نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ عذر کی وجہ سے مسجد کی چھت پر جماعت کر سکتے ہیں، بلا عذر ایسا کرنا مکروہ ہے۔(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الخامس في آداب المسجد‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۲، زکریا دیوبند)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص516

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں بھی جمعہ کی اذان کے سلسلہ میں معمول یہ تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز جمعہ کے لیے تشریف لاتے اور منبر پر بیٹھتے تو اذان کہی جاتی تھی۔ زمانہ رسالت کے بعد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی یہی معمول رہا۔
جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے اور انہوں نے دیکھا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے
زمانہ میں مسلمانوں کی تعداد کم تھی اور جو تھے وہ بھی مسجد کے قریب سکونت پذیر تھے؛ بلکہ بیشتر مسلمان تو ہمہ وقت بارگاہ نبوت کے حاضر باش ہی تھے اور اب صرف مسلمانوں کی تعداد ہی نہیں بڑھی تھی؛ بلکہ بہت سے لوگ تو مسجد سے دور دراز علاقوں میں رہتے بھی تھے اور کاروبار بھی کرتے تھے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مناسب سمجھا کہ جب نماز جمعہ کا وقت ہوجائے تو اذان کہی جائے تاکہ دور دراز کے مسلمان بھی خطبہ میں آجایا کریں۔ اسی وقت سے اذان اول بھی کہی جانے لگی یہ چوں کہ خلیفہ ثالث کا عمل ہے اور تمام موجود صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے اس لیے یہ بھی سنت ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے۔
’’عن السائب بن یزید قال: النداء یوم الجمعۃ أوّلہ إذا جلس الإمام علی المنبر علی عہد النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأبي بکر وعمر رضي اللّٰہ عنہما فلما کان عثمان رضي اللّٰہ عنہ وکثر الناس زاد النداء الثالث علی الزوراء، قال أبو عبد اللّٰہ: الزوراء موضع بالسوق بالمدینۃ‘‘(۱)
 حدیث میں تیسری اذان سے مراد پہلی اذان ہے کیوں کہ پہلی اذان خطیب کے منبر پر بیٹھنے کے وقت ہوتی تھی اور دوسری تکبیر۔ اور تیسری اس کو کہا گیا ہے جو ہمارے زمانہ میں پہلی ہے۔
جمعہ کی دوسری اذان چوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی منبر کے سامنے دی جاتی تھی؛ اس لیے مسنون یہی ہے کہ دوسری اذان منبر کے سامنے دی جائے؛ لیکن اگر کبھی کبھار کسی وجہ سے تخلف ہو جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الجمعۃ، باب الأذان یوم الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۴، رقم: ۹۱۲۔
وکذا الجلوس علی المنبر قبل الشروع في الخطبۃ والأذان بین یدیہ جری بہ التوارث۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ:  باب الجمعۃ‘‘ ص: ۵۱۵، شیخ الہند دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص156

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بے شک فرائض کے بعد ’’اللّٰہم أنت السلام الخ‘‘ والی دعاء مسنون ہے؛ اس لیے اکثر اسی کو پڑھا جاتا ہے، لیکن دوسری دعاء یا درود شریف پڑھنے سے؛ بلکہ اس قدر خاموش بیٹھنے سے بھی سنت ادا ہوجاتی ہے، لہٰذا کسی دوسری دعاء کو خلاف سنت کہنا صحیح نہیں ہے۔(۱)

(۱) عن ثوبان رضي اللّٰہ عنہ قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ إذا انصرف من صلاتہ استغفر ثلاثا وقال: اللہم أنت السلام ومنک السلام تبارک ذو الجلال والإکرام، قال الولید: فقلت للأوزاعي: کیف الاستغفار؟ قال تقول استغفر اللّٰہ، استغفر اللّٰہ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ: باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ وبیان صفتہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۸، رقم: ۵۹۱)
عن کعب بن عجرۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: معقباتٌ لا یخیب قائلہن، أو فاعلہن، دبر کل صلاۃ مکتوبۃ ثلاثٌ وثلاثون تسبیحۃ، ثلاث وثلاثون تحمیدۃ وأربعٌ وثلاثون تکبیرۃ۔ (أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ: باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ وبیان صفتہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۸، رقم: ۵۹۶)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من سبح اللّٰہ في دبر کل صلاۃ ثلاث وثلاثین وحمد اللّٰہ ثلاث وثلاثین وکبر اللّٰہ ثلاث وثلاثین فتلک تسعۃ وتسعون، وقال تمام المأۃ لا إلہ إلا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شيء قدیر غفرت خطایاہ وإن کانت مثل زبد البحر۔ (أخرجہ مسلم  في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ: باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ وبیان صفتہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۸، رقم: ۵۹۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص425

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر عورت کی نماز کے دوران شوہر نے اس کو شہوت سے چھوا یا اس کا بوسہ لے لیا تو عورت کی نماز فاسد ہو جائے گی، شوہر کو نماز کے دوران ایسا نہیں کرنا چاہئے، عورت ایسی صورت میں دوبارہ نماز پڑھے۔
’’ولو مس المصلیۃ بشہوۃ أو قبلہا بدونہا فإن صلاتہا تفسد‘‘(۲)

(۲)أیضاً: ’’کتاب الصلاۃ: مطلب في التشبہ بأہل الکتاب‘‘: ج ۲، ص: ۳۸۵، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص123

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سنت کے لیے فرض کو نہ توڑے ’’ولو تذکر في الفجر أنہ لم یصل رکعتي الفجر لم یقطع‘‘(۳)

(۳) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۸، زکریا دیوبند۔)
ومن انتہی إلی الإمام في صلاۃ الفجر وہو لم یصل رکعتي الفجر إن خشي أن تفوتہ رکعۃ ویدرک الأخریٰ یصلي رکعتي الفجر عند باب المسجد ثم یدخل لأنہ أمکنہ الجمع بین الفضیلتین وإن خشي فوتہا دخل مع الإمام لأن ثواب الجماعۃ أعظم۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب ادراک الفریضہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۲، دار الکتاب دیوبند)
ولو أدرک الإمام في الرکوع ولم یدر أنہ في الرکوع الأول أو الثاني، یترک السنۃ ویتابع الإمام، کذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب العاشر في ادراک الفریضۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۷۹، زکریا دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص349

نکاح و شادی

Ref. No. 2830/45-4436

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اہل سنت و اہل تشیع کے درمیان عقائد کا اختلاف ہے؛  ان کے عقائد اسلامی عقائد سے متصادم ہیں، اس لئے آپ اپنے گھروالوں کے مشورہ کے مطابق اہل تشیع لڑکے سے اپنا ذہن فارغ کرلیں اور کسی  اہل سنت والجماعت لڑکے سے شادی کا ارادہ کریں۔ گھروالے آپ کا بہت  مناسب  رشتہ تلاش  کریں گے، ان  شاء اللہ ۔ خیال رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رشتے کے انتخاب میں دین داری کو ترجیح دینے کا حکم دیا ہے، ایک مسلمان ہونے کے ناطے آپ کا یہ فریضہ ہے کہ عقائد کے باب میں کسی طرح کا سمجھوتہ نہ کریں اور اپنے ایمان کی خاطر آپ کی یہ مختصر سی قربانی آپ کے مستقبل کے لئے اور آخرت کے لئے بھی ان شاء اللہ بے حد مفید ثابت ہوگی ۔  تاہم اگر وہ لڑکا اپنے باطل عقائد سے توبہ کرکے صحیح العقیدہ مسلمان ہوجائے تو پھر اس سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔

"وبهذا ظهر أن الرافضي إن كان ممن يعتقد الألوهية في علي أو أن جبريل غلط في الوحي أو كان ينكر صحبة أبي بكر الصديق أو يقذف عائشة الصديقة فهو كافر؛ لمخالفة القواطع المعلومة من الدين بالضرورة". (ردالمحتار : ٣ / ٤٦ سعيد) فقط والله أعلم

ومنها أن لا تكون المرأة مشركة إذا كان الرجل مسلما  فلا يجوز للمسلم أن ينكح المشركة لقوله تعالى { ولا تنكحوا المشركات حتى يؤمن } ويجوز أن ينكح الكتابية لقوله عز وجل{والمحصنات من الذين أوتوا الكتاب من قبلكم} والفرق أن الأصل أن لا يجوز للمسلم أن ينكح الكافرة لأن ازدواج الكافرة والمخالطة معها مع قيام العداوة الدينية لا يحصل السكن والمودة الذي هو قوام مقاصد النكاح(بدائع الصنائع،کتاب النکاح،فصل في شرط أن يكون للزوجين،ج:3،ص458)

نعم لا شك في تكفير من قذف السيدة عائشة رضي الله تعالى عنها أو أنكر صحبة الصديق أو اعتقد الألوهية في علي أو أن جبريل غلط في الوحي أو نحو ذلك من الكفر الصريح المخالف للقرآن ۔ ۔ ۔  وأما الرافضي ساب الشيخين بدون قذف للسيدة عائشة ولا إنكار لصحبة الصديق ونحو ذلك فليس بكفر فضلا عن عدم قبول التوبة بل هو ضلال وبدعة۔ (ردالمحتارعلى الدرالمختار،كتاب الجهاد،باب المرتد،مطلب مهم في حكم سب الشيخين،ج:6،ص:378)

لا يجوز نكاح المجوسيات ولا الوثنيات وسواء في ذلك الحرائر منهن والإماء كذا في السراج الوهاج ويدخل في عبدة الأوثان عبدة الشمس والنجوم والصور التي استحسنوها والمعطلة والزنادقة والباطنية والإباحية وكل مذهب يكفر به معتقده كذا في فتح القدير۔(الفتاوی الھندیۃ،الباب الثالث فی بیان المحرمات،القسم السابع المحرمات با لشرک،ج:1،ص282)

ومنها أن يكون للزوجين ملة يقران عليها۔(بدائع الصنائع،کتاب النکاح،فصل في شرط أن يكون للزوجين،ج:3،ص458)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1066

 

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔  نماز سکون اور اطمینان اور سنن و آداب کی رعایت کے ساتھ ہی پڑھنا چاہیے،  نمازیں اگر زیادہ ہیں تو ان کو ہر نماز  کے وقت جتنی بسہولت پڑھی جاسکتی ہوں پڑھے۔ نوافل پڑھنے کے  بجاءے قضاء نمازیں ہی پڑھیں تاکہ جلد پوری ہوسکیں۔  جتنے دنوں کی نمازیں قضاء ہوں ان کی ایک لسٹ بنالیں اور پڑھ کر نشان لگاتے رہیں، اس سے بسہولت حساب کرسکیں گے کہ کتنی نمازیں آپ کے ذمہ باقی ہیں اور کتنے دنوں میں پوری ہون گی۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 38/ 897

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: سیاسی سماجی طور پر ایسی راہ اختیار کی جاسکتی ہے۔ عقیدہ کے لحاظ سے درست نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 39 / 862

 

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔    درست نہیں ہے۔ احتیاط کرنی لازم ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 41/855

الجواب وباللہ التوفیق:

بسم اللہ الرحن الرحیم:۔ بینک کے ذریعہ گاڑی خریدنے کی ایک صورت یہ ہے کہ بینک گاڑی کی قیمت مع منافع ایک ساتھ طے کردے اور پھر گاڑی خرید کراپنے گراہک کو  بیچ دے۔ اگر قسط مقرر کرے تو گراہک وقت  مقررہ پر قسط اداکرتا رہے تاکہ تاخیر کی وجہ سے کوئی سود نہ دینا پڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ علاوہ ازیں اس زمانہ میں ضرورت کے پیش نظر بینک سے لون پر گاڑی خریدنے کی   بھی  گنجائش ہے۔  

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند