Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں نماز کی حالت میں امام صاحب کا کپڑوں کے ساتھ کھیلنا مکروہ تحریمی ہے، البتہ اگر کسی عذر اور ضرورت کی وجہ سے کپڑے درست کرنا پڑے تو اس صورت میں مکروہ نہیں ہے؛ جیسا کہ فقہاء نے لکھا ہے۔
’’کل عمل ہو مفید لا بأس بہ للمصلي‘‘ کہ ہر وہ عمل جو مفید ہو اس کے کرنے میں نمازی کے لیے کوئی حرج نہیں ہے اور جو مفید نہ ہو وہ کام کرنا مکروہ ہے ’’وما لیس بمفید یکرہ‘‘(۱)
اور اگر کپڑے سیدھے کرتے کرتے عملِ کثیر پایا گیا تو نماز فاسد ہوجائے گی، اور اس نماز کا اعادہ واجب ہوگا سجدۂ سہو سے بھی فساد کی تلافی نہ ہوگی۔
نیز عملِ کثیر یہ ہے کہ کوئی ایسا کام کرے کہ دور سے دیکھنے والے کو یقین ہو جائے کہ یہ کام کرنے والا نماز نہیں پڑھ رہا ہے یا جو کام عام طور پر دو ہاتھوں سے کیا جاتا ہے، مثلاً عمامہ باندھنا ازار بند باندھنا وغیرہ، یہ تمام کام عملِ کثیر شمار ہوتے ہیں ایسے ہی تین حرکاتِ متوالیہ یعنی تین بار ’’سبحان ربي الأعلی‘‘ کہنے کی مقدار وقت میں تین دفعہ ہاتھ کو حرکت دی تو یہ عملِ کثیر ہے ورنہ قلیل ہے اور عمل کثیر سے نماز فاسد ہو جاتی ہے۔
’’(قولہ: أي رفعہ) أي سواء کان من بین یدیہ أو من خلفہ عند الانحطاط للسجود، بحر۔ وحرر الخیر الرملي ما یفید أن الکراہۃ فیہ تحریمیۃ۔ بین یدیہ أو من خلفہ عند الانحطاط للسجود، بحر۔ وحرر الخیر الرملي ما یفید أن الکراہۃ فیہ تحریمیۃ‘‘(۱)
’’(و) یفسدہا (کل عمل کثیر) لیس من أعمالہا ولا لإصلاحہا، وفیہ أقوال خمسۃ أصحہا (ما لایشک) بسببہ (الناظر) من بعید (في فاعلہ أنہ لیس فیہا) وإن شک أنہ فیہا أم لا فقلیل، (قولہ: لیس من أعمالہا) احتراز عما لو زاد رکوعًا أو سجودًا مثلًا فإنہ عمل کثیر غیر مفسد؛ لکونہ منہا غیر أنہ یرفض؛ لأن ہذا سبیل ما دون الرکعۃ ط قلت: والظاہر الاستغناء عن ہذا القید علی تعریف العمل الکثیر بما ذکرہ المصنف، تأمل۔ (قولہ: ولا لإصلاحہا) خرج بہ الوضوء والمشي لسبق الحدث فإنہما لایفسدانہا ط۔ قلت: وینبغي أن یزاد ولا فعل لعذر احترازًا عن قتل الحیۃ أو العقرب بعمل کثیر علی أحد القولین کما یأتي، إلا أن یقال: إنہ لإصلاحہا؛ لأن ترکہ قد یؤدي إلی إفسادہا، تأمل (قولہ: وفیہ أقوال خمسۃ أصحہا ما لایشک إلخ) صحّحہ في البدائع، وتابعہ الزیلعي والولوالجي، وفي المحیط: أنہ الأحسن، وقال الصدر الشہید: إنہ الصواب۔ وفي الخانیۃ والخلاصۃ: إنہ اختیار العامۃ، وقال في المحیط وغیرہ: رواہ الثلجي عن أصحابنا، حلیۃ۔ القول الثاني: إن ما یعمل عادۃً بالیدین کثیر وإن عمل بواحدۃ کالتعمیم وشدّ السراویل وما عمل بواحدۃ قلیل وإن عمل بہما کحلّ السراویل ولبس القلنسوۃ ونزعہا إلا إذا تکرر ثلاثًا متوالیۃً، وضعّفہ في البحر بأنہ قاصر عن إفادۃ ما لایعمل بالید کالمضغ والتقبیل۔ الثالث: الحرکات الثلاث المتوالیۃ کثیر وإلا فقلیل۔ الرابع: ما یکون مقصودًا للفاعل بأن یفرد لہ مجلسًا علی حدۃ۔ قال في التتارخانیۃ: وہذا القائل: یستدل بامرأۃ صلت فلمسہا زوجہا أو قبلہا بشہوۃ أو مص صبي ثدیہا وخرج اللبن: تفسد صلاتہا، الخامس: التفویض إلی رأی المصلي، فإن استکثرہ فکثیر وإلا فقلیل‘‘(۲)
’’یکرہ للمصلي أن یعبث بثوبہ أو لحیتہ أو جسدہ وإن یکف ثوبہ بأن یرفع ثوبہ من بین یدیہ أو من خلفہ إذا أراد السجود کذا في معراج الدرایۃ‘‘(۱)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ وما لا یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۴۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، مطلب: في الکراہۃ التحریمیۃ والتنزیہیۃ‘‘: ج۲، ص: ۴۰۶۔
(۲) أیضًا: مطلب في التشبہ بأہل الکتاب‘‘: ج۲، ص: ۳۸۴، ۳۸۵۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ وما لا یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص69
Usury / Insurance
Ref. No. 2735/45-4265
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
India, under the current circumstances, is the country of peace and harmony. It cannot be called Dar-ul-Harb and the laws of Dar-ul-Harb will not apply here. However, the issue of usurious transactions in Dar al-Harb is different. According to Imam Abu Yusuf, it is absolutely illegitimate and according to Imam Abu Hanifa and Imam Muhammad, it is permissible with a few conditions. Prohibition is prescribed in the Qur'anic verses without any condition; Therefore, here in Hanafiate, the school of Jumhoor has priority and there is a fatwa on it. Therefore interest based transactions cannot be justified in India.
الفروق للقرافی میں ہے: فان اختلف العلماء فی فعل هل هو مباح او حرام فالورع الترک۔ (الفرق السادس والعشرون والمئتان من الفروق، ج: ۴، ص: ۲۷۔ ط:عالم الکتب)
الاشباہ والنظائر میں ہے: اذا تعارض الدلیلان احدهما یقتضی التحریم والاخر الاباحة قدم التحریم۔ (القاعدۃ الثانیۃ من الفن الثانی، ص: ۱۰۹،ط: قدیمی)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں ہر عاقل، بالغ مرد پر جسے مسجد تک جانے میں مشقت نہ ہو جماعت سے نماز پڑھنا سنت مؤکدہ یعنی واجب کے قریب ہے۔ اگر دو آدمی بھی ہوں تو بھی جماعت قائم کی جائے۔ ان میں سے ایک امام بنے اور دوسرا مقتدی، حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’دو یا دو کے اوپر جماعت ہے، جیسا کہ امام ابن ماجہ رحمہ اللہ کی روایت اور علامہ حصکفیؒ کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا سنت مؤکدہ ہے اور جماعت کے لیے دو یا دو سے زائد پر جماعت کا اطلاق ہوتا ہے:‘‘
’’إثنان فما فوقہما جماعۃ‘‘(۱)
’’والجماعۃ سنۃ مؤکدۃ للرجال … وأقلھا إثنان، … وقیل: واجبۃ و علیہ العامۃ أي: عامۃ مشایخنا وبہ جزم فی التحفۃ وغیرھا، قال في البحر: وھو الراجح عند أھل المذھب، فتسن أو تجب ثمرتہ تظھر في الإثم بترکھا علی الرجال العقلاء البالغین الأحرار القادرین علی الصلاۃ بالجماعۃ من غیر حرج‘‘(۲)
باجماعت نماز کی فضیلت کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے جماعت سے نماز ادا کرنا تنہا نماز ادا کرنے پر ستائیس درجے فضیلت رکھتا ہے۔
’’صلاۃ الجماعۃ تفضل صلاۃ الفذ بسبع وعشرین درجۃ‘‘(۳)
بعض احادیث میں بغیر عذر شرعی باجماعت نماز نہ پڑھنے کو منافقت کی نشانی قرار دیا گیا ہے اور ایسے لوگوں کے لیے سخت وعید ہے۔ امام بخاری نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے کہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! میں نے ارادہ کیا کہ لکڑیاں اکٹھی کرنے کا حکم دوں تو وہ اکٹھی کی جائیں، پھر نماز کا حکم دوں تو اس کے لیے اذان کہی جائے۔ پھر ایک آدمی کو حکم دوں کہ لوگوں کی امامت کرے پھر ایسے لوگوں کی طرف نکل جاؤں (جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے) اور ان کے گھروں کو آگ لگا دوں۔ قسم اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اگر ان میں سے کوئی جانتا کہ اسے موٹی ہڈی یا دو عمدہ کھریاں ملیں گی تو ضرور نماز عشاء میں شامل ہوتا۔
