردیں اور کسی نیک اور صالح امام کو مقرر کرلیں تاہم فتنہ وفساد سے ہر حال میں بچا جائے جب تک اس امام کو کمیٹی والے تبدیل نہ کریں اس کے پیچھے نمازیں ادا ہوجاتی ہیں۔
’’أخرج الحاکم في مستدرکہ مرفوعاً إن سرکم أن یقبل اللّٰہ صلاتکم فلیؤمکم خیارکم فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم‘‘(۱)
’’وفي النہر عن المحیط: صلی خلف فاسق أو مبتدع نال: فضل الجماعۃ أفاد أن الصلوٰۃ خلفہما أولی من الإنفراد؛ لکن لا ینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج ۲، ص:۳۰۱۔

(۲) أیضًا:۔
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص187

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں کیف ما اتفق زید، عمر، بکر وغیر کے ناموں کے ساتھ اس قسم کے جملے املاء میں لکھا دئیے جاتے ہیں، تو اس میں کوئی حرج نہیں، دوسروں کو اس پر بدگمانی نہیں کرنی چاہئے ورنہ تو خواہ مخواہ بدگمانی کرنے والے سخت گنہگار ہوں گے جب کہ امام کے دوسرے معاملات سے اس کی دینداری اور دینی تعلیم کا جذبہ بھی ظاہر ہے اور نماز ایسے امام کے پیچھے درست اور صحیح ہے۔(۱)

(۱) وقال البدر العیني: یجوز الاقتداء بالمخالف وکل بروفاجر مالم یکن مبتدعاً بدعۃ یکفر بہا ومالم یتحقق من إمامتہ مفسداً لصلاتہ في اعتقادہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الأحق بالامامۃ‘‘: ص: ۳۰۴، شیخ الہند دیوبند)
من أبغض عالماً من غیر سبب ظاہر خیف علیہ الکفر … ویخاف علیہ إذا شتم عالماً أو فقیہاً من غیر سبب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر، الباب التاسع في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا مایتعلق بالعلم والعلماء‘: ج۲، ص: ۲۸۲، زکریا دیوبند)
وعن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: سباب المؤمن فسوق وقتالہ کفر۔ (أخرجہ أحمد بن حنبل  في مسندہ، مسند عبد اللّٰہ بن مسعود: ج ۷، ص: ۲۳، رقم: ۴۱۷۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص277

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا ہی اصل سنت ہے، اور اسی کی تاکید ہے اور اسی پر بعض فقہاء نے وجوب کاحکم لگایا ہے، اس کو ترک کرنے والا اس وعید کا مستحق ہوگا جو حدیث میں وارد ہوئی ہے، البتہ ترک کرنے سے مراد عادت بنالینا ہے، کبھی اتفاقی طور پر کسی وجہ سے ترک ہوجانامراد نہیں ہے۔ اس لیے اگر کبھی کسی وجہ سے جماعت چھوٹ جائے، توتنہا نماز پڑھنے سے بہتر ہے کہ گھر میں جماعت کرلی جائے جیسا کہ ایسی صورت میں نبی علیہ السلام سے گھر جاکر جماعت سے نماز پڑھنا ثابت ہے۔
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے دیہی علاقوں سے لوٹ کر آئے اور نماز کی ادائیگی کا ارادہ کیا تو دیکھا کہ لوگ نماز سے فارغ ہوگئے ہیں؛ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر چلے گئے اور گھر کے افراد کو جمع کیا اور ان کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھی۔(۱)
محدث ہیثمی ؒ نے کہا کہ اس حدیث کے تمام راوی مضبوط ہیں۔ شیخ ناصر الدین البانی ؒ نے اس حدیث کو حسن قرار دیا۔ شیخ حسن سلمانؒ نے بھی اس حدیث کے صحیح ہونے کا اقرار کیا ہے۔(۲)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ مسجد میں نماز ادا کرنے کے لیے نکلے تو دیکھا کہ لوگ مسجد سے باہر آرہے ہیں اور جماعت ختم ہوگئی ہے۔ چناں چہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ واپس گھر آئے اور جماعت کے ساتھ نماز ادا فرمائی۔ (اس روایت کو امام طبرانی نے ’’المعجم الکبیر ۰۸۳۹‘‘ میں صحیح سند کے ساتھ ذکر کیا ہے نیز ابن عبد الرزاق نے ’’مصنف ۲/۹۰۴/۳۸۸۳‘‘ میں ذکر کیا ہے)۔
’’عن أبی ہریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: والذي نفسي بیدہ لقد ہممت أن آمر بحطب فیحطب، ثم آمر بالصلاۃ فیؤذن لہا، ثم آمر رجلاً فیؤم الناس، ثم أخالف إلی رجال فأحرق علیہم بیوتہم، الخ۔‘‘(۱)
’’صلاۃ الجماعۃ تفضل صلاۃ الفذ بسبع وعشرین درجۃ‘‘(۲)
’’قال في الشامي: (قولہ: وتکرار الجماعۃ) لما روي عبد الرحمن بن أبي بکر عن أبیہ ’’أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خرج من بیتہ لیصلح بین الأنصار فرجع وقد صلی فی المسجد بجماعۃ فدخل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم في منزل بعض أہلہ فجمع أہلہ فصلی بہم جماعۃ‘‘ المرأۃ إذا صلت مع زوجہا في البیت إن کان قدمہا لحذاء قدم الزوج لاتجوز صلاتہما بالجماعۃ، وإن کان قدماہا خلف قدم الزوج إلا أنہا طویلۃ تقع رأس المرأۃ في السجود قبل رأس الزوج جازت صلاتہا؛ لأن العبرۃ للقدم‘‘(۳)

(۱) معجم الکبیر للطبرانی، مجمع الزوائد ج۲، ص۵۴، المعجم الاوسط ج۵،ص ۱۰۶۴،ج ۷،ص ۲۸۶، المجروحین لابن حبان ج ۳ص۴، ۵، الکامل لابن عدی ج ۶،ص۸۹۳۲۔
(۲) إعلام العابد في حکم تکرار الجماعۃ فی المسجد الواحد، ص ۴۳
(۱) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب کیف الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۷۱، رقم: ۵۰۶،ط: اشرفی دیوبند۔
(۲) أخرجہ البخاري، فيصحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب فضل صلاۃ الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۹، رقم: ۶۴۵۔
(۳) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘ ج ۲، ص: ۲۸۸۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص381

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:کوئی شخص صحیح اسلامی عقیدہ کا حامل ہو، شہادتین اور ارکان وواجبات اسلام نیز فرائض پر اعتقاد رکھتا ہو، آخرت و تقدیر کو برحق سمجھتا ہو تو وہ مسلمان ہے۔ عمداً حالت حدث میں نماز پڑھنے کے دو معنی ہیں؛ اگر اعتقاد یہ ہے کہ وضو نماز کی صحت کے لیے لازم اور ضروری نہیں ہے، تو اس شخص پر کفر عائد ہوجائے گا؛ اس لیے کہ نماز کے لیے وضو کا ہونا قرآن مقدس سے ثابت ہے(۱) اوراگر اعتقاد یہ ہے کہ نماز کے لیے وضو تو ضروری ہے اس کا پختہ عقیدہ ہے اس کے باوجود بغیر وضو نماز پڑھ لی تو یہ شخص انتہائی گناہگار ہے، گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے؛ البتہ شرعاً کافر نہیں ہے اس لیے کہ یہ عملاً نافرمانی ہے، اعتقاد اس کا صحیح ہے،(۱) اس شخص پر توبہ لازم ہے۔ مذکورہ شخص کی جو بھی مراد ہو کس نظریہ سے اس نے ایسا کیا ہے؟ اس سے معلوم کرلیا جائے کہ شریعت کا قاعدہ ہے اگر کسی شخص کے کفرمیں ننانوے احتمال ہوں اور ایک احتمال عدم کفر کا ہو یعنی اسلام کا ایک احتمال ہو تو احتمال اول کو ترک کرکے دوسرے احتمال ہی کو اختیار کیا جائے گا؛ پس بغیر تعیین کے کفر کا فتویٰ نہیں دیا جائے گا؛ البتہ یہ شخص بلا شبہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے۔(۲)
(۱){ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا إِذَا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْھَکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ إِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُئُ وْسِکُمْ وَأَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَیْنِ ط} (سورۃ المائدہ: ۶)
الصلاۃ بلا طہر غیر مکفر، کصلاتہ لغیر القبلۃ أومع ثوب نجس وہو ظاہر المذہب کما في الخانیۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار،’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص:۱۸۵، ۱۸۶)
(۲)  في الخلاصۃ وغیرہا إذا کان في المسئلۃ وجوہ توجب التکفیر ووجہ واحد یمنعہ فعلی المفتي أن یمیل إلی الوجہ الذي یمنع التکفیر تحسینا للظن بالمسلم۔ (ابن عابــدین، الـدر المختـار مع رد المحتار،’’کتاب الجہاد‘‘ باب المرتد،مطلب مایشک أنہ ردۃ لایحکم بہا‘‘:ج ۶، ص: ۳۵۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص 27

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:مذکورہ صورت میں اذان درست ہوجائے گی، اعادہ کی ضرورت نہیں؛ اس لیے کہ یہ معمولی غلطی ہے؛ لیکن اگر کسی جگہ مؤذن کی عادت ہو تو پھر اس کو بتانے اور سکھانے کی ضرورت ہے تاکہ اذان سنت کے مطابق دی جائے۔
’’وإذا قدّم المؤذن في أذانہ وإقامتہ بعض الکلمات علی البعض، نحو أن یقول: أشہد أن محمداً رسول اللّٰہ قبل قولہ: أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ، فالأفضل في ہذا أن ما سبق أوانہ لا یعتد بہ حتی یعیدہ في أوانہ وموضعہ؛ لأن الأذان شرعت منظومۃ مرتبۃ، فتؤدی علی نظیرہ وترتیبہ إن مضی علی ذلک جازت صلاتہم‘‘(۱)

(۱) برہان الدینالمرغینانی، المحیط البرہاني، في فقہ النعماني، کتاب الصلاۃ، بیان الصلاۃ التي لہا أذان والتي لا أذان لہا وفي بیان أنہ في أي حال یری بہ، في تداک الحد الواقع فیہ: ج ۱، ص: ۳۴۸۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص166

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بہشتی زیور میں یہ مسئلہ لکھا ہے یہ مسئلہ اسی طرح شامی میں ہے:
’’اعلم أن المانع من الوضوء إن کان من قبل العباد کاسیر منعہ الکفار من الوضوء ومحبوس في السجن ومن قیل لہ أن توضأت قتلتک جاز لہ التیمم ویعید الصلوٰۃ إذا زال المانع کذا في الدر والوقایۃ وأما إذا کان من قبل اللہ تعالیٰ کالمرض فلا یعید‘‘(۲)
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ:  باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۶۵۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص291


 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض نمازوں کے بعد دعا کی روایات میں تاکید و ترغیب آئی ہے؛ اس لیے فرض نمازوں کے بعد دعا کا اہتمام ہونا چاہیے اور جب سب لوگ اس کا اہتمام کریں گے، تو اجتماعی دعا کی ہیئت ہوجائے گی، تاہم امام کے ساتھ دعا کو لازم وضروری سمجھنا درست نہیں ہے اس لیے کہ اقتدا ء سلام پر ختم ہوجاتی ہے۔ دعا نماز کا حصہ نہیں ہے؛ اس لیے اس پر اصرار کرنا درست نہیں ہے، جو صاحب نماز کے بعد مطلقا دعا سے منع کرتے ہیں وہ غلط ہے؛ اس لیے کہ نماز کے بعد دعا حدیث سے ثابت ہے۔
’’عن معاذ بن جبل: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أخذ بیدہ وقال: ’’یا معاذ واللّٰہ إني لأحبک‘‘ فقال: ’’أوصیک یا معاذ لا تدعن في دبر کل صلاۃ تقول: اللہم أعني علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک‘‘ وأوصی بذلک معاذ الصنابحي، وأوصی بہ الصنابحي أبا عبد الرحمن‘‘
’’حدثنا محمد بن سلمۃ المرادي، حدثنا ابن وہب، عن اللیث بن سعد، أن حنین بن أبي حکیم حدثہ، عن علي بن رباح اللخمي، عن عقبۃ بن عامر قال: أمرني رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن أقرأ بالمعوذات دبر کل صلاۃ‘‘(۱)
’’حدثنا محمد بن یوسف، قال: حدثنا سفیان، عن عبد الملک بن عمیر، عن وراد کاتب المغیرۃ بن شعبۃ، قال: أملی علي المغیرۃ بن شعبۃ في کتاب إلی معاویۃ: أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقول في دبر کل صلاۃ مکتوبۃ: لا إلہ إلا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک، ولہ الحمد، وہو علی کل شيء قدیر، اللہم لا مانع لما أعطیت، ولا معطي لما منعت، ولا ینفع ذا الجد منک الجد، وقال شعبۃ: عن عبد الملک بن عمیر، بہذا، وعن الحکم، عن القاسم بن مخیمرۃ، عن وراد، بہذا، وقال الحسن: ’’الجد: غني‘‘(۱)
’’حدثنا عبید اللّٰہ بن معاذ، قال: حدثنا أبي، حدثنا عبد العزیز بن أبي سلمۃ، عن عمہ الماجشون بن أبي سلمۃ، عن عبد الرحمن الأعرج، عن عبید اللّٰہ بن أبي رافع عن علي بن أبي طالبٍ قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا سلم من الصلاۃ قال: ’’اللہم اغفر لي ما قدمت وما أخرت، وما أسررت وما أعلنت‘‘(۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص434

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: صورت مذکورہ میں بلا کراہت نماز صحیح اور درست ہے۔
’’لو قرأ آمن الرسول في رکعۃ وقل ہو اللّٰہ أحد في رکعۃ لا یکرہ‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الرابع في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۶۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص231

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سنت مؤکدہ کھڑے ہوکر پڑھنا افضل اور مستحب ہے اور بلا عذربیٹھ کر پڑھنا بھی جائز ہے؛ البتہ بعض فقہاء نے سنت فجر کو مستثنی کیا ہے، یعنی فجر کی سنت بلا عذر کے بیٹھ کر پڑھنا درست نہیں ہے۔
’’یجوز النفل إنما عبر بہ لیشمل السنن المؤکدۃ وغیرہا فتصح إذا صلاہا ’’قاعدا مع القدرۃ علی القیام‘‘ وقد حکي فیہ إجماع العلماء، وعلی غیر المعتمد یقال: إلا سنۃ الفجر لما قیل بوجوبہا وقوۃ تأکدہا، و إلا التراویح علی غیر الصحیح لأن الأصح جوازہا قاعدا من غیر عذر فلا یستثنی من جواز النفل جالسا بلا عذر شيء علی الصحیح‘‘(۱)

(۱) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’فصل في صلاۃ النفل جالساً الخ‘‘: ج ۱، ص:۴۰۲، ۴۰۳، مکتبہ: شیخ الہند۔)
وأما السنن الرواتب فنوافل حتی تجوز علی الدابۃ، وعن أبي حنیفۃ ینزل لسنۃ الفجر لأنہا آکد من غیرہا، وروي عنہ أنہا واجبۃ، وعلی ہذا الخلاف أداؤہا قاعداً۔ (فخرالدین عثمان بن علي، تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۰، زکریا)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص358

مساجد و مدارس

Ref. No. 1088 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔  زکوة اور صدقات واجبہ میں تملیک ضروری ہے، زکوة کی رقم فقراء کی ملکیت میں دینا ضروری ہے، بلا تملیک ان رقومات کا استعمال مدرسہ یا کسی بھی دوسرے رفاہی کاموں میں درست نہیں ہے۔ اس لئے صورت مسئولہ میں بلا تملیک زکوة کی رقم سے مدرسہ کے لئے زمین خریدنا اور سایہ وغیرہ کا انتظام کرنا بھی درست نہیں ہے۔ اہل خیر حضرات نفلی صدقات اور امداد سے اس میں تعاون کریں ، یا پھر زکوة کی رقم کسی غریب کو دیدی جائے اور اس کو بااختیار بنادیا جائے پھر اس کو مدرسہ کے لئے خرچ کرنے کی ترغیب دی جائے اگر وہ اپنی مرضی سے دیدے تو اس کو مدرسہ کی زمین یا تعمیر میں لگانا درست ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند