Frequently Asked Questions
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 2649/45-4007
Answer:
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Blade and razor both are same in purpose, one is just a machine and one has to be operated by hand, there is no difference between the two in terms of cutting and cleansing, both are sharp iron blades used to remove hairs. So, one can use whatever is easily available.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Prayer / Friday & Eidain prayers
Ref. No. 2591/45-4090
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
According to Hanafi school of thought, sajda-e Tilawat is obligatory, and this is the track of many great companions. It is narrated from Hazrat Usman, Hazrat Ali, Hazrat Abdullah bin Masoud, Hazrat Abdullah bin Abbas, Hazrat Abdullah bin Umar (may Allah be pleased with them) that sajda-e Tilawat is obligatory on one who recites the verse of Sajdah, and the one who listens to it.
The reason for this school of thought to be preferred is that the Holy Qur'an condemns those who do not prostrate after recitation of Ayate sajda. The method of the Qur'an and Hadith is that they condemn only when an obligation is neglected. Hence, the Hanafi Ulama say Sajda-e Tilawat is wajib. If you think deeply about it, you will know that in the Sajda related verses of the Holy Qur'an, there is either a command for believers to prostrate, or the refusal of the prostration by the disbelievers, or the obedience of the followers, and certainly all these occasions are suitable for prostration.
" أما الأول فقد قال أصحابنا: إنها واجبة، وقال الشافعي: إنها مستحبة وليست بواجبة واحتج بحديث الأعرابي حين علمه رسول الله صلى الله عليه وسلم الشرائع، فقال: هل علي غيرهن؟ قال: لا إلا أن تطوع فلو كانت سجدة التلاوة واجبة لما احتمل ترك البيان بعد السؤال، وعن عمر - رضي الله عنه - أنه تلا آية السجدة على المنبر وسجد ثم تلاها في الجمعة الثانية فتشوف الناس للسجود فقال: أما إنها لم تكتب علينا إلا أن نشاء.
(ولنا) ما روى أبو هريرة - رضي الله عنه - عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «إذا تلا ابن آدم آية السجدة فسجد اعتزل الشيطان يبكي ويقول: أمر ابن آدم بالسجود فسجد فله الجنة وأمرت بالسجود فلم أسجد فلي النار» ، والأصل أن الحكيم متى حكى عن غير الحكيم أمرا ولم يعقبه بالنكير يدل ذلك على أنه صواب فكان في الحديث دليل على كون ابن آدم مأمورا بالسجود ومطلق الأمر للوجوب ولأن الله تعالى ذم أقواما بترك السجود فقال: {وإذا قرئ عليهم القرآن لا يسجدون}[الانشقاق: 21] وإنما يستحق الذم بترك الواجب ولأن مواضع السجود في القرآن منقسمة منها ما هو أمر بالسجود وإلزام للوجوب كما في آخر سورة القلم، ومنها ما هو إخبار عن استكبار الكفرة عن السجود فيجب علينا مخالفتهم بتحصيله، ومنها ما هو إخبار عن خشوع المطيعين فيجب علينا متابعتهم لقوله تعالى {فبهداهم اقتده} [الأنعام: 90] وعن عثمان، وعلي، وعبد الله بن مسعود، وعبد الله بن عباس وعبد الله بن عمر - رضي الله عنهم - أنهم قالوا: السجدة على من تلاها، وعلى من سمعها، وعلى من جلس لها على اختلاف ألفاظهم وعلى كلمة إيجاب.
وأما حديث الأعرابي ففيه بيان الواجب ابتداء لا ما يجب بسبب يوجد من العبد ألا ترى أنه لم يذكر المنذور وهو واجب وأما قول عمر-رضي الله عنه - فنقول بموجبه: إنها لم تكتب علينا بل أوجبت، وفرق بين الفرض والواجب على ما عرف في موضعه". بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1 / 180):
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: آپ نے استعفیٰ دینے کی قسم کھائی تھی اس کے بعد استعفیٰ دے دیا آپ نے اپنی قسم پوری کرلی۔ کمیٹی نے آپ کا استعفیٰ منظور نہیں کیا اور آپ پھر کمیٹی کے کہنے پر نماز پڑھانے لگے، تو اب قسم کا کفارہ آپ پر واجب نہیں،(۱) کیوں کہ قسم تو آپ کی پوری ہو گئی امامت آپ کی بلا کراہت درست ہے۔
(۱) {لا یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ بِاللَّغْوِفِيْٓ أَیْمَانِکُمْ وَلٰکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْأَیْمَانَج} (سورۃ المائدہ: ۸۹)
وفی الہدایۃ: ’’وإذا حلف لا یفعل کذا ترکہ أبدا لأنہ نفي الفعل مطلقا فعم الامتناع ضرورۃ عموم النفي وإن حلف لیفعلن کذا ففعلہ مرۃ واحدۃ بر في یمینہ لأن الملتزم فعل واحد غیر عین إذ المقام الإثبات فیبر بأي فعل فعلہ وإنما یحنث بوقوع الیأس عنہ وذلک بموتہ أو بفوت محل الفعل‘‘ المرغیناني، الھدایۃ، کتاب الأیمان، باب الیمین في تقاضي الدراھم، مسائل متفرقۃ،ج:۲ص:۵۰۵ )
وفي الفتاوی الہندیۃ:’’ الفصل الثاني في الکفارۃ وہي أحد ثلاثۃ أشیاء إن قدر عتق رقبۃ یجزء فیہا ما یجزء في الظہار أو کسوۃ عشرۃ مساکین لکل واحد ثوب فما زاد وأدناہ ما یجوز فیہ الصلاۃ أو إطعامہم والإطعام فیہا کالإطعام في کفارۃ الظہار ہکذا في الحاوي للقدسي. وعن أبي حنیفۃ وأبي یوسف رحمہما اللّٰہ تعالی أن أدنی الکسوۃ ما یستر عامۃ بدنہ حتی لا یجوز السراویل وہو صحیح کذا في الہدایۃ. فإن لم یقدر علی أحد ہذہ الأشیاء الثلاثۃ صام ثلاثۃ أیام متتابعات‘‘(جماعۃ من علماء الھند الفتاوی الہندیۃ، کتاب الأیمان، الباب الثاني: فیما یکون یمینًا و ما لا یکون یمینًا، الفصل الثاني في الکفارۃ، ج۲، ص:۶۶ )
وفي المحیط البرہاني:’’من حکم الأجر الخاص، أن ما ہلک علی یدہ من غیر صنعہ فلا ضمان علیہ بالإجماع، وکذلک ما ہلک من عملہ المأذون فیہ فلا ضمان علیہ بالإجماع‘‘(المحیط البرھاني ج:۷ص:۵۸۶م:دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص268
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کوئی ایسی حرکت نہ ہو کہ جس سے نماز فاسد ہوجاتی ہو تو کہنی مارنے یا غلط لقمہ دینے سے نماز فاسد نہ ہوگی اور نہ ہی مقتدیوں کی نماز پر کوئی فرق پڑے گا لیکن سماعت کے لیے عاقل بالغ سمجھ دار ہونا چاہئے۔(۱)
(۱) والصحیح أن ینوي الفتح علی إمامہ دون القراء ۃ، قالوا: ہذا إذا أرتج علیہ قبل أن یقرأ قدر ما تجوز بہ الصلاۃ، أو بعدما قرأ ولم یتحول إلی آیۃ أخری، وأما إذا قرأ أو تحول، ففتح علیہ، تفسد صلاۃ الفاتح، والصحیح: أنہا لاتفسد صلاۃ الفاتح بکل حال، ولا صلاۃ الإمام لو أخذ منہ علی الصحیح۔ ہکذا في الکافي۔ ویکرہ للمقتدي أن یفتح علی إمامہ من ساعتہ، لجواز أن یتذکر من ساعتہ، فیصیر قارئاً خلف الإمام من غیر حاجۃ، کذا في محیط السرخسي۔ ولا ینبغي للإمام أن یلجئہم إلی الفتح؛ لأنہ یلجئہم إلی القراء ۃ خلفہ وإنہ مکروہ، بل یرکع إن قرأ قدر ماتجوز بہ الصلاۃ، وإلا ینتقل إلی آیۃ أخری۔ کذا في الکافي۔ وتفسیر الإلجاء: أن یردد الآیۃ أو یقف ساکتا، کذا في النہایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ،کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، ج۱، ص:۱۵۷، ۱۵۸)
فصار الحاصل: أن الصحیح من المذہب أن الفتح علی إمامہ لایوجب فساد صلاۃ أحد، لا الفاتح ولا الآخذ مطلقا في کل حال، بخلاف فتحہ علی إمامہ فإنہ لا یفسد مطلقا لفاتح وآخذ بکل حال … وینوي الفتح لا القراء ۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق،’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘ ج۴، ص: ۱۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص116
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1067
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ جنازہ کی نماز کے بعدمیت کا چہرہ دکھانے سے احتراز کیا جاناچاہئےکیونکہ بعض مرتبہ احوال برزخ شروع ہوجاتے ہیں، تاہم اگر کوئی قریبی رشتہ دار آجائے تو اس کو مردے کا چہرہ دکھانے کی گنجائش ہے، لیکن اگر کوئی تغیر دیکھے تو کسی سے بیان نہ کرے۔ البتہ اس کو رسم ہرگز نہ بنایا جائے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حج و عمرہ
Ref. No. 1015/41-169
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طوافِ زیارت کے بعد نفلی طواف سے بھی طواف وداع ادا ہو جاتا ہے، اور دم واجب نہیں ہوتا ہے ۔لیکن اگر طواف زیارت کے بعد نہ تو طواف وداع کیا اور نہ ہی کوئی طواف ایسا کیا جو طواف وداع کے قائم مقام ہوجائے تو پھر اس پر دم واجب ہوگا۔ تاہم مناسک حج کےمکمل ہونے کی وجہ سے بیوی حلال ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1132/42-333
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (الف) زید کی کل جائداد کو 64 حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے بیوی کو8 حصے، ہر ایک بیٹے کو 14 حصے (کل 42حصے)، اور ہر ایک بیٹی کو 7 حصے (کل 14 حصے) ملیں گے۔
(ب) اگر کوئی اپنی زندگی میں ہی اپنی جائداد تقسیم کرنا چاہتا ہے تو کرسکتا ہے، اور اس میں بہتر یہ ہے کہ تمام مذکرومؤنث اولاد کو برابر برابر حصہ دے۔ لیکن اگر وراثت کے اعتبار سے حصوں کی تقسیم کرے تو بھی جائز ہے؟ لیکن اسے ہبہ کہیں گے، وراثت نہیں۔
(ج) فاطمہ کی کل جائداد کو 32 حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے شوہر کو 8 حصے، ہر ایک بیٹے کو 6 حصے(کل 18حصے)، اور ہر ایک بیٹی کو 3 حصے (کل 6 حصے) ملیں گے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1233/42-547
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح اجتماعی دعا کرنا قرون مشہود لہا بالخیر میں ثابت نہیں ہے، اس لئے اس کو رسم بنانا اور جو عورتیں اس میں شریک نہ ہوں ان پر نکیر کرنا اور ان کو ملامت کرنا یہ سب امور غلط ہیں۔ تاہم اگر اتفاقی طور پر اجتماعی دعا کی شکل ہوجائے تو اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ کسی امر مندوب پر اصرار اس امر کو بدعت بنادیتا ہے۔ والاصرار علی المندوب یبلغہ الی حد الکراہۃ (السعایۃ 2/65 باب صفۃ الصلوۃ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
عائلی مسائل
Ref. No. 1754/43-1465
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ علینہ بمعنی واضح ، ظاہر۔ یہ عربی لفظ ہے، بچی کا نام رکھ سکتے ہیں۔ تاہم امہات المومنین، صحابیات اور اچھے معانی والے ناموں میں سے کسی نام کا انتخاب کرنا چاہئے۔ نام کا بچہ پر اثر پڑتا ہے، اور اسی نام کے ساتھ میدان محشر میں پکاراجائے گا، اس لئے بہت سوچ سمجھ کر اچھے نام کا انتخاب کریں۔ حدیث شریف میں میں بچوں کا اچھا نام رکھنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے اور خراب یا بدشگونی والے نام رکھنے سے منع فرمایا گیا ہے اور آپ ﷺ نے بعض لوگوں کا نام تبدیل بھی کیا ہے۔
عِنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہ :أَنَّہُمْ قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَدْ عَلِمْنَا مَا حَقُّ الْوَالِدِ عَلَی الْوَلَدِ فَمَا حَقُّ الْوَلَدِ عَلَی الْوَالِدِ؟قَالَ أَنْ یُحْسِنَ اِسْمَہ‘ وَیُحْسِنَ أَدَبَہ‘۔( شعب الایمان، حدیث نمبر:۸۶۵۸)
اِنَّکُمْ ُتدْعَوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِأَسْمَائِکُمْ وَاَسْمَاءِ آبَائِکُمْ فَأَحْسِنُوْا أَسْمَائَکُمْ ۔ (سنن ابی داؤد:2/676،المیزان ،کراچی)
عَنْ عَبْدِالْحَمِیْدِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ شَیْبَۃَ قَالَ جَلَسْتُ اِلٰی سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ فَحَدَّثَنِیْ أَنَّ جَدَّ ہٗ حَزَنًا قَدِمَ عَلٰی النبی صلی اللہ علیہ و سلم قَالَ مَا اسْمُکَ قَالَ اسْمِیْ حَزَنٌ قَالَ بَلْ اَنْتَ سَھْلٌ قَالَ ھَل اَنَا بِمُغَیِّرٍ اِسْمًا سَمَّانِیْہِ أَبِیْ قَالَ ابْنُ المُسَیِّبِ فَمَا زَالَتْ فِیْنَا الْحَزُوْنَۃُ بَعْدُ۔( ابوداؤد :۲ /۶۷۷، مصنف عبد الرزاق :۱۱/۴۱ ،السنن الکبرٰی :۹/۵۱۶ بخاری: ۲/۹۱۴ )
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا هِشَامٌ أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ شَيْبَةَ قَالَ جَلَسْتُ إِلَى سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ فَحَدَّثَنِي أَنَّ جَدَّهُ حَزْنًا قَدِمَ عَلَى النَّبِيِّ ? فَقَالَ مَا اسْمُكَ قَالَ اسْمِي حَزْنٌ قَالَ بَلْ أَنْتَ سَهْلٌ قَالَ مَا أَنَا بِمُغَيِّرٍ اسْمًا سَمَّانِيهِ أَبِي قَالَ ابْنُ الْمُسَيَّبِ فَمَا زَالَتْ فِينَا الْحُزُونَةُ بَعْدُ (صحيح البخاري-نسخة طوق النجاة - (1 / 88)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند