Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں نماز کی نیت کرکے زبان سے ’’اللّٰہ أکبر‘‘ پڑھتے ہوئے کانوں تک ہاتھ اٹھائے اس طرح کہ انگوٹے کانوں کی لو سے مل جائیں یا برابر ہوجائیں پھر ہاتھ باندھ لے۔(۲)
(۲) (وکیفیتہا) إذا أراد الدخول في الصلاۃ کبر ورفع یدیہ حذاء أذنیہ حتی یحاذي بإبہامیہ شحمتي أذنیہ وبرؤس الأصابع فروع أذنیہ، کذا في التبیین، ولا یطأطیٔ رأسہ عند التکبیر، کذا في الخلاصۃ، قال الفقیہ أبوجعفر: یستقبل ببطون کفیہ القبلۃ وینشر أصابعہ ویرفعہما فإذا استقرتا في موضع محاذاۃ الإبہامین شحمتي الأذنین یکبر، قال شمس الأئمۃ السرخسي، علیہ عامۃ المشایخ، کذا في المحیط، والرفع قبل التکبیر ہو الأصح، ہکذا في الہدایۃ وہکذا تکبیرات القنوت وصلاۃ العیدین ولا یرفعہا في تکبیرۃ سواہا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث في سنن الصلاۃ وأدابہا‘‘: ج۱، ص: ۱۳۰)
والأصح أنہ یرفع یدیہ أولا ثم یکبر لأن فعلہ نفي الکبریاء عن غیر اللّٰہ والنفي مقدم علی الإثبات۔ (ویرفع یدیہ حتی یحاذي بإبہامیہ شحمتي أذنیہ) وعند الشافي رحمہ اللّٰہ: یرفع إلی منکبیہ، وعلی ہذا تکبیرۃ القنوت والأعیاد والجنازۃ، لہ حدیث أبي حمید الساعدي رضي اللّٰہ عنہ قال کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا کبر رفع یدیہ إلی منکبیہ، ولنا روایۃ وائل بن حجر والبراء وأنس رضي اللّٰہ عنہم، أن النبي علی الصلاۃ والسلام کان إذا کبر رفع یدیہ حذاء۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۵،۲۸۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص298
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نمازوں میں جو جماعت کے ساتھ ادا کی جائیں ان میں افضل یہ ہے کہ نماز کے بعد دعا بالسر کی جائے(۱) دعاء بالجہر نہ کی جائے اور کبھی اتفاق سے ایسا ہو بھی جائے تو ممانعت نہیں ہے جائز ہے؛ البتہ دعاء بالجہر کو لازم کرلینا بدعت ہے جو قابل ترک ہے اور اس سے مسبوقین کی نماز میں خلل پیدا ہوگا۔
عیدین کی نماز کے بعد دعاء سے فراغت کرلی جائے کہ بعد نماز ہی آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دعاء منقول ہے اور بعد خطبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اور صحابۂ کرامؓ سے دعاء منقول نہیں ہے۔(۱) لہٰذا ایسا کرنا احداث فی الدین اور بدعت ہوگا جس سے پرہیز کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔(۲)
واختار مشایخنا بما وراء النہر الإخفاء في دعاء القنوت في حق الإمام والقوم جمیعا لقولہ تعالی {ادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ} (الأعراف: ۵۵)، وقول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم خیر الدعاء الخفي۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۴؛و ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۶)
(۱) عن أبي أمامۃ قال: قیل یارسول اللّٰہ أي الدعاء أسمع قال جوف اللیل ودبر الصلوات المکتوبۃ، رواہ الترمذي۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب التحریض علی قیام اللیل، الفصل الثاني‘‘: ص: ۸۹، رقم:۹۶۸)
عن معاذ بن جبل، رضي اللّٰہ عنہ قال: لقیتُ النبيّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقال لي: یا معاذ، إني أحبک، فلا تدع أن تقول في دبر کل صلاۃ: اللّٰہم أعني علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک۔(ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الدعاء في التشہد‘‘: ج ۳، ص: ۲۸، رقم: ۹۴۹)
(۲) من أحدث في أمرنا ہذا مالیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام الباطلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص442
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں دو رکعت پر سلام پھیردے یا چار رکعت مختصر قرات پڑھ کر سنت پوری کرے دونوں صورتیں جائز ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ دو رکعت پر سلام پھیرے؛ البتہ اگر تیسری رکعت شروع کردی ہو تو چار رکعت اختصار کے ساتھ پوری کرلے۔(۱)
(۱) قال في البحر: وما في الفتح: من أنہ لو خرج وہو في السنۃ یقطع علی رأس رکعتین ضعیف، وعزاہ قاضي خان إلی النوادر قلت: وقدمنا في باب إدراک الفریضۃ ترجیح مافي الفتح أیضا، وأن ہذا کلہ حیث لم یقم إلی الثالثۃ، وإلا فإن قیدہا بسجدۃ أثم وإلا فقیل: یتم، وقیل: یقعد ویسلم۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج ۳، ص: ۳۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص363
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1699/45-2224
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ۔ صورت مذکورہ میں ادھار مال لینے والے پر لازم ہے کہ وہ فورا اپنے قرض کی ادائیگی کرکے اپنے ذمہ کو فارغ کرلے۔اگر دوسرے کا حق اداکرنے سے قبل موت آگئی تو آخرت میں مؤاخذہ ہوگا، دنیوی عدالت کے حکم کے باوجود ادائیگی میں جلدی کرے، اور عدالت کی طرف سے مقررہ رقم سے زائد ادائیگی کی صورت میں زید مذکورہ رقم اس شخص کو واپس کردے، اس کے لئے یہ زائد رقم لینا درست نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 41/871
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) نماز درست ہوجائے گی۔ (2) نماز درست نہیں، اگر اس طرح نماز پڑھ لی تو اعادہ واجب ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 41/1064
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Allah appoints two angels to serve as "Kiraman Katibin" (honorable recorders) for each person in the world. Quran says: and appointed over you are watchers, who are noble writers of the deeds, who know whatever you do. (Quran: 82/10).
Hazrat Ibne Juraij said: Kraman Katibeen are two angels who record people's actions. The one on the right side writes down the good deeds and another one on the left side writes down the bad deeds of a person during his lifetime.
Munkar & Nakeer are two other angels who are sent in the grave to test the faith of the dead persons.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 1028/41-196
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قربانی واجب ہے اور صاحب نصاب پر ایام قربانی میں قربانی کرنا ضروری ہے، اس کا کوئی بدل نہین ہے۔ لیکن اگر حالات کی ناموافقت کی وجہ سے کوئی قربانی نہ کرسکا تو ایام قربانی کے بعد اگر بکرا خرید لیاتھا تو زندہ بکرا یا بکرے کی قیمت صدقہ کرنا لازم و ضروری ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
Ref. No. 1495/43-1048
الجواب وباللہ التوفیق
ذکر کردہ سوال میں حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا واقعہ جو نبی پاک صلی اللہ علیہ کے حوالے سے لکھا گیا ہے تتبع اور تلاش کے باوجود حدیث کی معتبر کتابوں میں حتی کہ موضوع احادیث پر لکھی ہوئی کسی کتاب میں بھی یہ مجھے نہیں مل سکا؛ اس لئے اس طرح کے من گھڑت واقعہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر کے بیان کرنے سے اجتناب کریں۔
بخاری شریف کی روایت ہے: ’’من تعمد علی کذباً، فلیتبوأ مقعدہ من النار، وأیضاً: من یقل علی مالم أقل فلیتبوأ مقعدہ من النار‘‘ (أخرجہ البخاری، فی صحیحہ: ج ۱، ص: ۳۳، رقم: ۱۰۸، و ۱۰۹)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے، دوسری روایت کا مفہوم ہے جو میری طرف ایسی بات کی نسبت کرے جو میں نے نہیں کہی اس کو چاہئے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔
ان دونوں روایتوں سے یہ صاف ہو جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط بات منسوب کرنا یعنی جو بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کہی ہے اس کے بارے میں کہنا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے، سخت گناہ ہے، اس سے بچنا ضروری ہے؛ نیز ترغیب وترہیب کی نیت ہو یا کسی اور وجہ سے اس طرح کی بے سند باتوں کو بیان کرنا جس کی کوئی اصل نہ ہو، شریعت مطہرہ میں جائز نہیں ہے، آئندہ اس کا خاص خیال رکھا جائے۔فقط
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1763/43-1492
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لفظ "طلاق دے دوں گا" میں طلاق دینے کی دھمکی ہے اور طلاق دینے کا وعدہ ہے، اس لئے اس جملہ سے طلاق واقع نہیں ہوئی، لیکن اس کے علاوہ "طلاق دی" یا"طلاق دیتاہوں" یا بیوی کی طرف نسبت کرکے "طلاق طلاق " کہا تو ان تمام صورتوں میں طلاق واقع ہوگئی۔ اسی طرح واٹسآپ پر طلاق لکھ کر بیوی کو میسیج کرنے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ ایک اور دو طلاق کے بعد شوہر رجوع کرسکتاہے اور بیوی کو اپنے ساتھ رکھ سکتاہے، لیکن تین طلاق کے بعد بیوی مکمل طور پر حرام ہوجاتی ہے۔ اس لئے چونکہ زید نے تین بار سے زیادہ مرتبہ طلاق دی یا طلاق دیتاہوں کہہ چکا ہے یا میسیج کرچکا ہے اس لئے اس کی بیوی پر تین طلاقیں مغلظہ واقع ہوگئیں ، اگر دونوں ایک ساتھ رہتے ہیں تو حرام کاری میں مبتلا ہیں۔ ان میں علیحدگی لازم ہے۔
"قالت لزوجها من باتو نميباشم فقال الزوج مباش فقالت طلاق بدست تو است مرا طلاق كن فقال الزوج طلاق ميكنم طلاق ميكنم وكرر ثلاثا طلقت ثلاثا بخلاف قوله كنم لأنه استقبال فلم يكن تحقيقا بالتشكيك." (الھندیۃ: كتاب الطلاق، الباب الثانى فى ايقاع الطلاق، الفصل الثانى فى الطلاق بالالفاظ الفارسية، ج:1، ص:384، ط:مكتبه رشيديه)
"وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض." (الھدایۃ، كتاب الطلاق، باب الرجعة، ج:2، ص:373، ط:مكتبه رشيديه)
﴿ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ﴾ [البقرة: 229] ﴿ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾ [البقرة: 230]
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2198/44-2324
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس شخص کی داڑھی نہ نکلی ہو اور بالغ ہوگیا ہو تو اس کو امام بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے، مستقل امامت کے لئے بھی رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، نماز میں کوئی کراہت نہیں ہوگی۔ البتہ اگر فتنہ کا خوف ہے تو کراہت آئیگی۔
شروط الامامۃ للرجال الاصحاء ستۃ اشیاء:الاسلام والبلوغ والعقل والذکورۃ والقراءۃ والسلامۃ من الاعذار۔“ رد المحتار علی الدر المختار،ج2،ص337،مطبوعہ کوئٹہ)
وكذا تكره خلف أمرد، الظاهر أنها تنزيهية أيضاً: و الظاهر أيضاً كما قال الرحمتي: إن المراد به الصبيح الوجه ؛ لأنه محل الفتنة''. (شامی، باب الإمامة، مطلب في إمامة الأمرد، ط: سعيد)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند