اسلامی عقائد

Ref. No. 1593/43-1137

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ معذور سے کس قسم کا معذور مراد ہے، اس کی وضاحت ضروری ہے ۔ اگر کسی کو پاکی ناپاکی کا عذر شرعی ہے تو ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔اگر اس  نے نماز پڑھادی تو اس کے پیچھے نماز درست نہیں ہوئی، اعادہ کرنا ضروری ہے۔اور اگر پیر وغیرہ کسی عضو سے معذور ہے تو اگر وہ کھڑا ہوکر تمام ارکان کے ساتھ نماز اداکرنے پر قادر ہے تو اس کے پیچھے نماز درست ہے۔ لیکن اگر وہ تمام ارکان ادا کرنے پر قادر نہ  ہومثلا بیٹھ کر نماز اداکرے تو اس کے پیچھے نماز نہیں ہوگی۔ کوئی دوسرا امام منتخب کرلینا چاہئے۔ اگر کوئی نہ ہو تو ایسی مجبوری میں کسی فاسق کو امام بنالینا بھی درست ہے۔

قال الحصکفي: وصاحب عذر من بہ سلسل بول إن استوعب عذرہ تمام وقت صلاة مفروضة بإن لا یجد في جمیع وقتہا زمنًا یتوضأ ویصلي فیہ خالیًّا عن الحدث- قال ابن عابدین نقلاً عن الرحمتي: ثم ہل یشترط أن لا یمکنا مع سننہما أو الاقتصار علی فرضہما؟ یراجع اھ أقول الظاہر الثاني (شامی مطلب في أحکام المعذور 1/504) وقال الحصکفي: ولا طاہر بمعذور (شامی باب الإمامة 2/278) وقال: وتکرہ إمامة -فسق- وفي النہر عن المحیط: صلی خلف فاسق- نال فضل الجماعة- قال ابن عابدین: لکن لا ینال کما ینال خلف تقي ورع۔ (شامی، باب الإمامة 2/254) (وصح اقتداء متوضئ) لا ماء معه (بمتيمم) - - - (وقائم بقاعد) يركع ويسجد؛ «لأنه صلى الله عليه وسلم صلى آخر صلاته قاعدا وهم قيام وأبو بكر يبلغهم تكبيره» (قوله وقائم بقاعد) أي قائم راكع ساجد أو موم، وهذا عندهما خلافا لمحمد. وقيد القاعد بكونه يركع ويسجد لأنه لو كان موميا لم يجز اتفاقاً''۔(شامی، باب الامامۃ 1/588)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1674/43-1287

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کمیٹی کی رضامندی سے ایسا کرنا درست ہے۔  تاہم معاملہ بالکل صاف ستھرا ہونا چاہئے تاکہ بعد میں کسی نزاع کا اندیشہ نہ ہو۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اجماع و قیاس

Ref. No. 2350/44-3538

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔     بعض لوگوں کی مصروفیات ایسی ہیں  کہ مدرسہ کے تعلیمی اوقات میں ان کے لئے مدرسہ آنا مشکل ہوتاہے، اس لئے ایسے لوگوں کے لئے  کسی بھی مناسب پلیٹ فارم سے  آن لائن مسائل معلوم کرنے کی سہولت مہیاکرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، یہ بھی  وقت کا تقاضا اور دین کی خدمت  ہے۔ البتہ تصویر کے ساتھ مسائل بیان کرنے کی  کوئی ضرورت نہیں ہے اس لئے تصویر سے بچنا چاہئے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حدیث میں چودہ ہزار سال کا تذکرہ ہے۔ اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی ’’نشرالطیب‘‘ میں بھی چودہ ہزار سال کا ہی تذکرہ ہے۔ حدیث احکام ابن القطان کے حوالے سے متعدد کتابوں میں مذکور ہے۔ عجلونی کی ’’کشف الخفا‘‘ میں اسی طرح ’’سیرت حلبیہ، شرح الزرقانی علی المواہب‘‘ اشرف المصطفیٰ وغیرہ کتب میں یہ حدیث مذکور ہے، تاہم حدیث کی اسنادی حیثیت پر کہیں کوئی کلام نہیں ملا۔
’’کنت نورا بین یدي ربي عزوجل قبل أن یخلق بأربعۃ عشر ألف عام نقلہ العجلوني في الخفاء عن العلقمي عن علي بن الحسین عن أبیہ عن جدہ مرفوعا في ھذا الإسناد علی وابنہ صحابیان وسبطہ علی بن الحسین الملقب بزین العابدین  تابعي و أوردہ القسطلاني في باب أول المخلوقات عن مرزوق عن علی بن الحسین عن أبیہ عن جدہ‘‘(۱)

(۱) عبد الرشید بن ابرہیم، فرحۃ اللبیب بتخریج أحادیث نشرالطیب، ص:۶۹۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص98

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئول عنہا میں ذکر یا برکت یا وظیفہ کے طور پر کیف مااتفق پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اور التزام اس کا بدعت بن جائے گا۔(۱)

(۱) عن أبي أمامۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: (من قرأ آیۃ الکرسي في دبر کل صلاۃ مکتوبۃٍ لم یمنعہ من دخول الجنۃ إلا أن یموت)۔ (شرح الصدور بشرح حال الموتی والقبور، ’’فصل‘‘: ج ۱، ص: ۳۰۷)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص388

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: آپ نماز کے صحیح وفاسد ہونے کے مسائل سے واقف ہوں قرآن مجید صحیح اور تجوید کے ساتھ پڑھتے ہوں اور آپ کی دینداری پر لوگوں کو شک وشبہ نہ ہو صرف ڈاڑھی نہ نکلنے کی وجہ سے امامت کے لائق نہ سمجھتے ہوں تو ان کا خیال مناسب نہیں ہے؛ البتہ کسی کی عمر کم ہو اور خوبصورت ہو اور اس کو بد نظر لوگوں کے شہوت کے ساتھ دیکھنے کا احتمال ہو جس کی وجہ سے لوگ اس کی امامت کو ناپسند کرتے ہوں، تو اس کی امامت مکروہ ہوگی۔
’’قولہ (وکذا تکرہ خلف أمرد) الظاہر إنہا تنزیہیۃ أیضاً کما قال الرحمتي: أن المراد بہ الصبیح الوجہ لأنہ محل الفتنۃ ۔۔۔۔۔: وفي حاشیۃ المدني عن الفتاویٰ العفیفیۃ سئل العلامۃ الشیخ عبدالرحمن بن عیسیٰ المرشدي عن شخص بلغ من السن عشرین سنۃ وتجاوز حد الإنبات ولم ینبت عذارہ فھل یخرج بذلک عن حد الأمرد  فأجاب بالجواز من غیر کراہۃ وناہیک بہ قدوۃً واللّٰہ أعلم‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج ۱، ص: ۳۰۲، ۳۰۱، زکریا دیوبند۔
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص45

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2741/45-4264

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نماز درست ہوگئی،اعادہ کی ضرورت نہیں  ہے،  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اخروی ثواب کا مستحق ایمان کے ساتھ ہے بغیر ایمان قبول کیے نماز، روزہ یا روزہ داروں کو کھانا کھلانا مذکور شخص کے لیے باعث ثواب نہ ہوگا اور اگر مذکورہ شخص کی آمدنی کے حرام ہونے کا کوئی ثبوت نہیں تو پھر اس کے یہاں کھانا کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن افضل یہ ہے کہ روزہ افطار کرنے میں اجتناب کرے۔(۱)

(۱)وقال الحنفیۃ: لا یمنع الذمي من دخول الحرم، ولا یتوقف جواز دخولہ علی إذن مسلم ولو کان المسجد الحرام، یقول الجصاص في تفسیر قولہ تعالی: {اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلاَ یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ}  یجوز للذمي دخول سائر المساجد۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ: ج ۱۷، ص: ۱۸۹، الکویت)
عن الحسن أن وفد ثقیف أتوا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فضربت لہم قبۃ في مؤخر المسجد لینظروا إلی صلاۃ المسلمین وإلی رکوعہم وسجودہم، فقیل: یا رسول اللّٰہ اللّٰہ! أتنزلہم المسجد وہم مشرکون؟ فقال: إن الأرض لا تنجس، إنما ینجس وابن آدم (مراسیل أبوداؤد: ج۱، ص: ۱۱، رقم: ۱۷)(شاملہ)

فتاوى دار العلوم وقف ج 4 ص: 46

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: جس نیت سے نماز شروع کی جائے آخر تک اس نیت کا اعتبار ہوتا ہے درمیان میں صرف نیت بدل دینے سے نہ وہ نماز ہوتی ہے اور نہ ہی دوسری نماز شروع ہوتی ہے اس لیے صرف نیت سے منتقل نہ ہوگا۔(۲)

(۲) ولا معتبر بالمتأخر منہا عنہ لأن ما مضی لایقع عبادۃ لعدم النیۃ۔ (المرغینانی، ہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ التي تتقدمہا‘‘: ج۱، ص: ۹۶، دارالکتاب دیوبند)
ولا تبطل بنیۃ القطع وکذا بنیۃ الانتقال إلی غیرہا، (قولہ مالم یکبر بنیۃ مغایرۃ) بأن یکبر ناویا النفل بعد شروع الفرض وعکسہ أو الفائتۃ بعد الوقتیۃ أو الاقتداء بعد الإنفراد وعکسہ أما إذا کبر بنیۃ موافقۃ کأن نوی الظہر بعد رکعۃ الظہر من غیر تلفظ بالنیۃ فإن النیۃ الأولی لاتبطل ویبنی علیہا ولو بنی علی الثانیۃ فسدت الصلاۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج۲، ص:۱۲۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص304

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: فرض نماز کے بعد دعاء کرنا قرآن وحدیث سے ثابت ہے اور یہ دعاء کی قبولیت کا وقت ہے جس کا تقاضا ہے کہ ہر فرض نمازپڑھنے والا فرض نماز پڑھ کر دعا کرے اور اس وقت یہ دعا کرنا درست ہے اور اکابر علماء کا معمول بھی ہے، البتہ جماعت ہو جانے کے بعد امام اور مقتدی کے درمیان اقتداء کا تعلق ختم ہو جاتا ہے، اس لیے انفرادی طور پر بھی دعاء کی جا سکتی ہے؛ لیکن دعاء کرنے میں اگر اجتماعی ہیئت بن جائے تو اس میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ تاہم اس کا معمول نہ بنایا جائے۔
’’قال اللّٰہ تعالیٰ: {فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَب ہلا۷  }(۲)
’’وقال قتادۃ فإذا فرغت من صلاتک فانصب إلیٰ ربک في الدعاء‘‘(۱)
’’عن معاذ بن جبل أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أخذ بیدہ وقال یا معاذ واللّٰہ إني لأحبک فقال: أوصیک یامعاذ لاتدعن في دبر کل صلاۃ تقول: ’’اللہم أعني علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک‘‘(۲)
’’وعن علي بن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ قال کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا سلم من الصلاۃ قال اللہم اغفرلي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت وما أسرفت وما أنت أعلم بہ مني، أنت المقدم وأنت المؤخر لا إلہ إلا أنت‘‘(۳)
(۲) سورۃ الم نشرح: ۷۔
(۱) أبوبکر  الجصاص، أحکام القرآن، ’’سورۃ القدر: ۳‘‘: ج ۳، ص: ۸۱۳۔
(۲) أخرجہ أبوداود  في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب في الاستغفار‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۳، رقم: ۱۵۲۲۔
(۳) أخرجہ أبوداود  في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یقول الرجل إذا سلم‘‘ ج ۱، ص: ۲۱۲، رقم: ۱۵۰۹۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص448