متفرقات

Ref. No. 1673/43-1286

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مرغی کی دمچی  حلال ہے۔مرغی کی دمچی اس کے چمڑے کا ایک حصہ ہے، شرمگاہ نہیں ہے، اس لئے اس کا کھانا جائز ہے۔

وأما بيان ما يحرم أكله من أجزاء الحيوان المأكول فالذي يحرم أكله منه سبعة: الدم المسفوح، والذكر، والأنثيان، والقبل، والغدة، والمثانة، والمرارة لقوله عز شأنه {ويحل لهم الطيبات ويحرم عليهم الخبائث} [الأعراف: 157] وهذه الأشياء السبعة مما تستخبثه الطباع السليمة فكانت محرمة. (بدائع، صفۃ التضحیۃ 5/61)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1771/43-1502

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کپڑے پر کوئی ظاہری نجاست نہیں ہے تو ان کو پاک ہی سمجھاجائے گا۔  غیرمسلم  کا بدن بھی   پاک  ہے تو اس کا کپڑا بھی پاک شمار ہوگا الا یہ کہ اس کے کپڑے یا بدن پر کوئی نجاست ہو تو اب ان کی ناپاکی کا حکم لگے گا۔   

" الأول من الأقسام: سؤر طاهر مطهر بالاتفاق من غیر کراهة في استعماله، وهوما شرب منه آدمي لیس بفمه نجاسة ... ولا فرق بین الصغیر والکبیر والمسلم والکافر والحائض والجنب."--------- )"وإذا تنجس فمه فشرب الماء من فوره تنجس.‘‘ (نورالإیضاح مع شرحه مراقي الفلاح، الطبعة الأولیٰ : ص ۱۸ ط مصطفیٰ البابي الحلبي وأولاده بمصر)

 وأما نجاسة بدنه فالجمهور علی أنه لیس بنجس البدن والذات؛ لأن الله تعالیٰ أحل طعام أهل الکتاب". (تفسیر ابن کثیر تحت قوله تعالیٰ: ﴿اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ﴾ الآیة : ۲/۳۴۶ ط سهیل أکادمي)

’’قال محمد - رحمه الله تعالى -: ويكره الأكل والشرب في أواني المشركين قبل الغسل، ومع هذا لو أكل أو شرب فيها قبل الغسل جاز، ولايكون آكلاً ولا شارباً حراماً، وهذا إذا لم يعلم بنجاسة الأواني، فأما إذا علم فإنه لا يجوز أن يشرب ويأكل منها قبل الغسل، ولو شرب أو أكل كان شارباً وآكلاً حراماً(‘‘.الفتاوى الهندية (5/ 347)

’’شک فی وجود النجس فالاصل بقاء الطھارۃ.‘‘(الاشباہ و النظائر،صفحہ 61،مطبوعہ کراچی)  ’’ولو شک فی نجاسۃ ماء أو ثوب أو طلاق أو عتق لم یعتبر) در مختار مع رد المحتار،جلد1،صفحہ310،مطبوعہ کوئٹہ(

’’قولہ:(ولو شک)فی التاتر خانیۃ: من شک فی انائہ أو ثوبہ أو بدنہ أصابتہ نجاسۃ أو لا، فھو طاھر ما لم یستیقن،و کذا لآبار والحیاض والحباب الموضوعۃ فی الطرقات و یستقی منھا الصغار و الکبار والمسلمون والکفار )رد المحتار مع الدر المختار،جلد1،صفحہ310،مطبوعہ کوئٹہ(

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل
یہ فتوی پڑھئے: https://dud.edu.in/darulifta/?qa=4827/%D8%A7%D9%84%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85-%D8%A8%D8%B1%DA%A9%D8%A7%D8%AA%DB%81-%DA%A9%D9%86%D8%A7%D8%B1%DB%92-%D8%B1%D8%A7%D8%B3%D8%AA%DB%92-%D9%86%D8%A7%D9%BE%D8%A7%DA%A9%DB%8C-%DA%86%DA%BE%DB%8C%D9%86%D9%B9%DB%92-%D9%86%D8%A7%D9%BE%D8%A7%DA%A9%DB%8C-%DA%A9%DB%8C%D9%88%D9%86%DA%A9%DB%81-%DA%86%DA%BE%DB%8C%D9%86%D9%B9%DB%92&show=4827#q4827

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حسا ب و کتاب تو آخرت میں ہوگا قبر میں دو امور ہیں سوال و جواب اور فتنہ قبر اس کو عذاب قبر بھی کہہ سکتے ہیں، جہاں تک سوال و جواب کی بات ہے اس کے بارے میں بعض فقہاء نے کہا ہے کہ ہر ذی نفس سے سوال ہوگا، لیکن یہ قول مرجوح ہے۔ شارح بخاری شریف علامہ قسطلانی اور شارح جامع صغیر علقمہ کی تحقیق یہ ہے کہ کچھ مستثنیات بھی ہیں جن سے سوال نہیں ہوگا؛ علامہ سیوطی نے بھی ان کو بیان کیا ہے جن سے سوال نہیں ہوگا۔
مثلاً: (۱)شہیدوں سے اور جو اسلامی حکومت کی سرحد کی فوجی حفاظت پر مامور ہیں۔ (۲) طاعون کی بیماری میں مبتلا ہوکر جو مرے۔ (۴) طاعون کا مرض جب پھیل رہا ہو اور وہ دوسری جگہ منتقل نہ ہو۔ اور انہی ایام میں اس کا انتقال ہوجائے۔
(۵) صدیقین سے۔ (۶) جمعہ کے دن یا رات میں جس کا انتقال ہو۔ (۷) اطفال۔ (۸) جو ہر رات میں سورہ ملک پڑھتا ہو اور بعض نے سورہ سجدہ کا اضافہ کیا ہے۔ رمضان میں مرنے والا اور انبیاء علیہم السلام، فتنۂ قبر اور عذاب قبر کے بارے میں وارد ہے۔
’’قال علیہ الصلوٰۃ والسلام: ما من مسلم یموت یوم الجمعۃ أو لیلۃ الجمعۃ إلا وقاہ اللّٰہ فتنۃ القبر الخ‘‘(۱) مصنف بن عبدالرزاق اور مسند دیلمی میں حضرت علی کرم اللہ وجہ سے روایت ہے ’’من مات لیلۃ الجمعۃ أو یوم الجمعۃ دفع اللّٰہ عنہ عذاب القبر‘‘ (۲)
معلوم ہوا کہ جس کا انتقال جمعہ کی رات یا جمعہ کے دن ہوا ہو اس کو عذاب بھی نہیں ہوگا۔

۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الجنائز: باب ما جاء في من یموتیوم الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۵، رقم: ۱۰۷۴۔
(۲) محمد السخاوي، مقاصد حسنہ: ج ۱، ص: ۶۷۲، رقم: ۱۱۷۷۔
ثم ذکر أن من لا یسأل ثمانیۃ: الشہید، والمرابط، والمطعون، والمیت زمن الطاعون بغیرہ إذا کان صابرا محتسبا، والصدیق، والأطفال، والمیت یوم الجمعۃ أو لیلتہا، والقارئ کل لیلۃ تبارک الملک وبعضہم ضم إلیہا السجدۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: ثمانیۃ لا یسألون في قبورہم‘‘: ج ۳، ص: ۸۱)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص244

اسلامی عقائد

Ref. No. 2487/45-3781

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حساب و کتاب رسید کے ذریعہ ہوتاہے،  اس لئے مدرس یا سفیر نےجو رسید کاٹ دی ہے  اس کا حساب دینا ہوگا، اگر اس نے ادھار رسید کاٹی ہے تو کچھ مزید مہلت لے لے اور انتظامیہ کو چاہئے کہ مہلت دے دے ، اور اگر مہلت کے بعد بھی پیسے وصول نہیں ہوئے تو مدرس و سفیر کی ذمہ داری ہوگی کہ بینہ کے ذریعہ یہ ثابت کرے کہ یہ پیسے وصول نہیں ہوئے ہیں، اور اگر مدرس وسفیر کے پاس کوئی بینہ نہیں ہے تو مدرسہ کو رقم واپس کرنا ضروری ہوگا۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:امام ترمذی نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور غریب کہا ہے، اسی طرح حاکم اور ذہبی نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ امام نووی نے اذکار میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی سند ضعیف ہے۔(۱)

(۱) أبو الحسن عبید اللّٰہ المبارکفوري، مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح: ج ۷، ص: ۳۴۶۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص98

متفرقات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے والد کا نام عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ ہے۔ (۱) (۱) أشرف علي التھانوي، أشرف السوانح، ’’الفصل الأول، السیرۃ الذاتیۃ، اسمہ ونسبہ‘‘: ص:۲۱۔ فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص190

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر وہ کبھی کبھی بطور تعلیم ایسا کرتے ہیں تاکہ جن کو یاد نہ ہو ان کو یاد ہوجائے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور اگر ہمیشہ ایسا ہی کرتے ہیں اور اس کا التزام کرتے ہیں، تو بدعت اور قابل ترک ہے؛ اس لئے بہتر یہ ہے کہ الگ الگ دعا کی جائے۔(۲)

(۲) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا یحیی بن سعید، حدثنا ثور بن یزید، حدثنا خالد بن معدان، عن أبي أمامۃ، قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا رفعت المائدۃ من بین یدیہ، یقول: الحمد للّٰہ حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ غیر مودع ولا مستغنی عنہ ربنا، ہذا حدیث حسن صحیح۔ (رقم: ۳۴۵۶)… حدثنا أبو سعید الأشج قال: حدثنا حفص بن غیاث، وأبو خالد الأحمر، عن حجاج ابن أرطاۃ، عن رباح بن عبیدۃ قال حفص: عن ابن أخي أبي سعید، وقال أبو خالد: عن مولی لأبي سعید عن أبي سعید رضي اللّٰہ عنہ قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا أکل أو شرب قال: الحمد للّٰہ الذي أطعمنا وسقانا وجعلنا مسلمین۔ (رقم: ۳۴۵۷)
حدثنا محمد بن إسمعیل قال: حدثنا عبد اللّٰہ بن یزید المقرئ، قال: حدثنا سعید بن أبي أیوب قال: حدثني أبو مرحوم، عن سہل بن معاذ بن أنس، عن أبیہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أکل طعاما، فقال: الحمد للّٰہ الذي أطعمني ہذا ورزقنیہ من غیر حول مني ولا قوۃ، غفر لہ ما تقدم من ذنبہ، ہذا حدیث حسن غریب، وأبو مرحوم اسمہ: عبد الرحیم بن میمون۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الدعوات، باب ما یقول إذا فرغ من الطعام‘‘: ج ۲، ص: ۱۸۴، رقم: ۳۴۵۸)
حدثني محمد بن المثنی العنزي، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبۃ، عن یزید بن خمیر، عن عبد اللّٰہ بن بسر، قال: نزل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی أبي، قال: فقربنا إلیہ طعاما ووطبۃ، فأکل منہا، ثم أتي بتمر فکان یأکلہ ویلقي النوی بین إصبعیہ، ویجمع السبابۃ والوسطی، قال شعبۃ: ہو ظني وہو فیہ إن شاء اللّٰہ إلقاء النوی بین الإصبعین، ثم أتي بشراب فشربہ، ثم ناولہ الذي عن یمینہ، قال: فقال أبي: وأخذ بلجام دابتہ، ادع اللّٰہ لنا، فقال: اللہم، بارک لہم في ما رزقتہم، واغفر لہم وارحمہم۔ (أخرجہ مسلم، في صحیہ، ’’کتاب الأشربۃ: باب الاستحباب وضع النوی خارج التمر‘‘: ج ۲، ص: ۱۸۰، رقم: ۲۰۴۲)
وفیہ استحباب طلب الدعاء من الفاضل ودعاء الضیف بتوسعۃ الرزق والمغفرۃ والرحمۃ وقد جمع صلی اللّٰہ علیہ وسلم في ہذا الدعاء خیرات الدنیا والآخرۃ واللّٰہ أعلم۔ (النووي، شرح النووي علی مسلم، ’’کتاب الأشربۃ، ’’باب استحباب وضع النوی خارج التمر‘‘: ج ۲، ص: ۱۸۰)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص387

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: احادیث اور جزئیات فقہیہ میں تصریح کی گئی ہے کہ امام کو نمازیوں کی رعایت ضروری ہے(۱) اور جس امام کی وجہ سے نمازی پریشانی میں مبتلا ہو جائیں، توایسا امام چوں کہ ہدایت نبوی کے خلاف کا مرتکب ہوتا ہے؛ اس لیے وہ قابل عزل ہوگا اور سوال میں لکھی ہوئی وجہ ایسی شرعی وجہ ہے کہ اس پر امام کو معزول کیا جا سکتا ہے۔(۲)

(۱) في الصحیحین إذا صلی أحدکم للناس فلیخفف فإن فیہم الضعیف والسقیم والکبیر، وإذا صلی لنفسہ فلیطول ما شاء۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ: مطلب إذا صلی الشافعي قبل الحنفي‘‘: ۲، ص: ۳۰۴، زکریا دیوبند)
(۲) ولو أم قوماً وہم لہ کارہون إن الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ لہ ذلک تحریماً۔
لحدیث أبي داؤد لا یقبل اللّٰہ صلاۃ من تقدم قوماً وہم لہ کارہون وإن ہو أحق لا والکراہۃ علیہم۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب فيتکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص45

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2740/45-4263

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مغرب میں تین رکعتیں فرض ہیں ، جب امام نے دو ہی رکعتیں پڑھائیں تو  مغرب کی فرض نماز ہوئی ہی نہیں یعنی نمازیوں کے ذمہ سے فرضیت بھی ساقط نہیں ہوئی ، اس لئے یہ نماز باطل ہوگئی ، اور دوسری نماز ہی درست ہوئی ، لہذا دوسری جماعت میں شریک ہونے والوں کی نماز درست ہوگئی، اور ان سے اعادہ کروانے کی ضرورت نہیں تھی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند