نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مذکورہ میں جب کہ وتر کی تیسری رکعت کے رکوع میں مسبوق شریک ہوا اور تیسری رکعت اس نے پالی تو تیسری رکعت میں اس کے آنے سے پہلے جو کچھ امام نے کیا ہے یہ مسبوق اس کا پانے والا کہلائے گا اس لیے مسبوق مذکور امام کے بعد اپنی دو رکعت ادا کرے مگر قنوت نہیں پڑھے گا۔(۱)

(۱) قولہ : فیقنت مع إمامہ فقط: لأنہ آخر صلاتہ، ومایقضیہ أولہا حکما في حق القراء ۃ وما أشبہھا وہو القنوت۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۸)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص321

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صلاۃ الاوابین کی علاوہ سنت مؤکدہ مغرب کے کم از کم چھ رکعات ہیں زیادہ سے زیادہ بیس رکعات ہیں اور تہجد کی نماز آٹھ رکعت ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول یہی تھا اور زیادہ بارہ تک ہیں اور کم سے کم دو رکعات ہیں۔
’’عن أبی سلمۃ عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی بعد المغرب ست رکعات لم یتکلم فیہا بینہن بسوء، عدلن لہ بعبادۃ ثنتي عشر سنۃ‘‘(۱)
’’عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من صلی بعد المغرب عشرین رکعۃ بنی اللّٰہ لہ بیتا في الجنۃ‘‘(۲)
’’عن أبي سعید وأبي ہریرۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إذا استیقظ الرجل مـن اللیــل وأیقظ امرأتہ، فصلیا رکعتین کتبــا من الذاکــرین اللّٰہ کثیرا والذاکرات‘‘(۱)
’’وصلاۃ اللیل وأقلہا علی ما في الجوہرۃ ثمان … قال یصلي ما سہل علیہ ولو رکعتین، والسنۃ فیہا ثمان رکعات بأربع تسلیمات … فینبغي القول بأن أقل التہجد رکعتان وأوسطہ أربع وأکثرہ ثمان‘‘(۲)

(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ، باب ما جاء في فضل التطوع ست رکعات بعد المغرب‘‘: ج ۱، ص: ۹۸،رقم۴۳۵ نعیمیہ۔)
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ، باب ما جاء في فضل التطوع ست رکعات بعد المغرب‘‘: ج ۱، ص: ۹۸،رقم۴۳۵ نعیمیہ۔)
(۱)أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’کتاب إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب ما جاء فیمن أیقظ أھلہ من اللیل۔‘‘ ص۹۴،رقم ۱۳۳۵)
(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۶۷،۴۶۸۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص430

 

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 1254

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  اگر یقینی طور پر معلوم ہو تو دعوت قبول کرنے سے اجتناب  کریں ۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 41/1077

In the name of Allah the most gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

It is allowable. 

And Allah knows best

Darul Ifta            

Darul Uloom Waqf Deoband

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1003/41-164

In the name of Allah the most Gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

Recite Surah Taha (in juzz 16) and make Dua. And read ‘Yaa Lateefu’ as often as possible. May Allah make it easy for you!

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 1337/42-721

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زکوۃ کی رقم مدرسہ میں دیتے وقت وضاحت کے ساتھ بتادینا ضروری ہے کہ یہ زکوۃ کی رقم ہے۔ اس لئے کہ مدرسہ میں کچھ مصارف ایسے ہیں کہ ان میں زکوۃ کی رقم صرف نہیں کی جاسکتی ورنہ دینے والے کی زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔ زکوۃ مالدار کے لئے میل کچیل ہے مگر غریب اور مستحق  طلبہ کے لئے وہ ایک صاف ستھرا اور حلال مال ہے۔ اس لئے آئندہ جب بھی زکوۃ کی رقم کسی مدرسہ میں دیں تو زکوۃ ہی کہہ کر دیاکریں۔ تاہم اگر آپ کسی مستحق کو زکوۃ کی رقم براہ راست دیں تو اس کو ہدیہ کہہ کردینا چاہئے تاکہ اس کو شرمندگی نہ ہو۔ اور اس طرح زکوۃ بھی ادا ہوجائے گی۔

ولا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه (ھندیۃ، الباب السابع فی المصارف 1/188) وتبدل الملك بمنزلة تبدل العين وفي الحديث الصحيح «هو لها صدقة ولنا هدية» (شامی 2/342)

 واللہ اعلم بالصواب

کتبہ محمد اسعد

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس
محترم مفتیان کرام السلام علیکم۔ ایک ضروری مسئلہ ھے۔ایک کمپنی ھے وہ اڈے کے مالکان سے کہتے ہیں کہ آپ ھر سواری سے 20 روپے اضافہ کرایہ کے علاوہ لے اور ہمیں دے دیں۔ اگر خدانخواستہ کوئی حادثہ ھوجائے تو ھم اس فنڈ سے میت کے ورثا کو(5) پانچ لاکھ روپے دینگے اور گاڈی کو نقصان کی صورت میں (20 )بیس لاکھ روپے گاڈی پر خرچ کرینگے۔اور کوئی حادثہ نہ ھو جائے تو ھم اس فنڈ سے غریبوں پر خرچ کرینگے۔آیا یہ معاملہ جائز ھے یا حرام تفصیل سے جواب دے کر وضاحت کریں۔بینوا توجروا

فقہ

Ref. No. 2249/44-2398

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شوہر نے اجازت دیدی اور بیوی اجازت کے بعد ہی اپنے میکہ گئی ہے ، اس لئے شرط کے مطابق بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، بیوی کو اس اجازت کا علم ہونا ضروری نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 758):

"(لاتخرجي) بغير إذني أو (إلا بإذني) أو بأمري أو بعلمي أو برضاي (شرط) للبر (لكل خروج إذن) إلا لغرق أو حرق أو فرقة ولو نوى الإذن مرةً دين، وتنحل يمينه بخروجها مرةً بلا إذن، ولو قال: كلما خرجت فقد أذنت لك سقط إذنه، ولو نهاها بعد ذلك صح عند محمد، وعليه الفتوى.

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

Ref. No. 2309/44-3472

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ واقعہ حیاۃ الصحابہ میں موجود ہے اور طبرانی کے حوالہ سے اس پر حسن ہونے کا حکم لگایاہے، اس لئے روایت درست ہے، آپ کو اس پر کیا اعتراض ہے؟ آٹھ رکعت تراویح کی روایت تو اس کے علاوہ بھی کتب حدیث میں موجودہے، تاہم احناف نے بیس رکعت تراویح کو ترجیح دی ہے، اس لئے کہ بیس رکعت تراویح بھی روایت اور تواترعمل سے ثابت ہے۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ حضرات اور دیگر دیوبندی حضرات بلاشبہ مسلمان اور اہل سنت والجماعت ہیں۔(۱)  کلمہ گو اور ارکان اسلام کے ماننے والے اور اس پر عمل کرنے والے کو کافر کہنا بہت بڑا گناہ ہے؛ بلکہ کفر کہنے والے ہی کی طرف لوٹتا ہے، جیسا کہ احادیث میں صراحت سے واضح ہوتا ہے(۲) بلا شبہ علماء دیوبند صراط مستقیم پر ہی ہیں۔

(۱) وتفترق أمتي علی ثلاث وسبعین ملۃ کلہم في النار إلا ملۃ واحدۃ قالوا: من ہي یارسول اللّٰہ؟ قال: ما أنا علیہ وأصحابي۔  (أخرجہ الترمذي، فی سننہ، ’’أبواب الإیمان، باب ما جاء في افتراق ہذہ الأمۃ‘‘: ج ۲، ص: ۹۳، رقم: ۲۶۴۱)
(۲) أیما رجل قال لأخیہ یا کافر فقد باء بہا أحد ہما إن کان کما قال وإلا رجعت علیہ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب من قال لأخیہ المسلم یا کافر‘‘: ج ۱، ص: ۵۷، رقم: ۶۰)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص252