حج و عمرہ

Ref. No. 1015/41-169

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   طوافِ زیارت کے بعد نفلی طواف سے بھی طواف وداع ادا ہو جاتا ہے، اور دم واجب نہیں ہوتا ہے ۔لیکن اگر طواف زیارت کے بعد  نہ تو طواف وداع کیا اور نہ ہی کوئی طواف ایسا کیا جو طواف وداع کے قائم مقام ہوجائے تو پھر اس پر دم واجب ہوگا۔  تاہم مناسک حج کےمکمل ہونے کی وجہ سے بیوی حلال ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1132/42-333

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (الف) زید کی کل جائداد کو 64 حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے بیوی کو8 حصے، ہر ایک بیٹے کو 14 حصے (کل 42حصے)، اور ہر ایک بیٹی کو 7 حصے (کل 14 حصے) ملیں گے۔

(ب) اگر کوئی اپنی زندگی میں ہی اپنی جائداد تقسیم کرنا چاہتا ہے تو کرسکتا ہے، اور اس میں بہتر یہ ہے کہ تمام مذکرومؤنث اولاد کو برابر برابر حصہ دے۔ لیکن اگر وراثت کے اعتبار سے حصوں کی تقسیم کرے تو بھی جائز ہے؟  لیکن اسے ہبہ کہیں گے، وراثت نہیں۔

(ج) فاطمہ کی کل جائداد کو 32 حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے شوہر کو 8 حصے، ہر ایک بیٹے کو 6 حصے(کل 18حصے)، اور ہر ایک بیٹی کو 3 حصے (کل 6 حصے) ملیں گے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1233/42-547

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح اجتماعی دعا کرنا قرون مشہود لہا بالخیر میں ثابت نہیں ہے، اس لئے اس کو رسم بنانا اور جو عورتیں اس میں شریک نہ ہوں ان پر نکیر کرنا اور ان کو ملامت کرنا یہ سب امور غلط ہیں۔ تاہم اگر اتفاقی طور پر اجتماعی دعا کی شکل ہوجائے تو اس میں کوئی گناہ  نہیں ہے۔ کسی امر مندوب پر اصرار  اس امر کو بدعت بنادیتا ہے۔ والاصرار علی المندوب یبلغہ الی حد الکراہۃ  (السعایۃ 2/65 باب صفۃ الصلوۃ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد
کیا ذکری مزہب والے مسلمان ہیں یا کافر؟

عائلی مسائل

Ref. No. 1754/43-1465

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ علینہ بمعنی واضح ، ظاہر۔ یہ عربی لفظ ہے، بچی کا نام رکھ سکتے ہیں۔ تاہم امہات المومنین، صحابیات اور اچھے معانی والے ناموں میں سے کسی نام کا انتخاب کرنا چاہئے۔ نام کا بچہ پر اثر پڑتا ہے، اور اسی نام کے ساتھ میدان محشر میں پکاراجائے گا، اس لئے بہت سوچ سمجھ کر اچھے نام کا انتخاب کریں۔ حدیث شریف میں میں بچوں کا اچھا نام رکھنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے اور خراب یا بدشگونی والے نام  رکھنے سے منع فرمایا گیا ہے اور آپ ﷺ نے بعض لوگوں کا نام تبدیل بھی کیا ہے۔

عِنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہ :أَنَّہُمْ قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَدْ عَلِمْنَا مَا حَقُّ الْوَالِدِ عَلَی الْوَلَدِ فَمَا حَقُّ الْوَلَدِ عَلَی الْوَالِدِ؟قَالَ أَنْ یُحْسِنَ اِسْمَہ‘ وَیُحْسِنَ أَدَبَہ۔( شعب الایمان، حدیث نمبر:۸۶۵۸)

اِنَّکُمْ ُتدْعَوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِأَسْمَائِکُمْ وَاَسْمَاءِ آبَائِکُمْ فَأَحْسِنُوْا أَسْمَائَکُمْ ۔ (سنن ابی داؤد:2/676،المیزان ،کراچی)

عَنْ عَبْدِالْحَمِیْدِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ شَیْبَۃَ قَالَ جَلَسْتُ اِلٰی سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ فَحَدَّثَنِیْ أَنَّ جَدَّ ہٗ حَزَنًا قَدِمَ عَلٰی النبی صلی اللہ علیہ و سلم قَالَ مَا اسْمُکَ قَالَ اسْمِیْ حَزَنٌ قَالَ بَلْ اَنْتَ سَھْلٌ قَالَ ھَل اَنَا بِمُغَیِّرٍ اِسْمًا سَمَّانِیْہِ أَبِیْ قَالَ ابْنُ المُسَیِّبِ فَمَا زَالَتْ فِیْنَا الْحَزُوْنَۃُ بَعْدُ۔( ابوداؤد :۲ /۶۷۷، مصنف عبد الرزاق :۱۱/۴۱ ،السنن الکبرٰی :۹/۵۱۶ بخاری: ۲/۹۱۴ )

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا هِشَامٌ أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ شَيْبَةَ قَالَ جَلَسْتُ إِلَى سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ فَحَدَّثَنِي أَنَّ جَدَّهُ حَزْنًا قَدِمَ عَلَى النَّبِيِّ ? فَقَالَ مَا اسْمُكَ قَالَ اسْمِي حَزْنٌ قَالَ بَلْ أَنْتَ سَهْلٌ قَالَ مَا أَنَا بِمُغَيِّرٍ اسْمًا سَمَّانِيهِ أَبِي قَالَ ابْنُ الْمُسَيَّبِ فَمَا زَالَتْ فِينَا الْحُزُونَةُ بَعْدُ (صحيح البخاري-نسخة طوق النجاة - (1 / 88)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی
Ref. No. 2267/44-2423 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نہیں، اس لفظ سے اس کی بیوی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، اور کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، اور اس کی بیوی بدستور اس کی نکاح میں رہے گی۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

 

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ واقعہ غلط ہے اسرائیلی روایات میں اس کا ذکر ہے جو کہ قابل اعتبار نہیں۔(۱)

(۱)  ذکر ابن الجوزي بعد قصۃ طویلۃ: ’’ہذا حدیث موضوع‘‘:
کیف روي ومن أي طریق نقل؟ وضعہ جہال القصاص لیکون سببا في تبکیۃ العوام والنساء، فقد أبدعوا فیہ وأتوا بکل قبیح ونسبوا إلی عمر ما لا یلیق بہ، ونسبوا الصحابۃ إلی ما لا یلیق بہم، وکلماتہ الرکیکۃ تدل علی وضعہ، وبعدہ عن أحکام الشرع یدل علی سوء فہم واضعہ وعدم فقہہ۔
ہذا الذي ذکرہ محمد بن سعید في الطبقات وغیرہ۔ ولیس بعجیب أن یکون شرب النبیذ متأولا فسکر عن غیر اختیار، وإنما لما قدم علی عمر ضربہ ضرب تأدیب لا ضرب حد، ومرض بعد ذلک لا من الضرب ومات، فلقد أبدوا فیہ القصاص وأعادوا۔ وفي الإسناد الأول من ہو مجہول ثم ہو منقطع۔ (جمال الدین عبدالرحمن بن علي بنمحمد الجوزي، الموضوعات: ج ۳، ص: ۲۷۵)
(۲) {لَوْلَآ إِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بِأَنْفُسِھِمْ خَیْرًالا وَّقَالُوْا ھٰذَا إِفْکٌ مُّبِیْنٌہ۱۲} (سورۃ النور: ۱۲)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص230

اسلامی عقائد

الجواب وبا اللّٰہ التوفیق:عرس ایک بدعت واضحہ ہے جس کو سلطان اربل نے ۶۰۰ھ؁ میں ایجاد کیا ، اور اس میں بعد میں جو شرعی قباحتیں داخل کرلی گئیں مثلاً گانا بجانا، عورتوں مردوں کا اختلاط اور دیگر خرابیاں ان کی وجہ سے اس کو ناجائز ہی کہا جائے گا۔(۱)

(۱) لا یجوز ما یفعلہ الجہال بقبور الأولیاء والشہداء من السجود والطواف حولہا واتخاذ السرج والمساجد علیہا ومن الاجتماع بعد الحول کالأعیاد ویسمونہ عرسا۔ (محمد ثناء اللّٰہ، پاني پتي، تفسیر مظہري، ’’سورۃ آل عمران: ۶۴‘‘: ج ۲، ص: ۶۸)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ قال: (لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم زائرات القبور والمتخذین علیہا المساجد والسرج)۔ (العیني، عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري، ’’باب زیارۃ القبور‘‘: ج ۱۲، ص: ۲۷۵)
ویکرہ عند القبر ما لم یعہد من السنۃ والمعہود منہا لیس إلا زیارتہ والدعاء عندہ قائما، کذا في البحر الرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الحادي والعشرون: في الجنائز، الفصل السادس في القبر والدفن‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۸)
ولا یمسح القبر ولا یقبلہ ولا یمسہ فإن ذلک من عادۃ النصاری کذا في شرح الشرعۃ۔ (أحمد بن محمد بن إسماعیل الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب أحکام الجنائز، فصل في زیارۃ القبور‘‘: ج ۱، ص: ۶۲۱)
والمستحب في زیارۃ القبور أن یقف مستدبر القبلۃ مستقبلا وجہ المیت وأن یسلم ولا یمسح القبر ولا یقبلہ ولا یمسہ فإن ذلک من عادۃ النصاری کذا في شرح الشرعۃ۔ (أحمد بن محمد بن إسماعیل الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب أحکام الجنائز، فصل في زیارۃ القبور‘‘: ج ۱، ص: ۶۲۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص355

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شب برأت، عید الفطر ، عید الاضحی اور محرم کی دسویں تاریخ میں بعض امور کو ضروری اور لازم سمجھنا اور ان کو انجام دینا جن کا سوال میں تذکرہ ہوا ہے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے زمانے میں ان چیزوں کی کوئی اصل نہیں ملتی اور نہ ہی یہ چیزیں دین اسلام اور مسلمانوں کے کسی فائدے کی چیزیں ہیں؛ اس لیے یہ چیزیں بدعات سیئہ ہوکر ناجائز و حرام ہیں بدعت یعنی دین میں کسی چیز کو لازم سمجھ لینا جب کہ دین میں اس کی کوئی اصل نہ ہو شرعاً بڑا گناہ ہے اور اس پر احادیث میں بڑی سخت وعیدیں ہیں۔(۱)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)

وکل ہذہ بدع ومنکرات لا أصل لہا في الدین ولا مستند لہا من الکتاب والسنۃ، …ویجب علی أہل العلم أن ینکروہا وأن یبطلوا ہذہ العادات ما استطاعوا۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، معارف السنن، ’’باب الشتدید في البول‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص493
 

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ آیت مشرکین اور دیگر عرب قبائل کے ساتھ جو معاہدات تھے، اس سے متعلق ہے اس کا جماعت میں نکلنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس آیت کی تفسیر یہ ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر مسلمانوں کا مکہ پر مکمل قبضہ ہوگیا، مکہ او راطراف مکہ میں رہنے والے غیر مسلموں کو جان، مال کی امان دیدی گئی؛ لیکن اس وقت ان غیر مسلموں کے مختلف حالات تھے، ایک تو وہ لوگ تھے جن سے حدیبیہ میں صلح کا معاہدہ ہوا اور انہوں نے خود اس کو توڑ دیا اور وہی فتح مکہ کا سبب ہوا دوسرے کچھ ایسے لوگ بھی تھے، جن سے صلح کا معاہدہ کسی خاص میعاد کے لیے کیا گیا تھا اور وہ اس معاہدے پرقائم رہے، جیسے ’’بنی کنانہ‘‘ کے دو قبیلے ’’بنی ضمرہ‘‘ اور ’’بنی مدلج‘‘ جن سے ایک مدت کے لیے صلح ہوئی تھی اور سورۃ برأت نازل ہونے کے وقت بقول خازن ان کی میعاد صلح کے نو مہینے باقی تھے، تیسرے: کچھ ایسے لوگ بھی تھے جن سے معاہدۂ صلح بغیر تعیین مدت کے ہوا تھا۔ چوتھے: وہ لوگ تھے جن سے کسی قسم کا معاہدہ نہ تھا، غرض سورہ توبہ کی پہلی دو آیات میں ان سب لوگوں کو جن سے بلاتعیین مدت کوئی معاہدہ تھا یا جن کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ تھا چار مہینے کی مہلت دی گئی اور چوتھی آیت کی رو سے ان لوگوں کو تا اختتام معاہدہ مہلت مل گئی جن کے ساتھ کسی خاص میعاد کا معاہدہ تھا اور پانچویں آیت سے مشرکین مکہ کو اشہر حرم ختم ہونے تک مہلت مل گئی۔(۱)

(۱) مفتي محمد شفیع عثمانيؒ، معارف القرآن: ج ۴، ص: ۳۱۱۔
فسیحوا في الأرض: لأن الکلام خطاب مع المسلمین علی أن المعني براء ۃ من اللّٰہ ورسولہ إلی الذین عاہدتم من المشرکین فقولوا لہم: سیحوا إلا الذین عاہدتم منہم ثم لم ینقصوکم فأتموا إلیہم عہدہم، وہو بمعنی الاستدراک کأنہ قیل: فلا تمہلوا الناکثین غیر أربعۃ أشہر ولکن الذین لم یکنثوا فأتموا إلیہم عہدہم ولا تجروہم مجر الناکثین۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ التوبۃ: ۱، ۱۷‘‘: ج ۶، ص: ۷۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص44