نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بہشتی زیور میں جو مسئلہ لکھا ہے وہ درست ہے، مسئلہ اسی طرح شامی میں بھی ہے: ’’اعلم أن المانع من الوضوء إن کان من قبل العباد کأسیر منعہ الکفار من الوضوء ومحبوس في السجن ومن قیل لہ أن توضأت قتلتک جاز لہ التیمم ویعید الصلاۃ إذا زال المانع کذا في الدر والوقایۃ وأما إذا کان من قبل اللہ تعالیٰ کالمرض فلا یعید‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۹، ۳۹۸۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص122

Miscellaneous

Ref. No. 2798/45-4384

In the name of Allah the most Grciosut the most Merciful

The answer to your question is as follows:

It is strictly forbidden to have sexual intercourse in the state of menstruation. However, if it ever happens out of loss of control, one should immediately repent and seek forgiveness from Allah Almighty. There is no specific kaffarah for that sin. Nevertheless, you should give some money or things in the way of Allah as a Sadaqa. If you can afford, donate one dinar (4.374 gram gold coin) or half a dinar or its value.

"(قوله ويندب إلخ) لما رواه أحمد وأبو داود والترمذي والنسائي عن ابن عباس مرفوعاً «في الذي يأتي امرأته وهي حائض، قال: يتصدق بدينار أو نصف دينار»، ثم قيل: إن كان الوطء في أول الحيض فبدينار أو آخره فبنصفه، وقيل: بدينار لو الدم أسود وبنصفه لو أصفر. قال في البحر: ويدل له ما رواه أبو داود والحاكم وصححه: «إذا واقع الرجل أهله وهي حائض، إن كان دماً أحمر فليتصدق بدينار، وإن كان أصفر فليتصدق بنصف دينار» (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 298)

 

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband


 

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ظہر سے قبل کی چار سنتیں مؤکدہ ہیں ان کو ایک سلام کے ساتھ پڑھنا ہے اور اگر دو رکعت پر سلام پھیر دیا تو یہ سنت شمار نہ ہوگی؛ بلکہ نفل ہو جائے گی اور بعد میں چار رکعت سنت ایک سلام کے ساتھ پڑھنی پڑے گی۔
’’وأربع قبل الظہر إلی قولہ بتسلیمۃ لتعلقہ بقولہ: وأربع، وقال الزیلعي: حتی لو صلاہا بتسلیمتین لا یعتد بہا عن السنۃ‘‘(۱)
عمدۃ الفقہ میں ہے چار رکعت والی سنت مؤکدہ یعنی ظہر وجمعہ سے قبل اور جمعہ کے بعد کو ایک سلام سے پڑھنا ہی سنت مؤکدہ ہے، اگر ان کو دو سلاموں سے ادا کیا، تو وہ چار سنتیں نہیں ہوں گی الگ سے پھر چار سنتیں پڑھنی پڑیں گی۔(۲)

(۱)أحمد بن محمد، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان النوافل‘‘: ص: ۳۸۹، دارالکتاب دیوبند۔
(۲) وسن مؤکداً أربع قبل الظہر واربع قبل الجمعۃ وأربع بعدہا بتسلیمۃ  فلو بتسلیمتین لم تنب عن السنۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘:ج ۲، ص: ۴۵۱، زکریادیوبند)
وعن علي رضي اللّٰہ عنہ قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلی قبل الظہر أربعاً وبعدہا رکعتین الخ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، أبواب الصلاۃ عن رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ما جاء في الأربع قبل الظہر، ص۹۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص348