Frequently Asked Questions
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 41/1062
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
The hadith is recorded in many books of hadith. Imam Tirmizi classified this narration as Ghareeb (strange). In some versions of Tirmizi this hadith is labeled with Hasan Ghareeb. The Muhaqqiq of Sunan Darimi says it is Hasan hadith. Some Muhadithin remarked it as dhaif (weak) due to a narrator namely Khalid bin Tahman. Nevertheless, this hadith is reliable in the chapter of fazail (virtues).
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
طلاق و تفریق
Ref. No. 1034/41-199
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے۔ بچہ کی ولادت سے پہلے یعنی عدت کے اندر رجوع کرنے گنجائش ہے۔
واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن (القرآن: سورہ طلاق/ آیت نمبر٤)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1246/42-568
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عام دنوں میں اس طرح کے خواب کے بعدسفید پانی دیکھنے سے غسل واجب ہوجاتاہے۔ لیکن حیض کے زمانے میں اس کے لئے الگ سے غسل کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ جب پاک ہوں گی اسی وقت غسل کرنا ہوگا۔ اور دونوں سے پاکی حاصل ہوجائے گی۔
ھل علی المراۃ من غسل اذا ھی احتلمت فقال رسول اللہ ﷺ نعم اذا رات الماء (بخاری شریف ، باب اذا احتلمت المراۃ ، 1/64 رقم: 282)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Miscellaneous
Ref. No. 1488/42-997
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
In the Holy Qur'an, Allah Almighty has clearly stated that the Jews plotted secretly and Allah Almighty also plotted and Allah Almighty is the best of plotters. The Jews wanted to kill Jesus and came to kill him. But they were deluded by resemblance and Jesus was lifted to the heaven alive. They killed that person instead of Jesus; the secret of which was later revealed to them. there is no deception and lies in it.
It is a common thing to take measures on the occasion of war and battle and it is also a requisite of human nature.
Here, in the light of this principle, Allah Almighty has revealed the weakness of human beings and the supremacy of divine power. For your satisfaction, read the Quranic commentary books.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
مساجد و مدارس
Ref. No. 1869/43-1730
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شریعت میں مال پر جرمانہ جائز نہیں، کیونکہ کسی مسلمان کو شرعی وجہ کے بغیر کسی کامال لینا جائز نہیں ہے ۔ ۔ظلم وزیادتی کے ذریعے لئے ہوئے مال کو مدرسہ میں پر خرچ کرنا جائز نہیں ہے۔جس قدر جلد ہوسکے جرمانہ کی رقم ادا کردی جائے، اگر جلد اداکرنا ممکن نہ ہو تو اس کو قسطوار اداکردیاجائے تاکہ حقدار کو اس کا حق مل جائے ۔ اس رقم سے تعمیر شدہ کمرے کو تعلیم کے لئے استعمال کیا جاسکتاہے، بشرطیکہ جس قدر رقم اس میں لگی ہے وہ اس کے مالک کو لوٹادی جائے۔
''وفي شرح الآثار : التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ .والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال''۔ (رد المحتار) (4/ 61)
"مطلب في التعزير بأخذ المال (قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اهـ ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان (قوله وفيه إلخ) أي في البحر، حيث قال: وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي." (رد المحتار) (4/ 61)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 2193/44-2331
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سب کی رضامندی سے پہلی چیٹی آپ کے لئے لینا جائز ہے، البتہ آپ جب خود اس معاملہ میں شریک ہیں تو آپ کے لئے وصولیابی کے نام پر تین ہزار روپئے لینا جائز نہیں ہے۔ وصولیابی کی مزدوری میں اپنی وصولی کی مزدوری بھی شامل ہے، اور اس طرح کا معاملہ شرعا ناجائز ہے۔
ولو دفع غزلًا لآخر لینسجہ لہ بنصفہ أی بنصف الغزل أو استأجر بغلًا لیحمل طعامہ ببعضہ أو ثورًا لیطحن برّہ ببعض دقیقہ فسدت فی الکلّ؛ لأنّہ استأجرہ بجزءٍ من عملہ، والأصل فی ذلک نہیہ - صلّی اللّہ علیہ وسلّم - عن قفیز الطّحّان إلخ (درمختار مع الشامي: ۹/۷۹، باب الإجارة الفاسدة، ط: زکریا، دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق: رمضان المبارک اور جمعہ کے فضائل میں یہ بات واردہے کہ ان ایام میں جن کا انتقال ہو ان سے سوالات نہیں ہوتے؛ لیکن یہ وضاحت نہیں کہ کب تکنہیں ہوتے یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر ہے جس کی وضاحت نہیں ہے۔ البتہ رحمت خداوندی سے امید کی جانی چاہئے کہ قیامت تک سوالات نہیں ہوں گے تاہم غضب الٰہی سے بھی ڈرنا چاہئے کہ کب سوالات ہوجائیں۔
’’عن عبد اللّٰہ بن عمرو، رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ما من مسلم یموت یوم الجمعۃ أو لیلۃ الجمعۃ إلا وقاہ اللّٰہ فتنۃ القبر‘‘(۱)
’’ویرفع عنہ العذاب یوم الجمعۃ وشہر رمضان بحرمۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لأنہ مادام في الأحیاء لا یعذبہم اللّٰہ تعالیٰ بحرمتہ فکذلک في القبر یرفع عنہم العذاب یوم الجمعۃ وکل رمضان بحرمتہ‘‘(۲) قال إبن عابدین والمؤمن المطیع لا یعذب بل لہ ضغطۃ یجد ہول ذلک وخوفہ والعاصي یعذب ویضغط لیکن ینقطع عنہ العذاب یوم الجمعۃ ولیلتہا، ثم لا یعود وإن مات یومہا أو لیلتہا یکون العذاب ساعۃ واحدۃ وضغطۃ القبر ثم یقطع‘‘(۳)
۱) أخرجہ الترمذی، في سننہ، ’’أبواب الجنائز، باب ماجاء فیمن یموت یوم الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۵، رقم: ۱۰۷۴۔
(۲) أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ- شرح الفقہ الأکبر، ’’بحث في أن عذاب القبر حق‘‘ص: ۱۷۲۔
(۳) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب ما اختص بہ یوم الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۴۴۔
ثم ذکر أن من لا یسأل ثمانیۃ! … ومنہم … والمیت یوم الجمعۃ أو لیلتہا۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: ثمانیۃ لا یسألون في قبورہم‘‘: ج ۳، ص: ۸۱)
عذاب القبر حق وسؤال منکر ونکیر وضغطۃ القبر حق، … ویرفع عنہ یوم الجمعۃ وشہر رمضان۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: ما اختص بہ یوم الجمۃ‘‘: ج ۳، ص: ۴۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص240
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:کسی مسلمان سنی حنفی پر بلا تحقیق ایسی تہمت لگانا کہ وہ قادیانی ہوگیا ہے، گویا اس کو کافر کہنا ہے اور حدیث شریف میں ہے کہ اگر کسی کو بلا وجہ کافر کہا؛ جب کہ وہ ایسا نہ ہو، تو وہ کفر اس پر لوٹتا ہے جس نے کہا ہے؛ نیز حدیث میں ہے مسلمان کو گالی دینا فسق ہے۔ الغرض زید اس صورت میں فاسق ہے، اس کو توبہ کرنی چاہئے اور جس پر تہمت لگائی ہے اس سے معافی مانگنی چاہئے۔
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا قال الرجل لأخیہ یا کافر فقد باء بہ أحدہما‘‘(۱) نیز حدیث شریف: ’’سباب المسلم فسوق وقتالہ کفر(۲) وقال اللّٰہ تبارک وتعالی: {ٰٓیأَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی أَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْھُمْ وَلَا نِسَآئٌ مِّنْ نِّسَآئٍ عَسٰٓی أَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْھُنَّج وَلَا تَلْمِزُوْٓا أَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الإِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْإِیْمَانِ ج وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَأُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ ہ۱۱}(۱)۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأدب: باب من کفر أخاہ بغیر تأویل فہو کما قال‘‘: ج ۲، ص: ۹۰۱، رقم: ۶۱۰۳۔
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب خوف المؤمن من أن یحبط عملہ: ج ۱، ص: ۱۲، رقم: ۴۸۔
(۱) (سورۃ الحجرات: ۱۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص289
اسلامی عقائد
Ref. No. 2653/45-4010
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ ضرورت کی وجہ سے یہ انجکشن لیتے ہیں، اگر ڈاکٹر نے مسلسل لینے کے لئے کہا ہے تو لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اگر ضرورت پر یعنی درد ہونے یا نیند نہ آنے پر لینے کو کہا ہے تو اس کے مطابق عمل کریں اور ضرورت نہ ہو تو انجکش نہ لگوائیں۔ لیکن بہرحال آپ نشہ کی عادت میں سے شمار ہوکر کسی طرح کی وعید کے مستحق نہیں ہوں گے ان شاء اللہ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Taharah (Purity) Ablution &Bath
Ref. No. 2698/45-4159
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Filtration of impure water will not purify it, though the water is extra cleansed through this process. So it will not be allowable to perform ablution from this impure water.
والدلیل علی تحریم استعمال الماء الذی فیہ جزء من النجاسۃ وان لم یتغیر طعمہ اولونہ او رائحۃ، قول اللہ تعالیٰ ویحرم علیہم الخبث والنجاسات من الخبائث لانہا محرمۃ‘‘ (شرح مختصر الطحاوی: ج ١، ص: ١٧)
المستقطر من النجاسۃ نجس‘‘ (مراقی الفلاح: ص: ٨٩)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband