ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 2193/44-2331

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سب کی رضامندی سے پہلی چیٹی آپ کے لئے لینا جائز ہے، البتہ آپ جب خود اس معاملہ میں شریک ہیں تو آپ کے لئے وصولیابی کے نام پر تین ہزار روپئے لینا جائز نہیں ہے۔ وصولیابی کی مزدوری میں اپنی وصولی کی مزدوری بھی شامل ہے، اور اس طرح کا معاملہ شرعا ناجائز ہے۔

ولو دفع غزلًا لآخر لینسجہ لہ بنصفہ أی بنصف الغزل أو استأجر بغلًا لیحمل طعامہ ببعضہ أو ثورًا لیطحن برّہ ببعض دقیقہ فسدت فی الکلّ؛ لأنّہ استأجرہ بجزءٍ من عملہ، والأصل فی ذلک نہیہ - صلّی اللّہ علیہ وسلّم - عن قفیز الطّحّان إلخ (درمختار مع الشامي: ۹/۷۹، باب الإجارة الفاسدة، ط: زکریا، دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق: رمضان المبارک اور جمعہ کے فضائل میں یہ بات واردہے کہ ان ایام میں جن کا انتقال ہو ان سے سوالات نہیں ہوتے؛ لیکن یہ وضاحت نہیں کہ کب تکنہیں ہوتے یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر ہے جس کی وضاحت نہیں ہے۔ البتہ رحمت خداوندی سے امید کی جانی چاہئے کہ قیامت تک سوالات نہیں ہوں گے تاہم غضب الٰہی سے بھی ڈرنا چاہئے کہ کب سوالات ہوجائیں۔
’’عن عبد اللّٰہ بن عمرو، رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ما من مسلم یموت یوم الجمعۃ أو لیلۃ الجمعۃ إلا وقاہ اللّٰہ فتنۃ القبر‘‘(۱)
’’ویرفع عنہ العذاب یوم الجمعۃ وشہر رمضان بحرمۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لأنہ مادام في الأحیاء لا یعذبہم اللّٰہ تعالیٰ بحرمتہ فکذلک في القبر یرفع عنہم العذاب یوم الجمعۃ وکل رمضان بحرمتہ‘‘(۲) قال إبن عابدین والمؤمن المطیع لا یعذب بل لہ ضغطۃ یجد ہول ذلک وخوفہ والعاصي یعذب ویضغط لیکن ینقطع عنہ العذاب یوم الجمعۃ ولیلتہا، ثم لا یعود وإن مات یومہا أو لیلتہا یکون العذاب ساعۃ واحدۃ وضغطۃ القبر ثم یقطع‘‘(۳)

۱) أخرجہ الترمذی، في سننہ، ’’أبواب الجنائز، باب ماجاء فیمن یموت یوم الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۵، رقم: ۱۰۷۴۔
(۲) أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ- شرح الفقہ الأکبر، ’’بحث في أن عذاب القبر حق‘‘ص: ۱۷۲۔
(۳) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب ما اختص بہ یوم الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۴۴۔
ثم ذکر أن من لا یسأل ثمانیۃ! … ومنہم … والمیت یوم الجمعۃ أو لیلتہا۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: ثمانیۃ لا یسألون في قبورہم‘‘: ج ۳، ص: ۸۱)
عذاب القبر حق وسؤال منکر ونکیر وضغطۃ القبر حق، … ویرفع عنہ یوم الجمعۃ وشہر رمضان۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: ما اختص بہ یوم الجمۃ‘‘: ج ۳، ص: ۴۴)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص240

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کسی مسلمان سنی حنفی پر بلا تحقیق ایسی تہمت لگانا کہ وہ قادیانی ہوگیا ہے، گویا اس کو کافر کہنا ہے اور حدیث شریف میں ہے کہ اگر کسی کو بلا وجہ کافر کہا؛ جب کہ وہ ایسا نہ ہو، تو وہ کفر اس پر لوٹتا ہے جس نے کہا ہے؛ نیز حدیث میں ہے مسلمان کو گالی دینا فسق ہے۔ الغرض زید اس صورت میں فاسق ہے، اس کو توبہ کرنی چاہئے اور جس پر تہمت لگائی ہے اس سے معافی مانگنی چاہئے۔
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا قال الرجل لأخیہ یا کافر فقد باء بہ أحدہما‘‘(۱) نیز حدیث شریف: ’’سباب المسلم فسوق وقتالہ کفر(۲) وقال اللّٰہ تبارک وتعالی: {ٰٓیأَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی أَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْھُمْ وَلَا نِسَآئٌ مِّنْ نِّسَآئٍ عَسٰٓی أَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْھُنَّج وَلَا تَلْمِزُوْٓا أَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْأَلْقَابِ  بِئْسَ الإِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْإِیْمَانِ ج وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَأُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ ہ۱۱}(۱)۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأدب: باب من کفر أخاہ بغیر تأویل فہو کما قال‘‘: ج ۲، ص: ۹۰۱، رقم: ۶۱۰۳۔
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب خوف المؤمن من أن یحبط عملہ: ج ۱، ص: ۱۲، رقم: ۴۸۔
(۱) (سورۃ الحجرات: ۱۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص289

اسلامی عقائد

Ref. No. 2653/45-4010

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ ضرورت کی وجہ سے یہ انجکشن لیتے ہیں، اگر ڈاکٹر نے مسلسل لینے کے لئے کہا ہے تو لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اگر ضرورت پر یعنی درد ہونے یا نیند نہ آنے پر لینے کو کہا ہے تو اس کے مطابق عمل کریں اور ضرورت نہ ہو تو انجکش نہ لگوائیں۔ لیکن بہرحال آپ نشہ کی عادت میں سے شمار ہوکر کسی طرح کی وعید کے مستحق نہیں ہوں گے ان شاء اللہ۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Taharah (Purity) Ablution &Bath

Ref. No. 2698/45-4159

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Filtration of impure water will not purify it, though the water is extra cleansed through this process. So it will not be allowable to perform ablution from this impure water.

والدلیل علی تحریم استعمال الماء الذی فیہ جزء من النجاسۃ وان لم یتغیر طعمہ اولونہ او رائحۃ، قول اللہ تعالیٰ ویحرم علیہم الخبث والنجاسات من الخبائث لانہا محرمۃ‘‘ (شرح مختصر الطحاوی: ج ١، ص: ١٧)

المستقطر من النجاسۃ نجس‘‘ (مراقی الفلاح: ص: ٨٩)

 

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسواک پکڑنے اور کرنے کا مسنون و مستحب طریقہ یہ ہے کہ مسواک کو دائیں ہاتھ سے اِس طرح پکڑا جائے کہ سب سے چھوٹی انگلی کو مسواک کے نیچے رکھ کر اُس کے برابر والی تینوں انگلیوں کو مسواک کے اوپر رکھا جائے اور انگوٹھا مسواک کے سر کی طرف نیچے رکھا جائے۔ جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری میں لکھا ہے: ’’والسنۃ في کیفیۃ أخذہ أن یجعل الخنصر أسفلہ والإبہام أسفل رأسہ وباقي الأصابع فوقہ، کما رواہ ابن مسعود‘‘(۱)
اس کے بعد اوپر والے دانتوں کو دائیں طرف سے تین مرتبہ صاف کرے پھر بائیں طرف والے دانتوں کو، اسی طرح نیچے والے دانتوں کو پہلے دائیں طرف سے تین مرتبہ صاف کرے، اس کے بعد بائیں طرف والے دانتوں کو صاف کرے اور تین مرتبہ پانی میں بھگو کر یہی عمل کیا جائے گا ایسے ہی مسواک سے زبان اور گلے کو صاف کرنا بھی مسنون ہے؛ اس لئے کہ حدیث پاک میں ہے: مسواک کرنا منہ کی صفائی اور اللہ رب العزت کی خوشنودی حاصل کرنے کا سبب ہے۔
’’وأقلہ ثلاث في الأعالی وثلاث في الأسافل (بمیاہ) ثلاثۃ، (و) ندب إمساکہ (بیمناہ) وکونہ لیناً، مستویاً بلا عقد، في غلظ الخنصر وطول شبر۔  ویستاک عرضاً لا طولاً‘‘(۲)
’’(قولہ: في الأعالی) ویبدأ من الجانب الأیمن ثم الأیسر وفي الأسافل کذلک بحر۔ (قولہ: بمیاہ ثلاثۃ) بأن یبلہ في کل مرۃ‘
‘(۱)
نیز مسواک فصاحت میں اضافہ کرتی ہے، مسواک کرنا بیماری کے لیے شفاء ہے۔ صاحب کنز العمال نے مسواک کے فوائد پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:
’’علیکم بالسواک، فنعم الشيء السواک، یذھب بالجفر، وینزع البلغم، ویجلوالبصر ویشد اللثۃ، ویذھب بالبخر، ویصلح المعدۃ، ویزید في درجات الخیر ویحمد الملائکۃ ویرضی الرب، ویسخط الشیطان‘‘(۲)
مسواک کو لازم پکڑو کیونکہ مسواک بہت عمدہ چیز ہے۔ جسم کی بو زائل کرتی ہے، بلغم کو ختم کرتی ہے، بینائی کو تیز کرتی ہے، مسوڑھوں کو مضبوط کرتی ہے، منہ کی بدبو کو زائل کرتی ہے، معدہ کو درست کرتی ہے، نیکی کے درجات میں اضافہ کرتی ہے، ملائکہ کو خوش کرتی ہے، رب تعالیٰ کو راضی کرتی ہے اور شیطان کو ناراض کرتی ہے۔

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الفصل الثاني: في سنن الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۷۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في من منافع السواک‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۴-۲۳۵۔
(۱)  أیضًا
(۲) علاؤ الدین علي بن حسام الدین، کنز العمال في سنن الأقوال والأفعال: ج ۹، ص: ۳۱۴، رقم: ۲۶۱۸۱۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص206

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں نماز کی حالت میں امام صاحب کا کپڑوں کے ساتھ کھیلنا مکروہ تحریمی ہے، البتہ اگر کسی عذر اور ضرورت کی وجہ سے کپڑے درست کرنا پڑے تو اس صورت میں مکروہ نہیں ہے؛ جیسا کہ فقہاء نے لکھا ہے۔
’’کل عمل ہو مفید لا بأس بہ للمصلي‘‘ کہ ہر وہ عمل جو مفید ہو اس کے کرنے میں نمازی کے لیے کوئی حرج نہیں ہے اور جو مفید نہ ہو وہ کام کرنا مکروہ ہے ’’وما لیس بمفید یکرہ‘‘(۱)
اور اگر کپڑے سیدھے کرتے کرتے عملِ کثیر پایا گیا تو نماز فاسد ہوجائے گی، اور اس نماز کا اعادہ واجب ہوگا سجدۂ سہو سے بھی فساد کی تلافی نہ ہوگی۔
نیز عملِ کثیر یہ ہے کہ کوئی ایسا کام کرے کہ دور سے دیکھنے والے کو یقین ہو جائے کہ یہ کام کرنے والا نماز نہیں پڑھ رہا ہے یا جو کام عام طور پر دو ہاتھوں سے کیا جاتا ہے، مثلاً عمامہ باندھنا  ازار بند باندھنا وغیرہ، یہ تمام کام عملِ کثیر شمار ہوتے ہیں ایسے ہی تین حرکاتِ متوالیہ یعنی تین بار ’’سبحان ربي الأعلی‘‘ کہنے کی مقدار وقت میں تین دفعہ ہاتھ کو حرکت دی تو یہ عملِ کثیر ہے  ورنہ قلیل ہے اور عمل کثیر سے نماز فاسد ہو جاتی ہے۔
’’(قولہ: أي رفعہ) أي سواء کان من بین یدیہ أو من خلفہ عند الانحطاط للسجود، بحر۔ وحرر الخیر الرملي ما یفید أن الکراہۃ فیہ تحریمیۃ۔ بین یدیہ أو من خلفہ عند الانحطاط للسجود، بحر۔ وحرر الخیر الرملي ما یفید أن الکراہۃ فیہ تحریمیۃ‘‘(۱)
’’(و) یفسدہا (کل عمل کثیر) لیس من أعمالہا ولا لإصلاحہا، وفیہ أقوال خمسۃ أصحہا (ما لایشک) بسببہ (الناظر) من بعید (في فاعلہ أنہ لیس فیہا) وإن شک أنہ فیہا أم لا فقلیل، (قولہ: لیس من أعمالہا) احتراز عما لو زاد رکوعًا أو سجودًا مثلًا فإنہ عمل کثیر غیر مفسد؛ لکونہ منہا غیر أنہ یرفض؛ لأن ہذا سبیل ما دون الرکعۃ ط قلت: والظاہر الاستغناء عن ہذا القید علی تعریف العمل الکثیر بما ذکرہ المصنف، تأمل۔ (قولہ: ولا لإصلاحہا) خرج بہ الوضوء والمشي لسبق الحدث فإنہما لایفسدانہا ط۔ قلت: وینبغي أن یزاد ولا فعل لعذر احترازًا عن قتل الحیۃ أو العقرب بعمل کثیر علی أحد القولین کما یأتي، إلا أن یقال: إنہ لإصلاحہا؛ لأن ترکہ قد یؤدي إلی إفسادہا، تأمل (قولہ: وفیہ أقوال خمسۃ أصحہا ما لایشک إلخ) صحّحہ في البدائع، وتابعہ الزیلعي والولوالجي، وفي المحیط: أنہ الأحسن، وقال الصدر الشہید: إنہ الصواب۔ وفي الخانیۃ والخلاصۃ: إنہ اختیار العامۃ، وقال في المحیط وغیرہ: رواہ الثلجي عن أصحابنا، حلیۃ۔ القول الثاني: إن ما یعمل عادۃً بالیدین کثیر وإن عمل بواحدۃ کالتعمیم وشدّ السراویل وما عمل بواحدۃ قلیل وإن عمل بہما کحلّ السراویل ولبس القلنسوۃ ونزعہا إلا إذا تکرر ثلاثًا متوالیۃً، وضعّفہ في البحر بأنہ قاصر عن إفادۃ ما لایعمل بالید کالمضغ والتقبیل۔ الثالث: الحرکات الثلاث المتوالیۃ کثیر وإلا فقلیل۔ الرابع: ما یکون مقصودًا للفاعل بأن یفرد لہ مجلسًا علی حدۃ۔ قال في التتارخانیۃ: وہذا القائل: یستدل بامرأۃ صلت فلمسہا زوجہا أو قبلہا بشہوۃ أو مص صبي ثدیہا وخرج اللبن: تفسد صلاتہا، الخامس: التفویض إلی رأی المصلي، فإن استکثرہ فکثیر وإلا فقلیل‘‘(۲)
’’یکرہ للمصلي أن یعبث بثوبہ أو لحیتہ أو جسدہ وإن یکف ثوبہ بأن یرفع ثوبہ من بین یدیہ أو من خلفہ إذا أراد السجود کذا في معراج الدرایۃ‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ وما لا یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۴۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، مطلب: في الکراہۃ التحریمیۃ والتنزیہیۃ‘‘: ج۲، ص: ۴۰۶۔
(۲) أیضًا: مطلب في التشبہ بأہل الکتاب‘‘: ج۲، ص: ۳۸۴، ۳۸۵۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ وما لا یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۴۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص69

Usury / Insurance

Ref. No. 2735/45-4265

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

India, under the current circumstances, is the country of peace and harmony. It cannot be called Dar-ul-Harb and the laws of Dar-ul-Harb will not apply here. However, the issue of usurious transactions in Dar al-Harb is different. According to Imam Abu Yusuf, it is absolutely illegitimate and according to Imam Abu Hanifa and Imam Muhammad, it is permissible with a few conditions. Prohibition is prescribed in the Qur'anic verses without any condition; Therefore, here in Hanafiate, the school of Jumhoor has priority and there is a fatwa on it. Therefore interest based transactions cannot be justified in India.

الفروق للقرافی میں ہے: فان اختلف العلماء فی فعل هل هو مباح او حرام فالورع الترک۔ (الفرق السادس والعشرون والمئتان من الفروق، ج: ۴، ص: ۲۷۔ ط:عالم الکتب)

الاشباہ والنظائر میں ہے: اذا تعارض الدلیلان احدهما یقتضی التحریم والاخر الاباحة قدم التحریم۔ (القاعدۃ الثانیۃ من الفن الثانی، ص: ۱۰۹،ط: قدیمی)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں ہر عاقل، بالغ مرد پر جسے مسجد تک جانے میں مشقت نہ ہو جماعت سے نماز پڑھنا سنت مؤکدہ یعنی واجب کے قریب ہے۔ اگر دو آدمی بھی ہوں تو بھی جماعت قائم کی جائے۔ ان میں سے ایک امام بنے اور دوسرا مقتدی، حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’دو یا دو کے اوپر جماعت ہے، جیسا کہ امام ابن ماجہ رحمہ اللہ کی روایت اور علامہ حصکفیؒ کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا سنت مؤکدہ ہے اور جماعت کے لیے دو یا دو سے زائد پر جماعت کا اطلاق ہوتا ہے:‘‘
’’إثنان فما فوقہما جماعۃ‘‘(۱)
’’والجماعۃ سنۃ مؤکدۃ للرجال … وأقلھا إثنان، … وقیل: واجبۃ و علیہ العامۃ أي: عامۃ مشایخنا وبہ جزم فی التحفۃ وغیرھا، قال في البحر: وھو الراجح عند أھل المذھب، فتسن أو تجب ثمرتہ تظھر في الإثم بترکھا علی الرجال العقلاء البالغین الأحرار القادرین علی الصلاۃ بالجماعۃ من غیر حرج‘‘(۲)
باجماعت نماز کی فضیلت کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے جماعت سے نماز ادا کرنا تنہا نماز ادا کرنے پر ستائیس درجے فضیلت رکھتا ہے۔
’’صلاۃ الجماعۃ تفضل صلاۃ الفذ بسبع وعشرین درجۃ‘‘(۳)
بعض احادیث میں بغیر عذر شرعی باجماعت نماز نہ پڑھنے کو منافقت کی نشانی قرار دیا گیا ہے اور ایسے لوگوں کے لیے سخت وعید ہے۔ امام بخاری نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے کہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! میں نے ارادہ کیا کہ لکڑیاں اکٹھی کرنے کا حکم دوں تو وہ اکٹھی کی جائیں، پھر نماز کا حکم دوں تو اس کے لیے اذان کہی جائے۔ پھر ایک آدمی کو حکم دوں کہ لوگوں کی امامت کرے پھر ایسے لوگوں کی طرف نکل جاؤں (جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے) اور ان کے گھروں کو آگ لگا دوں۔ قسم اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اگر ان میں سے کوئی جانتا کہ اسے موٹی ہڈی یا دو عمدہ کھریاں ملیں گی تو ضرور نماز عشاء میں شامل ہوتا۔
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم قال: والذي نفسي بیدہ، لقد ہممت أن آمر بحطب فیحطب، ثم آمر بالصلاۃ فیؤذن لہا، ثمّ آمر رجلا فیؤم الناس، ثم أخالف إلی رجال فأحرق علیہم بیوتہم، والذي نفسي بیدہ، لو یعلم أحدہم: أنہ یجد عرقا سمینا، أو مرماتین حسنتین، لشہد العشاء‘‘(۱)

(۱) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا: باب الإثنان جماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۲، رقم: ۹۷۲۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۷، ۲۹۱، ط: مکتبۃ زکریا دیوبند۔
(۳) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب فضل صلاۃ الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۱، رقم: ۶۱۹۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الجماعۃ والإمامۃ: باب وجوب صلاۃ الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۱، رقم: ۶۱۸۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص393

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نماز دین اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کے بعد اہم ترین رکن ہے اور اہلِ علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ نماز کا حکم ابتدائِ اسلام میں آگیا تھا، تاہم پنج وقتہ نماز کی فرضیت معراج کے موقع پر ہوئی، قرآن وسنت اور اجماع امت کی رو سے نماز کی ادائیگی کے پانچ اوقات ہیں، واقعہ معراج سے قبل بعض حضرات کا قول ہے کہ صبح وشام دو وقت اور دو رکعت والی نمازیں تھیں۔
رہی بات کہ ابتداء اسلام سے قبل نماز کا طریقہ کیا تھا؟ اس حوالے سے جمہور کی رائے یہی ہے کہ موجودہ نماز کا ہی طریقہ تھا، تاہم رکعات کی تعداد میں فرق تھا، اور پانچ نمازوں کے بجائے ایک صبح کی نماز (جو طلوعِ شمس سے قبل ادا کی جاتی تھی) اور دوسری شام کی نماز جو غروب کے آس پاس ادا کی جاتی تھی۔ بعض اہلِ علم کی رائے یہ ہے کہ معراج سے قبل نماز کا مروجہ طریقہ نہیں تھا، بلکہ دعا کی ایک شکل تھی، جسے صلاۃ کا نام دیا گیا تھا، تاہم اس رائے کو جمہور محققین نے احادیثِ کثیرہ کی بنا پر رد کیا ہے؛ راجح وہی ہے جو جمہور کی رائے ہے۔
مزید تفصلات ابن رجب کی فتح الباری شرح البخاری میں دیکھی جا سکتی ہیں:
’’وقال قتادۃ: کان بدء الصلاۃ رکعتین بالغداۃ ورکعتین بالعشی۔ وإنما أراد ہؤلاء: أن ذلک کان فرضا قبل افتراض الصلوات الخمس لیلۃ الإسراء الخ‘‘(۱)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کا آغاز جس روایت سے کیا ہے، جو حدیث ِ ہرقل کے نام سے مشہور ہے، اس میں ہے کہ جب ہرقل بادشاہ نے ابو سفیان (جو اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے) سے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں جواب میں جو امور بتلا ئے ان میں سے ایک نماز کا بھی تذکرہ تھا:
فقال لہ: (ماذا یأمرکم؟) قلت: یقول: اعبدوا اللّٰہ وحدہ ولاتشرکوا بہ شیئا واترکوا ما یقول آباؤکم؛ ویأمرنا بالصلاۃ  والصدق والعفاف والصلۃ۔(۲)
’’قال الحافظ ابن رجب رحمہ اللّٰہ: وہو یدل علی أن النبي کان أہم ما یأمر بہ أمتہ الصلاۃ، کما یأمرہم بالصدق والعفاف، واشتُہر ذلک حتی شاع بین الملل المخالفین لہ في دینہ، فإن أبا سفیان کان حین قال ذلک مشرکاً، وکان ہرقل نصرانیاً۔ ولم یزل منذ بُعث یأمر بالصدق والعفاف، ولم یزل یصلي أیضاً قبل أن تفرض الصلاۃ۔ انتہی‘‘(۳)
’’قال الحافظ ابن حجر رحمہ اللّٰہ: ذہب جماعۃ إلی أنہ لم یکن قبل الإسراء صلاۃ مفروضۃ، إلا ما وقع الأمر بہ من صلاۃ اللیل من غیر تحدید، وذہب الحربي إلی أن الصلاۃ کانت مفروضۃً رکعتین بالغداۃ ورکعتین بالعشي، وذکر الشافعي عن بعض أہل العلم أن صلاۃ اللیل کانت مفروضۃً، ثم نسخت بقولہ تعالی: {فَاقْرَأُوا مَا تَیَسَّرَ مِنہَ} (سورۃ المزمل: ۲۰) فصار الفرض قیام بعض اللیل، ثم نسخ ذلک بالصلوات الخمس)۔ انتہی‘‘(۴)
’’أصل وجوب الصلاۃ کان في مکۃ في أول الإسلام؛ لوجود الآیات المکیۃ التي نـزلت في بدایۃ الرسالۃ تحث علیہا۔ وأما الصلوات الخمس بالصورۃ المعہودۃ فإنہا فرضت لیلۃ الإسراء والمعراج۔ قال الإمام الشافعي رحمہ اللّٰہ: سمعت من أثق بخبرہ وعلمہ یذکر أن اللّٰہ أنزل فرضا في الصلاۃ، ثم نسخہ بفرض غیرہ، ثم نسخ الثاني بالفرض في الصلوات الخمس۔ قال الشافعي: کأنہ یعني قول اللّٰہ عز وجل: {ٰٓیاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُہلا ۱   قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلاً ہلا ۲   نِّصْفَہٗٓ اَوِانْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلاًہلا ۳ } (المزمل:۱-۳) ثم نسخہا في السورۃ معہ بقول اللّٰہ جل ثناؤہ: {إنَّ رَبَّکَ یَعْلَمُ أَنَّکَ تَقُومُ أَدْنَی من ثُلُثَیْ اللَّیْلِ وَنِصْفَہُ} (المزمل:۲۰) إلَی قَوْلِہِ: {فَاقْرَئُ وا ما تَیَسَّرَ من الْقُرْآنِ}، فنسخ قیام اللیل أو نصفہ أو أقل أو أکثر بما تیسر۔ وما أشبہ ما قال بما قال۔ انتہی‘‘(۱)

اسی طرح پنج گانہ نماز کی فضیلت کے متعلق حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے فضائل ومحامد کو بیان کرتے ہوئے اسے برائیوں اور صغیرہ گناہوں سے رہائی حاصل کرنے کا انتہائی موثر ذریعہ قرار دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین پر نماز کی افادیت ایک بلیغ تمثیل کے ذریعے واضح کردی جسے حدیث مبارکہ کے الفاظ میں یوں بیان کیا گیا ہے۔
کیا تم دیکھتے ہو کہ اگر تم میں سے کسی کے دروازے کے سامنے نہر (بہہ رہی) ہو جس میں وہ ہر روز پانچ مرتبہ غسل کرے تو کیا اس کے جسم پر کچھ میل کچیل باقی رہ جائے گا انہوں نے عرض کیا اس پر کچھ میل باقی نہ رہے گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی پانچ نمازوں کی مثال ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔
’’أرأیتم لو أن نہراً بباب أحدکم یغتسل فیہ کل یوم خمساً ما تقول ذلک یبقی من درنہ قالوا لا یبقی من درنہ شیئاً قال فذلک مثل الصلوات الخمس یمحوا اللّٰہ بہا الخطایا‘‘(۲)
قرآنِ کریم میں ہے:
{وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَيِ النَّھَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِط اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِط}(۱)
اور آپ دن کے دونوں کناروں میں اور رات کے کچھ حصوں میں نماز قائم کیجئے بے شک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’تم گناہ کرتے رہتے ہو اور جب صبح کی نماز پڑھتے ہو تو وہ انہیں دھو دیتی ہے، پھر گناہ کرتے رہتے ہو اور جب نمازِ ظہر پڑھتے ہو تو وہ انہیں دھو دیتی ہے، پھر گناہ کرتے ہو اور جب نمازِ عصر پڑھتے ہو تو وہ انہیں دھو دیتی ہے، پھر گناہ کرتے رہتے ہو اور جب نمازِ مغرب پڑھتے ہو تو وہ انہیں دھو دیتی ہے، پھر گناہ کرتے رہتے ہو جب نمازِ عشاء پڑھتے ہو تو وہ انہیں دھو ڈالتی ہے، پھر تم سو جاتے ہو اور بیدار ہونے تک تمہارا کوئی گناہ نہیں لکھا جاتا۔
’’عن عبد اللّٰہ بن مسعود عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: تحترقون تحترقون، فإذا صلیتم الفجر غسلتہا، ثم تحترقون تحترقون، فإذا صلیتم الظہر غسلتہا، ثم تحترقون تحترقون فإذا صلیتم العصر غسلتہا، ثم تحترقون تحترقون فإذا صلیتم المغرب غسلتہا ثم تحترقون تحترقون فإذا صلیتم العشاء غسلتہا، ثم تنامون، فلا یکتب علیکم شيء حتی تستیقظوا، لم یروہ عن حماد بن سلمۃ مرفوعا إلا اللاحقي‘‘(۲)
(۱) ابن رجب، فتح الباري شرح البخاري، ’’کتاب الصلاۃ: باب کیف فرضت الصلاۃ لیلۃ الإسراء‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۴۔(شاملہ)
(۲) أخرجہ البخاري،  في صحیحہ، ’’باب کیف کان بدء الوحي إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۴، رقم: ۷۔
(۳) ابن رجب، فتح الباري شرح البخاري، ’’کتاب الصلاۃ: باب کیف فرضت الصلاۃ لیلۃ الإسراء‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۱۔(شاملہ)
(۴) ابن رجب، فتح الباري شرح البخاري،’’کتاب الصلوۃ: باب وجوب الصلاۃ في الثیاب‘‘: ج ۱، ص: ۵۵۴، رقم: ۳۵۰۔(شاملہ)
(۱) الإمام الشافعي، الأم‘: ج ۱، ص:۱۵۵؛ وأیضاً:الموسوعۃ الفقہیۃ: ج ۲۷، ص: ۵۲، کویت
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلوۃ: بــاب الصلوٰۃ الخمـس کفارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۷، رقم: ۵۰۵؛ وأخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلوۃ: باب المشي إلی الصلوٰۃ تمحی بہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۷، رقم: ۶۶۷۔

(۱)  سورۂ ہود: ۱۱۴۔
(۲)  أخرجہ الطبراني، في المعجم الصغیر، ’’من اسمہ أحمد‘‘: ج۱، ص: ۹۱، رقم:۱۲۱۔

فتاوى دار العلوم وقف ج 4 ص: 38 تا 41