نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:بہتر یہ ہے کہ جو اذان پڑھے وہی تکبیر بھی کہے لیکن اتفاقاً ایک مسجد میں اذان پڑھی اور دوسری میں نماز پڑھی تو یہ درست ہے؛ لیکن اس کی عادت بنالینے میں خلاف اولیٰ پر عمل لازم آئے گا جو اچھا نہیں ہے، نیز اذان دے کر لوگوں کو مسجد میں بلاتا ہے اور خود ہی اس مسجد سے چلا جاتا ہے جو بہتر عمل نہیں ہے کبھی کبھار ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
’’عن زیاد بن الحارث الصدائي قال: أمرني رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ أن أؤذن في صلاۃ الفجر فأذنت فأراد بلال أن یقیم فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ  وسلم:
 إن أخا صداء قد أذن ومن أذن فہو یقیم‘‘(۱)
’’أن یؤذن في مسجد واحد ویکرہ أن یؤذن في مسجدین ویصلی في أحدہما لأنہ إذا صلی في المسجد الأول یکون متنفلاً بالأذان في المسجد الثاني والتنفل بالأذان غیر مشروع، ولأن الأذان یختص بالمکتوبات وہو في المسجد الثاني یصلی النافلۃ فلا ینبغي أن یدعو الناس إلی المکتوبۃ وہو لا یساعدہم فیہا‘‘
’’ومنہا أن من أذن فہو الذي یقیم وإن أقام غیرہ: فإن کان یتأذي بذلک یکرہ لأن اکتساب أذی المسلم مکروہ وإن کان لا یتأذي بہ لا یکرہ‘‘(۱)

 

(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ: باب ما جاء أن من أذن فہو یقیم‘‘: ج ۱، ص: ۵۰، رقم: ۱۹۹۔
(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل بیان سنن الأذان، صفات المؤذن‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۵۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص155

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: کسی بھی نماز کے بعد دعاء باعث قبولیت ہے؛ لیکن سنن یا خطبہ عید کے بعد اس طرح دعا ثابت نہیں، اس لیے اس کا التزام کرنا اور نہ کرنے والے کو ملامت کرنا درست نہیں ہے، ہاں اگر اتفاقاً کوئی دعاء کرے خواہ سب مل کر کریں اور اس کو لازم یا شرعاً ضروری نہ سمجھیں تو اس میں بھی مضائقہ نہیں الحاصل التزام درست نہیں ہے۔(۱)

(۱)لأن الشارع إذا لم یعین علیہ شیئاً تیسیراً علیہ کرہ لہ أن یعین۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ: مطلب : السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۵، زکریا دیوبند)
ورحم اللّٰہ طائفۃ من المبتدعۃ في بعض أقطار الہند حیث واظبوا علی أن الإمام ومن معہ یقومون بعد المکتوبۃ بعد قرائتہم اللہم أنت السلام ومنک السلام الخ ثم إذا فرغوا من فعل السنن والنوافل یدعوا الإمام عقب الفاتحۃ جہراً بدعاء مرۃً ثانیۃ والمقتدون یؤمنون علی ذلک وقد جری العمل منہم بذلک علی سبیل الالتزام والدوام حتی أن بعض العوام اعتقدوا أن الدعاء بعد السنن والنوافل باجتماع الإمام والمأمومین ضروري واجب حتی أنہم إذا وجدوا من الإمام تاخیراً لأجل اشتغالہ بطویل السنن والنوافل اعترضوا علیہ قائلین: نحن منتظرون للدعاء ثانیاً وہو یطیل صلاتہ وحتی أن متولي المساجد یجبرون الإمام الموظف علی ترویج ہذا الدعاء المذکور بعد السنن والنوافل علی سبیل الالتزام، ومن لم یرض بذلک یعزلونہ عن الإمامۃ ویطعنونہ ولا یصلون خلف من لا یصنع بمثل صنیعہم، وأیم اللّٰہ! أن ہذا أمر محدث فيالدین … وأیضاً ففي ذلک من الحرج ما لایخفی وأیضاً فقد منا أن المندوب ینقلب مکروہاً إذا رفع عن رتبتہ لأن التیمن مستحب في کل شيء من أمور العبادات لکن لما خشی ابن مسعود أن یعتقدوا وجوبہ أشار إلی کراہتہ فکیف بمن أصر علی بدعۃ أو منکر؟ … کان ذلک بدعۃ في الدین محرمۃ۔ (ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن: ج ۳، ص: ۲۰۵)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص424

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بہشتی زیور میں جو مسئلہ لکھا ہے وہ درست ہے، مسئلہ اسی طرح شامی میں بھی ہے: ’’اعلم أن المانع من الوضوء إن کان من قبل العباد کأسیر منعہ الکفار من الوضوء ومحبوس في السجن ومن قیل لہ أن توضأت قتلتک جاز لہ التیمم ویعید الصلاۃ إذا زال المانع کذا في الدر والوقایۃ وأما إذا کان من قبل اللہ تعالیٰ کالمرض فلا یعید‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۹، ۳۹۸۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص122

Miscellaneous

Ref. No. 2798/45-4384

In the name of Allah the most Grciosut the most Merciful

The answer to your question is as follows:

It is strictly forbidden to have sexual intercourse in the state of menstruation. However, if it ever happens out of loss of control, one should immediately repent and seek forgiveness from Allah Almighty. There is no specific kaffarah for that sin. Nevertheless, you should give some money or things in the way of Allah as a Sadaqa. If you can afford, donate one dinar (4.374 gram gold coin) or half a dinar or its value.

"(قوله ويندب إلخ) لما رواه أحمد وأبو داود والترمذي والنسائي عن ابن عباس مرفوعاً «في الذي يأتي امرأته وهي حائض، قال: يتصدق بدينار أو نصف دينار»، ثم قيل: إن كان الوطء في أول الحيض فبدينار أو آخره فبنصفه، وقيل: بدينار لو الدم أسود وبنصفه لو أصفر. قال في البحر: ويدل له ما رواه أبو داود والحاكم وصححه: «إذا واقع الرجل أهله وهي حائض، إن كان دماً أحمر فليتصدق بدينار، وإن كان أصفر فليتصدق بنصف دينار» (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 298)

 

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband


 

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ظہر سے قبل کی چار سنتیں مؤکدہ ہیں ان کو ایک سلام کے ساتھ پڑھنا ہے اور اگر دو رکعت پر سلام پھیر دیا تو یہ سنت شمار نہ ہوگی؛ بلکہ نفل ہو جائے گی اور بعد میں چار رکعت سنت ایک سلام کے ساتھ پڑھنی پڑے گی۔
’’وأربع قبل الظہر إلی قولہ بتسلیمۃ لتعلقہ بقولہ: وأربع، وقال الزیلعي: حتی لو صلاہا بتسلیمتین لا یعتد بہا عن السنۃ‘‘(۱)
عمدۃ الفقہ میں ہے چار رکعت والی سنت مؤکدہ یعنی ظہر وجمعہ سے قبل اور جمعہ کے بعد کو ایک سلام سے پڑھنا ہی سنت مؤکدہ ہے، اگر ان کو دو سلاموں سے ادا کیا، تو وہ چار سنتیں نہیں ہوں گی الگ سے پھر چار سنتیں پڑھنی پڑیں گی۔(۲)

(۱)أحمد بن محمد، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان النوافل‘‘: ص: ۳۸۹، دارالکتاب دیوبند۔
(۲) وسن مؤکداً أربع قبل الظہر واربع قبل الجمعۃ وأربع بعدہا بتسلیمۃ  فلو بتسلیمتین لم تنب عن السنۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘:ج ۲، ص: ۴۵۱، زکریادیوبند)
وعن علي رضي اللّٰہ عنہ قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلی قبل الظہر أربعاً وبعدہا رکعتین الخ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، أبواب الصلاۃ عن رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ما جاء في الأربع قبل الظہر، ص۹۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص348