Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: جو شخص اذان کا جواب دے رہا ہو اسے چاہئے کہ مؤذن کی اذان میں ’’أشہد أن محمداً رسول اللّٰہ‘‘ کہنے پر اتنا ہی جملہ کہے اور اذان پوری ہونے پر دعاء اور درود شریف پڑھے اور جو اذان کا جواب نہیں دے رہا ہے وہ محمد رسول اللہ سن کر درود پڑھے، انگلی چومنے کا شرعاً کوئی ثبوت نہیں ہے، اس لیے اس کو ثواب سمجھ کر اختیار کرنا بدعت ہے۔
’’عن عبد اللّٰہ بن عمر وابن العاص أنہ سمع النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: إذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما یقول ثم صلوا علي فإنہ من صلی علی صلوٰۃ صلی
اللّٰہ علیہ بہا عشراً ثم سلوا اللّٰہ لي الوسیلۃ فإنہ منزلۃ في الجنۃ لا تنبغي إلا لعبد من عباد اللّٰہ وأرجوا أن أکون أنا ہو فمن سأل لی الوسیلۃ حلت علیہ الشفاعۃ‘‘(۲)
’’عن حفص بن عاصم بن عمر بن الخطاب عن أبیہ عن جدہ عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہم قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا قال المؤذن: أللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر، فقال أحدکم: اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر، ثم قال: أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ: قال: أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ: ثم قال أشہد أن محمدا رسول اللّٰہ، قال: أشہد أن محمدا
رسول اللّٰہ، ثم قال: حي علی الصلاۃ قال لا حول ولا قوۃ إلا باللّٰہ، ثم قال: حي علی الفلاح، قال: لا حول ولا قوۃ إلا باللّٰہ، ثم قال اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر، قال: اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر، ثم قال: لا إلہ إلا اللّٰہ، قال: لا إلہ إلا اللّٰہ، من قلبہ دخل الجنۃ‘‘(۱)
’’بأن یقول بلسانہ کمقالتہ إن سمع المسنون منہ، وہو ما کان عربیا لا لحن فیہ، ولو تکرر أجاب الأول إلا في الحیعلتین فیحوقل وفي الصلاۃ خیر من النوم فیقول: صدقت وبررت۔ ویندب القیام عند سماع الأذان بزازیۃ، ولم یذکر ہل یستمر إلی فراغہ أو یجلس، ولو لم یجبہ حتی فرغ لم أرہ۔ وینبغي تدارکہ إن قصر الفصل، ویدعو عند فراغہ بالوسیلۃ لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم (قولہ: ویدعو إلخ) أي بعد أن یصلي علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لما رواہ مسلم وغیرہ إذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما یقول ثم صلوا علی، فإنہ من صلی علي صلاۃ صلی اللّٰہ علیہ بہا عشرا ثم سلوا لي الوسیلۃ فإنہا منزلۃ في الجنۃ لا تبتغي إلا لعبد مؤمن من عباد اللّٰہ، وأرجو أن أکون أنا ہو، فمن سأل اللّٰہ لي الوسیلۃ حلت لہ الشفاعۃ ‘‘(۲)
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب استحباب القول مثل قول المؤذن …‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۶، رقم:۳۸۴، مکتبہ: نعیمہ دیوبند۔
(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب استحباب القول مثل قول المؤذن …‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۷، رقم:۲۰۱، مکتبہ نعیمہ دیوبند۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: مطلب في کراہۃ تکرار الجماعۃ في المسجد، ج ۲، ص: ۶۷، ۶۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص173
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز اور تمام عبادات میں نیت فرض ہے، بغیر نیت کے نماز نہیں ہوتی ہے اور فرض نمازمیں یا جمعہ کی نماز میں فرض کی نیت اور جمعہ کی نیت کرنا فرض ہے اگرکوئی جمعہ میںفرض کی نیت نہیں کرتا ہے یاجمعہ کی نیت نہیں کرتا ہے تو اس کی جمعہ کی نماز نہیں ہوگی؛ لہٰذا زید کی پہلی نماز جمعہ کی نہیں ہوئی؛ بلکہ نیت کے مطابق نفل ہوئی اورجمعہ کی دوسری نمازجو انہوں نے پڑھائی ہے وہ صحیح ہے۔
’’(قولہ النیۃ عندنا شرط مطلقا) أي في کل العبادات باتفاق الأصحاب‘‘(۱)
’’(ولا بد من التعیین عند النیۃ) ۔۔۔۔ وفي الأشباہ: ولا یسقط التعیین بضیق الوقت لأنہ لو شرع فیہ منتقلا صح وإن کان حراماً (قولہ عند النیۃ) أي سواء تقدمت علی الشروع أو قارنتہ، فلو نوی فرضا معینا وشرع فیہ نسي فظنہ تطوعا فأتمہ علی ظنہ فہو علی ما نوی کما في البحر‘‘(۲)
’’مطلق الصلاۃ ینصرف إلی النفل‘‘(۳)
حدیث میں ایک واقعہ مذکور ہے جس سے اس مسئلے پر بھی روشنی پڑتی ہے، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھ کر اپنی قوم میں جاکر عشاء کی نماز پڑھا تے تھے، اس حدیث کی بنا پر حضرات شوافع یہ کہتے ہیں پہلی نماز فرض تھی اور دوسری نماز نفل تھی جب کہ احناف کی رائے ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ نفل کی نیت سے نماز پڑھتے تھے اورپھر لوگوں کو فرض پڑھا تے تھے۔ علامہ عینیؒ اور علامہ کشمیریؒ نے اسی کوراجح قرار دیا ہے کہ ان کی پہلی نماز نفل تھی۔
’’الثاني: أن النیۃ أمر مبطن لا یطلع علیہ إلا بإخبار الناوی، ومن الجائز أن یکون معاذ کان یجعل صلاتہ معہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، بنیۃ النفل لیتعلم سنۃ القراء ۃ ‘‘(۱)
’’حتی انہم اختلفوا في أن أیا من صلاتیہ تقع عن الفریضۃ: فقال بعضہم: إن الفریضۃ تسقط بأولی صلاتیہ۔ وقال آخرون: بل تسقط بأکمل منہما، ولا یحکم علی إحداہما بتا، کما في ’’الموطأ‘‘ عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ لما سئل عن ذلک فوضہ إلی اللّٰہ‘‘(۲)
’’وإذا تقرَّر ہذا، لم یبقَ بیننا وبین الشافعیۃ خلاف في صلاۃ معاذ رضي اللّٰہ عنہ، إلا أنہم قالوا: إن أولی صلاتیہ کانت فریضۃً والأخری نافلۃ، وقلنا بعکسہ۔ وحینئذٍ اعْتَدَلْنَا ککفتی المیزان، لا مزیۃ لہم علینا، لأن ما ادعوہ من باب الرجم بالغیب، فمن أین علموا أن صلاۃ معاذ رضي اللّٰہ عنہ خلف النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کانت ہي الفریضۃ ولا یعلم حال النیۃ إلا من قبلہ، وما لم یبین ہو بنفسہ، فجعل أولی صلاتیہ فریضۃ تحکم، لم لا یجوز أن تکون تلک نافلۃ والأخری بعکس ما قلتم؟
فإن قلت: إن معاذا رضي اللّٰہ إذا نوی العشاء أول مرۃ علی ما قلتم، وقع عن فریضۃ لا محالۃ۔ قلت: کلا، فإنک قد علمت في مفتتح الکلام أن الفریضۃ تحتاج إلی نیۃ زائدۃ علی أصل الصلاۃ، وہي نیۃ وصف الفرضیۃ، فإنہ یتضمن أمرین: الصلاۃ، وذلک الوصف۔ فإذا أطلق في النیۃ ولم ینو ہذا الوصف، لا تقع إلا نافلۃ، ولعل صلاۃ معاذ رضي اللّٰہ عنہ مع النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کانت لإحراز فضیلۃ جماعۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلّم وصلاتہ في قومہ کانت لإسقاطہا عن ذمتہ، بل ہو الظاہر علی أصلنا۔ فإنہ کان إمام قومہ، فلا بد أن ینوي صلاۃ یصح اقتداؤہم بہ، وذلک علی ما قلنا۔ ولسنا ندعی أنہ کان یفعل کذلک؛ بل نقول: إنا نتوازن في الفعال حذو المثقال، ولا نرضی بخطۃ عسف‘‘(۱)
یہ مسئلہ اس قبیل سے نہیں ہے کہ نیت نفل کی کرے اور ادا فرض ہوجائے۔ علامہ حمویؒ نے ان مسائل کی جن میں نیت کے برخلاف عبادت کا تحقق ہوتا ہے اس کی فہرست دی ہے اور اس کے حصر کا دعوی کیا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’ونقض الحموی الحصر بمسائل ینوی فیہا خلاف ما یؤدي منہا ما لو طاف بنیۃ التطوع في أیام النحر وقع عن الفرض، وما لو صام یوم الشک تطوعاً فظہر أنہ من رمضان کان منہ، وما لو تہجد برکعتین فظہر أن الفجر طالع ینوبان عن سنۃ الفجر۔ وما لو صام عن کفارۃ ظہار أو إفطار فقدر علی العتق یمضي في صوم النفل۔ وما لو نذر صوم یوم بعینہ فصامہ بنیۃ النفل یقع عن النذر کما في جامع التمرتاشی‘‘(۲)
مفتی صاحب کو بظاہر مغالطہ ہواہے،نماز کے مسئلہ کو رمضان پر قیاس کرنا درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ رمضان روزہ کے لیے معیار ہے اور روزہ کا پورا وقت روزہ میں ہی مصروف رہتا ہے؛ اس لیے رمضان میں رمضان کے روزہ کے علاوہ کوئی روزہ درست ہی نہیں ہے، رمضان کا روزہ ہی متعین ہے اور متعین کے لیے تعیین کی ضرورت نہیں ہوتی اس لیے نفس روزہ کی نیت سے بھی رمضان کاروزہ ادا ہو جاتا ہے اور نفل کی نیت سے بھی رمضان کا ہی روزہ ادا ہوتا ہے؛ لیکن نماز میں وقت نماز کے لیے ظرف ہے جس میں فرض نماز کی ادائیگی کے بعد بھی وقت بچتا ہے؛ اس لیے یہاں پر فرض کی نیت کے ساتھ تعیین کی بھی ضرورت ہوتی ہے حتی کہ فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر وقت میں تنگی ہو اور صرف فرض ادا ہو سکتا ہو اس وقت میں بھی اگر کسی نے نفل کی نیت کرلی، تو اس کی نفل نماز درست ہوجائے گی ،اگرچہ اس کے لیے ایسا کرنا درست نہیں ہے معلوم ہوا کہ نماز کو رمضان پر قیاس کرنا درست نہیں ہے۔
’’(قولہ: وبمطلق النیۃ) أي من غیر تقیید بوصف الفرض أو الواجب أو السنۃ لأن رمضان معیار لم یشرع فیہ صوم آخر فکان متعینا للفرض والمتعین لا یحتاج إلی التعیین والنذر المعین معتبر بإیجاب اللّٰہ تعالی فیصام کل بمطلق النیۃ إمداد‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، فر وع في النیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، مطلب في حضور القلب‘‘: ج ۲، ص: ۹۵،
(۳) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، مطلب في ستر العورۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۲۰۔
(۱) بدرالدین عیني، عمدۃ القاري، ’’کتاب الصلاۃ: باب إذا طول الإمام‘‘: ج ۵، ص: ۲۳۶، دار إحیاء التراث العربي بیروت۔
(۲) الکشمیري، فیض الباري، کتاب الصلاۃ: باب إذا طول الإمام وکان للرجل حاجۃ فخرج فصلیٰ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۵، شیخ الہند، دیوبند۔
(۱) الکشمیري، فیض الباري، کتاب الصلاۃ: باب إذا طول الإمام وکان للرجل حاجۃ فخرج فصلیٰ‘‘ج ۲، ص: ۲۸۷۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، فر وع في النیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۱، ۱۲۲۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصوم‘‘: ج ۳، ص: ۳۴۱، ۳۴۲۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص295
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: آہستہ اور پست آواز سے دعا مانگنا افضل ہے(۱) مقتدی دعا یا دکرلیں یا دعائیہ جملہ ختم ہونے پر مقتدی آمین کہ سکیں اس غرض سے ذرا آواز سے دعا مانگنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۲) وہ بھی اس شرط سے کہ نمازیوں کا حرج نہ ہو؛ ورنہ تو اس طرح دعا مانگنا کہ نمازیوں کو تشویش ہو ان کی نماز میں خلل واقع ہو اس طرح دعا مانگنا جائز نہیں ہے، اس سے امام بھی گناہگار ہوگا جو لوگ امام کو اس طرح دعاء مانگنے پر مجبور کریں گے وہ بھی گناہگار ہوں۔(۳)
(۱) {ادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ إنہ لایحب المعتدین} (سورۃ الاعراف: ۵۵)، تضرعا یعني ادعوا ربکم تذللا واستکانۃ، وہو إظہار الذل في النفس والخشوع، یقال: ضرع فلان لفلان إذا أذل لہ وخشع، وقال الزجاج: تضرعا یعني تملقا وحقیقتہ أن ندعوہ خاضعین خاشعین متعبدین بالدعاء لہ تعالی وخفیۃ یعني سرا في أنفسکم وہو ضد العلانیۃ والأدب في الدعاء أن یکون خفیا لہذہ الآیۃ، قال الحسن: بین دعوۃ السرودعوۃ العلانیۃ سبعون ضعفا ولقد کان المسلمون یجتہدون في الدعاء ولا یسمع لہم صوت إن کان إلا ہمسا بینہم وبین ربہم وذلک أنہ تعالیٰ یقول ادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ وأن اللّٰہ تعالیٰ ذکر عبدا صالحا رضي فعلہ فقال تعالیٰ: إذ نادی ربہ بداء خفیا (ق) وعن أبي موسی الأشعري رضي اللّٰہ عنہ قال: کنا مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فجعل الناس یجہرون بالتکبیر فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أیہا الناس إربعوا علی أنفسکم إنکم لاتدعون أصم ولا غائبا، إنکم تدعون سمیعا بصیرا وہو معکم والذي تدعونہ أقرب إلی أحدکم من عنق راحلتہ۔ (تفسیر الخازن، سورۃ الأعراف، ۵۵، ج ۲، ص: ۲۱۰)
واختار مشایخنا بما وراء النہر الإخفاء في دعاء القنوت في حق الإمام والقوم جمیعا لقولہ تعالیٰ {ادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ} (الأعراف: ۵۵)، وقول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم خیر الدعاء الخفي۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۴؛ ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۶)
(۲) إذا دعانا بالدعاء المأثور جہراً ومعہ القوم أیضاً لیتعلموا الدعاء لا بأس بہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الرابع في الصلاۃ والتسبیح وقراء ۃ القرآن‘‘: ج ۵، ص: ۳۹۳)
(۳) {ادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ إنہ لایحب المعتدین} (سورۃ الاعراف: ۵۵)، تضرعا یعني ادعوا ربکم تذللا واستکانۃ، وہو إظہار الذل في النفس والخشوع، یقال: ضرع فلان لفلان إذا أذل لہ وخشع، وقال الزجاج: تضرعا یعني تملقا وحقیقتہ أن ندعوہ خاضعین خاشعین متعبدین بالدعاء لہ تعالی وخفیۃ یعني سرا في أنفسکم وہو ضد العلانیۃ والأدب في الدعاء أن یکون خفیا لہذہ الآیۃ قال الحسن بین دعوۃ السرودعوۃ العلانیۃ سبعون ضعفا ولقد کان المسلمون یجتہدون في الدعاء ولا یسمع لہم صوت إن کان إلا ہمسا بینہم وبین ربہم وذلک أنہ تعالیٰ یقول: ادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ وأن اللّٰہ تعالیٰ ذکر عبدا صالحا رضي فعلہ فقال تعالیٰ: إذ نادی ربہ نداء خفیا (ق) وعن أبي موسی الأشعري رضي اللّٰہ عنہ قال: کنا مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فجعل الناس یجہرون بالتکبیر فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أیہا الناس أربعوا علی أنفسکم إنکم لاتدعون أصم ولا غائبا، إنکم تدعون سمیعا بصیرا وہو معکم والذي تدعونہ أقرب إلی أحدکم من عنق راحلتہ۔ (تفسیر الخازن، سورۃ الأعراف، ۵۵، ج ۲، ص: ۲۱۰)
واختار مشایخنا بما وراء النہر الإخفاء في دعاء القنوت في حق الإمام والقوم جمیعا لقولہ تعالی {ادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ} (الأعراف: ۵۵)، وقول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم خیر الدعاء الخفي۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۴؛و ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص441
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اولاً فرض نماز کے بعد دو سنت پڑھے اور پھر چار سنت ادا کرے۔(۲)
(۲) رجح في الفتح تقدیم الرکعتین۔ قال في الإمداد: وفي فتاویٰ العتابي أنہ المختار۔ وفي مبسوط شیخ الإسلام أنہ الأصح، لحدیث عائشۃ: أنہ علیہ الصلاۃ والسلام کان إذا فاتتہ الأربع قبل الظہر یصلیہن بعد الرکعتین وہو قول أبي حنیفۃ، وکذا في جامع قاضي خان قال الترمذي: حسن غریب، فتح (الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، باب إدراک الفریضۃ، مطلب ھل الإسائۃ دون الکراھۃ الخ، ج ۲، ص: ۵۱۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص362
زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Ref. No. 1090 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ زکوة میں رقم ہی دینا ضروری نہیں ، بلکہ زکوة کی رقم سے کوئی چیز خرید کر بھی مستحق کی ملکیت میں دیدینے سے زکوة ادا ہوجاتی ہے، لہذا صورت مسئولہ میں زکوة ادا ہوجائے گی۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 38/ 875
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ریکارڈنگ کا حکم آوازبازگشت کا ہے، اس لئے اس صورت میں سجدہ تلاوت کرنایا درود شریف پڑھنا واجب نہیں ہے۔لیکن اگر پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں ہے۔تاہم موبائل یا کمپیوٹر پر قرآن کریم کی تلاوت سننے کے بجائے ازخود تلاوت کریں تو یہ زیادہ اجروثواب کا باعث ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 41/1068
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
The term ‘Taqwa’ means fearing Allah and being very mindful of Allah. Abiding by all the orders of Allah and refraining from all His prohibitions out of fear of Allah is called ‘Taqwa’.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Death / Inheritance & Will
Ref. No. 1048/41-213
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Parents devote their life to upbringing their children, so it is duty of children to respect the emotions of their parents at any cost. However, whatever you possess in your lifetime is your own property and you have full right to do what and how you wish to do with your wealth. You have full right to give it to whom you like and don’t give whom you dislike, but evicting a child from property is not recommended and sometimes it is not considered to be legitimate in shariah.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
طلاق و تفریق
Ref. No. 1669/43-1276
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خلوت صحیحہ ، صحبت کے حکم میں ہے، خلوت صحیحہ کے بعد طلاق ہوجانے کی صورت میں عورت پر عدت لازم ہوگی گرچہ صحبت نہ ہوئی ہو، اورشوہر پر پورا مہر بھی لازم ہوگا۔ اور یہ طلاق طلاق بائن کے حکم میں ہوگی۔
(سئل) في امرأة طلقها زوجها بعدما خلا بها خلوة صحيحة ولم يطأها فهل يلزمها العدة؟ (الجواب) : نعم وتجب العدة في الكل أي كل أنواع الخلوة ولو فاسدة احتياطا وتمامه في شرح التنوير للعلائي من المهر.(العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ، باب العدۃ 1/56)
رجل تزوج امرأة نكاحا جائزا فطلقها بعد الدخول أو بعد الخلوة الصحيحة كان عليها العدة كذا في فتاوى قاضي خان. (الھندیۃ، الباب الثالث عشر فی العدۃ 1/526) (وفي الطلاق بعد الخلوة قبل الدخول بها) يكتب هذا ما شهد الشهود المسمون آخر هذا الكتاب أن فلانا طلق امرأته بعدما خلا بها خلوة صحيحة خالية عن الموانع الشرعية والطبيعية كلها تطليقة واحدة بائنة نافذة جائزة فحرمت عليه بهذه التطليقة ووجب لها عليه كمال ما سمي لها من الصداق، وهو كذا ونفقة عدتها وهي كذا ويتم الكتاب. (الھندیۃ، الفصل الثالث فی الطلاق 6/260)
والثاني: الدخول أو ما هو في معناه، وهو الخلوة الصحيحة في النكاح الصحيح لعموم قوله تعالى {يا أيها الذين آمنوا إذا نكحتم المؤمنات ثم طلقتموهن من قبل أن تمسوهن فما لكم عليهن من عدة تعتدونها} [الأحزاب: 49] من غير تخصيص إلا أن الخلوة الصحيحة في النكاح الصحيح ألحقت بالدخول في حق وجوب العدة لما ذكرنا أنها ألحقت به في حق تأكيد كل المهر ففي وجوب العدة أولى احتياطا، وتجب هذه العدة على الحرة، والأمة. (بدائع الصنائع، فصل فی عدۃ الحبل 3/192)
والحاصل أنه إذا خلا بها خلوة صحيحة ثم طلقها طلقة واحدة فلا شبهة في وقوعها، فإذا طلقها في العدة طلقة أخرى فمقتضى كونها مطلقة قبل الدخول أن لا تقع عليها الثانية، لكن لما اختلفت الأحكام في الخلوة في أنها تارة تكون كالوطء وتارة لا تكون جعلناها كالوطء في هذا فقلنا بوقوع الثانية احتياطا لوجودها في العدة، والمطلقة قبل الدخول لا يلحقها طلاق آخر إذا لم تكن معتدة بخلاف هذه. والظاهر أن وجه كون الطلاق الثاني بائنا هو الاحتياط أيضا، ولم يتعرضوا للطلاق الأول. وأفاد الرحمتي أنه بائن أيضا لأن طلاق قبل الدخول غير موجب للعدة لأن العدة إنما وجبت لجعلنا الخلوة كالوطء احتياطا، فإن الظاهر وجود الوطء في الخلوة الصحيحة ولأن الرجعة حق الزوج وإقراره بأنه طلق قبل الوطء ينفذ عليه فيقع بائنا، وإذا كان الأول لا تعقبه الرجعة يلزم كون الثاني مثله. اهـ. ويشير إلى هذا قول الشارح طلاق بائن آخر فإنه يفيد أن الأول بائن أيضا، ويدل عليه ما يأتي قريبا من أنه لا رجعة بعده، وسيأتي التصريح به في باب الرجعة، وقد علمت مما قررناه أن المذكور في الذخيرة هو الطلاق الثاني دون الأول فافهم. ثم ظاهر إطلاقهم وقوع البائن أولا وثانيا وإن كان بصريح الطلاق، وطلاق الموطوءة ليس كذلك فيخالف الخلوة الوطء في ذلك. (شامی، مطلب فی حط المھر والابراء منہ 3/119)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 2139/44-2198
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ڈارون کا نظریہ اسلامی نظریہ کے خلاف ہے، آپ اگر اس نظریہ کو مانتے نہیں ہیں تو اس نظریہ کو پڑھنے میں کوئی گناہ نہیں ہے، ، اسی طرح سودی نظام کو سمجھنے کے لئے اس کو پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اسی طرح غیراسلامی چیزوں کو سمجھنے کے لئے تاکہ ہم سمجھ کر اس کی حقیقت وقباحت لوگوں کے سامنے واضح کرسکیں، اور لوگوں کو اسلام کی حقانیت سے متعارف کراسکیں۔ ان چیزوں کوپڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ اگر مذکورہ مقاصد کو پیش نظر رکھ کر پڑھاجائے تو امید ہے کہ اجر کا باعث ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند