Frequently Asked Questions
نکاح و شادی
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ واقعہ غلط ہے اسرائیلی روایات میں اس کا ذکر ہے جو کہ قابل اعتبار نہیں۔(۱)
(۱) ذکر ابن الجوزي بعد قصۃ طویلۃ: ’’ہذا حدیث موضوع‘‘:
کیف روي ومن أي طریق نقل؟ وضعہ جہال القصاص لیکون سببا في تبکیۃ العوام والنساء، فقد أبدعوا فیہ وأتوا بکل قبیح ونسبوا إلی عمر ما لا یلیق بہ، ونسبوا الصحابۃ إلی ما لا یلیق بہم، وکلماتہ الرکیکۃ تدل علی وضعہ، وبعدہ عن أحکام الشرع یدل علی سوء فہم واضعہ وعدم فقہہ۔
ہذا الذي ذکرہ محمد بن سعید في الطبقات وغیرہ۔ ولیس بعجیب أن یکون شرب النبیذ متأولا فسکر عن غیر اختیار، وإنما لما قدم علی عمر ضربہ ضرب تأدیب لا ضرب حد، ومرض بعد ذلک لا من الضرب ومات، فلقد أبدوا فیہ القصاص وأعادوا۔ وفي الإسناد الأول من ہو مجہول ثم ہو منقطع۔ (جمال الدین عبدالرحمن بن علي بنمحمد الجوزي، الموضوعات: ج ۳، ص: ۲۷۵)
(۲) {لَوْلَآ إِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بِأَنْفُسِھِمْ خَیْرًالا وَّقَالُوْا ھٰذَا إِفْکٌ مُّبِیْنٌہ۱۲} (سورۃ النور: ۱۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص230
اسلامی عقائد
الجواب وبا اللّٰہ التوفیق:عرس ایک بدعت واضحہ ہے جس کو سلطان اربل نے ۶۰۰ھ میں ایجاد کیا ، اور اس میں بعد میں جو شرعی قباحتیں داخل کرلی گئیں مثلاً گانا بجانا، عورتوں مردوں کا اختلاط اور دیگر خرابیاں ان کی وجہ سے اس کو ناجائز ہی کہا جائے گا۔(۱)
(۱) لا یجوز ما یفعلہ الجہال بقبور الأولیاء والشہداء من السجود والطواف حولہا واتخاذ السرج والمساجد علیہا ومن الاجتماع بعد الحول کالأعیاد ویسمونہ عرسا۔ (محمد ثناء اللّٰہ، پاني پتي، تفسیر مظہري، ’’سورۃ آل عمران: ۶۴‘‘: ج ۲، ص: ۶۸)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ قال: (لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم زائرات القبور والمتخذین علیہا المساجد والسرج)۔ (العیني، عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري، ’’باب زیارۃ القبور‘‘: ج ۱۲، ص: ۲۷۵)
ویکرہ عند القبر ما لم یعہد من السنۃ والمعہود منہا لیس إلا زیارتہ والدعاء عندہ قائما، کذا في البحر الرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الحادي والعشرون: في الجنائز، الفصل السادس في القبر والدفن‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۸)
ولا یمسح القبر ولا یقبلہ ولا یمسہ فإن ذلک من عادۃ النصاری کذا في شرح الشرعۃ۔ (أحمد بن محمد بن إسماعیل الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب أحکام الجنائز، فصل في زیارۃ القبور‘‘: ج ۱، ص: ۶۲۱)
والمستحب في زیارۃ القبور أن یقف مستدبر القبلۃ مستقبلا وجہ المیت وأن یسلم ولا یمسح القبر ولا یقبلہ ولا یمسہ فإن ذلک من عادۃ النصاری کذا في شرح الشرعۃ۔ (أحمد بن محمد بن إسماعیل الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب أحکام الجنائز، فصل في زیارۃ القبور‘‘: ج ۱، ص: ۶۲۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص355
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:شب برأت، عید الفطر ، عید الاضحی اور محرم کی دسویں تاریخ میں بعض امور کو ضروری اور لازم سمجھنا اور ان کو انجام دینا جن کا سوال میں تذکرہ ہوا ہے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے زمانے میں ان چیزوں کی کوئی اصل نہیں ملتی اور نہ ہی یہ چیزیں دین اسلام اور مسلمانوں کے کسی فائدے کی چیزیں ہیں؛ اس لیے یہ چیزیں بدعات سیئہ ہوکر ناجائز و حرام ہیں بدعت یعنی دین میں کسی چیز کو لازم سمجھ لینا جب کہ دین میں اس کی کوئی اصل نہ ہو شرعاً بڑا گناہ ہے اور اس پر احادیث میں بڑی سخت وعیدیں ہیں۔(۱)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
وکل ہذہ بدع ومنکرات لا أصل لہا في الدین ولا مستند لہا من الکتاب والسنۃ، …ویجب علی أہل العلم أن ینکروہا وأن یبطلوا ہذہ العادات ما استطاعوا۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، معارف السنن، ’’باب الشتدید في البول‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص493
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ آیت مشرکین اور دیگر عرب قبائل کے ساتھ جو معاہدات تھے، اس سے متعلق ہے اس کا جماعت میں نکلنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس آیت کی تفسیر یہ ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر مسلمانوں کا مکہ پر مکمل قبضہ ہوگیا، مکہ او راطراف مکہ میں رہنے والے غیر مسلموں کو جان، مال کی امان دیدی گئی؛ لیکن اس وقت ان غیر مسلموں کے مختلف حالات تھے، ایک تو وہ لوگ تھے جن سے حدیبیہ میں صلح کا معاہدہ ہوا اور انہوں نے خود اس کو توڑ دیا اور وہی فتح مکہ کا سبب ہوا دوسرے کچھ ایسے لوگ بھی تھے، جن سے صلح کا معاہدہ کسی خاص میعاد کے لیے کیا گیا تھا اور وہ اس معاہدے پرقائم رہے، جیسے ’’بنی کنانہ‘‘ کے دو قبیلے ’’بنی ضمرہ‘‘ اور ’’بنی مدلج‘‘ جن سے ایک مدت کے لیے صلح ہوئی تھی اور سورۃ برأت نازل ہونے کے وقت بقول خازن ان کی میعاد صلح کے نو مہینے باقی تھے، تیسرے: کچھ ایسے لوگ بھی تھے جن سے معاہدۂ صلح بغیر تعیین مدت کے ہوا تھا۔ چوتھے: وہ لوگ تھے جن سے کسی قسم کا معاہدہ نہ تھا، غرض سورہ توبہ کی پہلی دو آیات میں ان سب لوگوں کو جن سے بلاتعیین مدت کوئی معاہدہ تھا یا جن کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ تھا چار مہینے کی مہلت دی گئی اور چوتھی آیت کی رو سے ان لوگوں کو تا اختتام معاہدہ مہلت مل گئی جن کے ساتھ کسی خاص میعاد کا معاہدہ تھا اور پانچویں آیت سے مشرکین مکہ کو اشہر حرم ختم ہونے تک مہلت مل گئی۔(۱)
(۱) مفتي محمد شفیع عثمانيؒ، معارف القرآن: ج ۴، ص: ۳۱۱۔
فسیحوا في الأرض: لأن الکلام خطاب مع المسلمین علی أن المعني براء ۃ من اللّٰہ ورسولہ إلی الذین عاہدتم من المشرکین فقولوا لہم: سیحوا إلا الذین عاہدتم منہم ثم لم ینقصوکم فأتموا إلیہم عہدہم، وہو بمعنی الاستدراک کأنہ قیل: فلا تمہلوا الناکثین غیر أربعۃ أشہر ولکن الذین لم یکنثوا فأتموا إلیہم عہدہم ولا تجروہم مجر الناکثین۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ التوبۃ: ۱، ۱۷‘‘: ج ۶، ص: ۷۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص44
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 2550/45-3954
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is follows:
There is no considerable benefit in wearing high-heeled sandals, but it is simply worn as a fashion, and because it is very noticeable, it attracts the attention of strangers, which is a source of temptation, so women should avoid High-heeled sandals. However, there is no sin in wearing shoes that are made for women, or that are commonly used by both women and men.
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
فقہ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ولید بن عبد الملک کے زمانہ میں حضرت عمر بن عبد العزیز نے مسجد نبوی کی محراب بنوائی تھی۔(۱)
(۱) أول من أحدث ذلک عمر بن عبد العزیز وہو یومئذ عامل للولید بن عبد الملک علی المدینۃ۔ (مرقاۃ المفاتیح، شرح مشکوۃالمصابیح، ’’باب المساجد ومواضع الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۲۴، رقم: ۷۴۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص177
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جو شیعہ کسی نص قطعی کا منکرہو، مثلاً: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگاتا ہو، یا صحابہ کرام پر تبرا کرتا ہو، یا قرآن کریم میں تحریف کا قائل ہو، یا وحی میں غلطی کا قائل ہو، وہ بلاشبہ کافر ہے اور جو ایسا نہ ہو وہ کافر نہیں ہے۔ اگر مذکورہ فی السوال شیعہ پہلی قسم یعنی کسی نص شرعی کا انکار کرنے والوں میں سے ہو، تو ان کو قربانی میں شریک کرنا یا ان کے ساتھ مناکحت کے تعلقات قائم کرنا شرعاً جائز نہیں۔ باقی ان کے ساتھ کھانا، پینا وغیرہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اگر مصلحۃً ہو کہ وعظ ونصیحت کا موقعہ ملے ان کو اہل سنت والجماعت کی حقانیت بتلانے کا موقعہ ملے اور اگر موالات کے طور پر ہو، تو ناجائز ہے، اسی طرح ان سے چندہ وغیرہ لینا کہ اگر کسی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو تو شرعاً گنجائش ہے اور اگر ایسے شیعہ ہوں کہ ضروریات دین اور نصوص شرعیہ کے منکر نہیں؛ بلکہ فروعی اختلاف رکھتے ہوں، تو وہ چونکہ کافر نہیں ہیں؛ اس لئے ان سے مناکحت وغیرہ سب درست ہیں اور چونکہ شیعوں کا ایک بنیادی عقیدہ تقیہ ہے کہ اس کی وجہ سے ان کے عقیدے مخفی رہتے ہیں؛ اس لئے جہاں تک ہو سکے احتیاط لازم ہے۔ ہاں افہام وتفہیم کے طریقے حتی الامکان تلاش کئے جائیں۔ (۱)
(۱) وإن کان یفضل علیاً کرم اللّٰہ وجہہ علي أبي بکر رضي اللّٰہ عنہ لا یکون کافراً إلا أنہ مبتدع۔ (جماعۃ من علماء الہند: الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجباب الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالأنبیاء علیہم السلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۶)
نعم لا شک في تکفیر من قذف السیدۃ عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا أو أنکر صحبۃ الصدیق رضي اللّٰہ عنہ أو اعتقد الألوہیۃ في علي رضي اللّٰہ عنہ أو أن جبرئیل علیہ السلام غلط في الوحي أو نحو ذلک من الکفر الصریح المخالف للقرآن۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہا: باب المرتد، مطلب مہم: في حکم سب الشیخین‘‘: ج ۶، ص: ۳۷۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص280
Zakat / Charity / Aid
Ref. No. 2595/45-4093
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
It is not permissible for those who collect donation to demand a percentage out of the donation amount as remuneration. If the administration of the Madrasa gives some money from other than zakat fund as a reward for someone's good performance, considering his hard work, it is permissible. It is also not permissible to give commission or reward from Zakat money. Those who go to collect donation should also learn the etiquettes of collecting donations.
وتفسد الإجارة بجهالة المسمى كله و بعضه" (شامی،كتاب الإجارة،باب الإجارة الفاسدة،ج:6،ص:48، ط:سعيد)
"ولودفع غزلا لآخرلينسجه بنصفه أو إستأجربغلاليحمله طعامه ببعضه"(شامی، باب الإجارة الفاسدة، 6/56:سعيد)
"سوال (8160): ہمارے یہاں مدرسہ کا چندہ ہوتا ہے ، اس میں سفراء کمیشن بھی لیتے ہیں ، یہ کہاتک درست ہے، اور جائز ہے یا نہیں؟
الجواب حامداومصلياً:اس طرح معاملہ کرنا کہ جس قدر چندہ لاؤ گے اس میں سے نصف یا ثلث وغیرہ تم کو ملے گا ، شرعاً درست نہیں ، اس میں اجرت مجہول ہے نیز اجرت ایسی چیز کو قرار دیا گیا ہے جوعمل اجیر سے حاصل ہونے والی ہے کہ یہ دونوں چیز میں شرعا مفسد اجارہ ہیں ۔" (فتاوی محمودیہ ، کتاب الاجارۃ، باب اجرۃ الدلال والسمسار، ج:16، ص:629، ط:ادارۃ الفاروق کراچی)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں چالیس دن کے بعد ابتداء کے بائیس دن استحاضہ کے شمار ہوں گے اور اس کے بعد چھ دن حیض کا شمار ہوگا اور آئندہ بھی اسی طرح بائیس دن استحاضہ (طہر) کے اور چھ دن حیض کے شمار ہوں گے۔
’’وأقل الطہر بین الحیضتین أو النفاس والحیض خمسۃ عشر یوماً ولیالیہا إجماعاً‘‘(۲)
’’والناقص عن أقلہ والزائد علی أکثرہ أو أکثر النفاس أو علی العادۃ وجاوز أکثرہما وما تراہ حامل استحاضۃ‘‘(۱)
’’عن المحیط مبتدأۃ رأت عشرۃ دما وسنۃ طہرا ثم استمر بہا الدم۔ قال أبو عصمۃ: حیضہا وطہرہا ما رأت، حتی إن عدتہا تنقضی إذا طلقت بثلاث سنین وثلاثین یوما‘‘(۲)
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الحیض‘‘: ج ۱، ص: ۴۷۷۔
(۱) أیضاً، رقم: ۔
(۲) أیضاً، مبحث فی مسائل المتحیرۃ ج1 ص 478۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص393