Frequently Asked Questions
Miscellaneous
Ref. No. 38/826
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Such a program is generated for advertisement of the products. Through this way you become a member of the company. If a company gives something to its advertisers as a gift, there is nothing wrong in it. So the money received from such programs is Halal. Nevertheless, one must avoid using any illegal and anti-sharia program for advertisement.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
اسلامی عقائد
Ref. No. 39/1067
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ستر ناف سے لے کر گھٹنے تک ہے، اس کا چھپانا لازم ہے،ستر پورے طور پر چھپاہوا ہے تو پھر بچوں کے ساتھ نہانے میں حرج نہیں ہے، البتہ احتیاط بہتر ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زیب و زینت و حجاب
Ref. No. 41/839
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لال اور کالا کپڑا پہننا جائز ہے البتہ پسندیدہ نہیں ، اس لئے احتیاط کرنا چاہئے۔
عن ابی حنیفۃ لاباس بالصبغ الاحمر والاسود کذا فی الملتقط (الفتاوی الہندیۃ ۵/۳۳۲)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
آداب و اخلاق
Ref. No. 936/41-71 B
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بے حیائی اور بے شرمی کی باتوں سے اجتناب لازم ہے، اور جماع وغیرہ کی کیفیات کو دوسروں کے سامنے بیان کرنے سے شریعت نے سختی سے منع کیا ہے۔ اس سلسلہ میں احادیث وارد ہیں اورایسے لوگوں کو بدترین لوگ کہاگیا ہے، اور جو لوگ اس گھناونی حرکت میں مبتلا ہوں ، ان کو سمجھانا اور نہ ماننے کی صورت میں ان سے دوری اختیار کرنا لازم ہے۔
عن أبي سَعيدٍ الخُدْريِّ رَضِيَ الله عنه قال: قال رَسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: ((إنَّ مِن أشَرِّ النَّاسِ عندَ اللهِ مَنزِلةً يَومَ القيامةِ الرَّجُلَ يُفْضي إلى امرأتِه وتُفْضي إليه، ثمَّ يَنشُرُ سِرَّه) (اخرجہ مسلم 1163) .
عن أسماءَ بنتِ يَزيدَ رَضِيَ الله عنها: أنَّها كانت عندَ رَسولِ الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم والرِّجالُ والنِّساءُ قُعودٌ عِندَه، فقال: ((لعَلَّ رَجُلًا يقولُ ما يَفعَلُ بأهلِه، ولعلَّ امرأةً تُخبِرُ بما فعَلَت مع زَوجِها! فأرَمَّ القَومُ، فقُلتُ: إي واللهِ يا رَسولَ اللهِ، إنهُنَّ لَيَقُلْنَ، وإنَّهم لَيَفعَلونَ! قال: فلا تفعَلوا؛ فإنَّما مَثَلُ ذلك مَثَلُ الشَّيطانِ لَقِيَ شَيطانةً في طَريقٍ فغَشِيَها والنَّاسُ يَنظُرونَ (اخرجہ احمد 1165)
إن من أشر الناس منزلة يوم القيامة الرجل يفضي إلى المرأة وتفضي إليه يعني بذلك الزوجة فيصبح ينشر سرها أو هي أيضا تصبح تنشر سره فيقول فعلت في امرأتي البارحة كذا وفعلت كذا والعياذ بالله فالغائب كأنه يشاهد كأنه بينهما في الفراش والعياذ بالله يخبره بالشيء السر الذي لا تحب الزوجة أن يطلع عليه أحد أو الزوجة كذلك تخبر النساء بأن زوجها يفعل بها كذا وكذا وكل هذا حرام ولا يحل وهو من شر الناس منزلة عند الله يوم القيامة فالواجب أن الأمور السرية في البيوت وفي الفرش وفي غيرها تحفظ وألا يطلع عليها أحدا أبدا فإن من حفظ سر أخيه حفظ الله سره فالجزاء من جنس العمل (شرح ریاض الصالحین 4/827)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 1229/42-542
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
There is an apprehension of evil in this form of tuition. So it should be avoided, but your earning is halal. Now, you had better teach the male students only. Guardians should look for female tutors for their girls. Remember, the door of fitnah must be closed at the initial stage; otherwise the consequences will not be good.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1353/42-753
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والد صاحب کی شہرسے باہر دوسرے قبرستان میں دفن کرنے کے وصیت شرعا درست نہیں ہے۔ اس لئے ورثہ کا ان کی اس وصیت پرعمل نہ کرنا جائز اور درست ہے۔ اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔
ولو أوصى بأن يحمل بعد موته إلى موضع كذا ويدفن هناك ويبنى هناك رباطا من ثلث ماله فمات ولم يحمل إلى ذلك الموضع قال أبو القاسم: وصيته بالرباط جائزة ووصيته بالحمل باطلة، ولو حمله الوصي يضمن ما أنفق في الحمل إذا حمله الوصي بغير إذن الورثة، وإن حمل بإذن الورثة لا يضمن (الفتاوی الھندیۃ ، الباب الثانی فی بیان الالفاظ التی تکون 6/95)
(قوله ولا بأس بنقله قبل دفنه) قيل مطلقا، وقيل إلى ما دون مدة السفر، وقيده محمد بقدر ميل أو ميلين لأن مقابر البلد ربما بلغت هذه المسافة فيكره فيما زاد. قال في النهر عن عقد الفرائد: وهو الظاهر اهـ وأما نقله بعد دفنه فلا مطلقا(درمختار، فروع فی الجنائز 2/239)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Prayer / Friday & Eidain prayers
روزہ و رمضان
Ref. No. 1858/43-1753
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فلکی حسابات یقینی نہیں بلکہ ظنی ہیں اس لئے فلکی حساب کی بنیاد پر شہادت شرعی کا انکار کرنا درست نہیں ہے۔ جم غفیر کی شہادت شرعی شہادت ہے، اس لئے اس کو رد کرنے کی کوئی قوی وجہ نہیں ہے۔ ماہرین فلکیات کا حساب ایک اندازہ ہی ہے اس کو قطعی اور یقینی نہیں کہاجاسکتاہے، ، اس لئے ایک تخمینی حساب کی وجہ سے جم غفیر کی شہادت کو رد نہیں کیاجاسکتاہے۔
فلکی حسابات رؤیت ہلال کے ثبوت کے لئے معاون ہوسکتے ہیں مقابل نہیں ہوسکتے ہیں۔ قاضی کے فیصلہ کے لئے کسی چیز کا قطعی طور پر وجود ضروری نہیں ہے بلکہ نصاب شہادت کا کامل ہونا ضروری ہے۔ اور نصاب شہادت کی تکمیل پر قاضی اس کے مطابق فیصلہ کرنے پر مجبور ہے؛ اس جزء کو خاص طور پر سمجھ لینا چاہئے۔
"ان علماء الهيئة مجمعون علي انّ المقادير المفروضة في اواخر اعمال رؤية الهلال هي ابعاد لم يوقف عليها الا بالتجربة وللمناظر احوال هندسية يتفاوت لإجلها المحسوس بالبصر في العظم والصغر وفي ما اذا تأمّلها متأمّل منصف لم يستطع بتّ الحُكم على وجوب رؤية الهلال اَو امتناعها." (آثار الباقیة عن القرون الخالية، ص: 198، طبع:1923، ليزك، بحواله جواهر الفقه)
"اذا ثبت الصوم او الفطر عند حاکم تحت قواعد الشرع بفتوی العلماء او عند واحد او جماعة من العلماء الثقات ولاّھم رئیس المملکة أمر رؤیة الھلال،وحکموا بالصوم او الفطر ونشروا حکمھم ھذا فی رادیو، یلزم علی من سمعھا من المسلمین العمل به فی حدود ولایتھم، واما فیما وراء حدود ولایتھم فلا بد من الثبوت عند حاکم تلك الولایة بشھادۃ شاھدین علی الرؤیة او علی الشھادۃ او علی حکم الحاکم او جاء الخبر مستفیضا؛ لان حکم الحاکم نافذ فی ولایته دون ما وراءھا."(زبدۃ المقال فی رؤیة الھلال،بحواله خیر الفتاوی، 4/118، ط؛ مکتبة الخیر ملتان)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:غیر اللہ کو سجدہ کرنا تعظیما حرام ہے شرک نہیں ہے تاہم ایسا عقیدہ رکھنا درست نہیں ہے۔(۳) حضرت آدم علیہ السلام یا حضرت یوسف علیہ السلام کو سجدہ کرانے کا حکم اس شریعت میں منسوخ ہوچکا ہے۔ نیز حضرت آدم علیہ السلام کو ملائکہ نے جو سجدہ کیا وہ اللہ جل شانہٗ کے حکم سے کیا، یہ ایسا ہے جیسے اس امت کو بیت اللہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیا اور اگر حضرت آدم علیہ السلام کی تعظیم ہی مقصود ہو اس سجدے سے تویہ حکم بھی منسوخ ہوگیا؛ کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ نے فرمایا: ’’لو کنت آمراً أحداً أن یسجد لغیر اللّٰہ لأمرت المرأۃ أن تسجد لزوجھا‘‘(۱) اس لئے ایسا عقیدہ رکھنے والے کو امام بنانا جائز نہیں ہے۔
(۳) إذا سجد لإنسان سجدۃ تحیۃ لا یکفر، کذا في السراجیہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۰)
إذا سجد لإنسان سجدۃتحیہ لا یکفر۔ (أبو محمد، الفتاویٰ السراجیہ، ’’کتاب السیر‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۰)
(۱) أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ج ۴، ص: ۳۵۳، رقم: ۱۸۵۳۔