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم قال: والذي نفسي بیدہ، لقد ہممت أن آمر بحطب فیحطب، ثم آمر بالصلاۃ فیؤذن لہا، ثمّ آمر رجلا فیؤم الناس، ثم أخالف إلی رجال فأحرق علیہم بیوتہم، والذي نفسي بیدہ، لو یعلم أحدہم: أنہ یجد عرقا سمینا، أو مرماتین حسنتین، لشہد العشاء‘‘(۱)
(۱) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا: باب الإثنان جماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۲، رقم: ۹۷۲۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۷، ۲۹۱، ط: مکتبۃ زکریا دیوبند۔
(۳) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب فضل صلاۃ الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۱، رقم: ۶۱۹۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الجماعۃ والإمامۃ: باب وجوب صلاۃ الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۱، رقم: ۶۱۸۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص393
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: نماز دین اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کے بعد اہم ترین رکن ہے اور اہلِ علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ نماز کا حکم ابتدائِ اسلام میں آگیا تھا، تاہم پنج وقتہ نماز کی فرضیت معراج کے موقع پر ہوئی، قرآن وسنت اور اجماع امت کی رو سے نماز کی ادائیگی کے پانچ اوقات ہیں، واقعہ معراج سے قبل بعض حضرات کا قول ہے کہ صبح وشام دو وقت اور دو رکعت والی نمازیں تھیں۔
رہی بات کہ ابتداء اسلام سے قبل نماز کا طریقہ کیا تھا؟ اس حوالے سے جمہور کی رائے یہی ہے کہ موجودہ نماز کا ہی طریقہ تھا، تاہم رکعات کی تعداد میں فرق تھا، اور پانچ نمازوں کے بجائے ایک صبح کی نماز (جو طلوعِ شمس سے قبل ادا کی جاتی تھی) اور دوسری شام کی نماز جو غروب کے آس پاس ادا کی جاتی تھی۔ بعض اہلِ علم کی رائے یہ ہے کہ معراج سے قبل نماز کا مروجہ طریقہ نہیں تھا، بلکہ دعا کی ایک شکل تھی، جسے صلاۃ کا نام دیا گیا تھا، تاہم اس رائے کو جمہور محققین نے احادیثِ کثیرہ کی بنا پر رد کیا ہے؛ راجح وہی ہے جو جمہور کی رائے ہے۔
مزید تفصلات ابن رجب کی فتح الباری شرح البخاری میں دیکھی جا سکتی ہیں:
’’وقال قتادۃ: کان بدء الصلاۃ رکعتین بالغداۃ ورکعتین بالعشی۔ وإنما أراد ہؤلاء: أن ذلک کان فرضا قبل افتراض الصلوات الخمس لیلۃ الإسراء الخ‘‘(۱)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کا آغاز جس روایت سے کیا ہے، جو حدیث ِ ہرقل کے نام سے مشہور ہے، اس میں ہے کہ جب ہرقل بادشاہ نے ابو سفیان (جو اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے) سے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں جواب میں جو امور بتلا ئے ان میں سے ایک نماز کا بھی تذکرہ تھا:
فقال لہ: (ماذا یأمرکم؟) قلت: یقول: اعبدوا اللّٰہ وحدہ ولاتشرکوا بہ شیئا واترکوا ما یقول آباؤکم؛ ویأمرنا بالصلاۃ والصدق والعفاف والصلۃ۔(۲)
’’قال الحافظ ابن رجب رحمہ اللّٰہ: وہو یدل علی أن النبي کان أہم ما یأمر بہ أمتہ الصلاۃ، کما یأمرہم بالصدق والعفاف، واشتُہر ذلک حتی شاع بین الملل المخالفین لہ في دینہ، فإن أبا سفیان کان حین قال ذلک مشرکاً، وکان ہرقل نصرانیاً۔ ولم یزل منذ بُعث یأمر بالصدق والعفاف، ولم یزل یصلي أیضاً قبل أن تفرض الصلاۃ۔ انتہی‘‘(۳)
’’قال الحافظ ابن حجر رحمہ اللّٰہ: ذہب جماعۃ إلی أنہ لم یکن قبل الإسراء صلاۃ مفروضۃ، إلا ما وقع الأمر بہ من صلاۃ اللیل من غیر تحدید، وذہب الحربي إلی أن الصلاۃ کانت مفروضۃً رکعتین بالغداۃ ورکعتین بالعشي، وذکر الشافعي عن بعض أہل العلم أن صلاۃ اللیل کانت مفروضۃً، ثم نسخت بقولہ تعالی: {فَاقْرَأُوا مَا تَیَسَّرَ مِنہَ} (سورۃ المزمل: ۲۰) فصار الفرض قیام بعض اللیل، ثم نسخ ذلک بالصلوات الخمس)۔ انتہی‘‘(۴)
’’أصل وجوب الصلاۃ کان في مکۃ في أول الإسلام؛ لوجود الآیات المکیۃ التي نـزلت في بدایۃ الرسالۃ تحث علیہا۔ وأما الصلوات الخمس بالصورۃ المعہودۃ فإنہا فرضت لیلۃ الإسراء والمعراج۔ قال الإمام الشافعي رحمہ اللّٰہ: سمعت من أثق بخبرہ وعلمہ یذکر أن اللّٰہ أنزل فرضا في الصلاۃ، ثم نسخہ بفرض غیرہ، ثم نسخ الثاني بالفرض في الصلوات الخمس۔ قال الشافعي: کأنہ یعني قول اللّٰہ عز وجل: {ٰٓیاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُہلا ۱ قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلاً ہلا ۲ نِّصْفَہٗٓ اَوِانْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلاًہلا ۳ } (المزمل:۱-۳) ثم نسخہا في السورۃ معہ بقول اللّٰہ جل ثناؤہ: {إنَّ رَبَّکَ یَعْلَمُ أَنَّکَ تَقُومُ أَدْنَی من ثُلُثَیْ اللَّیْلِ وَنِصْفَہُ} (المزمل:۲۰) إلَی قَوْلِہِ: {فَاقْرَئُ وا ما تَیَسَّرَ من الْقُرْآنِ}، فنسخ قیام اللیل أو نصفہ أو أقل أو أکثر بما تیسر۔ وما أشبہ ما قال بما قال۔ انتہی‘‘(۱)
اسی طرح پنج گانہ نماز کی فضیلت کے متعلق حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے فضائل ومحامد کو بیان کرتے ہوئے اسے برائیوں اور صغیرہ گناہوں سے رہائی حاصل کرنے کا انتہائی موثر ذریعہ قرار دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین پر نماز کی افادیت ایک بلیغ تمثیل کے ذریعے واضح کردی جسے حدیث مبارکہ کے الفاظ میں یوں بیان کیا گیا ہے۔
کیا تم دیکھتے ہو کہ اگر تم میں سے کسی کے دروازے کے سامنے نہر (بہہ رہی) ہو جس میں وہ ہر روز پانچ مرتبہ غسل کرے تو کیا اس کے جسم پر کچھ میل کچیل باقی رہ جائے گا انہوں نے عرض کیا اس پر کچھ میل باقی نہ رہے گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی پانچ نمازوں کی مثال ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔
’’أرأیتم لو أن نہراً بباب أحدکم یغتسل فیہ کل یوم خمساً ما تقول ذلک یبقی من درنہ قالوا لا یبقی من درنہ شیئاً قال فذلک مثل الصلوات الخمس یمحوا اللّٰہ بہا الخطایا‘‘(۲)
قرآنِ کریم میں ہے:
{وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَيِ النَّھَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِط اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِط}(۱)
اور آپ دن کے دونوں کناروں میں اور رات کے کچھ حصوں میں نماز قائم کیجئے بے شک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’تم گناہ کرتے رہتے ہو اور جب صبح کی نماز پڑھتے ہو تو وہ انہیں دھو دیتی ہے، پھر گناہ کرتے رہتے ہو اور جب نمازِ ظہر پڑھتے ہو تو وہ انہیں دھو دیتی ہے، پھر گناہ کرتے ہو اور جب نمازِ عصر پڑھتے ہو تو وہ انہیں دھو دیتی ہے، پھر گناہ کرتے رہتے ہو اور جب نمازِ مغرب پڑھتے ہو تو وہ انہیں دھو دیتی ہے، پھر گناہ کرتے رہتے ہو جب نمازِ عشاء پڑھتے ہو تو وہ انہیں دھو ڈالتی ہے، پھر تم سو جاتے ہو اور بیدار ہونے تک تمہارا کوئی گناہ نہیں لکھا جاتا۔
’’عن عبد اللّٰہ بن مسعود عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: تحترقون تحترقون، فإذا صلیتم الفجر غسلتہا، ثم تحترقون تحترقون، فإذا صلیتم الظہر غسلتہا، ثم تحترقون تحترقون فإذا صلیتم العصر غسلتہا، ثم تحترقون تحترقون فإذا صلیتم المغرب غسلتہا ثم تحترقون تحترقون فإذا صلیتم العشاء غسلتہا، ثم تنامون، فلا یکتب علیکم شيء حتی تستیقظوا، لم یروہ عن حماد بن سلمۃ مرفوعا إلا اللاحقي‘‘(۲)
(۱) ابن رجب، فتح الباري شرح البخاري، ’’کتاب الصلاۃ: باب کیف فرضت الصلاۃ لیلۃ الإسراء‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۴۔(شاملہ)
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’باب کیف کان بدء الوحي إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۴، رقم: ۷۔
(۳) ابن رجب، فتح الباري شرح البخاري، ’’کتاب الصلاۃ: باب کیف فرضت الصلاۃ لیلۃ الإسراء‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۱۔(شاملہ)
(۴) ابن رجب، فتح الباري شرح البخاري،’’کتاب الصلوۃ: باب وجوب الصلاۃ في الثیاب‘‘: ج ۱، ص: ۵۵۴، رقم: ۳۵۰۔(شاملہ)
(۱) الإمام الشافعي، الأم‘: ج ۱، ص:۱۵۵؛ وأیضاً:الموسوعۃ الفقہیۃ: ج ۲۷، ص: ۵۲، کویت
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلوۃ: بــاب الصلوٰۃ الخمـس کفارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۷، رقم: ۵۰۵؛ وأخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلوۃ: باب المشي إلی الصلوٰۃ تمحی بہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۷، رقم: ۶۶۷۔
(۱) سورۂ ہود: ۱۱۴۔
(۲) أخرجہ الطبراني، في المعجم الصغیر، ’’من اسمہ أحمد‘‘: ج۱، ص: ۹۱، رقم:۱۲۱۔
فتاوى دار العلوم وقف ج 4 ص: 38 تا 41
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: مخنث یعنی ہیجڑے کی اذان واقامت مکروہ ہے اور لوٹانا بہتر ہے لازم نہیں ہے۔
’’یکرہ أذان جنب (الخ) وخنثی وفاسق۔ فیعاد أذان الکل ندباً‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج۲ ، ص: ۶۰۔
(ویکرہ أذان جنب وإقامتہ وإقامۃ محدث لا أذانہ) علی المذہب(و) أذان (امرأۃ) وخنثی۔ (أیضًا)
(وأما) الذي یرجع إلی صفات المؤذن فأنواع أیضا: (منہا) أن یکون رجلا۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، سنن الأذان وصفات المؤذن‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص176
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: نیت کا تعلق دل سے ہے اور اگر دل میں نماز کی نیت کرلی تو نماز صحیح اور درست ہوجائے گی؛ البتہ زبان سے الفاظ بھی کہہ لے تو بہتر ہے۔ امام صاحب کی نیت یہ ہونی چاہئے، مثلاً: آج کی فجر کی دو رکعت فرض اپنی اور اپنے مقتدیوں کی طرف سے اداء کرنے کی نیت کرتا ہوں اور اس کے بعد نماز شروع کردے۔(۱)
(۱) النیۃ ہي في اللغۃ مطلق القصد وفي الشریعۃ قصد کون الفعل لما شرع لہ والعبادات إنما شرعت لنیل رضاء اللّٰہ تعالیٰ ولا یکون ذلک إلا بإخلاصہا لہ فالنیۃ في العبادات قصد کون الفعل للّٰہ تعالیٰ لیس غیر۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري، ’’کتاب الصلاۃ: الشرط السادس النیۃ‘‘: ص: ۲۱۶، دار الکتاب دیوبند)
وتشترط النیۃ وہي الإرادۃ الجازمۃ لتتمیز العبادۃ عن العادۃ ویتحقق الإخلاص فیہا للّٰہ سبحانہ وتعالیٰ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلوٰۃ‘‘: ص: ۲۱۵، شیخ الہند دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص301
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام کے سلام پھیرنے پر ہی اقتداء ختم ہو جاتی ہے اور اب سب کو اپنی اپنی دعا کرنی ہوتی ہے جہاں ایسا ہوتا ہے وہاں لوگ خود دعا نہیں کرتے ہیں؛ بلکہ امام کے انتظار میں رہتے ہیں جب امام دعاء کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہے تو مقتدی حضرات کو اطلاع دینے کے لیے مؤذن بلند آواز سے آمین کہتا ہے اس پر سب مقتدی دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں اور امام کے دعا ختم کرنے پر مقتدی حضرات کو اطلاع دینے کے لیے مؤذن لا الہ الا اللہ کہتا ہے بظاہر اس سے دعا کا التزام لازم آتا ہے جو مناسب نہیں ہے۔(۱)
(۱) البدعۃ أصلہا: ماأحدث علی غیر مثال سابق۔ (ابن حجر العسقلاني، فتح الباري، ’’کتاب الصلاۃ، باب فضل من قام رمضان‘‘: ج ۴، ص: ۲۵۳)
عن عائشۃ قالت قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا مالیس منہ فہو رد، متفق علیہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: الفصل الأول: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۷، رقم: ۱۴۰، یاسر ندیم دیوبند)
عن أبي ہریرۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال إذا أمن القارئ فأمنوا فإن الملائکۃ تؤمن فمن وافق تأمینہ تأمین الملائکۃ غفرلہ ما تقدم من ذنبہ۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ،’’کتاب الدعوات: باب التأمین‘‘: ج۲، ص: ۹۴۷،رقم: ۶۴۰۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص444
متفرقات
Ref. No. 1829
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دنیا وآخرت کی تمام منزلوں میں کام آنے والے اعمال کی رہنمائی کے لئے قرآن کریم اور حدیث پاک کو مضبوطی سے تھامئے، ان کو پڑھئے، سمجھئے اور ان کے مطابق زندگی گزارئے۔ اسی کے ساتھ اس موضوع سے متعلق دیگر اردو کتابوں کا پڑھنا بھی مفید ہوگا۔ ذیل میں چند کتابوں کے نام درج کئے جاتے ہیں، حسب سہولت ان کا مطالعہ کیجئے۔ (1) مرنے کے بعد کیا ہوگا؟:مؤلفہ مولانامحمد عاشق الہی بلندشہری۔ (2) جنت کا آسان راستہ: مؤلفہ مولانا محمد رفیع عثمانی صاحب (3) قبر کی پہلی رات: مؤلفہ صوفی محمداسماعیل صاحب (4) عقائد اسلام: مولانا ادریس کاندھلوی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
آداب و اخلاق
Ref. No. 856 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم- پینٹ، شرٹ پہننی جائز ہے، خیال رہے کہ بہت ٹائٹ نہ پہنی جائے کہ ستر کی ساخت واضح ہو یا سجدہ وغیرہ میں پریشانی ہو۔ ٹائی عیسائیوں کا مذہبی شعار رہا ہے اور آج کل فیشن بھی ہے، اگر شعار ہونے کی وجہ سے استعمال کیا جائے تو ناجائز ہے اور اگرصرف بطور فیشن ہو تو اس کی گنجائش ہے۔ واللہ تعالی اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 39/1097
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جائز ہے ۔ تاہم ادب یہ ہے کہ قرآن کی تلاوت اطمینان کے ساتھ بیٹھ کر سنی جائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند