مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:غالباً مقتدیوں نے ان کے عقائد کی وجہ سے اعتراض کیا ہوگا جو شیعہ ضروریات دین کے منکر ہیں، وہ مسلمان ہی نہیں اور ایشیاء میں ایسے شیعوں کا وجود خال خال ہے جن کو مسلمان نہ کہا جائے، فقہاء نے تصریح کی ہے جو قذف عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے مرتکب نہیں اور الوہیت علی کے قائل نہیں اور ضروریات دین کے منکر نہیں وہ مسلمان ہیں۔ فقہاء نے ان کو صرف بدعتی لکھا ہے؛ اس لئے مقتدیوں کو بلا وجہ اعتراض نہیں کرنا چاہئے، بہر حال ان کے گھر کا کھانا جو کہ اپنی خوشی سے دیتے ہیں، تو امام ومؤذن کو لینا جائز ہوگا اور ان کی دی ہوئی چیزوں کو مسجد میں استعمال کرنا بھی جائز ہوگا(۱)، وہ بھی قربت اور کار خیر سمجھ کر دیتے ہیں تو اس میں شبہ نہ کیا جائے؛ بلکہ قربت اور کار خیر سمجھ کر کافر بھی مسجد میں کچھ دیدے، تو اس کا لینا اور استعمال کرنا بھی جائز ہوگا؛ البتہ ایسا اختلاط جو اپنی دینداری پر اثر انداز ہو اس سے احتراز کرنا ضروری ہے۔(۱)

(۱) وکل من کان من قبلتنا لا یکفر بہا حتی الخوارج الذین یستحلون دماء نا …وأموالنا وسب الرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وینکرون صفاتہ تعالیٰ وجواز رویتہ لکونہ عن تاویل وشبہۃ قال الشامي: تحت قولہ حتی الخوارج أراد بہم من خرج عن معتقد أہل الحق لا خصوص الفرقۃ الذین خرجوا عن الإمام علي رضي اللّٰہ عنہ وکفروہ فیشمل المعتزلۃ والشیعۃ وغیرہم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأمامۃ، مطلب: البدعۃ خمسۃ أقسام‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۰)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص277

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ذاتی مفاد اور کسی سیاسی غرض سے کسی مسجد کے امام کو جس سے کوئی شرعی اختلاف نہیں ہے، الگ یا معزول نہیں کیا جا سکتا یہ بہت بری بات ہے کہ معمولی سے  اختلاف یا ذاتی مفاد کو امام پر یا امامت پر اتارا جائے اس طرح کی گھناؤنی حرکتوں سے بچا جائے کہ یہ حرکت غیر اخلاقی اور غیر شرعی ہے، اگر واقعی امام صاحب میں کوئی کمی ہے، تو ان کو بصد ادب واحترام معروف وسہل انداز میں تمام احترامات کے ساتھ متوجہ کر دینا چاہئے۔ بغیر وجہ شرعی کے موجود ہ امام کو معزول اور الگ کرنا جائز نہیں ہے۔(۱)

(۱) عن عمر و بن الحارث بن المصطلق قال: کان یقال أشد الناس عذابا یوم القیامۃ إثنان إمرأۃ عصت زوجہا، وإمام قوم وہم لہ کارہون، قال ہناد: قال جریر: قال منصور: فسألنا عن أمر الإمام فقیل لنا: إنما عني بہذا الأئمۃ الظلمۃ، فأما من أقام السنۃ، فإنما الإثم علیٰ من کرہہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ماجاء في من أم قوماً وہم لہ کارہون‘‘: ج۱، ص: ۶۶،رقم:۳۵۹)
ولوأم قوماً وہم لہ کارہون، إن الکراہۃ لفساد فیہ، أو لأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ لہ ذلک تحریماً (إلیٰ قولہ) وإن ہو أحق لا، والکراہۃ علیہم الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸)
وفي جامع الفصولین بغض عالمًا أو فقیہًا بلا سبب ظاہر خیف علیہ الکفر۔…(جامع الفصولین، الباب الثامن والثلثون في مسائل کلمات الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۹)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص266

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جن اعضاء کا چھپانا فرض ہے، ان میں سے اگر کوئی عضو چوتھائی یا اس سے زیادہ کھل گیا اور ایک رکن کی مقدار کھلا رہا تو نماز فاسد ہوجائے گی، صورت مسئولہ میں اگر ہاتھوں کو اوڑھنی میں اس طرح چھپا لیا جاتا ہے کہ ان کا چوتھائی یا اس سے زیادہ حصہ نہیں کھلتا یا کھل کر ایک رکن کی مقدار نہیں رہتا تو نماز درست ہوجائے گی لیکن کچھ کھلے رہنے میں بھی کراہت ہے اس لئے احتیاط اسی میں ہے کہ نماز میں پوری آستین کی قمیص پہنی جائے۔(۱)

(۱) ویمنع) حتی انعقادہا (کشف ربع عضو) قدر أداء رکن بلا صنعہ (من عورۃ غلیظۃ أو خفیفۃ) علی المعتمد (والغلیظۃ قبل ودبر وما حولہما، والخفیفۃ ما عدا ذلک) من الرجل والمرأۃ، وتجمع بالأجزاء لو في عضو واحد، وإلا فبالقدر؛ فإن بلغ ربع أدناہا کأذن منع۔ (قولہ: ویمنع إلخ) ہذا تفصیل ما أجملہ بقولہ وستر عورتہ ح (قولہ: حتی انعقادہا) منصوب عطفا علی محذوف: أي ویمنع صحۃ الصلاۃ حتی انعقادہا۔ والحاصل أنہ یمنع الصلاۃ في الابتداء ویرفعہا في البقاء  (قولہ: قدر أداء رکن) أي بسنتہ منیۃ۔ قال شارحہا: وذلک قدر ثلاث تسبیحات۔ ۱ہـ۔ وکأنہ قید بذلک حملا للرکن علی القصیر منہ للاحتیاط، وإلا فالقعود الأخیر والقیام المشتمل علی القراء ۃ المسنونۃ أکثر من ذلک۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’ باب شروط الصلاۃ‘‘: ج۲، ص:۸۱-۸۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص115

 

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 2816/45-4401

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حضرت ہارون علیہ السلام حضرت موسی علیہ السلام کے بھائی تھے، جب حضرت موسی علیہ السلام  الواح دریافت کرنے کے لئے کوہ طور پر گئے تو حضرت ہارون کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ اس دوران سامری نامی ایک شخص نے ایک گوسالہ (بچھڑا) بنایا اور بنی‌ اسرائیل کو اس کی پرستش کی دعوت دی اور حضرت ہارون انہیں اس کام سے روکنے میں ناکام رہے۔ جب حضرت موسی علیہ السلام واپس آئے تو آپ نے ان کے ساتھ دینی حمیت میں سختی کی اور پھر اللہ سے  دونوں کے لئے مغفرت طلب کی ۔

قرآنی آیات کے مطابق جب حضرت موسی کو نبوت کے ساتھ مبعوث کیا گیا تو آپ نے اللہ  سے درخواست کی کہ حضرت ہارون کو ان کا وزیر بنا دیا جائے کیونکہ حضرت ہارون حضرت موسی کی نسبت فصاحت و بلاغت کے مالک تھے۔اسی طرح قرآنی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون کو یکتا پرستی کی طرف دعوت دینے میں بھی حضرت ہارونؑ حضرت موسیؑ کے ساتھ تھے۔ قرآن میں حضرت ہارون کی نبوت کی طرف اشارہ ہوا ہے۔سورہ صافات میں کتاب آسمانی سے بہرہ مند ہونا، صراط مستقیم کی ہدایت اور نیکوکار ہونے میں حضرت موسی اور حضرت ہارون دونوں کو ایک دوسرے کا شریک قرار دیا گیا ہے۔ ان تمام تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ  حضرت موسی علیہ السلام کو اصل کہنا درست ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1061 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم: عام حالات میں جمعہ کے دن غسل کرنا سنت ہے۔ ہاں اگر کسی شخص کو حدث اکبر لاحق ہو تواس پر غسل فرض  ہوگا۔  ایک حدیث میں ہے ۔ ،من توضا یوم الجمعة فبھا ونعمت ومن اغتسل فالغسل افضل یعنی جس نے جمعہ کے دن وضو کیا اس نے ٹھیک کیا اور جس نے غسل کیا  تو اس نے افضل کام کیا۔ رہا سوال میں مذکور حدیث کا جواب، تو اس  کے متعلق اسی جگہ حاشیہ میں اس کی تفصیل درج ہے، وہ یہ ہے۔ قال النووی المراد بالوجوب وجوب اختیار کقول الرجل لصاحبہ حقک واجب علی قالہ علی القاری وقال محمد فی موطاہ اخبرنا محمد بن ابان بن صالح عن حماد عن ابراہیم النخعی قال ای حماد سالتہ عن الغسل یوم الجمعة والغسل من الحجامة والغسل فی العیدین قال ان اغتسلت فحسن وان ترکت فلیس علیک فقلت لہ الم یقل رسول اللہ ﷺ من راح الی الجمعة فلیغتسل قال بلی ولکن لیس من الامور الواجبة وانما ھو کقولہ تعالی واشھدوا اذا تبایعتم الحدیث ویویدہ مااخرج ابوداود عن عکرمة ان ناسا من اھل العراق جاووا فقالوا یا ابن عباس اتری الغسل یوم الجمعة واجبا فقال لاولکنہ طھور وخیر لمن اغتسل ومن لم یغتسل فلیس علیہ بواجب۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 39 / 0000

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والد کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹانا والد کا تعاون ہے؛ صرف اس وجہ سے وراثت میں زید کو زیادہ حصہ نہیں ملے گا، والد کے ساتھ کام کرتے ہوئے اگر کوئی ماہانہ تنخواہ وغیرہ طے ہوئی تھی تو اس کا حساب کرکے پہلے اس کو دیدیا جائے گا پھر وراثت ےتقسیم ہوگی اور تمام لڑکوں کو برابربرابر حصہ ملے گا۔ تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ قرض وغیرہ کی ادائیگی کے بعد کل جائداد کو 72 حصوں میں تقسیم کرکے 9 حصے مرحوم کی بیوی کو، 7 حصے بیٹی کو، اور چودہ چودہ حصے ہر ایک بیٹے کو ملیں گے۔

    واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 1008/41-167

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صدقات واجبہ کسی سید کے لئے حلال نہیں ۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ جو سید ضرورتمند ہیں  ان کی  اللہ کے واسطہ مدد کریں۔  للہ کا مطلب ہے اللہ کی رضا کے لئے ان کی نفلی صدقات سے مدد کریں۔ مسلمانوں پر صرف زکوۃ ہی فرض نہیں ہے بلکہ حالت اور ضرورت کے لحاظ سے  بہت ساری چیزیں بھی لازم ہوتی ہے، اسی لئے حدیث میں فرمایا کہ  زکوۃ کے علاوہ بھی تمہارے مال میں حق ہے۔  کوئی سید اگر ضرورتمند ہو اور مسلمان اس کی نفلی صدقات سے مدد نہ کریں تو یہ شرم کی بات ہے۔ اللہ ہمیں اس فیملی کی قدر کی توفیق بخشے، آمین۔    

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ محمد اسعد جلال قاسمی غفرلہ

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

Ref. No. 1355/42-758

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کوئی جائز کام کی نذر ہو تو ٹھیک ہے اور یہ در اصل وقف کرنے کی نذر ہے ، اس لئے مسجد میں بھی وہ چیز دی  جاسکتی ہے۔  لیکن اگر چادر چڑھانے وغیرہ کی نذر ہے تو نذر منعقد نہیں ہوگی اور جوکچھ مسجد میں بطور صدقہ دینا چاہے دے سکتاہے۔

ولذا صححوا النذر بالوقف لأن من جنسه واجبا وهو بناء مسجد للمسلمين كما يأتي مع أنك علمت أن بناء المساجد غير مقصود لذاته (شامی، کتاب الایمان 3/735) (ومنها ) أن يكون قربةً فلايصح النذر بما ليس بقربة رأسا كالنذر بالمعاصي بأن يقول : لله عز شأنه علي أن أشرب الخمر أو أقتل فلاناً أو أضربه أو أشتمه ونحو ذلك؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: { لا نذر في معصية الله تعالى}، وقوله : عليه الصلاة والسلام: { من نذر أن يعصي الله تعالى فلايعصه }، ولأن حكم النذر وجوب المنذور به، ووجوب فعل المعصية محال، وكذا النذر بالمباحات من الأكل والشرب والجماع ونحو ذلك لعدم وصف القربة لاستوائهما فعلاً وتركاً (بدائع الصنائع 5/82)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1585/43-1117

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شادی کی تمام تیاریاں مکمل ہونے کے بعد شادی سے ایک دودن پہلے کچھ ضروری چیزیں بھیج دی جاتی ہیں تاکہ دلہن کا کمرہ سیٹ کرنے میں آسانی ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، اس کو رشوت کہنا درست نہیں ہے۔

ذهب جمهور الفقهاء إلى أنه لا يجب على المرأة أن تتجهز بمهرها أو بشيء منه، وعلى الزوج أن يعد لها المنزل بكل ما يحتاج إليه ليكون سكنا شرعيا لائقا بهما. وإذا تجهزت بنفسها أو جهزها ذووها فالجهاز ملك لها خاص بها (الموسوعة الفقهية الكويتية ، 16/166، دار السلاسل)

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألا لا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه»(" إلا بطيب نفس") أي: بأمر أو رضا منه (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، 5/1974، دار الفكر) "والمعتمد البناء على العرف كما علمت (شامی باب المھر 3/157)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

آداب و اخلاق

Ref. No. 1753-43-1470

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی کو بلانے کے لئے ایسے الفاظ کا استعمال کرنا چاہئے جن میں پیار اور نرمی ہو، اور سننے والے کو برا محسوس نہ ہو، اگر بہو کو اس طرح بلانے سے اپنائیت کا احساس ہوتاہے تو اس طرح بلانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اکثر لوگ  بے تکلف اس طرح بولتے ہیں اور سننے والے کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی ہے بلکہ ایک گونہ اپنے پن کا احساس ہوتاہے ۔ اس لئے کوئی حرج نہیں ہے۔

عن علي بن أبي طالب قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "إن الله رَفيق يحب الرفق، ويعطي علي الرفق ما لا يعطي علي العنف" (مسند احمد 1/552)

عن جرير بن عبد الله البجلي، قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "من يحرم الرفق يحرم الخير" (سنن ابن ماجہ، باب الرفق 4/646)

عن عائشة، عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: "إن الله رفيق يحب الرفق في الأمر كله" (سنن ابن ماجہ، باب الاحسان الی الممالیک 4/647)

عَنْ أَنَسٍ، عَنْ النَّبِيِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ: "مَا كانَ الرِّفْقُ فِي شَيْءٍ قَطُّ إلاَّ زَانَهُ، ء وَلا كَانَ الْفُحْشُ فِي شيءٍ قَطُّ إِلاَّ شَانَهُ" (موارد الظمآن الی زوائد ابن حبان، باب ماجاء فی الرفق 6/187)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند