اسلامی عقائد

Ref. No. 2484/45-3772

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ روٹی کو اس طرح باندھنے کی گنجائش ہے، تاہم کوئی اور طریقہ علاج استعمال کیا جائے تو بہتر ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مستفتی نے جو حضرت مولانا حقانی کے متعلق حضرت حکیم الاسلام قدس سرہ کا جو فیصلہ نقل کیا وہ قرآن وحدیث کی روشنی میں حضرت رحمۃ اللہ نے بیان فرمایا ہے، جو اپنی جگہ پر مسلم اور قابل اعتماد ہے حضرت کے بالمقابل دیگر ہر کس وناکس کی بات معتبر نہیں ہوگی، حضرت کا فیصلہ کافی ہے دوسروں کی طرف قطعاً توجہ کی ضرورت نہیں۔(۱)

(۱) وعن أبي الدرداء قال سئل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ما حد العلم الذي إذا بلغہ الرجل کان فقیہاً، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من حفظ علی أمتي أربعین حدیثاً في أمر دینہا بعثہ اللّٰہ فقیہا وکنت لہ یوم القیامۃ شافعاً وشہیداً۔
قال الطیبي فإن قیل کیف طابق الجواب السؤال أجیب بأنہ من حیث المعنی کأنہ قیل معرفۃ أربعین حدیثا بأسانیدہا مع تعلیمہا الناس … والظاہر أن معرفۃ أسانیدہا لیست بشرط الخ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم: الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۳۰۸، رقم: ۲۵۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص187

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کاغذ دو طرح کے ہوتے ہیں ایک ٹیشو پیپر جو ایسی ہی ضروریات کے لئے بنائے جاتے ہیں، دوسرے عام کاغذ جو حصول علم کا ذریعہ ہے، اس دوسرے کاغذ کے استعمال میں مذکورہ رواج غلط ہے اس کا ترک ضروری ہے، کاغذ لکھا ہوا ہو یا کورا بہر صورت اس پر پیشاب وغیرہ ممنوع ہے۔ کہ کاغذ حصول علم کا ذریعہ ہے اس بناء پر قابل احترام ہے۔
’’وکذا ورق الکتابۃ لصقالتہ وتقومہ ولہ احترام أیضا لکونہ آلۃ کتابۃ العلم‘‘ (۱)
جو حال درخت کے پتوں کا ہے وہی حال کاغذ کا ہے۔یعنی کاغذ بھی پتوں کی طرح چکنا ہے۔ (نجاست دور نہ کرے گا بلکہ اور بھی پھیلا دے گا) اور قیمتی بھی ہے اور شریعت میں اس کی حرمت بھی ہے اس لئے کہ وہ علم کا آلہ ہے۔
’’(أو استنجی برجیع دابۃ أو عظم)، إذا کانت الدابۃ مما یؤکل لحمہ فہو ممنوع الاستنجاء برجیعہا؛ لأنہ جاء ما یدل علی أن الروث یکون علفاً لدواب الجن، والعظم یکون طعاماً للجن، وأما إذا کان من غیر مأکول اللحم فإنہ نجس والنجاسۃ لا تزال بالنجاسۃ، فما یؤکل لحمہ کالإبل والبقر والخیل وغیر ذلک من مأکول اللحم فہذا ہو الذی یکون رجیعہ علفاً لدواب الجن، وأما ما لا یؤکل لحمہ فأرواثہ نجسۃ، فلا تزال بہا النجاسۃ؛ لأنہا تزید النجاسۃ نجاسۃ، ویمکن أیضاً أنہا تنشر النجاسۃ فی أماکن أخری غیر المکان الذي علیہ النجاسۃ في الأصل۔ قولہ: (فإن محمداً -صلی اللّٰہ علیہ وسلم - بريء منہ)، ہذا یدل علی تحریم ذلک، وفیہ: أن ہذہ الأمور التي وصف من فعلہا بأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم برئ منہ من الکبائر، وأنہا حرام، وأنہا لا تسوغ ولا تجوز،(۱) فنہی في الحدیث عن الاستنجاء بالعظم لأنہ غذاء للجن فیستنبط من ذلک کراہیۃ الاستنجاء بالأوراق التي أعدت لکتابۃ العلم لما في ذلک اتلاف حق العلم کما کان إتلاف غذاء الجن بالاستنجاء بالعظم وہذاالحدیث وإن کان سندہ ضعیف ولکنہ قوی درایۃً‘‘.
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في الاستنجاء: ج ۱، ص: ۵۱۳؛و فتا ویٰ رحیمیہ، ج ۴، ص: ۲۵۔
(۱) شرح سنن أبي داؤد لعبد المحسن العباد، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص100

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جس نے وضو میں مسواک کی، پھر نماز پڑھی اس کی فضیلت اس نماز سے ستر گنا بڑھی ہوئی ہے، جو ایسے وضو سے پڑھی جائے، جس میں مسواک نہ کی گئی ہو، وضو کرتے وقت مسواک موجود نہ ہو، تو انگلی سے دانت مل لینا بھی کافی ہوگا، لیکن مسواک کرنا افضل ہے اور بھولنے کی صورت میں نماز میں کھڑے ہونے سے پہلے مسواک کرنا مستحب ہے۔(۱)

(۱)  صلوٰۃ بسواک أفضل من سبعین صلوٰۃ بغیر سواک۔ (علاء الدین السمرقندي، کنز العمال في سنن الأقوال و الأفعال، ’’کتاب الطہارۃ، السواک،‘‘ ج۹، ص:۱۳۸، رقم: ۲۶۱۷۶، بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)؛ و  عن أبي أمامۃ أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: تستاکوا فإن السواک مطہرۃ للفم و مرضاۃ للرب (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، کتاب الطہارۃ و سننہا، باب السواک، ج۱، ص:۲۵، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)؛ فإن لم یجد فیعالج فمہ بالأصبح و السواک أفضل۔ (محمد بن أحمد أبوبکر علاء الدین السمرقندي، تحفۃ الفقہاء، ’’کتاب الطہارت،‘‘ ج۱، ص:۱۳)؛ و إلا إذا نسیہ فیندب للصلوٰۃ کما یندب لإصفرار سن و تغیر رائحۃ، الخ۔ ( ابن عابدین، رد المحتار،’’کتاب الطھارۃ، مطلب: في دلالۃ المفھوم،‘‘ ج۱، ص:۲۳۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص202

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز با جماعت کے لیے کس وقت کھڑا ہونا چاہئے اقامت کے شروع میں یا اس وقت جب مؤذن حی علی الصلاۃ کہے اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے لیکن اختلاف استحباب وعدم استحباب میں ہے، جواز و عدم جواز میں نہیں ہے؛ اس لیے اگر کوئی اقامت کے شروع میں کھڑا نہ ہو، تو اس کی امامت شرعاً درست ہے؛ البتہ اس کو لازم ہے کہ ان لوگوں پر لعن طعن نہ کرے جواقامت کے شروع میں کھڑے ہوتے ہیں؛ کیوں کہ یہ مسئلہ استحبابی ہے اس میں شدت سے کام نہ لیا جائے۔(۱)

(۱) قال المرغیناني: تجوز الصلاۃ خلف صاحب ہوی وبدعۃ ولا تجوز خلف الرافضي والجہمي والقدري والمشبہۃ ومن یقول بخلق القرآن وحاصلہ إن کان ہوی لا یکفر بہ صاحبہ تجوز الصلاۃ خلفہ مع الکراہۃ وإلا فلا، ہکذا في التبیین والخلاصۃ وہو الصحیح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس،  الفصل الثالث في بیان من یصلح إماما لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص38

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: لڑکی کی شادی کرنا موقع اور کفو کے مل جانے پر ضروری ہے اگر مناسب رشتہ مل جائے تو دیر نہ کرنی چاہئے حدیث شریف میں اس کی بہت زیادہ تاکید فرمائی گئی ہے۔کہ لڑکا و لڑکی کے بالغ ہوجانے کے بعد نکاح میں جلدی کرنی چاہئے تاہم امامت اس کی درست ہے۔(۱)
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا خطب إلیکم ممن ترضون دینہ وخلقہ فزوجوہ إلا تفعلوہ تکن فتنۃ في الأرض وفساد عریض‘‘(۲)


(۱) قولہ وکرہ إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق والمبتدع والأعمی وولدالزنا، بیان للشیئین الصحۃ والکراہۃ، أما الصحۃ فمبنیۃ علی وجود الأہلیۃ للصلوٰۃ مع أداء الأرکان وہما موجودان من غیر نقص في الشرائط والأرکان، ومن السنۃ حدیث صلوا خلف کل بر وفاجر۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۶۱۰، زکریا دیوبند)
(۲) أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب النکاح عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ماجاء في من ترضون دینہ فزوجوہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۷، رقم: ۱۰۸۴؛ نعیمیہ دیوبند)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص63

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: تین طلاق کے بعد مطلقہ کے ساتھ رہنا بالکل حرام ہے پردہ اور علیحدگی واجب ہے،(۱) جو شخص تین طلاق دینے کے بعد اسی کے ساتھ شوہر وبیوی کی طرح  رہے وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے، اس کی اذان وامامت مکروہ تحریمی ہے، اور اس کے ساتھ رابطہ وتعلقات رکھنا بھی درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) وفاسق: من الفسق: وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمرہ والزاني وأکل الربا، ونحو ذلک۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص193

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: حدیث شریف میں یہ ارشاد ہے کہ امام کو چاہئے کہ نماز ہلکی پڑھائیں؛ کیوں کہ اس کے پیچھے کمزور، ضعیف، حاجت مند لوگ ہیں ان کی رعایت رکھیں۔(۱) بہتر یہ ہے کہ سنت کے مطابق قرأت کریں کہ اس میں اس چیز کی رعایت رکھی گئی ہے اس کی تفصیل کے لیے آئینہ نماز، میری نماز، کا مطالعہ فرمائیں۔ چوں کہ اکثر ائمہ حافظ نہیں ہوتے، اس لیے جو بھی آیات نماز میں پڑھی جائیں نماز ہوجائے گی اس پر اعتراض نہ کرنا چاہئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پیچھے کمزور بوڑھوں اور ضرورت مندوں کا لحاظ فرماتے تھے تاکہ ان کو تکلیف نہ ہو، امام کو چاہئے کہ بہت زیادہ لمبی نماز نہ پڑھائیں کہ مقتدی اکتا جائیں اور تقلیل جماعت کا باعث بن جائے۔ بہر حال نماز جیسی عظیم الشان عبادت کو بد دلی سے نہ ادا کیا جائے خوب دل لگاکر ادا کیا جائے اور کمزوروں اور بوڑھوں کا خیال رکھا جائے۔ احادیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سب سے کامل اور ہلکی نماز پڑھایا کرتے تھے  بسا اوقات مقتدیوں کی رعایت کی بنا پر انتہائی مختصر سورتیں پڑھنا بھی آپ سے ثابت ہے۔(۲)

(۱) عن ابن مسعود الأنصاری -رضي اللّٰہ تعالٰی عنہ- قال: قال رجل: یا رسول اللّٰہ لا أکاد أدرک الصلاۃ ممایطول بنا فلان فما رأیت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم في موعظۃ أشد غضبا من یومئذ فقال: أیہا الناس إنکم منضرون فمن صلی بالناس فلیخفف فإن فیہم المریض والضعیف وذا الحاجۃ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب العلم، باب لغضب في الموعظۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۹، رقم: ۹۰)
(۲) وینبغي للإمام أن لا یطول بہم الصلاۃ بعد القدر المسنون وینبغي لہ  …أن یراعي حال الجماعۃ ہکذا في الجوہرۃ النیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ،’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘:ج۱، ص: ۱۴۴)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص388

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: خوامخواہ کسی کو کچھ کہنا جس سے دوسروں کو تکلیف ہوتی ہو، جائز نہیں ہے، اس پر ضروری ہے جو مسائل صحیح معلوم نہیں ہیں ان کو بیان نہ کرے ورنہ سخت گنہگار ہوگا۔(۱)
الجواب وباللہ التوفیق: خوامخواہ کسی کو کچھ کہنا جس سے دوسروں کو تکلیف ہوتی ہو، جائز نہیں ہے، اس پر ضروری ہے جو مسائل صحیح معلوم نہیں ہیں ان کو بیان نہ کرے ورنہ سخت گنہگار ہوگا۔(۱)
 {وَاِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَاج} (سورۃ الحجرات: ۹)
{اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ} (سورۃ الحجرات: ۱۰)
{فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَيْئٌ فَاتِّبَاعٌ م بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَآئٌ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍط} (سورۃ البقرہ: ۱۷۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص 33

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: افضل یہی ہے کہ وعظ ونصیحت اور جلسہ وغیرہ کے دوران اگر اذان ہونے لگے تو اذان کے وقت خاموشی اختیار کی جائے اور بغور اذان سنی جائے اور اس کا جواب دیا جائے۔ مگر عقلی اور نقلی دلائل سے پتہ چلتا ہے کہ ضرورتًا اذان کے دوران بات کرنا جائز ہے۔ مثلا درس و تدریس ہو یا کسی کو ضرورتًا مخاطب کرنا ہو وغیرہ، تو ضرورت کے تحت اذان کے دوران بات کرنے کی گنجائش ہے، جیسا کہ امام بخاری رحمۃاللہ نے ایک باب قائم کیا ہے: ’’باب الکلام في الأذان‘‘ اس باب کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ مندرجہ ذیل نصوص ذکر کرتے ہیں کہ حضرت سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ نے اذان کے دوران بات کی اور حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ اگر ایک شخص اذان یا تکبیر کہتے ہوئے ہنس دے تو کوئی حرج نہیں؛ البتہ تعلیم کی غرض سے بہتر ہے کہ وعظ ونصیحت وغیرہ کو روک کر اذان کا جواب دیا جائے تاکہ عوام کو اذان کی اہمیت وفضلیت معلوم ہو سکے۔
’’وتکلم سلیمان بن صرد في أذانہ، وقال الحسن لا بأس أن یضحک وہو یؤذن أو یقیم‘‘(۱)
در مختار میں ہے:’’ویجیب من سمع الأذان بأن یقول بلسانہ کمقالتہ … إلا في الحیعلتین: فیحوقل، وفي: الصلاۃ خیر من النوم … ویدعو عند فراغہ بالوسیلۃ لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم … فیقطع قراء ۃ القرآن لو کان یقرأ بمنزلہ، ویجیب لو أذان مسجدہ کما یأتي، ولو بمسجدٍ، لا؛ لأنہ أجاب بالحضور، وہذا متفرع علی قول الحلواني، وأما عندنا فیقطع ویجیب بلسانہ مطلقا، والظاہر وجوبہا باللسان لظاہر الأمر في حدیث ’’إذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما یقول‘‘(۲)
’’ولا یشتغل بقراء ۃ القرآن ولا بشيء من الأعمال سوی الإجابۃ، ولو کان في القراء ۃ ینبغي أن یقطع ویشتغل بالاستماع والإجابۃ۔ کذا في البدائع‘‘(۳)
نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ: مؤذن کی اذان کا جواب دو۔
’’قولوا مثل ما یقول المؤذن‘‘(۴)
خلاصہ: مرد ہو یا عورت مقرر ہو یا سامع جو کوئی بھی اذان کی آواز سنے اس کا جواب دینا مستحب ہے۔ نیز علامہ ابن الہمامؒ نے فتح القدیر میں اس کی وضاحت کی ہے۔
’’لکن ظاہر الأمر في قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ’’إذا سمعتم المؤذن  فقولوا مثل ما یقول‘‘ الوجوب؛ إذ لا تظہر قرینۃ تصرفہ عنہ، بل ربما یظہر استنکار ترکہ لأنہ یشبہ عدم الالتفات إلیہ والتشاغل عنہ۔ وفي التحفۃ: ینبغي أن لا یتکلم ولا یشتغل بشيء حال الأذان أوالإقامۃ‘‘(۱)

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الکلام في الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۸۶۔
(۲) ابن عابدین، الدرالمختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج۲، ص: ۶۵ - ۶۹؛ وکذا في البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۰،۴۵۱۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان، الفصل الثاني : ومما یتصل بذلک إجابۃ المؤذن‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۴، فیصل، دیوبند۔
(۴) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب ما یقول إذا سمع المنادی‘‘: ج ۱، ص: ۸۶؛ وأخرجہ المسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ:  باب استحباب القول مثل قول المؤذن‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۶، رقم: ۳۸۴۔
(۱) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ:  باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۴۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص170