نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بلا ضرورت کھنکھارنے سے نماز مکروہ ہوتی ہے اگر ضرورت ہو مثلاً آواز بند ہوگئی، سانس رک گئی یا پڑھنا مشکل ہوجائے تو کھنکھارنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ کھنکھار کر آواز کو درست کرسکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ کھنکھارنے کے ساتھ کوئی آواز نہ نکلے اور اگر کھنکھاریا کھانسی کے ساتھ بلا اضطرار دو حرف نکل بھی گئے مثلاً اُح کی آواز نکل گئی تو نماز فاسد ہوجائے گی البتہ اضطرار کی حالت مستثنیٰ ہے۔(۱)

(۱) عقب العارض الاضطراري بالاختیاري (یفسدہا التکلم) … (قولہ: والتنحنح) ہو أن یقول: أح بالفتح والضم۔ بحر۔ (قولہ: بحرفین) یعلم حکم الزائد علیہما بالأولی، لکن یوہم أن الزائد لو کان بعذر یفسد، ویخالفہ ظاہر مافي النہایۃ عن المحیط، من أنہ إن لم یکن مدفوعاً إلیہ بل لإصلاح الحلق؛ لیتمکن من القراء ۃ إن ظہر لہ حروف۔ ( الحصکفي ، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا‘‘: ج۲، ص:۳۷۰ و ۳۷۶)
یفسد الصلاۃ، التنحنح بلاعذر بأن لم یکن مدفوعاً إلیہ وحصل منہ حروف، ہکذا في التبیین، ولو لم یظہر لہ حروف، فإنہ لایفسد اتفاقا لکنہ مکروہ، کذا في البحر الرائق و إن کان بعذر، بأن کان مدفوعا إلیہ، لا تفسد لعدم إمکان الاحتراز عنہ، وکذا الأنین والتأوہ إذا کان بعذر بأن کان لایملک نفسہ، فصار کالعطاس والجشاء۔ ولو عطس أو تجشأ فحصل منہ کلام، لا تفسد، کذا في محیط السرخسي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ج۱، ص: ۱۵۹، ۱۶۰ مکتبہ فیصل دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص113

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 2815/45-4402

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اصحاب کہف کے ساتھ غار میں جو کلب تھا اس سے مراد کتاہے ،اس لیے کلب کے متعارف معنی کتا کے آتے ہیں اورذہن کلب سے کتا ہی طرف سبقت کرتاہے جمہور مفسرین نے بھی کلب سے کتاہی مراد لیا ہے ہاں ابن جریج وغیرہ کا قول شیر یا چیتاکے بارے میں بھي منقول ہے لیکن اہل علم سے اس قول کو زیادہ اہمیت نہیں دی ہے اس طرح ہم کتب تفاسیرمیں ایک آیت کی مختلف تفاسیر دیکھتے ہیں لیکن جمہور نے جس قول کولیا ہے اسی پر اعتماد کیا جاتاہے انفرادی اقوال پر نہیں ۔ہاں تفسیر کرتے اس طرح کہنا کہ عام مفسرین نے کلب سے کتا مراد لیا ہے لیکن بعض مفسرین نے یا مثلا ابن جریج نے کلب سے شیر مراد لیا ہے تو اس طرح کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔لیکن جمہور کے قول کی تردید کرتے ہوئے اس طرح کہنا کہ کتا نہیں شیر تھا یہ غلط تفسیر ہے کسی نے بھي اس طرح نہیں کہا ہے اور اس انفرادی قول کے متعین کرنے اور جمہور کے قول کو غلط قرار دینے کی کوئی مضبوط دلیل نہیں ہے ۔تفسیر ابن کثیر میں بھي کلب سے کتا ہی مراد لیا ہے ۔وقد قيل: إنه كان كلب صيد لأحدهم، وهو الأشبه. وقيل: كان كلب طباخ الملك، وقد كان وافقهم على الدين فصحبه كلبه فالله أعل(تفسیر ابن کثیر5/144) في {كلبهم} قولان: أحدهما: أنه كلب من الكلاب كان معهم , وهو قول الجمهور. وقيل إن اسمه كان حمران. الثاني: أنه إنسان من الناس كان طباخاً لهم تبعهم , وقيل بل كان راعياً. (تفسیر ماوردی،3/292) اختلف أهل التأويل في الذي عنى الله بقوله: (وَكَلْبُهُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ) فقال بعضهم: هو كلب من كلابهم كان معهم، وقد ذكرنا كثيرا ممن قال ذلك فيما مضى، وقال بعضهم: كان إنسانا (1) من الناس طباخا لهم تَبِعهم.(تفسیر طبری،17/624) وَكَلْبُهُمْ باسِطٌ ذِراعَيْهِ قال ابن عباس: كان كلبا أغر وعنه أنه كان فوق القلطي ودون الكرزي. والقلطي كلب صيني وقيل كان أصفر وقيل كان شديد الصفرة يضرب إلى حمرة، وقال ابن عباس: كان اسمه قطمير وقيل ريان وقيل صهبان قيل ليس في الجنة دواب سوى كلب أصحاب الكهف وحمار بلعام بِالْوَصِيدِ أي فناء الكهف، وقيل عتبة الباب وكان الكلب قد بسط ذراعيه وجعل وجهه عليهم، (تفسیر خازن ،3/160)أكثر أهل التفسير على أنه كان من جنس الكلاب. وروي عن ابن جريج: أنه كان أسدا وسمي الأسد كلبا.«1347» فإن النبي صلى الله عليه وسلم دعا على عتبة بن أبي لهب فقال: «اللهم سلط عليه كلبا من كلابك» ، فافترسه أسد، والأول المعروف، قال ابن عباس: كان كلبا أغر [4] . ويروى عنه [أنه] [5] فوق القلطي ودون الكردي [6] ، والقلطي كلب صيني. وقال مقاتل: كان أصفر. وقال القرظي: كانت شدة صفرته تضرب إلى الحمرة. وقال الكلبي: لونه كالحليج. وقيل: لون الحجر(تفسیر بغوی ،3/183)
ان تمام تفاسیر میں اگرچہ شیر کا ایک قول اور ایک رائے ابن جریج کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے لیکن کسی بھی مفسرنے بھی کتا ہونے کا انکار نہیں کیا ہے اس لیے اگر اس قول کو بیان کیاجائے تو اسی طرح بیان کرنا مناسب ہوگا کہ اصحاب کہف کا کتاتھا جمہور کی یہی رائے ہے جب کہ ایک رائے بعض مفسرین کی یہ بھی ہے کہ وہ شیرتھا۔لیکن کتاکی نفی کرکے شیر کے قول کو ترجیح دینا اور اسی کو صرف بیان کرنا درست تفسیر نہیں ہے ۔فقط واللہ اعلم بالصواب

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 819

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                         

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  کسی بھی جاندار کی تصویر  لگا نے سے احتراز کیا جائے، اور شناخت کے لیے کوئی دوسرا طریقہ  بھی اختیار کیا جاسکتاہے۔  واللہ اعلم  بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 40/911

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح متعین کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 41/1065

In the name of Allah the most gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

In Fiqh books, standing up at the time of ‘Hayya-alas-salah’ is regarded as Mustahab. Allama Tahtavi writes that standing up at the time of ‘Hayya-alas-salah’ means one should compulsorily stand up at ‘Hayya Alas Salah’ in any way and he is not allowed to keep sitting after the ‘hayya alas salah’ is called. So, it never means that one is not allowed to stand up before ‘hayya alas salah’.

Hence, imam’s insistence over standing up only at the time of Hayya alas salah and not before is absolutely wrong. You should keep in mind that aligning rows (saff) is wajib (mandatory). And acting upon a wajib is more important than a mustahab. The companions of the prophet (Muhammad) (saws) used to stand up the time when they saw the prophet (saws) coming in masjid. At the same time, hazrat bilal would start takbeer. It denotes that standing up at the beginning of takbeer is also approved. Nevertheless this looks good as regards aligning rows so that the aligning of the rows can be gained before the takbeer gets over.

 عن ابی ھریرۃ  رضی اللہ عنہ یقول اقیمت الصلوۃ قمنا فعدلنا الصفوف قبل ان یخرج الینا رسول اللہ (مسلم1/220) اشارۃ انہ ھذہ سنۃ معھودۃ عندھم (نووی شرح مسلم 1/221)

It is narrated by hazrat Abu hurairah (ra) that takbeer started, we stood up and aligned rows before the prophet (saws) came out to us. While elaborating this narration, Allama Nawavi writes: it indicates that this (standing up at the beginning of takbeer) is the sunnah in their view. (Nawavi Sharhe-Muslim 1/220). Hazrat Hafiz ibne Hajar writes in his book namely ‘Fat’hul bari Sharhe Bukhari’ narrating from ibne shihab which openly states that they used to stand up in rows at the time takbeer started.

روی عبدالرزاق عن ابن جریج عن ابن شھاب أَنَّ النَّاسَ كَانُوا سَاعَةَ يَقُولُ الْمُؤَذِّنُ اللَّهُ أَكْبَرُ يَقُومُونَ إِلَى الصَّلَاةِ فَلَا يَأْتِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقَامَهُ حَتَّى تَعْتَدِلَ الصُّفُوفُ۔ (فتح الباری 2/95)

And Allah knows best

Darul Ifta            

Darul Uloom Waqf Deoband

خوردونوش

Ref. No. 1012/41-174

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  کھانے کے بعد کی مذکورہ دعا تقریبا دس کتب حدیث میں مذکور ہے، اور ہر جگہ بغیر من کے ہے اس لئے بغیر "من" کے ہی پڑھنا چاہئے۔  

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1130/42-349

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کے والد نے جو کچھ جائداد چھوڑی ہے، اس کو 120 حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے آپ کے دادا کو 20 حصے، دادی کو 20 حصے، آپ کی والدہ کو 15 حصے، آپ دونوں بھائیوں میں سے ہر ایک کو 26 حصے(کل 52حصے) اور آپ کی بہن کو 13 حصے ملیں گے۔

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 1231/543

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مذکورہ معاملہ سودی ہے، اور ناجائز ہے۔ اگر  معاملہ اس طرح کیاجائے کہ ڈالر ابھی دیدیاجائے اور ایک ماہ کے بعد آج کی مارکیٹ کے حساب سے قرض کی ادائیگی کرنی ہو، یا یہ طے کرلیا جائے کہ ایک ماہ کے بعد کرنسی کا مارکیٹ میں جو ریٹ ہوگا وہ ادا کرنا ہوگا تو درست ہے۔ مگر یہ طے کرلینا کہ ایک ماہ کے بعد ڈالر کی قیمت بڑھے یا گھٹے آپ کو 170 کے حساب سے ہی دینا ہوگا یہ سودی معاملہ ہے اور سودی معاملہ حرام ہے۔

قال اللہ تعالی واحل اللہ البیع وحرم الربوا (سورۃ البقرہ 275)۔

وإذا عدم الوصفان الجنس والمعنى المضموم إليه حل التفاضل والنساء، لعدم العلة المحرمة والأصل فيه الإباحة. وإذا وجدا. حرم التفاضل والنساء لوجود العلة. وإذا وجد أحدهما وعدم الآخر حل التفاضل وحرم النساء (الھدایۃ، باب الربا،3/61)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1354/42-767

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کتاب لکھ کر اس کو کسی کتب خانہ والے کے ہاتھ  بیچ دینا اور حق طباعت کا بھی پیسہ لےلینا درست ہے۔نیز  اگرصرف حق طباعت کو فروخت کیا جائے تو   بھی  درست ہے۔ حق طباعت آج کل عرف کی بنا پر  ایک  ایسا قانونی حق  بن چکا ہے جس کا رجسٹریشن ہوتاہے اور اب یہ اعیان و اموال کے درجہ میں ہے، اور ایک مال متقوم ہے۔ بیع  کے اندر مبیع کا مال متقوم ہونا ضروری ہے۔   البتہ اگر سافٹ کاپی فروخت کریں اور اس کے ساتھ حق طباعت بھی دیدیں اور دونوں کا پیسہ ایک ہی عقد میں طے کرلیں تو یہ صورت زیادہ بہتر ہے۔ دراصل یہ مسئلہ علماء کے درمیان مختلف فیہ ہے مگر دارالعلوم دیوبند نے حق طباعت کو مال متقوم  مان کر اس کی خریدوفروخت کی اجازت دی ہے۔ اور اسی کو راجح قراردیاہے۔

والحاصل أن القياس في جنس هذه المسائل أن يفعل صاحب الملك ما بدا له مطلقا لأنه يتصرف في خالص ملكه وإن كان يلحق الضرر بغيره، لكن يترك القياس في موضع يتعدى ضرره إلى غيره ضررا فاحشا كما تقدم وهو المراد بالبين فيما ذكر الصدر الشهيد وهو ما يكون سببا للهدم وما يوهن البناء سبب له أو يخرج عن الانتفاع بالكلية وهو ما يمنع من الحوائج الأصلية كسد الضوء بالكلية على ما ذكر في الفرق المتقدم واختاروا الفتوى عليه. (فتح القدیر، مسائل شتی من کتاب القضاء 7/326)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 1584/43-1118

In the name of Allah the most Gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

It is always better to save the water which is going to waste. Therefore, you can store the masjid’s extra water (going to waste) for your domestic use. There is nothing wrong in it.

(وإن كانت) اللقطة (حقيرة) بحيث يعلم أن صاحبها لا يطلبها (كالنوى وقشور الرمان) والبطيخ في مواضع متفرقة (والسنبل بعد الحصاد ينتفع بها بدون تعريف) لأن إلقاءها إباحة للأخذ دلالة (وللمالك أخذها) لأن التمليك من المجهول لا يصح. (مجمع الانھر، الانتفاع باللقطۃ 1/708)

And Allah knows best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband