نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2347/44-3529

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔     مذکورہ صورت میں عورت کےہاتھ پاؤں کے   نماز ی کے کسی عضو سے مس ہوجانے سے نماز خراب نہیں ہوگی۔

حضرت عائشہ فرماتی ہیں: میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لیٹی ہوتی تھی اور میرے پیر آپ ﷺ کے قبلہ کی جانب ہوتے تھے، پس جب آپ ﷺ سجدہ کرتے تو میرے پیر کو دبا دیتے میں پیر سمیٹ لیتی، پھر جب آپ ﷺ کھڑے ہو جاتے تو میں پیر پھیلا دیتی اور ان ایام میں گھروں میں چراغ نہیں ہوتے تھے۔ (موطا مالک باب صلوٰۃ اللیل)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ایک رات کو میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بستر پر نہیں پایا، تو میں نے ٹٹولا تو میرے ہاتھ آپ ﷺ کے تلووں پر لگے، آپ ﷺ سجدہ کر رہے تھے اور آپ ﷺ کے پاؤں مبارک کھڑے تھے۔ (صحیح مسلم باب ما یقال فی الرکوع السجود)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سنت کی دو قسمیں ہیں، موکدہ اور غیر موکدہ، اول کے اصرار کے ساتھ ترک پر گناہ ہے اور دوسرے پر نہیں(۲)۔ اگرچہ غیرموکدہ میں بھی اتباع سنت ہی میں خیر ہے اور اسی کو اپنانا چاہئے۔
(۲) السنۃ سنتان: سنۃ أخذہا ہدی وترکہا ضلالۃ: وسنۃ أخذہا حسن وترکہا لا بأس بہ۔ (السرخسي، أصول السرخسي: ج۱، ص: ۴۱۱)… وذکر في المبسوط قال مکحول: السنۃ سنتان: سنۃ أخذہا ہدی وترکہا ضلالۃ، وسنۃ أخذہا حسن وترکہا لا بأس بہ، السنن التی لم یواظب علیہا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أخذہا ہدی وترکھا ضلالۃ کالأذان والإقامۃ وصلاۃ العید۔ (البزدوي، کشف الأسرار شرح أصول البزدوي، ’’أقسام العزیمۃ‘‘: ج ۳، ص: ۳۱۰)

فتاوی دارلعلوم وقف دیوبند ج2ص95

 

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فرقۂ باطلہ کی تردید اہم فریضہ ہے، جسے اہل حق ہر دور میں انجام دیتے رہے۔ قادیانیت ایک باطل فرقے کا نام ہے اس کا رد بھی اہم فریضہ ہے، ان کے عقائد اور دجل وفریب کو واضح کرکے لوگوں کو گمراہی سے بچانے کی کوشش ایک ممدوح سعی ہے، اس سلسلہ میں اکابر علماء کی بہت کتابیں طبع ہو کر منظر عام پر آچکی ہیں، مذکور ہ فی السوال طریقہ بھی اس کے لئے بہتر ہے؛ لیکن تجربہ کار علماء کی نگرانی میں ہو، اسلام سچا اور کامل مذہب ہے اس کی ترجمانی اور اس کے خلاف اور باطل کے رد کے لئے علم وسلیقہ بھی ضروری ہے۔(۱) {وَلَا تَرْکَنُوْٓا إِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُلا} (۲)

(۱) حضرات اکابر علماء دیوبند سے قادیانیوں کے خلاف باضابطہ کتابیں لکھنا ثابت ہے؛ چنانچہ مفتی کفایت اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ’’البرہان‘‘ نامی مستقل رسالہ: ۱۹۰۳؍ میں مدرسہ عین العلم شاہجہاں پور سے جاری کیا اور اپنے شاگردوں کی ایک کھیپ اس میدان میں کام کرنے کے لیے تیار کی، اسی طرح حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانیؒ صاحب نے ختم نبوت نامی ایک کتاب لکھ دی ہے، نیز علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے تو باقاعدہ ختم نبوت پر ’’اکفار الملحدین‘‘ کے نام سے کتاب بھی لکھی اور عدالت میں جاکر مقدمہ بھی لڑے ہیں۔

(۲) سورۃ ہود: ۱۱۳۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص290

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 2654/45-4011

Answer:

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Private meeting (khalwate Sahiha) has the same ruling as intercourse. Therefore, when the husband gave triple talaq after khalwat-e-Sahiha, they will be considered as three Mugallaza talaq and she will be haram for her husband and she cannot remarry the same person. The woman has to complete her iddat (three menstruations). The woman is free to marry another man after completing three periods of Iddat. It is forbidden to marry a person temporarily for a few days, so one should marry a suitable person after careful consideration.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 2694/45-4157

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صرف لفظ طلا‘ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، کیونکہ طلاق کا مادہ ط ل ق کا پورا تلفظ ضروری ہے۔ اگر دو الفاظ ادا کئے تو طلاق نہ ہوگی، ترخیم کا قاعدہ یہاں جاری نہ ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسواک کی موٹائی اور لمبائی کے سلسلے میں علامہ ابن عابدین نے لکھا ہے:
’’(و) ندب إمساکہ (بیمناہ) وکونہ لینا، مستویا بلا عقد، في غلظ الخنصر وطول شبر۔ ویستاک عرضا لا طولا‘‘(۱)
یعنی مسواک کن انگلی کے بقدر موٹی ہو اور ایک بالشت لمبی ہو، کسی خاص درخت کا ہونا ضروری نہیں ہے، انار اور ببول وغیرہ کے درخت سے بھی مسواک کی جاسکتی ہے؛ لیکن پیلو یا زیتون کے درخت کی مسواک زیادہ اولیٰ ہے۔ جیسا کہ علامہ بدر الدین العینی نے ’’البنایہ والنہایہ‘‘ میں لکھا ہے:
’’فیما یستاک بہ وما لا یستاک بہ، وفي ’’الدرایۃ‘‘: ویستحب أن یستاک بعود من أراک یابس قد ندي بالماء ویکون لینا، وقد مر في حدیث أبي سبرۃ الاستیاک بالأراک وذکرنا أیضا عن الطبراني من حدیث معاذ نعم السواک الزیتون الحدیث‘‘(۲)
ایسے ہی مسواک پہلے دائیں جانب اوپر نیچے، پھر بائیں جانب اوپر نیچے پھر ان دانتوں پر مسواک کرے جو ان کے درمیان ہیں کم از کم تین مرتبہ اوپر اور تین مرتبہ نیچے، تین مرتبہ پانی لے کر مسواک کرنی چاہئے۔
مسواک کرنا وضو کے ساتھ خاص نہیں ہے؛ بلکہ گھر میں داخل ہونے سے قبل تلاوت قرآن اور مجمع عام میں جانے سے پہلے بھی مسواک کرنی سنت ہے، اس کے علاوہ اور بھی اوقات ہیں جن میں مسواک کرنا مسنون ہے، نیز مسواک کرنے سے منہ کی صفائی اور رب کی رضامندی حاصل ہوتی ہے۔ رہا برش وغیرہ سے دانت صاف کرنا تو اس سے طہارت وپاکیزگی کی سنت تو ادا ہوجاتی ہے؛ لیکن خاص لکڑی سے مسواک کرنے کی سنت حاصل نہیں ہوتی۔
’’قال في إمداد الفتاح: ولیس السواک من خصائص الوضوء، فإنہ یستحب في حالات منہا: تغیر الفم، والقیام من النوم وإلی الصلاۃ، ودخول البیت، والاجتماع بالناس، وقراء ۃ القرآن؛ لقول أبي حنیفۃ: إن السواک من سنن الدین فتستوی فیہ الأحوال کلہا۔ وفي القہستاني: ولا یختص بالوضوء کما قیل، بل سنۃ علی حدۃ علی ما في ظاہر الروایۃ۔ وفي حاشیۃ الہدایۃ أنہ مستحب في جمیع الأوقات، ویؤکد استحبابہ عند قصد التوضؤ فیسن أو یستحب عند کل صلاۃ‘‘(۱)
’’ومن منافعہ: أنہ شفاء لما دون الموت، ومذکر للشہادۃ عندہ۔ وعند فقدہ أو فقد أسنانہ تقوم الخرقۃ الخشنۃ أو الأصبع مقامہ، کما یقوم العلک مقامہ للمرأۃ مع القدرۃ علیہ‘‘(۲)


(۱) ابن عابدین الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في منافع السواک‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۴۔
(۲) بدر الدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ: حکم ما لم یجد السواک‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۶۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في منافع السواک‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۴۔
(۲) أیضاً:‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۵۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص208

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں آپ کی امامت بلا کراہت صحیح اور درست ہے؛ اس لیے کہ آپ کی طرف سے بظاہر کوئی کوتاہی نہیں پائی گئی جب کہ نماز تو فاسق کے پیچھے بھی درست ہو جاتی ہے۔(۱)

(۱) {إِلَّا الَّذِینَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَبَیَّنُوا فَأُولَئِکَ أَتُوبُ عَلَیْہِمْ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیمُ} (سورۃ البقرۃ: ۱۶۰)
{إِلَّا الَّذِینَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَلِکَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَحِیمٌ} (سورۃ آل عمران: ۸۹)
صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ، … أفاد أن الصلاۃ خلفہما   أولی من الإنفراد، لکن لا ینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث، من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص42

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: مؤذن صاحب کے نماز پڑھا دینے میں کوئی حرج نہیں بلا کراہت امامت درست ہے، مسجد کی صفائی کرنے سے اس میں کوئی فرق نہیں آئے گا اصل بات یہ ہے کہ وہ امامت کے لائق ہو اور قرآن کریم صحیح پڑھتا ہو۔(۲)

(۲) والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلوۃ فقط صحۃ وفسادًا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ وحفظہ قدر فرض ثم الأحسن تلاوۃ وتجویدًا للقرأۃ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن۔ (الحصکفي، الدر المختار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
والأحق بالإمامۃ تقدیمًا بل نصبًا مجمع الأنہر۔ (الأعلم بأحکام الصلاۃ) فقط صحۃً وفسادًا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ، وحفظہ قدر فرض، وقیل واجب، وقیل: سنۃ (ثم الأحسن تلاوۃ) وتجویدًا (للقراء ۃ، ثم الأورع) أي: الأکثر اتقاء للشبہات۔ (أیضًا:)۔
شروط الإمامۃ للرجال الأصحاء ستۃ أشیاء: الإسلام والبلوغ والعقل والذکورۃ والقراء ۃ والسلامۃ من الأعذار۔ (أیضاً)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص71

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2737/45-4261

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام اہل السنت والجماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ برزخ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حیاتِ دنیوی کے ساتھ زندہ ہیں۔ لہٰذا منکر حیات النبی قطع نظر اس کے وہ کسی جماعت سے نسبت رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو اہل السنہ والجماعہ سے خارج ، مبتدع اور اہل ہویٰ میں سے ہے۔ لہذا اگر امام عقیدہ حیات النبی ﷺ کا منکر ہے  تو اس کی اقتداء میں نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔ البتہ اب تک جو نمازیں پڑھی گئی ہیں وہ ادا ہوچکی ہیں ان کے لوٹانے کی ضرورت نہیں۔

فتلک حیاة أخری لا من جنس الحیاة الدنیویة فھو میت باعتبار ہذہ الحیاة الدنیویة حيٌ باعتبار تلک الحیاة البرزخیة المغایرةلھذہ الحیاة۔ (إعلاء السنن)

کما قال ابن القیم في کتابہ کتاب الروح الرابع تعلقہا بہ في البرزخ فإنہا وإن وتجردت عنہ فإنہا لم تفارقہ فراقًا کلیًا بحیث لا یبقی بھا التفات إلیہ البتة? (کتاب الروح، المسألة السادسة ہل الروح تعاد إلی المیت في قبرہ وقت السوٴال أم لا، ص:۶۰، مکتبہ فاروقیہ پشاور)

نوٹ: اس مسئلہ کی تفصیل کے لیے امام سیوطی کا رسالہ ?شرح الصدور، انباء الأذکیاء بحیاة الأنبیاء? ابن قیم علیہ الرحمة کی کتاب الروح، اور مولانا یوسف صاحب کا رسالہ  مسئلہ حیات النبی  کا مطالعہ کیا جائے جو آپ کے مسائل اور ان کا حل کی دسویں جلد میں مذکور ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں پیشاب کے شدید تقاضے کی وجہ سے جماعت چھوڑنے کا گناہ نہیں ہوگا، بلکہ شرعی حکم یہی ہے کہ قضاء حاجت کے بعد میں نماز پڑھے۔
’’عن عبد اللّٰہ بن أرقم أنہ خرج حاجا أو معتمرًا ومعہ الناس وہو یؤمّہم فلما کان ذات یوم اقام الصلوٰۃ، صلوٰۃ الصبح ثم قال لیتقدم أحدکم وذہب الخلاء فإني سمعت رسول اللّٰہ علیہ وسلم یقول إذا أراد أحدکم أن یذہب الخلاء وقامت الصلوٰۃ فلیبدأ بالخلاء‘‘(۱)
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لا یحل لرجل یؤمن باللّٰہ والیوم الآخر أن یصلی وہو حقن حتی یتخفف‘‘(۲)

(۱) أخرجہ ابوداؤد، في صحیحہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب أ یصلی الرجل وہو حاقن‘‘: ج ۱، ص: ۱۲، رقم: ۸۸، نعیمیۃ دیوبند
(۲) أخرجہ ابوداؤد، في صحیحہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب أ یصلی الرجل وہو حاقن‘‘: ج ۱، ص: ۱۲، نعیمیۃ دیوبند
قولہ (وصلاتہ مع مدافعۃ الأخبثین الخ) أي البول والغائط: قال في الخزائن: سواء کان بعد شروعہ أو قبلہ فإن شغلہ قطعہا إن لم یخف فوت الوقت وإن خاف أتمہا أثم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب ما یفسد الصلوٰۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۸، زکریا دیوبند)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص394