زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 41/1042

In the name of Allah the most gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

 Using lipstick is allowed for women provided it does not contain any impure thing.

And Allah knows best

Darul Ifta            

Darul Uloom Waqf Deoband

Miscellaneous

Ref. No. 1036/41-195

In the name of Allah the most gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Alhamdulillah you have been enriched with the dignity of Iman and wealth of good deeds that are acceptable In-sha Allah. The Satan (the intimate enemy of human beings) always tries to put a stop to this wealth; thus some people lose their faith being confused by the demons, while some others consider these ideas to be satanic tricks and hence protect their faith. The Hadith clearly declares such a visit as a sign of faith. Hence you should not be worried about it and do not feel tense. You mustn't pay attention to these thoughts at all, and never express these thoughts by your tongue at any cost. You will not be accountable for these thoughts unless you verbalize them. So, whenever you feel such thoughts prevailing in your mind just seek refuge in Allah and say: لا حول ولا قوۃ الا باللہ. Moreover, you should make repentance to Allah by Istighfar and recite this Dua more often

 “رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِوَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ (القرآن: سورہ المومنون ۹۷)۔

The Prophet of Allah (saws) said, “Allah will forgive my Ummah (followers) for any insinuating whispers that may cross their minds, so long as they do not act upon it or speak of it.” (Agreed upon)

It is narrated by Hazrat Abu Hurairah (ra) that once some of the Sahabah (companions) complained about the waswas that was bothering them. Some of the Companions of the Messenger of Allah (saws) came to the Prophet (saws) and said to him, ‘We find in ourselves thoughts that are too terrible to speak of.’ He said, ‘Are you really having such thoughts?’ They said, ‘Yes.’ He said, ‘That is a clear sign of faith.’” (Sahih Muslim Hadith No. 132)

۱۳۳)  عن أبي ھریرۃ قال قال رسول اللہ ﷺ : (إن اللہ تجاوز عن أمتي ما وسوست بہ صدورھا مالم تعمل بہ أو تتکلم۔ (مسلم ۱۲۷) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: جَاءَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَسَأَلُوهُ: إِنَّا نَجِدُ فِي أَنْفُسِنَا مَا يَتَعَاظَمُ أَحَدُنَا أَنْ يَتَكَلَّمَ بِهِ. قَالَ: "وَقَدْ وَجَدْتُمُوهُ؟" قَالُوا: نَعَمْ. قَالَ: "ذَاكَ صَرِيحُ الإِيمَانِ". (مسلم ۱۳۲). وفي حديث عَبْدِ اللّهِ بن مسعود رضي الله عنه قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَنِ الْوَسْوَسَةِ. قَالَ: "تِلْكَ مَحْضُ الإِيمَانِ". (مسلم ۱۳۳)۔

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

عائلی مسائل

Ref. No. 1591/43-1148

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Zimal means burden, this name is not appropriate. So choose another name that has a good meaning or after the name of a companion.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

اسلامی عقائد

Ref. No. 1672/43-1291

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی غیرمسلم سے مسجد کے فرنیچر کا کام کرانا، اور مسجد کی صفائی وغیرہ کرانا درست  اور جائز ہے۔  یہی امام ابوحنیفہ کا مسلک ہے۔ قرآنی آیت میں جو مشرکین کو مسجد حرام سے روک دیا گیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ مشرکین کو آئندہ سال سے ان کے مشرکانہ طرز پر حج وعمرہ  کرنے کی اجازت نہیں ہوگی،  اور دلیل یہ ہے کہ جس وقت موسم حج میں حضرت علی رضی اللہ عنہ  کے ذریعہ اعلان برائت کردیا گیا تو اس میں اعلان اسی کا تھا کہ لایحجن بعد العام مشرک ، جس میں ظاہر کردیاگیاتھا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرسکے گا، یعنی حج و عمرہ کی ممانعت ہے، کسی ضرورت سے باجازت امیر المومنین داخل ہوسکتے ہیں، وفد ثقیف کا واقعہ اس کا شاہد ہے کہ فتح مکہ کے بعد جب ان کا ایک وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہواتو آپﷺ نے ان کو مسجد میں ٹھہرایاحالانکہ یہ لوگ اس وقت کافر تھے، صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ نجس قوم ہے، تو آپ نے فرمایاکہ مسجد کی زمین پر ان کی نجاست کا کوئی اثر نہیں پڑتا-جصاص۔  (مستفاد از معارف القرآن ج4 ص355 تفسیر سورہ توبہ آیت 28)

قال: ولا بأس بأن يدخل أهل الذمة المسجد الحرام وقال الشافعي - رَحِمَهُ اللَّهُ -: يكره ذلك. وقال مالك - رَحِمَهُ اللَّهُ -: يكره في كل مسجد، للشافعي - رَحِمَهُ اللَّهُ - قَوْله تَعَالَى: {إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا} [التوبة: 28] ولأن الكافر لا يخلو عن جنابة؛ لأنه لا يغتسل اغتسالا يخرجه عنها، والجنب يجنب المسجد، وبهذا يحتج مالك، والتعليل بالنجاسة عام فينتظم المساجد كلها. ولنا ما روي أن النبي - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - أنزل وفد ثقيف في مسجده وهم كفار ولأن الخبث في اعتقادهم فلا يؤدي إلى تلويث المسجد، والآية محمولة على الحضور استيلاء واستعلاء،أو طائفين عراة كما كانت عادتهم في الجاهلية. (البنایۃشرح الھدایۃ، باب دخول اھل الذمۃ المسجد الحرام 12/238-240)

ولا یکرہ عندنا دخول الذمي المسجد الحرام، وکرہہ الشافعي لقولہ تعالی: ”إِنَّمَا الْمُشْرِکُونَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہَذَا“، ولأن الکافر لا یخلو عن جنابة․ وأُجیب بأنہ محمول علی منعہم أن یدخلوہ طائفین عراةً، وأو مستولین، وعلی أہل الإسلام مستعلین، وبأنّ النجاسة محمولة علی خبث عقائدہم، وکرہہ مالک في کل مسجد اعتبارًا بالمسجد الحرام لعموم العلة وہي النجاسة․ ولنا: ما في ”سنن أبی داوٴد“ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِی الْعَاصِ، أَنَّ وَفْدَ ثَقِیفٍ لَمَّا قَدِمُوا عَلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَنْزَلَہُمُ الْمَسْجِدَ لِیَکُونَ أَرَقَّ لِقُلُوبِہِمْ، فَاشْتَرَطُوا عَلَیْہِ أَنْ لَا یُحْشَرُوا، وَلَا یُعْشَرُوا، وَلَا یُجَبَّوْا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَکُمْ أَنْ لَا تُحْشَرُوا، وَلَا تُعْشَرُوا، وَلَا خَیْرَ فِی دِینٍ لَیْسَ فِیہِ رُکُوعٌ․ والتجبیة بالجیم والموحدة وضع الیدین علی الرکبتین․ وفي ”مراسلة“ عن الحسن أن وفدَ ثقیف أتوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فضرب لہم قبة فی موٴخر المسجد لینظروا صلاة المسلمین، فقیل لہ: یا رسول اللہ أتنزلہم في المسجد وہم مشرکون؟ قال: إن الأرض لا تتنجس بابن آدم (۔شرح الوقایة لعلي الحنفي: ۵/ ۱۸۷)

وفي الحاوي لا بأس أن یدخلَ الکافر وأہل الذمة المسجد الحرام وبیت المقدس وسائر المساجد لمصالح المسجد وغیرہا من المہمّات (البحر الرائق شرح کنز الدقائق) (قولہ: حتی الکافر) اعترض بأن الکافر لا یمنع من دخول المسجد حتی المسجد الحرام، فلا وجہ لجعلہ غایة ہنا، قلت: في البحر عن الحاوي: ولا بأس أن یدخل الکافر وأہل الذمة المسجد الحرام وبیت المقدس وسائر المساجد لمصالح المسجد وغیرہا من المہمات إھ ومفہومہ أن في دخولہ لغیر مہمة بأسا وبہ یتجہ ماہنا فافہم․ (رد المحتار: ۶/ ۵۷۵)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Miscellaneous

Ref. No. 1765/431496

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Write your questions clearly to dud.edu.in/darulifta, In-shaa-Allah the answer will be written. Many people nowadays also take online classes; you can contact them to get Islamic sciences.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1871/43-1721

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شافعی امام  کے پیچھے حنفی شخص کی نماز درست ہوجاتی ہے، البتہ ایک مشت سے کم داڑھی رکھنے والے یا داڑھی مونڈانے والے  کے پیچھے نماز مکروہ ہوتی ہے۔ تاہم جب یہاں کوئی دوسرا انتظام نہیں ہے تو بہتر ہے کہ اسی امام کے پیچھے جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں، تنہا نماز پڑھنا ٹھیک نہیں ہے۔ یہ بھی خیال رہے کہ شوافع کے یہاں  بدن سے خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا، اس لئے اگر کسی وقت آپ نے جان لیا کہ شافعی امام نے خون نکلنے کے بعد وضو نہیں کیا اور نماز پڑھائی تو آپ اس نماز میں شریک نہ ہوں اور اگر شریک ہوگئے اور بعد میں معلوم ہوا تو نماز دوہرالیں۔ اور جب تک ان کے بارے میں ایسی  کوئی بات معلوم نہ ہو ان کے پیچھے نماز پڑھتے رہیں۔  

فإن أمکن الصلاة خلف غیرہم فہو أفضل وإلا فالاقتداء أولی من الانفراد․ (البحر الرائق: ۱/۶۱۱ مکتبہ زکریا دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1966/44-1900

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  اگر آپ کے علاقہ میں مسلسل بارش ہوتی رہتی ہے اور آپ کے بقول بچنا دشوار ہے ، تو اگر بعینہ نجاست نظر نہ آتی ہو یعنی نجاست کا اثر واضح نہ ہو تو آپ کے حق میں وہ پانی ناپاک نہیں سمجھاجائے گا، تاہم اسے دھوکر ہی نماز پڑھنا بہتر ہے۔ اور اگر بعینہ نجاست نظر آجاتی ہوتو پھر اس کو دھوکر نماز پڑھنا ضروری ہوگا۔

اقول والعفو مقید بما اذا لم یظھر فیہ اثر النجاسۃ کما نقلہ فی الفتح عن التجنیس، وقال القھستانی انہ الصحیح لکن حکی فی القنیۃ قولین وارتضاھما فحکی عن ابی نصر الدیوسی انہ طاھر الا اذا رای عین النجاسۃ وقال وھو صحیح من حیث الروایۃ وقریب من حیث النصوص۔ (ردالمحتار 1/324، کتاب الطھارۃ، مطلب فی العفو عن طین الشارع سعید کراچی)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2287/44-3441

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو ممکن تھا آپ نے کیا اور ظاہری نجاست کو دھودیا تو اب آپ کا موبائل پاک ہوگیا۔  اس کو استعمال کرنا اس میں دیکھ کر قرآن  کریم پڑھنا درست ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

 الجواب وباللّٰہ التوفیق:بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ میدان عرفات میں جمع کیا جائے گا اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ وہ میدان کون سا ہے اور کہاں ہوگا۔ البتہ بعض علماء نے مسند احمد وغیرہ سے سیدہ میمونہ بنت سعد رضی اللہ عنہا کی حدیث نقل فرمائی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شام حشر ونشر کی سرزمین ہے۔(۱)

(۱)  قال أبو ذر -رضي اللّٰہ عنہ-: یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فأین أنام، ہل لي من بیت غیرہ؟ فجلس إلیہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقال لہ: کیف أنت إذا أخرجوک منہ؟ قال إذاً الحق بالشام فإن الشام أرض الجہرۃ، وأرض المحشر، وأرض الأنبیاء۔ (أخرجہ أحمد بن حنبل، في مسندہ، ’’حدیث أسماء بنت یزید‘‘: ج ۴۵، ص: ۵۶۸، رقم: ۲۷۵۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج1ص243

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 2349/44-3537

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔     آپ، ابو الشیخ اصفہانی کی العظمۃ مطبوعہ دارالعاصمۃ الریاض، اور امام قرطبی کی التذکرۃ مطبوعہ المنہج للنشر والتوزیع بالریاض ، اور معارف القرآن میں سورہ رحمن کی تفسیر کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔ نیز جنت اور اہل جنت، جنت کی زندگی، جنت کے حسین مناظر کا بھی مطالعہ آپ کے لئے مفید ثابت ہوسکتاہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند