Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ان کی امامت درست ہے۔ کتب فقہ میں ہے کہ صرف پانی یا صرف ڈھیلے سے استنجا کرنے سے سنت استنجا حاصل ہو جاتی ہے؛ لیکن افضل اور بہتر یہ ہے کہ دونوں سے استنجا کر ے ۔
فتاویٰ شامی میں ہے:ثم إعلم أن الجمع بین الماء والحجر أفضل ویلیہ في الفضل الاقتصار علی الماء أو علی الحجر وتحصل السنۃ بالکل۔(۲)
و غسلہ بالماء أفضل لقولہ تعالیٰ فِیْہِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَھَّرُوْا نزلت في أقوام کانوا یتبعون الحجارۃ الماء ثم ھو أدب و قیل سنۃ في زماننا۔(۳)
الأفضل الجمع بینھما، فإذا اقتصر علی أحدھما فالماء أولی۔ و إن اقتصر علی الحجر جاز۔(۱)
(۲)ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب إذا دخل المستنجي في ماء قلیل،‘‘ ج۱، ص:۵۵۰
(۳)المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الطہارات، فصل في الاستنجاء،‘‘ ج۱، ص:۷۹۔
(۱) بدرالدین العیني، البنایہ شرح الھدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في الاستنجاء،‘‘ ج۱،ص:۷۵۶
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص90
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر گنجے کے سر میں زخم وغیرہ نہیں جس سے خون بہتا ہو تو امامت اس کی بلاکراہت درست ہے کوئی وجہ عدم جواز یا کراہت کی نہیں۔(۱)
(۱) وشروط صحۃ الإمامۃ للرجال الأصحاء ستۃ أشیاء: الإسلام، والبلوغ والعقل، والذکورۃ والقراء ۃ والسلامۃ من الأعذار، کالرعاف والفأفأۃ والتمتمۃ والثلثغ وفقد شرط کطہارۃ وستر عورۃ۔ (الشرنبلالي، نورالایضاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۷۸- ۷۷، مکتبہ عکاظ دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص54
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: سنن مؤکدہ کا تارک اور ترک پر اصرار کرنے والا گناہ کبیرہ کا مرتکب ہونے کی وجہ سے فاسق ہوگیا اور اس کی امامت مکروہ تحریمی ہوگی، کسی نیک، دیندار سنت کے پابند شخص کو امام مقرر کیا جائے تاکہ نماز جیسا اہم فریضہ مسنون طریقہ پر ادا کیا جاسکے۔
’’ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق … أما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لا یہتم لأمر دینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ، وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً … بل مشی في شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم‘‘(۱)
’’الذي یظہر من کلام أہل المذہب أن الإثم منوط بترک الواجب أو السنۃ المؤکدۃ علی الصحیح لتصریحہم بأن من ترک سنن الصلوات الخمس قیل لا یأثم والصحیح أنہ یأثم۔ ذکرہ في فتح القدیر‘‘(۲)
’’رجل ترک سنن الصلوات الخمس إن لم یر السنن حقا فقد کفر لأنہ ترک استخفافاً وإن رأی حقا منہم من قال لا یأثم والصحیح أنہ یأثم لأنہ جاء الوعید بالترک‘‘(۳)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸، ۲۹۹، زکریا دیوبند۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب فيالسنۃ وتعریفہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۰، زکریا، دیوبند۔
(۳) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۸۶، زکریا ،دیوبند، وہکذا في الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوٰۃ: الباب التاسع في النوافل‘‘: ج۱، ص: ۱۷۱، زکریا دیوبند۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص182
بدعات و منکرات
Ref. No. 2751/45-4285
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ مقولہ تو ہماری ناقص معلومات میں نہیں آسکا تاہم آپ صلی اللہ علیہ سلم کی محبت کے حوالے سے یہ حدیث مشکوۃ شریف میں مسلم شریف کے حوالے سے ضرور ملتی ہے۔
’’عن زر بن حبيش قال قال علي رضي الله عنه والذي فلق الحبة وبرء النسمة أنه لعمد النبي الامى صلي الله عليه وسلم الي ان لا يحبني الا مؤمن ولا يبغضني الا منافق‘‘ (رواه مسلم)
اسی مضون کی روایت حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
’’قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يحب عليا منافق ولا يبغضه مؤمن رواه أحمد والترمذي وقال هذا حديث حسن، غريب اسناداً وعنها قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من سب عليا فقد سبني، رواه أحمد‘‘ (مشكوة شريف: ص: 564، دار الكتاب ديوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: وقت فجر شروع ہونے کے بعد فجر کی اذان پڑھی جائے وقت سے پہلے نہ پڑھی جائے، وقت سے پہلے پڑھی ہوئی اذان فجر کی اذان شمار نہیں ہوگی(۱) اور سحری کے ختم ہونے کی اطلاع کے لیے اذان نہیں ہے۔ امام صاحب کو بیان کردہ مسئلہ سے رجوع کرنا چاہئے اور صحیح مسئلہ پر عمل کرنا چاہئے کسی عمل کا صدیوں تک ہوتے رہنا اس کے صحیح ہونے کی دلیل نہیں ہے۔
(۱) قال الحصکفي: وقت الفجر من طلوع الفجر الثاني إلی طلوع ذکاء۔ (الحصکفي الدر مع الرد، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب في تعبدہ علیہ السلام الخ‘‘: ج ۲، ص: ۱۴، زکریا دیوبند)
وقال ابن عابدین تحت حد الصوم: وہو الیوم أي الیوم الشرعي من طلوع الفجر إلی الغروب۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصوم‘‘: ج ۳، ص: ۳۳۰، زکریا دیوبند)
وقال الحصکفي: فیعاد أذان وقع بعضہ قبلہ کالإقامۃ وقال: وہو سنۃ للرجال … مؤکدۃ للفرائض الخمس۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۴۸، ۵۰، زکریا دیوبند)
وإن أذن قبل دخول الوقت لم یجزہ ویعیدہ في الوقت لأن المقصود من الأذان إعلام الناس بدخول الوقت فقبل الوقت یکون تجہیلاً لا إعلاماً۔ (السرخسي، المبسوط، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص160
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس طرح نماز میں امام کو چاہئے کہ مقتدیوں کے حالات کے پیش نظر ہلکی نماز پڑھائے اسی طرح دعا میں بھی مقتدیوں کے حالات کو سامنے رکھے اور درمیانی طریقہ کار اختیار کرے نہ بہت وقت دعا میں لگائے اور نہ بہت ہی کم۔ جن نمازوں کے بعد سنتیں ہیں ان میں سلام کے بعد مختصر دعا کر کے سنتوں میں مشغول ہو جانا چاہئے؛ البتہ سنتوں کے بعد انفرادی طور پر دیر تک دعا مانگنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔(۱)
(۱)فإن کان بعدہا أی بعد المکتوبۃ تطوع یقوم إلی التطوع بلا فصل إلا مقدار ما یقول: اللہم أنت السلام ومنک السلام تبارکت یا ذ الجلال والإکرام، ویکرہ تاخیر السنۃ عن حال أداء الفریضۃ بأکثر من نحو ذلک القدر، وقد یوفق بأن تحمل الکراہۃ علی کراہۃ التنزیہ، ومراد الحلواني عدم الإسائۃ ولو فعل لا بأس بہ ولا تسقط السنۃ بذلک حتی إذا صلاہا بعد الأوراد تقع سنۃ موداۃ لا علی وجہ السنۃ، فالحاصل: أن المستحب فی حق الکل وصل السنۃ بالمکتوبۃ من غیر تاخیر إلا أن الاستحباب في حق الإمام أشد حتی یؤدي تاخیرہ إلی کراہۃ لحدیث عائشۃ بخلاف المقتدي، (والمنفرد الخ)۔ (إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملي: ص: ۳۴۱-۳۴۴، مکتبہ: الاشرفیہ دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص428
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق:ائمہ احناف کا مسلک یہ ہے کہ بسم اللہ نہ سورہؐ فاتحہ کا جز ہے اور نہ ہی سورۂ نمل کے علاوہ کسی سورت کا؛ بلکہ یہ مستقل آیت ہے اور قرآن کریم کا جز ہے جو ہر سورت کے شروع میں دو سورتوں کے درمیان فصل کرنے کے لیے نازل ہوئی ہے، درمختار میں ہے۔
’’عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال صلیت مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأبي بکر وعمر وعثمان فلم أسمع أحدا منہم یقرأ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘
’’عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ أنہ حدثہ قال صلیت خلف النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأبي بکر وعمر وعثمان فکانوا یستفتحون بالحمد للّٰہ رب العالمین لا یذکرون بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم في أول قرائۃ ولا في آخرہا‘‘(۲)
’’عن أنس قال کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأبي بکر وعمر وعثمان یفتتحون القرائۃ بالحمد للّٰہ رب العالمین، قال أبو عیسیٰ ہذا حدیث حسن صحیح‘‘(۱)
’’روی البخاري في صحیحہ من حدیث أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: کنت أصلي في المسجد فدعاني رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلم أجبہ فقلت: یا رسول اللّٰہ کنت أصلي ، فقال : ألم یقل اللّٰہ : استجیبوا للّٰہ وللرسول إذا دعاکم (الانفال: ۲۴) ثم قال لي : ألا أعلمک سورۃ ہي أعظم سورۃ في القرآن؟ قلت ما ہي ؟ قال الحمد للّٰہ رب العلمین ، ہي السبع المثاني والقرآن العظیم الذي أوتیتہ فأخبر أنہا السبع المثاني، ولو کانت البسملۃ آیۃ منہا لکانت ثمانیا، لأنہا سبع آیات بدون البسملۃ‘‘(۲)
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب حجۃ من قال: لا یجہر بالبسملۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۲، رقم: ۳۹۹، نعیمیہ دیوبند)
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب في افتتاح القرائۃ بالحمد للّٰہ رب العالمین‘‘: ج ۱، ص: ۵۷، رقم: ۲۴۶، نعیمیہ دیوبند۔)
(۲) بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’باب في صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص:۱۹۶، نعیمیہ دیوبند۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص225
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: سنتوں کا گھر میں پڑھنا اولیٰ ہے مسجد میں پڑھنا بھی درست ہے۔(۱)
(۱) الأفضل في السنن والنوافل المنزل لقولہ علیہ السلام: صلاۃ الرجل في المنزل أفضل إلا المکتوبۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب التاسع في النوافل، من المندوب صلاۃ الضحی‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۲، زکریا دیوبند)
والأفضل في عامۃ السنن والنوافل المنزل ہو المروي عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (ابن الھمام، فتح القدیر، ’’باب ادراک الفریضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۹۴، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص352
اسلامی عقائد
Ref. No. 1082 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ مذکورہ کتب پڑٕھنے میں حرج نہیں ، تاہم کہیں ذہن اٹکے یا کوئی بات ذہن میں خلجان پیداکرے تو کسی قریبی عالم سے رجوع کرلیا کریں۔ واللہ اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
سیاست
Ref. No. 839 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم-:-: یوم پیدائش منانا غیراسلامی تصور ہے، اسلام میں بے جا رسم و رواج سے بچنے کی تاکید ہے، اور ان سے بچنا چاہئے۔ آپ اپنے دوست کو سمجھائیں۔ اگر وہ سمجھدار ہوں گے تو اصرار نہیں کریں گے۔
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند