Frequently Asked Questions
Taharah (Purity) Ablution &Bath
Ref. No. 39/1065
In the name of Allah the most gracious the most merciful
The answer to your question is as follows:
Ghusl doesn’t become invalid due to mere sensation without discharge of mani. If mani gets discharged then only ghusl becomes invalid. But when there was no virginal discharge at all, your wudu is still valid though it is better to repeat the wudu. In your case mentioned above, ghusl is not wajib on you due to mere feeling without any kind of discharge.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 40/???
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایام قربانی سے پہلے قربانی کی نیت سے خریدے ہوئے بکرے کو وہ غریب بیچ سکتا ہے لیکن اگر ایام قربانی میں ایسا ہوا ہے تو بکرے کی قربانی کردے۔(2) ایام قربانی میں ہونے کی وجہ سے اس بکرے کی قربانی ہی واجب ہے۔ اس کو بیچنا درست نہیں ہے۔ (شامی ج4ص609)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Ref. No. 41/1003
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال میں اس کی وضاحت نہیں ہے کہ والد کے ترکہ میں سے اس کو کیا ملنے والا ہے، کیا ترکہ سے ملنے ولاحصہ حاجت اصلیہ کے علاوہ اتنی مقدار ہے کہ وہ صاحب نصاب ہوجائے؟ اس کی وضاحت کرکے دوبارہ مسئلہ معلوم کریں
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1107/42-336
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شوہر نے جب طلاق نامہ تیار کرایا اور دستخط کرکے آپ کے پاس بھیج دیا تو ان کاغذات پر جتنی طلاق لکھی تھی شرعا وہ ساری طلاقیں واقع ہوگئیں۔اگر ایک یا دو طلاقیں لکھی ہیں تو رجوع یا دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے، اگر تین طلاق دیدی ہے تو دوبارہ نکاح کی گنجائش نہیں ہے۔
ولو قال للکاتب: اکتب طلاق امرأتي کان إقراراً بالطلاق وان لم یکتب۔ ہدایہ فان طلقھا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ (القرآن- سورۃ البقرۃ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1338/42-720
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلاق دینا یاد ہے مگر طلاق کتنی مرتبہ دی یہ یاد نہیں تو ایسی صورت میں جتنی طلاقیں یقینی ہیں وہ طلاقیں واقع ہوں گی لہذا ایک طلاق رجعی تو یقینی طور پر واقع ہوگئی، اور اگر تیسری طلاق میں شک ہو اور دوسری طلاق یقینی ہو تو دو طلاق رجعی کا حکم لگے گا۔ صورت مسئولہ میں ایک یا دو طلاق کا اگر یقین ہے تو عدت (تین حیض ) گزرنے سے پہلے رجعت کرسکتے ہیں اور اگر عدت کے دوران رجعت نہیں کی تو یہ ایک /دو طلاقیں بائن ہوجائیں گی اور عدت کے بعد نکاح جدید کرکے دونوں ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ اور اگر تین طلاق کا یقین ہے تو فورا علیحدہ ہونا واجب ہے، یہ طلاق مغلظہ ہے جس کے بعد اب دونوں میں نکاح باقی نہیں رہا۔ مرد اپنا نکاح کہیں اور کرلے اور عورت عدت گزرنے کے بعد کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔
الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ الی قولہ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ۗ (القرآن: سورۃ البقرۃ 229/230)
ولو شک أطلق واحدة أو أکثر بني علی الأقل أي کما ذکرہ الإسبیجابي إلا أن یستیقن بالأکثر أو یکون أکبر ظنہ․ (فتاوی شامی: 3/283)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1465/42-894
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آج کل کے موجودہ یہودی اور نصرانی بھی اہل کتاب میں شامل ہیں گوکہ ان کا ایمان محرف توریت و انجیل پر ہے۔
مولانا مفتی شفیع عثمانی صاحب معارف القرآن میں تحریر فرماتے ہیں: قرآنِ کریم کی بے شمار تصریحات سے واضح ہے کہ اہلِ کتاب ہونے کے لیے صرف اتنی بات کافی ہے کہ وہ کسی آسمانی کتاب کے قائل ہوں اور اس کی اتباع کرنے کے دعوے دار ہوں۔ خواہ وہ اس کے اتباع میں کتنی گم راہیوں میں جا پڑے ہوں، قرآنِ کریم نے جن کو اہلِ کتاب کا لقب دیا، انہیں کے بارے میں یہ بھی جابجا ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ اپنی آسمانی کتابوں میں تحریف کرتے ہیں۔ اور یہ بھی فرمایا کہ یہود نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا قرار دے دیا اور نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو۔ ان حالات وصفات کے باوجود جب قرآن نے ان کو اہلِ کتاب قرار دیا تو معلوم ہوا کہ یہود و نصاریٰ جب تک یہودیت و نصرانیت کو بالکل نہ چھوڑ دیں وہ اہلِ کتاب میں داخل ہیں۔ خواہ وہ کتنے ہی عقائدِ فاسدہ اور اعمالِ سیئہ میں مبتلا ہوں۔
مسلمان کا نکاح کسی کافرہ اور دہریہ عورت سے جائز نہیں جو کسی رسول پر ایمان نہ رکھتی ہو۔ البتہ اگر کوئی عورت یہودیہ یا نصرانیہ ہو اور اپنے نبی پر ایمان رکھتی ہو، تو اس سے مسلمان کا نکاح درست ہے۔ خیال رہے کہ اہل کتاب عورتوں سے نکاح گرچہ جائز ہے مگر بہت سارے مفاسد کے پیش نظر ان سے نکاح کو مکروہ لکھا ہے۔اس لیے کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہدِ خلافت میں مسلمانوں کو کتابیہ عورتوں کے نکاح سےمنع فرمادیاتھا۔
"عن نافع عن ابن عمر أنه کان یکره نکاح نساء أهل الکتاب ولایری بطعامهن بأسًا". (المصنف لابن أبي شیبة ۳؍۴۶۳ رقم: ۱۶۱۵۹ دار الکتب العلمیة بیروت)"عن ابن عمر أنه کره نکاح نساء أهل الکتاب وقرأ: {وَلَاتَنْکِحُوْا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ} [البقرة: ۲۲۱]". (المصنف لابن أبي شیبة ۳؍۴۶۳ رقم: ۱۶۱۶۰ بیروت) الدرالمختار میں ہے: "(وصح نكاح كتابية)، وإن كره تنزيهاً (مؤمنة بنبي) مرسل (مقرة بكتاب) منزل، وإن اعتقدوا المسيح إلهاً". (ج:۳،ص:۴۵،ط :سعید)وفی الشامیۃ: "(قوله: مقرة بكتاب) في النهر عن الزيلعي: واعلم أن من اعتقد ديناً سماوياً وله كتاب منزل كصحف إبراهيم وشيث وزبور داود فهو من أهل الكتاب؛ فتجوز مناكحتهم وأكل ذبائحهم. (قوله: على المذهب) أي خلافاً لما في المستصفى من تقييد الحل بأن لايعتقدوا ذلك، ويوافقه ما في مبسوط شيخ الإسلام: يجب أن لايأكلوا ذبائح أهل الكتاب إذا اعتقدوا أن المسيح إله، وأن عزيراً إله، ولايتزوجوا نساءهم، قيل: وعليه الفتوى، ولكن بالنظر إلى الدليل ينبغي أنه يجوز الأكل والتزوج. اهـ. قال في البحر: وحاصله أن المذهب الإطلاق لما ذكره شمس الأئمة في المبسوط من أن ذبيحة النصراني حلال مطلقاً سواء قال بثالث ثلاثة أو لا؛ لإطلاق الكتاب هنا، والدليل ورجحه في فتح القدير بأن القائل بذلك طائفتان من اليهود والنصارى انقرضوا لا كلهم مع أن مطلق لفظ الشرك إذا ذكر في لسان الشرع لاينصرف إلى أهل الكتاب، وإن صح لغةً في طائفة أو طوائف؛ لما عهد من إرادته به من عبد مع الله تعالى غيره ممن لايدعي اتباع نبي وكتاب إلى آخر ما ذكره. اهـ". (ج:۳،ص:۴۵،ط:سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1567/43-1087
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔حالت حمل میں بھی بیوی سے صحبت کرنا جائز ہے بشرطیکہ کسی مضرت کا اندیشہ نہ ہو۔ تاہم اگرصحبت کرنا طبی اعتبار سے مضر ہو اور شوہر پر شہوت کا غلبہ ہو تو اس کی گنجائش ہے۔
"بقي هنا شيء وهو أن علة الإثم هل هي كون ذلك استمتاعا بالجزء كما يفيده الحديث وتقييدهم كونه بالكف ويلحق به ما لو أدخل ذكره بين فخذيه مثلا حتى أمنى، أم هي سفح الماء وتهييج الشهوة في غير محلها بغير عذر كما يفيده قوله وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة إلخ؟ لم أر من صرح بشيء من ذلك والظاهر الأخير؛ لأن فعله بيد زوجته ونحوها فيه سفح الماء لكن بالاستمتاع بجزء مباح كما لو أنزل بتفخيذ أو تبطين بخلاف ما إذا كان بكفه ونحوه وعلى هذا فلو أدخل ذكره في حائط أو نحوه حتى أمنى أو استمنى بكفه بحائل يمنع الحرارة يأثم أيضًا". (شامی 2/399)
"ويجوز أن يستمني بيد زوجته وخادمته اهـ وسيذكر الشارح في الحدود عن الجوهرة أنه يكره ولعل المراد به كراهة التنزيه فلا ينافي قول المعراج يجوز، تأمل". (شامی 2/399) "في الجوهرة: الاستمناء حرام، وفيه التعزير. ولو مكن امرأته أو أمته من العبث بذكره فأنزل كره ولا شيء عليه". و في الرد: "(قوله: ولا شيء عليه) أي من حد وتعزير، وكذا من إثم على ما قلناه" (شامی 4/27)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
آداب و اخلاق
Ref. No. 1745/43-1451
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر پلنگ کے علاوہ کتابیں رکھنے کی جگہ نہ ہو اور کتابوں کو محفوظ رکھنے کے لئے ان کو پلنگ میں رکھ دیا گیا ہو تو اس میں سونے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن دوسری جگہ گنجائش کے باوجود پلنگ میں کتاب رکھنا اور اس پر سونا سوئے ادب معلوم ہوتاہے اس لئے احتراز کرنا چاہئے۔
وضع المصحف تحت رأسه في السفر للحفظ لا بأس به وبغير الحفظ يكره، كذا في خزانة الفتاوى. يجوز قربان المرأة في بيت فيه مصحف مستور، كذا في القنية۔ رجل أمسك المصحف في بيته، ولا يقرأ قالوا: إن نوى به الخير والبركة لا يأثم بل يرجى له الثواب، كذا في فتاوى قاضي خان.
وإذا حمل المصحف أو شيئا من كتب الشريعة على دابة في جوالق وركب صاحب الجوالق على الجوالق لا يكره، كذا في المحيط.
مد الرجلين إلى جانب المصحف إن لم يكن بحذائه لا يكره، وكذا لو كان المصحف معلقا في الوتد وهو قد مد الرجل إلى ذلك الجانب لا يكره، كذا في الغرائب. إذا كان للرجل جوالق، وفيها دراهم مكتوب فيها شيء من القرآن، أو كان في الجوالق كتب الفقه أو كتب التفسير أو المصحف فجلس عليها أو نام، فإن كان من قصده الحفظ فلا بأس به، كذا في الذخيرة. (الھندیۃ، الباب الخامس فی آداب المسجد والقبلۃ 5/322)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:درود شریف کا پڑھنا بہت بڑی فضیلت اور برکت کی چیز ہے کہ درود شریف کی وجہ سے دعائوں کے قبول ہونے اور مقبول بننے کے امکانات قوی تر ہوجاتے ہیں اور اس کا اجر و ثواب بھی بہت ہے۔ غرض درود شریف پڑھنے پر کوئی نکیر نہیں کرے گا؛ لیکن نمازوں کے بعد مسجدوں میں اجتماعی طور سے زور زور سے ’’صلی اللّٰہ علیک یا رسول اللّٰہ وسلم علیک یا حبیب اللّٰہ‘‘ پڑھنا احادیث، ائمہ اربعہ اور کسی بھی مسلک کے مجتہد و امام مستند سے ثابت نہیں ہے، اس سے مسجد میں بعد میں نماز پڑھنے والوں کی نمازوںمیں خلل پیدا ہوتا ہے اور ایسی چیزیں جڑیں پکڑتی ہیں جو سنت و شریعت کے خلاف ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین و شریعت کی اور اپنی محبت و عظمت کی جو حدیث مبارک بیان فرمادی ہیں بس ان کے اندر رہنا ہی منشاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پورا کر نا ہے۔ اپنی طرف سے نئے نئے طریقے ایجاد کرنا، پھر ان میں تاویل وتوجیہ کے راستے اختیار کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی منشاء مبارک کے خلاف ہے۔ جو لوگ اس عمل کو گیت اور گانے سے تشبیہ دیتے ہیں ان کی یہ تشبیہ تو غلط ہی ہے۔ جو لوگ محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں حدود سے تجاوز کرتے ہیں ان کو بجائے لعن طعن و تشنیع کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقۂ موعظت وحکمت سے محبت کے ساتھ سمجھانا چاہئے کیوںکہ ان کی محبت میں شرعی شعور نہیں۔ اگر اس طرح درود پڑھنے والوں کا طریقۂ کار غلط ہے، تو اختلاف کرنے والوں کا طریقۂ کار بھی غلط ہے۔ غلطی سے غلطی کا ازالہ نہیں کیا جاسکتا۔ سنت کے مطابق محبت وحکمت سے اصلاح کی جانی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اور صحیح محبت عطا فرمائے۔(۱)
(۱) عبد الرحمن بن أبي لیلی قال: لقینی کعب بن عجرۃ رضي اللّٰہ عنہ، فقال: ألا أہدی لک ہدیۃ سمعتہا من النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقلت: بلی فأہدہا لي، فقال: سألنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: فقلنا یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کیف الصلاۃ علیکم أہل البیت فإن اللّٰہ قد علمنا کیف نسلم علیکم، قال: قولوا: اللہم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی إبراہیم، وعلی آل إبراہیم إنک حمید مجید۔ اللہم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی إبراہیم وعلی آل إبراہیم، إنک حمید مجید۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأنبیاء علیہم السلام: باب یزفون النسلان في المشي‘‘: ج ۱، ص: ۴۷۷، رقم: ۳۳۷۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص368
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: حرمیں شریفین میں حنفی حضرات کے لیے حنبلی طریقہ کے مطابق جماعت کے ساتھ وتر کی نماز درست ہے، یہ مسئلہ اجتہادی ہے اور بعض ائمہ احناف نے اس کی اجازت دی ہے؛ اس لیے حرمین میں اس پر عمل کرنے کی گنجائش ہے۔
حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے حضرت شیخ الہندؒ کی یہی رائے نقل کی ہے کہ ان کے پیچھے اقتداء کرنا جائز ہے۔
’’و لا عبرۃ بحال المقتدي و إلیہ ذہب الجصاص و ھو الذي اختارہ لتوارث السلف اقتداء أحدہم بالآخر بلا نکیر مع کونہ مختلفین في الفــروع وکان مولانا شیخ الہند محمود الحسن أیضاً: یذہب إلی مذہب الجصاص‘‘(۱)
(۲) نفل یا تہجد کی نماز رمضان میں یا غیر رمضان میں جماعت کے ساتھ مکروہ ہے؛ اس لیے کہ احناف کے یہاں نفل کی جماعت نہیں ہے ہاں اگر بغیر تداعی کے جماعت ہو اس طور پر کہ دو تین لوگ شریک ہو جائیں تو درست ہے اور تداعی کے ساتھ نفل کی جماعت مکروہ ہے اور چار یا چار سے زائد افرا د کا ہونا یہ تداعی ہے۔
’’ولا یصلي الوتر و لا التطوع بجماعۃ خارج رمضان، أي یکر ہ ذلک علی سبیل التداعي، بأن یقتدی أربعۃ بواحد و في الشامیۃ: و أما اقتداء واحد بواحد أو إثنین بواحد فلا یکرہ و ثلاثۃ بواحد فیہ خلاف‘‘(۲)
’’وأما وتر غیرہ وتطوعہ فمکروہۃ فیہما علی سبیل التداعي قال شمس الأئمۃ الحلواني إن اقتدی بہ ثلاثۃ لا یکون تداعیا فلا یکرہ إتفاقا وإن اقتدی بہ أربعۃ فالأصح الکراہۃ‘‘(۳)
البتہ رمضان میں حرمین میں قیام اللیل کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہے چوں کہ حرمین کا مسئلہ عام جگہ سے مختلف ہے، وہاں پر نماز کی زیادہ فضیلت ہے؛ اس لیے علماء نے حرمین میں قیام اللیل کی جماعت میں شریک ہونے کی اجازت دی ہے یہی وجہ ہے کہ وہاں وتر کو بھی فقہاء نے جائز قرار دیا ہے۔(۱)
(۱) الکشمیري، فیض الباري، شرح البخاري، ’’باب مسح الید بالتراب لیکون انقی‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۸، دارالکتب العلمیۃ بیروت۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب في کراہیۃ الاقتداء في النفل علی سبیل التداعي‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۰)
(۳) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۲۸۶، شیخ الہند دیوبند۔
(۱) والجماعۃ في النفل في غیر التراویح مکروہۃ فالاحتیاط ترکہا في الوتر خارج رمضان، وعن شمس الأئمۃ أن ہذا فیما کان علی سبیل التداعي، أما لو اقتدی واحد بواحد أو إثنان بواحد لا یکرہ وإذا اقتدی ثلاثہ بواحد اختلف فیہ وأن اقتداء أربعۃ بواحد کرہ اتفاقاً۔ (حسن بن عمار، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر وأحکامہ‘‘: ص: ۳۸۶، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص250