فقہ

Ref. No. 1472/42-918

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جريمة اللواط من أعظم الجرائم ، وأقبح الذنوب ، وأسوأ الأفعال۔ اللواط من اشد المعاصی التی تخوفتھا الشریعۃ علی الامۃ لفسادہ للفطرۃ البشریۃ ، قال رسول اللہ ﷺ  ان اخوف مااخاف علی امتی من عمل قوم لوط۔ (ابن ماجہ 2563)۔   وذهب الشافعي في ظاهر مذهبه والإمام أحمد في الرواية الثانية عنه إلى أن عقوبته وعقوبة الزاني سواء .  وذهب الإمام أبو حنيفة إلى أن عقوبته دون عقوبة الزاني وهى التعزير ".  

و لکن ھناك أمر مھم یجب ان یتضح ان الحدود والعقوبات ھی مسؤولية قاضي الحكومة الإسلامية فی المملکۃ الاسلامیۃ خاصۃ۔ ھو یقدرھا وینفذھا لا غیر۔ ویحرم علی المرء ان ینفذ الحدود والعقوبات بنفسہ۔ بل علیہ ان یتوب توبۃ نصوحا و يتخلى عن السيئات جملة ويصمم على عدم الاقتراب منها مرة أخرى،و یصلی ركعتين للتوبۃ معربا عن الندم والعار علی ما اقترفہ من عمل شنیع۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آپ نے چونکہ اپنی مرضی سے مذہب اسلام قبول کیا ہے، اس لئے آپ مسلمان ہوگئے ہیں، مسلمانوں کو چاہئے کہ آپ کے ساتھ مسلمانوں جیسا برتاؤ کریں اور خود آپ بھی اسلام کے مطابق عمل کرتے رہیں، ”إن شاء اللّٰہ“ نجات ومغفرت ہوگی۔

ولو قال الیہودي أو النصراني: لا إلہ إلا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ، تبرأت عن الیہودیۃ ولم یقل مع ذلک دخلت في الإسلام لا یحکم بإسلامہ حتی لو مات لا یصلي علیہ، فإن قال مع ذلک: دخلت في الإسلام فحینئذٍ یحکم بإسلامہ ہکذا في فتاویٰ قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ”کتاب السیر: الباب الثاني، في کیفیۃ القتال“: ج ۲، ص: ۲۱۲)

لو قال الحربي: أنا مسلم صار مسلماً وعصم دمہ ومالہ۔ (الفتاویٰ السراجیہ، ”کتاب السیر، باب الإسلام“: ج ۲، ص: ۲۹۲)

بدعات و منکرات

Ref. No. 1841/43-1672

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شادی بیاہ کی رسموں میں سے ہی اس کو شمار کیاجائے گا، اس لئے اجتناب کیاجائے۔  اس کو پروگرام کہنا ہی اس کے بدعت پونے کی جانب اشارہ ہے۔ اس لئے مہندی وغیرہ کو رسم نہ بنایاجائے۔  اور شادی کو حضور ﷺ کی ہدایات پر عمل  کرتے ہوئے آسان بنایاجائے، رسومات کی وجہ سے مشکل نہ بنایاجائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1927/44-2264

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ گوگل ایڈسینس کمپنی  آپ کی ویب سائٹ پر اشتہار دینے کے بدلہ میں آپ کو کچھ رقم دیتی ہے۔ اگر اشتہار کے مشمولات جائز ہیں تو ان سے ملنے والا معاوضہ بھی جائز ہوگا، اور اگر مشمولات ناجائز ہیں تو ان پر ملنے والی رقم بھی ناجائز ہوگی۔ تاہم یہ بات معلوم ہے کہ گوگل ایڈسینس کمپنی  آپ کی ویب سائٹ پر اشتہار دینے میں آزاد ہوتی ہے،  اس کے مشمولات کا حد جواز میں ہونا ضروری نہیں ہے، اس لئے بہت سے علماء نے گوگل ایدسینس سے پیسے کمانے کو ناجائز لکھا ہے، اور ظاہر ہے  اس جیسی کمپنیاں جائز و ناجائز مشمولات میں فرق نہیں کرسکتی ہیں۔ اس لئے اس سے احتراز کیاجائے۔

"وفي المنتقى: إبراهيم عن محمد - رحمه الله تعالى - في امرأة نائحة أو صاحب طبل أو مزمار اكتسب مالاً، قال: إن كان على شرط رده على أصحابه إن عرفهم، يريد بقوله: "على شرط" إن شرطوا لها في أوله مالاً بإزاء النياحة أو بإزاء الغناء، وهذا؛ لأنه إذا كان الأخذ على الشرط كان المال بمقابلة المعصية، فكان الأخذ معصيةً، والسبيل في المعاصي ردها، وذلك هاهنا برد المأخوذ إن تمكن من رده بأن عرف صاحبه، وبالتصدق به إن لم يعرفه؛ ليصل إليه نفع ماله إن كان لايصل إليه عين ماله، أما إذا لم يكن الأخذ على شرط لم يكن الأخذ معصيةً، والدفع حصل من المالك برضاه فيكون له ويكون حلالاً له." (الفتاوى الهندية 5/ 349)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند 

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2341/44-3522

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جعلی ریویو دکھانا یا جعلی مارکیٹنگ کرنا جھوٹ اور دھوکہ دہی ہے، یہ جھوٹی گواہی کے زمرے میں آئے گا اور حرام ہوگا۔ اس لئے  اس طرح کی دھوکہ دہی سے اجتناب کرنا لازم ہے۔ کاروبار میں جھوٹ اور مکروفریب سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔

صحیح مسلم: (باب قول النبی من غشنا، رقم الحدیث: 101، ط: دار احیاء التراث العربی)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: "من غشنا فلیس منا".)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2370/44-3576

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   دوران نماز  عورت کے لئے بالوں کا چھپانا بھی شرائط نماز میں سے ہے، اس لئے اگر دوپٹہ سرک جائے یا گرجائے اور بال چوتھائی  سے کم مقدار میں کھل جائیں اور  عورت اس کو فوراً ٹھیک کرلے تو نماز درست ہوجائے گی، اور اگر بال چوتھائی مقدار سے زیادہ  کھل گئے یا یہ کہ  تین بار سبحان اللہ کہنے کے بقدر  بال کھلے رہے تو نماز فاسد ہوجائے گی۔ جان بوجھ کر تھوڑی دیر کے لئے بھی اگر بالوں کو کھولا تو نماز فاسد ہوجائے گی۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 408):

"(ويمنع) حتى انعقادها (كشف ربع عضو) قدر أداء ركن بلا صنعه (من) عورة غليظة أو خفيفة  على المعتمد (والغليظة قبل ودبر وما حولهما، والخفيفة ما عدا ذلك) من الرجل والمرأة، وتجمع بالأجزاء لو في عضو واحد، وإلا فبالقدر؛ فإن بلغ ربع أدناها كأذن منع.

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"(وَ) الرَّابِعُ (سَتْرُ عَوْرَتِهِ) وَوُجُوبُهُ عَامٌّ... (وَلِلْحُرَّةِ) وَلَوْ خُنْثَى (جَمِيعُ بَدَنِهَا) حَتَّى شَعْرُهَا النَّازِلُ فِي الْأَصَحِّ". ( كتاب الصلاة، بَابُ شُرُوطِ الصَّلَاةِ، ١ / ٤٠٤ - ٤٠٥، ط: دار الفكر)

رد المحتار میں ہے:

"(قَوْلُهُ: النَّازِلُ) أَيْ عَنْ الرَّأْسِ، بِأَنْ جَاوَزَ الْأُذُنَ، وَقَيَّدَ بِهِ إذَا لَا خِلَافَ فِيمَا عَلَى الرَّأْسِ (قَوْلُهُ: فِي الْأَصَحِّ) صَحَّحَهُ فِي الْهِدَايَةِ وَالْمُحِيطِ وَالْكَافِي وَغَيْرِهَا، وَصَحَّحَ فِي الْخَانِيَّةِ خِلَافَهُ مَعَ تَصْحِيحِهِ لِحُرْمَةِ النَّظَرِ إلَيْهِ، وَهُوَ رِوَايَةُ الْمُنْتَقَى وَاخْتَارَهُ الصَّدْرُ الشَّهِيدُ، وَالْأَوَّلُ أَصَحُّ وَأَحْوَطُ كَمَا فِي الْحِلْيَةِ عَنْ شَرْحِ الْجَامِعِ لِفَخْرِ الْإِسْلَامِ وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى كَمَا فِي الْمِعْرَاجِ. (كتاب الصلاة، بَابُ شُرُوطِ الصَّلَاةِ، مَطْلَبٌ فِي سَتْرِ الْعَوْرَةِ، ١ / ٤٠٥، ط: دار الفكر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فجر کے علاوہ میں نماز کی اطلاع دینے کو فقہاء نے مکروہ لکھا ہے؛ تاہم متأخرین نے اس کی اجازت دی ہے اور اس کو اچھا سمجھا ہے، لوگوں کی سستی کو دیکھتے ہوئے؛ لہٰذا ضرورت کے وقت اتفاقاً ہو، تو کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا۔(۱)

(۱) (ویثوّب الخ) ہو لغۃ مطلق العود إلی الإعلام بعد الإعلام وشرعاً ہو العود إلی الإعلام المخصوص، قولہ: (بعد الأذان) علی الأصح لا بعد الإقامۃ کما ہو اختیار علماء الکوفۃ، قولہ: (في جمیع الأوقات) استحسنہ المتأخرون وقد روي أحمد في السنن والبزار وغیرہما بإسناد حسن موقوفاً علي ابن مسعود ما رآہ المسلمون حسناً فہو عند اللّٰہ حسن۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الأذان‘‘: ص: ۱۹۸)

واستحسن المتأخرون التثویب: التثویب ہو الإعلام بعد الإعلام بحسب ما تعارفہ أہل کل بلدۃ من الأذانین مثل الصلوٰۃ الصلوٰۃ قوموا إلی الصلوٰۃ وغیرہما وقال: إنہ مکروہ في غیر الفجر، فیہ حدیثان ضعیفان أحدہما للترمذي وابن ماجہ۔ (مجمع الأنہر في ملتقی الأبحر، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۶۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص539

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بشرط صحتِ سوال صورت مسئولہ میں اجتہاد کہتے ہیں کسی چیز کی تلاش میں اپنی پوری طاقت خرچ کرنا اور اس سے مراد ہے کسی قضیہ (مسئلہ) کو قیاس کے طریقے سے کتاب وسنت کی طرف لوٹانا۔
’’الاجتہاد بذل الوسع في طلب الأمر، والمراد بہ رد القضیۃ من طریق القیاس إلی الکتاب والسنۃ‘‘(۱) کسی فقیہ کا کسی حکم شرعی کو حاصل (استنباط) کرنے کے لئے اپنی پوری طاقت خرچ کرنے کو بھی اجتہاد کہا جاتا ہے۔
اجتہاد کی شرعی حیثیت یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے: {ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْٓا أَطِیْعُوا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنْکُمْج فَأِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْئٍ فَرُدُّوْہُ إِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ إِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْأٰخِرِط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّأَحْسَنُ تَأْوِیْلاًہع ۵۹}(۲)
اس آیت کریمہ میں ادلۃ اربعہ (چاروں دلیلوں) کی طرف اشارہ ہے۔ {أَطِیْعُوا اللّٰہَ} سے مراد قرآن کریم ہے {أَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ} سے مراد سنت ہے {أُولِی الْأَمْرِ} سے مراد علماء اور فقہا ہیں۔ ان میں اگر اختلاف وتنازع نہ ہو؛ بلکہ اتفاق ہو جائے تو اسے اجماعِ فقہاء کہتے ہیں اور اگر {أُولِی الْأَمْرِ} میں علماء وفقہاء کا اختلاف ہو تو ہر ایک مجتہد اپنی رائے سے اجتہاد کرتا ہے اس نئے اور غیر واضح اختلافی مسئلے کا قرآن وسنت کی طرف لوٹانا اور استنباط کرنا اجتہادِ شرعی یا قیاسِ مجتہد کہلاتا ہے۔
’’قال أبو بکر الجصاص: إن أولی الأمر ہم الفقہاء لأنہ أمر سائر الناس بطاعتہم ثم قال فإن تنازعتم في شيء فردوہ إلی اللّٰہ والرسول فأمر أولی الأمر برد المتنازع فیہ إلی کتاب اللّٰہ وسنۃ نبیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا کانت العامۃ ومن لیس من أہل العلم لیست ہذہ منزلتہم لأنہم لا یعرفون کیفیۃ الرد إلی کتاب اللّٰہ والسنۃ ووجوہ دلائلہما علی أحکام الحوادث فثبت أنہ خطاب للعلماء‘‘(۱)
لہٰذا عوام الناس اور غیر عالم کا یہ مقام نہیں ہے کہ اختلافی مسائل کو کتاب وسنت کی طرف لوٹائے؛ اس لیے کہ لوٹانے کا کیا طریقہ ہے یہ اسے معلوم نہیں ہے اور نہ ہی انہیں نت نئے مسائل مستنبط کرنے کے دلائل کے طریقوں کا علم ہوتا ہے؛ اس لئے یہ مقام اور یہ خطاب علماء اور فقہاء ہی کا ہے۔
اجتہاد کا دروازہ ہرایک کے لیے کھلا ہوا ہو اس کی شریعت اسلامیہ میں گنجائش نہیں ہے، البتہ عام تحقیق وتلاش کتاب وسنت میں تدبر وتفکر، ان کے لطائف اور حقائق کا استخراج ہر زمانے کے تکوینی حوادث سے تشریعی مسائل کو تطبیق دے کر مناسب فتاوی دینا ایسے ہی معاندین اسلام کے نئے نئے شکوک وشبہات اور اعتراضات کی تردید کے لیے نصوص شرعیہ سے استنباط کرنا اصول اسلام کے اثبات اور تحقیق کے لئے کتاب وسنت سے تائید پیدا کرنے کا کام ہر دور میں اہل علم کے لیے باقی ہے اور ہر دور میں اہل عمل کے لئے (مذکورہ) میدان باقی ہے اجتہاد کی یہی نوع کل بھی تھی اور آج بھی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔(۲)

(۱) محمد بن محمد الحسیني، تاج العروس من جواہر القاموس: ج ۷، ص: ۵۳۹۔
(۲) سورۃ النساء: ۵۹۔

(۱) أحمد بن علی أبوبکر الجصاص، أحکام القرآن، (سورۃ النساء: ۵۹) ’’باب في طاعۃ أولی الأمر‘‘: ج ۳، ص: ۱۷۷۔
(۲) حکیم الإسلام قاري محمد طیب صاحب، تحقیق: محمد حسنین أرشد قاسمي، اجتہاد اور تقلید: ص: ۷۹۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص159

متفرقات

Ref. No. 2607/45-4119

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    آپ ﷺ کا معمول رات میں سرمہ لگانے کا تھا، اس لئے رات میں سرمہ لگانا سنت ہے، تاہم دن میں ایسا سرمہ لگانا جس سے زینت مقصود ہوتی ہے مردوں کے لئے مکروہ ہے؛ سادہ سرمہ  یا فائدہ کی غرض سے لگائے جانے والے سرمہ میں  دن میں بھی کوئی کراہت نہیں ہے۔  خواتین کے لئے ہر طرح کا سرمہ  رات اور دن میں درست ہے۔ آپ ﷺ سے اثمد سرمہ لگانا ثابت ہے۔ سرمہ لگانے کا طریقہ یہ ہے کہ رات کو سونے سے قبل دونوں آنکھوں میں تین تین سلائی سرمہ لگائے اور دائیں جانب سے ابتداء کرے۔

"عن عكرمة، عن ابن عباس:’’أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يكتحل بالإثمد كل ليلة قبل أن ينام، وكان يكتحل في كل عين ثلاثة أميال‘‘.(مسند أحمد (5 / 343)
"26149- حدثنا عيسى بن يونس ، عن عبد الحميد بن جعفر ، عن عمران بن أبي أنس ، قال : كان النبي صلى الله عليه وسلم يكتحل بالإثمد ، يكتحل اليمنى ثلاثة مراود واليسرى مرودين.
26150- حدثنا يزيد بن هارون ، عن عباد بن منصور ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال: كان للنبي صلى الله عليه وسلم مكحلة يكتحل منها ثلاثة في كل عين". (مصنف ابن أبي شيبة – (ج 8 / ص 411)
"عن عكرمة، عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن خير ما تداويتم به اللدود والسعوط والحجامة والمشي، وخير ما اكتحلتم به الإثمد، فإنه يجلو البصر وينبت الشعر. وكان لرسول الله صلى الله عليه وسلم مكحلة يكتحل بها عند النوم ثلاثا في كل عين". (جامع الترمذي (رقم الحدیث:2048)
"(لا) يكره (دهن شارب و) لا (كحل) إذا لم يقصد الزينة". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 417)
"ولايكره كحل، ولا دهن شارب كذا في الكنز. هذا إذا لم يقصد الزينة فإن قصدها كره كذا في النهر الفائق، ولا فرق بين أن يكون مفطراً أو صائماً كذا في التبيين". (الفتاوى الهندية (1/ 199)
"لا بأس بالإثمد للرجال باتفاق المشايخ، ويكره الكحل الأسود بالاتفاق إذا قصد به الزينة، واختلفوا فيما إذا لم يقصد به الزينة، عامتهم على أنه لايكره، كذا في جواهر الأخلاطي (الفتاوى الهندية (5/ 359)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:صورت مسئولہ میں جو پانی وضو یا غسل کرنے میں بدن سے گرا وہ پاک ہے مگر چونکہ اب ماء مستعمل (استعمال شدہ پانی) ہو چکا ہے؛ لہٰذا اس سے دو بارہ وضو اور غسل جائز نہیں ہے۔
’’والماء المستعمل لا یجوز استعمالہ في طہارۃ الأحداث والماء المستعمل: ہو ماء أزیل بہ حدث أو استعمل فی البدن علی وجہ القربۃ‘‘(۱)
فقہاء نے اس کی وضاحت کی ہے کہ استعمال شدہ پانی سے پاکی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ اس پانی کی دو قسمیں ہیں:
ایک استعمال شدہ پانی ایسا ہے کہ جس سے کوئی نجاست یعنی گندگی دھوئی جائے۔ یہ پانی نجس ہو جاتا ہے۔
دوسری قسم یہ کہ جسم پاک ہو لیکن قرب الٰہی کے لیے استعمال کیا جائے جیسے وضو کا پانی۔ یہ پانی تو پاک ہوتا ہے؛ لیکن اس سے پاکی حاصل نہیں کی جا سکتی۔
پہلی قسم کا ماء مستعمل نجس ہوتا ہے یعنی ناپاک ہوتا ہے۔ دوسری قسم کا ماء مستعمل ناپاک نہیں ہوتا مگر اس سے جسم کو پاک نہیں کیا جا سکتا ہے یعنی دوبارہ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ایسے پانی کے قطرے کپڑوں پر گر جائیں تو کوئی حرج نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ کپڑے کو ناپاک کرتا ہے۔
’’(وہو طاہر) ولو من جنب وہو الظاہر، لکن یکرہ شربہ والعجن بہ تنزیہاً للاستقذار، وعلی روایۃ نجاستہ تحریماً (و) حکمہ أنہ (لیس بطہور) لحدث بل لخبث علی الراجح المعتمد‘‘(۱)
’’(قولہ: وہو طاہر إلخ) رواہ محمد عن الإمام وہذہ الروایۃ، ہي المشہورۃ عنہ، واختارہا المحققون، قالوا: علیہا الفتوی، لا فرق في ذلک بین الجنب والمحدث۔ واستثنی الجنب في التجنیس إلا أن الإطلاق أولی وعنہ التخفیف والتغلیظ، ومشایخ العراق نفوا الخلاف، وقالوا: إنہ طاہر عند الکل۔ وقد قال المجتبی: صحت الروایۃ عن الکل أنہ طاہر غیر طہور، فالاشتغال بتوجیہ التغلیظ والتخفیف مما لا جدوی لہ، نہر، وقد أطال في البحر في توجیہ ہذہ الروایات، ورجح القول بالنجاسۃ من جہۃ الدلیل لقوتہ‘‘(۱)

(۱) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الطہارات: مدخل‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ، مطلب في تفسیر القربۃ والثواب‘‘: ج ۱، ص: ۳۵۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص177