نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: یہ بھی درست ہے، لیکن بہتر یہ ہے کہ یہ وقت تسبیح وغیرہ میں گزارے یا خاموش رہے۔ اور چونکہ تسبیح پڑھنا توارث امت ہے اس لیے وہی بہتر ہے۔’’ویجلس ندباً بین کل أربعۃ بقدرہا وکذا بین الخامسۃ والوتر ویخیرون بین تسبیح وقراء ۃ وسکوت وصلاۃ فرادی‘‘(۱)(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۶۔وہم مخیرون في الجلوس بین التسبیح والقراء ۃ والصلاۃ فرادی والسکوت۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في صلاۃ  التراویح‘‘: ص: ۴۱۴)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 133

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: فتاویٰ قاضی خان میں ہے کہ راحت کے جلسہ میں چاہے، ’’سبحان اللّٰہ‘‘ پڑھے چاہے ’’لا إلہ إلا اللّٰہ‘‘ پڑھے چاہے درود پڑھے یا کوئی اور دعا یا خاموش رہے، ترویحہ میں شریعت کی طرف سے کوئی خاص عمل یا دعاء متعین نہیں ہے۔’’یجلس ندبا بین کل أربعۃ بقدرہا وکذا بین الخامسۃ والوتر ویخیرون بین تسبیح وقراء ۃ وصلاۃ فرادی‘‘ ’’قولہ بین تسبیح‘‘ قال القہستاني: فیقال ثلاث مرات سبحان ذي الملک والملکوت الخ‘‘(۱)(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۹۷ - ۴۹۶۔ویستحب الجلوس بعد صلاۃ کل أربع رکعات بقدرہا، وکذا یستحب الجلوس بقدرہا بین الترویحۃ الخامسۃ والوتر لأنہ المتوارث عن السلف وہذا روي عن أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ ولأن اسم التراویح بنی عن ذلک وہم مخیرون في الجلوس بین التسبیح والقراء ۃ والصلاۃ فرادی والسکوت۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في صلاۃ التراویح‘‘: ص۴۱۴)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 132

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: ترویحہ میں خاموش رہنا بھی درست ہے اور تسبیح پڑھنا بھی صحیح ہے، ہر ترویحہ میں کچھ دیر کے لیے بیٹھنا مستحب ہے اور آخری ترویحہ میں اتنی تاکید نہیں ہے؛ اس لیے اگر ابتدائی چار ترویحوں میں بعض لوگوں پر بار گزرے تب بھی بیٹھنا نہ چھوڑا جائے؛ اس لیے کہ اس کی تاکید ہے، البتہ اگر آخری ترویحہ میں بیٹھنا لوگوں پر بار ہو، تو ترک کرنا بھی درست ہے اور اجتماعی دعاء کر کے اختلاف پیدا کرنا بھی درست نہیں ہے۔ اور اگر کوئی تنہا تراویح پڑھ رہا ہو تو اسے اختیار ہے استحباب کا اجر حاصل کرے یا چھوڑ دے۔عالمگیری میں ہے: ’’ویستحب الجلوس بین الترویحتین قدر ترویحۃ، وکذا بین الخامسۃ والوتر، ولو علم أن الجلوس بین الخامسۃ والوتر یثقل علی القوم لا یجلس ثم ہم مخیّرون في حالۃ الجلوس إن شاؤوا سبّحوا وإن شاؤوا قعدوا ساکتین الخ‘‘۔(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۵۔ویخیرون بین تسبیح وقراء ۃ وسکوت وصلاۃ فرادی، وقال الشامي: والاستراحۃ علی خمس تسلیمات اختلف المشایخ فیہ وأکثرہم علی أنہ لایستحب وہو الصحیح فإن مرادہ بخمس تسلیمات خمس أشفاع، الخ … قولہ بین تسبیح قال القہستاني: فیقال ثلاث مرات سبحان ذي الملک والملکوت سبحان ذي العزۃ والعظمۃ والقُدرۃ والکبریاء والجبروت، سبحان الملک الحيِّ الذي لایموت سبوح قدوس رب الملائکۃ والروح لا إلہ إلا اللّٰہ نستغفر اللّٰہ نسألک الجنۃ ونعوذ بک من النار۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۶، ۴۹۷)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 131

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: وقت ضرورت لقمے دینے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی اس لیے تراویح درست ہے۔(۲)(۲) (وفتحہ علی إمامہ جائز) لما روي أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قرأ في الصلاۃ سورۃ المؤمنون فترک کلمۃ فلما فرغ قال ألم یکن قال بلیٰ قال ہلا فتحت علی قال ظننت أنہا نسخت فقال صلی اللّٰہ علیہ وسلم لو نسخت لأعلمتکم وقال إذا استطعمک الإمام فأطعمہ أي إذا استفتحک الإمام فافتح علیہ … وبکرہ للمنتدی أن یعجل بالفتح لأن الإمام ربما یتذکر فیکون التلقین من غیر حاجۃ وبکرہ للإمام أن یلجنہم إلیہ بأن یقف ساکنا بعد الحصر أو یکرر الآیۃ بل ینتقل إلی أیۃ أخری أو یرکع أن قرأ القدر المستحب وقیل قدر الفرض والأول ہو الظاہر۔ (أحمد بن إسماعیل، الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۳)وإن فتح علی إمامہ لم تفسد … وفتح المراہق کالبالغ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب السابع فیما یقصد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۹۹)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 129

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں پہلی دو رکعت فاسد اور آخری دو رکعت درست ہوگئیں۔ پہلی دو رکعت میں پڑھا ہوا قرآن کریم اس دن یا اگلے دن کی تراویح میں لوٹا لے، اصل یہ ہے کہ جب دو رکعت پر قعدہ نہ کیا اور تیسری رکعت کا سجدہ کر لیا تو راجح یہ ہے کہ شفعہ اولیٰ فاسد ہو کر شفعہ ثانیہ کی بنا کے حق میں تحریمہ باقی رہتا ہے۔’’فلو فعلہا بتسلیمۃ فإن قعد لکل شفع صحت بکراہۃ وإلانابت عن شفع واحد، قولہ صحت بکراہۃ: أي صحت عن الکل وتکرہ إن تعمد وہذا ہو  الصحیح کما في الحلیۃ عن النصاب وخزانۃ الفتاویٰ خلافاً لما في المنیۃ من عدم الکراہۃ فإنہ لا یخفیٰ لمخالفتہ المتوارث قولہ بہ یفتی: لم أرمن صرح بہذا اللفظ ہنا وإنما صرح بہ في النہر عن الزاہدي فیما لو صلی أربعاً بتسلیمۃ واحدۃ وقعدۃ واحدۃ‘‘ (۱)   نوافل میں دو رکعت کے بعد قعدۂ اخیرہ فرض ہے۔(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۵، ۴۹۶۔وعن أبي بکر الإسکاف أنہ شکل عن رجل قال إلی الثالثۃ في التراویح ولم یقعد في الثانیۃ قال: إن تذکر في القیام، ینبغي أن یعود ویقعد ویسلم وإن تذکر بعد ما سجد للثالثۃ فإن أضاف إلیہا رکعۃ أخریٰ، کانت ہذہ الأربع عن تسلیمۃ واحدۃ وإن قعد في الثانیۃ قدر التشہد۔… (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل، فصل في التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 128

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: تراویح کی نماز میں بھی امام کی قرأت کی غلطی پر لقمہ دینا چاہیے اور اس صورت میں امام پر سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا۔(۱)(۱) وإن فتح علی إمامہ لم تفسد۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۷)وفتحہ علی إمامہ جائز لما روي أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قرأ في الصلاۃ سورۃ المؤمنین فترک کلمۃ فلما فرغ قال ألم یکن فیکم أبي؟ قال بلیٰ، قال ہلا فتحت علي قال طننت أنہا نسخت، فقال صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولو نسخت لأعلمتکم۔ (أحمد بن إسماعیل، الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۴، (شاملہ)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 127

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اس صورت میں بھی نماز تراویح درست ہوگئی۔(۱)(۱) أما النفل فیجوز مالم یقید بالسجدۃ ثم تذکرہ عاد إلیہ وتشہد ولا سہو علیہ في الأصح مالم یستقم قائما في ظاہر المذہب، وہو الأصح۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 127

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اس صورت میں جب کہ اس نے لوٹ کر اور بیٹھ کر سجدہ سہو کرکے پھر سلام پھیرا اس کی نماز تراویح دو رکعت ادا ہوگئی۔(۱)(۱) عن أبي بکر الإسکاف أنہ سئل عن رجل قام إلی الثالثۃ في التراویح ولم یقعد في الثانیۃ قال: إن تذکر في القیام ینبغي أن یعود ویقعد ویسلم وإن تذکر بعد ما سجد الثالثۃ فإن أضاف إلیہا رکعۃ أخری کانت ہذہ الأربعۃ عن تسلیمۃ واحدۃ وإن قعد في الثانیۃ قدر التشہد اختلفوا فیہ فعلی قول العامۃ یجوز عن تسلیمتین وہو الصحیح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في التراویح، الباب التاسع في النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۸) أما في النفل إذا قام إلی الثالثۃ من غیر قعدۃ فإنہ یعود ولو استقام قائما ما لم یقیدہا بسجدۃ، کذا في السراج الوہاج … وقیل یعود ما لم یقید ہا بالسجدۃ لأن کل شفع صلاۃ علی حدۃ في حق القراء ۃ فأمرنا بالعود إلی القعدہ احتیاطاً۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج۲، ص: ۱۷۹)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 126

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: امام صاحب روز کتنا قرآن پاک تراویح میں پڑھ رہے ہیں اس اعتبار سے چار پانچ دن پہلے کون سا پارہ پڑھا تھا اور پندرہویں رکعت میں کون سا رکوع تھا اسی حساب سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اور اگر اندازہ نہ ہوسکے تو غور کریں اور سوچیں اور جس پارہ اور رکوع پر غلبہ ظن ہو تو اسی کا اعتبار کیا جائے گا۔ اسی کو اس کی رکعت میں دوبارہ پڑھ لیں۔(۲)(۲) وإذا غلط في القراء ۃ في التراویح فترک سورۃ أو آیۃ وقرأ ما بعدہا فالمستحب لہ أن یقرأ المتروکۃ ثم المقرء وۃ لیکون علی الترتیب وإذا فسد الشفع وقد قرأ فیہ لا یعتد بما قرأ فیہ ویعید القراء ۃ لیحصل لہ الختم في الصلاۃ الجائزۃ، وقال بعضہم: یعید بہا، کذا في الجوہرۃ النیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل، فصل في التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۷)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 125

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اس صورت میں تراویح کی دو رکعت شمار نہیں ہوں گی اس کو اسی دن دو رکعتیں دوبارہ پڑھنا ضروری ہے، دوسرے دن قضا لازم نہیں البتہ تکمیل قرآن کے لئے  ان رکعات میں پڑھے گئے قرآن کا اعادہ ضروری ہے۔(۱)(۱) وإذا فسد الشفع وقد قرأ فیہ لا یعتد بما قرأ فیہ ویعید القراء ۃ لیحصل لہ الختم في الصلاۃ الجائزۃ وقال بعضہم: یعتد بہا، کذا في الجوہرۃ النیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل، فصل في التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۷)…وأما إذا صلی ثلاثا بتسلیمۃ واحدۃ إن قعدہ علی رأس الرکعتین، یجزیہ عن تسلیمۃ واحدۃ … وإن لم یقعد علی رأس الثانیۃ ساہیاً أو عامداً لا شک إن صلاتہ باطلۃ … وفي الخانیۃ ہو الصحیح۔ (ابن العلاء، الفتاویٰ التاتارخانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الثالث عشر في التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۰، رقم: ۲۵۷۳)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 124