حدیث و سنت

Ref. No. 39 / 872

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسی کوئی روایت ہماری نظر سے نہیں گزری، ہوسکتا ہے کسی بزرگ کا قول ہو اور انھوں نے کسی خاص پس منظر میں کہا ہو؛  البتہ کار ثواب ہے ، دین کی فکر میں لگے رہنا محبوب عمل ہے ان شاء اللہ اس پر ثواب مرتب ہوگا۔   واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. no. 40/967

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ رقم کمپنی کی طرف سے بطور انعام دی جاتی ہے اس لئے  یہ درست ہے، اس طرح  کے آفر اپنی کمپنی کے تعارف کو عام کرنے کے لئے دئے جاتے ہیں ، اس کو سود نہیں  کہا جاسکتا ۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1047/41-212

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بڑے جانور میں سات حصے ہوتے ہیں۔ پہلے دن کی قربانی میں ایک شخص چار حصے اور دوسرا تین حصے لے لے، اور تیسرے دن کی قربانی میں پہلا تین حصے اور دوسرا چار حصے لے لے یہ زیادہ بہتر ہے۔ اور اگردونوں نے ایک  جانور میں  نصف نصف  کی  شرکت پر قربانی کی تو یہ بھی جائز ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1494/42-996

وباللہ التوفیق:۔ مسئلہ صحیح ہے اگر ایام قربانی میں غریب قربانی کی نیت سے جانور  خریدے گا تو اس مخصوص جانور کی قربانی اس پر واجب ہوگی۔ غریب کے حق میں قربانی کی نیت سے جانور خریدنا نذر کے درجہ میں ہے جس کا پورا کرنا واجب ہے۔ ایام قربانی سے پہلے خریدنے کا یہ حکم نہیں ہے، اور نہ ہی اس  کی قربانی اس پر واجب ہوگی۔

وإن كان معسرا أجزأته إذ لا أضحية في ذمته، فإن اشتراها للأضحية فقد تعينت الشاة للأضحية (الھندیۃ الباب الخامس بی بیان محل اقامۃ الواجب 5/299) وتجب على الفقير بالشراء بنية التضحية عندنا، فإذا فات الوقت وجب عليه التصدق إخراجا له عن العهدة (فتح القدیرللکمال، کتاب الاضحیۃ 9/514)۔ وأما الذي يجب على الفقير دون الغني فالمشتري للأضحية إذا كان المشتري فقيرا بأن اشترى فقير شاة ينوي أن يضحي بها --- (ولنا) أن الشراء للأضحية ممن لا أضحية عليه يجري مجرى الإيجاب وهو النذر بالتضحية عرفا؛ لأنه إذا اشترى للأضحية مع فقره فالظاهر أنه يضحي فيصير كأنه قال: جعلت هذه الشاة أضحية ۔۔۔ ولو كان في ملك إنسان شاة فنوى أن يضحي بها أو اشترى شاة ولم ينو الأضحية وقت الشراء ثم نوى بعد ذلك أن يضحي بها لا يجب عليه سواء كان غنيا أو فقيرا؛ لأن النية لم تقارن الشراء فلا تعتبر (بدائع الصنائع، صفۃ التضحیۃ 5/62)۔

وفي الاختيار: لا تجب الأضحية على الفقير، لكنها تجب بالشراء، ويتعين ما اشتراه للأضحية. فإن مضت أيام الأضحية ولم يذبح، تصدق بها حية؛ لأنها غير واجبة على الفقير، فإذا اشتراها بنية الأضحية تعينت للوجوب، والإراقة إنما عرفت قربة في وقت معلوم، وقد فات فيتصدق بعينها (الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ، الالتزام او التعیین بالنیۃ او القول 12/167).

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1872/43-1722

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  زید سودی کاروبار کرتاہے یقینا یہ بڑے افسوس کی بات ہے، البتہ زید کے سودی پیسے سے اپنے بیٹے کو سعودی بھیجنے کی وجہ سے بیٹے کی کمائی حرام کی نہیں ہوگی، اس لئے اگر زید اپنے بیٹے کی حلال  رقم  سے قربانی کے جانور میں  میں شراکت داری کرے تو اس کے  ساتھ شراکت کی گنجائش ہوگی۔ نیزجو کچھ زید کے بیٹے کے سعودی جانے میں خرچ ہوا، بیٹے کو چاہئے کہ اسی قدر رقم بلانیت ثواب صدقہ کردے۔ زید کو بھی چاہئے کہ اپنے اس عمل سے جلد توبہ کرے۔

"وإن كان كل واحد منهم صبياً أو كان شريك السبع من يريد اللحم أو كان نصرانياً ونحو ذلك لايجوز للآخرين أيضاً، كذا في السراجية. ولو كان أحد الشركاء ذمياً كتابياً أو غير كتابي وهو يريد اللحم أو يريد القربة في دينه لم يجزئهم عندنا؛ لأن الكافر لايتحقق منه القربة، فكانت نيته ملحقةً بالعدم، فكأنه يريد اللحم، والمسلم لو أراد اللحم لايجوز عندنا".  (الھندیۃ ۵ / ۳۰۴، رشیدیہ)

و فی الخانیۃ امراۃ زوجھا فی ارض الجور اذا اکلت من طعامہ ولم یکن عینہ غصبا او اشتری طعاما او کسوۃ من مال اصلہ لیس بطیب فھی فی سعۃ من ذلک والاثم علی الزوج۔ (شامی، کتاب الحظر والاباحۃ، فصل فی البیع 9/554 زکریا)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2049/44-0000

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ امداد سے مراد  شفاعت بھی ہوسکتی ہے، تاہم عوام کو ایسے اشعار سے احتراز ہی بہتر ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بڑی اچھی بات ہے؛ لیکن لازم نہ سمجھیں۔ (۱)

(۱) عن علي رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا یومہا فإن اللّٰہ تعالیٰ ینزل فیہا لغروب الشمس إلی السماء الدنیا، فیقول: ألا من مستغفر فأغفر لہ، ألا مسترزق فأرزقہ، ألا مبتلی فأعافیہ ألا کذا ألا کذا حتی یطلع الفجر، رواہ ابن ماجہ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب قیام شہر رمضان، الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵، رقم: ۱۳۰۸)
وقال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحیا اللیالي الخمس وجبت لہ الجنۃ لیلۃ الترویۃ ولیلۃ عرفۃ ولیلۃ النحر ولیلۃ الفطر ولیلۃ النصف من شعبان۔ وقال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من قام لیلۃ النصف من شعبان ولیلتی العیدین لم یمت قلبہ یوم تموت القلوب۔ (حسن بن عمار، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في تحیۃ المسجد وصلاۃ الضحیٰ وإحیاء اللیالي‘‘: ص: ۴۰۱)
ویکرہ الاجتماع علی إحیاء لیلۃ من ہذہ اللیالي المتقدم ذکرہا في المساجد وغیرہا: لأنہ لم یفعلہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا أصحابہ فأنکرہ أکثر العلماء من أہل الحجاز ……  وقالوا: ذلک کلہ بدعۃ۔ (’’أیضاً:‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۲)
ویکرہ الاجتماع علی إحیاء لیلۃ من ہذہ اللیالي في المساجد۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب في إحیاء لیالي العیدین والنصف وعشر الحجۃ ورمضان‘‘: ج ۲، ص: ۴۶۹)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص499

اسلامی عقائد

Ref. No. 2608/45-4118

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    ایک فرد کا انتظام کرنے پر کمپنی نے آپ کے لئے پانچ ڈالر کی اجرت طے کی ہے، آپ اپنی محنت سے جتنے افراد لائیں گے پانچ ڈالر فی نفر کے حساب سے آپ کو اجرت ملے گی ،  اس اجرت کے لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نیز اگرکمپنی  کسی موقع پر کوئی انعامی رقم دیوے  تو اس میں بھی کوئی  گناہ نہیں ہے، کیونکہ آپ نے اپنی محنت کا عوض وصول کیا ہے۔

جو دوسرا مسئلہ آپ نے پوچھا ہے وہ واضح نہیں ہے ۔ تیرہ سو روپئے آپ کو کہاں لگانے پڑتے ہیں اور کیوں، اس کی حیثیت کیا ہوتی ہے؟ پھر ٹیم بنانے کی کیا شکل ہے؟۔ اس مسئلہ کو بالتفصیل دوبارہ لکھ کر ارسال  کریں۔

"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا، فذاك حرام عليهم." (فتاوٰی شامی، مطلب في أجرة الدلال،63/6، ط: سعيد)

وفي الحاوي سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار فقال أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز فجوزوه لحاجة الناس إليه۔ (رد المحتار على الدر المختار ، كتاب الاجارة ،  باب ضمان الاجير ، 9/87)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں اگر وہ نابینا شخص ایسا ہی ہے جیسا کہ سوال میں لکھا گیا ہے تو ان کی امامت بلاشبہ درست اور جائز ہے خود اس شخص کو چاہیے کہ پاکی وناپاکی کا خوب خیال رکھے۔(۲)

(۲) والکراہۃ في حقہم لما ذکر من النقائص، فلو عدمت بأن کان الأعرابي أفضل من الحضري، والعبد من الحر  وولد الزنا من ولد الرشدۃ والأعمی من البصیر زالت الکراہۃ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ: ج ۶، ص: ۲۱۱)
کرہ إمامۃ … الأعمی لأنہ لا یتوقی النجاسۃ ولا یہتدی إلی القبلۃ بنفسہ ولا یقدر علی استیعاب الوضوء غالباً الخ۔ (الزیلعي، تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ والحدث في الصلاۃ: ج۱، ص: ۳۴۵)

…وکرہ إمامۃ العبد والأعمی لعدم اہتدائہ إلی القبلۃ وصون ثیابہ عن الدنس، إن لم یوجد، أفضل منہ فلا کراہۃ۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، فصل في الأحق بالإمامۃ وترتیب الصفوف‘‘: ص: ۱۱۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص48

نماز / جمعہ و عیدین
کیا زبان سے نیت کرنی ضروری ہے؟ (۵۳)سوال: حضرت مفتی صاحب: سوال یہ ہے کہ سنت مؤکدہ ادا کرنے سے پہلے قضا نماز پڑھنے کی نیت تھی، لیکن تکبیر کہتے وقت کوئی نیت زبان سے نہیں کی، تکبیر کے بعد خیال آیا کہ میں نے تو تکبیر کے وقت کسی نماز کی نیت نہیں کی ہے، تو تکبیر سے قبل نماز شروع کرنے سے پہلے کی جو نیت تھی وہ نیت معتبر ہوگی یا نہیں؟ ایسے ہی اگر کوئی شخص سنت نماز میں قضا نماز کی نیت کرے تو کیا وہ قضاء نماز کی نیت کر سکتا ہے؟ ’’بینوا وتوجروا‘‘ فقط: والسلام المستفتی: محمد شمشیر الاسلام، مراد آباد