متفرقات

Ref. No. 2378/44-3590

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جو چیز جس نیک کام کے لئے وقف ہو اس کو اسی مقصد کے لئے استعمال کرنا چاہئے، قبرستان  کے لئے چندہ کی گئی رقم کو عیدگاہ کی تعمیر میں لگانا بظاہر واقف کے منشاء کے خلاف ہے، جبکہ شریعت میں واقف کے منشاء کی رعایت بہرحال ضروری ہوتی ہے۔ اور اگر قبرستان کی رقم کسی درخت  وغیرہ کے فروخت کرنے سے حاصل ہوئی ہے  اور وہ قبرستان کی ضرورت سے زائد ہو، بظاہر مستقبل قریب میں قبرستان کو اس کی ضرورت نہ ہو، تو انتظامیہ کے مشورہ سے اس کو عیدگاہ کی تعمیر میں لگایا جاسکتاہے۔

وفي فتاوى الشيخ قاسم: وما كان من شرط معتبر في الوقف فليس للواقف تغييره ولا تخصيصه بعد تقرره ولا سيما بعد الحكم. (ردالمحتار علی الدرالمختار، کتاب الوقف، مطلب في أحكام الوقف على فقراء قرابته، ج:4، ص:453)

وإذا لزم الوقف وتم لا يملك أي لا يكون مملوكا لصاحبه ولا يملك أي لا يقبل التمليك لغيره بالبيع ونحوه لاستحالة تمليك الخارجعن ملكه. (دررالحكام شرح غرر الأحكام، كتاب الوقف، ج:2، ص:135)

شرط الواقف كنص الشارع فيجب اتباعه كما صرح به في شرح المجمع للمصنف. (ردالمحتار علی الدرالمختار، کتاب الوقف، مطلب القاضي اذا قضى في مجتهد فيه، ج:4، ص:495)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شب برأت وغیرہ کے مواقع پر بدعات سے اجتناب لازم ہے اور دوسروں کو بھی اس سے محفوظ رکھنے کے لیے کوشش جاری رکھنی چاہئے اس کے لیے لٹریچر وغیرہ لکھنا بھی مفید ہے، لوگوں سے فرداً فرداً کبھی ملاقات کرکے ان کو صحیح طور سے آگاہ کرنا بھی مفید ہے، محنت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعاء بھی کی جائے، ہدایت تو اللہ کا کام ہے بندہ کوشش کرسکتا ہے۔(۱)

(۱) من تعبد للّٰہ تعالیٰ بشيء من ہذہ العبادات الواقعۃ فی غیر أزمانہا فقد تعبد ببدعۃ حقیقیۃ لا إضافیۃ فلا جہۃ لہا إلی المشروع بل غلبت علیہا جہۃ الابتداع فلا ثواب فیہا۔ (أبو اسحاق الشاطبي، الاعتصام، ’’فصل البدع الإضافیۃ ہل یعتد بہا عبادات‘‘: ج ۲، ص: ۲۶)
من أحدث في الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶، رقم: ۱۴۰)
ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص490

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فضائل اعمال ہو یا دیگر کوئی کتاب ہو، ایک ہی کتاب کی تعلیم کو ہمیشہ کے لیے لازم سمجھ لینا درست نہیں ہے۔ حسب ضرورت قرآن کریم کے مذکورہ تراجم وتشریحات کو پڑھ کر سنانا بھی بلا شبہ درست ہے۔ لیکن تفسیری نکات پر بغیر علم کے ناواقف کا کلام کرنا درست نہیں ہے۔ بعض علماء نے تفسیری نکات کو بیان کرنے کے لیے پندرہ علوم میں مہارت کو ضروری قرار دیا ہے۔ اپنی رائے سے تفسیر کے اصول کو نظر انداز کر کے کچھ بھی تفسیر کرنا درست نہیں ہے۔(۱) جس جگہ پر کچھ لوگ فضائل اعمال کے پڑھنے پر اصرار کریں اور کچھ لوگ دوسری کتاب کے پڑھنے پر اصرار کریں تو الحمد للہ اوقات نماز پانچ ہیں، کسی وقت پر نماز کے بعد ایک کی اور دوسرے وقت پر دوسری کتاب کی تعلیم متعین کرلی جائے یا اس کے علاوہ کوئی وقت مقرر کرلیا جائے، اسی کو باعث اختلاف بنا لینا درست نہیں ہے۔
فضائل اعمال میں احادیث بھی ہیں اور دیگر واقعات وتشریحات بھی ہیں، صرف حدیث کی کتاب کہنا اور اس پر اصرار درست نہیں ہے۔

(۱) قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من قال في کتاب اللّٰہ عز وجل برأیہ فأصاب فقد أخطأ۔… … (شیخ عبد اللّٰہ کاپودروي، قواعد التفسیر: ص: ۹۸)
اختلف الناس في تفسیر القرآن ہل یجوز لکل أحد الخوض فیہ؟ فقال قوم: لا یجوز لأحد أن یتعاطی تفسیر شيء من القرآن وإن کان عالماً أدیباً متسما في معرفۃ الأدلۃ والفقہ والنحو والأخبار والآثارالخ۔
من قال: یجوز تفسیرھ لمن کان جامعا للعلوم التي یحتاج المفسر إلیہا وہي خمسۃ عشر علماً:
أحدہا: اللغۃ۔ الثاني: النحو۔ الثالث: التصریف۔ الرابع: الاشتقاق۔ الخامس، والسادس، والسابع: المعاني والبیان والبدیع۔ الثامن: علم القرائات۔ التاسع: أصول الدین۔ العاشر: أصول الفقہ۔ الحادي عشر: أسباب النزول والمنسوخ۔ الثالث: عشر: الفقہ۔ الرابع عشر: الأحادیث۔ المبینۃ۔ الخامس عشر: الموہبۃ۔ (عبد الرحمن أبي بکر، الإتقان في علوم القرآن، ’’النوع الثامن والسبعون: في معرفۃ مشروط الآداب‘‘: ج ۴، ص: ۲۱۳)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص42

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس خواب سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دادی مرحومہ کو اللہ تعالیٰ نے بلند مقام عطا فرمایا ہے، اور مغفرت فرمادی ہے۔ اور اس کی خصوصی وجہ قرآن کریم سیکھنا ہے۔ اور یہ کہ باقی مذکورہ افراد بھی خوش وخرم ہیں۔(۱)

(۱) (سورۃ القرآن) التي تقرأ علی الأموات غالباً قرائتہا في المنام تدل علی موت المریض وقرائۃ سورۃ تصاریف المریض سرور وأفراح ورزق وتجدید۔ (العبد الغني بن إسماعیل، …بقیہ  …تعطیرالأنام: ج ۱، ص: ۱۵۰)
(قرآن) ہو في المنام قرائتہ من مصحف أمر ونہي وشرف وسرور ونصر۔ (ومن رأی) أنہ یقرأ القرآن ظاہراً من غیر مصحف، فإنہ رجل یخاصم في حق ودعواہ حق ویؤدي ما في یدہ من الأمانۃ ویکون مؤمناً خاشعاً یأمر بالمعروف وینہی عن المنکر۔ (العبد الغني بن إسماعیل، تعطیرالأنام: ج ۱، ص: ۲۷۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص175

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شیعوں کا وہ فرقہ یا وہ افراد جو غالی ہوں کہ حضرت جبریل علیہ السلام کے وحی لانے میں غلطی کے قائل ہوں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو متہم کرتے ہوں، یا دیگر نصوص شرعیہ کے منکر ہوں، تو وہ کافر ہیں۔ اور جو فرقہ ایسا نہ ہو، تو وہ کافر نہیں ہے(۱) ان کی نماز جنازہ پڑھانے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے اور ان کی تجہیز وتکفین کرنے میں شرکت کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے(۲)، مذکورہ شخص کو بلا وجہ شرعی متہم کرنا درست نہیں ہے۔

(۱) الرافضي إذا کان یسب الشیخین ویلعنہما فہو کافر وإن کان یفضل علیا علیہما فہو مبتدع۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہا: باب المرتد، مطلب مہم: في حکم سب الشیخین: ج ۶، ص: ۳۷۷)
(۲) ولا یجوز الدعاء للمشرکین بالمغفرۃ ویجوز الدعاء بالمغفرۃ لجمیع المؤمنین جمیع ذنوبہم لغرض الشفقۃ علی إخوانہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان سننہا‘‘: ص: ۲۷۲)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص278

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صاحب مراقي الفلاح نے لکھا ہے:
’’وحدہ أي جملۃ الوجہ طولا من مبدأ سطح الجبہۃ سواء کان بہ شعر أم لا۔‘‘(۱) عام طور پر انسان کے جہاں سے سرکے بال اگتے ہیں اور جسے عرف میں پیشانی کہا جاتا ہے اس حصہ کا دھونا فرض ہے اس سے اوپر دھونا ضروری نہیں ہے۔ ’’أشار بہ إلی أن الأغم والاصلع والأقرع والأنزع فرض غسل الوجہ منہم ما ذکر‘‘ (۲)
خلاصہ یہ ہے کہ اگر کسی کے بال آدھے سر تک آگے کی طرف نہ ہوں، تو عرف میں جہاں تک پیشانی کہلاتی ہے اس سے اوپر دھونا ضروری نہیں ہے؛ بلکہ پیشانی کے بالوں کے آگے کی معروف جگہ تک دھونا فرض ہے۔
’’إذا الغالب فیہم طلوع الشعر من مبدأ سطح الجبہۃ ومن غیر الغالب الأغم وأخواہ‘‘(۳)

(۱) حسن بن عمار الشرنبلالي، مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في أحکام الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۔
(۲) الطحطاوي، مراقي الفلاح علی حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في أحکام الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۵۷۔
(۳) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في الغسل، مطلب في معنیٰ الاشتقاق وتقسیمہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۰۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص198

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: دونوں صورتوں میں نماز بلاشبہ صحیح اور درست ہو جائے گی۔(۲)

(۲) عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال لنا علیہ السلام: یؤم القوم أقرأہم لکتاب اللّٰہ وأقدمہم قراء ۃ۔ (أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۶، رقم: ۶۷۳)
الأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ، وتجویداً للقراء ۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۴، ۲۹۵)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص267

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کی حالت میں کھانسی کو روکنے کی کوشش کرنی چاہئے تاہم کھانسی آنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔(۲)

(۲) ویکرہ السعال والتنحنح قصدا وإن کان مدفوعًا إلیہ، لایکرہ، کذا في الزاہدي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ،’’کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ، وما یکرہ فیھا، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ و ما لا یکرہ‘‘ ج۱، ص: ۱۶۵، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص115

مساجد و مدارس

Ref. No. 2828/45-4417

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ چندہ جس مقصد کے لئے جمع کیاجائے اسی مقصد میں اس کو صرف کرنا ضروری ہے، عوام نے مدرسہ کو مدرسہ کے اخراجات کے لئے چندہ دیا ہے، ان کو مصالح مدرسہ کے علاوہ میں صرف کرنا مہتمم اور کمیٹی کے لئے جائز نہیں ہے، جیسے کہ اساتذہٴ کرام کی تنخواہیں، طلبہ کے کھانے پینے کا نظم، ان کی فیس، تعمیر کا کام، بجلی کا کرایہ وغیرہ۔ کسی استاذ کی ذاتی ضروریات  مدرسہ کے مصالح میں سے نہیں ہیں۔  ضرورتمند مدرس سے اضافی خدمت لے کر اس کے عوض میں اضافی رقم دی جاسکتی ہے۔ علاوہ ازیں اگر مدرسہ کے پاس  رقم زیادہ ہے تو اساتذہ کی تنخواہ یا طلبہ کی فیس میں اضافہ کرسکتے ہیں یا طلبہ کے لئے مزید سہولیات  کا انتظام  کرسکتے ہیں، لیکن مدرسہ کے لئے جمع کردہ رقم کو مصالح مدرسہ کے علاوہ مصارف میں خرچ کرنا جائز نہ ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1068

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم: اذان کی طرح اقامت بھی سنت ہے اور خارج نماز ہے، اس سنت کے ترک سے نماز کا اعادہ لازم نہیں اور سہوا ترک سے اس پر کوئی وعید بھی نہیں ہے۔ وھو ای الاذان سنة موکدة کالواجب، والاقامة کالاذان ﴿شامی﴾ ترک السنة لایوجب فسادا ولا سھوا بل اساءة لوعامدا، فلو غیر عامد فلااساءة ایضاً ﴿شامی﴾۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند