Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: وتر کی تیسری رکعت میں قنوت سے پہلے تکبیر کہنا واجب ہے اور تکبیر کے وقت ہاتھ اٹھانا سنت ہے، اگر کوئی ہاتھ نہ اٹھائے تو بھی اس کی نماز ہو جائے گی؛ البتہ دعائے قنوت کے لیے تکبیر کہنا علماء کے نزدیک واجب ہے۔
علامہ ابن عابدینؒ نے صراحت کی ہے کہ قنوت سے پہلے تکبیر کہنا واجب ہے اور تکبیر کے وقت ہاتھ اٹھانا سنت ہے۔ چناں چہ رد المحتار میں واجبات الصلاۃکے تحت لکھا ہے:
’’والثامن عشر والتاسع عشر تکبیرۃ القنوت وتکبیرۃ رکوعہ‘‘(۲)
مصنف ابن ابی شیبہ میں روایت ہے: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز وتر میں جب قرائت مکمل کرتے تو تکبیر کہتے پھر قنوت پڑھتے اور دوسری روایت میں اس بات کی صراحت ہے کہ قنوت وتر کی تکبیر کے وقت کانوں تک اپنا ہاتھ اٹھاتے۔
’’عن عبد الرحمن بن الاسود عن أبیہ أن عبد اللّٰہ بن مسعود کان إذا فرغ من القراء ۃ کبر ثم قنت فإذا فرغ من القنوت کبر ثم رکع … عن عبد الرحمن بن الاسود عن أبیہ عن عبد اللّٰہ أنہ کان یرفع یدیہ في قنوت الوتر‘‘(۱)
رد المحتار میں وتر کے بیان کے تحت مذکور ہے:
’’(قولہ ویکبر) أي وجوبا وفیہ قولان کما مرّ في الواجبات، وقدمنا ہناک عن البحر أنہ ینبغي ترجیح عدمہ (قولہ رافعا یدیہ) أي سنۃ إلی حذاء أذنیہ کتکبیرۃ الإحرام‘‘(۲)
(۲) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: واجبات الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۸۔)
(۱) أخرجہ ابن أبي شیبۃ، في مصنفہ: ج ۲، ص: ۲۰۶۔)
(۲) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۹۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص336
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1057 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ راشدہ کے انتقال کے وقت جو کچھ بھی اس کی ملکیت میں تھا چاہے وہ بینک میں شادی سے پہلے یا بعد میں جمع شدہ رقم ہو یا کسی کمپنی میں لگائی گئی رقم ہو سب میں وراثت جاری ہوگی اور شوہر اور لڑکی کے والدین سب کا حصہ ہوگا۔ انشورنس کرانا چونکہ ناجائز ہے اس لئے مرحومہ نے جس قدر مال انشورنس کمپنی کو دیا تھا صرف اس قدر مال وراثت میں تقسیم ہوگا اور جو زائد رقم انشورنس کمپنی دے رہی ہے وہ حرام مال ہے اس کو بلا نیت ثواب غریبوں میں تقسیم کردیا جائے، اس میں نہ تو شوہر کا حصہ لینا درست اور نہ ہی والدین کا۔ دونوں فریق لازمی طور پر اس حرام مال سے احتراز کریں اور اللہ سے ڈریں۔ تاہم اگر سرکاری و غیرسرکاری طور پر صرف بطور تعاون کوئی رقم کسی کی طرف سے دی جائے تو اس کا حقدار وہی ہوگا جس کو وہ رقم دی جائے گی۔ جب مرحومہ کی ساری جائداد﴿ چاہے روپیہ پیسہ ہو یا زمین و مکان جو بھی اس کی ملکیت میں تھے﴾ جمع کرلیں تو سب سے پہلے اگر مرحومہ پر کسی کا قرض ہے تو اس کو ادا کریں پھر بقیہ ما ل فقہ اسلامی کی روشنی میں اس طرح تقسیم کریں گے کہ شوہر کے لیے کل مال کا نصف یعنی آدھا حصہ ہوگا ، باپ کیلئے کل مال کاثلث یعنی تہائی حصہ ہوگا اور ماں کے لئے سدس یعنی چھٹا حصہ ہو گا، مثال کے طور پر بالفرض اگر کل مال 9 لاکھ روپئے کے بقدر ہے تو لڑکی کے شوہر کو چار لاکھ پچاس ہزار ، لڑکی کے باپ کو تین لاکھ اور لڑکی کی ماں کو ایک لاکھ پچاس ہزار ملیں گے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 830 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم-: نماز ایک اہم عبادت ہے، اور نماز کی ادائیگی میں عبادت ہی کا پہلو پیش نظر رہنا چاہئے۔ تاہم یہ بھی مسلم ہے نما ز میں ورزش بھی بہت عمدہ ہے، یہ طبی طور پر تسلیم شدہ ہے، اس میں ماہرین طب کی بات معتبر ہے۔
واللہ اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 38/813
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: امن وسلامتی کا درس مذہب اسلام کے علاوہ میں بھی ہوسکتا ہے، اسلام اس کی نفی نہیں کرتا ہے، تاہم اسلام میں امن کا درس دوسرے دھرموں کے مقابلہ بلند وبالا اور بے مثال ہے۔ تقابل ادیان پر لکھی جانے والی کتابوں کا مطالعہ مفید ہوگا۔واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
طلاق و تفریق
Ref. No. 938/41-70
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فون پر طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ طلاق دینے اور نہ دینے میں اگر دونوں میں اختلاف ہو اور کسی کے پاس کوئی گواہ نہ ہو تو شوہر سے قسم لی جائے گی اگر قسم کھاتا ہے کہ اس نے طلاق نہیں دی تو اس کی بات معتبر ہو گی، قسم کھانے سے انکار کرے گا تو عورت کی بات معتبر ہوگی، تاہم اگر شوہر کے حق میں فیصلہ ہو اور بیوی کو یقین ہے کہ شوہر کے فون سے شوہر نے ہی تین طلاقیں دی ہیں ، تو پھر عورت اس سے علیحدگی اختیار کرے اور اس کو اپنے اوپر قدرت نہ دے۔ ایسے میں شوہر کو کچھ دے کر یامہر معاف کرکے خلع لے لے اور عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرلے۔ اگر شوہر اس پر راضی نہ ہو تو شرعی دارالقضاء سے رجوع کرکے مسئلہ کا حل معلوم کرے۔
وَقَالَ فِي الْخَانِيَّةِ لَوْ قَالَ أَنْتِ طَالِقٌ أَنْتِ طَالِقٌ أَنْتِ طَالِقٌ وَقَالَ أَرَدْت بِهِ التَّكْرَارَ صُدِّقَ دِيَانَةً وَفِي الْقَضَاءِ طَلُقَتْ ثَلَاثًا. اهـ. وَمِثْله فِي الْأَشْبَاهِ وَالْحَدَّادِيِّ وَزَادَ الزَّيْلَعِيُّ أَنَّ الْمَرْأَةَ كَالْقَاضِي فَلَا يَحِلُّ لَهَا أَنْ تُمَكِّنَهُ إذَا سَمِعْت مِنْهُ ذَلِكَ أَوْ عَلِمْت بِهِ لِأَنَّهَا لَا تَعْلَمُ إلَّا الظَّاهِرَ. اهـ. (العقودالدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ 1/37)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 999/41-182
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال ، زید مرحوم کا کل ترکہ 64 حصوں میں تقسیم کیاجائے گا، جن میں سے بیوی کو آٹھ حصے، ہر ایک بیٹے کو 14 حصے اور ہر ایک بیٹی کو 7 حصے دئے جائیں گے۔
چنانچہ 50 لاکھ میں سے بیوی کو 625000 روپئے ملیں گے۔ ہر ایک بیٹے کو 1093750 روپئے اور ہر ایک بیٹی کو 546875 روپئے ملیں گے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 1137/42-371
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میاں بیوی کا جنسی تسکین کے لئے مذکورہ صورت اختیار کرنا مناسب نہیں ہے۔ اور غلبہ کے وقت عورت کا خود کو اس طرح تسکین دینا بھی درست نہیں ہے، احتراز اور خود پر کنٹرول کرنا ضروری ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
آداب و اخلاق
Ref. No. 1482/42-942
الجواب وباللہ التوفیق:
(۱)موجودہ دور میں راستہ سے متعلق مستقل نظام وجود میں آچکا ہے،راستے کی اہمیت کا یہ شعور جو انسانوں میں اب عام ہوا ہے اسلام نے اس جانب بہت پہلے توجہ دلادی ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں راستوں کی افادیت اور کشادگی کے سلسلے میں امام ترمذی ؒ نے ایک روایت نقل کی ہے: راستے کی کم از کم چوڑائی سات ہاتھ یعنی دس فٹ ہے۔ ”اجعلوالطریق سبعۃ اذرع“ (الترمذی: ج ۳، ص:۰۳، رقم: ۵۵۳۱) (۲/۳) مذکورہ دونوں اجزاء مجمل ہیں، ان میں وضاحت نہیں ہے کہ جو مردے کو غفلت یا جان بوجھ کر درج شدہ راستے کی زمین میں دفنایے گیے ہیں وہ قبریں راستے میں کب بنی ہیں؟ قبریں جس جگہ پر بنی ہیں وہ قبرستان کے حق میں موقوفہ ہے یا حکومتی رکارڈ میں وہ راستے ہی کے لیے درج ہے کسی کی مملوکہ زمین ہے؟ البتہ فقہاء نے کتابوں میں صراحت کی ہے کہ قبروں کو روند نا اور اس پر چلنا جائز نہیں ہے، اگر قبر بہت پرانی ہوگئی ہو پھر بھی اس کے اوپر چلنے سے احتیاط کرنی چاہئے۔ ”یکرہ المشي في طریق ظن أنہ محدث حتی إذا لم یصل إلی قبرہ إلا بوطئ قبرترکہ“ (الدر المختار ج۲ص ۵۴۲ .((۴) قبرستا ن کی زمین اگر موقوفہ ہو کسی کی ذاتی ملکیت نہ ہو تو اس زمین پر کسی کے لئے تصرف کرنا شرعا جائز نہیں ہے؛ بلکہ جس مقصدکے لئے وقف ہے اسی مقصد میں استعمال کرنا لازم ہے، اور اگر کئی دہائی قبل مردے دفنائے گئے جس سے قبروں کے نشانات مٹ چکے ہوں اور اس میں مدفون اجسام مٹی بن چکے ہیں تو اس میں نئے مردوں کی تدفین کی جائے اور اگر تدفین کی حاجت نہیں رہی تو اس زمین کو کسی ایسے مصرف میں استعمال کیا جائے جو وقف ہی کہلائے مثلا مدرسہ،مسجد،عید گاہ یا جنازہ گاہ،وغیرہ بنا کر وقف کردیا جائے نیز اگر قبرستان کے وقف ہونے کا کوئی واضح ثبوت نہ ہو تو عام میت کا اس میں بلا روک ٹوک دفن ہوتے رہنا ہی اس کے وقف ہونے کا قرینہ شمار کیا جائے گا، کفایت المفتی میں مزید اس کی وضاحت ہے: مسجد کی طرح قبرستا ن میں بھی عام اموات کا بلا روک ٹوک دفن ہونا اس کے وقف ہونے کے لئے کافی ہے،(کفایت المفتی: ج:۷، ص:۲۱۲) نیز ذکر کردہ عبارتوں سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اگر اس زمین میں لوگ بلا روک ٹوک اپنے مردوں کو دفنا رہے تھے تو یہ وقف کی جائداد شمار ہوگی اس لئے اس میں گاڑیوں کے لئے اسٹینڈ وغیرہ بنانا جائز نہیں ہے۔
”فإن قلت: ھل یجوز أن تبنی علی قبور أہل المسلمین؟ قلت:قال ابن القاسم: لو ان مقبرۃ من مقا بر المسلین عفت فبنی قوم علیھا مسجد الم أر بذلک بأسا، وذلک لأن المقابر وقف من أوقاف المسلمین لدفن موتاھم لا یجوز لأحد أن یملکھا، فإذا درست واستغنی عن الدفن فیھا جاز صرفھا إلی المسجد لأن المسجد أیضاً وقف من أوقاف المسلین لا یجوز تملکہ لأحد“ (عمدۃ القاری: ج ۶، ص: ۳۷۴)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند