نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: قبر کے سامنے ہوتے ہوئے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے(۱) مذکورہ صورت میں قبر کا نشان مٹا دیا جائے، تو نماز بلا کراہت درست ہو جائے گی۔(۲)

(۱) عن أبي مرثد الغنوي یقول، قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : لا تجلسوا علی القبور، ولا تصلوا إلیہا۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الجنائز، باب في کراھیۃ القعود ……علی القبر‘‘: ص: ۴۶۰، رقم ۳۲۲۹)
(۲) وفي الحاوي : وإن کانت القبور ما وراء المصلی لا یکرہ فإنہ إن کان بینہ وبین القبر مقدار ما لو کان في الصلاۃ ویمر الانسان لا یکرہ فہہنا أیضاً لا یکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص125

 

متفرقات

Ref. No. 39 / 874

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسی دعوت میں شرکت کرنا درست نہیں ہے، اس لئے احتراز کریں۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 40/797

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ علماء نے اس صورت کو ناجائز لکھا ہے۔ اس لئے ان کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ ڈپازٹ کی صورت ختم کرکے کچھ کرایہ طے کرلیں۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 40/9752

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وہ تمام کتابیں یا ان کی قیمت میت کے اولیاء کو دیدیں، انشاء اللہ آپ فارغ الذمہ ہوجائیں گے۔ اور اگر اولیاء میں سے بھی کوئی نہ ہو تووہ  کتابیں  یا ا ن کی قیمت کسی غریب کو صدقہ کردیں۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1144/42-369

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زنا میں مبتلا شخص کو اس عظیم گناہ سے روکنے کے لئے حکمت و تدبر سے سمجھائیں ۔ ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلھم بالتی ھی احسن۔ والدین کے ادب کو بھی ملحوظ رکھیں۔ بے ادبی وبدتمیزی سے پرہیز کریں۔ اللہ تعالی نے حضرت موسی  وحضرت ہارون علیھما السلام کو حکم فرمایا : وقولا لہ قولا لینا لعلہ یتذکر او یخشی۔ گناہ سے نفرت کریں گنہگار سے نہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1244/42-564

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لوہا اگرپیسے سے خریدا گیا ہے اور سامنے موجود ہے اور اسی کی قیمت بتائی گئی ہے جبکہ یہ نہیں معلوم کہ اس میں صحیح وزن کتنا ہوگا تو چونکہ اس میں کسی قسم کے نزاع کا خطرہ نہیں ہے ، اس لئے اس طرح لوہا خریدنے اور بیچنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1370/42-782

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس طرح کے الفاظ عموما تعجب یا عاجزی کے اظہار کے لئے بولے جاتے ہیں، اس لئے اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔ اور غیرمسلموں کی کالی مائی وغیرہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ تاہم ایسے کلمات کے استعمال سے بچنا چاہئے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

خوردونوش

Ref. No. 1600/43-1149

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مذکورہ بالا صورت جوا وقمار اور دیگر بہت سے مفاسد  پر مشتمل ہونے کی وجہ سے حرام و ناجائز ہے۔  اس میں گرچہ اولا رضامندی ہے مگر قرعہ اندازی کرتے وقت ہرایک کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ میرا نام نہ آئے اور جب نام نکلتاہے تو اس کو اپنے عہد کی بناء پر بادل ناخواستہ کھانا کھلانا پڑتاہے، نیز بعض کی دعوت میں کم خرچ ہوگا اور بعض میں زیادہ تو اس سے آپسی نفرت جنم لے گی  اور اس طرح  اختلافات بڑھیں گےاور نتیجہ اس وقتی اور جزوی فائدہ سے کئی گنا زیادہ خطرناک ہوگا اس لئے اس صورت کو فوری طور پر بند کردینا ضروری ہے۔ 

 ﴿ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ﴾ (سورۃ المائدۃ،پارہ07، آیت 90)

القمارمشتق من القمر الذی یزداد وینقص سمی القمار قماراً لا ن کل واحد من المقامرین ممن یجوز ان یذهب مالہ الی صاحبہ ویستفیدمال صاحبہ فیزداد مال کل واحد منهما مرۃ وینتقص اخری فاذا کان المال مشروطاً من الجانبین کان قماراً والقمار حرام ولان فیہ تعلیق تملیک المال بالخطر وانہ لا یجوز(المحیط البرهانی فی الفقہ النعمانی ،جلد5،صفحہ323،دارالکتب العلمیۃ، بیروت) و لاخلاف بین اھل العلم فی تحریم القمار (احکام القرآن للجصاص،جلد2،صفحہ11،داراحیاء التراث العربی ،بیروت) الَا لا تَظْلِموا, أَلَا لا يَحِلُّ مالُ امرِىءٍ إلا بِطِيبِ نفسٍ منه (مشکوۃ المصابیح)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1769/43-1501

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر آپ شرعی معذورہیں تو وضو نماز کا وقت شروع ہوجانے کے بعد کریں۔ معذور کا وضو  ایک فرض نماز کا وقت  نکلنے  سے ختم ہو جاتا ہے، اس کے لیے اگلی نماز ادا کرنے کے لیے نیا وضو کرنا ضروری  ہوتاہے، مغرب میں وقت دیکھ کر  کہ جوں ہی    غروب آفتاب ہو وضو کرلیں، عام طور پر اذان دو تین منٹ بعد ہوتی ہے۔اس طرح  آپ کا وضو وقت کے اندر ہوگا اور نماز بھی جماعت سے مل جائے گی۔

و صاحب عذر من به سلس بول لايمكنه إمساكه أو استطلاق بطن أو انفلات ريح... إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة بأن لايجد في جميع وقتها زمناً يتوضؤ و يصلي فيه خالياً عن الحدث ولو حكماً؛ لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم". (شامی، باب الحيض: مطلب في أحكام المعذور ٣٠٥/١ ط سعيد)

المستحاضة ومن به سلس البول أو استطلاق البطن أو انفلات الريح أو رعاف دائم أو جرح لا يرقأ يتوضئون لوقت كل صلاة ويصلون بذلك الوضوء في الوقت ما شاءوا من الفرائض والنوافل هكذا في البحر الرائق. (الھندیۃ الفصل الرابع في أحكام الحيض والنفاس والاستحاضة1/41)

وإلى ثمرة الخلاف أشار بقوله (فالمتوضئ وقت الفجر لا يصلي به بعد الطلوع) عند علمائنا الثلاثة لانتفاض طهارته بالخروج (إلا عند زفر والمتوضئ بعد الطلوع) قبل الزوال ولو لعيد على الصحيح (يصلي به الظهر) عند الطرفين لعدم خروج وقت الفرض فلا ينتقض بخروج وقت الطهر (خلافا له) أي لزفر لوجود دخول الوقت ولأبي يوسف لوجود أحد الناقضين، وهو دخول الوقت. (مجمع الانھر، باب الانجاس 1/57)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 1719/43-1684

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حتی الامکان اس رشتہ کو نباہنے کی کوشش کرے، تاہم اگر شوہر وبیوی کے درمیان  اتفاق  نہ ہوسکے ، اور شوہر کسی طرح اس کے ساتھ رہنے کے لئے تیار نہیں ہے، اور مقاصد نکاح فوت ہوتے ہوں تو شوہر کو شرعاً اختیار ہے کہ اس کو  ایک طلاق رجعی  دے دےتاکہ عورت  عدت کے بعد کسی ایسے شخص سے نکاح کرلے جو پورے حقوق ادا کرسکے ۔

اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۪-فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍؕ-وَ لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْــٴًـا اِلَّاۤ اَنْ یَّخَافَاۤ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِؕ-فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِۙ-فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖؕ-تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَاۚ-وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ (سورۃ البقرۃ ۲۲۹)

الا اذا خافا ان لا یقیما حدود اللہ فلا باس ان یتفرقا (الدر المختار مع الشامی: 4/144)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند