اسلامی عقائد

Ref. No. 1129/42-416

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ ﷺ کی ساری سنتیں اہم ہیں۔ بڑی اور سب سے بڑی کی کوئی اصطلاح کتابوں میں نہیں ملتی ہے۔ ہاں سنت مؤکدہ اور غیرمؤکدہ کی تعبیر استعمال ہوتی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 1351/42-754

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Crows are of two types. A crow that lives in residential areas and is seen on houses which catches the bread with its claws and also puts its mouth in the dirt, this type of crow is haram. However, the crow which is found in forests and farms, and feeds on the grain is halal. Maulana Rashid Ahmad Gangohi has quoted this from the books of Fatwa and it is not his own fatwa. In addition, the Shari'ah way of recognizing halal and haram birds is that the birds which employ claws to hunt other small birds, such as hawks, kites, eagles, etc., are haram. And others are halal.

أَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم نهى عَن كل ذِي نَاب من السبَاع، وَعَن كل ذِي مخلب من الطُّيُور (عمدۃ القاری، باب عسب الفحل 12/105)

 عن إبراهيم قال: كانوا يكرهون كل ذي مخلب من الطير وما أكل الجيف وبه نأخذ، فإن ما يأكل الجيف كالغداف والغراب الأبقع مستخبث طبعا، فأما الغراب الزرعي الذي يلتقط الحب مباح طيب، وإن كان الغراب بحيث يخلط فيأكل الجيف تارة والحب أخرى فقد روي عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - أنه يكره، وعن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس بأكله وهو الصحيح على قياس الدجاجة، كذا في المبسوط (الھندیۃ، الباب الثالث فی المتفرقات 5/290)

And Allah knows best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Miscellaneous

Ref. No. 1582/43-1113

In the name of Allah the most Gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

In normal circumstances, availing insurance policy is Haram as it involves interest and gambling. However, in case of a severe health problem, if you have no other choice than the one mentioned above, while the financial situation is not good, the cost of liver transplant is too high and the life of the father is also in danger, then availing insurance facility in such a critical condition is allowable.

الربا ھو الفضل المستحق لأحد المتعاقدین فی المعاوضة الخالی عن عوض شرط فیہ (ھدایہ آخرین 2/82)

 ﴿وَلَا تَأْکُلُوْا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ أي بالحرام، یعني بالربا، والقمار، والغصب والسرقة (معالم التنزیل 2/50) لأن القمار من القمر الذي یزداد تارةً وینقص أخریٰ۔ وسمی القمار قمارًا؛ لأن کل واحد من المقامرین ممن یجوز أن یذہب مالہ إلی صاحبہ، ویجوز أن یستفید مال صاحبہ، وہو حرام بالنص (شامی، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء، فصل في البیع 9/577 ط:زکریا دیوبند)۔

(الْمَادَّةُ 18) : الْأَمْرُ إذَا ضَاقَ اتَّسَعَ. يعني أَنَّهُ ظهرت َمَشَقَّةٌ فِي أَمْرٍ يُرَخص فيه ويوسع (الْمَادَّةُ 19) : لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ. (الْمَادَّةُ 20) : الضَّرَرُ يُزَالُ. (الْمَادَّةُ 21) : الضَّرُورَاتُ تُبِيحُ الْمَحْظُورَاتِ. (الْمَادَّةُ 22) : مَا أُبِيحَ لِلضَّرُورَةِ يَتَقَدَّرُ بِقَدْرِهَا. (الضرورات تقدر بقدرها) (مجلۃ الاحکام العدلیۃ، المقالۃ الثانیۃ فی القواعد الکلیۃ 1/18)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

نکاح و شادی
Ref. No. 2259/44-2425 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس طرح زبان سے طلاق دینے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے اسی طرح لکھ کر طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے؛ نیزاپنی بیوی کو طلاق دینے کے لئے بیوی کی جانب نسبت کرکے طلاق بولنا یا لکھنا ضروری ہے، اگر صرف کاغذ پر لفظ 'طلاق' لکھا اور بیوی کی جانب کوئی نسبت نہیں کی تو محض کاغذ پر لکھنے سے لکھنے والے کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی ۔ لہذا اگر لکھتے وقت طلاق کی نیت تھی اور بیوی کی طرف نسبت بھی کیا تھاتو طلاق واقع ہوجائے گی۔ پھر یہ نیت کرنا کہ طلاق دوں اور طلاق واقع نہ ہو عبث ہے؛اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ الفتاویٰ الہندیۃ (6 / 442): "ثم الکتابۃ علیٰ ثلاثۃ أوجہٍ : مستبین مرسوم أي معنون وہو یجري مجری النطق في الحاضر والغائب علیٰ ما قالوا ، ومستبین غیر مرسوم کالکتابۃ علی الجدار وأوراق الأشجار ، وہو لیس بحجۃ إلا بالبینۃ والبیان ، وغیر مستبین کالکتابۃ علی الہواء والماء وہو بمنزلۃ کلام غیر مسموع ، فلا یثبت بہ الحکم ." "عن حماد قال: إذا کتب الرجل إلی امرأته -إلی- أمابعد! فأنت طالق فهي طالق، وقال ابن شبرمة: هي طالق". (المصنف لابن أبي شیبة، کتاب الطلاق، باب في الرجل یکتب طلاق امرأته بیده، مؤسسة علوم القرآن ۹/۵۶۲، رقم: ۱۸۳۰۴) فتاوی شامی میں ہے: وإن كانت مرسومةً يقع الطلاق نوى أو لم ينو". المحیط البرھانی: (274/3، ط: دار الکتب العلمیۃ) يجب أن يعلم بأن الكتابة نوعان: مرسومة وغير مرسومة. فالمرسومة: أن تكتب على صحيفة مصدرا ومعنونا وإنها على وجهين: الأول: أن تكتب هذا كتاب فلان بن فلان إلى فلانة أما بعد: فأنت طالق. وفي هذا الوجه يقع الطلاق عليها في الحال. وإن قال: لم أعن به الطلاق لم يصدق في الحكم، وهذا لأن الكتابة المرسومة بمنزلة المقال. واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مساجد یا دیگر مقامات میں لوگوں کو جمع کرکے ذکر بالجہر کا اہتمام کرنا احادیث سے ثابت نہیں ہے اس سے آئندہ ایک نئی چیز کے ایجاد کا خطرہ ہے(۱) ہاںاگر کوئی صاحبت نسبت عالم دین ہے جن کو اپنے اکابر سے اجازت ملی ہوئی ہے، تو اپنی نگرانی میں اپنے متعلقین کو اکٹھا کر کے ذکر کی مشق کرائے، تو اکابر سے اس کا ثبوت ہے، ہر کس و ناکس کو اس کی اجازت نہیں ہے۔(۱)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (مشکوٰۃالمصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۷، رقم: ۱۴۰)
(۱) و أجمع العلماء خلفا وسلفا علی استحباب ذکر اللّٰہ جماعۃ في المساجد وغیرہا من غیر نکیر إلا أن یشوش جہر ہم بالذکر علی نائم أو مصل أو قاري قرآن کما ہو مقرر في کتب الفقہ۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’فصل في صفۃ الأذکار‘‘: ص: ۳۱۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص374

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا مٹیالا پانی جس کی رقت وسیلان باقی ہو اور اس کو پانی ہی کہا جاتا ہو اس سے وضو کرنا اور کپڑے کو پاک کرنا درست ہے؛ اس لیے صورت مسئولہ میں گدلے پانی سے وضو کرنا درست ہے۔
’’الطین والجص والنورۃ فإن التوضؤ بالماء الذي اختلط بہ ہذہ الأشیاء یجوز بالاتفاق إذا کان الخلط بہ قلیلاً … فإن کانت رقتہ باقیۃ جاز الوضوء بہ وإن صار ثخیناً بحیث زالت عنہ رقتہ الأصلیۃ لم یجز‘‘(۲)
’’الماء الذي خالطہ شيء من الطین یجوز الوضوء بہ اجماعاً لبقاء اسم الماء المطلق‘‘(۳)
(۲)  بدر الدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الطہاۃر: الطہارۃ بالماء الذي خالطہ شيء طاہر‘‘: ج ۱، ص: ۳۶۵۔
(۳) عبد اللّٰہ بن محمود الحنفي، الاختیار لتعلیل المختار، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في الماء الذین یجوز التطہیر بہ، حکم الماء الراکد‘‘: ج ۱، ص: ۶۶۔(دارالرسالۃ العالمیۃ، لبنان)


 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص83

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:مذکورہ صورت میں پانی پینے سے منہ میں پانی چلا گیا، تو غسل کا ایک فرض کلی کرنا (منہ میں پانی پہونچانا) ادا ہو گیا، اور غسل درست ہو گیا۔(۳)

(۳) و شرب الماء عبأ یقوم مقام غسل الفم لامصاً۔ ( الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، کتاب الطہارۃ، فصل لبیان فرائض الغسل، ص:۱۰۲) ؛ وإذا نسي المضمضۃ والاستنشاق في الجنابۃ حتی صلی لم یجز(السرخسي، المبسوط، ’’باب الوضوء والغسل‘‘ ج۱، ص:۶۲، بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)؛ و نسي المضمضۃ أو جزئً من بدنہ فصلی ثم تذکر فلو نفلا لم یعد لعدم صحۃ شروعہ قولہ (لعدم صحۃ شروعہ) أي والنفل إنما تلزم إعادتہ بعد صحۃ الشروع فیہ قصدا، و سکت عن الفرض لظہور أنہ یلزمہ الإتیان بہ مطلقا۔(ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في أبحاث الغسل‘‘ج۱، ص:۲۸۹، مکتبۃ زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص296

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: تنہا خواتین کی جماعت بغیر مرد کی امامت کے مکروہ ہے عورتوں کے لیے اصل حکم یہ ہے کہ گھروں میں تنہا تنہا نماز پڑھ لیا کریں اور اگر گھر میں مرد امام نماز پڑھا رہا ہو، تو عورتیں ان کے ساتھ جماعت میں بھی شریک ہو جائیں۔ اگر تنہا عورتوں نے جماعت کر ہی لی تو ایسی صورت میں عورت امام آگے نہیں کھڑی ہوگی؛ بلکہ درمیان صف میں کھڑی ہو گی؛ لیکن عورتوں کی جماعت کا معمول یا نظام بنانا مکروہ ہے۔ عہد نبوی یا عہد صحابہؓ سے انفرادی طور پر جماعت کے نماز کا ثبوت ملتا ہے؛ لیکن باضابطہ نظام بنانے کا ثبوت نہیں ملتاہے جب کہ بعض آثار سے ممانعت بھی ثابت ہے۔
’’عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا خیر في جماعۃ النساء … الخ‘‘(۱)
’’فعلم أن جماعۃ النساء وحدہن مکروہۃ‘‘(۲)
’’عن علي بن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ أنہ قال: لاتؤم المرأۃ، قلت: رجالہ کلہم ثقات‘‘(۳)
تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:
’’(و) یکرہ تحریما (جماعۃ النساء) ولو في التراویح في غیر صلاۃ جنازۃ (لأنہا لم تشرع مکررۃ)، فلو انفردن تفوتہن بفراغ إحداہن؛ … (فإن فعلن تقف الإمام وسطہن) فلو قدمت أثمت‘‘ (قولہ: ویکرہ تحریما) صرح بہ في الفتح والبحر (قولہ: ولو في التراویح) أفاد أن الکراہۃ في کل ما تشرع فیہ جماعۃ الرجال فرضا أو نفلا … (قولہ: فلو تقدمت) أثمت، أفاد أن وقوفہا وسطہن واجب، کما صرح بہ في الفتح، وأن الصلاۃ صحیحۃ، وأنہا إذا توسطت لاتزول الکراہۃ، وإنما أرشدوا إلی التوسط؛ لأنہ أقل کراہیۃ من التقدم، کما في السراج بحر‘‘(۱)
’’حدثنا وکیع، عن ابن أبي لیلی، عن عطاء، عن عائشۃ، أنہا کانت تؤم النساء تقوم معہن في الصف‘‘(۲)
’’عن قتادۃ، عن أم الحسن، أنہا رأت أم سلمۃ زوج النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: تؤم النساء تقوم معہن في صفہن‘‘(۳)

(۱) رواہ الإمام أحمد   في مسندہ، ’’ ‘‘: ج ۶، ص: ۱۵۴۔
(۲)ظفر أحمد عثماني،  إعلاء السنن، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفات المؤذن‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۷، (ادارۃ القرآن و العلوم الإسلامیۃ، کراچی)
(۳)ظفر أحمد عثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الصلاۃ، باب کراہۃ جماعۃ النساء‘‘: ج ۴، ص: ۲۴۳
(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب إذا صلی الشافعي قبل الحنفي ہل الأفضل الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۵۔
(۲) مصنف ابن أبي شیبۃ، ’’کتاب الصلاۃ، باب المرأۃ  تؤم النساء‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۰، رقم: ۴۹۵۴۔
(۳) أیضًا۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص507

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: بچہ کا پیشاب بھی اسی طرح ناپاک ہے جس طرح بڑے کا ناپاک ہے۔ یہ پیشاب نجاست غلیظہ ہے، اگر بچہ کا پیشاب کپڑے پر ایک درھم سے زائد لگ جائے تو اس کا دھونا اور پاک کرنا ضروری ہے، ورنہ نماز نہیں ہوگی۔ اور اگر ایک درھم سے کم لگاہو تو نمازگرچہ درست ہوجائے گی مگر جان بوجھ کر ایسے کپڑے میں نماز پڑھنا ٹھیک نہیں ہے۔
’’وکذلک بول الصغیر والصغیرۃ، أکلاَ أو لا، کذا في الاختیار شرح المختار‘‘(۱)
’’وقال الطحاوي: النضح الوارد في بول الصبي المراد بہ الصبّ لما روي ھشام بن عروۃ عن أبیہ عن عائشۃ قالت: أتی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بصبي فبال علیہ، فقال صبّوا علیہ الماء صبًّا‘‘(۲)
’’النجاسۃ إذا کانت غلیظۃ وھي أکثر من قدر الدرھم فغسلھا فریضۃ والصلاۃ بھا باطلۃ وإن کانت مقدار درھم فغسلھا واجب والصلاۃ معھا جائز وإن کانت اقل من قدر الدرھم فغسلھا سنۃ‘‘(۳)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب السابع في النجاسۃ وأحکامہا، الفصل الثاني في الأعیان النجسۃ، النوع الأول: المغلظۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۰۔
(۲) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الطہارۃ، باب تطہیر النجاسات، الفصل الثاني‘‘: ج ۲، ص: ۱۸۸، ۱۸۹۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الأول في الطہارۃ وستر العورۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص285

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مرد یا عورت کا ستر حالت نماز میں اگر غلطی یا بھولے سے چوتھائی حصہ کھل گیا اور وہ ایک رکن یعنی تین مرتبہ سبحان اللہ کہنے کے بقدر کھلا رہا تو نماز فاسد ہوجائے گی اور اگر ستر چوتھائی سے کم کھلا یا ایک رکن سے کم کھلا رہا تو نماز فاسد نہیں ہوگی اور اگر چوتھائی ستر عمداً و جان بوجھ کر کھولا تو نماز فوراً فاسد ہوجائے گی خواہ ایک رکن سے کم ہی کھلا ہو، نماز میں عورت کی کہنی کا بھی وہ ہی حکم ہے ، جو مرد کے ناف و گھٹنہ کے درمیان کا ہے۔
’’والرابع ستر عورتہ ووجوبہ عام ولو في الخلوۃ علی الصحیح… وہي للرجل ما تحت سرتہ إلی ما تحت رکبتہ … وللمرأۃ جمیع بدنہا حتی شعرہا النازل في الأصح خلا الوجہ والکفین والقدمین علی المعتمد‘‘(۱)

(۱) (قولہ : ویمنع إلخ) ہذا تفصیل ما أجملہ بقولہ: وستر عورتہ ح ۔ (قولہ: حتی انعقادہا) منصوب عطفا علی محذوف: أی ویمنع صحۃ الصلاۃ حتی انعقادہا۔ والحاصل أنہ یمنع  الصلاۃ فی الابتداء ویرفعہا في البقاء ح۔ (قولہ : قدر أداء رکن) أي بسنتہ منیۃ۔ قال شارحہا: وذلک قدر ثلاث تسبیحات اہـ۔ وکأنہ قید بذلک حملا للرکن علی القصیر منہ للاحتیاط، وإلا فالقعود الأخیر والقیام المشتمل علی القراء ۃ المسنونۃ أکثر من ذلک، ثم ما ذکرہ الشارح قول أبي یوسف۔ واعتبر محمد أداء الرکن حقیقۃ، والأول المختار للاحتیاط کما في شرح المنیۃ، واحترز عما إذا انکشف ربع عضو أقل من قدر أداء رکن فلا یفسد اتفاقا، لأن الانکشاف الکثیر من الزمان القلیل عفو کالانکشاف القلیل في الزمن الکثیر، وعما إذا أدی مع الانکشاف رکنا فإنہا تفسد اتفاقا، قال ح: واعلم أن ہذا التفصیل في الانکشاف الحادث في أثناء الصلاۃ، أما المقارن لابتدائہا فإنہ یمنع انعقادہا مطلقا اتفاقا بعد أن یکون المکشوف ربع العضو، وکلام الشارح یوہم أن قولہ: قدر أداء رکن، قید في منع الانعقاد أیضا۔ (قولہ بلا صنعہ) فلو بہ فسدت في الحال عندہم قنیۃ قال ح: أي وإن کان أقل من أداء رکن اھـ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’مطلب في ستر العورۃ‘‘: ج۲، ص: ۸۱، ۸۲؛ و الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’ باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۵ تا ۷۸، زکریا۔)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص107