نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: واضح رہے کہ ایسے تعویذ اور عملیات جو آیاتِ قرآنیہ اور ادعیہ ماثورہ یا کلماتِ صحیحہ پر مشتمل ہوں ان کو لکھنا، استعمال کرنا اور ان سے علاج کرنا شرعاً درست ہے، سوال میں مذکور امام اگر جائز تعویذات کا کام کرتے ہیں اور غیر محرم عورتوں سے پردہ بھی کرتے ہیں اور دیگر اوصافِ امامت سے متصف ہیں تو ان کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے اور اگر ناجائز تعویذات جن میں کلماتِ شرکیہ یا کلماتِ مجہولہ یا نامعلوم قسم کے منتر لکھے جاتے ہیں اور امام صاحب غیر محرم عورتوں سے پردہ نہیں کرتے تو ایسے امام کی امامت میں نماز پڑھنا کراہت سے خالی نہیں ہے امام صاحب کو چاہیے کہ متہم ہونے سے بچیں اور اپنے کردار پر خاص توجہ دیں اس لیے کہ امامت کا منصب بہت ہی مقدس اور بابرکت ہے جو تقویٰ طہارت اور اعلیٰ اخلاقی رویہ کا تقاضا کرتا ہے وہ عامۃ الناس کے لیے نمونہ اور قائد کی حیثیت رکھتے ہیں اس لیے امام صاحب کو ان سب چیزوں سے بچنا چاہئے جو عوام میں بحث کا موضوع بنتا ہو، تاہم ان کی اقتداء میں ادا کی گئی نماز درست ہو جائے گی اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔
’’عن عوف بن مالک الأشجعي، قال: کنا نرقي في الجاہلیۃ، فقلنا: یا رسول اللّٰہ کیف تری في ذلک؟ فقال: اعرضوا علی رقاکم، لا بأس بالرقی ما لم یکن فیہ شرک‘‘(۱)
’’عن أبي سعید الخدري أن رہطاً من أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم انطلقوا في سفر سافروہا، فنزلوا بحي من أحیاء العرب، فقال بعضہم: إن سیدنا لدغ، فہل عند أحد منکم شيء ینفع صاحبنا؟ فقال رجل من القوم: نعم، واللہ إني لأرقی، ولکن استضفناکم، فأبیتم أن تضیفونا، ما أنا براق حتی تجعلولي جعلاً، فجعلوا لہ قطیعاً من الشاء، فأتاہ، فقرأ علیہ أم الکتاب ویتفل حتی برأ کأنما نشط من عقال، قال: فأوفاہم جعلہم الذي صالحوہم علیہ، فقالوا: اقتسموا، فقال الذي رقی: لاتفعلوا حتی نأتي رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فنستأمرہ، فغدوا علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فذکروا لہ، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من أین علمتم أنہا رقیۃ؟ أحسنتم، اقتسموا واضربوا لي معکم بسہم‘‘(۱)
’’قال العیني: کأنہ أراد المبالغۃ في تصویبہ إیاہم۔ فیہ جواز الرقیۃ، وبہ قالت الأئمۃ الأربعۃ، وفیہ جواز أخذ الأجرۃ۔ قال محمد في الموطأ: لابأس بالرقی بما کان في القرآن وبما کان من ذکر اللّٰہ تعالی، فأما ماکان لایعرف من الکلام فلاینبغي أن یرقی بہ، انتہی۔ وأما ما کان من الآیات القرآنیۃ، والأسماء والصفات الربانیۃ، والدعوات المأثورۃ النبویۃ، فلا بأس، بل یستحب سواء کان تعویذاً أو رقیۃً أو نشرۃً، وأما علی لغۃ العبرانیۃ ونحوہا، فیمتنع؛ لاحتمال الشرک فیہا‘‘(۲)
’’رجل أم قوما وہم لہ کارہون إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ یکرہ لہ ذلک وإن کان ہو أحق بالإمامۃ، لا یکرہ‘‘(۳)

(۱) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الطب:باب کیف الرقی‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۴، رقم: ۳۹۰۰۔
(۲) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’ کتاب الطب والرقی، الفصل الثانی‘‘: ج ۷، ص: ۲۸۸۰، رقم: ۴۵۵۳۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس، في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۴، زکریا دیوبند۔

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص67

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: جس نے اپنی رضا مندی سے نسبندی کرائی ہو اس کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے۔ اس کے پیچھے نماز کراہت ِ تحریمی کے ساتھ ادا ہوگی۔(۱)
جس نے عذر اور مجبوری کی بنا پر کرائی ہو (چونکہ معذور و مجبور کے احکام جدا ہیں) اس کی امامت بلاکراہت درست ہے۔

(۱) ومنہا أي من صفات المؤذن أن یکون تقیًا؛ لقول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الإمام ضامن، والمؤذن مؤتمن، والأمانۃ لایؤدیہا إلا التقي۔ (ومنہا): أن یکون عالمًا بالسنۃ لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یؤمکم أقرؤکم، ویؤذن لکم خیارکم، وخیار الناس العلماء۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في بیان سنن الأذان وصفات المؤذن‘‘: ج۱، ص: ۳۷۲، ط: دارالکتب العلمیۃ)
وینبغي أن یکون المؤذن رجلاً عاقلاً صالحًا تقیًا عالمًا بالسنۃ، کذا في النہایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن‘‘: ج۱، ص: ۱۱۰)
خصاء بني آدم حرام بالاتفاق۔ (أیضاً: ’’کتاب الکراہیۃ، الباب التاسع عشر في الختان والخصاء وحلق‘‘:  ج۵، ص: ۴۱۲)    کذا أجذم ومجبوب وحاقن ومن لہ ید واحدۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’ ‘‘: ج۲، ص: ۲۰۳)
قولہ: وکرہ إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق … أما الکراہۃ فمبنیۃ علی قلۃ الناس في رغبۃ الناس في ہؤلاء فیؤدي إلی تقلیل الجماعۃ المطلوب تکثیرہا تکثیرا للآخر … والفاسق لایہتم لأمر دینہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۶۱۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص197

اجماع و قیاس

Ref. No. 2734/45-4467

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قیاس کے لغوی معنی اندازہ کرنے کے ہیں اور دو چیز کو ایک دوسرے کے برابر کرنے کے بھی۔  قیاس کے اصطلاحی معنی ہیں غیر منصوص واقعہ میں علت کے اشتراک کی وجہ سے نص کا حکم لگانا، یہ  قیاس کہلاتا ہے، قیاس سے متعلق مختلف شرطیں  ہیں،  ان شرطوں کے پائے جانے پر ہی قیاس کرنا درست ہے، شرطوں میں بعض کا تعلق مقیس علیہ یعنی اصل  سےہے ، بعض کا مقیس سے، بعض کا  حکم سےاور بعض کا علت سے۔  ان کی تفصیلات کتابوں میں موجود ہیں۔ قیاس کو ہی قیاس جلی کہتے ہیں اور استحسان کو قیاس خفی کہتے ہیں احناف کے بہت سے مسائل قیاس سے ثابت ہیں اس کی کوئی تحدید وتعیین نہیں ہو سکتی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مفلوج ہوجانا، پاؤں سے معذور ہوجانا، مسلسل بارش ہوتے رہنا، راستہ کا غیر مامون ہونا وغیرہ، ایسے اعذار میں جن کی وجہ سے جماعت ترک کرنے کی گنجائش ہے، اور اس پر مواخذہ نہیں ہوگا؛ بلکہ بعض صورتوں میں جماعت کا ثواب بھی ملے گا۔ (۱)

(۱) في نور الایضاح: وإذا انقطع عن الجماعۃ لعذر من أعذار وکانت نیتہ حضورہا لولا العذر یحصل لہ ثوابہا اہـ والظاہر أن المراد بہ العذر المانع کالمرض والشیخوخۃ والفلج بخلاف نحو المطر والطین وأبرد والعمی۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۹۱، زکریا دیوبند)
 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص392

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:جو سب سے پہلے آئے گا سب سے زیادہ ثواب کا مستحق ہوگا، جیسا کہ یوم جمعہ میں نماز جمعہ کے لیے سب سے پہلے آنے والے کا ثواب حدیث میں ہے۔
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: من اغتسل یوم الجمعۃ غسل الجنابۃ ثم راح فکأنما قرّب بدنۃً ومن راح في الساعۃ الثانیۃ فکأنما قرّب بقرۃ ومن راح في الساعۃ الثالثۃ فکأنما قرّب کبشا أقرن ومن راح في الساعۃ الرابعۃ فکأنما قرب دجاجۃ ومن راح في الساعۃ الخامسۃ فکأنما قرّب بیضۃ فإذا خرج الإمام حضرت الملائکۃ یستمعون الذکر‘‘(۲)

(۲) أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب في الغسل للجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۱، رقم: ۳۵۱، ط: نعیمیہ دیوبند
 وعن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا کان یوم الجمعۃ وقفت الملائکۃ علی باب المسجد یکتبون الأول فالأول الخ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الجمعۃ: باب الاستماع إلی الخطبۃ‘‘: ج۱ ، ص:۱۲۷ ، رقم:۸۸۷)

فتاوى دار العلوم وقف ج 4 ص: 37

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اذان واقامت میں راء کو کھینچ کر پڑھنا غلطی ہے اس کی اصلاح کرنا ضروری ہے۔ تاہم اذان واقامت ادا ہوجائیں گی اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔ (۲)

(۲)وبفتح راء أکبر والعوام یضمونہا روضۃ، لکن في الطلبۃ معنی قولہ علیہ الصلاۃ والسلام: الأذان جزم أي مقطوع المد، فلا تقول: آللہ أکبر؛ لأنہ استفہام وإنہ لحن شرعي، أو مقطوع حرکۃ الآخر للوقف، فلایقف بالرفع؛ لأنہ لحن لغوي فتاوی الصیرفیۃ من الباب السادس والثلاثین۔…(قولہ: وبفتح راء أکبر إلی قولہ ولا ترجیع) نقل أنہ ملحق بخط الشارح علی ہامش نسخۃ الأولی، وفي مجموعۃ الحفید الہروي ما نصہ: فائدۃ: في روضۃ العلماء قال ابن الأنباري: عوام الناس یضمون الراء في أکبر، وکان المبرد یقول الأذان سمع موقوفا في مقاطیعہ، والأصل في أکبر تسکین الراء فحولت حرکۃ ألف اسم اللّٰہ إلي الراء کما في {الم، اللّٰہ} (آل عمران: ۱، ۲) وفي المغني: حرکۃ الراء فتحۃ وإن وصل بنیۃ الوقف، ثم قیل ہي حرکۃ الساکنین ولم یکسر حفظا لتفخیم اللّٰہ، وقیل نقلت حرکۃ الہمزۃ وکل ہذا خروج عن الظاہر؛ والصواب أن حرکۃ الراء ضمۃ إعراب، ولیس لہمزۃ الوصل ثبوت في الدرج فتنقل حرکتہا، وبالجملۃ الفرق بین الأذان۔ وبین الم اللّٰہ ظاہر فإنہ لیس لـ - الم اللّٰہ، حرکۃ إعراب أصلاً، وقد کانت لکلمات الأذان إعرابا إلا أنہ سمعت موقوفۃ۔ اہـ۔
وفي الإمداد: ویجزم الراء أي یسکنہا في التکبیر قال الزیلعي، یعني علی الوقف، لکن في الأذان حقیقۃ، وفي الإقامۃ ینوی الوقف اہـ أي للحدر، وروي ذلک عن النخعي موقوفا علیہ، ومرفوعا إلی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: الأذان جزم، والإقامۃ جزم، والتکبیر جزم)۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في المواضع التي یندب لھا الأذان في غیر الصلاۃ و في الکلام علی حدیث ’’الأذان جزم‘‘: ج ۲، ص: ۵۱، ۵۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص175

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نماز میں نیت کرنا فرض ہے اس کے بغیر نماز درست نہیں ہوگی؛ لیکن امامت کی علاحدہ نیت کرنا ضروری نہیں ہے۔ بغیر امامت کی نیت کے بھی مقتدیوں کی نماز درست ہوگی؛ البتہ نیت کرنے پر اس کو امامت کا ثواب بھی ملے گا ہاں اگر عورت بھی اقتدا کررہی ہو تو عورتوں کی امامت کی نیت کرنا ضروری ہے اگر امام نے عورتوں کی امامت کی نیت نہیں کی تو عورتوں کی نماز درست نہ ہوگی۔

’’والإمام ینوی صلاتہ فقط، ولا یشترط لصحۃ الاقتداء نیۃ إمامۃ المقتدی بل لنیل الثواب عند اقتداء أحد بہ الخ‘‘(۱)
ولا یحتاج الإمام في صحۃ الاقتداء بہ إلی نیۃ الإمامۃ حتی لو شرع علی نیۃ الإنفراد فاقتدی بہ یجوز إلا في حق جواز اقتداء النساء بہ فإن اقتدائہن بہ لایجوز مالم ینو أن یکون إماما لہن أو لمن تبعہ عموما‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، مطلب مضیٰ علیہ سنوات وہو یصلي الظہر قبل وقتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۳، ۱۰۴، ط: مکتبہ زکریا دیوبند۔
(۲) إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملي، شرح منیۃ المصلي، ’’کتاب الصلاۃ: الشرط السادس النیۃ ‘‘: ص:۲۱۹۔
وإن أم نساء فإن اقتدت بہ المرأۃ محاذیۃ لرجل في غیر صلاۃ جنازۃ فلا بد لصحۃ صلاتہا من نیۃ  إمامتہا … وإن لم تقتد محاذیۃ اختلف فیہ فقیل یشترط وقیل لا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، مطلب مضیٰ علیہ سنوات وہو یصلي الظہر قبل وقتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۴، زکریا دیوبند)
ولا یصیر إماماً للنساء إلا بالنیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ: ’’کتاب الصلاۃ:  الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۴، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص233

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فوراً دعا کرنا بھی درست ہے اور اگر آیۃ الکرسی یا کوئی دعا پڑھ لی جائے تو بھی درست ہے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔(۳)
(۳) وأما ماورد من الأحادیث في الأذکار عقیب الصلاۃ فلا دلالۃ فیہ علی الإتیان بہا قبل السنۃ، بل یحمل علی الإتیان بہا بعدہا؛ لأن السنۃ من لواحق الفریضۃ وتوابعہا ومکملاتہا فلم تکن أجنبیۃ عنہا، فما یفعل بعدہا یطلق علیہ أنہ عقیب الفریضۃ۔
وقول عائشۃ بمقدار لایفید أنہ کان یقول ذلک بعینہ، بل کان یقعد بقدر مایسعہ ونحوہ من القول تقریبا، فلا ینافي مافي الصحیحین من أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقول في دبر کل صلاۃ مکتوبۃ، لا إلہ إلا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شيء قدیر، اللّٰہم لامانع لما أعطیت ولا معطي لما منعت ولا ینفع ذا الجد منک الجد، وتمامہ في شرح المنیۃ، وکذا في الفتح۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب ہل یفارقہ الملکان‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۶؛ وابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص443

طلاق و تفریق

Ref. No. 1095 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔  زید نے اپنی بیوی کو جس دن طلاق دی اسی دن سے عدت بھی شروع ہوگئی۔ طلاق سے پہلے الگ رہنے کا اعتبار نہیں۔ عدت بہرحال طلاق کے بعد ہی سے شروع ہوتی ہے۔ اس لئے صورت مسئولہ میں مطلقہ عورت کی عدت ۲۵ جنوری سے ہی شروع ہوئی جوتین  ماہواری کے بعد پوری ہوگی۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اجماع و قیاس
Ref. No. 41/ In the name of Allah the most Gracious the most Merciful The answer to your question is as follows: The detail regarding Hoor you mentioned in the question is correct. The Holy Quran says: the God-fearing will have great achievements, gardens and grapes, and buxom maidens of matching age. (Quran Surah No. 78, verse No. 31, 32, 33). And in a hadith, the Messenger of Allah (saws) said that a martyr will have six blessings from Allah and one of them is that he will be married to seventy-two wives from hoor (beautiful and special girls of paradise). See Faizul Qadeer 4/183, Hadith No. 4963 And Allah knows best Darul Ifta Darul Uloom Waqf Deoband