Frequently Asked Questions
نکاح و شادی
Ref. No. 1748/43-1488
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس سلسلہ میں بنیادی بات یاد رکھیں کہ نکاح درست ہونے کے لئے ضروری ہے کہ لڑکی یا اس کا وکیل مجلس نکاح میں موجود ہو، اور وہ ایجاب کرے اور لڑکا قبول کرے اور دو گواہ نکاح کے ایجاب و قبول کو سنیں اور یہ سب مجلس نکاح میں موجود ہوں؛ اگر ان چاروں میں سے کوئی ایک بھی مجلس نکاح سے غائب ہوگا یا آن لائن ہوگا تو اس کا عتبار نہیں ہوگا، اور نکاح درست نہیں ہوگا۔
آپ کے سوال میں پوری صورت حال واضح نہیں ہورہی ہے اس لئے اگر چاہیں تو دوبارہ وضاحت کے ساتھ لکھ کر سوال کریں۔ بہرحال نکاح کے لئے بنیادی بات ذکرکردی گئی ہے۔
ومن شرائط الإیجاب والقبول اتحاد المجلس لو حاضرین الخ۔ (الدر المختار 4/76 زکریا)
وشرط حضور شاہدین حرین، أو حر وحرتین مکلفین سامعین قولہما معاً۔ (الدر المختار 4/91-87 زکریا)
ومنہا أن یکون الإیجاب والقبول في مجلس واحد حتی لو اختلف المجلس بأن کانا حاضرین فأوجب أحدہما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل یوجب اختلاف المجلس لا ینعقد، وکذا إذا کان أحدہما غائبًا لم ینعقد۔ (الفتاویٰ الہندیۃ 1/269زکریا)
ومنہا سماع الشاہدین کلامہما معًا، ہٰکذا في فتح القدیر … ولو سمعا کلام أحدہما دون الآخر أو سمع أحدہما کلام أحدہما والآخر کلام الآخر لا یجوز النکاح، ہٰکذا في البدائع۔
(الفتاویٰ الہندیۃ 1؍268زکریا، بدائع الصنائع، کتاب النکاح / عدالۃ الشاہدین 2؍527 زکریا)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1854
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ جنت و جہنم کی تخلیق ہوچکی ہے۔ قرآن کریم اور احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 1950/44-1855
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شہر میں کسی ایک جگہ بھی عید الاضحی کی نماز ہوگئی تو قربانی کی جاسکتی ہے۔ محل قربانی کا اعتبار کیاجائے گا۔ جو قربانی دیہات میں ہو اس میں نماز عید کا ہوجانا شرط نہیں ہے، اس لئے نماز عید سے پہلے بھی قربانی کی جاسکتی ہے، پھراگرکوئی شخص قربانی کا گوشت شہر میں لائے تو حرج نہیں ہے۔ اس لئے صورت مسئولہ میں آپ سب کی قربانی درست ہوگئی۔
وأول وقتها) (بعد الصلاة إن ذبح في مصر) أي بعد أسبق صلاة عيد، ولو قبل الخطبة لكن بعدها أحب وبعد مضي وقتها لو لم يصلوا لعذر، ويجوز في الغد وبعده قبل الصلاة لأن الصلاة في الغد تقع قضاء لا أداء زيلعي وغيره (وبعد طلوع فجر يوم النحر إن ذبح في غيره).
(قوله: إن ذبح في غيره) أي غير المصر شامل لأهل البوادي، وقد قال قاضي خان: فأما أهل السواد والقرى والرباطات عندنا يجوز لهم التضحية بعد طلوع الفجر، وأما أهل البوادي لايضحون إلا بعد صلاة أقرب الأئمة إليهم اهـ وعزاه القهستاني إلى النظم وغيره وذكر في الشرنبلالية أنه مخالف لما في التبيين ولإطلاق شيخ الإسلام". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 318)، كتاب الأضحية, ط: سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایصال ثواب اور صدقہ کرنے کے لئے، وقت، تاریخ اور طریقہ اپنی طرف سے متعین کرنا بدعت ہے اس لئے یہ طریقہ بھی بدعت وناجائز ہے۔(۱)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
وہو أیضاً: بدعۃ لم یرد فیہ شیء بہ علی أن الناس إنما یفعلون ذلک تعظیماً لہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فالعوام معذورون لذلک بخلاف الخواص۔ (أحمد بن محمد، الفتاوی الحدیثیۃ: ج ۱، ص: ۵۸)
واعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام۔ (ابن عابدین، الدر المختارمع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم ومالا یفسدہ، مطلب في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص345
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 2474/45-3746
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
The world we live in is a house of material resources; we all are forced to take help from one another, without one another's help the system of this world cannot run, obviously this kind of help seeking will not be called Shirk. However, the help that is specific to Allah, i.e. asking someone for help in matters that do not come under worldly causes, considering someone to be omnipotent and supreme, is special attribute of Allah. Regarding the matters of the hereafter or the issues of this world which are only in the control of Allah, if a person considers an angel, a prophet, a saint or a human being as omnipotent and sovereign as Allah Almighty, and asks the same for help in needs then it is considered shirk.
قال اللہ تعالی: وَلَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنْفَعُکَ وَلَا یَضُرُّکَ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّکَ اِذًا مِنَ الظَّالِمِیْنَ․ (سورہٴ یونس آیت: ۱۰۶)، لَہُ دَعْوَةُ الْحَقِّ وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہِ (سورہٴ رعد آیت: ۱۴)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2643/45-4016
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قنوت نازلہ پڑھ سکتے ہیں بلکہ ان حالات میں پڑھنا چاہئے۔
دعائے قنوت یہ ہے : اللّٰہمَّ اھْدِنَا فِیْ مَنْ ھَدَیْتَ، وَعَافِنَا فِیْ مَنْ عَافَیْتَ، وَتَوَلَّنَا فِیْ مَنْ تَوَلَّیَتَ، وَبَارِکْ لَنَا فِیْ مَا أَعْطَیْتَ، وَقِنَا شَرَّ مَا قَضَیْتَ، فَاِنَّکَ تَقْضِیْ وَلَا یُقْضیٰ عَلَیْکَ، اِنَّہ لَا یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ، وَ لَا یَذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ، تَبَارَکْتَ رَبَّنا وَتَعالَیْتَ۔ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلَنَا وَلِلْمُوْمِنِیْنَ وَلِلْمُومِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ، وَ أَصْلِحْھُمْوَ أَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِہِمْ، وَ أَلِّفْ بَیْنَ قُلُوبِھِمْ وَاجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الْاِیْمَانَ وَالْحِکْمَةََ، وَثَبِّتْھُمْ عَلیٰ مِلَّةِ رَسُوْلِکَ، وَاَوْزِعْھُمْ أَنْ یَشْکُرُوا نِعْمَتَکَ الَّتِیْ أَنْعَمتَ عَلَیْھِمْ، وَأَنْ یُوْفُوْا بِعَھْدِکَ الَّذِیْ عَاھَدتَّھُمْ عَلَیْہِ، وَانْصُرْھُمْ عَلَی عَدُوِّکَ وَعَدُوِّھِمْ، اِلٰہَ الْحَقِّ، سُبْحَانَکَ، لَا اِلٰہَ غَیْرُکَ۔ اَللّٰھُمَّ انْصُرْ عَسَاکِرَ الْمُسْلِمِینَ، وَالْعَنِ الْکَفَرَةَ وَالْمُشْرِکِیْنَ، الَّذِیْنَ یُکَذِّبُوْنَ رُسُلَکَ، وَیُقَاتِلُوْنَ أَوْلِیَائَکَ۔ اَللّٰھُمَّ خَالِفْ بَیَنَ کَلِمَتِھِمْ، وَفَرِّقْ جَمْعَھُمْ، وَشَتِّتْ شَمْلَھُمْ، وَزَلْزِلْ أَقْدَامَھِمْ، وَاَلْقِ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الرُّعْبَ، وَخُذْھُمْ أَخْذَ عَزِیْزٍ مُّقْتَدِرٍ، وَأَنْزِلْ بِھِمْ بَأْسَکَ الَّذیْ لَا تَرُدُّہ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ۔
و عن سالم عن أبیہ أنہ سمع رسول الله صلی الله علیہ وسلم إذا رفع رأسہ من الرکوع من الرکعة الآخرة من الفجر یقول: ”اللہم العن فلانا وفلانا وفلانا“ بعد ما یقول: سمع الله لمن حمدہ ربنا ولک الحمد، کان رسول الله صلی الله علیہ وسلم یدعو علی صفوان بن أمیة، وسہیل بن عمرو، والحارث بن ہشام۔ (بخاری شریف، کتاب المغازی، باب قولہ ثم انزل علیکم من بعد الغم الآیة، النسخة الہندیة /۲ ۵۸۲، رقم: ۳۹۲۲، ف: ۴۰۶۹)إن نبی الله صلی الله علیہ وسلم قنت شہرا فی صلاة الصبح یدعو علی أحیاء من أحیاء العرب علی رعل وذکوان وعصیة، وبنی لحیان، … أولئک السبعین من الأنصار قتلوا ببئر معونة۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب غزوة الرجیع، ورعل وذکوان، النسخة الہندیة /۲ ۵۸۶، رقم: ۳۹۴۳) ان قنوت النازلة عندنا مختص بصلاة الفجر دون غیرھا من الصلوات الجھریة أو السریة (رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ۲: ۴۴۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)وأنہ یقنت بعد الرکوع لا قبلہ، بدلیل أن ما استدل بہ الشافعی علی قنوت الفجر، وفیہ تصریح بالقنوت بعد الرکوع، حملہ علماونا علی القنوت للنازلة، ثم رأیت الشرنبلالی فی مراقی الفلاح صرح بأنہ بعدہ؛ واستظھر الحموی أنہ قبلہ، والأظھر ما قلناہ، واللّٰہ أعلم (حاشیة ابن عابدین، کتاب الصلاة ، مطلب: فی القنوت للنازلة: 2/542، دار المعرفة، بیروت)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو وغسل اور کپڑوں وغیرہ کو پاک کرنے کے لیے پانی کا پاک ہونا ضروری ہے، بڑے تالاب میں جو رکا ہوا پانی ہوتا ہے وہ فی نفسہ پاک ہے، اس کے اندر زندہ مچھلیاں رہنے سے وہ ناپاک نہیں ہوتا اسی طرح اگر اس میں کچھ مچھلیاں مر جائیں، تو بھی وہ پانی پاک ہی رہتا ہے، اس لئے کہ وہ حیوان جس کا مردار حلال ہے جیسے مچھلی وہ موت وحیات دونوں حالتوں میں پاک ہے، مچھلیوں میں حقیقت میں خون نہیں ہوتا وہ پانی ہی میں پیدا ہوتی اور اسی میں مرتی رہتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: ’’ہو الطہور مائہ الحل میتتہ‘‘(۱)
مچھلی پالن کرنے والے لوگ مچھلیوں کو کھلانے کے لیے مرے ہوئے جانور بیل، بھینس یا دیگر گلی سڑی ناپاک چیزیں تالاب میں ڈالتے ہیں، اگر ایسی ناپاک چیزیں تالاب میں ڈالی گئی ہوں، تو پھر دو صورتیں ہیں، اگر تالاب دہ در دہ سے کم ہے، تو نجاست کے گرنے ہی سے ناپاک ہو جائے گا اور اگر بڑا تالاب ہے اور نجاست کی وجہ سے پانی کے اوصاف ثلاثہ رنگ، بو اور ذائقہ میں سے کوئی وصف بدل گیا تو وہ تالاب ناپاک کہلائے گا اور اس سے وضو وغسل اسی طرح کپڑے پاک کرنا درست نہیں ہوگا۔
’’الماء إذا وقعت فیہ نجاسۃ فإن تغیر وصفہ لم یجز الانتفاع بہ بحال‘‘ (۱)
’’إن تغیرت أوصافہ لا ینتفع بہ من کل وجہ کالبول‘‘ (۲)
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الطہارۃ: باب ما جاء في ماء البحر أنہ طہور‘‘: ج ۱، ص: ۲۱، رقم: ۶۹۔(کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ، مسئلۃ البئر جحط‘‘: ج ۱، ص: ۳۵۳۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الثالث في المیاہ، الفصل الثاني فیما لا یجوز بہ التوضئ، ومما یتصل بذلک مسائل‘‘: ج ۱، ص: ۷۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص70
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:امام ابو حنیفہ وامام محمد رحمہم اللہ کے قول کے مطابق اس صورت میں غسل واجب ہے، اور اسی میں احتیاط ہے(۲) ’’وإن رأی بللا إلا أنہ لم یتذکر الاحتلام فإن تیقن أنہ ودي لا یجب الغسل، وإن تیقن أنہ مني یجب الغسل، و إن تیقن أنہ مذي لا یجب الغسل، و إن شک أنہ مني أو مذي قال أبو یوسف رحمہ اللّٰہ: لا یجب الغسل حتی یتقین بالاحتلام، وقالا یجب ہکذا ذکرہ شیخ الإسلام‘‘(۱)
(۲) إذا استیقظ فوجد علی فخذہ أو علی فراشہ بللا علی صورۃ المذي ولم یتذکر الإحتلام فعلیہ الغسل في قول أبي حنیفۃ و محمد، و عند أبي یوسف لایجب، و أجمعوا أنہ لو کان منیا أن علیہ الغسل۔ (الکاسانی، بدائع الصنائع،’’کتاب الطہارۃ، أحکام الغسل،‘‘ ج۱، ص:۱۴۸)؛ واستیقظ فوجد بفخذہ و ثوبہ بللا ولم یذکر الاحتلام فإن تیقن أنہ مذي أو ودي لا غسل۔۔۔۔ و إن شک أنہ مني أو مذي یجب عندھما خلافا لہ۔ (بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ،’’کتاب الطہارات، فصل في الغسل، إنزال المني من موجبات الغسل،‘‘ ج۱، ص:۳۳۱مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
(۱)جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ ’’کتاب الطہارۃ، الباب الثانی في الغسل، الفصل الثالث في المعانی،‘‘ج۱، ص: ۶۶
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص289
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: عورتوں کے لیے حیض اور نفاس کے ایام میں اپنے خاص مقام پر کوئی ایسی چیز رکھنا ثابت شدہ ہے جو کپڑوں کو ملوث ہونے سے بچائے رکھے، اب یہ کپڑا ہو روئی ہو یا موجودہ دور میں خاص اسی مقصد سے بنائے گئے پیڈ ہوں، سب کا استعمال شرعاً جائز اور درست ہے۔
’’وضع الکرسف مستحب للبکر فی الحیض وللثیب فی کل حال وموضعہ موضع البکارۃ ویکرہ في الفرج الداخل الخ، وفي غیرہ أنہ سنۃ للثیب حالۃ الحیض مستحبۃ حالۃ الطہر ولو صلتا بغیر کرسف جاز‘‘(۱)
’’عن أم سعد امرأۃ زید بن ثابت قالت: سمعت رسول اللّٰہ یأمر بدفن الدم إذا احتجم۔ رواہ الطبراني في الأوسط‘‘(۲)
’’قال العلامۃ الحصکفیؒ: کل عضو لا یجوز النظر إلیہ قبل الانفصال لا یجوز بعدہ کشعر عانتہ وشعر رأسھا وعظم ذراع حرّۃ میتۃ وساقھا وقلامۃ ظفر رجلھا دون یدھا وان النظر الٰی ملاء ۃ الاجنبیۃ بشھوۃ حرام‘‘(۳)
اسلام نے طہارت وپاکی پر بڑا زور دیا ہے اس میں ظاہری طہارت بھی شامل ہے اور باطنی طہارت بھی، ظاہری طہارت سے دہن کی صفائی، بدن کی صفائی، لباس کی صفائی اور حال وماحول کی صفائی وغیرہ جیسے امور مراد ہیں، انسان فطری طور پر پاکی وصفائی کو پسند کرتا ہے ظاہری نظافت وپاکیزگی خود انسان کے لیے جہاں فرحت بخش ہوتی ہے وہیں اس میں دوسروں کی رعایت بھی ہے فرد کی نظافت وطہارت کے حکم میں فرد کے ساتھ سماج میں رہنے والے دوسرے لوگوں کی کس قدر رعایت ملحوظ ہے اس تعلق سے بھی مزاج شریعت کو ملحوظ رکھنا چاہئے، طہارت ونفاست ایک تہذیب یافتہ اور مثقف قوم کا امتیاز ہے، ایک انسان جس کا دہن پاک نہ ہو، بدن صاف ستھرا نہ ہو، لباس میلا کچیلا ہو نظافت پسند طبیعتیں اس کو نا پسند کرتی ہیں، ان تمام کی پاکی ونظافت کے ساتھ رہن سہن پاک صاف ہو، مکانات کی صفائی کے ساتھ گلی کوچوں اور محلوں کو بالخصوص مسلم آبادیوں کو طہارت وپاکی صفائی ونظافت کا مظہر ہونا چاہئے، عفونت وگندگی ہر اعتبار سے ناپسندیدہ ہے، خواہ وہ کہیں ہو لباس وبدن میں ہو، رہائش گاہوں میں، گلی کوچوں میں ہو یا بستیوں میں یہی وجہ ہے کہ اسلام نے طہارت ونظافت کے خصوصی احکام دئیے ہیں، کتب حدیث وفقہ میں طہارت کا ایک مستقل باب قائم ہے اس میں وہ سارے مسائل زیر بحث لائے جاتے ہیں جن کا خاص طہارت وپاکی سے تعلق ہوتا ہے فرد کی نظافت بھی اسلام میں مطلوب ہے اور اجتماعی اعتبار سے بھی پاکی اور نظافت کی بڑی اہمیت ہے، طہارت ونظافت کو اسلام نے اس قدر اہمیت دی ہے کہ اس کو نصف ایمان قرار دیا ہے، جیسا کہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے: ’’الطہور شطر الإیمان‘‘(۱)
خلاصۂ کلام:
حیض کو جذب کرنے کے لیے استعمال شدہ کپڑے، سینیٹری پیڈ، کرسف وغیرہ کو کھلے عام پھینکنا درست نہیں، تہذیب اور حیا کا تقاضا ہے کہ اس طرح کی چیزوں کو چھپاکر ایسی جگہوں پر پھینکا جائے جہاں عام لوگوں کی نگاہ نہ پڑے؛ اس لیے صورتِ مسئولہ میں بہتر یہی ہے کہ خواتین اپنے غیر ضروری کاٹے ہوئے بال، حیض کے کپڑے، ٹشو وغیرہ کسی مناسب جگہ میں ضائع کردیں، آج کل بلدیہ کی جانب سے نجاست وغلاظت ڈالنے کے لیے جگہ جگہ مناسب نظم ہوتا ہے بہتر ہے کہ اس میں ڈال دیا جائے، اگر یہ عمل مشکل ہو، تو اس پہلو کی رعایت کے ساتھ ضائع کرنا چاہئے؛ البتہ ایسی جگہ پھینکناجو گندگی یا بیماری یا بے حیائی پھلانے کا سبب ہو، مکروہ ہے۔
’’یدفن أربعۃ: الظفر، والشعر، وخرقۃ الحیض والدم‘‘ (۲)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
’’فإذا قلم أظفارہ أو جز شعرہ ینبغي أن یدفن ذلک الظفر والشعر المجزوز فإن رمی بہ فلا بأس وإن ألقاہ في الکنیف أو في المغتسل یکرہ ذلک لأن ذلک یورث داء کذا في فتاویٰ قاضي خان۔ یدفن أربعۃ الظفر والشعر وخرقۃ الحیض والدم کذا في الفتاویٰ العتابیۃ‘‘(۱)
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ: باب الحیض‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۳۔
(۲) نور الدین الہیثمي، مجمع الزوائد، ’’باب دفن الدم‘‘: ج ۵، ص: ۱۵۸، رقم: ۸۳۴۱۔(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
(۳) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الکراہیۃ: فصل في النظر، مطلب في سترۃ العورۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۸۔
(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب فضل الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۸، رقم: ۲۲۳۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب التاسع عشر في الختان والخصاء وقلم الأظفار الخ‘‘: ج ۵، ص: ۴۱۲۔
(۱)أیضًا:
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص391
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: مذکورہ امام قابل امامت نہیں ہے اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے اس کے پیچھے نماز بکراہت تحریمی ادا ہوتی ہے۔(۱)
متولی کو چاہئے کہ اس کو الگ کردے ورنہ محلہ کے ذمہ دار جو جماعت کے پابند ہوں اس کو الگ کردیں۔(۲)
(۱) ویکرہ إمامۃ عبد … وفاسق، وفي الشامیۃ قولہ وفاسق من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر، وفي المعراج قال أصحابنا: لاینبغی أن یقتدی بالفاسق الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص:۲۹۷)
قولہ: وفاسق من الفسق: وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر، والزاني وآکل الربا ونحو ذلک، وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لایہتم لأمر دینہ، وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ، وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً۔ (أیضًا:)
(۲)ویکرہ تقدیم العبد … والفاسق لأنہ لایہتم لأمر دینہ وإن تقدموا جاز لقولہ علیہ السلام: صلوا خلف کل برو فاجر الخ۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلوٰۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۲۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص172