Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا للّٰہ التوفیق: اگر امام کا یہ معمول ہے اور اس سے دریافت کرنے پر یہی جواب دیتا ہے (جو سوال میں مذکور ہے)، تو اس کا یہ جواب بالکل غلط ہے؛اس لیے کہ نماز کسی صورت میں معاف نہیں، اگر کھڑے ہوکر نہ پڑھ سکے، تو بیٹھ کر، اگر بیٹھ کر نہ پڑھ سکے، تو لیٹ کر اگر یہ بھی نہ ہو سکے، تو اشارے سے پڑھے، ہاں غشی وجنون کی حالت میں نماز معاف ہے،اگر امام صاحب کا یہی معمول ہے، تو وہ فاسق ہے اور فاسق کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے۔
’’قال في الدر المختار یکرہ إمامۃ عبد وفاسق۔ وقال في رد المحتار تحت قولہ وفاسق وقال في شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴۔
کرہ إمامۃ العبد والأعربي والفاسق والمبتدع والأعمی و ولد الزنا، فالحاصل أنہ یکرہ الخ، قال الرملي: ذکر الحلبي في شرح منیۃ المصلي أن کراہۃ تقدیم الفاسق والمبتدع کراہۃ التحریم، (ابن نجیم، البحرالرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق، ج۱، ص: ۶۱۰)
ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق وأعمیٰ ومبتدع أي صاحب بدعۃ وفي النہر عن المحیط: صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولٰی من الإنفراد لکن لاینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص261
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: سلام پھیر کر شریک جماعت ہوجائے۔ بعد میں ان کی قضاء کر لے؛ کیوں کہ شروع کرنے سے یہ واجب ہوگئیں، یا پھر دو رکعت مکمل کر کے سلام پھیر دے۔(۱)
البتہ فجر کی سنتوں کی چوں کہ خصوصی تاکید آئی ہے اس لیے متعدد صحابہ کرام ؓنے فجر کی اقامت ہونے کے بعد بھی سنت فجر کو اداء فرمایا ہے۔(۲)
(۱) عن أبي ہریرۃ -رضي اللّٰہ عنہ- عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إذا أقیمت الصلاۃ فلا صلاۃ إلا المکتوبۃ۔ (أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب إذا أقیمت الصلاۃ فلا صلاۃ إلا المکتوبۃ‘‘: ج ۱، ص: ۹۶، رقم: ۴۲۱)
(۲) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہ، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رکعتا الفجر خیر من الدنیا وما فیہا۔ (أبوجعفر الطحاوي في شرح مشکل الآثار: ج ۱، ص: ۳۲۰، ۳۲۱)۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص374
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱) سمت قبلہ کی تعیین اور تعمیر مساجد کے سلسلے میں صحابہؓ و تابعین سے لے کر آج تک طریقہ یہ ہے کہ جس شہر میں پرانی مسجدیں مسلمانوں کی تعمیر کردہ موجود ہوں انھیں کے مطابق نئی مساجد تعمیر کرلی جائیں، ایسی جگہوں میں آلات رصدیہ اور قواعد ریاضیہ کی باریکیوں میں پڑنا خلاف سنت اور نامناسب ہے؛ اس لیے آپ اپنے آس پاس کی پرانی مسجدوں کے مطابق اپنی مسجد کا قبلہ طے کرلیں۔ آلات جدیدہ پر کلی اعتماد نہ کریں کمپاس یا قبلہ نما کی تعیین کاکلی اعتبار نہیں ہے، ہاں اس سے آپ مدد لے سکتے ہیں فیصلہ نہیں کرسکتے ہیں۔
(۲) اگر عین قبلہ سے پینتالیس ڈگری سے کم انحراف ہو، تو نماز ہوجاتی ہے؛ لیکن جان بوجھ کر انحراف رکھنا درست نہیںہے۔
(۳) اگر واقعی مسجد جہت قبلہ سے منحرف ہے، تو مسجد کو از سر نو توڑ پھوڑ کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ البتہ صفیںاس طرح لگادی جائیں کہ تمام صفوں کا رخ جہت قبلہ کی طرف ہوجائے۔
(۴) جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ قدیم ترین مسجد کو معیار بنایا جائے، لیکن اس کی کوئی حتمی تعیین نہیں کی جاسکتی ہے، بلکہ شہر میں جو سب سے قدیم مسجد ہو اس کو معیار بنالیا جائے۔
’’فللمکي إصابۃ عینہا ولغیرہ أي: غیر معاینہا إصابۃ جہتہا بأن یبقي شيء من سطح الوجہ مسامتا للکعبۃ أو لہوائہا، بأن یفرض من تلقاء وجہ مستقبلہا حقیقۃ في بعض البلاد الخ قال الشامي: فیعلم منہ أنہ لو انحرف عن العین انحرافاً لاتزول منہ المقابلۃ بالکلیۃ جاز، ویؤیدہ ما قال في الظہیریۃ: إذا تیامن أو تیاسر تجوز؛ لأن وجہ الإنسان مقوس، لأن عند التیامن أو التیاسر یکون أحد جوانبہ إلی القبلۃ‘‘ (۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، بحث في استقبال القبلۃ:ج ۲، ص: ۱۰۹، مکتبہ: زکریا دیوبند۔
اتفقوا علی أن القبلۃ في حق من کان بمکۃ عین الکعبۃ، فیلزمہ التوجہ إلی عینہا، کذا في فتاویٰ قاضي خان … ومن کان خارجاً عن مکۃ فقبلتہ جہۃ الکعبۃ، وہو قول عامۃ المشائخ، ہو الصحیح ہکذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث، في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث: في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۰، مکتبہ زکریا، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص272
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں ثنا پڑھنا سنت غیر مؤکدہ ہے اور سنت غیر مؤکدہ کو لفظ مستحب سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے، لہٰذا ان صاحب کے مستحب کہنے میں مضائقہ نہیں ہے۔(۲)
(۲) وأما سننہا فکثیرۃ إلی أن قال ثم یقول: سبحانک اللہم وبحمدک وتبارک اسمک وتعالیٰ جدک ولا إلہ غیرک سواء کا إماماً أو مقتدیا أو منفرداً۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في سننہا‘‘: ج ۱، ص: ۷۱، ۴۶۴، زکریا دیوبند)
وسننہا رفع الیدین للتحریمۃ ونشر أصابعہ وجہر الإمام بالتکبیر والثناء التعوذ التسمیۃ الخ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث في سنن الصلاۃ وآدابہا وکیفیتہما‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۰، زکریا دیوبند)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 417
متفرقات
Ref. No. 2818/45-4422
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اصولی طور پر تنہائی میں آہستہ آواز سے ذکر کرنا بہتر ہے۔ لیکن اجتماعی طور پر جہرا ذکرکرنا شرعا جائزہے۔ اوراس سلسلہ میں حدیث قدسی سے ثبوت ملتاہے۔
عن أبي ھریرہ رضى اللہ عنہ قال قال النبي ﷺ يقول الله تعالى أنا عند ظن عبدي بي وأنا معه إذا ذکرنی فان ذکرنی في نفسه ذكرتہ فی نفسي وإن ذكرني في ملاء ذكرته في ملاء خير منهم (صحیح بخاری 9/121) (صحیح مسلم 4/2061)
اس لئے اگر کوئی متبع شریعت، شیخ کامل اپنے مریدوں کی اصلاح و تربیت کیلئے کسی ایسی جگہ ذکرکی مجلس منعقد کرے جہاں دوسرے عبادت کرنے والوں کی عبادت میں خلل نہ پڑے اور اسے لازم نہ سمجھا جائے تو اسکی اجازت ہے ۔ حضرت مولانا حکیم اخترصاحب نوراللہ مرقدہ یا ان کے خلفاء کی جانب سے ذکر کی مجالس کا انعقاد درست ہے۔ اور ان کے خلفاء سے اصلاحی تعلق قائم کرنا بھی درست ہے۔ صوفیاء کرام کا مقصد یہ ہے ذکر اللہ سے اللہ تبارک وتعالی کی یاد تازہ ہوتی ہے اور تعلق و محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔
عن ابی ھر یرۃ قال قال النبي ﷺ يقول الله تعالى أنا عند ظن عبدي بي وأنا معه إذا ذکرنی فان ذکرنی في نفسه ذكرتہ فی نفسي وإن ذكرني في ملاء ذكرته في ملاء خير منهم وإن تقرب إلى بشبر تقربت إليه ذراعا وإن تقرب إلى ذراعاً تقربت إليه باعا وإن أتاني يمشي أتيته هرولة – (متفق عليه) اخرجه البخاري في الصحيح، کتاب التوحید ، باب قول اللہ و يحذركم اللہ نفسہ 6/2694)
( قوله ورفع صوت بذكر ) أقول : اضطرب كلام صاحب البزازية في ذلك فتارة قال إنہ حرام وتارة قال إنه جائز و فى الفتاوى الخيرية من الكراهة والإستحسان جاء في الحديث به اقتضى طلب الجهر به نحوه وإن ذكرنى فى ملاء ذكرته فى ملاء خير منهم - رواه الشيخان .... فقال بعض أهل العلم إن الجھر أفضل لأنه أكثر عملا ولتعدى فائدته إلى السامعين و يوقظ قلب الذاكر فيجمع همه إلى الفکر وبصرف سمعہ إليه ويطرد النوم ويزيد النشاط . (الدر المختار مع رد المحتار 1/660)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
روزہ و رمضان
Ref. No. 39/1051
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جان بوجھ کر کھانے، پینے، اور جماع کرنے سے روزۃ ٹوٹ جاتا ہے اورقضا و کفارہ دونوں لازم ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر(۱) قصداً منہ بھر قے کرے، (۲) کلی کرتے ہوئے حلق میں پانی چلا جائے، (۳) عورت کو چھونے وغیرہ سے انزال ہوجائے، (۴) کوئی ایسی چیز نگل لے جو عادةً کھائی نہیں جاتی ، جیسے لکڑی، لوہا، کچا گیہوں کا دانہ وغیرہ، (۵) بیڑی، سگریٹ، حقہ پئے ، (۶) بھول کر کھانے کے بعد روزہ فاسد سمجھ کر قصداً کھالے یا پی لے، (۷) رات سمجھ کر صبح صادق کے بعد سحری کھالے، (۸) دن باقی رہتے ہوئے آفتاب غروب سمجھ کر روزہ افطار کرلے، تو ان تمام صورتوں میں صرف قضا لازم ہے کفارہ نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Fasting & Ramazan
Ref. No. 914/41-39
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
If a woman fasted in the month of shawwal to makes up her missed fast days of Ramazan (obligatory fasts) with the intention of Qaza, she has fulfilled her religious obligation and also obtained the reward of fasting 6 days of shawwal. But the woman must intend only to make up what she has missed from Ramadan.
Nevertheless, if she is in a good health, it better to fast the 6 days of Shawwal (Voluntary fast) separately.
أَقُولُ فِي فَتْحِ الْقَدِيرِ صَامَ فِي يَوْمِ عَرَفَةَ مِثْلَ قَضَاءٍ أَوْ نَذْرٍ أَوْ كَفَّارَةٍ وَنَوَى مَعَهُ الصَّوْمَ عَنْ يَوْمِ عَرَفَةَ أَفْتَى بَعْضُهُمْ بِالصِّحَّةِ وَالْحُصُولِ عَنْهُمَا (انْتَهَى) (غمزعیون البصائر 1/150)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom waqf Deoband
نکاح و شادی
Ref. No. 1223/42-537
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہر فلور ایک الگ مکان ہے، اور بیوی کو رہنے کے لئے وہ مکان کافی بھی ہے اور شوہر کے گھر والوں کی اس میں کوئی مداخلت بھی نہیں ہے ، تو ایسی صورت میں بیوی کا الگ سے ایک گھر کا مطالبہ شرعا جائز نہیں ہے۔ شریعت میں رہایش کا انتظام کرنے سے یہی مراد ہے، الگ جگہ پر گھر لے کر دینا ضروری نہیں ہے۔ اپنی ازدواجی زندگی کی حفاظت کے لئے بشرط استطاعت اور مصلحت ، الگ سے مکان دینے کی گنجائش ہے تاہم والدین کی خدمت اور حسن سلوک کو ہرگز ترک نہ کرے۔
"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله وأهلها إلا أن تختار ذلك (الھندیہ / الباب السابع عشر في النفقات 1/556، ط: ماجدية)
إن أمكنه أن يجعل لها بيتا على حدة في داره ليس لها غير ذلك". (شامی / مطلب في مسكن الزوجة 3/601، ط: سعيد)
وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ وبالوالدين إحسانا (القرآن: 17/23) لا طاعة في معصية، إنما الطاعة في المعروف (صحیح البخاری 9/88 الرقم 7257)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1575/43-1111
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ماں کے دودھ کی طرح بکری اور گائے کا دودھ بھی مفید ہوسکتاہے، اس سلسلہ میں ڈاکٹر سے بات کرلی جائے، تاہم اگر کوئی دوسری صورت نہ ہو تو بدرجہ مجبوری ماں کا دودھ بقدر ضرورت کچھ دنوں تک اس طرح پلایاجاسکتاہے۔
’’وتكره ألبان الأتان للمريض وغيره، وكذلك لحومها، وكذلك التداوي بكل حرام، كذا في فتاوى قاضي خان. ... يجوز للعليل شرب الدم والبول وأكل الميتة؛ للتداوي إذا أخبره طبيب مسلم أن شفاءه فيه ولم يجد من المباح ما يقوم مقامه‘‘. (الھندیۃ 5/355)
"مطلب في التداوي بالمحرم: قوله: اختلف في التداوي بالمحرم) ففي النهاية عن الذخيرة يجوز إن علم فيه شفاء ولم يعلم دواء آخر. وفي الخانية في معنى قوله عليه الصلاة والسلام: «إن الله لم يجعل شفاءكم فيما حرم عليكم» كما رواه البخاري أن ما فيه شفاء لا بأس به كما يحل الخمر للعطشان في الضرورة، وكذا اختاره صاحب الهداية في التجنيس فقال: لو رعف فكتب الفاتحة بالدم على جبهته وأنفه جاز للاستشفاء، وبالبول أيضا إن علم فيه شفاء لا بأس به، لكن لم ينقل وهذا؛ لأن الحرمة ساقطة عند الاستشفاء كحل الخمر والميتة للعطشان والجائع. اهـ من البحر. وأفاد سيدي عبد الغني أنه لا يظهر الاختلاف في كلامهم لاتفاقهم على الجواز للضرورة، واشتراط صاحب النهاية العلم لا ينافيه اشتراط من بعده الشفاء ولذا قال والدي في شرح الدرر: إن قوله: لا للتداوي محمول على المظنون وإلا فجوازه باليقيني اتفاق كما صرح به في المصفى. اهـ.
أقول: وهو ظاهر موافق لما مر في الاستدلال، لقول الإمام: لكن قد علمت أن قول الأطباء لايحصل به العلم. والظاهر أن التجربة يحصل بها غلبة الظن دون اليقين إلا أن يريدوا بالعلم غلبة الظن وهو شائع في كلامهم تأمل (قوله: وظاهر المذهب المنع) محمول على المظنون كما علمته (قوله: لكن نقل المصنف إلخ) مفعول نقل قوله: وقيل: يرخص إلخ والاستدراك على إطلاق المنع، وإذا قيد بالمظنون فلا استدراك. ونص ما في الحاوي القدسي: إذا سال الدم من أنف إنسان ولاينقطع حتى يخشى عليه الموت وقد علم أنه لو كتب فاتحة الكتاب أو الإخلاص بذلك الدم على جبهته ينقطع فلا يرخص له فيه؛ وقيل: يرخص كما رخص في شرب الخمر للعطشان وأكل الميتة في المخمصة وهو الفتوى. اهـ (قوله: ولم يعلم دواء آخر) هذا المصرح به في عبارة النهاية كما مر وليس في عبارة الحاوي، إلا أنه يفاد من قوله كما رخص إلخ؛ لأن حل الخمر والميتة حيث لم يوجد ما يقوم مقامهما أفاده ط. قال: ونقل الحموي أن لحم الخنزير لا يجوز التداوي به وإن تعين، (شامی 1/210)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1644/43-1224
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ معاملہ کرتے وقت جب اینٹ کی صفت وغیرہ بیان کردی گئی، اور جب اینٹیں تیار ہوگئیں تو چمنی کے مالک نے آپ کے حصہ کی اینٹیں الگ کردیں، تو آپ کی چیز متعین ہوگئی ، اور یہ تعیین ہی قبضہ کے قائم مقا م ہوگی، مبیع کو بیچنے سے پہلے دیکھنا ضروری نہیں ہے۔ پھر چمنے والے نے آپ کا وکیل بن کر اینٹیں بیچ دیں، اس لئےمذکورہ معاملہ درست ہے اور پیسے آپ کے لئے حلال ہیں۔ بظاہر اس پورے معاملہ کوئی بھی چیز مفضی الی النزاع بھی نہیں ہے۔
لأن القبض في المجلس لا يشترط إلا في الصرف وهو بيع الأثمان بعضها ببعض أما ما عداه فإنما يشترط فيه التعيين دون التقابض كما يأتي (شامی، مطلب فی الابراء عن الربوا 5/172)
نظر الوكيل بالقبض كنظر الرسول في أنه لا يسقط الخيار، قيد بالوكيل بالقبض؛ لأنه لو وكل رجلا بالرؤية لا تكون رؤيته كرؤية الموكل اتفاقا كذا في الخانية إلخ ما ذكره الشارح ابن ملك، والمسألة في المتون وأطال فيها في البحر فراجعه۔ وصورة التوكيل بالقبض كن وكيلا عني بقبض ما اشتريته وما رأيته كذا في الدرر. (شامی، کتاب الوکالۃ 5/509)
قلت: لا يخفى أن الإجازة اللاحقة كالوكالة السابقة فالبيع في الحقيقة من المشتري، ولذا قال في جامع الفصولين: شراه ولم يقبضه حتى باعه البائع من آخر بأكثر فأجازه المشتري لم يجز؛ لأنه بيع ما لم يقبض. اهـ. فاعتبره بيعا من جانب المشتري قبل قبضه فافهم، وظاهره أنه يبقى على ملك المشتري بالأول، ويأتي تمامه في فصل التصرف في المبيع.(شامی، مطلب فی بیع المرھون 5/111)
وصحة القبض بأحد الأمرين إما بالتخلية كما في المنقول وغيره أو بحقيقة القبض كما في المنقول وجه قول محمد عموم النهي وهو ما روي أنه «- عليه الصلاة والسلام - نهى عما لم يقبض» وهو بعمومه يشمل المنقول والعقار جميعا ولأن بيع المنقول قبل القبض لا يجوز فكذا غير المنقول؛ لأن عدم القبض موجود فيهما جميعا ولأن المقصود من البيع الربح وربح ما لم يضمن منهي شرعا والنهي يقتضي الفساد فيكون البيع فاسدا قبل القبض كما في المنقول؛ لأنه لم يدخل في ضمانه، ولهذا لا يجوز إجارته قبل القبض اهـ (قوله ولهما أنه لا يتوهم انفساخ العقد فيه) والأصل فيه أن ما لا ينفسخ العقد فيه بالهلاك فالتصرف فيه جائز قبل القبض (تبیین الحقائق فصل بیع العقار قبل القبض 4/79)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند