Frequently Asked Questions
متفرقات
Ref. No. 40/935
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسی صورت میں شادی کے بعد بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، البتہ اس طرح کے الفاظ زبان سے نکالنا آئندہ کسی ضرر کا باعث بن سکتا ہے، اس لئے زبان سے کچھ بھی بولنے میں بہت احتیاط کریں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 41/1026
In the name of Allah the most gracious the most merciful
The answer to your question is as follows:
Ulama of Deoband didn’t make any remark about Yazeed. They preferred to keep quite regarding Yazeed.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
زیب و زینت و حجاب
Ref. No. 924/41-59
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بچی نو سال کی ہوجائے تو وہ مشتہاۃ کہلاتی ہے جس کو چھونے سے حرمت مصاہرت کے ثبوت کا فتوی دیاجاتاہے، والفتوی علی ان بنت تسع محل الشھوۃ لا ما دونھا (ہندیہ 1/340) ۔ اس سے کم عمر ہو تو چھونے سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی ہے۔ عالمگیری میں ہے: وقال الفقیہ ابواللیث : مادون التسع سنین لاتکون مشتھاۃ وعلیہ الفتوی۔
تاہم آج کے دَور میں مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ بچی کے مشتھاۃ ہونے کا فتوی سات سال پر ہی دیاجائے، جیسا کہ ہندیہ میں امام ابوبکر رحمہ اللہ کا قول منقول ہے: انہ کان یقول ینبغی للمفتی ان یفتی فی السبع والثمان (ج1ص340)۔ لہذا مذکورہ عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکی کے کپڑے تبدیل کرانے کا جواز سات سال تک ہی محدود ہے اور یہی ہمارے زمانے کے لئے مفید بھی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1112/42-339
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ اغلاط العوام کے قبیل سے ہے، اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1234/42-635
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بڑے بھائی کی شادی کے موقع پر جو کچھ خرچ ہوا وہ بلا کسی شرط کے خرچ ہوا ہے، اس لئے وہ تمام بھائیوں کی طرف سے تبرع سمجھا جائے گا۔ اور اس کا حساب میں شمار نہیں ہوگا۔ اور چھوٹےدونوں بھائیوں کی شادی میں بڑا بھائی اپنی سہولت کے مطابق از راہ تبرع جو دینا چاہے دے گا یا نہیں دے گا، یہ اس کی مرضی پر منحصرہے؛ اس سے خرچ میں شرکت کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔ اس لئے اب جو دوکان موجود ہے اس کو تین حصوں میں تقسیم کرکے سب کو برابربرابر حصہ دیا جائے گا۔
وکذلک لو اجتمع اخوۃ یعملون فی ترکۃ ابیھم ونما المال فھو بینھم سویۃ ولو اختلفوا فی العمل والرای (شامی ، کتاب الشرکۃ ، 6/392)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 1588/43-1125
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت بالا میں تین دن نفاس کا خون آکر بند ہوگیا اور عورت نےپاکی سمجھ کر غسل کرلیا اور نماز و روزہ بھی اس سے شروع کردیا یہاں تک کہ شوہر نے اس سے صحبت بھی کی لیکن پھر سولہ دن بعد نفاس کا خون جاری ہوگیا جبکہ نفاس کی مدت ابھی باقی تھی یعنی چالیس دن۔ اس لئے دوبارہ جو خون جاری ہوا یہ نفاس کا ہی مانا جائے گا۔ عورت نے جو نماز وغیرہ عبادات کیں یا شوہر سے صحبت ہوئی اس پر کوئی گناہ نہیں، کیونکہ یہ سب کچھ لاعلمی میں ہوا، البتہ چونکہ خلاف شرع امور انجانے میں ہوئے ہیں اسلئے افضل ہے کہ کچھ صدقہ وغیرہ کردے۔
[تتمة] الطهر المتخلل بين الأربعين في النفاس لا يفصل عند أبي حنيفة سواء كان خمسة عشر أو أقل أو أكثر، ويجعل إحاطة الدمين بطرفيه كالدم المتوالي وعليه الفتوى. وعندهما الخمسة عشر تفصل، فلو رأت بعد الولادة يوما دما وثمانية وثلاثين طهرا ويوما دما؛ فعنده الأربعون نفاس وعندهما الدم الأول؛ ولو رأت من بلغت بالحبل بعد الولادة خمسة دما ثم خمسة عشر طهرا ثم خمسة دما ثم خمسة عشر طهرا ثم استمر الدم؛ فعنده نفاسها خمسة وعشرون؛ وعندهما نفاسها الخمسة الأولى وحيضها الخمسة الثانية، وتمامه في التتارخانية.(شامی باب الحیض 1/290)
ثم أبو حنيفة - رحمه الله تعالى - مر على أصله فقال: الأربعون للنفاس كالعشرة للحيض ثم الطهر المتخلل في العشرة عنده لا يكون فاصلا، وإذا كان الدم محيطا بطرفي العشرة يجعل الكل كالدم المتوالي فكذلك في النفاس إذا أحاط الدم بطرفي الأربعين وأبو يوسف - رحمه الله تعالى - مر على أصله أن الطهر المتخلل إذا كان أقل من خمسة عشر لا يصير فاصلا، ويجعل كالدم المتوالي فإذا بلغ خمسة عشر يوما صار فاصلا بين الدمين، فهذا مثله. (المبسوط للسرخسی، باب النفاس 3/211)
ثم الطهر المتخلل بين دمي النفاس لا يفصل، وإن كثر عند أبي حنيفة نحو ما إذا ولدت فرأت ساعة دما ثم طهرت تسعة وثلاثين ثم رأت على الأربعين دما فالأربعون كلها نفاس عند أبي حنيفة وعندهما إن كان الطهر المتخلل أقل من خمسة عشر يوما ما لم يفصل وإن كان خمسة عشر فصاعدا فصل فيكون الأول نفاسا والآخر حيضا إن كان ثلاثة أيام فصاعدا، وإن كان أقل فهو استحاضة،(الجوھرۃ النیرۃ علی القدوری، دم النفاس 1/35)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1758/43-1478
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہمیں ان صاحب کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے، لہذا ان کے عقیدہ کے بارے میں کچھ نہیں کہاجاسکتا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 1862/43-1732
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح کے ایپ پر کمپنیوں کی جانب سے ملنے والی رعایت اور کیش بیک یا انعام گراہکوں کو اپنے سے قریب کرنے کے لئے ہوتے ہیں، اس لئے یہ رقم جائز اور حلال ہے ۔مذکورہ تفصیل کے مطابق اس میں آپ نے کوئی جوا اور قمار والی شکل اختیار نہیں کی۔البتہ ان سب چیزوں میں انہماک مناسب نہیں ہے۔
هي) لغةً: التفضل على الغير ولو غير مال. وشرعاً: (تمليك العين مجاناً) أي بلا عوض لا أن عدم العوض شرط فيه، وسببها إرادة الخير للواهب) دنيوي كعوض ومحبة وحسن ثناء، وأخروي (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 687)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بارات وغیرہ کی موجودہ رسمیں غیر شرعی ہیں۔ تاہم کچھ لوگوں کونکاح کے موقع پر بھیجنا ثابت ہے، جن کی تعداد لڑکی والوں کی اجازت پر موقوف ہے، موجودہ طریقے پر ہجوم ثابت نہیں ہے۔(۱)
(۱) في حدیث أنس رضي اللّٰہ عنہ خطبہا علی بعد أن خطبہا أبو بکر رضي اللّٰہ عنہ ثم عمر رضي اللّٰہ عنہ … قال أنس رضي اللّٰہ عنہ ثم دعاني علیہ الصلوٰۃ والسلام بعد أیام فقال أدع لي أبا بکر وعمر وعثمان وعبد الرحمن بن عوف وعدۃ من الأنصار جماعۃ بینہم لہ فلما اجتمعوا وأخذوا مجالسہم الخ۔ (شرح الزقاني مع المواہب اللدنیۃ، ’’ذکر تزویج علی بفاطمۃ رضي اللّٰہ عنہما‘‘: ج ۲، ص: ۳-۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص443