زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 2485/45-3835

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر عورت اپنے گھر میں تنہائی میں یا شوہر کے سامنے پینٹ شرٹ پہنتی ہے تو اس کی گنجائش ہے، لیکن دیگر محارم اور بچوں کے سامنے ایسا لباس پہننا جائز نہیں جس سے جسم کی ساخت نمایاں ہوتی ہو۔شریعت نے عورت کے لیے لباس تو متعین نہیں کیا، البتہ اس کے اصول متعین کردیے ہیں، جن کی بنیاد یہ ہے کہ: 1- لباس ساتر ہو، یعنی جسم کے جس حصے کو چھپانا لازم ہے، اس حصے اور اس کی بناوٹ کو  چھپالے۔2- اجنبی کے لیے جاذبِ نظر نہ ہو۔3- غیر اقوام یا مردوں کی مشابہت نہ ہو۔ لہٰذا عورت کو ایسا ڈھیلا ڈھالا ساتر لباس پہننا چاہیے جس سے نہ صرف اُس کا پورا بدن ڈھک جائے؛ بلکہ اعضاء کی بناوٹ اور اُبھار بھی ظاہر نہ ہو۔ اور عورت کے لیے اَجنبی مردوں کے سامنے پورے جسم (سر، چہرے، گردن، کلائیوں اور پنڈلی ٹخنوں سمیت) کا پردہ ہے، لہٰذا غیر محرم کے سامنے تو پورا جسم اور اس کی ساخت چھپانا لازم ہے، جب کہ محرم کے سامنے سر، چہرہ، گردن اور اس سے متصل (سینے سے اوپر)  حصہ، ہتھیلیاں، پاؤں، کلائیاں اور پنڈلی کھول سکتی ہے، باقی اعضاء  کا محرم سے بھی چھپانا لازم ہے، اور اگر کسی محرم سے اندیشہ ہو تو اس کے سامنے مذکورہ اعضاء بھی چھپانا لازم ہوگا۔اسلام نے عورت کو میک اپ کرنے سے منع نہیں کیا ہے لیکن اس کا اظہار غیر محرموں کے سامنے کرنے سے منع کیا گیاہے۔

قال اللّٰہ تعالیٰ:{يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا} [الأحزاب: ۵۹]ومن للتبعیض، ویحتمل ذلك علی ما في الکشاف وجهین: أحدهما أن یکون المراد بالبعض واحدًا من الجلابیب وإدناء ذلك علیهن أن یلبسنه علی البدن کلّه، وثانیهما أن یکون المراد بالبعض جزءًا منه، وإدناء ذلك علیهنّ أن یتقنّعن فیسترن الرأس والوجه بجزء من الجلباب مع إرخاء الباقي علی بقیة البدن." (روح المعاني ۱۲؍۱۲۸)وقال تعالیٰ:{وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰی}[الأحزاب: ۳۳]۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:نصوص قطعیہ شرعیہ کے انکار اور اسلام مخالف عقائد کی وجہ سے باتفاق علماء حق قادیانی کافر اور خارج از اسلام ہیں۔ مذکورہ اخباری بیان مکر وفریب اور شعبدہ بازی ہے، مسلمانوں کو اپنے کفریہ عقائد کے جال میں پھنسانے کی سازش ہے، یہ بیان کوئی نئی بات نہیں ہے، اس طرح کی سازشیں اس جماعت کے بانی اور اس کے متبعین ابتداء سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسی سازشوں سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔(۱)

(۱) {مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَآ أَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ط وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمَاہع۴۰}(سورۃ الأحزاب: ۴۰)…  عن أبي أسماء عن ثوبان، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: … وأنہ سیکون في أمتي کذابون ثلاثون کلہم یزعم أنہ نبي، وأنا خاتم النبیین لا بني بعدي۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب المہدي‘‘: ج ۲، ص: ۵۷۸، رقم: ۴۲۵۲)
عن ابن شہاب، عن محمد بن جبیر بن مطعم، عن أبیہ رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لي خمسۃ أسمائٍ: أنا محمد، وأحمد وأنا الماحي الذي یمحو اللّٰہ بہ الکفر وأنا الحشر الذي یحشر الناس علی قدمي وأنا العاقب۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الفضائل: باب في أسمائہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۱، رقم: ۲۳۵۴)
قولہ: (ولک دعوی النبوۃ بعدہ وہوی) ش: لما ثبت أنہ خاتم النبیین علم أن من ادعی بعدہ النبوۃ فہو کاذب۔ (ابن أبي عز الحنفي، شرح العقیدہ الطحاوي: ج ۱۱، ص: ۱۶۶)
وقد أخبر تعالیٰ في کتابہ، ورسولہ في السنۃ المتواترۃ عنہ: أنہ لا نبي بعدہ، لیعلموا أن کل من ادعی ہذا المقام بعدہ فہو کذاب افاک دجال ضال مضل۔ (ابن کثیر، تفسیر إبن کثیر: ج ۶، ص: ۴۳۱)
ولا یجوز من الکفر إلا من أکفر ذلک الملحد (أي: غلام أحمد القادیاني) بلا تلعثم وتردد۔ (محمد أنور شاہ الکشمیري، إکفار الملحدین في ضروریات الدین: ج ۱، ص: ۱۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص287

طلاق و تفریق

Ref. No. 2588/45-4116

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   عثمان کو میسیج کرنے کا اختیار دیاگیا ہے ، طلاق دینے کا نہیں، اس لئے عثمان اگر علی کے موبائل سے علی کی بیوی کو طلاق کا میسیج بھیجے گا تو اس سے اس کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ تاہم اگر علی نے کبھی عثمان کو طلاق کا میسیج بھیجنے کا حکم دیا یا اپنی بیوی کو طلاق دینے کا اختیار دیا اور پھر عثمان نے طلاق کا میسیج بھیجا تو حکم مختلف ہوگا۔ کس صورت میں طلاق ہوگی اور کس صورت میں نہیں ہوگی، پیش آمدہ واقعہ کے تناظر میں اس کا فیصلہ کیا جائے گا، اس لئے تفصیل سے سوال ارسال کریں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دوسرے پانی کے ہوتے ہوئے ایسا پانی استعمال نہیں کرنا چاہئے؛ لیکن اگر کوئی شخص اس بالٹی (جس میں وضو میں استعمال شدہ پانی بھرا ہوا ہے) سے پانی لے کر آب دست کرلے یا استنجا کرلے، تو اس پانی سے پاکی حاصل ہو جاتی ہے۔ مفتی بہ قول کے مطابق اس طرح کے ماء مستعمل سے نجاست حقیقیہ کو پاک کرنا درست ہے جیسا کہ علامہ حصکفیؒ نے لکھا ہے:
’’قولہ: علی الراجح مرتبط بقولہ بل لخبث: أی نجاسۃ حقیقیۃ، فإنہ یجوز إزالتہا بغیر الماء المطلق من المائعات خلافا لمحمد‘‘
’’وحکمہ أنہ لیس بطہور لحدث بل لخبث علی الراجح المعتمد‘‘(۲)
’’ولا یجوز بماء استعمل لأجل قربۃ) أي ثواب ولو مع رفع حدث أو من ممیز أو حائض لعادۃ۔ وہو طاہر ولو من جنب وہو الظاہر‘‘(۱)
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ، مطلب في تفسیر القربۃ والثواب‘‘: ج ۱، ص: ۳۵۳۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مبحث الماء المستعمل‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۸۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص103

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: علامہ ابن عابدین نے مسواک کوسنت مؤکدہ لکھا ہے؛ لیکن اصح قول یہ ہے کہ مستحب ہے، کلی کرتے وقت ہی مسواک کرنا سنت ہے، اس وقت صفائی زیادہ ہوتی  ہے اور پورے طور پر ہوتی ہے والسواک سنۃ مؤکدۃ کما في الجواہر عن المضمضۃ، وقیل: قبلہا وہو للوضوء۔(۱) وفي الہدایۃ الأصح أنہ أي السواک مستحب۔(۲) وکونہ لیناً مستویا بلا عقد في غلظ الخنضر وطول شبر(۳)
اس عبارت سے یہ بات واضح ہے کہ مسواک نرم اور برابر ہو اور اس میں گرہ نہ ہو چھوٹی انگلی کے برابر موٹی ہو اور بالشت بھر لمبی ہو۔

(۱)أبوبکر بن علي الحنفي، الجوہرۃ النیرۃ، ج۱، ص:۷، (دارالکتاب دیوبند)؛ و بدرالدین العیني، البنایہ شرح الہدایہ، ج۱، ص:۳۲(مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
(۲) ابن عابدین الدمشقی الحنفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في دلالۃ المفھوم،‘‘ ج۱، ص:۲۳۲؛ و ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ج ۱، ص:۴۲
(۳) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في دلالۃ المفھوم، کتاب الطہارۃ۔‘‘ ج۱، ص:۲۳۴ (مکتبۃ زکریا دیوبند )

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص203

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کوئی امام کسی دنیاوی رئیس یا کسی ذی جاہ آدمی کا انتظار کرنے میں جماعت میں تاخیر کرتا ہے تو وہ شخص گناہگار ہے مگر نماز ادا ہوجاتی ہے۔(۱)

(۱) رئیس المحلۃ لا ینتظر ما لم یکن شریراً والوقت متسع۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الأذان، مطلب ہل باشر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم الأذان لنفسہ‘‘: ج ۲، ص: ۷۱)
فالحاصل أن التأخیر القلیل لإعانۃ أہل الخیر غیر مکروہ۔ (ابن عابدین، ’’کتاب الصلوۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائی، باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۹)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص40

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سرکاری ملازم نیک ہو۔ نمازی ہو نماز پڑھانی جانتا ہے تو بلاشبہ اس کی امامت درست ہے اس کے پیچھے نماز جمعہ درست و صحیح ہوجائے گی۔(۲)

(۲) الأولی بالإمامۃ أعلمہم بأحکام الصلاۃ ہکذا في المضمرات وہو الظاہر ہکذا في البحر الرائق ہذا إذا علم من القراء ۃ قدر ماتقوم بہ سنۃ القراء ۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘:ج۱، ص: ۱۴۱)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص64

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: غیر شرعی وضع اختیار کرنا، داڑھی کٹوانا، گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص فاسق ہے، (۱) جس سے اجتناب ضروری ہے، تاہم ایسے شخص کی امامت کراہت ِ تحریمی کے ساتھ درست ہے۔(۲)

(۱) انہکوا الشوارب وأعفوا اللحي۔ (أخرجہ البخاري  في صحیحہ، ’’کتاب اللباس، باب إعفاء اللحي‘‘: ج ۴، ص: ۱۴۵، رقم : ۵۸۹۳)
(۲) ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق … وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لا یہتم لأمر دینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸، ۲۹۹، زکریا دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص195

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:شریعت میں باجماعت نماز ادا کرنے کی بڑی فضیلت اور تاکید آئی ہے ارشاد خداوندی ہے۔ وارکعو مع الراکعین(۱)۔ نماز پڑھنے والوں کے ساتھ نماز پڑھو یعنی جماعت سے نماز ادا کرو بغیر کسی شرعی عذر کے امام کے بارے میں کینہ کپٹ رکھنا اور اس کو بدنام کرنے کے لیے لوگوں میں نفرت دلانے کی ناکام کوشش کرنا اور اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھنا۔ یہ جائز نہیں ہے۔ حدیث پاک میں ارشاد ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’صلو خلف کل بر وفاجر‘‘ اور صاحب بدائع الصنائع نے تو جماعت سے نماز کو واجب فرمایا ہے ’’فالجماعۃ إنما تجب علی الرجل العاقلین الاحرار القادرین علیہا من غیر حرج‘‘ (۲)  نماز باجماعت کے وجوب پر صاحب کبیری نے بہت سارے دلائل نقلیہ پیش کئے ہیں، اتنا ہی نہیں؛ بلکہ نماز باجماعت عظیم الشان اسلامی شعار ہے اور دین اسلامی کی بڑی علامات میں سے ہے ترک جماعت کی عادت بنالینے والا سخت گنہگار اور فاسق اور مردود الشہادۃ ہے،(۳) اگر کسی جگہ کے مسلمان اپنے گھروں میں نماز پڑھنے پر اکتفاء کریں جماعت سے نماز پڑھنا چھوڑ دیں تو ان سے بذریعہ اسلحہ جہاد کرنا واجب ہے۔ گفتگو کا حاصل یہ نکلا کہ جماعت سے نماز پڑھنا واجب ہے اگر کسی شرعی عذر کے بغیر جماعت ترک کرے گا تو اس کی نماز تو ہوجائے گی مگر بغیر عذر کے چھوڑ نے والا سخت گنہگار ہوگا خدائے پاک ہر مسلمان کو باجماعت نماز کی توفیق عطا فرمائے۔

(۱) سورۃ البقرہ: رکوع ۵۔
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل صلاۃ الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۴، زکریا دیوبند۔
(۳) إن تارکہا من غیر عذر یعزر و ترد شہادتہ ویأثم الجیران بالسکوت عنہ۔ (إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ص: ۴۳۹، دارالکتاب دیوبند)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص390

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: شیعہ حضرات کی چوںکہ بہت سی اقسام ہیں؛ اس لیے ان کو مطلقاً خارج اسلام قرار نہیں دیا جا سکتا جب تک کہ ان کے عقائد کفریہ نہ ہوں تب تک ان کو مسلمان ہی کہا جائے گا اور مسلمان جیسا بھی ہو سلام اس کو کیا جائے گا اور ان کی مساجد میں نماز بھی درست ہوگی؛(۱) البتہ ہندؤں کو نمستے نہ کیا جائے؛ بلکہ ایسا لفظ اختیار کر لیا جائے کہ جو ان کے یہاں سلام کے لیے استعمال ہوتا ہو اور ہمارے یہاں مذہبی اعتبار سے غلط نہ ہوتا ہو، جیسا کہ آداب کا جملہ ہے کہ اس سے ان کو سلام کیا جا سکتا ہے۔(۲)

(۲) عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب اللباس: باب في لبس الشہرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹، رقم: ۴۰۳۳)

فتاوى دار العلوم وقف ج 4 ص: 35