Frequently Asked Questions
حدیث و سنت
Ref. No. 2381/44-3606
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔حضرت عبداللہ ابن مسعود کبار صحابہ اور فقہاء صحابہ میں سے ہیں، اور ان کی فضیلت میں بہت سی باتیں احادیث میں منقول ہیں، نبی کریم ﷺ کے بہت قریبی اور پسندیدہ ساتھیوں میں ان کا شمار ہے ۔ سوال میں مذکور بات حدیث کی کتابوں میں موجود ہے :
وعن علي رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لو كنت مؤمرا من غير مشورة لأمرت عليهم ابن أم عبد رواه الترمذي وابن ماجه۔ (مشکوٰۃ المصابیح - 6220)
حدثنا سفيان بن وكيع، حدثنا ابي، عن سفيان الثوري، عن ابي إسحاق، عن الحارث، عن علي، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لو كنت مؤمرا احدا من غير مشورة لامرت ابن ام عبد ".(سنن الترمذی، باب مَنَاقِبِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رضى الله عنه، رقم الحدیث 3809)
عن علي، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لو كنت مستخلفا أحدا عن غير مشورة لاستخلفت ابن أم عبد (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث 137)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حج و عمرہ
Ref. No. 2432/45-3688
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگروالد نے اب تک حج نہیں کیا ہے اور زمین بیچنے سے اتنی رقم آگئی کہ وہ اس سے حج کرسکتے ہیں تو ان کو پہلے اپنا فرض حج ادا کرنا چاہئے، تاہم چونکہ ابھی حج کا موسم نہیں ہے، اس لئے اگرفیملی کے افراد کو عمرہ پر لیجائیں تو اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ روایت ضعیف ہے، تا ہم فضائل میں قابل عمل ہے۔(۱)
(۱) قال عبد الرحمن المہدي إذا روینا عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في الحلال والحرام والأحکام شددنا في الأسانید وانتقدنا في الرجال، وإذا روینا في الفضائل والثواب والعقاب سہلنا في الأسانید وتسامحنا في الرجال۔ (شبیر أحمد العثماني، مقدمہ فتح الملہم: ج۱، ص: ۸)
یجوز عند أہل الحدیث وغیرہم التساہل في الأسانید وروایۃ ماسوی الموضوع من الضعیف والعمل بہ من غیر بیان ضعفہ من غیر صفات اللّٰہ تعالیٰ والأحکام کالحلال والحرام، ومما لا تعلق لہ بالعقائد والأحکام۔ (عبد الرحمن بن أبي بکر السیوطي، تدریب الراوي في شرح تقریب النووي، ’’شروط العمل بالأحادیث الضعیفۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۵۰)
وأما الاحتجاج بالضعیف غیر الموضوع، فیجب أن یعلم أنہ لا یعمل بہ في الأحکام والعقائد علی القول الصحیح الذي علیہ جمہور أہل العلم والاحتجاج بہ في المواعظ والقصص وفضائل الأعمال وسائر فنون الترغیب والترہیب، فقد اختلف العلماء فیہ علی ثلاثۃ أقوال: القول الأول أنہ یعمل بہ مطلقاً وإلی ہذا ذہب جمہور العلماء۔ (الشیخ عبد الحق المحدث، کشف المغیث في شرح مقدمۃ الحدیث: ص: ۳۵۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص97
متفرقات
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر ان کا عقیدہ قادیانی کو نبی ماننے کا نہیں ہے، تو وہ لوگ فاسق اور گناہ گار مسلمان ہیں، کیوںکہ قادیانی مرتد اور کافر ہیں، انکی تعریف اور ان کی دعوت کرنے والا فاسق ہے، مرتد اور کافر نہیںہے۔ چوںکہ قادیانی بے دین ہیں اور بے دین کی تعظیم کرنے والا فاسق ہو جاتا ہے۔(۱)
(۱) قال اللّٰہ تعالیٰ: {ولا ترکنوا إلی الذین ظلموا} إلیہم أدني میل … فسر المیل بمیل القلب إلیہم بالمحبۃ وقد یفسر بما ہو أعم من ذلک … ویشمل النہي حینئذ مداہنتہم وترک التغییر علیہم مع القدرۃ والتزي بزیہم وتعظیم ذکرہم ومجالستہم من غیر داع شرعي … فتمسکم النار …۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني: ’’سورۃ الہود‘‘ ج ۷، ص: ۲۳۱)
عن أنس رضي اللّٰہ عنہ، إذا مدح الفاسق غضب الرب تعالیٰ واہتزلہ العرش، رواہ البیہقي في شعب الإیمان۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الأداب: باب حفظ اللسان والغیبۃ والشتم‘‘: ج ۲، ص: ۴۱۴، رقم: ۴۸۵۹)
عن حذیفۃ رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لا تقولوا للمنافق سید فإنہ إن یک سیداً فقد أسخطتم ربکم، رواہ أبوداود۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الأداب: باب الأسامي‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۹، رقم: ۴۷۸۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص193
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:طریقت وشریعت دو متضاد چیزیں نہیں ہیں شریعت ہی کا جز طریقت ہے، تزکیہ نفس اور اخلاق کی درستگی کے لئے مشائخ طریقت اور حضرات صوفیاء نے مختلف ضابطے مقرر کئے ہیں ہر ایک کے خیال میں اپنا اپنا طریقہ واصل الی اللہ ہونے تک رہنمائی کرتا ہے منجملہ ان کے ذکر خفی کا مذکورہ طریقہ بھی ہے اور یہ طریقہ کامیاب بھی ہے۔ اور شرعاً ناجائز بھی نہیں ہے۔(۱)
(۱) ولا یخفیٰ أن اتباع المأثور عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأصحابہ أفضل وأولیٰ و إن کان ذکر اللّٰہ یجوز بکل لسان ولغۃ بکل صفۃ وہیئۃ کما ہو ظاہر۔ (ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’باب الذکر والدعاء‘‘: ج ۱۸، ص: ۴۶۵)
وقصاری بغیتہم دعاء الناس إلی ذکر اللّٰہ عز وجل وطاعتہ والمختلق بإخلاق حبیبہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم واتباع سننہ۔ (’’أیضاً‘‘: ج ۱۸، ۴۶۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص386
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو میں مسواک کرنا عورتوں کے لئے بھی سنت ہے جیسے مردوں کے لئے؛ لیکن اگر عورتوں کے مسوڑھے مسواک کے متحمل نہ ہوں اور اس میں تکلیف ہو، تو عورت کے لیے دنداسہ (جو ایک قسم کا رنگین اور ذائقہ دار ہوتا ہے) مسواک کے قائم مقام ہے اور نیت کے ساتھ دنداسہ سے بھی سنت ادا ہوجائے گی۔
جیسا کہ اسی مفہوم کو علامہ بدر الدین العینی نے’’ البنایہ شرح الہدایۃ‘‘ میں لکھا ہے:
’’العلک للمرأۃ یقوم مقام السواک؛ لأنہا تخاف سقوط أسنانہا؛ لأن سنہا ضعیف، والعلک مما ینقی الأسنان ویشد اللثۃ‘‘(۲)
مسواک کا ذکر کئی احادیث متواترہ میں آیا ہے؛ اس لیے اگر کوئی شخص جان بوجھ کر مسواک کا مذاق اڑائے یا مطلقاً سرے سے اس کا انکار ہی کردے تو گویا کہ اس نے احادیث متواترہ کا مذاق اڑایا اور اس کا انکار کیا ایسا شخص دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا، کیونکہ تواتر کا منکر کافر ہوتا ہے جیسا کہ کتب فقہ میں اس کا ذکر موجود ہے:
’’قیل ھذا استخفاف بسنۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم، وأنہ کفر … وکذلک في سائر السنن خصوصا في سنۃ ھي معروفۃ و ثبوتھا بالتواتر کالسواک وغیرہ‘‘(۱)
’’ومنہا ما یتعلق بالأنبیاء علیہم الصلاۃ والسلام من لم یقر ببعض الأنبیاء علیہم الصلاۃ والسلام، أو لم یرض بسنۃ من سنن المرسلین فقد کفر‘‘(۲)
’’والسواک سنۃ، واعتقاد سنیتہ فرض، وتحصیل علمہ سنۃ، وجحودہا کفر،وجہلہ حرمان، وترکہ عتاب أو عقاب‘‘(۳)
’’(قولہ: کما یقوم العلک مقامہ) أي في الثواب إذا وجدت النیۃ، وذلک أن المواظبۃ علیہ تضعف أسنانہا فیستحب لہا فعلہ‘‘(۴)
(۲) بدر الدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ: حکم من لم یجد السواک‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۶۔
(۱) عالم بن العلاء، الفتاوی التاتارخانیۃ، ’’ ‘‘: ج ۵،ص: ۴۸۲۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’ ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۳۔
(۳) الکشمیري، في إکفار الملحدین في ضروریات الدین، ج۱، ص: ۶۔
(۴) ابن عابدین الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في منافع السواک‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص210
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: درج ذیل ترتیب کے مطابق کوئی بھی شخص امام بن سکتا ہے:
(۱) مسائل نماز سے واقف ہو۔ (۲) قرآن کریم صحیح پڑھتا ہو۔ (۳) صالح پرہیز گار ہو۔ (۴) اگر حافظ قرآن بھی ہو، تو بہت ہی اچھا ہے زیادہ عمر والا، عمدہ اخلاق والا، نورانی چہرہ، اچھے خاندان اور نسب والا ہو، تو سونے پر سہا گہ۔(۱)
(۱) والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ ثم الأحسن تلاوۃ للقراء ۃ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن خلقا ثم الأحسن وجہا ثم الأشرف نسبا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۴، زکریا دیوبند؛ وابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۵۴، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص44
متفرقات
Ref. No. 2739/45-4262
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بلا وضو قرآن پڑھنے پر ایک ہی نیکی ملتی ہے، یہ مضمون کسی حدیث میں میری نظر سے نہیں گزرا، اس لئے عام قاعدہ کے مطابق وضو کے ساتھ قرآن کی تلاوت اور بغیر وضو کی تلاوت میں ثواب کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہوگا تاہم وضو کے ساتھ قرآن کو چھونے پر اجروثواب زیادہ ہوگا۔
ویحرم بہ أی بالأکبر وبالأصغر مس مصحف إلا بغلاف متجاف (در مختار:1/315) ولا تکرہ قراء ة القرآن للمحدث ظاہراً أی علی ظہر لسانہ حفظًا بالإجماع وروی أصحاب السنن عن علی رضی اللہ عنہ أن رسول اللہ صلی ا للہ علیہ وسلم کان یخرج من الخلاء فیقرئنا ویأکل معنا اللحم وکان لا یحجبہ أو لا یحجزہ عن قراء ة شیء لیس الجنابة (کبیری: ۵۲)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: (۱) عیدگاہ کی مسجد میں فرض نماز ادا کی جاسکتی ہے اور احکام کے لحاظ سے عیدگاہ بھی مسجد کے حکم میں ہے۔(۱)
(۲) نماز کی جگہ اور سامنے اگر قبروں کے نشانات نہیں ہیں جگہ خالی اور برابر ہے تو ایسی جگہ نماز پڑھی جاسکتی ہے۔(۲)
(۳) جس شخص نے اپنی زندگی میں کوئی بھی نماز نہیں پڑھی ہے، لیکن وہ خدا اور رسول پر ایمان رکھتا ہے تو وہ شخص بھی مسلمان ہے اور اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔(۱)
(۱) وفي الخلاصۃ والخانیۃ السنۃ أن یخرج الإمام إلی الجبانۃ، ویستخلف غیرہ لیصلي في المصر بالضعفاء بناء علی أن صلاۃ العیدین في موضعین جائزۃ بالاتفاق، وإن لم یستخلف فلہ ذلک۔ اہـ نوح۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب العیدین‘‘: ج۳، ص: ۴۹)
الخروج إلی الجبانۃ في صلاۃ العید سنۃ وإن کان یسعہم المسجد الجامع، علی ہذا عامۃ المشایخ وہو الصحیح، ہکذا في المضمرات۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع عشر في صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۱)
لا تکرہ في مسجد أعد لہا وکذا في مدرسۃ ومصلی عید لأنہ لیس لہا حکم المسجد في الأصح إلا في جواز الاقتداء وإن لم تتصل الصفوف۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب أحکام الجنائز، فصل السلطان أحق بصلاتہ‘‘: ص: ۵۹۵)
و أما المتخذ لصلاۃ جنازۃ أو عید فہو مسجد في حق جواز الاقتداء لا في حق غیرہ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب البدعۃ، مطلب: البدعۃ خمسۃ أقسام‘‘: ج۲، ص: ۲۹۹)
واختلفوا أیضا في مصلی العیدین أنہ ہل ہو مسجد والصحیح أنہ مسجد في حق جواز الاقتداء، وإن لم تتصل الصفوف؛ لأنہ أعد للصلاۃ حقیقۃ لا في حرمۃ دخول الجنب والحائض۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجنائز، فصل السلطان أحق بصلاتہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۸)
(۲) ولا بأس بالصلاۃ فیہا إذا کان فیہا موضع أعد للصلاۃ ولیس فیہ قبر ولا نجاسۃ کما في الخانیۃ ولا قبلتہ إلی قبر حلیۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب تکرہ الصلاۃ في الکنیسۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۱)
ویکرہ أن تکون قبلۃ المسجد إلی المخرج أو إلی القبر لأن فیہ ترک تعظیم المسجد، وفي الخلاصۃ ہذا إذا لم یکن بین یدي المصلي وبین ہذا الموضع حائل کالحائط وإن کان حائطاً لا یکرہ۔ (إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري، ’’کتاب الصلاۃ، مکروہات الصلاۃ‘‘: ص: ۳۵۳)
(۱) (وہي فرض علی کل مسلم مات خلا) أربعۃ: (بغاۃ، وقطاع طریق) … (وکذا) أہل عصبۃ و (مکابر في مصر لیلا بسلاح وخناق) خنق غیر مرۃ فحکمہم کالبغاۃ۔ (من قتل نفسہ) ولو (عمدا یغسل ویصلی علیہ) بہ یفتی وإن کان أعظم وزرا من قاتل غیرہ … (لا) یصلی علی (قاتل أحد أبویہ) إہانۃ لہٗ، وألحقہ في النہر بالبغاۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجنازۃ، مطلب ہل یسقط فرض الکفایۃ بفعل الصبي‘‘: ج ۳، ص: ۱۰۷ تا ۱۰۹)
وشرطہا إسلام المیت وطہارتہ ما دام الغسل ممکنا وإن لم یمکن بأن دفن قبل الغسل ولم یمکن إخراجہ إلا بالنبش تجوز الصلاۃ علی قبرہ للضرورۃ ولو صلی علیہ قبل الغسل ثم دفن تعاد الصلاۃ لفساد الأولی ہکذا في التبیین وطہارۃ مکان المیت لیست بشرط ہکذا في المضمرات ویصلی علی کل مسلم مات بعد الولادۃ صغیرا کان أو کبیرا ذکرا کان أو أنثی حرا کان أو عبدا إلا البغاۃ وقطاع الطریق ومن بمثل حالہم۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الحادي والعشرون في الجنائز، الفصل الخامس في الصلاۃ علی المیت‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۴)
فتاوى دار العلوم وقف ج 4 ص:43 و45