نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر شوہر اس کو اس قبیح فعل سے منع کرتا ہے، تو اس کی امامت درست ہے، لیکن اگر وہ اپنے شوہر کی مرضی یا شوہر کے حکم سے ایسا کرتی ہے، تو پھر اس کی امامت درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) {ٰٓیاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا} أي اعملوا الأعمال الصالحۃ وأتمروا بالأوامر واجتنبوا النواہي وأمروا أہلیکم بہا ولزموہم الطاعۃ والعبادۃ لتتقوا بذلک النار۔ (أوضح التفاسیر، ’’الباب السادس‘‘: ج ۱، ص: ۶۹۶)
إن رسول اللّہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول أن الناس إذا أرادوا المنکر ولا یغیرونہ…یوشک اللّٰہ عز وجل أن یعمہم بعقابہ۔ (التیسیر في أحادیث التفسیر، ’’الربع الثاني من الحزب الثالث عشر‘‘: ج ۲، ص: ۹۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص274

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2753/45-4292

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح اذان دینا درست نہیں، اور مذکورہ غلطیوں کی وجہ سے اذان واجب الاعادہ ہوتی ہے، اس لئے کسی مناسب مؤذن کا نظم کرنا چاہئے اور ان کو منع کردینا چاہئے۔البتہ اب تک جو نمازیں ہوئیں وہ درست ہوگئیں ان کو لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے۔ متولی صاحب کو اس پر توجہ دینی چاہئے، اگر کوئی مناسب اذان دینےوالا نہ ہو تو امام صاحب خود بھی اذان و اقامت کہہ سکتے ہیں۔    

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:اذان یا تکبیر میں اگر کوئی کلمہ چھوٹ جائے اور پھر یاد آجائے تواس جگہ سے اذان واقامت لوٹائیں جہاں کوئی کلمہ چھوٹا ہے، اگر اذان یا اقامت سے فارغ ہوجانے کے بعد یاد آیا تو پھر یہ دیکھا جائے گا کہ اکثر کلمات ادا ہوگئے یا اکثر چھوٹ گئے اگر اکثر کلمات چھوٹ گئے تو اعادہ کیا جائے ورنہ اعادہ کی ضرورت نہیں، اور اس سے نماز میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔(۱)

(۱) قال (وإذا قدم المؤذن في أذانہ أو إقامتہ بعض الکلمات علی بعض فالأصل فیہ أن ما سبق أداؤہ یعتد بہ حتی لا یعیدہ في أذانہ) وما یقع مکررا لا یعتد بہ فکأنہ لم یکرر۔ (السرخسي، المبسوط، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۵، دارالکتاب العلمیہ، بیروت)
وإذا قدّم المؤذن في أذانہ وإقامتہ بعض الکلمات علی البعض، نحو أن یقول أشہد أن محمداً رسول اللّٰہ قبل قولہ أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ، فالأفضل في ہذا أن ما سبق أوانہ لا یعتد بہ حتی یعیدہ في أوانہ وموضعہ؛ لأن الأذان شرعت متطوعۃ مرتبۃ فتؤدی علی نظیرہ وترتیبہ إن مضی علی ذلک جازت صلاتہم۔ (أبو المعالي برہان الدین المرغینانی، المحیط البرہاني في الفقہ النعماني: ’’کتاب الصلاۃ، بیان الصلاۃ التي لہا أذان والتي لا أذان لہا، في تدارک الحد الواقع فیہ‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۸)
وإذا قدم فی أذانہ أو في إقامتہ بعض الکلمات علی بعض نحو أن یقول: أشہد أن محمدا رسول اللّٰہ قبل قولہ: أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ فالأفضل في ہذا أن ما سبق علی أوانہ لا یعتد بہ حتی یعیدہ في أوانہ وموضعہ وإن مضی علی ذلک جازت صلاتہ کذا في المحیط۔  (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني: في الأذان‘‘ الفصل الثاني: في کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص161

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: دعا کے آداب میں سے یہ ہے کہ دونوں ہاتھ سینہ تک اٹھائیں اور دونوں ہاتھوں کے درمیان قدرے فاصلہ رکھیں۔(۱)

(۱) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ قال: المسألۃ أن ترفع یدیک حذ ومنکبیک أو نحوہما۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الدعاء‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۹، رقم: ۱۴۸۹)
عن عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا رفع یدیہ في الدعاء لم یحطہما حتی یمسح بہما وجہہ۔ (أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الدعوات عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ما جاء في رفع الیدین عند الدعاء‘‘: ج ۲، ص: ۴۶۳، رقم: ۳۳۸۶)
فیبسط یدیہ حذاء صدرہ نحو السماء لأنہا قبلہ ویکون بینہما فرجۃ۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب فيإطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۵)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص430

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: فرض نمازوں میں امام کا ایک سانس میں سورۂ فاتحہ پڑھنا کوئی کمال نہیں ہے۔ اور اس کی عادت ڈال لینا ناپسندیدہ ہے کراہت تنزیہی سے خالی نہیں ہے۔ لہٰذا جو حضرات اعتراض کرتے ہیں اور اس کو اچھا نہیں سمجھتے  وہ لوگ اپنی جگہ صحیح ہیں۔ ترتیل کے ساتھ معانی میں تدبر کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہئے اس کی تائید حدیث سے بھی ہوتی ہے۔(۲)

(۲) عن یعلی بن مملک، أنہ سأل أم سلمۃ رضي اللّٰہ عنہا زوج النبي صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم عن قراء ۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم وصلاتہ، فقالت: مالکم وصلاتہ، کان یصلي، ثم ینام قدر ماصلی، ثم یصلي قدر مانام، ثم ینام قدر ما صلی حتی یصبح۔ ثم نعتت قرائتہ فإذا ہی تنعت …قرائۃ مفسرۃ حرفاً حرفاً۔ وقال أبو عیسی: ہذا حدیث حسن صحیح۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب فضائل القرآن عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب: کیف کانت قراء ۃ النبي‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۰، رقم: ۲۹۲۳)
عن أبي حمزۃ قال: قلت لابن عباس رضي اللّٰہ عنہما: إني سریع القرآن إني أقرأ القرآن في ثلاث، قال: لئن أقرأ البقرۃ في لیلۃ أتدبرہا وارتلہا أحب إلی أن أقرأ کما تقرأ۔ (أخرجہ البیہقي، في شعب الإیمان، فصل في أومان تلاوۃ القرآن‘‘: ج ۳، ص: ۴۰۶، رقم: ۱۸۸۲)
عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یقال لصاحب القرآن: إقرأ وارتق، ورتل کما کنت ترتل في الدنیا؛ فإن منزلک عند آخر آیۃ تقرأہا۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب کیف یستحب الترتیل في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۶، رقم: ۱۴۶۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص227

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سنت مؤکدہ کبھی کبھار ترک ہو جائے تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے، لیکن ترک پر اصرار کرنا گناہ کا باعث ہے  اور چھوڑ نے کی عادت بنا لینا موجب فسق ہے۔ سنت مؤکدہ کے ترک پر بہت سی احادیث میں وعیدیں وارد ہوئی ہیں، مثلاً: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ جو شخص ظہر کی پہلی چار سنت مؤکدہ چھوڑ دے اس کو میری شفاعت نصیب نہ ہوگی،(۱) اور مؤکدہ سنتوں کا پڑھنا بھی احادیث سے ثابت ہے، طبرانی میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں: کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا کہ آپ نے سفر وحضر یا مرض وصحت میں کبھی فجر کی سنتیں چھوڑی ہوں،(۲) ایک دوسری حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے قبل چار رکعت سنت اور ظہر کے بعد دو رکعت سنت، مغرب کے بعد دو رکعت سنت اور عشاء کے بعد دو رکعت سنت اور فجر سے پہلے دو رکعت سنت پڑھتے تھے۔(۳) ان روایات سے سنن مؤکدہ کے پڑھنے کی تاکید اور چھوڑنے پر گناہ معلوم ہوتا ہے، سنت مؤکدہ کیوں مشروع ہوئیں؟ اس کی وضاحت فرمائی کہ فرض نماز سے پہلے شیطان انسانوں کو بہکاتا ہے جب انسان فرض سے پہلے سنت پڑھتا ہے تو شیطان یہ تصور کرتا ہے کہ جس نے فرض سے کم درجہ کی چیز سنت نہیں چھوڑی تو وہ فرض بدرجہ اولیٰ نہیں چھوڑے گا اور بہکانا بند کر دیتا ہے اور جب انسان فرض نماز ادا کرتا ہے تو اس میں کچھ نہ کچھ کوتا ہی ضرور ہو جاتی ہے خدا تعالیٰ کی یہ عبادت اس کی شایان شان نہیں ہو پائی تو بعد والی سنتوں سے اس نقصان کو پورا کیا جاتا ہے ایک حدیث میں ہے کہ نماز روزہ وزکوٰۃ کا فریضہ جب پورا نہ ہو تواس کو تطوع (سنت) سے پورا کیا جائے گا، جمہور علماء ومفتیان کے نزدیک یہ ہی وضاحت ہے،(۴) امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے سنت مؤکدہ کا تذکرہ نہ کرنے سے سنت مؤکدہ کی تاکید کم نہیں ہوتی۔

(۱) لأن فیہا وعیداً معروفاً قال علیہ الصلاۃ و السلام من ترک أربعاً قبل الظہر لم تنلہ شفاعتي۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۸۶، زکریا دیوبند)
(۲) وفي أوسط الطبراني عنہا أیضاً: لم أراہ ترک الرکعتین قبل صلاۃ الفجر في سفر ولا حضر ولا صحۃ ولا سقم۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۸۳، ۸۴)
(۳) عن عبد اللّٰہ بن شقیق قال: سألت عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا عن صلاۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من التطوع فقالت: کان یصلي قبل الظہر أربعاً في بیتي الخ۔ (أخرجہ ابوداؤد،… في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب تفریع أبواب التطوع ورکعات السنۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۸، دار الکتاب دیوبند)
(۴) لأن السنۃ من لواحق الفریضۃ وتوابعہا ومکملاتہا فلم تکن أجنبیۃ عنہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: ھل یفارقہ الملکان؟‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۶، زکریا دیوبند)
(قولہ لجبر النقصان) أي لیقوم في الآخرۃ مقام ما ترک منہا لعذر کنسیان، وعلیہ یحمل الخبر الصحیح أن فریضۃ الصلاۃ والزکاۃ وغیرہما إذا لم تتم تکمل بالتطوع۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب في السنن والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۲، زکریا دیوبند)
وفي التنجیس والنوازل والمحیط: رجل ترک سنن الصلوات الخمس إن لم یر السنن حقاً فقد کفر لأنہ ترک استخفافاً، وإن رأی حقاً منہم من قال لا یأثم والصحیح أنہ یأثم لأنہ جاء الوعید بالترک۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۸۶، زکریا دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص353


 

نکاح و شادی

Ref. No. 1081 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔  شرعاً اس کی کوئی  حیثیت نہیں۔ رسم و رواج سے اجتناب کیا جانا چاہئے۔ نیزدولہا وغیرہ کا آنگن میں جانا اور نامحرم عورتوں  کا سامنا کرنا ، یہ تمام غیرشرعی امور ہیں جن سے اجتناب کیا جانا ضروری ہے۔واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

کھیل کود اور تفریح

Ref. No. 837

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                         

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  چونکہ تجربہ سے ثابت ہے کہ اس کھیل  میں غفلت حد درجہ پائی جاتی ہے، اس لئے احتراز کیا جا نا ضروری ہے۔ باقی تفصیل آپ کے گذشتہ سوال کے جواب میں لکھدی گئی ہے۔  واللہ تعالی اعلم  بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1029/41-259

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   دین  کی تعلیم ، تبلیغ اور عمل کے لئے قرآن اور احدیث کافی ہیں، صرف بخاری میں تمام صحیح احادیث  نہیں ہیں، بلکہ بخاری کے علاوہ دیگر کتابوں میں بھی صحیح احادیث ہیں۔ خود امام بخاری کا قول ہے کہ میں نے صحیح احادیث کو جمع کیا ہے ، میں نے تمام صحیح احادیث کو جمع نہیں کیا ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1240/42-561

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ احادیث میں مسواک کرنے کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے، تاہم مسواک کرنے پر ثواب ہے اور نہ کرنے  پرکوئی ملامت اور کوئی گناہ نہیں ہے۔

واما ماورد من افضلیۃ الصلوۃ التی بسواک علی غیرھا فیدل علی الاستحباب  وھو الحق ( البحر الرائق 1/42 زکریا دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند