زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 1062 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ داڑھی رکھنا واجب ہے، اور ایک مشت پہونچنے سے پہلے کٹوانا بالاتفاق ناجائز ہے۔ حدیث میں آپ نے فرمایاخالفوا المشرکین واوفروا اللحی واحفوا الشوارب ﴿متفق علیہ﴾ یحرم قطع لحیتہ ﴿شامی﴾  واما الاخذمنھا ای من اللحیة وھی دون ذلک ای دون القبضة کمایفعلہ بعض المغاربةومخنثة الرجال فلم یبحہ احد واخذ کلھا فعل یھود الھند ومجوس الاعاجم فتح اہ ﴿درمختار﴾۔ حدیث  شریف میں امر کا صیغہ ہے جو وجوب کے لئے ہوتا ہے جیسا ک فقہ کا قاعدہ ہے الامر للوجوب مالم تکن قرینة خلافہ۔ لہذا  جب داڑھی بڑھانا واجب ہوا تواس کی ضد  کٹوانا یقینا حرام ہوگا۔  اگر امر وجوب کے لئے نہ ہوتا تو احیاناًاس کے خلاف بھی منقول ہوتا مگر قولاً و فعلا ًکبھی بھی بیان جواز کے لئے اس کی نوبت نہیں آئی۔ چنانچہ مالکیہ وحنابلہ نے داڑھی منڈانے کو حرام اور حنفیہ وشوافع نے مکروہ تحریمی یعنی قریب بہ حرام قراردیا ہے۔ ﴿قاموس الفقہ / فقہ اسلامی﴾۔

رہا ایک مشت کی تحدید کا مسئلہ تو چونکہ الفاظ حدیث کاتقاضہ تھا کہ بڑھانے کی کوئی حد مقرر نہ ہوتی اور کٹانا بالکل جائز نہ ہوتا مگر حدیث کے راوی صحابی کا معمول تھا کہ ایک مشت سے جو مقدار آگے بڑھ جاتی اس کو کٹادیتے ۔ ایک مشت سے پہلے کٹوانا کسی صحابی سے ثابت نہیں۔ جو لوگ کٹوانے کے قائل ہیں ان پر  لازم ہےکہ کٹوانے کی کوئی دلیل پیش کریں۔ و اللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 39 / 844

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد کے لئے جو بھی مقصد مفید ہو اس مقصد سے بنانے  کی اجازت ہے۔ آپ کے پیش نظر جو مقصد ہو اس کی وضاحت کرکے مسئلہ معلوم کرلیں کہ اس مقصد  کے لئے مسجد میں تہخانہ بنانا کیسا ہے، ان شاء اللہ اس کا حکم لکھ دیا جائے گا۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Taharah (Purity) Ablution &Bath

Ref. No. 39/1049

In the name of Allah the most gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

In the above mentioned case, you have to do Wudu only; you do not need to do ghusl.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 40/915

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہوسکتی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 41/847

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب کوئی مرد اپنی بیوی کو تین طلاق دیدیتا ہے تو وہ عورت اس مرد کے لئے ہمیشہ کے لئےحرام ہو جاتی ہے۔ اب اس کا نکاح کسی دوسرے مرد ہی سے ہوسکتا ہے۔ البتہ اگرکسی دوسرے مرد سے نکاح ہوا، اس نے صحبت کی، لیکن کسی وجہ سے طلاق ہوگئی یا دوسرے شوہر کا انتقال ہوگیا، تو اب یہ عورت عدت گزارنے کے بعد آزاد ہوجاتی ہے، اب وہ تیسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے اور چاہے تو پہلے شوہر (جس نے تین طلاق دی تھی اور اس سے نکاح حرام تھا) سے نکاح  کر سکتی ہے۔ چونکہ اس ورانیہ میں دوسرے مرد کا صحبت کرنا پہلے مرد سے نکاح کو حلال کردیتا ہے اس لیے اس کو حلالہ کہا جاتاہے۔  فان طلقھا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ۔ (القرآن، سورہ بقرہ آیت 230) مزید تفصیل کے لئے اس لنک پر کلک کریں : https://www.jahan-e-urdu.com/halala-kia-hai/

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1126/42-357

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ نظربد سے موت واقع ہوجائے، تاہم حاسد حسد کرنے کی وجہ سے گنہگار ہوگا، ماردینا اس کے اختیار میں نہیں ہے۔ بری نظر شیطان کی نظر ہوتی ہے جس کے پیچھے حاسد کا حسد چھپاہوتا ہے۔ اللہ پاک نے اپنے قرآن میں فرمایا کہ حسد کرنے والوں کے شر سے پناہ مانگو۔ لہذا حاسدوں سے بچنا چاہئے۔ اپنی ترقی و خوبصورتی صبح وشام دعا ء پڑھ کر اللہ کی پناہ میں رکھیں۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 1477/42-925

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال مذکورہ صورت میں دونوں کے ماں باپ الگ الگ ہیں، اس لئے اولاد میں  کوئی وجہ حرمت نہیں پائی جارہی ہے، اس لئے اولاد کا آپس میں پردہ کرنا لازم ہے اورمحرمات میں نہ ہونے کی وجہ سے  آپس میں نکاح  درست ہے، لہذا  ایک بیٹے کا نکاح فاطمہ سے کرناجائزہے۔  

وأما بنت زوجة أبیہ أو ابنہ فحلال(الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 4/ 105،ط: زکریا،دیوبند، فصل فی المحرمات)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1856/43-1761

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شرعی اصطلاح میں قبضہ کا مفہوم یہ ہے کہ مبیع اور مشتری کے مابین ایسے طور پر تخلیہ کردیا جائے کہ مشتری کو مبیع پر قبضہ کرنے میں بائع کی طرف سے کوئی مانع اوررکاوٹ نہ رہے، قبضہ کے لئے صرف زبانی نفع و نقصان کا ذمہ دار ہوجانا کافی نہیں ہے۔ مختلف چیزوں کا قبضہ ان کے حسب حال ہوتا ہے۔ قبضہ کی قدرت اور موقعہ دیدینا بھی قبضہ ہی کےقائم مقام ہے ۔

انٹرنیٹ کے ذریعہ ہونے والی تجارت میں قبضہ کا مطلب یہ ہے کہ مبیع کی تمام اوصاف ،مقدار وغیرہ بیان کردی جائے اور پھر مبیع کو آپ کے کہنے پر آپ کے نمائندہ  یا کسی ٹرانسپورٹ کمپنی کی تحویل میں دیدیا  جائے۔ تو اب جبکہ اس سامان کا ضمان  اور فائدہ آپ کی طرف منتقل ہوگیا تو آپ کا قبضہ تام ہوگیا۔ لیکن اگر کسی نے مذکورہ طریقہ پر قبضہ سے  قبل ہی کوئی سامان بیچ دیا تو یہ بیع فاسد ہوگی۔

التسلیم والقبض عندنا هو التخلیة والتخلی وهو أن یخلي البائع بین المبیع والمشتري برفع الحائل بینهما علی وجه یتمکن المشتری من التصرف فیه فیجعل البائع مسلماً للمبیع والمشتری قابضاً له وکذا تسلیم الثمن من المشتري إلی البائع. (بدائع الصنائع 5/244) قال في الدر ثم التسلیم یکون بالتخلیة علی وجهٍ یتمکن من القبض بلا مانع ولا حائل (شامي مع الدر، ج2، ص568) وَفِي الاِصْطِلاَحِ: هُوَ حِيَازَةُ الشَّيْءِ وَالتَّمَكُّنُ مِنْهُ، سَوَاءٌ أَكَانَ مِمَّا يُمْكِنُ تَنَاوُلُهُ بِالْيَدِ أَمْ لَمْ يُمْكِنْ (الموسوعة الفقهية الكويتية) معنی القبض هو التمکین والتخلي وارتفاع الموانع عرفاً وعادۃ حقیقة. (بدائع الصنائع 5/244) والتمکن من القبض کالقبض (شامي، ج2، ص568)  أنه من شروط التخلیة التمکن من القبض بلا حائل ولا مانع (شامی 4/516)

ولا یشترط القبض بالبراجم؛ لأن معنی القبض ہو التمکن والتخلّي وارتفاع الموانع عرفًا وعادةً حقیقةً (بدائع: ۴/۳۴۲، ط: زکریا) وفي رد المحتار: اشتری بقرة مریضة وخلاہا في منزل البائع قائلاً إن ہلکت فمني، وماتت فمن البائع لعدم القبض (درمختار مع الشامي: ۷/۸۹، زکریا) وفي الہندیة: إذا قال المشتری للبائع ابعث إلی ابنی واستأجر البائع رجلا یحملہ إلی ابنہ فہذا لیس بقبض والأجر علی البائع إلا أن یقول استأجر علی من یحملہ فقبض الأجیر یکون قبض المشتری إن صدقہ أنہ استأجر ودفع إلیہ وإن أنکر استئجارہ والدفع إلیہ فالقول قولہ کذا فی التتارخانیة․ (الہندیة: ۳/۱۹، ط: زکریا)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1954/44-1877

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  دوران حمل اگر خون جاری ہوجائے تو وہ یقینی طور پر بیماری کا خون ہے جس کو استحاضہ کہاجاتاہے، ایسی حالت میں عورت وضو کرکے نماز پڑھے گی۔ دوران حمل رحم کا منھ بند ہوتاہے، اس لئے  رحم سے خون نہیں آسکتاہے، اس لئے جوخون نظر آرہاہے وہ حیض یا نفاس نہیں ہے۔

(والناقص) عن أقلہ (والزائد) علی أکثرہ أو أکثرالنفاس أوعلی العادة وجاوز أکثرہما. (وما تراہ) صغیرة دون تسع علی المعتمد وآیسة علی ظاہر المذہب (حامل) ولو قبل خروج أکثر الولد (استحاضة.)(الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 1/ ط:زکریا، دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جو مسلمان ایسا عقیدہ رکھتے ہیں اور پھر اس کے لئے مذکورہ عمل کرتے ہیں وہ فاسق و فاجر ہیں کافر و مرتد ان کو نہ کہا جائے؛ کیونکہ فقہاء نے تکفیر کرنے میں احتیاط کرنے کو فرمایا ہے؛ لیکن تجدید نکاح کرلینا ان کے لئے بہتر ہے۔ جب تک وہ ان رسوم شرکیہ سے توبہ نہ کرے اس سے تعلقات ختم کردیئے جائیں۔(۱)

(۱) ما کان في کونہ کفرا اختلافٌ فإن قائلہ یؤمر بتجدید النکاح و بالتوبۃ والرجوع عن ذلک بطریق الاحتیاط، وما کان خطأ من الألفاظ ولا یوجب الکفر، فقائلہ مؤمنٌ علی حالہ، ولا یؤمر بتجدید النکاح والرجوع عن ذلک، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)

إن ما یکون کفراً اتفاقاً یبطل العمل والنکاح، وما فیہ خلاف یؤمر بالاستغفار والتوبۃ و تجدید النکاح، وظاہرہ أنہ أمر احتیاطي۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: الإسلام یکون بالفعل کالصلاۃ بجماعۃ‘‘: ج ۶، ص: ۳۶۷)

وإذا وصف اللّٰہ تعالیٰ بہا فہي نفي العجز عنہ ومحال أن یوصف غیر اللّٰہ بالقدرۃ المطلقۃ۔ (أبو القاسم الحسین بن محمد، المفردات في غریب القرآن، ’’قدر‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۵)

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند