مساجد و مدارس

Ref. No. 2348/44-3528

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔     متولی صاحب کی ذمہ داری ہے کہ نمازیوں کی تکلیف دور کریں، اور مسجد کے سامان کی حفاظت کریں، جو چیز کام کی نہ ہو اس کو بیچ کر دوسری ضرورت  کی چیزیں خرید لیں۔ چند لوگ بیٹھ کر اگر ان کو سمجھائیں تو شاید ان کے پاس اگر کوئی وجہ ہو تو اس کی روشنی میں مسئلہ کا حل نکالا جاسکے۔   متولی صاحب کے پاس  اے سی نہ چلانے کی کوئی وجہ تو  ہوگی۔ اتنی سی بات کی وجہ سے متولی کو تولیت سے ہٹانے کی بات کرنا مناسب نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Slaughtering / Qurbani & Aqeeqah

 Ref. No. 2382/44-3601

In the name of Allah the most Gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

As per the Islamic Sharia, the sacrifice of a nursing animal is permissible, but if the child’s life is at risk, it is better to avoid slaughtering its mother.

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَاعَةٍ لَايَخْرُجُ فِيهَا، وَلايَلْقَاهُ فِيهَا أَحَدٌ، فَأَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ: مَا جَاءَ بِكَ يَا أَبَا بَكْرٍ؟ فَقَالَ: خَرَجْتُ أَلْقَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْظُرُ إِلَى وَجْهِهِ، وَالتَّسْلِيمَ عَلَيْهِ، فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ جَاءَ عُمَرُ، فَقَالَ: مَا جَاءَ بِكَ يَا عُمَرُ؟ قَالَ: الْجُوعُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَأَنَا قَدْ وَجَدْتُ بَعْضَ ذَلِكَ، فَانْطَلَقُوا إِلَى مَنْزِلِ أَبِي الْهَيْثَمِ بْنِ التَّيْهَانِ الأَنْصَارِيِّ، وَكَانَ رَجُلا كَثِيرَ النَّخْلِ وَالشَّاءِ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ خَدَمٌ، فَلَمْ يَجِدُوهُ، فَقَالُوا لامْرَأَتِهِ: أَيْنَ صَاحِبُكِ؟ فَقَالَتِ: انْطَلَقَ يَسْتَعْذِبُ لَنَا الْمَاءَ، فَلَمْ يَلْبَثُوا أَنْ جَاءَ أَبُو الْهَيْثَمِ بِقِرْبَةٍ يَزْعَبُهَا، فَوَضَعَهَا، ثُمَّ جَاءَ يَلْتَزِمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيُفَدِّيهِ بِأَبِيهِ وَأُمِّهِ، ثُمَّ انْطَلَقَ بِهِمْ إِلَى حَدِيقَتِهِ، فَبَسَطَ لَهُمْ بِسَاطًا، ثُمَّ انْطَلَقَ إِلَى نَخْلَةٍ، فَجَاءَ بِقِنْوٍ، فَوَضَعَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَفَلا تَنَقَّيْتَ لَنَا مِنْ رُطَبِهِ؟ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَرَدْتُ أَنْ تَخْبُرُوا أَوْ تَخَيَّرُوا مِنْ رُطَبِهِ وَبُسْرِهِ، فَأَكَلُوا وَشَرِبُوا مِنْ ذَلِكَ الْمَاءِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَذَا وَالَّذِي نَفْسِي فِي يَدِهِ النَّعِيمُ الَّذِي تُسْأَلُونَ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: ظِلٌّ بَارِدٌ، وَرُطَبٌ طَيَّبٌ، وَمَاءٌ بَارِدٌ، فانْطَلَقَ أَبُو الْهَيْثَمِ لِيَصْنَعَ لَهُمْ طَعَامًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَاتَذْبَحَنَّ ذَاتَ دَرٍّ، فَذَبَحَ لَهُمْ عَنَاقًا أَوْ جَدْيًا، فَأَتَاهُمْ بِهَا، فَأَكَلُوا، ... الحديث. (شرح السنة للبغوي، كتاب البر والصلة،بَاب المشورة وَأَن المستشار مؤتمن،13/189-190،رقم الحديث: 3612، ط: المكتب الإسلامي - دمشق، بيروت )

19192 -أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ الْأَرْدَسْتَانِيُّ، أنبأ أَبُو نَصْرٍ الْعِرَاقِيُّ، ثنا سُفْيَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، ثنا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ، ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ الْوَلِيدِ، ثنا سُفْيَانُ، ثنا زُهَيْرُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ مُغِيرَةَ بْنِ حَذْفٍ الْعَبْسِيِّ، قَالَ: كُنَّا مَعَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ بِالرَّحْبَةِ، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ هَمْدَانَ يَسُوقُ بَقَرَةً مَعَهَا وَلَدُهَا، فَقَالَ: إِنِّي اشْتَرَيْتُهَا أُضَحِّي بِهَا وَإِنَّهَا وَلَدَتْ. قَالَ: فَلَاتَشْرَبْ مِنْ لَبَنِهَا إِلَّا فَضْلًا عَنْ وَلَدِهَا، فَإِذَا كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ فَانْحَرْهَا هِيَ وَوَلَدَهَا عَنْ سَبْعَةٍ". (سنن الكبري للبيهقي، كتاب الضحايا، بَابُ مَا جَاءَ فِي وَلَدِ الْأُضْحِيَّةِ وَلَبَنِهَا، 9 / 485، ط: دار الكتب العلمية)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

متفرقات

Ref. No. 2433/45-3689

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   والد نے اپنی بیوی یا اپنی اولاد میں سے کسی کواپنی زندگی میں  کچھ دے کر ان کو  مالک بنادیا  تووہ خاص اس کا ہی ہے، دوسروں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ اور اگر والد نے صرف وعدہ کیا تھا یا صرف قانونی طور پر کوئی زمین یا مکان کسی کے نام رجسٹر کردیا تھا لیکن مالک نہیں بنایا تھا تو ان تمام جائداد کو اور والد کے مرنے کے وقت جو کچھ ان کی ملکیت میں تھا سب کو ایک ساتھ ترکہ میں شامل کرکے وراثت کی تقسیم عمل میں آئے گی۔  ترکہ کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ مرحوم کی کل جائداد میں سے بیوی کو آٹھواں  حصہ دے کر باقی سات حصوں کو اولاد میں اس طرح تقسیم کیاجائے  کہ لڑکوں کو دوہرا اور لڑکیوں کو اکہرا حصہ دیاجائے۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ روایت سنن ابن ماجہ میں ہے اور سند کے اعتبار سے ضعیف ہے۔ البتہ اس سلسلے میں زیادہ صحیح روایت یہ ہے کہ مسجد نبوی میں نماز کا ثواب ایک ہزار نماز کے برابر ہے۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں: ’’صلاۃ في مسجدي ہذا أفضل من ألف صلاۃ في غیرہ من المساجد إلا المسجد الحرام، وإسنادہ علی شرط الشیخین‘‘(۱)

(۱) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب إمامۃ الصلاۃ: باب ماجاء في الصلوۃ في المسجد الجامع‘‘: ص: ۱۰۲، رقم: ۱۴۱۳)
ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب المساجد ومواضع الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۶۶، رقم: ۶۹۲)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص96

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2585/45-4115

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   شیئر مارکیٹ میں پیسہ لگانے سے پہلے متعلقہ لوگوں سے معلوم کرنا چاہئے کہ وہ سرمایہ کاری کے کس ضابطہ کو اختیار کرتے ہیں، اور شرعی طور پر اس کی حیثیت کیا ہے۔ کسی  قریبی ماہرمفتی کے سامنے بالمشافہ اس کو سمجھ لیں یا اپنا سوال تفصیل سے لکھ کر دوبارہ ارسال کریں ۔دوسرا سوال بھی واضح نہیں ہے تاہم   اگر کسی صحیح کمپنی میں آپ نے پیسہ لگایا ہے تو سالانہ حساب  رکھنا زیادہ بہتر ہوگا اور ہر سال کل مالیت پر واجب زکوۃ کی ادائیگی بھی ضروری ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:إن غلام أحمد القادیاني قد ادعی الدعاوي الکاذبۃ و کذب النصوص الصریح من القرآن الکریم، والأحادیث الشریفۃ، ہو واتباعہ یفترون علی جمیع الأنبیاء علیہ السلام، وخاصۃ علی سیدنا خاتم النبیین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم، مثلاً: یعتقد أن محمداً صلی اللّٰہ علیہ وسلم لیس بخاتم النبیین بل یمکن أن یعتلی أحد علی ہذا المضب الشریف ویُنبّأ بوحی إلا لہ الواحد بعد محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم، أیضاً: وأنا (غلام أحمد قادیاني) نبي  کالأنبیاء السابقین ولا یختلف إثنان في أن ہذہ العقیدۃ تخالف النصوص الإسلامیۃ وتوجب التکفیر والارتداد، أنظر إلی قولہ تعالی: {مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَآ أَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَط وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمَا ہع۴۰} یقول إبن کثیر: تحت ہذہ الأٓیۃ فہذہ الأٓیۃ نص في أنہ لا نبي بعدہ، وإذا کان لا نبي بعدہ فلا رسول بالطریق الأولیٰ لأن مقام الرسالہ أخص من مقام النبوۃ فإن کل رسول نبي، ولا عکس، وبذلک وردت الأحادیث المتواترۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحادیث جماعۃ من الصحابۃؓ ویقول الزمخشري في الکشاف: قلت: معني کونہ آخرا لأنبیاء أنہ لا ینبأ أحد بعدہ، وعیسیٰ ممن ینبیء قبلہ وأخرج البخاري، والمسلم: إنہ کانت بنواسرائیل تسوسہم الأنبیاء کلما ہلک نبي خلفہ نبي، وأنہ لا نبي بعدہ، وسیکون خلفاء دل کل ذلک إن من یعتقد ذلک فہو کافر وضال ومضل، یقول ملا علی القاري: في شرح الفقہ الأکبر: دعوی النبوۃ بعد نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم کفر بالإجماع؛ فہذہ: مثل من أمثال عقائد الباطلۃ الکثیرۃ التي تؤدي إلی الضلال المبین ولغلام أحمد القادیاني عقائد أخری باطلۃ تخالف القرآن الکریم وتواتر الأحادیث الشریفۃ وإجماع الطائفۃ التي علی الحق منصورین من أمۃ خاتم النبیین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم؛ لذلک اتفق العلماء والمفتیون الکرام شرقا وغربا علی کفر وارتداد غلام أحمد قادیاني ویعتقدون بضلالتہ ویقولون: إن من صدق بکذبہ، أو أعانہ علی افسادہ الدین فہو کافر بلا ریب وخارج عن دائرۃ الإسلام بلا شبۃ ولذلک لا یجوز تدفین القادیانیین الذین یسمون أنفسہم تزویراً بالأحمدیین في مقابر المسلمین ولأنہ لا علاقہ بہم بالإسلام والمسلمین الخ۔(۱)

(۱) {وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ط} (سورۃ الأحزاب: ۴۰)    …سیکون في أمتي کذابون ثلاثون کلہم یزعم أنہ نبي، وأنا خاتم النبیین لا بني بعدي۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’أول کتاب الفتن: ذکر الفتن ودلائلہا‘‘: ج ۲، ص: ۵۷۴، رقم: ۴۲۵۲)
دعوی النبوۃ بعد نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم کفر بالإجماع۔ (أبو حنیفۃ، شرح الفقہ الأکبر: ۱۶۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص291

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر کسی وظیفہ (درود وغیرہ) کو ایک بار پڑھا جائے تو اس کا ثواب اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے دس گنا(۱) یا اس سے زیادہ عطا فرماتے ہیں، جس قدر اخلاص ہوگا اسی قدر اجر وثواب زیادہ ہوتا چلا جائے گا۔(۲)

(۱) {مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ أَمْثَالِھَاج} (سورۃ الأنعام: ۱۶۰)
(۲) {مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ أَمْوَالَہُمْ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ أَمنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِيْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍط وَاللّٰہُ  یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآئُط} (سورۃ البقرۃ: ۲۶۱)
{لِیُوَفِّیَھُمْ أُجُوْرَھُمْ وَ یَزِیْدَھُمْ مِّنْ فَضْلِہٖط} (سورۃ الفاطر: ۳۰)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کل عمل ابن آدم یضاعف الحسنۃ بعشر أمثالہا إلی سبعمائۃ ضعف، قال اللّٰہ عز وجل: إلا الصوم فإنہ لي، وأنا أجزي بہ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصیام: باب فضل الصیام‘‘: ج ۱، ص: ۳۶۳، رقم: ۱۱۵۱)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص386

اسلامی عقائد

Ref. No. 2684/45-4201

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کے شوہر کا یہ کہنا کہ ایسا علم جو اللہ کے پاس، نبی کے پاس اور میرے پاس ہے اس سے اس کی کیا مراد ہے؟ بظاہر ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میرے پاس قرآن وحدیث کا علم ہے اگر ایسا ہے تو یہ جملہ درست ہے، لیکن ان کا یہ کہنا ہے کہ میں جھوٹے زندیق علماء کی بات نہیں مانتا، اگر نیک صالح علماء کو وہ جھوٹا اور زندیق کہہ کر توہین کرے تو یہ انتہائی غلط جملہ ہے، فقہاء نے لکھا ہے کہ علماء کی توہین اگر علم کی بناء پر کرے تو کفر کا اندیشہ ہے،اس لیے علماء کی توہین سے بچنا چاہئے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسواک رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کو کھڑا رکھا جائے عرضا زمین پر نہ رکھا جائے۔  ’’ولایضعہ بل ینصبہ والا فخطر الجنون‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، الدرالمختار مع الرد المحتار، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۵۔
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص210

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام کو مقتدیوں کی رعایت کرتے ہوئے قرأت، رکوع سجود کو دراز نہ کرنا چاہئے، بلکہ قرأت، رکوع اور سجود کو سنت کے مطابق ادا کرنا چاہئے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی لوگوں کو نماز پڑھائے، تو ہلکی نماز پڑھائے، کیوں کہ ان میں کمزور بوڑھے ہوتے ہیں اور جب تم تنہا نماز پڑھو، تو جتنی چاہے طویل کرو۔(۱)

(۱) یکرہ تحریما (تطویل الصلاۃ) علی القوم زائدا علی قدر السنۃ في قراء ۃ وأذکار رضي القوم أو لا لإطلاق الأمر بالتخفیف۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب لإمامۃ، مطلب إذا صلی الشافعي قبل الحنفي ہل الأفضل الصلاۃ مع الشافعي أم لا‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۴)
وکرہ تطویل الصلاۃ کذا في التبیِین وینبغي للإمام أن لا یطول بہم الصلاۃ بعد القدر المسنون، وینبغي لہ أن یراعي حال الجماعۃ ہکذا في الجوہرۃ النیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماما لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۴)
عن أبي مسعود الأنصاري قال: قال رجل: یا رسول اللّٰہ لا أکاد أدرک الصلاۃ مما یطول بنا فلان فما رأیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في موعظۃ أشد غضبا من یوْمئذ فقال أیہا الناس إنکم منفرون فمن صلی بالناس فلیخفف فإن فیہم المریض والضعیف وذا الحاجۃ۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب العلم، باب الغضب في الموعظۃ والتعلیم إذا رأي ما یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۹، رقم: ۹۰)

عن أبي ہریرۃ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إذا صلی أحدکم للناس فلیخفف فإن منہم الضعیف والسقیم والکبیر وإذا صلی أحدکم لنفسہ فلیطول ما شاء۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب الأذان، باب إذا صلی لنفسہ فلیطول ما شاء‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۲، رقم: ۷۰۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص43