Frequently Asked Questions
طلاق و تفریق
Ref. No. 935/41-68
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب تک زبان سے طلاق وغیرہ کے کچھ الفاظ نہیں بولے گا نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ وسوسوں سے پرہیز کریں۔ صبح و شام معوذتین کا ورد کریں ۔اور دعاء کریں ان شاء اللہ فائدہ ہوگا.
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Usury / Insurance
Ref. No. 1024/41-219
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
The Muslim brother should sell the precious stone received as a guarantee and keep only as much money as the non-Muslim owed to him i.e. 10000 USD only. The rest amount of 90,000 USD must be returned to the non-Muslim brother. The non-Muslim brother is the owner of extra amount of 90,000. So it is forbidden and haram as per Shariah for a Muslim to take extra amount.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
طلاق و تفریق
Ref. No. 1484/42-949
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح غلطی سے زبان پرمطلقہ کا لفظ جاری ہونےسے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ طلاق کے لئے بیوی کی جانب نسبت ضروری ہے جبکہ مذکورہ جملہ اور اس کا پس منظر بالکل مختلف ہے۔ آپ کی نیت اپنی بیوی کو طلاق دینے کی نہیں تھی۔ اس لئے صورت بالا میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔
قال لها: إن خرجت يقع الطلاق فخرجت لم يقع الطلاق لتركه الإضافة لها كذا في القنية في باب فيما يكون تعليقا أو تنجيزا. (الھندیۃ الفصل الثالث فی تعلیق الطلاق بکلمۃ ان 1/439) "لا يقع من غير إضافة إليها". ( شامی، كتاب الطلاق، باب الصريح، 3/273)
(قَوْلُهُ: لِتَرْكِهِ الْإِضَافَةَ) أَيْ الْمَعْنَوِيَّةَ، فَإِنَّهَا الشَّرْطُ، وَالْخِطَابُ مِنْ الْإِضَافَةِ الْمَعْنَوِيَّةِ، وَكَذَا الْإِشَارَةُ نَحْوُ هَذِهِ طَالِقٌ، وَكَذَا نَحْوُ امْرَأَتِي طَالِقٌ، وَزَيْنَبُ طَالِقٌ". (شامی، كتاب الطلاق، باب الصريح، 3/248)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:پہلی آیت میں یہود و نصاریٰ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے خدا کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو خدا بنا لیا ہے؛ یعنی جو منصب خدا کا تھا یعنی حلال اور حرام کی تشریع وہ یہود ونصاریٰ نے اپنے عالموں اور درویشوں کو دیدیا وہ اگر حلال کو حرام اور حرام کو حلال کہہ دیتے ہیں، تو یہ اس کو سند کہتے ہیں، کتب سماویہ سے کوئی سروکار نہیں رکھتے۔ دوسری آیت سورۃ عبس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن تو وہ ہے جس کی آیتیں آسمان کے اوپر نہایت معزز بلند مرتبہ صاف سنہرے ورقوں میں لکھی ہوئی ہیں اور زمین پر مخلص ایماندار بھی اس کے اوراق نہایت عزت و احترام اور تقدیس و تطہیر کے ساتھ اونچی جگہ رکھتے ہیں یعنی وہاں فرشتے اس کو لکھتے ہیں اس کے موافق وحی اترتی ہے اور یہاں بھی اوراق میں لکھنے اور جمع کرنے والے دنیا کے بزرگ ترین پاکباز نیکوکار اور فرشتہ خصلت بندے ہیں، جنہوں نے ہر قسم کی کمی بیشی اور تحریف وتبدیل سے اس کو پاک رکھا ہے۔ ترجمہ آیت پاک کا یہ ہے، یوں نہیں وہ تو نعمت ہے پھر جو کوئی چاہے اس کو پڑھے، لکھا ہے عزت کے ورقوں میں، اونچے رکھے ہوئے ہیں، نہایت بہترین ہاتھوں میں لکھنے والوں کے جو بڑے درجے کے نیکوکار ہیں، مارا جاوے انسان کیسا ناشکرا ہے۔ پس ان تینوں آیتوں پر تو ہر مسلمان کا عقیدہ ہے۔ مکان کی دیوار پر اس طرح ایسے حصے پر لکھنا کہ بارش وغیرہ کے پانی سے حروف دھل کر پانی نیچے نہ گرے مباح ہے۔ امام صاحب کا یہ کہنا کہ اس سے ہمارے عقیدے خراب ہوتے ہیں (العیاذ باللہ) بالکل ہی غلط بات ہے۔ امام صاحب کو یہ بتلانا ہوگا جو جملے وہ بولتے ہیں اس سے ان کا مقصد اور منشا کیا ہے اور ان کے جملوں کی کیا تاویل کی جائے۔ ورنہ آیات سے متعلق ان کے مذکورہ جملے سلب ایمان کا سبب بن سکتے ہیں، ایسی صورت میں ان کے پیچھے نماز بھی صحیح نہیں ہوگی، آپ جو عبارات لکھواتے ہیں ان میں بھی ابہام ہوجاتا ہے پہلی آیت کے ترجمے میں انہوں نے بجائے یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہود ونصاریٰ نے اپنے علماء ومشائخ کو اپنا رب بنا لیا، ورنہ عوام اس کا غلط مطلب بھی نکال سکتے ہیں۔ اگر امام صاحب اسی بنا پر منع کرتے ہیں تو پھر وہ خاطی نہیں۔ بہر حال امام صاحب کے بارے میں کچھ اس وقت تک نہیں کہا جاسکتا جب تک ان کا منشا و مقصد معلوم نہ ہو امام صاحب کو اپنے ہمنواؤں سے مٹوا دینا بہت غلط بات ہے اگر کوئی خامی ہے، تواس کی اصلاح کرنی چاہئے تھی نہ یہ کہ فتنہ اور جھگڑے کی راہ کھولیں، ان کو پرہیز لازم ہے۔(۱)
(۱) عن مصعب بن سعد، عن عدي بن حاتم رضي اللّٰہ عنہ، قال: أتیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم وفي عنقي صلیب من ذہب۔فقال: یا عدی اطرح عنک ہذا الوثن، وسمعتہ یقرأ فی سورۃ براءۃ: (إِتَّخَذُوْٓا أَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ أَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ)، قال: أما إنہم لم یکونوا یعبدونہم، ولکنہم کانوا إذا أحلوا لہم شیئا استحلوہ، وإذا حرموا علیہم شیئا حرموہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ”أبواب التفسیر: ومن سورۃ التوبۃ“: ج ۲، ص: ۴۰۱، رقم: ۵۹۰۳)
ومن حجد القرآن أي کلہ أو سورۃ منہ أو آیۃ قلت، وکذا کلمہ أو قرأۃ متواترۃ أو زعم إنہا لیست من کلام اللّٰہ تعالیٰ کفر۔ (أبوحنیفۃ -رحمہ اللّٰہ- شرح الفقہ الأکبر، ”فصل فیما یتعلق بالقرآن والصلاۃ“: ص: ۹۷۲)
وینقض أي الإیمان بارتکاب أعمالہ السیءۃ (وفیہ) …… ثم الطاعۃ والعبادۃ ثمرۃ الإیمان ونتیجۃ الإیقان وتنور القلب تنور العرفان بخلاف المعصیۃ فإنہا تسود القلب ومصحف محبۃ العرب ربما یجرہ مداومۃ العصیان إلی ظلمات الکفران۔ (أبوحنیفۃ -رحمہ اللّٰہ- شرح الفقہ الأکبر، ”بحث في أن المؤمنین مستوون في الإیمان“: ص: ۶۴۱)
وعلم التفسیر یؤخذ من أفواہ الرجال کأسباب النزول والناسخ والمنسوخ، ومن أقوال الأئمۃ وتأویلاتہم بالمقاییس العربیۃ کالحقیقۃ والمجاز والمجمل والمفصل والعام والخاص، ثم یتکلم علی حسب ما یقتضیہ أصول الدین، فیؤول القسم المحتاج إلی التأویل علی وجہ یشہد بصحتہ ظاہر التنزیل فمن لم یستجمع ہذہ الشرائط کان قولہ مہجورا وحسبہ من الزاجر أنہ مخطیء عند الإصابۃ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ”کتاب العلم: الفصل الثاني“: ج ۱، ص: ۷۴۴، رقم: ۵۳۲)
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1756/43-1466
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر مسبوق کو اپنی چھوٹی ہوئی رکعتیں یاد تھیں، لیکن اس کو مسئلہ معلوم نہیں تھا اس وجہ سے اس نے امام کے ساتھ سلام پھیرا تو اس کی نماز فاسد ہوگی اور ازسرنو نماز پڑھنی ہوگی۔ اور اگر اس کو رکعتوں کا چھوٹنا یاد نہیں تھا اور بھول کر امام کے ساتھ سلام پھیرنے میں شریک ہوگیا تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی اور چھوٹی ہوئی رکعتیں پڑھ لینے سے نماز درست ہوجائے گی۔
يفسدها السلام للصلاة عمدا وأما غيره فإن كان على ظن أن الصلاة تامة فغير مفسد وإن كان ناسيا للصلاة فمفسد ولو سلم على رجل تفسد مطلقا. كذا في شرح أبي المكارم.
المسبوق إذا سلم على ظن أن عليه أن يسلم مع الإمام فهو سلام عمد يمنع البناء. كذا في الخلاصة في مما يتصل بمسائل الاقتداء مسائل المسبوق وهكذا في فتاوى قاضي خان في فصل فيمن يصح الاقتداء به.
ولو سلم المسبوق مع الإمام ينظر إن كان ذاكرا لما عليه من القضاء فسدت صلاته وإن كان ساهيا لما عليه من القضاء لا تفسد صلاته؛ لأنه سلام الساهي فلا يخرجه عن حرمة الصلاة. كذا في شرح الطحاوي في باب سجود السهو. (الھندیۃ الفصل الاول فیما یفسدھا 1/98)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
The Holy Qur’an & Interpretation
Ref. No. 1963/44-1884
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
No matter how big a person's mistake is, Allah's power is bigger than that. True repentance before Allah makes a person as if he had not committed a sin. Therefore, the mistake you have committed and you are extremely ashamed of it and you determine never to repeat that sin in the future, then it will be your sincere repentance, and Allah will be pleased with you. It is mentioned in Ahadith that the one who repents after committing a sin, he is like a new-born baby. Allah is great, keep on worshiping Him, believe in His mercy, and never commit any sin in your lifespan, and keep asking Allah for a good and satisfying life.
’’قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ‘‘ [الزمر:53]
’’اِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ التَّوَّابِینَ وَ یُحِبُّ المُتَطَهِّرِینَ‘‘ [البقرة:222]
’’حدثنا أخشن السدوسي، قال: دخلت على أنس بن مالك قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " والذي نفسي بيده - أو والذي نفس محمد بيده - لو أخطأتم حتى تملأ خطاياكم ما بين السماء والأرض، ثم استغفرتم الله لغفر لكم، والذي نفس محمد بيده - أو والذي نفسي بيده - لو لم تخطئوا لجاء الله بقوم يخطئون، ثم يستغفرون الله، فيغفر لهم.‘‘ مسند الإمام أحمد بن حنبل (ج:21، ص:146، ط: مؤسسة الرسالة(
’’عن أبي سعيد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لله أفرح بتوبة عبده من رجل أضل راحلته بفلاة من الأرض، فالتمسها، حتى إذا أعيا تسجى بثوبه، فبينا هو كذلك إذ سمع وجبة الراحلة حيث فقدها، فكشف الثوب عن وجهه، فإذا هو براحلته.‘‘ ’’عن أبي عبيدة بن عبد الله عن أبيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "التائب من الذنب كمن لا ذنب له.‘‘ ’’عن أنس رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "كل بني آدم خطاء، وخير الخطائين التوابون.‘‘ سنن ابن ماجه (ج:5، ص:319-321، ط: دار الرسالة العالمية(
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قبروں و مزاروں پر چڑھاوا ناجائز ہے(۱) غیر اللہ کے نام پر جو چڑھاوا چڑھایا گیا ہے وہ مال حرام ہے جس کے مالک چڑھاوا چڑھانے والے ہی ہوتے ہیں اور مال حرام کا حکم یہ ہے کہ جن کا مال ہو انہیں کو واپس کرنا ضروری ہے اگر واپسی دشوار ہو تو غرباء پر بلانیت کے تصدق کردیا جائے، مذکورہ صورت میں بھی رقم کا بلا نیت ثواب تصدق واجب ہے۔(۲)
(۱) {وَمَآ أُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِج} (سورۃ البقرۃ: ۱۷۳)
ولا بأس بزیارۃ القبور ولو للنساء وقیل تحرم علیہن والأصح أن الرخصۃ ثابتۃ لہن بحر۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في زیارۃ القبور‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۰)
(۲) وإلا تصدقوا بہا لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: باب الاستبراء وغیرہ، فصل في البیع‘‘: ج۹، ص: ۵۵۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص361
فقہ
Ref. No. 2481/45-3764
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ نے اپنا گوڈاؤن براہ راست فلم والوں کو نہیں دیاہے، بلکہ آپ نے جس کو دیا ہے اس نے جہاں اوروں کا سامان کرایہ پر رکھاہے وہیں فلم والوں کا بھی رکھ لیا ہے، تو اس سے آپ کی کرایہ والی آمدنی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس لئے اس شخص کو گوڈاؤں کرایہ پر دینا جائز ہے اورآپ کے لئے اس کا پورا کرایہ حلال ہے۔ تاہم اگرایساہوتا رہاتو آپ کو یہ کرایہ داری ختم کردینی چاہئے۔
وَلَا بَأْسَ بِأَنْ يُؤَاجِرَ الْمُسْلِمُ دَارًا مِنْ الذِّمِّيِّ لِيَسْكُنَهَا فَإِنْ شَرِبَ فِيهَا الْخَمْرَ، أَوْ عَبَدَ فِيهَا الصَّلِيبَ، أَوْ أَدْخَلَ فِيهَا الْخَنَازِيرَ لَمْ يَلْحَقْ الْمُسْلِمَ إثْمٌ فِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ؛ لِأَنَّهُ لَمْ يُؤَاجِرْهَا لِذَلِكَ وَالْمَعْصِيَةُ فِي فِعْلِ الْمُسْتَأْجِرِ وَفِعْلُهُ دُونَ قَصْدِ رَبِّ الدَّارِ فَلَا إثْمَ عَلَى رَبِّ الدَّارِ فِي ذَلِكَ. (سرخسى، المبسوط، 16: 39، بيروت: دارالمعرفة) (الشيخ نظام و جماعة من علماء الهنديه، الفتاویٰ الهنديه، 4: 450، بيروت: دارالفکر)
وَمَنْ أَجَّرَ بَيْتًا لِيُتَّخَذَ فِيهِ بَيْتُ نَارٍ أَوْ كَنِيسَةٌ أَوْ بِيعَةٌ أَوْ يُبَاعُ فِيهِ الْخَمْرُ بِالسَّوَادِ فَلَا بَأْسَ بِهِ.(مرغيناني، الهداية، 4: 94، المکتبة الاسلاميه)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسجد میں ہی تمام قسم کے خیر انجام پاتے تھے، بہت سے وہ کام جو آج مسجد میں نہیں ہوتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسجد میں انجام دئے جاتے تھے۔ تعلیم وتزکیہ کی مجلس مسجد میںہی ہوتی تھیں، وعظ ونصیحت مسجد میں ہوتے تھے، صحابہ قرآن کی تلاوت مسجد میں کیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنگی امور کے مشورہ مسجد میں ہی کیا کرتے تھے، دو لوگوں کے درمیان اگر نزاع ہوجائے، تو اس کا تصفیہ مسجد میں ہوتا تھا، ابتداء میں بہت سے صحابہ کے پاس رہنے کے لیے گھر نہیں تھا، تو صحابہ مسجد میں ہی سوتے تھے، غرض کہ آپ کے زمانہ میں ہر امور خیر کو مسجد میں ہی انجام دیا جاتا تھا، رات میں بھی صحابہ سے مسجد میں قرآن پڑھنا اور نفل پڑھنا ثابت ہے؛ اس لیے اگریہ کام تبلیغی حضرات مسجد میں اس طرح انجام دیں کہ کسی دوسرے کو اپنی عبادت میں کوئی خلل نہ ہو، تو یہ درست اور عہد صحابہ کے معمول سے ثابت ہے۔(۱)
(۱) {فِيْ بُیُوْتٍ أَذِنَ اللّٰہُ أَنْ تُرْفَعَ وَ یُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗلا یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْأٰصَالِہلا ۳۶} (سورۃ النور: ۳۶)
عن أبي ہریرۃ: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: الملائکۃ تصلي علی أحدکم مادام في مصلاہ، ما لم یحدث: اللہم اغفرلہ، اللہم أرحمہ، لا یزال أحدکم في صلاۃٍ مادامت الصلاۃ تحبسہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب من جلس في المسجد ینتظر الصلوٰۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۲، رقم: ۶۵۹)
وقد کان صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا سلم من صلاتہ قال بصوتہ إلا علی لا إلہ إلا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ وتقدم وقد کان صلی اللّٰہ علیہ وسلم یأمر من یقرأ القرآن في المسجد أن یسمع قراء تہ وکان ابن عمر یأمر من یقرأ علیہ وعلی أصحابہ وہم یستمعون ولأنہ أکثر عملاً وأبلغ في التدبر ونفعہ متعد لإیقاظ قلوب الغافلین وجمع بین الأحادیث الواردۃ بأن ذلک یختلف بحسب الأشخاص والأحوال فمتی خاف الریاء أو تأذی بہ أحد کان الإسرار أفضل ومتی فقد ما ذکر کان الجہر أفضل قال في الفتاوی لا یمنع من الجہز بالذکر في المساجد۔ (أحمد بن محمد، الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في صفۃ الأذکار‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۸)
عبد اللّٰہ بن عمر، (أنہ کان ینام وہو شاب أعذب لا أہل لہ في مسجد النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم) (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب لزم الرجال فی المسجد‘‘: ج ۱، ص: ۸۰، رقم: ۴۴۰)
ولا بأس للغریب ولصاحب الدار أن ینام في المسجد في الصحیح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الخامس في آداب المسجد والقبلۃ‘‘ : ج ۵، ص: ۳۲۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص87
متفرقات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:آجکل مردوں کی تعلیم کی طرف تو علماء و دیگر حضرات توجہ دے رہے ہیں لیکن عورتوں کی تعلیم کے لئے کوئی خاص نظم موجودہ دور میں مسلم معاشرہ میں نہیں پایا جاتا حالانکہ جس طرح مردوں پر حصول تعلیم لازم و ضروری ہے اسی طرح دینی تعلیم، تشریع اسلامی فقہ و حدیث وغیرہ کا حاصل کرنا عورتوں پر بھی ضروری ہے کم ازکم اس درجہ حصول تعلیم تو فرض ہے کہ نماز، روزہ، حج وزکوٰۃ اور ان کے شرائط مثلاً طہارت وغیرہ سے پورے طور پر اس کو جانکاری حاصل ہوجائے اور ارکان اسلام کی صحیح ادائے گی پر عورت قادر ہو۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ’’طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم ومسلمۃ‘‘ (الحدیث) بعض حضرات نے ’’مسلمۃ‘‘ کے لفظ کو مدرج فی الحدیث کہا ہے، اگر اس لفظ کو مدرج ہی مانا جائے تب بھی حدیث صرف مردوں کے لئے نہیں ہے بلکہ ’’مسلم‘‘ کے لفظ میں تبعاً عورتیں بھی داخل ہیں، نیز اتنا علم حاصل کرنا ضروریات و واجبات دین میں سے ہے اور اس سے زائد حاصل کرنے میں دینی ومعاشرتی فائدے بیشمار ہیں۔
خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس عورتوں کو مسائل بتلاتے اور عورتیں کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسائل دریافت کرتیں۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو خصوصاً فقہ اسلامی میں ید طولیٰ حاصل تھا۔ حضرات صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مسائل دریافت کیا کرتے تھے، فقہاء کے یہاں بھی اس کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں صاحب بدائع صنائع علامہ کاسانی رحمہ اللہ جو فقہ حنفی کے اہم افراد و متبحرین میں شمار کئے جاتے ہیں، ان کی صاحبزادی اور اہلیہ فقہ میں بڑی مہارت رکھتی تھیں حتی کہ ہر فتویٰ پر ان کی صاحبزادی کے دستخط لازمی ہوتے تھے۔ لوگ ان سے مسائل معلوم کرتے اور وہ لوگوں کو مسائل بتلاتی تھیں۔ اسی طرح کی بہت سی مثالیں اسلامی معاشرہ میں ملتی ہیں۔ در مختار کے ایک مسئلہ سے اس کی پوری وضاحت ہوتی ہے در مختار میں ہے کہ: اگر کمسن لڑکی کی شادی باپ دادا کے علاوہ نے یا کسی کمسن باندی کی شادی غیر آقا نے کرادی تو وقت بلوغ ان دونوں کو خیار حاصل ہوگا کہ قاضی شرعی کے یہاں درخواست دے کر اس نکاح کو ختم کرادیں۔ شرط یہ ہے کہ جب بالغ ہو تو فوراً عدم رضا کا اظہارکرے اور اپنے تئیں یہ طے کرے کہ اس نکاح کو باقی نہیں رکھنا۔ اگر بلوغ کے سال دو سال بعد اپنا خیار فسخ حاصل کرنا چاہے تو خیار فسخ حاصل نہ ہوگا اگر آزاد عورت یہ کہے کہ مجھے مسئلہ معلوم نہیں تھا کہ فوراً فسخ کا اظہار ضروری ہے تو اس کی بات قابل اعتناء و اعتبار نہ ہوگی ہاں اگر باندی یہ کہے کہ مجھے مسئلہ معلوم نہیں تھا تو اس کی بات کا اعتبار کیا جائے گا۔ وجہ یہ ہے کہ باندی کو تو حصول علم کا موقع نہیں ملتا کہ وہ اتنا علم حاصل کرے اور آزاد عورت کو مواقع حاصل ہیں۔ اس لئے اس پر لازم تھا کہ وہ اتنا علم حاصل کرتی (کتاب النکاح از درمختار) معلوم ہوا کہ ایسے باریک جزئیات پر بھی نظر ہونی ضروری ہے آجکل عورتیں نماز روزہ، نماز میں سجدۂ سہو، سے ہی غافل ہیں اس لئے کہ ان کی تعلیم کا مردوں نے کوئی نظم ہی نہیں کیا، رہا یہ کہ عورتوں کی تعلیم کے لئے اگر مردوں کو معلم رکھا جائے تو ’’صوۃ المرأۃ عورۃ‘‘ سے اعتراض لازم آئے گا سو مندرجہ بالا واقعات کے پیش نظر اس کی ضرورت بھی شدید ہے پس مدرسہ میں اگر پردہ کے ساتھ تعلیم کا نظم ہو اور مرد معلم ہو تو بھی مضائقہ نہیں حتی الامکان عورتیں ہی تعلیم دیں، لیکن ضرورت کے وقت پردہ کے معقول نظم کے ساتھ اگر مرد بھی تعلیم دے تو اس کی بھی گنجائش ہوگی۔
البتہ یہ لازم ہے کہ خود مرد عورتوں کی خبر گیری نہ کریں اسٹاف عورتوں ہی کا ہو۔ اختلاط ہر گز نہ ہو۔ جہاں کلام و بات چیت لازم ہوجائے وہاں معقول پردہ کا لحاظ رکھا جائے۔ دارالاقامہ میں پردہ کا معقول نظم ہو اس کی دیواریں اونچی ہوں وغیرہ لیکن اگر کسی لڑکی کے بارے میں یہ یقین مکمل طور پر ہو یا خود اس لڑکی کو یقین ہو کہ زنا میں مبتلا ہوجائے گی تو وہ گھر ہی میں رہ کر معمولی علم حاصل کرے جو حضرات ایسے وقت پر بھی دارالاقامہ یا مدرسہ میں طالبات یا کسی طالبہ کا آنا لازم قرار دیں یہ درست نہیں ان لوگوں کی بات شرعاً قابل تردید ہے۔ بعض خصوصی واقعات و ضروریات لازمہ کے پیش نظر علماء دیوبند مدارس البنات نہ کھول سکے ان کا مشن مردوں کی تعلیم رہا مواقع اس کے نہ مل سکے کہ اس طرف کامل طور پر توجہ دے سکتے۔ الحاصل عورتوں کی تعلیم کے نظم کی ضرورت ہے اس کی مخالفت درست نہیں ہے۔(۱)
(۱) وعن الشفاء بنت عبد اللّٰہ قالت: دخل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم و أنا عند حفصۃ فقال: (ألا تعلمین ہذہ رقیۃ النملۃ کما علمتنیہا الکتابۃ، رواہ أبو داؤد۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الطب والرقي، الفصل الثاني‘‘: ج ۸، ص: ۳۷۸، رقم: ۴۵۶۱)
وقال صاحب بذل المجہود، وفیہ دلیل علی جواز تعلم نساء الکتابۃ الخ۔ (بذل المجہود: ج ۵، ص: ۸)
وکن نسائٌ یبعثن إلی عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا: بالدرجۃ فیہا الکرسف فیہ الصفرۃ، فتقول: ألا تعجلن حتی ترین القصۃ البیضاء۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الحیض: باب إقبال المحیض وإدبارہ‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۶)
إعلم أنہ لما کان الرجال یہیجہم النظر إلی النساء علی عشقہن والتولہ بہن، ویفعل بالنساء مثل ذلک، وکان کثیراً ما یکون ذلک سبب لأن یبتغي قضاء الشہوۃ منہن علی غیر السنۃ الراشدۃ، کاتباع من ہي في عصمۃ غیرہ، أو بلا نکاح، أو غیر اعتبار کفائۃ والذي شوہد في ہذ الباب یغني عما سطر في الدفاتر اقتضت الحکمۃ أن یسد ہذا الباب۔ (الإمام الشاہ ولي اللّٰہ محدث الدہلوي، حجۃ اللّٰہ البالغۃ: ج ۱، ص: ۶۸۶)
وکل عمل ولو تبرعاً لأجنبي ولو قابلۃ أو مغلسۃ لتقدم حقہ علی فرض الکفایۃ، ومن مجلس العلم إلا لنازلۃ امتنع زوجہا من سؤالہا۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطلاق: باب النفقۃ، مطلب في الکلام علی المؤنسۃ‘‘: ج ۵، ص: ۳۲۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص182