Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2738/45-4260
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کوئی شخص جنازہ میں امام کے ساتھ کچھ تکبیریں گزرنے کے بعد شامل ہوا تو امام کی اگلی تکبیر کا انتظار کرے، جب امام اگلی تکبیر کہے تو امام کے ساتھ تکبیر تحریمہ کہہ کر نماز میں شامل ہوجائے ، پھر اگر یہ معلوم ہو کہ کونسی تکبیر ہے تو اس کے بعد والی دعا پڑھے۔ اور اگر تکبیر کونسی ہے معلوم نہ ہو تو پھر ترتیب کے مطابق پہلے ثنا پڑھے اور پھر دورود پڑھے وغیرہ۔ اور امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی بقیہ تکیبرات کہے اور دعا پڑھنے کی گنجائش ہو تو دعا پڑھے ورنہ صرف تکبیرات پر اکتفاء کرے۔ اگرکسی مقتدی نے تکبیر کہی مگر امام نے فورا سلام پھیردیا تو اس کی نماز جنازہ فوت ہوگئی، اب وہ اپنے طور پر میت کے لئے دعا و استغفارکرے۔
المسبوق یوافق إمامہ في دعائہ لوعلمہ بسماعہ إھ وظاہر تقییدہ الموافقة بالعلم أنہ إذا لم یعلم بأن لم یعلم أنہ في التکبیرة الثانیة أو الثالثة مثلاً یأتي بہ مرتبًا أي بالثناء ثم الصلاة ثم الدعاء (شامي زکریا: ۳/۱۱۶)
(والمسبوق) ببعض التكبيرات لا يكبر في الحال بل (ينتظر) تكبير (الإمام ليكبر معه) للافتتاح لما مر أن كل تكبيرة كركعة، والمسبوق لا يبدأ بما فاته. وقال أبو يوسف: يكبر حين يحضر (كما لا ينتظر الحاضر) في (حال التحريمة)۔ (الدر المختار: 216/2، ط: دار الفکر)
(قوله وينتظر المسبوق ليكبر معه لا من كان حاضرا في حالة التحريمة) أي وينتظر المسبوق في صلاة الجنازة تكبير الإمام ليكبر مع الإمام للافتتاح فلو كبر الإمام تكبيرة أو تكبيرتين لا يكبر الآتي حتى يكبر الأخرى بعد حضوره عند أبي حنيفة ومحمد وقال أبو يوسف يكبر حين يحضر؛ لأن الأولى للافتتاح والمسبوق يأتي به، ولهما أن كل تكبيرة قائمة مقام ركعة والمسبوق لا يبتدئ بما فاته إذ هو منسوخ كذا في الهداية، وهو مفيد لما ذكرناه أن التكبيرات الأربع أركان وليست الأولى شرطا كما توهمه في فتح القدير إلا أن يكون على قول أبي يوسف كما لا يخفى، ولو كبر كما حضر، ولم ينتظر لا تفسد عندهما لكن ما أداه غير معتبر كذا في الخلاصة وأشار المصنف إلى أنه لو أدرك الإمام بعدما كبر الرابعة فاتته الصلاة على قولهما خلافا لأبي يوسف وأفاد أنه لو جاء بعد التكبيرة الأولى فإنه يكبر بعد سلام الإمام عندهما خلافا لأبي يوسف ثم عندهما يقضي ما فاته بغير دعاء؛ لأنه لو قضى الدعاء رفع الميت فيفوت له التكبير وإذا رفع الميت قطع التكبير؛ لأن الصلاة على الميت ولا ميت يتصور، وفي الظهيرية، ولو رفعت بالأيدي، ولم توضع على الأكتاف ذكر في ظاهر الرواية أنه لا يأتي، وإنما لا ينتظر من كان حاضرا حالة التحريمة اتفاقا (البحر الرائق: (199/2، ط: دار الکتاب الاسلامی)
وإذا جاء رجل وقد كبر الإمام التكبيرة الأولى ولم يكن حاضرا انتظره حتى يكبر الثانية ويكبر معه فإذا فرغ الإمام كبر المسبوق التكبيرة التي فاتته قبل أن ترفع الجنازة وهذا قول أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى - وكذا إن جاء وقد كبر الإمام تكبيرتين أو ثلاثا، كذا في السراج الوهاج. (الفتاوی الھندیة: (165/1، ط: دار الفکر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ کا دارو مدار دو مسئلوں پر ہے۔ ایک تو یہ کہ نماز باجماعت ادا کرنی واجب ہے یا صرف سنت، یا مستحب یعنی افضل اور موجب ثواب ہے۔ اور اگر واجب ہے تو کیا یہ صحتِ نماز کے لیے شرط ہے۔ یعنی جماعت کے بغیر نماز نہیں ہوتی یا شرط نہیں یعنی نماز تو ہو جاتی ہے لیکن انسان ترکِ جماعت کی وجہ سے معصیت اور گناہ کا مرتکب ہو جاتا ہے۔
اول مسئلہ سے متعلق امام بخاریؒ، امام احمدؒ، امام شافعیؒ، ابن المنذرؒ، حسن بصریؒ، ابن خزیمہؒ، ابن حبانؒ، ابو ثورؒ، عطا بن ابی رباحؒ اور اوزاعیؒ کا فتویٰ یہ ہے کہ نماز باجماعت واجب ہے اور بغیر عذر شرعی کے جماعت کا چھوڑنا جائز نہیں۔ اور اگر کوئی چھوڑ دے تو نماز ادا تو ہو جائے گی، لیکن وہ ترک جماعت کی وجہ سے مرتکب معصیت ہو گا۔ کیوں کہ ترکِ واجب معصیت ہے۔
حافظ ابن حجرؒ فتح الباری میں اور ابن القیمؒ نے ’’الصلاۃ وحکم تارکہا‘‘ میں لکھتے ہیں۔
’’و إلی القول بأنھا فرض عین ذھب عطاء و الأوزاعي و احمد و جماعۃ من محدثي الشافعیۃ کأبي ثور و إبن خزیمۃ و إبن المنذر و إبن حبان و بالغ داود و من تبعہ فجعلھا شرطا في صحۃ الصلٰوۃ‘‘(۱)
’’أما المسئلۃ الاولٰی فاختلف الفقھاء فیھا فقال بوجوبھا عطاء بن أبي رباح والحسن البصري و أبو عمرو الأوزاعي و أبو ثور و الإمام أحمد في ظاھر مذھبہ و نص علیہ الشافعي في مختصر المزنی فقال و أما الجماعۃ فلا رخص في ترکھا إلا من عذر و قالت الحنفیۃ و المالکیۃ ھي سنۃ مؤکدۃ و لکنھم یؤثمون تارک السنن الموکدۃ و یصححون الصلاۃ بدونھا و الخلاف بینھم و بین من قال أنھا واجبۃ لفظي وکذلک صرح بعضھم بالوجوب‘‘(۲)
وجوب جماعت کے جو لوگ قائل ہیں ان میں سے صرف داؤد ظاہری اور بعض حنابلہ کا یہ قول ہے کہ جماعت صحت نماز کے لیے شرط ہے اگر جماعت فوت ہو جائے تو نماز تنہا ادا نہیں ہوتی؛ لیکن یہ قول مرجوح ہے۔ حافظ ابن حجرؒ نے اسی واسطے اس کا ذکر اس طریق پر کیا ہے کہ: ’’بالغ داؤد ومن تبعہ فجعلھا شرطا في صحۃ الصلٰوۃ‘‘(۱) یعنی دائود ظاہری نے وجوب جماعت میں مبالغہ کیا ہے ۔ اور اس کو صحتِ نماز کے لیے شرط قرار دیا، بعض حنابلہ بھی اس کے قائل ہیں۔
’’أحدھما أنھا فرض یأثم تارکھا و تبرأ ذمتہ بصلاتہ وحدہ۔ و ھذا قول أکثر المتاخرین من أصحاب أحمد في روایۃ حنبل فقال: إجابۃ الداعي إلیٰ الصلٰوۃ فرض و لو أن رجلاً قال ھي عندی سنۃ أصلیھا في بیتي مثل الوتر وغیرہ لکان خلاف الحدیث و صلاتہ جائزۃ و في روایۃ ثانیۃ ذکرھا أبو الحسین الزعفراني في کتاب الاقناع أنھا شرط للصحۃ فلا تصح صلاۃ من صلی وحدہ حکاہ القاضی من بعض الأصحاب واختارہ أبو الوفا ابن عقیل وأبو الحسن التمیمي وھو قول داود وأصحابہ‘‘(۲)
لیکن امام احمد بن حنبل کا قول جیسا کہ امام ابنِ تیمیہؒ، حافظ ابن قیمؒ اور حافظ ابن حجرؒ نے لکھا ہے۔ یہی ہے کہ وہ وجوب جماعت کے قائل ہیں۔ لیکن جماعت کو صحت نماز کے لیے شرط نہیں مانتے، تو گویا بقول حافظ ابن حجرؒ جس طرح نماز جمعہ کی صحت کے لیے جماعت شرط ہے اسی طرح پانچوں وقت کی نمازوں کی صحت کے لیے جماعت شرط نہیں البتہ ترک جماعت بہت بڑی معصیت اور گناہ ہے۔ جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت وعید اور تہدید فرمائی ہے۔
اور اسی طرح امام ابن تیمیہؒ نے ’’االاختیارات العلمیہ‘‘ میں تحریر کیا ہے۔ ’’و إذا قلنا ھي واجبۃ علٰی الأعیان و ھو المنصوص عن أحمد وغیرہ من أئمۃ السلف و فیھا الحدیث فھولاء تنازعوا فیما إذا صلی منفردا لغیر عذر ھل تصح صلاتہ؟ علیٰ قولین أحدھما: لا تصح وھو قول طائفۃ من قدماء أصحاب أحمد و الشافعي۔ والثاني: تصح مع إثمۃ بالترک وھو الماثور عن أحمد و قول أکثر أصحابہ‘‘(۳)
’’و بالغ داود من تبعہ فجعلھا شرطا في صحۃ الصلاۃ و لما کان الوجوب قد ینفک عن الشرطیۃ قال أحمد أنھا واجبۃ غیر شرط‘‘
دوسرا گروہ علماء کا وہ ہے جو نہ وجوب جماعت کا قائل ہے نہ جماعت کو شرطِ صحت نماز قرار دیتا ہے۔ یہ گروہ حنفی اور مالکی علماء کا ہے۔ یہ جماعت کو سنت مؤکدہ کہتے ہیں، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ سنت مؤکدہ کا تارک گنہگار ہوتا ہے۔
’’والجماعۃ سنۃ مؤکدۃ للرجال … وأقلھا اثنان، … وقیل: واجبۃ و علیہ العامۃ أي: عامۃ مشایخنا وبہ جزم فی التحفۃ وغیرھا، قال في البحر: وھو الراجح عند أھل المذھب، فتسن أو تجب ثمرتہ تظھر في الإثم بترکھا علی الرجال العقلاء البالغین الأحرار القادرین علی الصلاۃ بالجماعۃ من غیر حرج‘‘(۱)
’’قولہ: ’’من غیر حرج‘‘ قید لکونھا سنۃ مؤکدۃ أو واجبۃ فبالحرج یرتفع الإثم ویرخص فی ترکھا الخ ونقل عن الحلبی أن الوجوب عند عدم الحرج وفی تتبعھا فی الأماکن القاصیۃ حرج لا یخفی۔
’’قولہ: ’’وسن مؤکداً‘‘: أي: استنانا مؤکداً بمعنی أنہ طلب طلباً مؤکداً زیادۃ علی بقیۃ النوافل، ولھذا کانت السنۃ المؤکدۃ قریبۃ من الواجب في لحوق الإثم کما في البحر، ویستوجب تارکھا التضلیل واللوم کما في التحریر، أي: علی سبیل الإصرار بلا عذر کما فی شرحہ‘‘(۲)
خلاصہ یہ ہے کہ سوائے ظاہر یہ اور بعض حنابلہ کے اکثر ائمہ دین علماء سلف اور صحابہ کرامؓ کا فتویٰ اس بارے میں یہی ہے کہ نماز باجماعت بغیر عذر شرعی کے چھوڑنے والا گناہ گار ہو گا؛ لیکن نماز اس کی منفرداً ہو جاتی ہے۔ سوائے نماز جمعہ کے کہ وہ بلا جماعت ہوتی ہی نہیں۔
’’في التلویح: ترک السنۃ المؤکدۃ قریب من الحرام یستحق حرمان الشفاعۃاھ ومقتضاہ أن ترک السنۃ المؤکدۃ مکروہ تحریماً لجعلہ قریباً من الحرام، والمراد بھا سنن الھدی کالجماعۃ والأذان والإقامۃ؛ فإن تارکھا مضلل ملوم کما في التحریر، والمراد الترک علی وجہ الإصرار بلا عذر‘‘(۱)
(۱) ابن حجر، فتح الباري شرح البخاري: ج ۲، ص: ۴۰۱ ۔
(۲) ابن قیم، ’’الصلاۃ وحکم تارکہا، فصل في حکم صلاۃ الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷۔
(۱) ابن حجر، فتح الباري شرح البخاري، ’’کتاب الصلوٰۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۵۷۔
(۲) ابن تیمیہ، الاختیارات العلمیۃ، ص: ۴۰۔
(۳) ابن حجر، فتح الباري شرح البخاري: ج ۲، ص: ۴۰۱۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۷، ۲۹۱ (مکتبہ زکریا دیوبند)
(۲) أیضاً: ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۱۔
(۱) أیضاً: ’’کتاب الحظر والإباحۃ‘‘: ج ۹، ص: ۴۸۷۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص396
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: مرد و عورت کی نماز میں درج ذیل اعمال میں فرق ہے:
(۱) مرد اپنے ہاتھوں کو کانوں تک اٹھائے گا اور عورت سینے تک ہاتھوں کو اٹھائے گی۔(۲)
(۲) مرد ناف کے نیچے ہاتھ باندھے گا اور عورت سینے پر ہاتھ باندھے گی۔(۳)
(۳) عورت رکوع میں کم جھکے گی اور رکوع میں عورت انگلیاں مرد کی طرح کشادہ نہیں رکھے گی۔(۱)
(۴) مرد سجدے کی حالت میں پیٹ کو رانوں سے اور بازو کو بغل سے جُدا رکھے گا اورکہنیاں زمین سے علیحدہ رکھے گا، جب کہ عورت پیٹ کو رانوں سے اور بازو کو بغل سے ملائے رکھے گی اور کہنیاں زمین پر بچھا کر سجدہ کرے گی۔(۲)
(۵) مرد جلسہ اور قعدہ میں اپنا دایاں پیر کھڑا کرکے بایاں پیر بچھاکر اس پر بیٹھ جائے گا جب کہ عورت اپنے دونوں پاؤں داہنی طرف نکال کر بائیں سرین پر بیٹھے گی۔(۳)
(۲) وروي ابن مقاتل أنہا ترفع حذاء منکبیہا: لأنہ أستر لھا وصححہ في الہدایۃ ولا فرق بین الحرۃ والأمۃ علی الروایتین۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، فصل إذا أراد الدخول في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۳۲)
عن وائل بن حجر، قال: جئت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم … فقال لي رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یا وائل بن حجر، إذا صلیت فاجعل یدیک حذاء أذنیک، والمرأۃ تجعل یدیہا حذاء ثدییہا۔ (للطبراني، المعجم الکبیر: ج ۹، ص: ۱۴۴، رقم: ۱۷۴۹۷؛ مجمع الزوائد: ج ۹، ص: ۶۲۴، رقم: ۱۶۰۵؛ البدر المنیر لابن الملقن: ج ۳، ص: ۴۶۳) (شاملہ)
(۳) بخلاف المرأۃ فإنہا تضع علی صدرہا؛ لأنہ أستر لہا فیکون في حقہا أولی۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۹)
(۱) والمرأۃ تنحني في الرکوع یسیرا ولا تعتمد ولا تفرج أصابعہا ولکن تضم یدیہا وتضع علی رکبتیہا وضعاً وتحني رکبتیہا ولا تجافي عضدیہا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع: في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث في سنن الصلوٰۃ وآدابہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۲)
ویکون الرجل مفرجا أصابعہ، ناصباً ساقیہ وإحناؤہما شبہ القوس مکروہ، والمرأۃ لا تفرج أصابعہا۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ: فصل في کیفیۃ ترکیب الصلوٰۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۴)
(۲) والمرأۃ تنخفض في سجودہا وتلزق بطنہا) ش: أي تلصق بطنہا (بفخذیہا لأن ذلک) ش: أي الانخفاض والإلزاق (أستر لہا) ش: أي لأن منبی حالہا علی الستر۔ (العیني، البنایۃ، ’’کتاب الصلوۃ: باب قول سبحان ربي الأعلی في السجود: ج ۲، ص: ۲۴۹)
(۳) عن نافع عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما، أنہ سئل: کیف کن النساء یصلین علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم؟ کن یتربعن، ثم أمرن أن یحتفزن۔ (جامع المسانید از محمد بن محمود خوارزمي، ’’مسند أبي حنیفۃ روایۃ الحصکفي‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۰، رقم: ۱۱۴(شاملہ)
فتاوى دار العلوم وقف ج 4 ص: 42
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: دیکھنا یہ ہے کہ وتر نماز کا وقت کون سا ہے، ظاہر ہے کہ عشاء کے فرض اور سنت کے بعد وتر پڑھی جاتی ہے جو مستقل ہے تو معلوم ہوا کہ ان کی ادائیگی کا وقت وہ ہے جو عشاء کا ہے تو اب نیت باندھتے وقت اگر عشاء کا وقت زبان پر لائیں اس سے بھی کوئی خرابی نہیں ۔ اور زبان سے یہ لفظ ادا نہ کریں جب بھی درست ہے۔(۱)
(۱) ووقت العشاء والوتر من غروب الشفق إلی الصبح کذا في الکافي ولا یقدم الوتر علی العشاء لوجوب الترتیب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول في المواقیت وما یتصل بہا: ج ۱، ص: ۱۰۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص302
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: کوئی بھی دعاء حسب ضرورت پڑھ سکتے ہیں کوئی وجہ ممانعت نہیں ہے۔(۱)
(۱) عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا قضی صلاتہ مسح جبہتہ بیدہ الیمنی ثم قال اشہد أن لا إلہ اللّٰہ الرحمن الرحیم۔ الہم اذہب عني اللہم والحزن۔ (أخرجہ الطبراني، جامع أبواب القول إدبار الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص446
بدعات و منکرات
Ref. No. 1831/43-1622
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو عمل بدعت ہووہ گناہ کا باعث ہے، اس سے ثواب کیسے حاصل ہوسکتاہے۔ البتہ اس بدعت کے دوران جو اعمال صالحہ تلاوت و ذکر وغیرہ کیا جائے گا اس کا ثواب حاصل ہوگا، لیکن بدعت کا گناہ اس ثواب سے بڑھ کر ہوگا، اس لئے بدعت کا ترک کرنا ضروری ہے۔ فقہاء کے یہاں یہ قاعدہ مسلم ہے کہ جس چیز کے سنت اور بدعت ہونے میں تردد ہو اس کا ترک اولی ہے۔
مَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا․
مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِ ہٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ (بخاری ومسلم)
عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّةِ الْخُلَفَآءِ الرَّاشِدِیْنَ المَہْدِیِّیْن․ (ترمذی، ج:۲، ص: ۹۲، ابوداؤد، ج۲، ص: ۲۷۹)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام سفر
Ref. No. 1096 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص دہلی میں مسافر اور دیوبند میں مقیم کہلائے گا، دہلی میں قصر اور دیوبند میں پوری نماز پڑھے، وطن اصلی﴿دیوبند﴾ پہونچتے ہی سفر ختم ہوجاتا ہے؛ ہدایہ۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 880
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:جنازہ کی نماز میں دعا آہستہ پڑھنے کا ہی معمول رہا ہے،تاہم اگر کوئی زور سے پڑھ لے تو اس کی نماز درست ہوگی؛ نماز میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کبھی تعلیم کی غرض سے زور سے پڑھنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ آہستہ پڑھنے سے نماز نہیں ہوگی جبکہ صحابہ کا عمل آہستہ ہی پڑھنے کا رہا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 39/1095
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔گھر پر عبادت کرنا افضل ہے کہ اس میں نام و نمود اور دکھلاوے کی بیماری سے آدمی محفوظ رہتا ہے؟
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند