Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:شادی کے موقعہ پر گھر میں صفائی کرنا جائز ہے(۱)؛ البتہ فوٹو وغیرمہذب تصاویر باعث گناہ ہے۔(۲)
(۱) النظافۃ من الإیمان۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الاستئذان والأدب، باب ما جاء فی النظافۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۷، رقم: ۲۷۹۹)
(۲) وظاہر الکلام النووي في شرح مسلم الإجماع علی تحریم تصویر الحیوان، وقال: وسواء صنعہ لما یمتہن أو لغیرہ فصنعتہ حرام بکل حال۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’فروع لا بأس بتکلیم المصلی وإجابتہ برأسہ‘‘: ج ۱، ص: ۶۴۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص432
حج و عمرہ
Ref. No. 2546/45-3885
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عمرہ کے احرام سے پہلے ایسی خوشبو لگانا جائز ہے جس کا عین باقی نہ رہے، اگر خوشبو کا اثر بعد میں بھی باقی رہے تو اس سے عمرہ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، لیکن اگر ایسی خوشبو لگائی جس کا عین باقی رہے تو یہ ممنوع ہوگا۔ اس لئے جو پھولوں کا گجرابالوں میں لگایا گیا اور پھر اس کو عمرہ کی نیت کے وقت بھی نکالا نہیں گیا توعین خوشبو کا استعمال حالت احرام میں پایا گیا جو ممنوع ہے، اس لئے دم دینا لازم ہوگا۔
"قال: ولايلبس ثوباً مصبوغاً بورس، ولا زعفران، ولا عصفر؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: «لايلبس المحرم ثوباً مسه زعفران، ولا ورس إلا أن يكون غسيلاً". البناية شرح الهداية (4/ 186):
"(قوله: وتطيب) أطلقه فشمل ما تبقى عينه بعد كالمسك والغالية، وكره محمد ما تبقى عينه، والأصح عدم الكراهة كما في البرهان. وقال في البحر: وسن استعمال الطيب في بدنه قيد بالبدن إذ لايجوز التطيب في الثوب مما يبقى عينه على قول الكل على إحدى الروايتين عنهما، قالوا: وبه نأخذ اهـ.
وقال الكمال: المقصود من استنان الطيب عند الإحرام حصول الارتفاق به حالة المنع منه فهو على مثال السحور للصوم إلا أن هذا القدر يحصل بما في البدن فيغني عن تجويزه أي تجويز ما تبقى عينه في الثوب إذ لم يقصد كمال الارتفاق في حال الإحرام؛ لأن الحاج الشعث التفل، وقد قيل: يجوز في الثوب أيضاً على قولهما اهـ". درر الحكام شرح غرر الأحكام (1/ 219):
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:دیگر مسالک کے لوگوں کا بھی احترام لازم ہے، اچھے اخلاق سے پیش آنا ایمان کی علامت ہے،(۱) اسے بہرحال ملحوظ رکھنا چاہئے۔ دوسروں کا مذاق بنانے اور نازیبا حرکت کرنے سے کسی خیرکی توقع نہیں کی جاسکتی۔(۲) ان کو اچھے اور مشفقانہ لہجے میں سمجھانا چاہئے، ان سے اچھے تعلقات اگر رکھیں گے، تو وہ آپ کی بات سنیں گے اور حق کو قبول کریں گے، ان کے دل میں صحابہ کرامؓ کی عظمت پیدا کرنے کے لئے صحابہ کرامؓ کے واقعات سنائے جائیں۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہوگا، جبکہ وہ صحابہؓ کی شان اپنے اندر پیداکریں؛ اس لئے اہل حق کو ان باتوں کا خیال رکھنا چاہئے ۔(۱)
(۱) لا تحقرن من المعروف شیئاً ولو أن تلقی أخاک بوجہ طلق۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب البر والصلاۃ والآداب: استحباب طلاقۃ الوجہ عند اللقاء‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۵، رقم: ۲۶۲۶)
(۲) {لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی أَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْھُمْ} (سورۃ الحجرات: ۱۱)
(۱) {إِدْفَعْ بِالَّتِيْ ھِيَ أَحْسَنُ السَّیِّئَۃَ ط نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَہ۹۶} (سورۃ المؤمنون: ۹۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص254
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو کے بعد دعا کرتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھنا جائز ہے اور حدیث شریف میں اس کا ثبوت موجود ہے؛ البتہ شہادت کی انگلی اٹھانے کی روایت نہیں ملتی ہاں حضرات فقہاء احناف نے اس کا بھی تذکرہ کیا ہے؛ اس لیے اس عمل کی بھی گنجائش ہے ،تا ہم یہ عمل سنت یا ضروری سمجھ کر نہ کیا جائے۔
’’حدثنا الحسین بن عیسی قال ثنا عبد اللّٰہ بن یزید المقرئ عن حیوۃ بن شریح عن أبي عقیل عن ابن عمہ عن عقبۃ بن عامر الجہني عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولم یذکر أمر الرعایۃ قال عند قولہ فأحسن الوضوء ثم رفع نظرہ إلی السماء، فقال وساق الحدیث یعنی حدیث معاویۃ‘‘(۱)
’’ذکر الغزنوي أنہ یشیر بسبّابتہ حین النظر إلی السماء‘‘(۲)
’’وزاد في المنیۃ: وأن یقول بعد فراغہ سبحانک اللہم وبحمدک، أشہد أن لا إلہ إلا أنت، أستغفرک وأتوب إلیک، وأشہد أن محمدا عبدک ورسولک ناظرا إلی السماء‘‘(۳)
(۱) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب ما یقول الرجل إذا توضأ‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۔(کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)
(۲) طحطاوی، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ: فصل، من آداب الوضوء أربعۃ عشر شیئاً‘‘: ص: ۷۷۔
(۳) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في بیان ارتقاء الحدیث الضعیف إلی مرتبۃ الحسن‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۳۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص181
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر جوتا ٹخنوں سمیت پورے قدم کو ڈھانپ لیتا ہے، تو اس پر مسح کرنا جائز ہے؛ اس لیے کہ اس وقت وہ جوتا ’’خف‘‘ کے حکم میں ہے اور موزوں پر مسح کے سلسلے میں حکم یہ ہے کہ کم از کم ان میں تین میل مسلسل چلا جا سکے، بغیر رکاوٹ کے پاؤں پر رکے رہیں اور ان میں سے پاؤں تک پانی (چھن کر) نہ پہنچے اگر یہ مذکورہ شرائط جوتوں میں بھی پائی جاتی ہیں تو ان پر مسح کرنا جائز ہے ایسے ہی اگرجوتا پاؤں کے اتنے حصے کو نہیں ڈھانپتا جسے وضو میں دھونا لازمی ہے یعنی ٹخنوں سمیت پورا قدم تو ایسی حالت میں جمہور علماء کرام کے یہاں اس پر مسح کرنا جائز نہیں ہے۔
’’وأما المسح علی الجوارب فلایخلو: إما إن کان الجوارب رقیقاً غیر منعل، وفي ہذا الوجہ لایجوز المسح بلا خلاف، وأما إن کان ثخیناً منعلاً وفي ہذا الوجہ یجوز المسح بلا خلاف، لأنہ یمکن قطع السفر، وتتابع المشي علیہ فکان بمعنی الخف۔ والمراد من الثخین: إن کان یستمسک علی الساق من غیر أن یشد بشيئٍ، ولایسقط، فأما إذا کان لایستمسک ویسترخي، فہذا لیس بثخین ولایجوز المسح علیہ‘‘(۱)
’’(قولہ: شرط مسحہ) أي مسح الخف المفہوم من الخفین، وأل فیہ للجنس الصادق بالواحد والإثنین، ولم یقل مسحہما لأنہ قدیکون واحدا لدی رجل واحد (قولہ: ثلاثۃ أمور الخ) زاد الشر نبلالي: لبسہما علی طہارۃ، وخلو کل منہما عن الخرق المانع، واستمساکہما علی الرجلین من غیرشد، ومنعہما وصول الماء إلی الرجل، وأن یبقی من القدم قدر ثلا ثۃ أصابع‘‘(۲)
(۱) محمود بن أحمد، المحیط البرہاني، ’’الفصل السادس في المسح علی الخفین بیان ما یجوز علیہ المسح من الخفاف وما بمعناہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۹۔(مکتبہ شاملہ)
(۲) ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المسح علی الخفین‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۶۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص279
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حیض کی اصل مدت تین دن تین رات ہے، دو روز خون آکر موقوف ہو گیا، پھر ایک روز آکر بند ہو گیا، یہ حیض نہیں استحاضہ ہے(۱) لہٰذا عورت کو جب تک باقاعدہ تین مرتبہ حیض نہ آجائے، عدت ختم نہ ہو گی(۲) اور دوسرے سے نکاح بھی درست نہ ہوگا؛ البتہ عورت کا آئسہ ہونا متحقق ہو جائے تو تین ماہ کے بعد کیا ہوا نکاح درست ہوگا۔(۳)
(۱)أقل الحیض ثلاثۃ أیام و لیالیھا وما نقص من ذلک فھو استحاضۃ۔ (المرغینانی، ہدایہ، ’’کتاب الطہارات، باب الحیض والاستحاضۃ‘‘ ج۱، ص:۶۲، مکتبۃ الاتحاد دیوبند)؛ و عن أبی أمامۃ الباھلي قال: قال رسول اللّٰہ: لایکون الحیض للجاریۃ والثیب التي قد أیست من الحیض اقل من ثلاثۃ أیام ولا أکثر من عشرۃ أیام فھي مستحاضۃ الخ (أخرجہ دار قطني، في سننہ، ’’کتاب الحیض‘‘ ج۱، ص:۳۰۷،رقم:۸۳۳)
(۲) وَالْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِھِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوٓئٍ الخ۔ (سورۃ البقرہ:۲۲۹)
(۳) وَاللَّائِيْ یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِّسَائِکُمْ إنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُھُنَّ ثَلٰثَۃُ أشْھُرٍ۔ (سورۃ البقرہ، آیت۲۲۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص377
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر مذکورہ شیعہ مسجد میں جماعت سے نماز پڑھتا ہے تو اس کی وجہ سے دوسرے نمازیوں کی نماز میںکوئی فرق نہیں آئے گا اگرچہ وہ رفع یدین بھی کرتا ہو؛ کیوں کہ رفع یدین احناف کے نزدیک غیر اولیٰ ہے، اگر وہ مسجد میں قرآن پاک پڑھتا ہے یا وظیفہ پڑھتا ہے، تواس کو منع کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے اور اگر وہ تنہا نماز پڑھتا ہے جب بھی اس کو مسجد میں آنے سے روکنا صحیح نہیںہے اپنے بچوں کی خود تربیت کی جائے۔(۱)
(۱) واختلف الأئمۃ في دخول الکفار المسجد فجوزہ الإمام ابوحنیفۃ رضي اللّٰہ عنہ مطلقاً للآیۃ (ومن اظلم ممن منع الخ) فإنہا تفید دخولہم بخشیۃ وخشوع ولأن وفد ثقیف قدموا علیہ علیہ الصلاۃ والسلام فأنزلہم المسجد ولقولہ علیہ السلام: من دخل دار أبي سفیان فہو آمن ومن دخل الکعبۃ فہو آمن والنھي محمول علی التنزیۃ أو الدخول للحرم بقصد الحج۔ ومنعہ مالک رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ مطلقاً۔ لقولہ تعالیٰ إنما المشکرون نجس۔ (التوبۃ آیۃ: ۲۸)
والمساجد یجب تطہیرہا عن النجاسات ولذا یمنع الجنب عن الدخول وجوزہ لحاجۃ۔ وفرق الإمام الشافعي رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ بین المسجد الحرام وغیرہ وقال الحدیث منسوخ بالآیۃ۔ (آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ البقرۃ: ۱۱۴، ۱۱۶‘‘: ج۱، ص: ۵۷۳، ۵۷۴، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص258
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اگر جلدی کی وجہ سے ننگے سر یا بے وضو اذان پڑھ دی گئی تو وہ اذان ادا ہوگئی، اعادہ کی ضرورت نہیں ہے؛ البتہ جان بوجھ کر ایسا نہ کرے اور اگر کوئی شخص عادت ہی بنالے کہ ہمیشہ بے وضو اذان دیتا رہے، تو یہ کراہت سے خالی نہیں۔
’’قال: أبوہریرۃ لا ینادي بالصلاۃ إلا متوضئ‘‘ (۲)
’’واختلف أہل العلم فی الأذان علیٰ غیر وضوء فکرہہ بعض أہل العلم وبہ یقول الشافعي وإسحاق، ورخص في ذلک بعض أہل العلم وبہ یقول: سفیان وابن المبارک وأحمد۔
ویکرہ أذان جنب وإقامتہ وإقامۃ محدث لا أذانہ علی المذہب‘‘ (۱)
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ: باب ما جاء في کراہیۃ الأذان بغیر وضوء‘‘: ج ۱، ص: ۵۰، رقم: ۲۰۱، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج ۲، ص: ۶۰، زکریا دیوبند۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص145
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کوئی نمازی عمل کثیر کے ذریعہ سانپ یا بچھو کو قتل کردے تو اس کی نماز باطل ہوجاتی ہے تفصیلات و دلائل کے لیے (امدادالفتاویٰ ج۱، ص ۴۴۱) کا مطالعہ کریں۔(۱)
(۱) لکن صحح الحلبي الفساد حیث قال تبعاً لابن الہمام: فالحق فیما یظہر ہوالفساد، والأمر بالقتل لایستلزم صحۃ الصلاۃ مع وجودہ کما في صلاۃ الخوف، بل الأمر في مثلہ لإباحۃ مباشرتہ وإن کان مفسدا للصلاۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ج۲، ص: ۴۲۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص102
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: ترتیب کے خلاف کرنا مکروہ ہے، لیکن نماز صحیح ہوگئی، ترتیب اگرچہ واجب ہے، لیکن اس کے ترک کرنے سے سجدۂ سہو واجب نہیں۔(۱)
(۱) قالو: یجب الترتیب في سور القرآن، فلو قرأ منکوسا أثم لکن لایلزمہ سجود السہو، لأن ذلک من واجبات القراء ۃ لامن واجبات الصلاۃ کما ذکرہ في البحر في باب السہو۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۸)
وإذا قرأ في رکعۃ سورۃ، وفي الرکعۃ الأخریٰ أو في تلک الرکعۃ سورۃ فوق تلک السورۃ یکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الرابع‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص220