متفرقات

Ref. No. 2739/45-4262

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بلا وضو قرآن پڑھنے پر ایک ہی نیکی ملتی ہے، یہ مضمون کسی حدیث میں میری نظر سے نہیں گزرا، اس لئے عام قاعدہ کے مطابق وضو کے ساتھ قرآن کی تلاوت اور بغیر وضو کی تلاوت میں ثواب کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہوگا تاہم وضو کے ساتھ قرآن کو چھونے پر اجروثواب زیادہ ہوگا۔

 ویحرم بہ أی بالأکبر وبالأصغر مس مصحف إلا بغلاف متجاف (در مختار:1/315) ولا تکرہ قراء ة القرآن للمحدث ظاہراً أی علی ظہر لسانہ حفظًا بالإجماع وروی أصحاب السنن عن علی رضی اللہ عنہ أن رسول اللہ صلی ا للہ علیہ وسلم کان یخرج من الخلاء فیقرئنا ویأکل معنا اللحم وکان لا یحجبہ أو لا یحجزہ عن قراء ة شیء لیس الجنابة (کبیری: ۵۲)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: (۱) عیدگاہ کی مسجد میں فرض نماز ادا کی جاسکتی ہے اور احکام کے لحاظ سے عیدگاہ بھی مسجد کے حکم میں ہے۔(۱)
(۲) نماز کی جگہ اور سامنے اگر قبروں کے نشانات نہیں ہیں جگہ خالی اور برابر ہے تو ایسی جگہ نماز پڑھی جاسکتی ہے۔(۲)
(۳) جس شخص نے اپنی زندگی میں کوئی بھی نماز نہیں پڑھی ہے، لیکن وہ خدا اور رسول پر ایمان رکھتا ہے تو وہ شخص بھی مسلمان ہے اور اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔(۱)
(۱)  وفي الخلاصۃ والخانیۃ السنۃ أن یخرج الإمام إلی الجبانۃ، ویستخلف غیرہ لیصلي في المصر بالضعفاء بناء علی أن صلاۃ العیدین في موضعین جائزۃ بالاتفاق، وإن لم یستخلف فلہ ذلک۔ اہـ نوح۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب العیدین‘‘: ج۳، ص: ۴۹)
الخروج إلی الجبانۃ في صلاۃ العید سنۃ وإن کان یسعہم المسجد الجامع، علی ہذا عامۃ المشایخ وہو الصحیح، ہکذا في المضمرات۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع عشر في صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۱)
لا تکرہ في مسجد أعد لہا وکذا في مدرسۃ ومصلی عید لأنہ لیس لہا حکم المسجد في الأصح إلا في جواز الاقتداء وإن لم تتصل الصفوف۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب أحکام الجنائز، فصل السلطان أحق بصلاتہ‘‘: ص: ۵۹۵)
و أما المتخذ لصلاۃ جنازۃ أو عید فہو مسجد في حق جواز الاقتداء لا في حق غیرہ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب البدعۃ، مطلب: البدعۃ خمسۃ أقسام‘‘: ج۲، ص: ۲۹۹)
واختلفوا أیضا في مصلی العیدین أنہ ہل ہو مسجد والصحیح أنہ مسجد في حق جواز الاقتداء، وإن لم تتصل الصفوف؛ لأنہ أعد للصلاۃ حقیقۃ لا في حرمۃ دخول الجنب والحائض۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجنائز، فصل السلطان أحق بصلاتہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۸)
(۲)   ولا بأس بالصلاۃ فیہا إذا کان فیہا موضع أعد للصلاۃ ولیس فیہ قبر ولا نجاسۃ کما في الخانیۃ ولا قبلتہ إلی قبر حلیۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب تکرہ الصلاۃ في الکنیسۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۱)
ویکرہ أن تکون قبلۃ المسجد إلی المخرج أو إلی القبر لأن فیہ ترک تعظیم المسجد، وفي الخلاصۃ ہذا إذا لم یکن بین یدي المصلي وبین ہذا الموضع حائل کالحائط وإن کان حائطاً لا یکرہ۔ (إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري، ’’کتاب الصلاۃ، مکروہات الصلاۃ‘‘: ص: ۳۵۳)
(۱) (وہي فرض علی کل مسلم مات خلا) أربعۃ: (بغاۃ، وقطاع طریق) … (وکذا) أہل عصبۃ و (مکابر في مصر لیلا بسلاح وخناق) خنق غیر مرۃ فحکمہم کالبغاۃ۔ (من قتل نفسہ) ولو (عمدا یغسل ویصلی علیہ) بہ یفتی وإن کان أعظم وزرا من قاتل غیرہ … (لا) یصلی علی (قاتل أحد أبویہ) إہانۃ لہٗ، وألحقہ في النہر بالبغاۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجنازۃ، مطلب ہل یسقط فرض الکفایۃ بفعل الصبي‘‘: ج ۳، ص: ۱۰۷ تا ۱۰۹)
وشرطہا إسلام  المیت وطہارتہ ما دام الغسل ممکنا وإن لم یمکن بأن دفن قبل الغسل ولم یمکن إخراجہ إلا بالنبش تجوز الصلاۃ علی قبرہ للضرورۃ ولو صلی علیہ قبل الغسل ثم دفن تعاد الصلاۃ لفساد الأولی ہکذا في التبیین وطہارۃ مکان المیت لیست بشرط ہکذا في المضمرات ویصلی علی کل مسلم مات بعد الولادۃ صغیرا کان أو کبیرا ذکرا کان أو أنثی حرا کان أو عبدا إلا البغاۃ وقطاع الطریق ومن بمثل حالہم۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الحادي والعشرون في الجنائز، الفصل الخامس في الصلاۃ علی المیت‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۴)

فتاوى دار العلوم وقف ج 4 ص:43 و45

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: اگر وقت میں گنجائش ہو تو نیت توڑ کر پھر سے سنتوں کی نیت باندھ لے اور تکبیر تحریمہ دو بارہ سنت کی نیت سے کہے۔نیز فرض کی نیت سے بھی سنت ادا ہوجاتی ہے۔(۱)

(۱) فیجوز بناء النفل علی النفل وعلی الفرض، وإن کرہ لا فرض علی فرض أو نفل علی الظاہر، ولاتصالہا بالأرکان روعی لہا الشروط، وقد منعہ الزیلعي ثم رجع إلیہ بقولہ: ولئن سلم: نعم في التلویح تقدیم المنع علی التسلیم أولی۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب قدیطلق الفرض علی ما یقابل الرکن‘‘: ج۲، ص: ۱۲۸، ۱۲۹)
ثم أنہ إن جمع بین عبادات الوسائل فی النیۃ صح کما لو اغتسل لجنابۃ وعید وجمعۃ إجتمعت ونال ثواب الکل، وکما لو توضأ لنوم وبعد غیبۃ وأکل لحم جزور، وکذا یصح لو نوی نافلتین أو أکثر کما لو نوی تحیۃ مسجد وسنۃ وضوء وضحی وکسوف، والمعتمد أن العبادات ذات الأفعال یکتفی بالنیۃ في أولہا ولا یحتاج إلیہا فی کل جزء إکتفاء بإنسحابہا علیہا، ویشترط لہا الإسلام والتمییز والعلم بالمنوی وأن لا یأتی بمناف بین النیۃ والمنوی۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ وأرکانہا‘‘ ج۱، ص: ۲۱۶، ط: دارالکتب العلمیۃ)
وأما إذا نوی نافلتین کما إذا نوی برکعتی الفجر التحیۃ والسنۃ أجزأت عنہما، وفي حاشیتہ: لأن التحیۃ والسنۃ قریبان، إحدہما: وہي التحیۃ تحصل بلا قصد، فلا یمنع حصولہا قصد غیرہا، وکذا لو نوی الفرض والتحیۃ کما في فتح القدیر۔ قیل: ولو تعرض المصنف لنفل مختلف السبب لکان أولی کمن أخر التراویح إلی آخر اللیل، ونوی التراویح وقیام آخر اللیل لأن سبب التراویح غیر سبب قیام اللیل۔ (ابن نجیم، الأشباہ والنظائر، ’’الجمع بین عبادتین بنیۃ واحدۃ‘‘: القاعدۃ الأولی: الأمور بمقاصدہا‘‘: ج۱، ص: ۱۴۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص303

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فجر و عصر میں تو تسبیح فاطمی منقول و معمول ہے ۔ پانچوں نمازوں کے بعد اگر کوئی پڑھے تو اس پر بھی ثواب ہے شرط یہ ہے کہ اس کو لازم نہ سمجھا جائے۔
’’عن کعب بن عجرۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال معقبات لا یخیب قائلہن، أو فاعلہن، دبر کل صلاۃ مکتوبۃ ثلاث وثلاثون تسبیحۃ وثلاث وثلاثون تحمیدۃ وأربع وثلثون تکبیرۃ‘‘(۱)
(۱) أخرجہ مسلم  في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ وبیان صفتہ‘‘: ج ۱، ص:۲۱۸،رقم: ۵۹۶۔
وأما ماورد من الأحادیث في الأذکار عقیب الصلاۃ فلا دلالۃ فیہ علی الإتیان بہا قبل السنۃ، بل یحمل علی الإتیان بہا بعدہا؛ لأن السنۃ من لواحق الفریضۃ وتوابعہا ومکملاتہا فلم تکن أجنبیۃ عنہا، فما یفعل بعدہا یطلق علیہ أنہ عقیب الفریضۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب ہل یفارقہ الملکان‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص446

 

نکاح و شادی

Ref. No. 2799/45-4380

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میاں بیوی کے لئے ہر طرح کے کِس کی اجازت ہے، اس میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے، البتہ تنہائی میں یہ امور انجام دئے جائیں، عام جگہوں پر ایسا کرنا بے حیائی کی بات ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1099 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔  ایسی کوئی روایت ہماری نظر سے نہیں گذری، البتہ حدیث میں یہ ہے کہ اللہ کے راستہ میں ایک نیکی کا ثواب سات لاکھ  تک ہوجاتاہے، تبلیغی جماعت میں جانا نیکی اور کار ثواب ہے، اور جماعت میں نکلنے والابھی اللہ کے راستے میں ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اس کو اس حدیث کی رو سے سات لاکھ اور اس سے بھی زیادہ ثواب مل سکتا ہے۔ اللہ تعالی جس قدر چاہیں اس کے اخلاص کے مطابق اس کا ثواب بڑھاسکتے ہیں۔واللہ یضاعف لمن یشاء ﴿القرآن﴾۔لیکن اللہ کے راستہ سے مراد صرف جماعت ہی نہیں  ہے، جہاد وتعلیم وتعلم وغیرہ کےلئے نکلنا بھی اللہ ہی کے راستہ میں شمار ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 38/ 926

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: طلاق بائن واقع ہوگئی ۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 40/970

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہوم لون لے کر اپنی پریشانی میں اضافہ نہ کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ زیادہ کی لالچ میں اصل سرمایہ بھی ہاتھ سے نکل جائے۔ اخراجات کم کیجئے اور ذریعہ آمدنی بدل کر کوشش کیجئے اور دعاء کیجئے کہ اللہ تعالی آسانی پیدافرمائیں۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

آداب و اخلاق

Ref. No. 1369/42-787

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  یہ سب عرف میں رائج ہیں اور پسند و ناپسند ظاہر کر نے کے مختصر ترین طریقے ہیں؛ اشارہ کی زبان ہیں۔ اشارہ کی زبان سیکھنے سے حاصل ہوتی ہے اور اس کے لئے اہل زبان کی طرف سے کچھ علامات متعین کردی جاتی ہیں تاکہ دیگر لوگوں کو اس حوالہ سے آسانی پیدا ہو۔ ان علامات کو استعمال کرنے میں شرعا کوئی قباحت نہیں ہے۔

وكنت أرى بعض العَجَم- كعبد الحكيم على (العقائد النسفية) (1) يكتب"اهـ" بدل "إِلخ"، مع أن "اهـ" عندنا علامةٌ على انتهاء الكلام، ولا مشاحة في الاصطلاح. (المطالع النصریۃ للمطابع المصریۃ فی الاصول، الرموز عن اسماء المشھور 1/398)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1592/43-1138

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ "زمل" لے معنی بوجھ کے ہیں ، یہ نام مناسب نہیں ہے۔  "اِیزِل" (الف اور زاء کے  نیچے زیر کے ساتھ) کے معنی ہیں:  تصویر بنانے میں استعمال ہونے والی لکڑی۔ یہ نام مناسب نہیں ہے۔''آیت '' کے معنی ہیں :علامت اور نشانی ۔ہمارے عرف میں جب آیت بولا جائے تو اس سے قرآن کی آیت مراد ہوتی ہے اور اسی کی طرف ذہن منتقل ہوتاہے۔گوکہ آیت  نام رکھنا جائز ہے، لیکن مناسب نہیں۔ "یشفع" کامعنی ہے: وہ سفارش کرتا ہے۔ یہ نام مناسب نہیں ہے، شفیعۃ(سفارش کرنےوالی) مناسب نام ہے۔  "اسراء" کے معنی : رات کے وقت چلنا، یہ نام لڑکی کے لیے رکھنا درست ہے۔  "یسری"  کا معنی ہے:آسانی ،  سہولت اور مالی وسعت۔ یہ لڑکی کا نام رکھا جاسکتا ہے،  قرآن عظیم میں یہ لفظ  جنت کے لیے استعمال ہوا ہے ۔ یسرا (الف کے  ساتھ)  مناسب  نام نہیں ہے۔'سحر'' کا معنی ہے: طلوع آفتاب سے کچھ پہلے کا وقت۔ اور "نورِسحر" کا معنی ہوگا: طلوع آفتاب سے پہلے کی ہلکی روشنی۔ یہ نام رکھنا جائز ہے۔ "فجر" کا معنی ہے: رات کی تاریکی چھٹنا، صبح کی روشنی۔  مذکورہ نام رکھنا جائز ہے، البتہ بچے  اور بچیوں کے نام انبیاء علیہم السلام یا صحابہ  و صحابیات رضوان اللہ علیہم  وعلیہن اجمعین کے اسماء میں سے کسی کے نام پر رکھنا چاہئے۔  اس لئے کوئی دوسرا نام تجویز کریں جو اچھے معنی والا ہو یا کسی صحابی و صحابیہ کے نام پر ہو۔

وقال أبو عبيد عن أصحابه سريت بالليل وأسريت فجاء باللغتين وقال أبو إسحق في قوله عز وجل سبحان الذي أسرى بعبده قال معناه سير عبده يقال أسريت وسريت إذا سرت ليلا (لسان العرب  (14 / 377)

"الفَجْرُ : انكشافُ ظلمةِ الليل عن نور الصُّبْح. وهما فَجْرَانِ: أَحدهما: المستطيلُ، وهو الكاذبُ: والآخر: المستطيرُ المنتشرُ الأُفُقِ، وهو الصادقُ. يقال: طريقٌ فَجْرٌ: واضحٌ." (معجم الوسيط)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند