Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: حدیث شریف میں یہ ارشاد ہے کہ امام کو چاہئے کہ نماز ہلکی پڑھائیں؛ کیوں کہ اس کے پیچھے کمزور، ضعیف، حاجت مند لوگ ہیں ان کی رعایت رکھیں۔(۱) بہتر یہ ہے کہ سنت کے مطابق قرأت کریں کہ اس میں اس چیز کی رعایت رکھی گئی ہے اس کی تفصیل کے لیے آئینہ نماز، میری نماز، کا مطالعہ فرمائیں۔ چوں کہ اکثر ائمہ حافظ نہیں ہوتے، اس لیے جو بھی آیات نماز میں پڑھی جائیں نماز ہوجائے گی اس پر اعتراض نہ کرنا چاہئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پیچھے کمزور بوڑھوں اور ضرورت مندوں کا لحاظ فرماتے تھے تاکہ ان کو تکلیف نہ ہو، امام کو چاہئے کہ بہت زیادہ لمبی نماز نہ پڑھائیں کہ مقتدی اکتا جائیں اور تقلیل جماعت کا باعث بن جائے۔ بہر حال نماز جیسی عظیم الشان عبادت کو بد دلی سے نہ ادا کیا جائے خوب دل لگاکر ادا کیا جائے اور کمزوروں اور بوڑھوں کا خیال رکھا جائے۔ احادیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سب سے کامل اور ہلکی نماز پڑھایا کرتے تھے بسا اوقات مقتدیوں کی رعایت کی بنا پر انتہائی مختصر سورتیں پڑھنا بھی آپ سے ثابت ہے۔(۲)
(۱) عن ابن مسعود الأنصاری -رضي اللّٰہ تعالٰی عنہ- قال: قال رجل: یا رسول اللّٰہ لا أکاد أدرک الصلاۃ ممایطول بنا فلان فما رأیت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم في موعظۃ أشد غضبا من یومئذ فقال: أیہا الناس إنکم منضرون فمن صلی بالناس فلیخفف فإن فیہم المریض والضعیف وذا الحاجۃ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب العلم، باب لغضب في الموعظۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۹، رقم: ۹۰)
(۲) وینبغي للإمام أن لا یطول بہم الصلاۃ بعد القدر المسنون وینبغي لہ …أن یراعي حال الجماعۃ ہکذا في الجوہرۃ النیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ،’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘:ج۱، ص: ۱۴۴)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص388
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: خوامخواہ کسی کو کچھ کہنا جس سے دوسروں کو تکلیف ہوتی ہو، جائز نہیں ہے، اس پر ضروری ہے جو مسائل صحیح معلوم نہیں ہیں ان کو بیان نہ کرے ورنہ سخت گنہگار ہوگا۔(۱)
الجواب وباللہ التوفیق: خوامخواہ کسی کو کچھ کہنا جس سے دوسروں کو تکلیف ہوتی ہو، جائز نہیں ہے، اس پر ضروری ہے جو مسائل صحیح معلوم نہیں ہیں ان کو بیان نہ کرے ورنہ سخت گنہگار ہوگا۔(۱)
{وَاِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَاج} (سورۃ الحجرات: ۹)
{اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ} (سورۃ الحجرات: ۱۰)
{فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَيْئٌ فَاتِّبَاعٌ م بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَآئٌ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍط} (سورۃ البقرہ: ۱۷۸)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص 33
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: افضل یہی ہے کہ وعظ ونصیحت اور جلسہ وغیرہ کے دوران اگر اذان ہونے لگے تو اذان کے وقت خاموشی اختیار کی جائے اور بغور اذان سنی جائے اور اس کا جواب دیا جائے۔ مگر عقلی اور نقلی دلائل سے پتہ چلتا ہے کہ ضرورتًا اذان کے دوران بات کرنا جائز ہے۔ مثلا درس و تدریس ہو یا کسی کو ضرورتًا مخاطب کرنا ہو وغیرہ، تو ضرورت کے تحت اذان کے دوران بات کرنے کی گنجائش ہے، جیسا کہ امام بخاری رحمۃاللہ نے ایک باب قائم کیا ہے: ’’باب الکلام في الأذان‘‘ اس باب کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ مندرجہ ذیل نصوص ذکر کرتے ہیں کہ حضرت سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ نے اذان کے دوران بات کی اور حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ اگر ایک شخص اذان یا تکبیر کہتے ہوئے ہنس دے تو کوئی حرج نہیں؛ البتہ تعلیم کی غرض سے بہتر ہے کہ وعظ ونصیحت وغیرہ کو روک کر اذان کا جواب دیا جائے تاکہ عوام کو اذان کی اہمیت وفضلیت معلوم ہو سکے۔
’’وتکلم سلیمان بن صرد في أذانہ، وقال الحسن لا بأس أن یضحک وہو یؤذن أو یقیم‘‘(۱)
در مختار میں ہے:’’ویجیب من سمع الأذان بأن یقول بلسانہ کمقالتہ … إلا في الحیعلتین: فیحوقل، وفي: الصلاۃ خیر من النوم … ویدعو عند فراغہ بالوسیلۃ لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم … فیقطع قراء ۃ القرآن لو کان یقرأ بمنزلہ، ویجیب لو أذان مسجدہ کما یأتي، ولو بمسجدٍ، لا؛ لأنہ أجاب بالحضور، وہذا متفرع علی قول الحلواني، وأما عندنا فیقطع ویجیب بلسانہ مطلقا، والظاہر وجوبہا باللسان لظاہر الأمر في حدیث ’’إذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما یقول‘‘(۲)
’’ولا یشتغل بقراء ۃ القرآن ولا بشيء من الأعمال سوی الإجابۃ، ولو کان في القراء ۃ ینبغي أن یقطع ویشتغل بالاستماع والإجابۃ۔ کذا في البدائع‘‘(۳)
نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ: مؤذن کی اذان کا جواب دو۔
’’قولوا مثل ما یقول المؤذن‘‘(۴)
خلاصہ: مرد ہو یا عورت مقرر ہو یا سامع جو کوئی بھی اذان کی آواز سنے اس کا جواب دینا مستحب ہے۔ نیز علامہ ابن الہمامؒ نے فتح القدیر میں اس کی وضاحت کی ہے۔
’’لکن ظاہر الأمر في قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ’’إذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما یقول‘‘ الوجوب؛ إذ لا تظہر قرینۃ تصرفہ عنہ، بل ربما یظہر استنکار ترکہ لأنہ یشبہ عدم الالتفات إلیہ والتشاغل عنہ۔ وفي التحفۃ: ینبغي أن لا یتکلم ولا یشتغل بشيء حال الأذان أوالإقامۃ‘‘(۱)
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الکلام في الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۸۶۔
(۲) ابن عابدین، الدرالمختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج۲، ص: ۶۵ - ۶۹؛ وکذا في البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۰،۴۵۱۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان، الفصل الثاني : ومما یتصل بذلک إجابۃ المؤذن‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۴، فیصل، دیوبند۔
(۴) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب ما یقول إذا سمع المنادی‘‘: ج ۱، ص: ۸۶؛ وأخرجہ المسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب استحباب القول مثل قول المؤذن‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۶، رقم: ۳۸۴۔
(۱) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص170
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بہتر یہ ہے کہ امام اپنی اور اپنے مقتدیوں کی نیت کرے اگر امام نے مرد مقتدیوں کی نیت نہ کی تو بھی نماز درست ہوگی؛ لیکن اگر عورتیں اقتداء کر رہی ہوں، تو ان کی نماز کی درستگی کے لیے امام کا نیت کرنا ضروری ہے۔ مقتدیوں کا اپنے امام کی اقتداء کی نیت کرنا ضروری ہے، اس کے بغیر مقتدیوں کی نماز درست نہ ہوگی۔(۱)
(۱) قولہ: (وینوي المقتدي) أما الإمام فلا یحتاج إلی نیۃ الإمامۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: ’’باب شروط الصلاۃ‘‘: مطلب في حضور القلب والخشوع، ج ۲، ص: ۹۸، زکریا دیوبند)
و الإمام ینوي ما ینوي المنفرد ولا یحتاج إلی نیۃ الإمامۃ حتی لو نوی أن لا یؤم فلاناً فجاء فلان واقتدی بہ جاز ہکذا في فتاویٰ قاضي خان، ولا یصیر إماماً للنساء إلا بالنیۃ ہکذا في ’’المحیط‘‘۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الرابع في النیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۴، زکریا دیوبند)
وینوي المقتدي المتابعۃ لم یقل أیضاً: لأنہ لو نوی الاقتداء بالإمام أو الشروع في صلاۃ الإمام ولم یعین الصلاۃ صح في الأصح وإن لم یعلم بہا لجعلہ نفسہ تبعاً لصلاۃ الإمام۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ‘‘: مطلب في حضور القلب والخشوع، ج ۲، ص: ۹۸، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص293
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: عشاء، فجر، مغرب کی نماز کے بعد تسبیحات معروف نہیں اور قبلہ رخ ہی دعا کرنا ثابت ہے۔ دیگر نمازوں میں دائیں بائیں مڑ کر دعا کرنا ثابت ہے۔(۱)
(۱) عن سمرۃ بن جندب رضي اللّٰہ عنہ قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا صلی صلاۃً أقبل علینا بوجہہ، رواہ البخاري، عن البراء قال: کنا إذا صلینا خلف رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أحببنا أن نکون عن یمینہ؛ یقبل علینا بوجہہ، قال: فسمعتہ یقول: رب قني عذابک یوم تبعث أو تجمع عبادک، رواہ مسلم۔ (أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب استحباب یمین الإمام‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۷، رقم: ۷۰۹)
عن أنس بن مالک، قال: أخَّرَ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الصلاۃ ذات لیلۃ إلی شطر اللیل، ثم خرج علینا، فلما صلی أقبل علینا بوجہہ، فقال: إن الناس قد صلوا ورقدوا، وإنکم لن تزالوا في صلاۃ ما انتظرتم الصلاۃ، (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب یستقبل الإمام الناس إذ ا سلم‘‘: ج۱، ص: ۱۱۷، رقم: ۸۴۷)
وعقب الفرض إن لم یکن بعدہ نافلۃ یستقبل الناس إن شاء إن لم یکن في مقابلۃ مصل؛ لما في الصحیحین کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا صلی أقبل علینا بوجہہ، وإن شاء الإمام انحرف عن یسارہ جعل القبلۃ عن یمینہ وإن شاء انحرف عن یمینہ وجعل القبلۃ عن یسارہ، وہذا أولٰی؛ لما في مسلم: کنا إذا صلینا خلف رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أحببنا أن نکون عن یمینہ حتی یقبل علینا بوجہہ الخ۔
(أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في صفۃ الأذکار‘‘، ص: ۳۱۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص438
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: (۱) جمعہ کے دن فجر کی نماز میں پہلی رکعت میں سورۂ الم سجدہ اور دوسری رکعت میں سورۂ دھر پڑھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے؛ لیکن اس پر دوام ثابت نہیں اس لیے جمعہ میں کبھی کبھی ان دونوں سورتوں کو پڑھنا چاہیے لیکن اس پر دوام مناسب نہیں ہے۔ حضرات فقہاء نے ہمیشہ پڑھنے سے منع کیا ہے خاص طورپر جب کہ مقتدیوں میں کمزور اور ضعیف لوگ ہوں تو امام صاحب کو ان کی رعایت کرنی چاہیے۔
’’عن سعید بن جبیر، عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقرأ في صلاۃ الفجر یوم الجمعۃ: تنزیل السجدۃ، وہل أتی علی الإنسان حین من الدہر‘‘(۱)
’’ھذا، وقید الطحاوي والاسبیجابي الکراھۃ بما إذا رأي ذلک حتماً لا یجوز غیرہ، أما لو قرأہ للتیسیر علیہ أو تبرکاً بقرائتہ علیہ الصلاۃ والسلام فلا کراھۃ، لکن بشرط أن یقرأ غیرھا أحیانا لئلا یظن الجاھل أن غیرھا لا یجوز۔ واعترضہ في الفتح بأنہ لا تحریر فیہ، لأن الکلام في المداومۃ اھـ۔ وأقول: حاصل معنی کلام ھذین الشیخین بیان وجہ الکراھۃ في المداومۃ، وھو أنہ إن رأي ذلک حتماً یکرہ من حیث تغییر المشروع وإلا یکرہ من حیث إیہام الجاھل، وبھذا الحمل یتأید أیضا کلام الفتح السابق، ویندفع اعتراضہ اللاحق فتدبر‘‘(۲)
(۲) تکبیرات انتقالیہ میں مسنون یہ ہے کہ ایک رکن سے منتقل ہوتے ہوئے تکبیر شروع کرے اور دوسرے رکن میں پہنچنے پر اس کو مکمل کرے یعنی انتقال کے دوران تکبیر کہے انتقال کے بعد نہیں۔ امام کا سجدہ میں جاکر تکبیر کہنے کو حضرات فقہاء نے مکروہ لکھاہے۔
’’یکبر مع الانحطاط، کذا في ’’الہدایۃ‘‘ قال الطحاوي: وہو الصحیح کذا فی ’’معراج الدرایۃ‘‘ فیکون ابتداء تکبیرہ عند أول الخرور والفراغ عند الاستواء للرکوع کذا في ’’المحیط‘‘(۳)
’’ویکرہ) أن یأتي بالأذکار المشروعۃ في الانتقالات بعد تمام الانتقال بأن یکبر للرکوع بعد الانتہاء إلی حد الرکوع ویقول سمع اللّٰہ لمن حمدہ بعد تمام القیام‘‘(۴)
(۳) سورۂ فا تحہ او رضم سورت کے درمیان سکتہ خفیفہ ہونا چاہیے جس میں آمین کہہ سکیں او رکسی سورت کے انتخاب کے لیے سوچنے کا موقع مل سکے، اتنا وقفہ کرنا جس میں آدمی تین آیت کے بقدر پڑھ سکتاہے درست نہیں ہے ا س سے نماز واجب الاعادہ ہوگی۔
’’ومن الواجب تقدیم الفاتحۃ علی السورۃ، وأن لا یؤخر السورۃ عنہا بمقدار أداء رکن‘‘(۱)
(۱) أخرجہ أبو داؤد، في سننہ: ’’کتاب الصلاۃ، باب : تفریع أبواب الجمعۃ، باب ما یقرأ في صلاۃ الصبح یوم الجمعۃ‘‘ ج ۱، ص: ۲۸۲، ط: نعیمیہ، دیوبند۔)
(۲) الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’باب صفۃ الصلاۃ، فصل في القرائۃ، مطلب: السنۃ تکون سنۃ عین و سنۃ کفایۃ‘‘: ج۲، ص:۲۵۸۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ: ج ۱، ص: ۱۳۱، ط: دار الکتب العلمیۃ بیروت۔)
(۴) إبراھیم الحلبي، الکبیري: ص: ۳۵۷۔
(۱)الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوی علی المراقي، کتاب الصلاۃ: باب سجود السھو‘‘ ص: ۴۶۰۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص234
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں چار رکعت پڑھے گا اور وہ دو رکعت اس کی نفل ہوگئی وہ ان سنتوں (چار سنت قبل الظہر) میں محسوب نہیں ہوں گی۔(۲)
(۲) قد استدل قاضي خان لقضاء سنۃ الظہر بما عن عائشۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہا أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان إذا فاتتہ الأربع قبل الظہر قضاہن بعدہ۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ، باب إدراک الفریضۃ، مطلب ھل الإسائۃ دون الکراھۃ أو أفحش، ج ۲، ص: ۵۱۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص361
Business & employment
Ref. No. 934 Alif
In the name of Allah the Most Gracious the Most Merciful
The answer to your question is as follows:
Islam directs that a woman is primarily meant to remain in her home. But she may go out for her dire needs. And if she goes out, she must observe full hijab with covering face, not talk to men without severe need and do not have mixing with men etc. If a Muslim woman works with these conditions, she may be allowed to do job outside her home.
And Allah Knows Best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 846
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم-: اگر کسی طرح کا کوئی نشان نہ ہو تو اگر مسلمانوں کے علاقہ میں پائی جائے یا ایسے علاقہ میں جہاں مسلمانوں کی کثرت ہو تو اس کو مسلمان ہی سمجھا جائے گا، اور اسکی جنازہ کی نماز پڑھ کر مسلمانوں کے قبرستان میں تدفین کردی جائے گی۔
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 38/ 899
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
It is allowable.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband