Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اگر چندہ دینے والوں نے مذکورہ مقصد کے لیے چندہ دیا ہے، تو اس سے مقصد پورا ہو جاتا ہے، یعنی امام کو دینا اور پھر امام اپنی مرضی سے سنانے والے کو جو چاہے دیدے جائز ہے اور درست ہے۔(۱)(۱) قال في الشامي: نعم قد یقال: إن کان قصدہ وجہ اللّٰہ تعالیٰ لکنہ بمراعاتہ للأوقات والاشتعال بہ یقل اکتسابہ عما یکفیہ لنفسہ وعیالہ فیأخذ الأجرۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج ۲، ص: ۶۰)قولہ: ویفتی الیوم بصحتہا لتعلیم القرآن الخ قال في الہدایۃ: وبعض مشایخنا رحمہم اللّٰہ تعالیٰ استحسنوا الاستئجار علی تعلیم القرآن الیوم لظہور التواني في الأمور الدینیۃ۔ ففي الامتناع تضییع حفظ القرآن وعلیہ الفتویٰ۔ اہـ۔ وقد اقتصر علی استثناء تعلیم القرآن أیضاً في متن الکنز ومتن مواہب الرحمان وکثیر من الکتاب وزاد في مختصر الوقایۃ ومتن الإصلاح تعلیم الفقہ وزاد في متن المجمع الإمامۃ ومثلہ في متن الملتقی ودرر البحار۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب تحریر مہم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ والتہلیل‘‘: ج ۹، ص: ۷۶)ولا لأجل الطاعات مثل (الأذان والحج والإمامۃ وتعلیم القرآن والفقہ) ویفتی الیوم بصحتہا لتعلیم القرآن والفقہ والإمامۃ، والأذان۔ (أیضاً:)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 113
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: تراویح میں قرآن پاک سنانے والے کو قرآن پاک سنانے کے بدلہ میں کچھ دینا یا اس کا لینا جائز نہیں، اس لیے اس نام سے چندہ کرنا بھی درست نہیں اور سامع جو کہ سننے کے لیے پیچھے کھڑا کیا جاتاہے، اس کو دینا اور اس کا لینا بھی درست نہیں ہے، تراویح کے امام کے تعاون کے لیے یہ صورت جائز ہو سکتی ہے کہ اس کو شروع ماہ سے دو تین نمازیں پڑھانے کے لئے (مثلاً فجر مغرب عشاء، یا اور دوسری نمازیں) عارضی امام مقرر کر لیا جائے اور ہزار پانچ سو جو بھی رقم سہولت سے مہیا کر سکیں وہ تنخواہ طے کر لیں۔ اور چندہ کر کے وہ رقم امام کو ادا کردیں، لیکن چندہ میں جبر کرنا درست نہیں، دینے والے کی مرضی پر موقوف ہے، اس کار خیر کے لیے جو بھی وہ دے سکے لے لینا چاہئے، اور عوامی چندہ کو اہل محلہ یا اہل مسجد غیرت کے خلاف یا باعث تضحیک خیال کریں تو نہیں کرنا چاہئے۔(۱)
(۱) قال تاج الشریعۃ في شرح الہدایۃ إن القرآن بالأجرۃ لا یستحق الثواب لا للمیت ولا للقاری۔ وقال العینی في شرح الہدایۃ: ویمنع القارئ للدنیا، والآخذ والمعطی آثمان فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراء ۃ الأجزاء بالأجرۃ لا یجوز؛ لأن فیہ الأمر بالقراء ۃ وإعطاء الثواب للآمر والقراء ۃ لأجل المال؛ فإذا لم یکن للقارئ ثواب لعدم النیۃ الصحیحۃ فأین یصل الثواب إلی المستأجر ولولا الأجرۃ ما قرأ أحد لأحد في ہذا الزمان بل جعلوا القرآن العظیم مکسبا ووسیلۃ إلی جمع الدنیا إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ‘‘: ج ۶، ص: ۵۶)(۲) بلا تعیین کچھ دے دیا جائے اور نہ دینے پر کوئی شکایت بھی نہ ہو تو یہ صورت اجرت سے خارج اور حد جواز میں داخل ہو سکتی ہے۔ (کفایت المفتی، ’’کتاب الصلاۃ: ج ۳، ص: ۳۹۶، مکتبہ دار الاشاعت، دیوبند)اس میں گنجائش ہے، اس کی صورت یہ کی جائے کہ پنجگانہ نماز کے لیے امام کو مقرر کر لیا جائے اور رقم مقررہ طے کر لی جائے پھر وہ تراویح بھی پڑھا دے۔ (فتاوی محمودیہ، ’’کتاب الاجارۃ: باب الاستیجار علی الطاعات‘‘: ج ۱۷، ۷۲)(۳) عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا! ألا لا یحل مال إمرء إلا بطیب نفس منہ۔ (البغوي، مشکاۃ المصابیح، ’’باب الغصب والعاریۃ، الفصل الثاني‘‘: ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 112
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: تراویح میں قرآن پاک سناکر متعین کرکے اجرت لینا باتفاق متقدمین ومتاخرین ناجائز و حرام ہے اور یہ ہی مفتی بہ قول ہے اس لیے تراویح میں قرآن کریم کی تلاوت ہوتی ہے اور تلاوت قرآنی پر اجرت لینے کی حرمت متفق علیہ ہے۔(۱) سوال میں مذکور حدیث کا جز تو سوال میں تحریر ہے پوری حدیث مذکور نہیں ہے پوری حدیث بخاری شریف میں ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ حضرات صحابہؓ ایک جگہ سے گذرے وہاں کسی آدمی کے سانپ یا بچھو نے کاٹ لیا تھا تو ایک شخص کے کہنے پر ایک صحابیؓ نے سورۂ فاتحہ پڑھ کر پھونک دی اوراس پر کچھ لے لیا تو حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو اس پر اعتراض ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسئلہ پہونچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مذکورہ بالا جملہ ارشاد فرمایا، اس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ جھاڑ پھونک کے ذریعہ علاج کرکے اجرت لینے کی گنجائش ہے، اس سے تلاوت پر اجرت کا جواز ثابت نہیں ہوتا نہ ہی کسی مفسر یا محدث نے یہ ثابت کیا ہے نہ اس کے جواز پر کسی فقیہ، و مفتی نے فتویٰ دیا ہے لہٰذا ایسا شخص اگر اسی پر مصر ہو کہ ’’أجرت علی التلاوۃ في التراویح‘‘ اس حدیث سے ثابت ہے تو ایسا شخص امامت کے لائق نہیں اور اگر توبہ کرے اور آئندہ اس عمل و استدلال سے باز رہے تو درست ہے حدیث کی وضاحت حاشیہ بخاری میں ہے۔(۱) قال تاج الشریعۃ في شرح الہدایۃ إن القرآن بالأجرۃ لا یستحق الثواب لا للمیت ولا للقاری۔ وقال العینی في شرح الہدایۃ: ویمنع القارئ للدنیا، والآخذ والمعطی آثمان فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراء ۃ الأجزاء بالأجرۃ لا یجوز؛ لأن فیہ الأمر بالقراء ۃ وإعطاء الثواب للآمر والقراء ۃ لأجل المال؛ فإذا لم یکن للقارئ ثواب لعدم النیۃ الصحیحۃ فأین یصل الثواب إلی المستأجر ولولا الأجرۃ ما قرأ أحد لأحد في ہذا الزمان بل جعلوا القرآن العظیم مکسبا ووسیلۃ إلی جمع الدنیا إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ‘‘: ج ۶، ص: ۵۶)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 111
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: شرعاً جائز ہے۔(۱)(۱) قال في الشامي نعم قد یقال: إن کان قصدہ وجہ اللّٰہ تعالی لکنہ بمراعاتہ للأوقات والاشتغال بہ یقل اکتسابہ عما یکفیہ لنفسہ وعیالہ، فیأخذ الأجرۃ لئلا یمنعہ الاکتساب عن إقامۃ ہذہ الوظیفۃ الشریفۃ، ولولا ذلک لم یأخذ أجرا فلہ الثواب المذکور، بل یکون جمع بین عبادتین: وہما الأذان، والسعی علی العیال، وإنما الأعمال بالنیات۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان محتسباً في أذانہ‘‘: ج ۲، ص: ۶۰)قولہ ویفتی الیوم بصحتہا لتعلیم القرآن إلخ قال في الہدایۃ: وبعض مشایخنا رحمہم اللّٰہ تعالی استحسنوا الاستئجار علی تعلیم القرآن الیوم لظہور التواني في الأمور الدینیۃ،… ففي الامتناع تضییع حفظ القرآن وعلیہ الفتوی اہـ۔ وقد اقتصر علی استثناء تعلیم القرآن أیضا في متن الکنز ومتن مواہب الرحمن وکثیر من الکتب، وزاد في مختصر الوقایۃ ومتن الإصلاح تعلیم الفقہ، وزاد في متن المجمع الإمامۃ، ومثلہ في متن الملتقی ودرر البحار۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب: تحریر مہم فی عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ الخ‘‘: ج ۹، ص: ۷۶)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 110
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: قرآن کریم کی تلاوت اطاعت ہے اور اجرت علی الطاعات شرعاً باطل ہے، اگر قرآن کریم سنانے پر کوئی اجرت طے کرلی جائے تو حرام ہے اور اگر لین دین کا رواج اس قدر ہو کہ اگر کچھ نہ دیا جائے تو معاشرہ میں لعن طعن کیا جائے گا، تو یہ بھی ایسا ہی ہے جیسے کہ طے کرکے دیا جائے المعروف کالمشروط بس قرآن کریم سنانے کی اجرت طے کرکے دینا شرعاً حرام ہے؛ ہاں طے نہ کیا جائے اور نہ ہی عرف ایسا لازم ہو اور نہ دینے کی صورت میں کوئی ناگواری نہ ہو تو تحفہ وہدیہ کے طور پر اگر کچھ دیا جائے اور وہ وقعتا یہ یہ ہو اس میں اجرت کا شائبہ بھی نہ ہو تو شرعاً جائز ہے جیسا کہ بظاہر سوال سے معلوم ہوتا ہے۔(۱)(۱) قولہ ولا لأجل الطاعات، الأصل أن کل طاعۃ یختص بہا المسلم لا یجوز الاستئجار علیہا عندنا لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام {اقرؤا القرآن ولا تأکلوا بہ} وفي آخر ما عہد … رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إلی عمرو بن العاص وإن اتخذت مؤذنا فلا تأخذ علی الأذان أجرا ولأن القربۃ متی حصلت وقعت علی العامل ولہذا تتعین أہلیتہ، فلا یجوز لہ أخذ الأجرۃ من غیرہ کما فی الصوم والصلاۃ ہدایۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب تحریر مہم فی عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ والتہلیل ونحوہ مما لا ضرورۃ إلیہ۔ (ج ۹، ص: ۷۶)(قولہ ویفتی الیوم بصحتہا لتعلیم القرآن إلخ) قال في الہدایۃ: وبعض مشایخنا رحمہم اللّٰہ تعالی استحسنوا الاستئجار علی تعلیم القرآن الیوم لظہور التواني في الأمور الدینیۃ، ففي الامتناع تضییع حفظ القرآن وعلیہ الفتوی۔ وقد اقتصر علی استثناء تعلیم القرآن أیضا في متن الکنز ومتن مواہب الرحمن وکثیر من الکتب، وزاد فی مختصر الوقایۃ ومتن الإصلاح تعلیم الفقہ، وزاد في متن المجمع الإمامۃ، ومثلہ في متن الملتقی ودرر البحار۔ (أیضاً)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 109
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: مذکورہ صورت میں امام صاحب مستقل امامت کرتے ہیں اور رمضان المبارک میں قرآن کریم بھی سناتے ہیں تو انہیں جو کچھ دیا جاتا ہے وہ مستقل امامت و خدمت پر ہے اُسے تلاوت قرآن کی اُجرت کے دائرہ میں لانا درست نہیں ہے؛ لہٰذا انہیں دینا اور ان کا اسے قبول کرنا درست ہے اور وہ مسئلہ بھی بالکل درست ہے کہ تراویح میں قرآن سنانے پر اُجرت کا لین دین جائز نہیں لیکن وہ صرف تراویح کی صورت میں ہے امامت کی صورت اس سے الگ ہے۔(۱)(۱) الأصل أن کل طاعۃ یختص بہا الإسلام لا یجوز الاستئجار علیہا عندنا لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام ’’اقرؤا القرآن ولا تأکلون بہ، وفي آخر ما عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إني عمرو بن العاص: وإن اتخذت مؤذناً فلا تأخذ علی الأذان أجراً۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب في الاستئجار علی الطاعات‘‘: ج ۹، ص: ۷۶)ولا تصح الإجارۃ لأجل الطاعات مثل الأذان والحج، والإمامۃ، وتعلیم القرآن، والفقہ، ویفتی الیوم بصحتہا لتعلیم القرآن، والفقہ، والإمامۃ، والأذان۔ (أیضاً:)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 108
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: قرآن پاک مکمل تراویح میں سننا سنت ہے، ضروری نہیں ہے۔ اگر اس کے لیے اچھے قاری ملیں تو اس سنت پر عمل کرنا چاہئے۔ جن جگہوں پر حافظ نہ ملیں یا اچھے پڑھنے والے نہ ہوں وہاں اچھے پڑھنے والے امام سے الم تر کیف سے تراویح پڑھ لینی چاہئے۔ اتنا تیز پڑھنا، کہ الفاظ مکمل طور پر ادا نہ ہوتے ہوں یا پیچھے کھڑے حافظ وعالم کو بھی سمجھ میں نہ آتا ہو درست نہیں ہے؛ بلکہ نماز کے فاسد ہونے کا بھی خطرہ ہے۔ غلطیاں اور بھول ہو جایا کرتی ہیں؛ اس کے لیے ایک سامع بھی رکھنا چاہئے۔ اور اگر حافظ صاحب سے غلطیاں اور بھول بکثرت صادر ہوتی ہوں، لوگوں کو دشواری ہو اور تقلیل جماعت کا اندیشہ ہو، تو کسی دوسرے حافظ صاحب کا انتظام کرلیا جائے اور وہ بھی نہ ہوسکے، تو پھرالم ترکیف سے تراویح پڑھ لی جائے۔(۱)(۱) والختم مرۃ سنۃ ومرتین فضیلۃ وثلاثا أفضل (ولا یترک) الختم (لکسل القوم) لکن في الاختیار: الأفضل في زماننا قدر ما لا یثقل علیہم، وأقرہ المصنف وغیرہ۔ وفي المجتبی عن الإمام: لو قرأ ثلاثا قصارا أو آیۃ طویلۃ في الفرض فقد أحسن ولم یسیئ، فما ظنک بالتراویح؟ وفي فضائل رمضان للزاہدی: أفتی أبو الفضل الکرماني والوبري أنہ إذا قرأ في التراویح الفاتحۃ وآیۃ أو آیتین لا یکرہ، ومن لم یکن عالما بأہل زمانہ فہو جاہل۔(قولہ الأفضل في زماننا إلخ) لأن تکثیر الجمع أفضل من تطویل القراء ۃ حلیۃ عن المحیط۔ وفیہ إشعار بأن ہذا مبني علی اختلاف الزمان، فقد تتغیر الأحکام لاختلاف الزمان في کثیر من المسائل علی حسب المصالح، ولہذا قال في البحر: فالحاصل أن المصحح في المذہب أن الختم سنۃ لکن لا یلزم منہ عدم ترکہ إذا لزم منہ تنفیر القوم وتعطیل کثیر من المساجد خصوصا في زماننا فالظاہر اختیار الأخف علی القوم۔(قولہ وفي المجتبی إلخ) عبارتہ علی ما في البحر: والمتأخرون کانوا یفتون في زماننا بثلاث آیات قصار أو آیۃ طویلۃ حتی لا یمل القوم ولا یلزم تعطیلہا، فإن الحسن روي عن الإمام أنہ إن قرأ في المکتوبۃ بعد الفاتحۃ ثلاث آیات فقد أحسن ولم یسیئ، ہذا في المکتوبۃ فما ظنک في غیرہا؟ اہـ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۶، ۴۹۷)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 106
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: قرآن کریم تراویح میں حدراً پڑھنا چاہئے لیکن اتنی جلدی کرنا بالکل درست نہیں ہے کہ حروف کٹنے لگیں اور ادائیگی پورے طور پر نہ ہو، اتنے سکون سے پڑھیں کہ ادائیگی درست اور صحیح ہوجائے۔(۲)(۲) روي الحسن عن أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالی أنہ یقرأ في کل رکعۃ عشر آیات ونحوہا وہو الصحیح، کذا في التبیین ویکرہ الإسراع في القراء ۃ وفي أداء الأرکان، کذا في السراجیۃ وکلما رتل فہو حسن، کذا في فتاوی قاضي خان والأفضل في زماننا أن یقرأ بما لا یؤدي إلی تنفیر القوم عن الجماعۃ لکسلہم؛ لأن تکثیر الجمع أفضل من تطویل القراء ۃ، کذا في محیط السرخسي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل، فصل في التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۷)ویجتنب المنکرات ہذرمۃ القراء ۃ، وترک تعوذ وتسمیۃ، وطمأنینۃ، وتسبیح، واستراحۃ۔ (قولہ ہذرمۃ) بفتح الہاء وسکون الذال المعجمۃ وفتح الراء: سرعۃ الکلام والقراء ۃ قاموس، وہو منصوب علی البدلیۃ من المنکرات، ویجوز القطع ح۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۹)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 105
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اگر سامع ہو تو بہتر ہے، اس سے بڑی سہولت ہوتی ہے؛ لیکن اگر سامع میسر نہ آئے تو پھر بغیر سامع کے بھی قرآن سنانا درست ہے، قرآن سنانے والے کو پورا احتیاط سے کام لینا چاہئے کہ پورا قرآن پاک صحیح پڑھا جائے۔ اور اگر قرآن ٹھیک یاد نہ ہو تو سورہ تراویح پڑھی جائے۔(۱)(۱) لأن اللحن حرام بلا خلاف۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الرابع‘‘: ج ۵، ص: ۳۱۷)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 104
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اس بچہ (نابالغ) کو سامع بنایا جاسکتا ہے بشرطیکہ بچہ سمجھدار ہو، پاکی اور وضو وغیرہ کا خیال رکھتا ہو؛ اس لیے کہ اگر بچہ ناسمجھ ہے تو ہوسکتا ہے کہ وہ بغیر وضو ہو اور لقمہ دے تو اس صورت میں نماز ہی فاسد ہو جائے گی اور عند الاحناف اعادہ لازم ہوگا؛ اس لیے ناسمجھ زیادہ چھوٹے بچہ کو سامع نہ بنایا جائے؛ البتہ اگر سمجھدار ہے تو درست ہے۔(۱)(۱) فتحہ علی إمامہ لایفسد مطلقا لفاتح، وآخذ بکل حال، إلا إذا سمعہ المؤتم من غیر مصل ففتح بہ تفسد صلاۃ الکل۔قال الشامي: قلت: والذي ینبغي أن یقال: إن حصل التذکر بسبب الفتح تفسد مطلقا، أي سواء شرع في التلاوۃ قبل تمام الفتح أو بعدہ لوجود التعلم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب المواضع التي لایجب فیہا رد السلام‘‘: ج ۲، ص: ۳۸۲)ولو فتح علی المصلي إنسان فہذا علی وجہین: إما إن کان الفاتح ہو المقتدي بہ أو غیرہ، فإن کان غیرہ فسدت صلاۃ المصلي، سواء کان الفاتح خارج الصلاۃ أو في صلاۃ أخری غیر صلاۃ المصلي۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: مفسدات الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۴۲؛ و فخر الدین العثماني، تبیین الحقائق، ’’مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۳؛ وجماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۹۹)لاتجب الصلاۃ علی الصبي؛ لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: رفع القلم عن ثلاثۃ: عن المجنون المغلوب علی عقلہ حتی یفیق، وعن النائم حتی یستیقظ، وعن الصبي حتی یحتلم۔ (وزارۃ الأوقاف، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ: ج ۱۵، ص: ۲۶، ۲۷)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 103