نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مذکورہ میں مذکورہ شخص کا عقیدہ بالکل درست ہے اور وہ نماز کو دل سے فرض مانتا ہے اور وہ نماز پڑھتا بھی ہے نیز اس کے کلام میں تاویل بھی ممکن ہے اس لیے وہ دائرۂ اسلام سے خارج نہیں ہوا؛ لیکن مذکورہ لفظ سے صراحت قرآن کا انکار ظاہر ہوتا ہے اس لیے مذکورہ شخص گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے اس پر لازم ہے کہ توبہ واستغفار کرے اور آئندہ ایسے الفاظ سے پرہیز کرے۔
’’لو قال لمریض:صل، فقال: واللّٰہ لا أصلي أبداً ولم یصل حتی مات یکفر
وقول الرجل: لا أصلي یحتمل أربعۃ أوجہ: أحدہا لاأصلي لأني صلیت، والثاني: لا  أصلي بأمرک فقد أمرني بہا من ہو خیر منک، والثالث: لا أصلي فسقا مجانۃ فہذہ الثلاثۃ لیست بکفر، والرابع: لا أصلي، إذ لیس یجب علی الصلاۃ ولم أومر بہا یکفر وأطلق وقال لا أصلي لا یکفر‘‘(۱)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: مایتعلق بالصلاۃ والصوم والزکاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۰۔

فتاوى دار العلوم وقف ج 4 ص: 48 و 49

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مذکورہ میں جس نیت سے جو نماز شروع کی گئی ہے وہی نماز ہوگی درمیان میں صرف نیت کے بدلنے سے دوسری نماز کی طرف منتقل نہیں ہو سکتے، لہٰذا نیت کی تبدیلی سے وہ فرض اور قضاء نماز نہیں ہوئی، بلکہ جو نماز پہلی نیت سے شروع کی تھی یعنی سنت وہی ادا ہوگی؛ اس لیے کہ نماز صرف نیت سے منتقل نہیں ہوتی، بلکہ اس کے لیے تکبیر تحریمہ کہنا بھی ضروری ہے۔
’’الرابع في صفۃ المنوی من الفریضۃ والنافلۃ والأداء والقضاء، أما الصلاۃ فقال في البزازیۃ: إنہ ینوی الفریضۃ في الفرض فقال معزیاً إلی المجتبیٰ ’’لابد من نیۃ الصلاۃ ونیۃ الفرض ونیۃ التعیین الخ‘‘(۱)
’’(قولہ ولا تبطل بنیۃ القطع) وکذا بنیۃ الانتقال إلی غیرہا (قولہ ما لم یکبر بنیۃ مغایرۃ) بأن یکبر ناویا النفل بعد شروع الفرض وعکسہ، أو الفائتۃ بعد الوقتیۃ وعکسہ، أو الاقتداء بعد الإنفراد وعکسہ۔ وأما إذا کبر بنیۃ موافقۃ کأن نوی الظہر بعد رکعۃ الظہر من غیر تلفظ بالنیۃ فإن النیۃ الأولی لا تبطل ویبنی علیہا۔ ولو بنی علی الثانیۃ فسدت الصلاۃ‘‘(۲)
’’قولہ ولا عبرۃ بنیۃ متأخرۃ) لأن الجزء الخالي عن النیۃ لا یقع عبادۃ فلا یبنی الباقي علیہ، وفي الصوم جوزت للضرورۃ، حتی لو نوی عند قولہ اللّٰہ قبل أکبر لا یجوز لأن الشروع یصح بقولہ اللّٰہ فکأنہ نوی بعد التکبیر حلیۃ عن البدائع‘‘(۱)

(۱) ابن نجیم، الأشباہ والنظائر، القاعدۃ الثانیۃ: ص: ۱۵۔
(۲) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۶۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص307

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: یزید کے تعلق سے دو قسم کے سوالات عام طورپر پوچھے جاتے ہیں ایک یزید پر لعن طعن کرنے کا او ر دوسرے یزید کے فسق کا،یزید کے لعن طعن کے سلسلے میں علمائے دیوبند کا موقف توقف کا ہے اس لیے کہ اگر کوئی شخص واقعی مستحق لعن ہے تو بھی اس پر لعن طعن کرنا ہمارے لیے ضروری نہیں ہے۔ فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند میں یزید کے بارے میں مطلقاً علمائے دیوبند کاموقف معلوم کیا گیا ہے اس پر یزید کے لعن، طعن کرنے کے مفہوم کو سامنے رکھ کر توقف کا جواب دیا گیا ہے اور لعن طعن سے توقف کرنا یہ علمائے دیوبنداور اہل سنت و الجماعت کا موقف ہے؛ اس لیے کہ جس کے کفر کا یقین ہو اس پر لعن طعن کرنا درست ہے اور جس کے کفر پر یقینی دلائل نہ ہوں اور اس پر لعن کی صراحت نصوص میں نہ ہو اس پر لعن طعن کرنے سے پرہیز کرنا چا ہیے۔ بذل المجہود کے حاشیہ میں حضرت مولانا زکریا صاحب کاندھلویؒ لکھتے ہیں:
’’ہل یجوز لعن یزید حکی القاضي ثناء اللّٰہ في مکتوباتہ أن للعلماء فیہ ثلاثۃ مذاہب: الأول المنع، کما قال الإمام أبوحنیفۃ في الفقہ الأکبر‘‘(۱)
حضرت گنگوہی ؒ سے بھی جو توقف کا قول منقول ہے وہ لعن طعن کرنے کے سلسلے میں ہے: چناںچہ فتاوی رشیدیہ میں لکھتے ہیں:
’’پس بدون تحقیق اس امر کے لعن طعن جائز نہیں؛ لہٰذا وہ فریق علماء کا بوجہ حدیث منع لعن مسلم کے لعن سے منع کرتے ہیں اور یہ مسئلہ بھی حق ہے پس جواز لعن وعدم جواز لعن کا مدار تاریخ پرہے اور ہم مقلدین کو احتیاط سکوت میں ہے؛ کیوں کہ اگر لعن جائز ہے تو لعن نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں؛ لعن نہ فرض ہے نہ واجب نہ سنت نہ مستحب محض مباح ہے او رجو وہ محل نہیں تو خود مبتلا ہونا معصیت کا اچھا نہیں‘‘۔ فقط واللہ اعلم بالصواب(۲)
یزید پر لعنت کے سلسلے میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ امداد الفتاوی میں لکھتے ہیں:
’’یزید کے باب میں علماء قدیما و حدیثا مختلف رہے ہیں، بعض نے تو اس کو مغفور کہا ہے اور بعضوں نے اس کو ملعون کہا ہے۔مگر تحقیق یہ ہے کہ چوں کہ معنی لعنت کے ہیں خدا کی رحمت سے دور ہونا اور یہ ایک امر غیبی ہے جب تک شارع بیان نہ فرمادے کہ فلاں قسم کے لوگ یا فلاں شخص خدا کی رحمت سے دور ہے؛ کیوں کر معلوم ہوسکتاہے او رتتبع کلام شارع سے معلوم ہواکہ نوع ظالمین و قاتلین مسلم پر تو لعنت وارد ہوئی ہے۔
’’کما قال تعالٰی: ألَا لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ، وقال : مَنْ یَّقْتُلْ مُؤمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَائُ ہٗ جَہَنَّمُ خَالِدًا فِیْہَا وَ غَضَبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ لَعَنَہٗ وَأَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا۔‘‘
 پس اس کی توہم کو بھی اجازت ہے او ریہ علم اللہ تعالی کو ہے کہ کون اس نو ع میںداخل ہے اور کون خارج او رخاص کر یزید کے باب میں کوئی اجازت منصوصہ ہے نہیں پس بلا دلیل اگر دعوی کریں کہ وہ خدا کی رحمت سے دور ہے اس میں خطر عظیم ہے؛ البتہ اگر نص ہوتی تو مثل فرعون وہامان
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) خلیل أحمد، سہارنپور، ہامش بذل المجہود، ’’کتاب الأدب: باب اللعن‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۸۔
(۲) رشید احمد گنگوہی، فتاوی رشیدیہ، ’’ایمان وکفر کے مسائل، یزید پر لعنت کرنا‘‘: ص: ۸۴، جسیم بک ڈپو دہلی۔
وقارون وغیرہم کے لعنت جائز ہوتی۔
’’وإذا لیس فلیس‘‘(۱)
حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: ہمیں یزید پر لعنت کرنے نہ کرنے سے بحیثیت مسئلہ کوئی تعرض نہیں، تاہم یہ ضرور ہے کہ مستحق لعنت اشد قسم کا فاسق ہی ہو سکتا ہے: اس لیے یہ استحقاق لعنت کا مسئلہ درحقیقت یزید کے فسق کی ایک مستقل دلیل ہے پس جو دلائل آگے آ رہے ہیں وہ لعنت کی ترغیب دینے کے لیے نہیں ہے؛ بلکہ اس کے فسق کے اثبات کے سلسلے میں ہیں۔(۲)
 حضرت مولانایوسف بنوری رحمہ اللہ‘‘معارف السنن’’میں لکھتے ہیں:
’’ویزید لا ریب في کونہ فاسقاً ولعلماء السلف في یزید وقتلہ الإمام الحسین خلاف في اللعن والتوقف۔ قال ابن الصلاح: فی یزید ثلاث فرق: فرقۃ تحبہ، وفرقۃ تسبہ، وفرقۃ متوسطۃ لا تتولاہ ولا تلعنہ۔ قال: وھذہ الفرقۃ ھي المصیبۃ الخ‘‘(۳)
علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فتاوی شامی میںتحریرفرماتے ہیں :
’’حقیقۃ اللعن المشھودۃ ھي الطرد عن الرحمۃ، وھي لا تکون الا لکافر، ولذا لم تجز علی معین بدلیل وإن کان فاسقا مشھورا کیزید علی المعتمد، بخلاف نحو إبلیس وأبي لھب وأبي جھل فیجوز، وبخلاف غیر المعین کالظالمین والکاذبین فیجوز أیضا‘‘(۴)
شرح العقائد اور اس کی عربی شرح نبراس میں ہے:
’’إنمااختلفوا في یزید بن معاویۃ حتی ذکر في الخلاصۃ و غیرھا أنہ لاینبغي اللعن علیہ و لا الحجاج (وقال صاحب النبراس تحت قولہ:) واعلم أنہ کثر
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) حضرت تھانويؒ، امداد الفتاوی مبوب، ’’کتاب العقائد والکلام‘‘: تحقیق لعن یزید، ج ۵، ص: ۴۲۵۔
(۲) حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ، شہید کربلا اور یزید: ص: ۱۴۰۔
(۳) الکشمیري، معارف السنن،شرح سنن الترمذی: ج ۶، ص: ۸۔
(۴) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الرجعۃ، مطلب في حکم لعن العصاۃ‘‘: ج ۵، ص: ۴۹۔
الاختلاف في ھذا المقام والذي حققہ المحققون ھو أن اللعن ثلاثۃ أقسام: أحدھا: اللعن بالوصف العام الوارد في الشرع نحو لعن اللّٰہ الکفار و الیھود و ھذا جائز۔۔۔۔ ثانیھا: اللعن علی الشخص المعین الذي صح موتہ علی الکفر باخبار الشارع کفرعون و أبي جھل و ابلیس وھو جائز۔ ثالثھا:علی شخص لم یعلم موتہ علی الکفر و ھو لایجوز سواء کان حیّا أو میتا و کان بحسب الظاہر مؤمنا أو کافرا لجواز أن یوفق اللّٰہ سبحانہ الکافر للاسلام (ھذا ما قررہ المحققون…) وبھذا ظہر أن استدلالھم علی لعن یزید بالنصوص العامۃ غیر صحیح و أن معنی اللعن فیھا ھو ذم الفعل لا تجویز لعن کل شخص بفعلہ فاحفظ ھذا التحقیق، ولاتکن من الذین لایراعون قواعد الشرع و یحکمون بأن من نھی عن لعن یزید فھو من الخوارج۔ نعم قبح أفعالہ مشھور و حب أھل البیت واجب لکن النھی عن لعنہ لیس للقصور في حبھم بل لقواعد الشرع‘‘(۱)

اس طرح کی عبارتیں کتب اہل سنت والجماعت میں کثرت سے موجود ہیں؛ اس لیے احوط قول یہی ہے کہ یزید پر لعن و طعن کے سلسلے میں توقف کیا جائے۔ جہاں تک یزید کے عادل او رفاسق ہونے کا مسئلہ ہے اس سلسلے میں بھی اہل علم کا اختلاف ہے بعض لوگ اسے فاسق نہیں مانتے ہیں اور ان کے پاس بھی دلائل ہیں تاہم اہل سنت والجماعت کی اکثریت، اسی طرح اکابر علماء دیوبند کا عمومی رخ یزید کے فاسق ہونے کے سلسلے میں ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی ؒنے یزید کے فاسق ہونے پر اتفاق نقل کیا ہے۔ حجۃ الاسلام والمسلمین حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی نور اللہ مرقدہٗ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، حضرت شیخ لاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ، حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ، علامہ انور شاہ کشمیریؒ، علامہ یوسف بنوری رحمہم اللہ اسی طرح بہت سے اکابر علماء دیوبند نے یزید کے فسق کی تصریح کی ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ حجۃ اللہ البالغہ میںیزید کے فسق پر اتفاق نقل کرتے ہوئے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) محمد عبد العزیز الفرہاري،  النبراس، شرح شرح العقائد النسفیۃ،ص: ۵۲۹، ۵۳۲۔
لکھتے ہیں:
’’ومن القرون الفاضلۃ اتفاقا من ہو منافق أو فاسق ومنہا الحجاج۔ ویزید بن معاویۃ۔ ومختار۔ وغلمۃ من قریش الذین یہلکون الناس وغیرہم ممن بین النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم سوء حالہم‘‘(۱)
شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
پس انکار کیا امام حسین علیہ السلام نے یزید کی بیعت سے؛ کیوں کہ وہ فاسق، شرابی و ظالم تھا۔ اور امام حسین مکہ تشریف لے گئے۔(۲)
حضرت قاسم العلوم مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس موضوع پر شہادت حسین اور کردار یزید کے نام سے ایک رسالہ لکھا ہے۔ یہ رسالہ فارسی زبان میں ہے، پروفیسر انوار الحسن خان شیرکوٹی نے اس کا ترجمہ کیا ہے، اس رسالہ میں حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور یزید کے حالات پر تفصیلی اور علمی گفتگو کی ہے او رحضرت امیر معاویہؓ کا دفاع کرتے ہوئے فسق یزید کی تصریح کی ہے اور یہ لکھا ہے کہ حضرت امیر معاویہؓ کو اس کے فسق کا علم نہیں تھا اور جنگ میں اس کی بہادری مسلم تھی، پھر یزید کے فسق کا زیادہ ظہور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد ہوا تھا۔ چناں چہ لکھتے ہیں:
’’اسی طرح امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے یزید پلید کو ولی عہد بنانے میں بھی کوئی خدشہ موجب انکار نہ نکلا۔ آگے تحریر فرماتے ہیں: جس وقت کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید پلید کو اپنا ولی عہد بنایا تھا تو وہ علانیہ فاسق نہ تھا اگر اس نے کچھ کیا ہوگا تو در پردہ کیا ہوگا کہ حضرت امیر معاویہ کو اس کی خبر نہ ہوگی علاوہ ازیں جہاد میں یزید کا حسن تدبر جیسا کہ اس سے دیکھا گیا مشہور ہے۔ آگے تحریر فرماتے ہیں: ہاں ان کے انتقال کے بعد یزید نے پر پرزے نکالنے شروع کیے اور دل کو خواہش نفس اور ہاتھ کو جام شراب پر لے گیا فسق کھلم کھلا کرنے لگا اور نماز چھوڑ دی بعض سابقہ تمہیدوں کی بناپر معزول
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱)شاہ ولي اللّٰہ محدث الدہلوي، حجۃ اللّٰہ البالغۃ: ج ۲، ص: ۳۳۳۔
(۲) شاہ عبد العزیز الدہلوي، سر الشہادتین: ص: ۱۲۔

کردینے کے قابل ہوگیا۔(۱)
حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانوی ؒ فرماتے ہیں:
یزید فاسق تھا اور فاسق کی ولایت مختلف فیہ ہے دوسرے صحابہؓ نے جائز سمجھا حضرت امام نے ناجائز سمجھا اور گو اکراہ میں انقیاد جائز تھا مگر واجب نہ تھا او رمتمسک بالحق ہونے کے سبب یہ مظلوم تھے او رمقتول مظلوم شہید ہوتاہے، شہادت غزوہ کے ساتھ مخصوص نہیں بس ہم اسی بنائے مظلومیت پر ان کو شہید مانیں گے باقی یزید کو اس قتال میں اس لیے معذور نہیں کہہ سکتے کہ وہ مجتہد سے اپنی تقلید کیوں کراتا بالخصوص جب کہ حضرت امام آخر میں فرمانے بھی لگے تھے کہ میں کچھ نہیں کہتا اس کو تو عداوت ہی تھی، چناں چہ امام حسینؓ کے قتل کی بنا یہی تھی اور مسلط کی اطاعت کا جواز الگ بات ہے مگر مسلط ہونا کب جائز ہے خصوصاً نااہل کو اس پر خود واجب تھا کہ معزول ہوجاتا پھر اہل حل و عقد کسی کو خلیفہ بناتے۔(۲)
حکیم الاسلام حضر ت مولاناقاری محمد طیب رحمۃ اللہ علیہ نے اس موضوع پر شہید کربلا اور یزید کے عنوان سے کتاب لکھی ہے یہ کتاب در حقیقت محمود عباس کی کتاب خلافت معاویہ ویزید کے رد میں لکھی گئی ہے، محمود عباس نے یزید کو خلیفہ برحق اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو خروج کنندہ اور باغی ثابت کیا ہے اس کے جواب میں حضرت حکیم الاسلامؒ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا برحق ہونا اور یزید کا فاسق ہونا ثابت کیا ہے، کتاب کے آغاز میں خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ یہ کتاب جماعت علماء دیوبند کے متفقہ مسلک حق کی ترجمانی ہے، اس کتاب میں حضرت حکیم الاسلام رحمۃ اللہ علیہ یزید کے فسق کی صراحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
یزید کا ذاتی فسق وفجور بھی کچھ کم نہ تھا دیانات میں اس کا قصور اور فتور حافظ ابن کثیر، فقیہ الہراس وغیرہ نے نہایت صفائی سے نقل کیا ہے جو کسی موقع پر آئے گا؛ لیکن جس فسق نے اسے مبغوض خلائق بنایا وہ اس کا اجتماعی رنگ کا فسق تھا جس نے امت میں فتور پیدا کر دیا ذاتی فسق سے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱)حضرت نانوتويؒ، شہادت امام حسین وکردار یزید: ص: ۷۹۔
(۲) أشرف علي التھانويؒ، إمداد الفتاویٰ، مسائل شتی، رفع شبہ در شہادت إمام حسینؓ: ج ۴، ص: ۴۶۳۔
 تو محض ذات تباہ ہو جاتی ہے؛ لیکن اجتماعی فسق سے امت اور اجتماعیت تباہ ہو کر رہ جاتی ہے؛ اس لیے علماء اور فقہاء نے زیادہ یزید کے اسی فسق کا ذکر کیا ہے اور اس پر احکام مرتب کیے ہیں پھر اس میں بھی قبیح ترین جس نے امت میں اس کی طرف ذہنی اشتغال پیدا کر دیا وہ قتل حسین جو اس کی امارت کا شاہ کار ہے۔(۱)
ایک دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں:
اختلاف اگر ہے تو یزید کی تکفیر میںہے تفسیق نہیں اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ جب کہ یزید کے کفر کے قائل ہو گئے تو فسق کے بطریق اولیٰ تسلیم کیے جائیں گے، اس لیے یزید کے فسق پر اتفاق علماء کے ساتھ امام مجتہد کی مہر بھی لگ جاتی ہے۔(۲)
 مولانا رشید احمد گنگوہی فرماتے ہیں:
 بعض ائمہ نے جو یزید کی نسبت کفر سے کف لسان کیا ہے وہ احتیاط ہے؛کیوں کہ قتل حسین کو حلال جاننا کفر ہے تو مگر تحقیق سے یہ ثابت نہیں کہ یزید قتل حسین کوحلال جانتا تھا؛ لہٰذا کافر کہنے سے احتیاط رکھے مگر فاسق بے شک تھا۔(۳)
شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ نے ایک تفصیلی مقالہ اس عنوان پر لکھاہے جو 1958 کے ماہانہ رحیق لاہو رمیںشائع ہوا اس مقالہ میں حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سوال کا جواب دیا ہے جس میںان سے پوچھا گیا تھا کہ حضرت امیر معاویہؓ نے یزید کو اپنا ولی عہد بنایا تھا یا نہیںاور بنایا تو کیوں؟ اس جواب میں حضرت مدنیؒ، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل ومناقب پر تفصیلی کلام کیا ہے، جس سے میں ضمنی طورپر یہ ثابت ہوتاہے کہ یزید کے فسق وفجور کی اطلاع حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو نہیں تھی۔ چناں چہ آپ تحریر فرماتے ہیں:
کیوں نہ کہاجائے کہ خود حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایسا نہیں کیا؛ بلکہ خود یزید او راس کے اعوان نے اس کے لیے کوشش کی (یہ لوگ متقی نہ تھے اور ملوکیت پسند تھے) عام مسلمان اور بالخصوص
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) حکیم الاسلام، شہید کربلا اور یزید: ص: ۱۲۶۔
(۲) أیضاً: ص: ۱۸۹۔
(۳)رشید احمد گنگوہی، فتاویٰ رشیدیہ، ’’کتاب الکفر والإیمان‘‘: یزید کو کافر کہنا: ص: ۶۳۔
اہل حجاز اس کے خلاف تھے۔ آگے تحریر فرماتے ہیں: تاریخ شاہد ہے کہ معارک عظیمہ میں یزید نے کارہائے نمایاں انجام دیے تھے اس کے فسق و فجور کا علانیہ ظہور ان (حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ) کے سامنے نہ ہوا تھا او رخفیہ جو بد اعمالیاں وہ کرتاتھا اس کی ان کو اطلاع نہ تھی ایک وہ شخص جو کہ فقیہ فی الاسلام ہے حسب دعوات مستجابہ ہادی اور مہدی ہے کیا وہ کسی مجاہر بالفسق والعصیان کو عالم اسلامی کی رقاب او راموال وغیرہ کا ذمہ دار کرسکتا ہے۔(۱)
خلاصہ: یہ ہے کہ لعن طعن میں اختلاف ہے اور دونوں طرف دلائل ہیں، حضرات علمائے دیوبند نے لعن طعن سے توقف کو راجح قراردیا ہے جہاں تک یزید کے فاسق ہونے نہ ہونے کا معاملہ ہے اس میں بھی اختلاف ہے اور بعض حضرات اہل علم یزید کو فاسق نہیں مانتے ہیں جب کہ راجح فاسق ہونا ہے اور اکابر علماء دیوبند کا مسلک یہی معلوم ہوتا ہے۔
(۱) مضمون حضرت مولانا حسین احمد مدنی، رحیق لاہور، جون: ۱۹۵۸ء؁
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص451

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: یہ عادت مکروہ ہے اور واجب الترک ہے، اس سے نمازیوں کو خلل ہوتا ہے۔(۱)

(۱) قولہ والدعاء بما یشبہ کلامنا ہو ما لیس في القرآن ولا في السنۃ ولا یستحیل طلبہ من العباد، فإن ورد فیہما أو استحال طلبہ لم یفسد کما في البحر … قولہ: لا لذکر جنۃ أو نار؛ لأن الأنین ونحوہ إذا کان یذکرہما صار کأنہ قال: اللہم إني أسألک الجنۃ وأعوذ بک من النار، ولو صرح بہ لا تفسد صلاتہ، وإن کان من وجع أو مصیبۃ صار کأنہ یقول: أنا مصاب فعزوني، ولو صرح بہ تفسد، کذا في الکافي۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب المواضع التي لا یجب فیہا رد السلام‘ ج۲، ص: ۳۷۷، ۳۷۸، زکریا)
وإذا أخبر بما یعجبہ فقال: سبحان اللّٰہ، أو لا إلہ إلا اللّٰہ أو واللّٰہ أکبر، إن لم یرد بہ الجواب لا تفسد صلاتہ عند الکل، وإن أراد بہ الجواب فسدت۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع، فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۸، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص126

 

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 1297/42-649

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مذکورہ صورت میں زکوۃ دہندہ کی زکوۃ ادا نہیں ہوگی، صورت واقعہ سے اس کو آگاہ کردیاجائے، تاکہ وہ دوبارہ زکوۃ اداکرے، اگر سفیر مذکور اپنی طرف سے اتنی رقم مدرسہ میں جمع کردے اور زکوۃ دہندہ کو بتادے،  تو زکوۃ ادا ہوجائے گی، تاہم سفیر کی حیثیت امین کی ہے، اور امانت ضائع ہونے کی صورت میں امین پر ضمان لازم نہیں آتا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 39 / 875

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرآن کریم میں لفظ ”بقر“ استعمال ہوا ہے جس کے معنی گائے، بیل اور بھینس کے ہیں۔ یعنی لفظ بقر  کا اطلاق گائے ، بیل اور بھینس سب پر ہوتا ہے۔ اس لئے اس کا ثبوت قرآن سے ہی ہوا۔  البتہ فقہ نے اس کو باہر نکال کر مسئلہ کو واضح کردیا ہے۔   

    واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 40/969

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تعبیر اچھی ہے، خوشی میسر ہوگی، بیماری سے شفا ملے گی اور عبادت کی توفیق ملےگی ان شاء اللہ۔ 

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 1033/41-202

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  وضاحت مطلوب ہے کہ جب اقبال کے نام ایگریمنٹ ہوگیا تھا تو پھر رسید زید کے نام سے ہی کیوں کٹتی رہی اوررسید کے پیسے کون اور کس کے حصہ سے دیتا رہا۔ کیالگان کے پیسے اقبال کے حصہ سے بھی ادا ہوتے رہے، یہ بھی واضح کریں کہ مذکورہ 22 کٹھہ  زمین کیا اقبال کو زید کی جائداد سے حصہ میں ملی تھی ، نیز یہ بھی بتائیں کہ اقبال مرحوم کے کل وارثین کتنے ہیں؟

سوال کو اچھی طرح تفصیل کے ساتھ مرتب کریں اور پھر ارسال کریں تاکہ جواب دیا جاسکے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 1372/42-786

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  دونوں بھویں اگر ملی ہوئی ہیں اور گھنی ہیں جو بھدی معلوم ہوتی ہیں تودونوں بھؤوں کے درمیان کے بالوں کو بقدر ضرورت کاٹ کر معتدل کرنے کی گنجائش ہے، گرچہ ایسا کرنا بہتر نہیں ہے۔

  ولا باس باخذ الحاجبین وشعر وجہہ مالم یتشبہ بالمخنث  کذا فی الینابیع (الھندیۃ ، الباب التاسع عشر فی الختان 5/358) (حاشیۃ الطحطاوی، باب الجمعۃ 1/526)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1768/43-1500

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جمعہ کی نماز اگر کسی وجہ سے درست نہیں ہوئی، تو وقت کے اندر دوبارہ جمعہ کی نماز دو رکعت  پڑھ لی جائے، اور اگر وقت نکلنے کے بعد فساد کا علم ہوا تو اب ظہر کی چار رکعت قضاء  کی جائے گی۔ قضاء انفرادی ہوگی  اور بہر صورت ظہر کی چار رکعت ہی پڑھی جائے گی۔ اگر کسی نے دو رکعت قضاء میں پڑھی تو وہ دوبارہ چار رکعت ظہر کی قضاء کرے۔  اس لئے آپ اگلے دن ظہر میں اور پھر اگلے جمعہ کو بھی اعلان کردیں کہ جن لوگوں نے کذشتہ جمعہ کو  جمعہ کی نماز اس مسجد میں پڑھی تھی وہ اپنی نماز دوہرالیں اور ظہر کی چار رکعت بطور قضاء کے پڑھ لیں۔

وکذا اہل مصر فاتتھم الجمعۃ فانھم یصلون الظھر بغیراذان ولا اقامۃ ولاجماعۃ (شامی، 2/157 سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند