بدعات و منکرات
Ref. No. 38/ 936 الجواب وباللہ التوفیق بسم اللہ الرحمن الرحیم: اس کی گنجائش ہے، بشرطیکہ ان کے مذہبی شعار میں شرکت نہ ہو۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 41/1027

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ضرار نام رکھنا درست نہیں ہے، اس لئے کہ اس کا معنی ہے نقصان پہنچانے والا، اور نام کے معانی کے اثرات  انسان کی ذات پر پڑتے ہیں۔ اس لئے کوئی دوسرا نام رکھ لینا چاہئے جیسے عبد اللہ ، عبدالجبار ،زبیر وغیرہ۔ ہاں، اگر جرّار جیم سے ہو تو معنی میں کوئی خرابی نہیں ہے، جرار کے معنی ہیں کھینچنے والا، بہادر، دلیر۔ اس لئے یہ نام رکھا جاسکتاہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 926/41-47B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  والد صاحب نے بوقت وفات جو جائداد چھوڑی   وہی ترکہ ہے، اور تقسیم میراث سے قبل بھائیوں نے کاروبار کرکے جو منافع کمائے اس پر انہیں کا حق ہے، دیگر ورثہ اس کے مستحق  نہیں ہیں۔ والد  کے وفات کے وقت جس قدر جائداد موجود تھی اسی کو ورثہ میں تقسیم کیا جائے گا، اور جو کسی وارث نے کمایا وہ اس کا اپنا ہے؛ اسے منہا کرکے تقسیمِ ترکہ عمل میں آئےگی۔

ولو تصرف احد الورثۃ فی الترکۃ المشترکۃ وربح فالربح للمتصرف وحدہ (فتاوی ھندیۃ 2/346)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1486/42-1250

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ صورت میں جبکہ امام صاحب بیٹھنے کے قریب تھے، ان پر سجدہ سہو لازم نہیں تھا، ان کو سجدہ سہو نہیں کرنا چاہئے تھا۔ تاہم اگر سجدہ سہو کرلیا تو   بھی صحیح قول کے مطابق نماز درست ہوگئی۔ تاہم سجدہ سہو  کا مذکورہ طریقہ درست نہیں ہے، سجدہ سہو کے لئے التحیات ضروری ہے، احناف کے یہاں سجدہ سہو ، التحیات دو سجدے اور سلام کے مجموعہ کا نام ہے۔

وإن قعد الأخير ثم قام عاد وسلم من غير إعادة التشهد. فإن سجد لم يبطل فرضه وضم إليها أخرى لتصير الزائدتان له نافلة وسجد للسهو. (نورالایضاح، باب سجود السھو 1/96) ثم في القيام إلى الخامسة إن كان قعد على الرابعة وينتظره المقتدي قاعدا، فإن سلم من غير إعادة التشهد سلم المقتدي معه (شامی باب الوتر والنوافل 2/12)

ولو ظن الإمام السهو فسجد له فتابعه فبان أن لا سهو فالأشبه الفساد لاقتدائه في موضع الانفراد. (شامی، باب الاستخلاف 1/599) ولو ظن الإمام أن عليه سهوا فسجد للسهو فتابعه المسبوق فيه ثم علم أنه لم يكن عليه سهو فأشهر الروايتين أن صلاة المسبوق تفسد؛ لأنه اقتدى في موضع الانفراد قال الفقيه أبو الليث: في زماننا لا تفسد. هكذا في الظهيرية. (الھندیۃ الفصل السابع فی المسبوق اللاحق 1/92)

وَمَنْ سَهَا عَنْ الْقَعْدَةِ الْأُولَى ثُمَّ تَذَكَّرَ وَهُوَ إلَى حَالَةِ الْقُعُودِ أَقْرَبُ عَادَ وَقَعَدَ وَتَشَهَّدَ لِأَنَّ مَا يَقْرُبُ مِنْ الشَّيْءِ يَأْخُذُ حُكْمَهُ، ثُمَّ قِيلَ يَسْجُدُ لِلسَّهْوِ لِلتَّأْخِيرِ. وَالْأَصَحُّ أَنَّهُ لَا يَسْجُدُ كَمَا إذَا لَمْ يَقُمْ وَلَوْ كَانَ إلَى الْقِيَامِ أَقْرَبَ لَمْ يَعُدْ لِأَنَّهُ كَالْقَائِمِ مَعْنًى،وَيَسْجُدُ لِلسَّهْوِ لِأَنَّهُ تَرَكَ الْوَاجِبَ. )مرغيناني، الهداية شرح البداية، 1: 75، المكتبة الاسلامية(

إذا ظن الإمام أنه عليه سهواً فسجد للسهو وتابعه المسبوق في ذلك ثم علم أن الامام لم يكن عليه سهو فيه روايتان ... وقال الإمام أبو حفص الكبير: لايفسد، والصدر الشهيد أخذ به في واقعاته، وإن لم يعلم الإمام أن ليس عليه سهو لم يفسد صلاة المسبوق عندهم جميعاً".(خلاصۃ الفتاوی 1/163، امجداکیڈمی)

ویجب سجدتان بتشھد و تسلیم – ھما واجبان بعد سجود السھو لان الاولین ارتفعا بالسجود (مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی، شیخ الھند دیوبند، ص 460)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:زکوٰۃ کا منکر کافر ہے اور عشر کا منکر کافر نہیں؛ بلکہ فاسق اور سخت گناہگار ہے۔

عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: بني الإسلام علی خمس علی أن یعبد اللّٰہ، ویکفر بما دونہ وأقام الصلاۃ وإیتاء الزکوۃ وحجَّ البیت، وصوم رمضان۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب بیان أرکان الإسلام ودعائمۃ العظام‘‘: ج ۱، ص: ۴۵، رقم: ۱۶)

قال اللّٰہ تعالیٰ: سورۃ أنزلناہا وفرضناہا أي قدرناہا وقطعنا الأحکام فیہا قطعاً، والفرائض في الشرع مقدرۃ لا تحتمل زیادۃ ولا نقصانا أي مقطوعۃ ثبتت بدلیل لا شبہۃ فیہ مثل الإیمان والصلاۃ والزکاۃ والحج وسمیت مکتوبۃ۔ (علی بن محمد البزدوي الحنفي، أصول البزدوي، کنز الوصول إلی معرفۃ الأصول: ج ۱، ص: ۱۳۶)

أما الفرض فحکمہ اللزوم علماً وتصدیقاً بالقلب، وہو الإسلام وعملاً بالبدن، وہو من أرکان الشرائع ویکفر جاحدہ ویفسق تارکہ بلا عذرٍ۔ (علی بن محمد البزدوي الحنفي، أصول البزدوي، کنز الوصول إلی معرفۃ الأصول: ج ۱، ص: ۱۳۶-۱۳۷)

لزوم الإتیان بہ، مع ثواب فاعلہ، وعقاب تارکہ، ویکفر منکرہ۔ (وہبۃ بن مصطفیٰ، ’’الفقہ الإسلامي وأدلتہ، المصطلحات الفقہیۃ العامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۷)

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1842/43-1661

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شرعی احکام کو مدنظر رکھتے ہوئے شیعوں کے ساتھ تجارت کرنے میں کوئی گناہ نہیں، اور غالی شیعہ  سے بھی تجارتی لین دین کیاجاسکتاہے جس طرح کہ غیرمسلموں سے تجارتی لین دین کیا جاسکتاہے۔   

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2138/44-2196

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہماری معلومات کے مطابق ہنڈی کے ذریعہ پیسے بھیجنا قانونا جرم ہے، اس لئے اس کاروبار سے گریز کرنا لازم ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:زید اس قبر کو ہموار یعنی برابر کرا سکتا ہے اس کے لیے ایسا کرنا درست ہے۔(۲)

(۲)  عن جابر رضي اللّٰہ عنہ، قال: نہی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن یجصص القبر، وأن یقعد علیہ، وأن یبنی علیہ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الجنائز: باب النہي عن تجصیص القبر والبناء علیہ‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۲، رقم: ۹۷۰)
ویخیر المالک بین إخراجہ ومساواتہ بالأرض کما جاز زرعہ والبناء علیہ إذا بلي وصار تراباً۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۵)


فتاوہ دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص360

اسلامی عقائد

Ref. No. 2434/45-3690

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   اللہ کے نام کے آگے کوئی حمدیہ  جملہ استعمال کرنا افضل ہے، یہ کوئی لازم و ضروری امر نہیں ہے، اس لئے اگر کوئی حمدیہ جملہ ترک کردے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا کی جگہ اللہ نے فرمایا کہنا جائز ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:تعلیم نسواں کی موجودہ دور میں شدید ضرورت ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اگر لڑکیاں تعلیم و تہذیب یافتہ ہوںگی، تو نسلوں کے ایمان کی حفاظت ہوگی لیکن اس کے ساتھ شریعت کے اصولوں کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے اس لیے بالغ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ عورتوں کو ہی معلمات مقرر کیا جائے لیکن اگر بڑی کتابوں کو پڑھانے کے لیے معلمات دستیاب نہ ہوں تو بدرجہ مجبوری پردہ کے نظم کے ساتھ مرد وں کو مقرر کیا جاسکتا ہے اور ایسے مردکے پیچھے نماز درست ہے۔(۱)

(۱) ثلاثۃ لہم أجران: رجل من أہل الکتاب آمن بنبیہ وآمن بمحمد والعبد المملوک إذا أدی حق اللّٰہ وحق موالیہ ورجل لہ أمۃ فأدبہا فأحسن تأدیبہا علمہا فأحسن تعلیمہا ثم اعتقہا فتزوج فلہ أجران۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۷۹، رقم: ۱۱)
قالت النساء للنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: غلبن علیک الرجال فاجعل لنا یوماً من نفسک فوعدہن یوماً لیقہن فیہ فوعظہن وأمرہن۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب العلم، باب ہل یجعل للنساء یوماً علی حدۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱، رقم: ۱۰۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص180