Fiqh

Ref. No. 2483/45-3773

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میک اپ کی چیزوں میں یا کھانے پینے کی چیزوں میں جب تک یقین اورتحقیق کے ساتھ معلوم نہ ہو کہ اس میں حرام اور نجس چیز کی آمیزش ہے،  تو محض کسی کے کہہ دینے سے یا شک کی بنا پر اس کو ناجائز نہیں کہا جاسکتا ہے اور اس کا استعمال حرام نہیں ہوگا۔  کسی  چیز کے استعمال سے پہلے اس کے حلال یا حرام ہونے کے بارے میں عام حالات میں تحقیق  کرنا ضروری  نہیں ہے،البتہ اگرقرائن سے شک و شبہ پیداہوجائے تو احتیاط کرنا بہتر ہے۔

من شک في إنائہ، أوثوبہ، أوبدنہ أصابتہ نجاسۃ أولا فہو طاہر مالم یستیقن،وکذا مایتخذہ أہل الشرک، أوالجہلۃ من المسلمین کالسمن، والخبز، والأطعمۃ، والثیاب۔ (شامي، کتاب الطہارۃ، قبیل مطلب في أبحاث الغسل، زکریا۱/۲۸۳-۲۸۴، کراچي ۱/۱۵۱) ۔ (ایضاح المسائل ۱۴۶)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی وعصری تعلیم حاصل کرنے میں شرعاً کوئی وجہ عدم جواز کی نہیں ہے ، بلکہ ہر وہ علم جو نفع بخش ہو اور جس سے انسان کو معرفت خدا وندی حاصل ہو، اسلام اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ البتہ دینی اسلامی مدرسہ اس کو کہا جاتا ہے کہ جس میں قرآن و حدیث اور ان سے متعلق علوم پڑھائے جائیں اور یہ ہی اس کا اصل مقصد ہے اگر اس کے ساتھ عصری علوم بھی پڑھائے جائیں تو وہ ضمنی ہوں اور اتنی حد تک ہوں کہ دیکھنے والے ان کو  ضمنی ہی سمجھیں اس سلسلہ میں صائب الرائے علماء کا جو فیصلہ ہو وہی معتبر ہے۔(۱)

(۱) عن زید بن ثابت رضي اللّٰہ عنہ، قال: أمرني رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن أتعلم لہ کلمات من کتاب یہود قال: إني واللّٰہ ما آمن یہود علی کتابي، قال: فما مر بي نصف شہر حتی تعلمتہ لہ قال: فلما تعلمتہ کا إن ذا کتب إلی یہود کتبت إلیہم وإذا کتبوا إلیہ قرأت لہ کتابہم قال أبو عیسیٰ: ہذا حدیث حسنٌ صحیحٌ، وقد روي من غیر ہذا الوجہ عن زید بن ثابت۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الاستئذان، باب ما جاء في تعلیم السریانیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۰، رقم: ۲۷۱۵)
عن أم سلمۃ رضي اللّٰہ عنہا: أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقول: إذا صلی الصبح حین یسلم اللہم إني أسألک علماً نافعاً، ورزقاً طیباً، عملاً متقبلاً۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: أبواب إقامۃ الصلاۃ والسنۃ، فیہا باب ما یقال بعد التسلیم‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۸، رقم: ۹۲۵)
عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’مقدمہ، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم‘‘: ج ۱، ص: ۲۰، رقم: ۲۲۴)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص184

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:پانی سے استنجا کرنا شرعاً درست ہے؛ البتہ استنجا کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اپنے ہاتھ کو کلائی تک دھولے پھر مقعد کو خوب ڈھیلا کرکے (اگر روزہ دار نہ ہو) بائیں ہاتھ سے خوب استنجا کرے ’’أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان ’’إذا بال نتر ذکرہ ثلاث نترات‘‘(۱) اور بیچ کی انگلی کو ابتدا میں باقی انگلیوں سے کچھ اونچا کرے اور اس سے مقام نجاست کو دھوئے، پھر چھوٹی انگلی (جس کو عرف میں کنی انگلی کہتے ہیں) کے پاس کی انگلی اٹھائے اور اس سے اس مقام کو دھوئے، پھر چھوٹی انگلی کو اٹھائے اور پھر انگوٹھے کے پاس کی انگلی اٹھائے اور اگر روزہ دار نہ ہو تو اس قدر دھونے میں مبالغہ کرے کہ اس کو یقین یا غالب گمان ہو جائے کہ صفائی ہوگئی ہے اور چکنائی بھی دور ہوگئی ہے اور اگر روزہ دار ہو، تو زیادتی نہ کرے اور نہ زیادہ پھیل کر بیٹھے، دھونے کی کچھ حد مقرر نہیں ہے، اگر کوئی شخص وسوسہ والا ہے تو اپنے لیے تین مرتبہ دھونے کی مقدار مقرر کرلے۔ جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری میں لکھا ہے:
’’وصفۃ الاستنجاء بالماء أن یستنجی بیدہ الیسری بعدما استرخی کل الاسترخاء إذا لم یکن صائما ویصعد أصبعہ الوسطی علی سائر الأصابع قلیلا في ابتداء الاستنجاء ویغسل موضعہا ثم یصعد بنصرہ ویغسل موضعہا ثم یصعد خنصرہ ثم سبابتہ فیغسل حتی یطمئن قلبہ أنہ قد طہر بیقین أو غلبہ ظن ویبالغ فیہ إلا أن یکون صائما ولا یقدر بالعدد إلا أن یکون موسوسا فیقدر في حقہ بالثلاث۔ کذا في التبیین‘‘(۲)
مزید فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
استنجا میں تین انگلیوں سے زیادہ استعمال نہ کرے انگلیوں کی چوڑائی سے استنجا کرے انگلیوں کی پشت اور سر سے استنجا نہ کیا جائے پانی نرمی سے آہستہ آہستہ ڈالے پانی ڈالنے میں سختی نہ کرے، بعض علماء نے کہا ہے کہ انگلیوں کا استعمال نہ کرے؛ بلکہ ہتھیلی سے دھونا کافی ہے ایسے ہی عورت کے لئے بہتر ہے کہ کشادہ ہو کر بیٹھے ہتھیلی سے اوپر اوپر دھولے۔
’’ولا یستعمل في الاستنجاء إلا أکثر من ثلاث أصابع ویستنجی بعرض الأصابع لا برء وسہا، کذا في محیط السرخسي ویصب الماء بالرفق ولا یضرب بالعنف، کذا في المضمرات ویدلک برفق۔ وقال عامۃ المشایخ: یکفیہ الغسل  بکفہ من غیر أن یرفع أصبعہ وقال عامتہم: تجلس المرأۃ منفرجۃ وتغسل ما ظہر بکفہا ولا تدخل أصبعہا، کذا في السراج الوہاج وہو المختار، ہکذا في التتارخانیۃ ناقلا عن الصیرفیۃ وتکون أفرج من الرجل کذا في المضمرات‘‘(۱)
(۱) أخرجہ البیہقي، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب الاستبراء عن البول‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۲، رقم: ۵۵۲۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الھندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السابع في النجاسۃ و أحکامھا، الفصل الثالث: فی الاستنجاء صفۃ الاستنجاء بالماء‘‘: ج:۱، ص:۳۰۱
(۱) أیضاً:            

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص96

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسواک جس طرح مردوں کے لیے سنت ہے، اسی طرح عورتوں کے لیے بھی سنت ہے۔(۱) اگر مسواک کرنے میں کوئی دشواری ہو یا مسواک نہ ہو، تو انگلی کا استعمال مسواک کے قائم مقام ہوجاتاہے(۲)۔ اسی طرح اگر عورت مسواک کی نیت سے ’’علک‘‘ (ایک خاص قسم کا گوند) کا استعمال کرے، تو اس کو مسواک کی طرح ہی ثواب حاصل ہوگا۔(۳)

(۱) عن عائشۃؓ انھا قالت : کان نبی اللّٰہ ﷺ یستاک فیعطیني السواک لأغسلہ فأبدأ بہ فاستاک ثم أغسلہ و أدفعہ إلیہ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’باب غسل السواک،‘‘ ج۱، ص:۸، رقم: ۵۳، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)
(۲) و تقوم الأصبع أو الخرقۃ الخشنۃ مقامہ عند فقدہ أو عدم أسنانہ في تحصیل الثواب لا عند وجودہ۔ (ابن نجم، بحرالرائق، کتاب الطہارۃ، ج۱، ص:۲۱، دارالکتاب دیوبند)؛  و عند فقدہ أو فقد أسنانہ تقوم الخرقۃ الخشنۃ أو الأصبع مقامہ، کما یقوم العلک مقامہ للمرأۃ مع القدرۃ علیہ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في منافع السواک،‘‘ ج۱، ص:۲۳۶، زکریا بک ڈپو دیوبند)
(۳) سواک و یقوم العلک مقامہ للنساء، (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحاوی، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في سنن الوضوء،‘‘ص:۶۸، دارالکتاب دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص200

نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر وہ صالح اور نیک بھی ہے اور نماز پڑھانی جانتا ہے اور نماز کے مسائل سے واقف ہے، تو اس کو مستقل امام بنایا جا سکتا ہے۔(۲)
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یؤم القوم أقرء ہم لکتاب اللّٰہ فإن کانوا في القراء ۃ سواء فأعلمہم بالسنۃ‘‘(۱)
(۲) والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ للقرأۃ ثم الأورع، (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۴، زکریا دیوبند)
(۱) أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب من حق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۶، رقم:۶۷۳۔
 
 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبندج 5 ص:35

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: محلہ کے امام صاحب کے پیچھے نماز درست ہے۔ موقع ومصلحت کے اعتبار سے اہل محلہ باہمی مشورے سے انہیں کو امام بنائیں رکھیں یا کسی اور کو امام بنائیں دونوں میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔(۱)

(۱) والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلوۃ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویدًا للقراء ۃ ثم الأورع۔ (الحصکفي، الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب: في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
وأولی الناس بالإمامۃ أعلمہم بالسنۃ … ثم الأورع … ثم الأحسن خلقًا۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۰۹)
والأحق بالإمامۃ تقدیمًا بل نصبًا (مجمع الأنہر) الأعلم بأحکام الصلاۃ فقط صحۃ وفسادًا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
(قولہ بأحکام الصلاۃ فقط) أي وإن کان غیر متبحر في بقیۃ العلوم، وہو أولی من المتبحر، کذا في زاد الفقیر عن شرح الإرشاد۔ (قولہ ثم الأحسن زوجۃ)  لأنہ غالبًا یکون أحب لہا وأعف لعدم تعلقہ بغیرہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار) (أیضًا:)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص60

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: لائف انشورینس کا کاروبار سودی کاروبار ہے اس لیے حرام و ناجائز ہے اور اس کے لیے کام کرنا بھی ناجائز ہے اس لیے ایسے شخص کی امامت درست نہیں ہے امام صاحب کوئی دوسرا کاروبار اختیار کرلیں۔ ورنہ ان کی جگہ کسی اور کو مقرر کرلیا جائے۔(۱)

(۱) {یَآ أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ} (سورۃ المائدۃ: ۹۰)
عن جابر قال: (لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اٰکِلَ الرِّبَا، وَمُؤکلہ، وکاتبہ، وشاہدیہ) ہم سواء۔ (أخرجہ مسلم  في صحیحہ، ’’کتاب المساقات، باب لعن أکل الربا ومؤکلہ‘‘: ج۳، ص: ۱۲۱۹، رقم: ۱۵۹۸)
عن ابن سیرین قال: کل شیء فیہ قمار فہو من المیسر۔ (أخرجہ ابن أبي شیبہ، ’’کتاب البیوع والأقضیۃ‘‘: ج ۴، ص: ۴۸۳)
وسمی القمار قماراً؛ لأن کل واحد من المقامرین ممن یجوز أن یذہب مالہ إلی صاحبہ، ویجوز أن یستفید مال صاحبہ وہو حرام بالنص۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ‘‘: ج۶، ص: ۴۰۳، ط: سعید)
ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق أي من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر، کشارب الخمر والزاني وآکل الرباء ونحو ذلک۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)
وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لایہتم لأمردینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ وقد وجب علیہم إہانتہ شرعًا۔ (أیضًا، ج۱، ص:۲۹۹)
کذا في المتون، تجوز إمامۃ الأعرابي والأعمی والعبد وولد الزنا والفاسق کذا في الخلاصۃ، إلا أنہا تکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح اما مالغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۸۵)
ولو صلی خلف مبتدع أو فاسق فہو محرز ثواب الجماعۃ لکن لاینال مثل ماینال خلف تقي کذا في الخلاصۃ۔ (أیضاً: ج۱، ص: ۱۴۱)
وفي النہر عن المحیط: صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ وفي الرد قولہ نال فضل الجماعۃ الخ إن الصلوۃ، خلفہما أولی من الإنفراد۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب: البدعۃ خمسۃ أقسام‘‘: ج۲، ص: ۲۹۹)
وإذا صلی الرجل خلف فاسق أو مبتدع یکون محرزا ثواب الجماعۃ لما روینا من الحدیث لکن لاینال ثواب من یصلي خلف عالم تقي۔ (قاضي خان، فتاویٰ قاضي خان، ’’کتاب الصلوۃ، فصل فیمن یصح الاقتداء بہ وفیمن لایصح‘‘: ج۱، ص: ۵۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص188

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: عام حالات میں مسجد میں جماعت سے نماز ادا کرنا مردوں کے لیے حکماً واجب ہے۔ بلاعذر جماعت ترک کرنے پر احادیث میں سخت وعید وارد ہے۔ بلاعذر جماعت ترک کرنے پر اصرار کرنے والا گناہ کبیرہ کا مرتکب اور فاسق ہے۔
’’قلت دلالتہ علی الجزء الأول ظاہرۃ حیث بولغ في تہدید من تخلّف عنہا وحکم علیہ بالنفاق، ومثل ہذا التہدید لایکون إلا في ترک الواجب، ولایخفی أن وجوب الجماعۃ لو کان مجردًا عن حضور المسجد لما ہم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بإضرام البیوت علی المتخلفین لاحتمال أنہم صلوہا بالجماعۃ في بیوتہم؛ فثبت أن إتیان المسجد أیضًا واجب کوجوب الجماعۃ، فمن صلاہا بجماعۃ في بیتہ أتی بواجب وترک واجبًا آخر … و أما مایدل علی وجوبہا في المسجد فإنہم اتفقوا علی أن إجابۃ الأذان واجبۃ لما في عدم إجابتہا من الوعید‘‘(۱)
’’قلت: وہذا صریح في أن وجوب الجماعۃ إنما یتأدی بجماعۃ المسجد لا بجماعۃ البیوت ونحوہا، فما ذکرہ صاحب القنیۃ اختلف العلماء في إقامتہا في البیت، والأصح أنہا کإقامتہا في المسجد إلا في الفضیلۃ، وہو ظاہر مذہب الشافعي، کذا في حاشیۃ البحر لابن عابدین لایصح مالم ینقل نقلًا صریحًا عن  أصحاب المذہب ویردہ ماذکرنا من الأحادیث في المتن، فالصحیح أن الجماعۃ واجبۃ مع وجوب إتیانہا في المسجد، ومن أقامہا في البیت وہو یسمع النداء فقد أساء وأثم‘‘(۱)
’’والجماعۃ سنۃ مؤکدۃ للرجال … وأقلھا إثنان، … وقیل: واجبۃ وعلیہ العامۃ أي: عامۃ مشایخنا وبہ جزم في التحفۃ وغیرھا، قال في البحر: وھو الراجح عند أھل المذھب، فتسن أو تجب ثمرتہ تظھر في الإثم بترکھا علی الرجال العقلاء البالغین الأحرار القادرین علی الصلاۃ بالجماعۃ من غیر حرج‘‘(۲)

(۱)  ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الصلاۃ، باب وجوب إتیان الجماعۃ في المسجد عند عدم العلۃ‘‘: ج۴، ص:۱۸۶۔
(۱) ظفر العثماني، إعلاء السنن: ج ۴، ص: ۱۸۸
(۲) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ۲، ص: ۲۸۷، ۲۹۱، ط: مکتبہ زکریا دیوبند۔

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص383

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: یہاں دو مسئلے الگ ا لگ ہیں پہلے فرض نمازوں کی رکعات کی تعداد، پھر سنت رکعات کی تعداد۔ فرض نمازوں میں جو رکعات کی تعداد ہے وہ تواتر عملی سے ثابت ہے؛ اس لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے آج تک اسی پرعمل ہوتا آرہا ہے۔ حضرت جبرئیل ؑ نے دو دن جو امامت کی اس کی رکعات کی تعداد یہی مذکور ہے۔ اس کے علاوہ بعض روایات میں صراحتاً بھی فرض نمازوں کی تعداد مذکور ہے؛ چناں چہ ایک روایت میں ہے:
’’عن أبي مسعود الأنصاري رضي اللّٰہ عنہ قال: جاء جبرائیل إلی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: قم فصل وذلک لدلوک الشمس حین مالت فقام رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فصلی الظھر أربعا ثم أتاہ حین کان ظلہ مثلہ فقال: قم فصل فقام فصلی العصر أربعا ثم أتاہ حین غربت الشمس فقال لہ: قم فصل فقام فصلی المغرب ثلاثا ثم أتاہ حین غاب الشفق۔ فقال لہ: قم فصل فقام فصلی العشاء الآخرۃ أربعا ثم أتاہ حین طلع الفجر وأسفر الفجر فقال لہ: قم فصل! فقام فصلی الصبح رکعتین‘‘ (۱)
سنتوں کی جو تعداد ہے اس کا ثبوت بھی روایات سے ہے۔ بعض روایات میں بارہ رکعت پڑھنے کی بڑی فضیلت آئی ہے یہ بارہ رکعات سنت مؤکدہ کہلاتی ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:  ۲؍رکعات فجر سے پہلے، ۴؍ رکعات ظہر سے پہلے اور ۲؍ رکعات ظہر کے بعد، ۲؍ رکعات مغرب کے بعد ۲؍ رکعات عشاء کے بعد۔
’’عن أم حبیبۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی في یوم ولیلۃ ثنتي عشرۃ رکعۃ بني لہ بیت في الجنۃ أربعا قبل الظھر ورکعتین بعدھا ورکعتین بعد المغرب ورکعتین بعد العشاء ورکعتین قبل الفجر صلاۃ الغداۃ‘‘(۲)
اس کے علاوہ متعدد روایات ہیں جن سے انفرادی طورپر سنت مؤکدہ اور غیر مؤکدہ رکعات کی تعداد کا پتہ چلتا ہے؛ چناں چہ فجر کی دو رکعت کے سلسلے میں روایت ہے:
’’عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: لم یکن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی شيء من النوافل أشد تعاھدا منہ علی رکعتي الفجر‘‘(۱)
ظہر کی چھ رکعت سنت مؤکدہ کے بارے میں روایت ہے:
’’عن أم حبیبۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی قبل الظھر أربعا وبعدھا أربعا حرمہ اللّٰہ تعالی علی النار‘‘(۲)
اس میں ظہر کے بعد چا ررکعت کا تذکرہ ہے جس میں دو سنت مؤکدہ او ردو سنت غیر مؤکدہ ہے۔ عصر کی چار رکعت سنت غیر مؤکدہ کے سلسلے میں روایت ہے:
’’عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: رحم اللّٰہ  إمرأ صلی قبل العصر أربعا‘‘(۳)
مغرب کی سنت مؤکدہ کے بارے میں روایت ہے:
’’عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ قال من رکع بعد المغرب أربع رکعات کان کالمعقب غزوۃ بعدغزوۃ‘‘(۴)
عشا سے پہلے کی چار رکعت سنت اور عشاء کے بعد چار رکعت سنت کے سلسلے میں روایت ہے:
’’عن سعید بن جبیر رضي اللّٰہ عنہما کانوا یستحبون أربع رکعات قبل العشاء الأخرۃ‘‘(۵)
اسی طرح تین رکعت وتر اور دو رکعت بعد الوتر کے سلسلے میں روایت ہے:
’’عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یؤتر بثلاث یقرأ في أول رکعۃ بسبح اسم ربک الأعلی وفي الثانیۃ قل یا أیھا الکافرون وفي الثالثۃ قل ھواللّٰہ أحد والمعوذتین‘‘(۱)
’’عن أم سلمۃ رضي اللّٰہ عنہا أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یصلي بعد الوتر رکعتین‘‘(۲)
(۱)  أخرجہ البیھقي في سننہ، ’’باب عدد رکعات الصلوات الخمس‘‘: ج ۱، ص: ۳۶۱۔رقم: ۱۷۶۳
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلوۃ، باب ماجاء في من صلی في یوم ولیلۃ ثنتی عشرۃ رکعۃ‘‘: ج۱، ص: ۹۴، رقم: ۴۱۵۔
(۱) أخرجہ الـبـخاري، في صحیحہ، ’’کتاب التہجد، باب تعاھد رکعتي الفجر ومن سمّاہا تطوعًا‘‘: ج ۱، ص:۱۵۶، رقم ۱۱۶۹؛ وأخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب صلوۃ المسافرین وقصرہا‘‘ باب استحباب رکعتي سنۃ الفجر والحث علیھما الخ‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۱، رقم: ۷۲۴۔
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلوۃ: باب اٰخر من سنن الظھر‘‘: ج ۱، ص: ۹۸، رقم: ۴۲۷۔
(۳) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلوۃ: باب ما جاء في الأربع قبل العصر‘‘: ج ۱، ص: ۹۸، رقم: ۴۳۰۔
(۴) أخرجہ عبدالرزاق، في مصنفہ، ’’کتاب الصلوۃ: باب الصلاۃ فیمابین المغرب والعشاء‘‘: ج ۳، ص: ۴۵، رقم،۴۷۲۸۔
(۵) المروزي، مختصر قیام اللیل، ’’یصلي بین المغرب والعشاء أربع رکعات‘‘: ص: ۸۵۔

(۱) أخرجہ أبوجعفر، في شرح معاني الآثار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الوتر‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۰؛ رقم:۱۶۹۵۔
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الوتر، باب ماجاء لا وتران فی لیلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۸، رقم: ۴۷۱؛ وأخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’أبواب إقامۃ الصلوات والسنۃ فیہا، ماجاء في الوتر، باب ما جاء في الرکعتین بعد الوتر جالساً‘‘: ج ۱، ص: ۸۳، رقم: ۱۱۹۵
۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص 28تا 31

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:معتکف اذان دینے کے لیے مسجد سے باہر نکل سکتا ہے، اعتکاف نہیں ٹوٹے گا؛ اس لیے کہ یہ بھی شرعی ضرورت ہے۔ تاہم اگر معتکف مؤذن نہ ہو اور اس کے علاوہ کوئی شخص اذان دینے والا موجود ہو تو بہتر ہے کہ وہ اذان کے لیے مسجد سے باہر نہ نکلے۔
’’(قولہ: وباب المنارۃ خارج المسجد) أما إذا کان داخلہ فکذلک بالأولیٰ قال في البحر: وصعود المأذنۃ إن کان بابہا في المسجد لایفسد وإلا فکذلک في ظاہر الروایۃ۔ ولو قال الشارح: وأذان ولو غیر مؤذن وباب المنارۃ خارج المسجد لکان أولی ح، قلت: بل ظاہر البدائع أن الأذان أیضًا غیر شرط فإنہ قال: ولو صعد المنارۃ لم یفسد بلا خلاف وإن کان بابہا خارج المسجد؛ لأنہا منہ؛ لأنہ یمنع فیہا کل ما یمنع فیہ من البول ونحوہ، فأشبہ زاویۃ من زوایا المسجد اھـ۔ لکن ینبغي فیما إذا کان بابہا خارج المسجد أن یقید بما إذا خرج للأذان؛ لأن المنارۃ وإن کانت من المسجد، لکن خروجہ إلی بابہا لا للأذان خروج منہ بلا عذر، و بہذا لایکون کلام الشارح مفرعًا علی الضعیف، ویکون قولہ: وباب المنارۃ إلخ جملۃ حالیۃ معتبرۃ المفہوم، فافہم‘‘(۱)
’’ولو صعد المئذنۃ لم یفسد اعتکافہ بلا خلاف، وإن کان باب المئذنۃ خارج المسجد، کذا في البدائع‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الاعتکاف‘‘: ج ۳، ص: ۴۳۶۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ: ’’کتاب الصوم، الباب السابع في الاعتکاف‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۶۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص167