Frequently Asked Questions
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 2308/44-3460
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کی والدہ نے غلطی سے بلاقصد و ارادہ مذکورہ الفاظ کہے ہیں ، اس لئے اس سے کفر لازم نہیں آیا، تاہم ان کو استغفار پڑھادیں اور صحیح کلمہ یاد کرانے کی کوشش جاری رکھیں۔ ومن تکلم بھا مخطئًا أو مکرہًا لا یکفر عند الکل۔(۔ شامی)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:عورتوں کے قبرستان میں جانے کی ابتداًء ممانعت کی گئی تھی بعد میں اجازت دیدی گئی جس کی تصریح حدیث بخاری شریف میں موجود ہے؛ اس لئے عورتوں کا قبرستان میں جانا تو جائز ہے،(۱) لیکن وہاں جاکر نوحہ و گریہ وزاری بالکل منع اور ناجائز ہے، قبرستان میں جانے کی اجازت بھی اس صورت میں ہے کہ کوئی خطرہ نہ ہو اور محرم ساتھ ہو۔ اور غلاف یا چادر کا چڑھانا جائز نہیں ہے(۲) رات کو فاتحہ پڑھنے کے لئے آنے والوں کی سہولت کے پیش نظر روشنی کے لئے چراغ بھی جلایا جا سکتا ہے کسی اور وجہ سے نہیں جو چیز قبر پرچڑھائی گئی ہو اس کا کھانا بھی درست نہیں۔
(۱) (قولہ وقیل تحرم علی النساء إلخ) قال الرملي أما النساء إذا أردن زیارۃ القبور إن کان ذلک لتجدید الحزن والبکاء والندب علی ما جرت بہ عادتہن فلا تجوز لہن الزیارۃ، وعلیہ حمل الحدیث (لعن اللّٰہ زائرات القبور)، وإن کان للاعتبار والترحم والتبرک بزیارۃ قبور الصالحین فلا بأس إذا کن عجائز ویکرہ إذا کن شواب کحضور الجماعۃ في المساجد۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، کتاب الجنائز: فصل: السلطان أحق بصلاتہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۲)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کنت نہیتکم عن زیارۃ القبور فزوروہا۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الجنائز: فصل في الذہاب إلی زیارۃ القبور‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۴)
عن أبی ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ،: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم لعن زوارات القبور ]ص: ۳۶۳[) وفي الباب عن ابن عباس، وحسان بن ثابت: (ہذا حدیث حسن صحیح) وقد رأی بعض أہل العلم أن ہذا کان قبل أن یرخص النبي صلی اللّٰہ علیہ و سلم في زیارۃ القبور، فلما رخص دخل في رخصتہ الرجال والنساء، وقال بعضہم إنما کرہت زیارۃ القبور للنساء لقلۃ صبرہن وکثرۃ جزعہن۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الجنائز: باب ما جاء في کراہیۃ زیارۃ القبور للنساء‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۳، رقم: ۱۰۵۶)
(۲) وشر الأمور محدثاتہا وکل بدعۃ ضلالۃ، وفي روایۃ: وشر الأمور مجدثاتہا، وکل محدثۃ بدعۃ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ: ج ۲۳، ص: ۲۴۱، رقم: ۱۴۹۸۳)
تکرہ الستور علی القبور۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’فصل في اللبس‘‘: ج ۶، ص: ۳۶۳)
وقولہم أولی بالاتباع حیث أصبح مثل تلک المسامحات والتعلات مثار اللبدع المنکرۃ والقبر السائرۃ، فتری العامۃ یلقون الزہور علی القبور۔ (معارف السنن، ’’باب التشدید من البول‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص338
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:علماء فرنگی محل علماء اہل سنت والجماعت ہیں، ملا قطب الدین سہالوی (۱۱۰۳ھ) ملا نظام الدین سہالوی فرنگی محلی (۱۱۶۱ھ) مولانا محمد عبد الحی فرنگی محلی (۱۲۰۴ھ) مولانا عبد الرزاق فرنگی محلی (۱۳۰۷ھ) اور مولانا عبد الباری فرنگی محلی (۱۳۴۴ھ) یہ سب علماء اہل سنت والجماعت اور علماء حق ہیں۔(۱) ان کے زمانہ میں دیوبندیت اور بریلویت کا وجود نہیں تھا، مولانا عبدالباری بھی علماء اہل سنت میں سے ہیں، ان کے زمانہ میں مولانا احمد رضا خان صاحب موجود تھے اور ان کے ساتھ تعلقات بھی تھے، ان کے بعض مسائل میں مولانا احمد رضا خان صاحب سے بھی اختلافات تھے، جیسا کہ بعض مسائل میں علماء دیوبند سے اختلاف تھا، مولانا عبدالباریؒ نے حضرت تھانوی ؒ کی کتاب حفظ الایمان پر اعتراض کیا تھا، صرف اتنی بات ملتی ہے، لیکن یہ بات کہ انھوں نے حضرت تھانوی رحمہ اللہ علیہ کی کتابیں فرنگی محل میں جلادی تھیں، اس کا تذکرہ مجھے کہیں نہیں ملا۔(۱)
(۱) وتفترق أمتي علی ثلاث وسبعین ملۃ کلہم في النار إلا ملۃ واحدۃ قالوا: من ہي یارسول اللّٰہ؟ قال: ما أنا علیہ وأصحابي۔ (أخرجہ الترمذي، فی سننہ، ’’أبواب الإیمان، باب ما جاء في افتراق ہذہ الأمۃ‘‘: ج ۲، ص: ۹۳، رقم: ۲۶۴۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص251
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اللہ تعالیٰ مانگنے سے عطا فرماتے ہیں؛ لیکن بندہ کیا مانگے گا اس کا علم اس کو پہلے سے ہے، اس کو لکھ دیا جاتا ہے اور کبھی کبھی دعا مانگنے پر بظاہر کوئی چیز نہیں ملتی فی الفور نہ دینے میں بندے کے لئے اللہ تعالیٰ کی جانب سے کیا مصلحت اور فائدے ہیں، اس کو خدا تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ بندہ کی عقل اس کو سمجھ نہیں سکتی۔(۱)
(۱) {وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِيْٓ أَسْتَجِبْ لَکُمْط} (سورۃ الغافر: ۶۰)
عن النعمان بن بشیر قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’إن الدعاء ہو العبادۃ‘‘ ثم قرأ: {وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِيْٓ أَسْتَجِبْ لَکُمْط} ]سورۃ الغافر: ۶۰[۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب الدعاء: باب فضل الدعاء‘‘: ج ۲، ص: ۵۸، رقم: ۳۸۲۸)
عن سعدٍ رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: دعوۃ ذي النون إذ دعاہ وہو في بطن الحوت: { لَّآ إِلٰہَ إِلَّآ أَنْتَ سُبْحٰنَکَ صلے ق إِنِّيْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ہجصلے ۸۷ } فإنہ لم یدع بہا رجل مسلم في شيء قط إلا استجاب اللّٰہ لہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الدعوات: باب منہ‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۸، رقم: ۳۵۰۵)
{فَاسْتَجَبْنَا لَہٗلا وَنَجَّیْنٰہُ مِنَ الْغَمِّط وَکَذٰلِکَ نُنْجِی الْمُؤْمِنِیْنَہ۸۸} (سورۃ الأنبیاء: ۸۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص366
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: احادیث سے رفع یدین بھی ثابت ہے اور عدم رفع بھی اور آمین بالجہر بھی اور بالسر بھی، لیکن شراح حدیث اور فقہاء نے وضاحت کی ہے کہ ان مسائل میں اختلاف جواز اور عدم جواز کانہیں ہے؛ بلکہ افضلیت اور اولیت کا ہے؛ اس لیے اس سے نماز میں کوئی فرق نہیں پڑتا، بہر صورت نماز ہو جاتی ہے صورت مسئول عنہا میں ایک کا دوسرے کو برا کہنا جائز نہیں ہے۔ جو مجتہد اپنے اجتہاد سے صحیح مسئلہ پر پہونچا وہ مصیب ہے اور دوسرا مخطی ہے اور ائمہ اربعہ متفق ہیں کہ مخطی بھی مستحق اجر ہے، تو مقلدین کو کب یہ حق پہنچتا ہے کہ دوسرے کو برا کہیں ایک کی نماز دوسرے کے پیچھے بلاشبہ ہو جاتی ہے، البتہ طہارت کے جو مسائل مختلف فیہ ہیں ان میں مقتدی کے مسلک کی رعایت امام کو کرنی ضروری ہوتی ہے اور اگر ایسا نہ کیا جائے، تو اس صورت میں مقتدی کی نماز فاسد ہو جاتی ہے اور اگر مقتدی کو امام کی کیفیت کا علم نہ ہو تو بھی اس کے لیے اعادہ کا حکم نہیں ہوگا۔(۱)
(۱) وقال البدر العیني: یجوز الاقتداء بالمخالف وکل بر وفاجر ما لم یکن مبتدعاً بدعۃ یکفر بہا وما لم یتحقق من إمامہ مفسداً لصلاتہ في اعتقادہ أہـ۔ وإذا لم یجد غیر المخالف فلا کراہۃ في الاقتداء بہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۴، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
والذي یمیل إلیہ القلب عدم کراہۃ الاقتداء بالمخالف ما لم یکن غیر مراع في الفرائض لأن کثیراً من الصحابۃ والتابعین کانوا أئمۃ مجتہدین وہم یصلون خلف إمام واحد مع تباین مذاہبم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب إذا صلی الشافعي قبل الحنفي الخ‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص248
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: شریعت کا مقصدجمعہ کی نماز سے اجتماعیت کا اظہار ہے اس لیے بڑی اور جامع مسجد میں نماز پڑھنے کا حکم ہے، ایک مسجد میں کسی بھی نماز میں دوسری جماعت مکروہ تحریمی ہے۔ خاص طور پر جمعہ کی جماعت ثانیہ بھی مکروہ تحریمی ہے؛ اس لیے کہ اس سے جمعہ کی اجتماعیت متأثر ہوتی ہے جب شہر میں کئی مساجد ہوں تو بہتر یہ ہے کہ ہر مسجد میں جمعہ کی نماز کے اوقات مختلف رکھیں تاکہ اگر کسی ایک جگہ جماعت فوت ہوجائے تو دوسری مسجد میں جماعت مل جائے، اس کے لیے قریب کے علاقے کی مساجد کی ایک میٹنگ منعقد کرکے اوقات نماز کواس طرح ترتیب دیا جاسکتا ہے جو ہر طرح کے لوگوں کے لیے ممکن العمل ہو۔ آپ نے جو عذربیان کیا ہے اس کے لیے مسجد میں یا مسجد کے سامنے مدرسہ میں جماعت ثانیہ کرنا درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ اس سے جمعہ کی اجتماعیت متاثر ہوتی ہے۔ علامہ شامیؒ نے یہاں تک لکھا ہے کہ جمعہ کے بعد جامع مسجد کو مقفل کر دیا جائے تاکہ دوسرے لوگ جماعت نہ کرسکیں تاہم اگر اس پر عمل نہ ہوسکے، تو مسجد کے علاوہ کسی دوسری جگہ میں جماعت ثانیہ کا نظم کیا جائے۔ مسجد میں جماعت ثانیہ کرنا مذکورہ عذر کی بنا پر درست نہیں ہے۔
’’ویکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ لا في مسجد طریق أو مسجد لا إمام لہ ولا مؤذن‘‘ (۱)، ’’(وکذا أہل مصر فاتتہم الجمعۃ) فإنہم یصلون الظہر بغیر أذان ولا إقامۃ ولا جماعۃ۔ ویستحب للمریض تأخیرہا إلی فراغ الإمام وکرہ إن لم یؤخر ہو الصحیح (قولہ إلا الجامع) أي: الذي تقام فیہ الجمعۃ فإن فتحہ في وقت الظہر ضروري والظاہر أنہ یغلق أیضا: بعد إقامۃ الجمعۃ لئلا یجتمع فیہ أحد بعدہا، إلا أن یقال إن العادۃ الجاریۃ ہي اجتماع الناس في أول الوقت فیغلق ما سواہ مما لا تقام فیہ الجمعۃ لیضطروا إلی المجيء إلیہ وعلی ہذا فیغلق غیرہ إلی الفراغ منہا لکن لا داعی إلی فتحہ بعدہا فیبقی مغلوقا إلی وقت العصر ثم کل ہذا مبالغۃ في المنع عن صلاۃ غیر الجمعۃ وإظہارا لتأکدہا‘‘(۱) ’’وتؤدي الجمعۃ في مصر واحد في مواضع کثیرۃ و ہو قول أبي حنیفۃ و محمد رحمہما اللّٰہ و ہو الأصح‘‘(۲) ’’وتؤدي في مصر واحد بمواضع کثیرۃ مطلقا کان التعدد في مسجدین أو أکثر‘‘(۳)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۸۸۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب الجمعۃ، مطلب في شروط وجوب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص:۳۳۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب السادس عشر في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص:۲۰۹۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، مطلب في صحۃ الجمعۃ بمسجد المرجۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص488 تا 491
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) جن مساجد میں باجماعت نماز ہوتی ہے وہاںہر ایک مسجد میں علاحدہ علاحدہ اذان دینا سنت ہے، کئی مسجدوں کے لیے ایک اذان پر اکتفا کرنا خلاف مسنون ہے۔
(۲) کمپیوٹرکے ذریعہ جو اذان کی آواز سنائی دیتی ہے وہ صدائے باز گشت کے حکم میں ہے جس کا اعتبار نہیں ہے؛ اس لیے کمپیوٹرائز اذان سے اذان کی سنیت ادا نہ ہوگی یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کمپیوٹر اور ٹیپ ریکارڈر کے ذریعہ آیت سجدہ سنے تو اس پر سجدہ واجب نہیں ہوتا؛ اس لیے کہ صدائے باز گشت ہے۔
’’لا تجب بسماعہ من الصدی ھو ما یجیبک مثل صوتک في الجبال والصحـاری و نحوھما کما في الصحاح‘‘(۱)
’’وروي ابن أبي مالک عن أبي یوسف عن أبي حنیفۃ في قوم صلوا في المصر في منزل أو في مسجد منزل، فأخبروا بأذان الناس وإقامتہم أجزأہم۔ وقد أساء وا بترکہما، فقد فرق بین الجماعۃ والواحد؛ لأن أذان الحي یکون أذانا للأفراد ولا یکون أذانا للجماعۃ‘‘(۱)
’’قال ابن المنذر: فرض في حق الجماعۃ في الحضر والسفر، وقال مالک: یجب في مسجدالجماعۃ، وفي ’’العارضۃ‘‘: وہو علی البلد ولیس بواجب في کل سجدۃ، ولکنہ یستحب في مساجد الجماعات أکثر من العدد‘‘(۲)
’’وإذا قسّم أہل المحلّۃ المسجد وضربوا فیہ حائطا ولکل منہم إمام علی حدۃ ومؤذنہم واحد لا بأس بہ والأولی أن یکون لکل طائفۃ مؤذن‘‘(۳)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ج۲، ص: ۵۸۳، مکتبہ: زکریا، دیوبند۔
(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان محل وجوب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۸۔
(۲) العیني، البنایہ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘ حکم الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، مکتبہ: نعیمیہ، دیوبند۔
(۳) ابن نجیم، البحر الرائق ’’کتاب الصلاۃ، فصل استقبال القبلۃ بالفرج في الخلاء ‘‘: ج ۲، ص: ۳۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص136
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: اس پر نمازپڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔(۱)
(۱) وأما طہارۃ مکان الصلاۃ فلقولہ تعالٰی: {أَنْ طَھِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِہ۱۲۵} وقال في موضع والقائمین والرکع السجود ولما ذکرنا أن الصلاۃ خدمۃ الرب تعالٰی وتعظیمہ وخدمۃ المعبود المستحق للعبادۃ وتعظیمہ بکل الممکن فرض، وأداء الصلاۃ علی مکان طاہر أقرب إلی التعظیم فکان طہارۃ مکان الصلاۃ شرطا، وقد روي عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ عن رسول اللّٰہ أنہ نہي عن الصلاۃ في المزبلۃ والمجزرۃ ومعاطن الإبل وقوارع الطرق والحمام والمقبرۃ وفوق ظہر بیت اللّٰہ تعالٰی۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل شرائط أرکان الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۰۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص264
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں مقتدی کی نماز فاسد نہیں ہوتی۔(۱)
(۱) والصحیح أن ینوي الفتح علی إمامہ دون القراء ۃ قالوا: ہذا اذا ارتج علیہ قبل أن یقرأ قدر ما تجوز بہ الصلاۃ، أو بعدما قرأ ولم یتحول إلی آیۃ أخری، وأما إذا قرأ أو تحول ففتح علیہ تفسد صلاۃ الفاتح، والصحیح أنہا لاتفسد صلاۃ الفاتح بکل حال وصلاۃ الامام لو آخذ منہ علی الصحیح، ہکذا في الکافي، ویکرہ للمقتدي أن یفتح علی إمامہ من ساعتہ لجوازہ أن یتذکر من ساعتہ فیبصیر قارئا خلف الإمام من غیر حاجۃ، کذا في محیط السرخسي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۹۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص92
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس طرح پڑھنے سے نماز ہوجاتی ہے؛ لیکن افضل یہ ہے کہ فجر اور ظہر میں طوال مفصل، عصر وعشاء میں اوساط مفصل؛ مغرب میں قصار مفصل میں سے پڑھے۔(۲)
(۲) ففي جامع الفتاویٰ: روي الحسن عن أبي حنیفۃ أنہ قال: لا أحب أن یقرأ سورتین بعد الفاتحۃ في المکتوبات، ولو فعل لایکرہ، وفي النوافل لابأس بہ۔ (قولہ إلا بالمسنون) وہو القراء ۃ من طوال المفصل في الفجر والظہر وأوساطہ في العصر والعشاء وقصارہ في المغرب۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: قراء ۃ البسملۃ بین الفاتحۃ والسورۃ حسن‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۴)
واستحسنوا في الحضر طوال المفصل في الفجر والظہر، وأوساطہ في العصر والعشاء، وقصارہ في المغرب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الرابع في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص212