Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
Ref. No. 39 / 0000
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔ پوری حدیث بحوالہ نقل فرمائیں تو اس کا جواب لکھا جائے گا۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 41/863
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سنت کے خلاف ہے ، سنت یہ ہے کہ پورا 'السلام علیکم ' کہاجائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Taharah (Purity) Ablution &Bath
Ref. No. 1142/42-372
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
The white substance maybe discharged when you were sleeping in before Asr. You have to repeat the Asr and Maghrib after taking a compulsory bath. Due to only thoughts of wet dream, Ghusl is not obligatory on you until you see semen discharge. The discharge you feel due to lust without visible semen is called ‘Mazi’. Due to Mazi, only wadhu is broken not Ghusl.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
متفرقات
Ref. No. 1493/42-954
وباللہ التوفیق:۔ قبرستان کا سابقہ گیٹ اور موجودہ گیٹ کے درمیان تیس گز زمین قبرستان کی ملک تھی یا محض قبرستان جانے کے لئے بطور راستہ استعمال کی جارہی تھی ۔نیز اس کے برابر میں جو پلاٹ عرفان کا ہے اس کاراستہ مالک زمین نے کہاں دیا۔ مسجد جو بنی ہے وہ قبرستان کی زمین ہے یا الگ سے لی گئی ہے۔ ان تمام تفصیلات کے ساتھ دارالافتاء سے رجوع کریں یا علاقہ کے معتبر مفتیان کرام سے معائنہ کرائیں ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1666/43-1292
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہبہ کے تام ہونے اور ملکیت کا فائدہ دینے کے لیے قبضہ اور تصرف کا مکمل اختیار دینا شرط ہے، لہٰذا والد کا اپنی اولاد میں موجودہ مکان کو مشترکہ طور پر ہبہ کرنا درست نہیں ہوگا، اگروالد نے زبانی طور پر ہبہ کیا ہو اور مکمل قبضہ اور تصرف کا اختیار نہ دیا ہو تو وہ مکان بدستور والد کی ملکیت میں رہے گا اور والد کے انتقال کے بعد ان کا ترکہ شمار ہوکر تمام ورثاء میں ضابطہء شرعی کے موافق تقسیم ہوگا۔ والد اگر اپنی اولاد کے درمیان کمروں کی تقسیم کردیں اور ایک کمرہ اپنے لئے رکھ لیں تو یہ مناسب ہے۔
لأن هبة المشاع باطلة وهو الصحيح كما في مشتمل الأحكام نقلا عن تتمة الفتاوى والهبة الفاسدة لا تفيد الملك على ما في الدرر وغيرها والمسألة مسطورة في التنوير أيضا (العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ، کتاب الھبۃ 2/85)
وفي الجوهرة، وحيلة هبة المشغول أن يودع الشاغل أولا عند الموهوب له ثم يسلمه الدار مثلا فتصح لشغلها بمتاع في يده (في) متعلق بتتم (محوز) مفرغ (مقسوم ومشاع لا) يبقى منتفعا به بعد أن (يقسم) كبيت وحمام صغيرين لأنها (لا) تتم بالقبض (فيما يقسم ولو) وهبه (لشريكه) أو لأجنبي لعدم تصور القبض الكامل كما في عامة الكتب فكان هو المذهب وفي الصيرفية عن العتابي وقيل: يجوز لشريكه، وهو المختار (فإن قسمه وسلمه صح) لزوال المانع (شامی، کتاب الھبۃ 5/692)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 1864/43-1727
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کوئی شخص اپنے باپ سے پیسے لیتاہے اور والد کی طرف سے متعینہ رقم سے زیادہ خرچ کرنے کی صراحۃ یا دلالۃ اجازت نہیں ہے تو زائد پیسہ واپس کرنا ضروری ہے۔ نیز باپ سے جس مقصد کے لئے پیسے مانگے تھے، اسی مقصد میں صرف کرنا ضروری ہے؛ سوال میں مذکور صورت کذب بیانی ہے،اور جھوٹ سے بہرحال پرہیز ضروری ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Business & employment
متفرقات
Ref. No. 2197/44-2345
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ چونکہ اس شخص نے اپنی مصروفیات کی وجہ سے ملازمت اختیار کرنے سےا نکار کردیا، اس لئے اس کا دست برداری کے کاغذ پر صلح کا عوض وصول کرنا درست نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں ایک بڑی تعداد کا کھانا بھی اپنے ذمہ ڈالنا جب کہ برداشت سے باہر ہو، شرعاً درست نہیں ہے۔(۱) ان رسوم کو شرعی اور لازمی درجہ دیدینا تو قطعاً جائز نہیں ہے؛ نیز اگرچندہ کو لازم قرار دیا جائے کہ بہر صورت دینا ہی پڑے گا، تو شرعاً درست نہیں ہے اور اگر اپنی مرضی سے کوئی دیدے تو شرعاً کوئی مضائقہ نہیں ہے؛ نیز ترغیب دلانے میں بھی کوئی حرج نہیں اور جو رقم مسجد میں آئے اس کا استعمال مسجد میں شرعاً درست ہے؛ نیز اگر حسب وسعت مشورہ دہندگان کو کھانا وغیرہ دیا جائے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔(۲)
(۱) عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال امرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: باب الغصب والعاریۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)
(۲) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷) عن أبي الزبیر، عن جابر رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا دعي أحدکم إلی طعام، فلیجب، فإن شاء طعم، وإن شاء ترک۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب النکاح: باب الأمر بإجابۃ الداعي إلی دعوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۶۲، رقم: ۱۴۳۰)
عن نافع، قال: سمعت عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما، یقول: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أجیبوا ہذہ الدعوۃ إذا دعیتم لہا، قال: وکان عبد اللّٰہ بن عمر یأتي الدعوۃ في العرس، وغیر العرس، ویأتیہا وہو صائم۔ عن أبي شریح الکعبي: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال من کان یؤمن باللّٰہ والیوم الآخر فلیکرم ضیفہ جائزتہ یومہ ولیلتہ الضیافۃ ثلاثۃ أیام وما بعد ذلک فہو صدقۃ ولا یحل لہ أن یثوي عندہ حتی یحرجہ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’باب ما جاء في الضیافۃ‘‘: ج۱، ص: ۲، رقم: ۳۷۴۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص446
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اجتماعی عبادت کے اہتمام پر کوئی شرعی دلیل معلوم نہیں ہوتی؛ اس لئے از خود اس کا اہتمام کرنا شرعاً درست نہیں (۱) ہاں اگر اتفاقاً فرد فرد ہوکر اجتماع ہوجائے، تو اس میں مضائقہ نہیں ہے اور بلا ضرورت یا ضرورت سے زائد روشنی اسراف اور ناجائز ہے۔ (۲)
(۱) والمتابعۃ کما تکون في الفعل تکون في الترک أیضاً، فمن واظب علی فعل لم یفعلہ الشارع فہو مبتدع۔ (ملا علي قاری، مرقاۃ المفاتیح، ’’مقدمہ‘‘: ج ۱، ص: ۹۳)
(۲) {وَأٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًاہ۲۶ إِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْٓا إِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِط} (سورۃ الإسراء: ۲۶ -۲۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص494