Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا اللّٰہ التوفیق: احناف وشوافع کے درمیان منی کی پاکی یا ناپاکی میں اگرچہ اختلاف ہے مگر محتلم پر وجوب غسل کے بارے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے؛ اس لیے صورت مذکورہ میں خود امام کی نماز فاسد واجب الاعادہ ہے؛ اس لیے مقتدیوں کی بھی نماز فاسد ہوگئی۔(۲)
(۲) موجبہ موت وحیض ونفاس ولادۃ بلا بلل في الأصح، وجنابۃ بدخول حشفۃ أو قدرہا فرجا، وبخروج مني من طریقہ المعتاد وغیرہ، والخلاصۃ: أن خروج المني ولو بحمل ثقیل أو سقوط من مکان مرتفع أو وجودہ في الثوب مطلقاً: موجب للغسل عند الشافعیۃ، سواء بشہوۃ أوغیرہا۔
(موسوعۃ الفقہ الإسلامي، ’’الطہارات: الفصل الخامس، الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۲، ۴۴۸، مکتبہ الاشرفیہ دیوبند)
قال والمعاني الموجبۃ للغسل إنزال المني علی وجہ الدفق والشہوۃ من الرجل والمرأۃ حالۃ النوم۔ (السراج الوہاج علی متن المنہاج: ص: ۲۱)
وعند الشافعي رحمہ اللّٰہ خروج المني کیف ما کان یوجب الغسل۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الطہارات: فصل في الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۳۱، دار الکتاب دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص110
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: وبا اور مصیبت کے ایام میں قنوت نازلہ کا پڑھنا حدیث سے ثابت ہے۔ اور کتب فقہ میں علماء نے اس پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔
کرونا وائرس بھی ایک وبا ہے اس لیے اس سے بچنے اور حفاظت کی غرض سے قنوت نازلہ کا اہتمام کرنا از روئے شریعت جائز ہے۔
’’فائدۃ: في الدعاء برفع الطاعون: سئلت عنہ في طاعون سنۃ تسع وستین وتسع مائۃ بالقاہرۃ فأجبت بأنی لم أرہ صریحا، ولکن صرح في الغایۃ وعزاہ الشمنی إلیہا بأنہ إذا نزل بالمسلمین نازلۃ۔ قنت الإمام في صلاۃ الفجر، وہو قول الثوری وأحمد، وقال جمہور أہل الحدیث: القنوت عند النوازل مشروع في الصلاۃ کلہا (انتہی)۔ وفي فتح القدیر أن مشروعیۃ القنوت للنازلۃ مستمر لم ینسخ، وبہ قال جماعۃ من أہل الحدیث وحملوا علیہ حدیث أبي جعفر عن أنس رضي اللّٰہ عنہما ما زال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقنت حتی فارق الدنیا أي عند النوازل، وما ذکرنا من أخبار الخلفاء یفید تقررہ لفعلہم ذلک بعدہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم، وقد قنت الصدیق رضي اللّٰہ عنہ في محاربۃ الصحابۃ رضي اللّٰہ عنہم مسیلمۃ الکذاب وعند محاربۃ أہل الکتاب، وکذلک قنت عمر رضي اللّٰہ عنہ، وکذلک قنت علی رضي اللّٰہ عنہ في محاربۃ معاویۃ، وقنت معاویۃ في محاربتہ (انتہی)۔ فالقنوت عندنا في النازلۃ ثابت۔ وہو الدعاء برفعہا، ولا شک أن الطاعون من أشد النوازل، قال في المصباح: النازلۃ المصیبۃ الشدیدۃ تنزل بالناس (انتہی) وفي القاموس: النازلۃ الشدیدۃ (انتہی)، وفي الصحاح: النازلۃ الشدیدۃ من شدائد الدہر تنزل بالناس (انتہی)، وذکر في السراج الوہاج قال الطحطاوي: ولا یقنت في الفجر عندنا من غیر بلیۃ، فإن وقعت بلیۃ فلا بأس بہ کما فعل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فإنہ قنت شہرا فیہا، یدعو علی رعل وذکوان وبنی لحیان ثم ترکہ، کذا فی الملتقط (انتہی)‘‘(۱)
’’(ولا یقنت لغیرہ) إلا النازلۃ فیقنت الإمام في الجہریۃ، وقیل في الکل۔ و في الرد: (قولہ إلا لنازلۃ) قال في الصحاح: النازلۃ الشدیدۃ من شدائد الدہر، ولا شک أن الطاعون من أشد النوازل أشباہ‘‘(۱)
’’وہو صریح في أن قنوت النازلۃ عندنا مختص بصلاۃ الفجر دون غیرہا من الصلوات الجہریۃ أو السریۃ‘‘(۲)
’’(عن أبي ہریرۃ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان إذا أراد أن یدعو علی أحد)، أي: لضررہ (أو یدعو لأحد)، أي: لنفعہ (قنت): وہو یحتمل التخصیص بالصبح أو تعمیم الصلوات وہو الأظہر، قال ابن حجر: أخذ منہ الشافعي أنہ یسن القنوت في أخیرۃ سائر المکتوبات للنازلۃ التي تنزل بالمسلمین عامۃ، کوباء وقحط وطاعون، وخاصۃ ببعضہم کأسر العالم أو الشجاع ممن تعدی نفعہ، وقول الطحاوي لم یقل بہ فیہا غیر الشافعي غلط منہ، بل قنت علی رضي اللّٰہ عنہ في المغرب بصفین۔ ونسبۃ ہذا القول إلی الطحاوي علی ہذا المنوال غلط؛ إذ أطبق علماؤنا علی جواز القنوت عند النازلۃ‘‘(۳)
’’قال الإمام النووي: القنوت مسنون في صلاۃ الصبح دائما، وأما في غیرہا ففیہ ثلاثۃ أقوال، والصحیح المشہور أنہ إذا نزلت نازلۃ کعدو أو قحط أو وباء أو عطش أو ضرر ظاہر في المسلمین، ونحو ذلک قنتوا في جمیع الصلوات المکتوبۃ، وإلا فلا۔ ذکرہ الطیبي، وفیہ أن مسنونیتہ في الصبح غیر مستفادۃ من ہذا الحدیث۔
’’والقنوت في الفجر لایشرع لمطلق الحرب عندنا، وإنما یشرع لبلیّۃ شدیدۃ تبلغ بہا القلوب الحناجر ولو لا ذلک یلزم الصحابۃ القائلین بالقنوت للنازلۃ أن یقنتوا أبدًا ولایترکوہ یومًا لعدم خلوّ المسلمین عن نازلۃ مّا غالبًا، لا سیّما في زمن الخلفاء الأربعۃ۔ قلت: وہذا ہو الذي یحصل بہ الجمع بین الأحادیث المختلفۃ في الباب‘‘(۱)
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار: ج ۲، ص: ۱۱۔)
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار: ج ۲، ص: ۱۱۔)
(۲) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، شرح مشکاۃ المصابیح: ج ۳، ص: ۹۵۸۔)
(۳) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح: ج ۳، ص: ۹۵۸۔)
(۱) ظفر أحمد العثماني،إعلاء السنن، ’’کتاب الصلاۃ: أبواب الوتر، تتمۃ في بقیۃ أحکام قنوت النازلۃ‘‘: ج ۶، ص: ۹۶، ط: ادارۃ القرآن کراچی۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص337
حدیث و سنت
Ref. No. 2826/45-4420
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح کی کوئی روایت ہماری نظر سے نہیں گزری۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 38/812
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: چالیس قدم پر اجروثواب احادیث سے ثابت ہے(مسنداحمد)، نماز جنازہ کی ثنا ء میں "وجل ثناؤک" بھی منقول ہے، اور مذکورہ دونوں امور استحباب کے درجہ میں ہیں۔ تفصیل کے لئے ردالمحتار اور الموسوعۃ الفقہیہ کا مطالعہ مفید ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 39 / 846
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ درود ابراہیمی سب درودوں میں افضل ہے وہی پڑھنا چاہئے، تاہم جب اس کو پڑھنا مشکل ہو تو آپ پڑھیں: "اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد وبارک وسلم"۔ دعاء ماثورہ کی جگہ پڑھیں: "ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار"/ یا "اللھم اغفرلی" تین بار پڑھیں۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Taharah (Purity) Ablution &Bath
Ref. No. 1000/41-190
In the name of Allah the most Gracious the most merciful
Then answer to your question is as follows:
The way to keep a Miswak is to keep it upright, not horizontal on the ground. ولایضعہ بل ینصبہ والا فخطر الجنون۔ (درمختار مع الرد1/235
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
فقہ
Ref. No. 1580/43-1112
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صلاتک ایپ ہم نے استعمال کیا ہے، اور دائمی کلینڈر سے اس کو چیک کیا توبہت مناسب ایپ لگا۔ اس لئے اس ایپ کو استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اوقات صلوۃ میں اس پر اعتبار کیا جاسکتاہے البتہ اس طرح کے تمام ایپ نیٹ سے مربوط ہوتے ہیں ، اس ایپ کو کھولنے سے پہلے موبائل کا انٹرنیٹ اور لوکیشن (Location)بھی چیک کرلیں تاکہ صحیح وقت کی معرفت حاصل ہوسکے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ عورت نے جب کہ اسلام قبول کرلیا، تو وہ مسلمان ہوگئی مندر جانے کی وجہ سے وہ کافر نہیں ہوگی(۱) (اگر وہ مورتی کی پوجا نہیں کرتی) البتہ گناہگار ضرور ہے۔ ایسی مسلمان گناہگار عورت سے جو نکاح گواہوں کی موجودگی میں ہوا وہ صحیح ہوگیا اور اگر وہ پوجا کرتی ہے، تو مسلمان نہیں ہے اور اس سے کیا ہوا نکاح باقی نہیں رہا۔(۲)
(۱) {مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْ م بَعْدِ اِیْمَانِہٖٓ اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَقَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّم بِالْاِیْمَانِ وَلٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْھِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ ج وَلَھُمْ عَذَاب’‘ عَظِیْمٌ ہ۱۰۶}(سورۃ النحل، آیۃ: ۱۰۶)
ومنہا أن لا تکون المرأۃ مشرکۃ إذا کان الرجل مسلماً فلا یجوز للمسلم أن ینکح المشرکۃ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب النکاح: فصل أن لا تکون المرأۃ مشرکۃ إذا کان الرجل مسلماً‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۰)
(۲) قال: والکافر إذا صلی بجماعۃ أو أذّن في مسجد أو قال: أنا معتقد حقیقۃ الصلاۃ في جماعۃ یکون مسلما لأنہ أتی بما ہو من خاصیّۃ الإسلام کما أن الإتیان بخاصیَّۃ الکفر، یدل علی الکفر فإن من سجد لصنم أو تزیا بزنارٍ أو لبس قلنسوۃ المجوس یحکم بکفرہ۔ (عبد اللّٰہ ابن محمد، الاختیار لتعلیل المختار، ’’فصل فیما یصیر بہ الکافر مسلماً‘‘: ج ۴، ص: ۱۵۰)
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Miscellaneous
Ref. No. 1955/44-1878
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Falak means ‘sky’ ‘Heaven,’ Zuha means ‘light,’ ‘morning light’, and Aye-noor means ‘moonlight’. Ay is a Turkish word which means moon, and Noor is an Arabic word which means light. So aye-noor means 'moonlight'.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بشرط صحت سوال غیر مسلم کے مرنے اور اس کی تیرھویں میں شریک ہونے سے مذکورہ شخص ایمان سے خارج نہیں ہوتا؛ البتہ گناہگار ہوتا ہے۔(۱
(۱) و إذا مات الکافر قال لوالدہ أو قریبہ في تعزیتہ أخلف اللّٰہ علیک خیرا منہ وأصلحک أي أصلحک بالإسلام ورزقک ولدا مسلما لأن الخیریۃ بہ تظہر، کذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الخامس عشر في الکسب‘‘: ج ۵، ص: ۳۴۸)
جار یہودي أو مجوسي مات ابن لہ أو قریب ینبغي أن یعزبہ ویقول أخلف اللّٰہ علیک خیرا منہ وأصلحک وکان أصلحک اللّٰہ بالإسلام۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ، فصل في البیع‘‘: ج ۹، ص: ۵۵۷)
ولا نکفر مسلما بذنب من الذنوب وإن کانت کبیرۃ إذا لم یستحلہا ولا نزیل عنہ اسم الإیمان۔ (أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ- شرح الفقہ الأکبر، ’’الکبیرۃ لا تخرج المؤمن عن الإیمان‘‘: ص: ۱۱۷)
)
نوٹ: ہاں کوئی مصلحت پیش نظر نہ ہو تو ان کی رسموں میں شرکت نہیں کرنی چاہئے؛ اس لئے کہ ان کی رسموں میں شرکت باعث گناہ ہے، اور ان کی رسوم وعقائد کو دل سے برا سمجھنا چاہئے؛ اس لئے کہ ان کے باطل عقائد کو صحیح سمجھنے اور ان کی غیر شرعی رسموں پر رضامندی سے ایمان ہی خطرہ میں پڑجاتا ہے۔
الجواب صحیح:
دار العلوم وقف دیوبند