Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:شب برأت، عید الفطر ، عید الاضحی اور محرم کی دسویں تاریخ میں بعض امور کو ضروری اور لازم سمجھنا اور ان کو انجام دینا جن کا سوال میں تذکرہ ہوا ہے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے زمانے میں ان چیزوں کی کوئی اصل نہیں ملتی اور نہ ہی یہ چیزیں دین اسلام اور مسلمانوں کے کسی فائدے کی چیزیں ہیں؛ اس لیے یہ چیزیں بدعات سیئہ ہوکر ناجائز و حرام ہیں بدعت یعنی دین میں کسی چیز کو لازم سمجھ لینا جب کہ دین میں اس کی کوئی اصل نہ ہو شرعاً بڑا گناہ ہے اور اس پر احادیث میں بڑی سخت وعیدیں ہیں۔(۱)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
وکل ہذہ بدع ومنکرات لا أصل لہا في الدین ولا مستند لہا من الکتاب والسنۃ، …ویجب علی أہل العلم أن ینکروہا وأن یبطلوا ہذہ العادات ما استطاعوا۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، معارف السنن، ’’باب الشتدید في البول‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص493
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ آیت مشرکین اور دیگر عرب قبائل کے ساتھ جو معاہدات تھے، اس سے متعلق ہے اس کا جماعت میں نکلنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس آیت کی تفسیر یہ ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر مسلمانوں کا مکہ پر مکمل قبضہ ہوگیا، مکہ او راطراف مکہ میں رہنے والے غیر مسلموں کو جان، مال کی امان دیدی گئی؛ لیکن اس وقت ان غیر مسلموں کے مختلف حالات تھے، ایک تو وہ لوگ تھے جن سے حدیبیہ میں صلح کا معاہدہ ہوا اور انہوں نے خود اس کو توڑ دیا اور وہی فتح مکہ کا سبب ہوا دوسرے کچھ ایسے لوگ بھی تھے، جن سے صلح کا معاہدہ کسی خاص میعاد کے لیے کیا گیا تھا اور وہ اس معاہدے پرقائم رہے، جیسے ’’بنی کنانہ‘‘ کے دو قبیلے ’’بنی ضمرہ‘‘ اور ’’بنی مدلج‘‘ جن سے ایک مدت کے لیے صلح ہوئی تھی اور سورۃ برأت نازل ہونے کے وقت بقول خازن ان کی میعاد صلح کے نو مہینے باقی تھے، تیسرے: کچھ ایسے لوگ بھی تھے جن سے معاہدۂ صلح بغیر تعیین مدت کے ہوا تھا۔ چوتھے: وہ لوگ تھے جن سے کسی قسم کا معاہدہ نہ تھا، غرض سورہ توبہ کی پہلی دو آیات میں ان سب لوگوں کو جن سے بلاتعیین مدت کوئی معاہدہ تھا یا جن کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ تھا چار مہینے کی مہلت دی گئی اور چوتھی آیت کی رو سے ان لوگوں کو تا اختتام معاہدہ مہلت مل گئی جن کے ساتھ کسی خاص میعاد کا معاہدہ تھا اور پانچویں آیت سے مشرکین مکہ کو اشہر حرم ختم ہونے تک مہلت مل گئی۔(۱)
(۱) مفتي محمد شفیع عثمانيؒ، معارف القرآن: ج ۴، ص: ۳۱۱۔
فسیحوا في الأرض: لأن الکلام خطاب مع المسلمین علی أن المعني براء ۃ من اللّٰہ ورسولہ إلی الذین عاہدتم من المشرکین فقولوا لہم: سیحوا إلا الذین عاہدتم منہم ثم لم ینقصوکم فأتموا إلیہم عہدہم، وہو بمعنی الاستدراک کأنہ قیل: فلا تمہلوا الناکثین غیر أربعۃ أشہر ولکن الذین لم یکنثوا فأتموا إلیہم عہدہم ولا تجروہم مجر الناکثین۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ التوبۃ: ۱، ۱۷‘‘: ج ۶، ص: ۷۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص44
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 2550/45-3954
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is follows:
There is no considerable benefit in wearing high-heeled sandals, but it is simply worn as a fashion, and because it is very noticeable, it attracts the attention of strangers, which is a source of temptation, so women should avoid High-heeled sandals. However, there is no sin in wearing shoes that are made for women, or that are commonly used by both women and men.
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
فقہ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ولید بن عبد الملک کے زمانہ میں حضرت عمر بن عبد العزیز نے مسجد نبوی کی محراب بنوائی تھی۔(۱)
(۱) أول من أحدث ذلک عمر بن عبد العزیز وہو یومئذ عامل للولید بن عبد الملک علی المدینۃ۔ (مرقاۃ المفاتیح، شرح مشکوۃالمصابیح، ’’باب المساجد ومواضع الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۲۴، رقم: ۷۴۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص177
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جو شیعہ کسی نص قطعی کا منکرہو، مثلاً: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگاتا ہو، یا صحابہ کرام پر تبرا کرتا ہو، یا قرآن کریم میں تحریف کا قائل ہو، یا وحی میں غلطی کا قائل ہو، وہ بلاشبہ کافر ہے اور جو ایسا نہ ہو وہ کافر نہیں ہے۔ اگر مذکورہ فی السوال شیعہ پہلی قسم یعنی کسی نص شرعی کا انکار کرنے والوں میں سے ہو، تو ان کو قربانی میں شریک کرنا یا ان کے ساتھ مناکحت کے تعلقات قائم کرنا شرعاً جائز نہیں۔ باقی ان کے ساتھ کھانا، پینا وغیرہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اگر مصلحۃً ہو کہ وعظ ونصیحت کا موقعہ ملے ان کو اہل سنت والجماعت کی حقانیت بتلانے کا موقعہ ملے اور اگر موالات کے طور پر ہو، تو ناجائز ہے، اسی طرح ان سے چندہ وغیرہ لینا کہ اگر کسی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو تو شرعاً گنجائش ہے اور اگر ایسے شیعہ ہوں کہ ضروریات دین اور نصوص شرعیہ کے منکر نہیں؛ بلکہ فروعی اختلاف رکھتے ہوں، تو وہ چونکہ کافر نہیں ہیں؛ اس لئے ان سے مناکحت وغیرہ سب درست ہیں اور چونکہ شیعوں کا ایک بنیادی عقیدہ تقیہ ہے کہ اس کی وجہ سے ان کے عقیدے مخفی رہتے ہیں؛ اس لئے جہاں تک ہو سکے احتیاط لازم ہے۔ ہاں افہام وتفہیم کے طریقے حتی الامکان تلاش کئے جائیں۔ (۱)
(۱) وإن کان یفضل علیاً کرم اللّٰہ وجہہ علي أبي بکر رضي اللّٰہ عنہ لا یکون کافراً إلا أنہ مبتدع۔ (جماعۃ من علماء الہند: الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجباب الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالأنبیاء علیہم السلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۶)
نعم لا شک في تکفیر من قذف السیدۃ عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا أو أنکر صحبۃ الصدیق رضي اللّٰہ عنہ أو اعتقد الألوہیۃ في علي رضي اللّٰہ عنہ أو أن جبرئیل علیہ السلام غلط في الوحي أو نحو ذلک من الکفر الصریح المخالف للقرآن۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہا: باب المرتد، مطلب مہم: في حکم سب الشیخین‘‘: ج ۶، ص: ۳۷۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص280
Zakat / Charity / Aid
Ref. No. 2595/45-4093
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
It is not permissible for those who collect donation to demand a percentage out of the donation amount as remuneration. If the administration of the Madrasa gives some money from other than zakat fund as a reward for someone's good performance, considering his hard work, it is permissible. It is also not permissible to give commission or reward from Zakat money. Those who go to collect donation should also learn the etiquettes of collecting donations.
وتفسد الإجارة بجهالة المسمى كله و بعضه" (شامی،كتاب الإجارة،باب الإجارة الفاسدة،ج:6،ص:48، ط:سعيد)
"ولودفع غزلا لآخرلينسجه بنصفه أو إستأجربغلاليحمله طعامه ببعضه"(شامی، باب الإجارة الفاسدة، 6/56:سعيد)
"سوال (8160): ہمارے یہاں مدرسہ کا چندہ ہوتا ہے ، اس میں سفراء کمیشن بھی لیتے ہیں ، یہ کہاتک درست ہے، اور جائز ہے یا نہیں؟
الجواب حامداومصلياً:اس طرح معاملہ کرنا کہ جس قدر چندہ لاؤ گے اس میں سے نصف یا ثلث وغیرہ تم کو ملے گا ، شرعاً درست نہیں ، اس میں اجرت مجہول ہے نیز اجرت ایسی چیز کو قرار دیا گیا ہے جوعمل اجیر سے حاصل ہونے والی ہے کہ یہ دونوں چیز میں شرعا مفسد اجارہ ہیں ۔" (فتاوی محمودیہ ، کتاب الاجارۃ، باب اجرۃ الدلال والسمسار، ج:16، ص:629، ط:ادارۃ الفاروق کراچی)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں چالیس دن کے بعد ابتداء کے بائیس دن استحاضہ کے شمار ہوں گے اور اس کے بعد چھ دن حیض کا شمار ہوگا اور آئندہ بھی اسی طرح بائیس دن استحاضہ (طہر) کے اور چھ دن حیض کے شمار ہوں گے۔
’’وأقل الطہر بین الحیضتین أو النفاس والحیض خمسۃ عشر یوماً ولیالیہا إجماعاً‘‘(۲)
’’والناقص عن أقلہ والزائد علی أکثرہ أو أکثر النفاس أو علی العادۃ وجاوز أکثرہما وما تراہ حامل استحاضۃ‘‘(۱)
’’عن المحیط مبتدأۃ رأت عشرۃ دما وسنۃ طہرا ثم استمر بہا الدم۔ قال أبو عصمۃ: حیضہا وطہرہا ما رأت، حتی إن عدتہا تنقضی إذا طلقت بثلاث سنین وثلاثین یوما‘‘(۲)
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الحیض‘‘: ج ۱، ص: ۴۷۷۔
(۱) أیضاً، رقم: ۔
(۲) أیضاً، مبحث فی مسائل المتحیرۃ ج1 ص 478۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص393
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر سوال میں درج کردہ باتیں بالکل درست ہیں تو آپ چوں کہ اس مسجد کے متولی ہیں اور مسجد کا سار ا بار آپ خود اٹھاتے ہیں؛ اس لیے مسجد میں امام رکھنے کا حق آپ کو حاصل ہے جس امام کو آپ نے امامت کے لیے متعین کیا ہے اگر ان میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے امامت میں خلل واقع ہو تو محلہ والوں کا بلا کسی سبب کے اس امام کو ناپسند کرنا درست نہیں ہے۔
’’الباني أولٰی بنصب الإمام و المؤذن و ولد الباني وعشیرتہ أولٰی من غیرہم بنی مسجدا في محلۃ و نصب الإمام و المؤذن فنازعہ بعض أہل المحلۃ في العمارۃ فالباني أولٰی مطلقا و إن تنازعوا في نصب الإمام و المؤذن مع أہل المحلۃ إن کان ما اختارہ أہل المحلۃ أولٰی من الذي اختارہ الباني فما اختارہ أہل المحلۃ أولی وإن کانا سواء فمنصوب الباني أولی‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۶، ص: ۵۴۶۔
لوأم قوما وہم لہ کارہون إن الکراہۃ لفساد فیہ أولأنہم أحق بالإمامۃ فیہ، کرہ لہ ذلک تحریما لحدیث أبي داؤد لایقبل اللّٰہ صلاۃ من تقدم قوما وہم لہ کارہون وإن ہو أحق لا والکراہۃ علیہم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘:ج۲، ص:۲۹۷)۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص269
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: دعا سے فارغ ہونے پر بہت سے کلمات احادیث میں منقول ہیں، ان کو پڑھ لیا جائے، اس میں کلمہ طیبہ بھی ہے اور ’’سبحان ربک رب العزت عما یصفون، وسلام علی المرسلین، والحمد للّٰہ رب العٰلمین‘‘ ہے(۱) اور ’’برحمتک یا أرحم الراحمین‘‘ بھی ہے، ان میں سے کسی کو ایسا لازم اور ضروری نہ سمجھنا چاہیے کہ اس کے سوا دوسرے کو ناجائز سمجھنے لگے؛ اس لیے جیسابھی موقع اور اتفاق ہو، اس پر عمل کر لیا جائے اور ان مذکورہ کلمات میں جو بھی یاد آ جائے دعا کے ختم پر پڑھ لیا جائے، خواہ کلمہ طیبہ ہی ہو یا اور کوئی مذکورہ جملہ ہو۔(۲)
(۱) سورۃ الصافات: ۱۸۰، ۱۸۱، ۱۸۲۔
(۲) آداب الدعاء مسح وجہہ بیدیہ بعد فراغہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الدعوات، الفصل الثاني‘‘: ج ۵، ص: ۱۲۶، رقم: ۲۲۴۳)
وعن السائب بن یزید رضي اللّٰہ عنہ عن أبیہ (أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان إذا دعا رفع یدیہ مسح وجہہ بیدیہ روی البیھقي، الأحادیث الثلاثۃ في ’’الدعوات الکبیر۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الدعوات: الفصل الثالث‘‘: ج۵، ص: ۱۳۲، رقم: ۲۲۵۵)
عن فضالۃ بن عبید، قال: بینا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قاعد إذ دخل رجل فصلی فقال: اللہم اغفر لي وارحمني، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: عجلت أیہا المصلي، إذا صلیت فقعدت فاحمد اللّٰہ بما ہو أہلہ، وصل علي ثم أدعہ۔ قال: ثم صلی رجل آخر بعد ذلک فحمد اللّٰہ وصلی علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال لہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أیہا المصلي أدع تجب۔ قال أبو عیسیٰ: وہذا حدیث حسن، وقد رواہ حیوۃ بن شریح، عن أبي ہاني، وأبو ہانئ اسمہ: حمید بن ہاني، وأبو علي الجنبي اسمہ: عمرو بن مالک۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الدعوات عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب،‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۹، رقم: ۳۴۷۶)
الرابعۃ: یستحب للداعي أن یقول آخر دعائہ کما قال أہل الجنۃ: وآخر دعواہم أن الحمد للّٰہ رب العالمین۔ (أبو عبد اللّٰہ محمد بن أحمد القرطبي، الجامع لأحکام القرآن، ’’سورۃ یونس: ۱۱‘‘: ج ۳، ص: ۴۸)
فصل في آداب الدعاء … وتقدیم علی صالح … والثناء علی اللّٰہ تعالیٰ والصلاۃ علی نبیہ أولا وآخرا۔ (تحفۃ الذاکرین للشوکاني علی الحصن الحصین: ص: ۴۶، مکتبہ: طیبہ مدینہ منورہ)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص419
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسے بچوں کو جو چھوٹے اور ناسمجھ ہوں عیدگاہ میں نماز کے وقت نہ لے جانا چاہئے تاہم اگر بچہ چلا جائے اور اس کے نماز میں کھونے کا اندیشہ ہو تو اپنے پاس بٹھانے سے بھی نماز خراب نہیں ہوگی۔(۱)
(۱) في العلائیۃ: ویحرم إدخال صبیان ومجانین حیث غلب تنجیسہم وإلا فیکرہ وفي الشامیۃ تحتہ: (قولہ ویحرم الخ) … والمراد بالحرمۃ کراہۃ التحریم … وإلا فیکرہ أی تنزیہا۔ تأمل۔ ( ابن عابدین، رد المحتار، ج۲، ص: ۴۲۹)
وفي التحریر المختار: (قول الشارح وإلا فیکرہ) أی حیث لم یبالوا بمراعاۃ حق المسجد من مسح نخامۃ أو تفل في المسجد وإلا فاذا کانوا ممیزین ویعظمون المساجد بتعلم من ولیہم فلا کراہۃ في دخولہم ۱ہـ سندي۔ (التحریر المختار، ج۱، ص: ۸۶، المطبعۃ الکبری الأمیریۃ، مصر)
قال الرحمتي: ربما یتعین في زماننا إدخال الصبیان في صفوف الرجال، لأن المعہود منہم إذا اجتمع صبیان فأکثر تبطل صلاۃ بعضہم ببعض وربما تعدی ضررہم إلی إفساد صلاۃ الرجال۔ انتہی۔ (التحریر المختار، ج۱، ص: ۷۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص117