نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس کی اصل وجہ گناہ اور خدا کی نافرمانی ہے لہٰذا گناہ کو یاد کرکے اس سے سچی پکی توبہ کریں۔ حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ جب آدمی گناہ کرتا ہے تو اس کو شب بیداری کی توفیق نہیں ہوتی اور حضرت شعبان اسکری ایک گناہ کے سبب پانچ ماہ تک تہجد سے محروم رہے فرمایا وہ گناہ یہ تھا کہ ایک شخص کو روتا دیکھ کر میں نے اپنے دل میں کہا یہ شخص مکار ہے اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ناراض ہوکر تہجد کی توفیق سلب کرلی تھی۔ اور حرام روزی سے بھی بچنا چاہئے کہ اس سے بھی نیک اعمال میں سستی اور بد اعمالیوں میں چستی پیدا ہوتی ہے۔(۲)

(۲) {وَمَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَھُمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَہ۳۳} (سورۃ الأنفال: ۳۳)
{وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓئً ا اَوْیَظْلِمْ نَفْسَہٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاہ۱۱۰} (سورۃ النساء: ۱۱۰)
ھي الندم بالقلب، وترک المعصیۃ في الحال، و العزم علٰی ألا یعود إلٰی مثلھا، وأن یکون ذلک حیائً من اللّٰہ۔ (القرطبي، في تفسیر القرطبي، ’’سورۃ النساء‘‘: ج ۵، ص: ۹۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص437

طلاق و تفریق

Ref. No. 39/1063

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مذکورہ مسئلہ کو کسی شرعی دارالقضاء میں پیش کیا جائے، وہاں سے جو حکم شرعی معلوم ہو اس پر عمل کیا جائے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 41/ 1032

In the name of Allah the most gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

Islam gave the husband the right to have sex with his wife whenever he wants, and if the wife refuses to engage in sexual relationship with her husband without any genuine reason, the husband has right o force his wife to have sex with her. This is not called rape. However, Islam advised that the sexual intercourse between husband and wife should be conducted with intimacy and love.

Moreover, if she is in menstruation or has a contagious disease then she has the right to refrain from her husband.

And Allah knows best

Darul Ifta            

Darul Uloom Waqf Deoband

 

Miscellaneous

Ref. No. 913/41-44

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Men have only been permitted to wear silver rings. Wearing a ring made from other substances is impermissible.

عن عبدِ الله بنِ بُريدة عن أبيه: أن رجلاً جاء إلى النبيِّ -صلَّى الله عليه وسلم- وعليه خاتِمٌ من شَبَهٍ، فقال له: "ما لي أجِدُ مِنْكَ رِيحَ الأصنامِ؟ " فطرحه، ثم جاء وعليه خاتِمٌ من حديدٍ، فقال: "ما لي أرى عليكَ حِليةَ أهلِ النارِ؟ " فطرحَهَ، فقال: يا رسولَ الله - صلَّى الله عليه وسلم -، مِن أيِّ شيءٍ أتَّخِذُه؟ قال: اتَّخِذْهُ من وَرِقٍ، ولا تُتِمَّهُ مِثقالاً" (سنن ابی داؤد 6/281)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom waqf Deoband

اسلامی عقائد

Ref. No. 1111/42-338

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کوئی فرض نماز ذمہ میں رہ گئی ہے تو  اس کی قضا عصر کی نماز کے بعدمکروہ وقت  ( اصفرارشمس) سے پہلے پڑھ سکتے ہیں۔ لیکن اگر سورج پیلا پڑنا شروع ہوگیا تو اب قضا پڑھنا درست نہیں ہے۔ اب مغرب کے بعدقضا کریں۔   

والمراد بما بعد العصر قبل تغير الشمس، وأما بعده فلا يجوز فيه القضاء أيضا وإن كان قبل أن يصلي العصر (تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق الاوقات التی یکرہ فیھا الصلوۃ 1/87)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 1218/42-524

In the name of Allah the most Grcious the most merciful

The answer to your question is as follows:

It is Mustahab (desirable) to start dua with the praise of Allah and durood and end it with the same. It is sunnah way of supplication. However, ending dua with kalima is not found in authentic books.

أجمع العلماء علی استحباب ابتداء الدعا بالحمد للہ تعالی والثناء علیہ، ثم الصلاة علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، وکذلک تختم الدعا بھما، والآثار في ھذا الباب کثیرة معروفة (الأذکار للنواوي، باب استفتاح الدعا بالحمد للہ تعالی والصلاة علی النبي صلی اللہ علیہ وسلم، ص: ۹۹،ط: مطبعة الملاح، دمشق)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایمان جو کفر کے مقابل ہے اس میں کمی زیادتی نہیں ہوتی؛ کیونکہ کمی کی صورت میں وہ شرعاً ایمان ہی نہیں کہلائے گا۔ اہل علم نے ایمان میں کمی و زیادتی کی جو بحث کی ہے اس کا تعلق اس معنی (ایمان بمقابل کفر) سے نہیں ہے؛ بلکہ ایمان کے تقاضہ کے مطابق

 احکام شرعیہ پر اخلاص کے ساتھ عمل کرنے اور تقویٰ اختیار کرنے کی وجہ سے دل میں جو نور پیدا ہو اور احکام شرعیہ کی اطاعت کرنے سے اعمال صالحہ میں روز بروز جو اضافہ ہوتا ہے اور مخالفت کرنے کی صورت میں جو گناہ کا صدور ہوتا ہے اس کو ایمان میں کمی زیادتی کہا گیا ہے۔ اور یہ صورت حال حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے ایمان میں بھی پائی جاتی ہے۔ اہل علم نے اس کے علاوہ بھی دوسرے معانی بیان کئے ہیں۔

 وذہب جمہور المحققین إلی أن الإیمان ہو التصدیق بالقلب، وإنما الإقرار شرط لإجراء الأحکام في الدنیا لما أن تصدیق القلب أمر باطني لا بد لہ من علامۃ، فمن صدق بقلبہ ولم یقر بلسانہ فہو مؤمن عند اللّٰہ تعالیٰ وإن لم یکن مؤمنا في أحکام الدنیا۔ (أبو حنیفہ -رحمہ اللّٰہ- شرح الفقہ الأکبر، ”بحث في أن الإیمان ہو التصدیق والإقرار“: ص: ۳۴۱)

(أَلَّذِیْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ إِیْمَانًاصلے ق وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ ہ۳۷۱) (سورۃ آل عمران، آیۃ: ۳۷۱)

قالوا: ولا تظہر المغایرۃ بین قول أصحاب الحدیث وبین سائر أہل السنۃ، لأن امتثال الأوامر واجتناب الزواجر من کمال الإیمان إتفاقاً لا من ماہیتہ فالنزاع لفظي لا علی حقیقۃ، وکذلک اختلافہم في نقصان الإیمان وزیادتہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ”کتاب الإیمان: الفصل الأول“: ج ۱، ص: ۶۰۱)

فقہ

Ref. No. 2128/44-2172

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگرعورت  حالت حیض و نفاس میں ہو تو قرآن کریم کی تلاوت ممنوع ہے، البتہ ترجمہ پڑھ سکتی ہے، اس کی تشریح کرسکتی ہے، اور جس کتاب میں قرآن  کریم کی آیات کم ہوں،  اور دیگر عبارات مثلا تفسیر احادیث اور تشریحات زیادہ ہوں ، اس  کتاب کو چھوسکتی ہے تاہم بہتر ہے کہ دستانے پہن کر ایسی کتاب کو چھوئے اور آیات کی تفسیر میں قرآن کی آیت تلاوت نہ کرے۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Hadith & Sunnah

Ref. No. 2252/44-2401

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Many companies have been brought in the past few years, where the profit is given on the wing system. And the referrer gets a commission for adding a member to this company, then as many people join the company by him, all the members in the wing above him get more or less commission. This is also called Network Marketing or Multi Level Marketing.

The aim of the participants in these companies is not to buy the products of the company, but to earn commission and get profit only, as if the purpose is only to receive commission and not to buy goods. According to Shari'ah, it is similar to interest and gambling; putting condition in deal; combining two separate trades into one; And in some cases, " charging an excessive price for a product" etc. These are few reasons for which, participation in it is not permissible.

In the 16th seminar of the Islamic Fiqh Academy of Delhi, scholars have declared it unlawful. So, withdraw your money from the company you have invested in as it’s earnings are not halal.

العِبْرَةُ فِیْ الْعُقُوْدِ لِلْمَقَاصِدِ وَالْمَعَانِیْ لاَ لِلْألْفَاظِ وَالْمَبَانِیْ . (قواعد الفقہ ص:۹۱) ہُوَ کُلُّ لَعِبٍ یُشْتَرَطُ فِیْہِ غَالِبًا أن یَّأخُذَ الْغَالِبُ شَیْئًا مِنَ الْمَغْلُوْبِ وَأصْلُہ أن یَّأخُذَ الْوَاحِدُ مِنْ صَاحِبِہ شَیْئًا فَشَیْئًا فِی اللَّعِبِ“ (ص:۴۳۴) انَّہ تَعْلِیقُ الْمِلْکِ عَلَی الْخَطَرِ وَالْمَالُ فِی الْجَانِبَیْنِ (قواعد الفقہ ص:۴۳۴، فتاوی ابن تیمیہ ۱۹/۲۸۴) المَیْسِرُ... امَّا من الیُسْرِ لأنہ أخذُ المال بِیُسْرٍ وَسُہُوْلَةٍ (روح المعانی: ۲/۱۱۳) الغَرَرُ مَا یَکُوْنُ مَسْتُوْرَ الْعَاقِبَةِ . (المبسوط:۱۲/۱۹۴)

نَہٰی رَسُوْلَ اللّٰہ صلى الله عليه وسلم عَنْ صَفْقَتَیْنِ فِیْ صَفَقَةٍ وَاحِدَةٍ . (مسند احمد حدیث نمبر:۳۷۷۴)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہرجگہ حاضر وناظر ہونا خدا تعالیٰ کی صفت ہے جس میں کوئی مخلوق (خواہ عام انسان ہوں یا انبیاء علیہ السلام ہوں) اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک نہیں ہے۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر جاننا گویا اس صفت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرنا ہے جو جرأت اور جسارت بیجا ہوگی اور بسا اوقات اس سے شرک تک پہونچ سکتا ہے، پس ایسے مسلمانوں کے غلط عقائد سے ہر مسلمان کو پرہیز کرنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے خصوصی اوصاف میں کسی کو شریک کرنے سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔(۱) باقی رہا سلام پڑھنا اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر ناظر جان کر سلام پڑھا جائے، تو مطلقاً جائز نہیں؛ البتہ اس عقیدے کے بغیر اگر پڑھا جائے تو انفرادی اور اجتماعی طور پر درورد شریف پڑھنا جائز ہے اور ثواب کا باعث ہے؛ البتہ اجتماعی ہیئت پر درود شریف پڑھنے کو لازم اور ضروری سمجھنا درست نہیں ہے۔(۲)

(۱) {إِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیْْئٍ شَھِیْدًا ہع۳۳} (سورۃ النساء: ۳۳)

{إِنَّہٗ بِکُلِّ شَیْئٍم بَصِیْرٌہ۱۹} (سورۃ الملک: ۱۹)
{وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُھَآ إِلَّا ھُوَط} (سورۃ الأنعام: ۵۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص220