Frequently Asked Questions
متفرقات
Ref. No. 1362/42-768
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسا کرنا مناسب نہیں ہے۔ اس میں دینی چیزوں کی ناقدری ہے اور توہین ہے۔ اس لئے اس سے بچنا چاہئے۔ لا يقرأ جهرا عند المشتغلين بالأعمال) الفتاوى الهندية :5/ 316(
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1663/43-1274
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔مسجد میں جماعت اولی کے ساتھ نماز پڑھنا ہی اصل سنت ہے، اور اسی کی تاکید ہے اور اسی پر بعض نے وجوب کاحکم لگایا ہے، اس کو ترک کرنے والا اس وعید کا مستحق ہوگا جو حدیث میں وارد ہوئی ہے، البتہ ترک کرنے سے مراد عادت بنالینا ہے، کبھی اتفاقی طور پر کسی وجہ سے ترک ہوجانامراد نہیں ہے۔ اس لئے اگر کبھی کسی وجہ سے جماعت چھوٹ جائے، توتنہا نماز پڑھنے سے بہتر ہے کہ گھر میں جماعت کرلی جائے جیسا کہ ایسی صورت میں نبی علیہ السلام سے گھر جاکر جماعت سے نماز پڑھنا ثابت ہے۔ حضرت ابی بکرۃ ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے دیہی علاقوں سے لوٹ کر آئے اور نماز کی ادائیگی کا ارادہ کیا تو دیکھا کہ لوگ نماز سے فارغ ہوگئے ہیں لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر چلے گئے اور گھر کے افراد کو جمع کیا اور ان کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھی۔ ( معجم الکبیر للطبرانی، مجمع الزوائد ۲/۴۵، المعجم الاوسط ۵/۳۵ / ۴۶۰۱ ، ۷/۵۱/ ۶۸۲۰، المجروحین لابن حبان ۳ / ۴۔۔۵، الکامل لابن عدی ۶/۲۳۹۸
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ ایک مرتبہ اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ مسجد میں نماز ادا کرنے کے لئے نکلے تو دیکھا کہ لوگ مسجد سے باہر آرہے ہیں اور جماعت ختم ہوگئی ہے۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ اپنے ساتھیوں کے ساتھ واپس گھر آئے اور جماعت کے ساتھ نماز ادا فرمائی۔ (اس روایت کو امام طبرانی نے "المعجم الکبیر ۹۳۸۰" میں صحیح سند کے ساتھ ذکر فرمائی ہے نیز ابن عبد الرزاق نے "مصنف ۲/۴۰۹/۳۸۸۳" میں ذکر فرمائی ہے)۔
عن أبی ہریرة قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لقد ہممت أن آمر فتیتي فیجمعوا لي حزماً من حطب ثم آتي قوما یصلون فی بیوتہم لیست بہم علة فأحرقہا علیہم“ (أبوداوٴد: ۱/۸۰، ط: اشرفی دیوبند) صَلَاةُ الْجَمَاعَةِ تَفْضُلُ صَلَاةَ الْفَذِّ بِسَبْعٍ وَعِشْرِيْنَ دَرَجَةً. بخاری، الصحيح، کتاب الأذان، باب فضل صلاة الجماعة، 1 : 231، رقم (619
قال فی الشامی: (قولہ: وتکرار الجماعة) لما روی عبد الرحمن بن أبي بکر عن أبیہ ”أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خرج من بیتہ لیصلح بین الأنصار فرجع وقد صلی فی المسجد بجماعة فدخل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی منزل بعض أہلہ فجمع أہلہ فصلی بہم جماعة“ (شامی: ۲/ ) المرأة إذا صلت مع زوجہا فی البیت إن کان قدمہا لحذاء قدم الزوج لاتجوز صلاتہما بالجماعة، وإن کان قدماہا خلف قدم الزوج إلا أنہا طویلة تقع رأس المرأة فی السجود قِبَل رأس الزوج جازت صلاتہا؛ لأن العبرة للقدم ۔ (درمختار مع الشامی: ۱/۵۷۲، کراچی) ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1744/43-1467
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پیشاب کے قطروں کی بیماری میں جبکہ آپ معذور کے حکم میں ہوں آپ پر ہر نماز کے وقت وضو کرنا اور پیشاب لگے ہوئے ناپاک کپڑے بدلنا ضروری ہے۔ پیشاب کے قطروں کے لئے جو پلاسٹک استعمال کرتے ہیں اگر قطرے اس میں آگئے تو اس کو اگلی نماز کے لئے بدلنا ضروری ہوگا۔ پیشاب کرنے کے بعد اچھی طرح سے پیشاب کی نالی میں موجود قطروں کو نکالنا لازم ہے، جب مکمل پیشاب کے قطرے نکل گئے تو اب اس کو سکھانے کی ضرورت نہیں ہے دھولینا بھی کافی ہے۔ (2) اعضائے وضو کو ایک ایک بار دھونا فرض ہے اور تین تین بار دھونا سنت ہے، اس سے زیادہ ان گنت مرتبہ دھونا مکروہ ہے اور اسراف میں داخل ہے، وضو درست ہوجائے گا مگر بلاوجہ ایسا کرنا مکروہ ہوگا۔ (3) ہونٹوں کا وہ حصہ جو منھ بند کرنے پر چھپ جاتاہے، اس پر ویسلین یا کوئی کریم استعمال نہ کریں یہ نقصاندہ بھی ہے۔ البتہ اگر لگالیا اور منھ کے اندراس کا اثر حلق میں محسوس کیا توچونکہ یہ مقدار بہت ہی قلیل ہےاور صرف اس کا اثر محسوس ہوا ہے اس لئے اس سے نماز میں کوئی خرابی لازم نہیں آئے گی، نماز درست ہوجائے گی۔
’’(1) وصاحب عذر من به سلس) بول لا يمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة) بأن لا يجد في جميع وقتها زمناً يتوضأ ويصلي فيه خالياً عن الحدث (ولو حكماً)؛ لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرةً (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة)؛ لأنه الانقطاع الكامل. ونحوه (لكل فرض) اللام للوقت كما في - {لدلوك الشمس} [الإسراء: 78]- (ثم يصلي) به (فيه فرضاً ونفلاً) فدخل الواجب بالأولى (فإذا خرج الوقت بطل) أي: ظهر حدثه السابق، حتى لو توضأ على الانقطاع ودام إلى خروجه لم يبطل بالخروج ما لم يطرأ حدث آخر أو يسيل كمسألة مسح خفه. وأفاد أنه لو توضأ بعد الطلوع ولو لعيد أو ضحى لم يبطل إلا بخروج وقت الظهر.(وإن سال على ثوبه) فوق الدرهم (جاز له أن لا يغسله إن كان لو غسله تنجس قبل الفراغ منها) أي: الصلاة (وإلا) يتنجس قبل فراغه (فلا) يجوز ترك غسله، هو المختار للفتوى، وكذا مريض لا يبسط ثوبه إلا تنجس فورا له تركه (و) المعذور (إنما تبقى طهارته في الوقت) بشرطين (إذا) توضأ لعذره و (لم يطرأ عليه حدث آخر، أما إذا) توضأ لحدث آخر وعذره منقطع ثم سال أو توضأ لعذره ثم (طرأ) عليه حدث آخر، بأن سال أحد منخريه أو جرحيه أو قرحتيه ولو من جدري ثم سال الآخر (فلا) تبقى طهارته‘‘.(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 305)
’’شرط ثبوت العذر ابتداءً أن یستوعب استمراره وقت الصلاة کاملاً، وهو الأظهر، کالانقطاع لایثبت مالم یستوعب الوقت کله ... المستحاضة ومن به سلس البول … یتوضؤن لوقت کل صلاة، ویصلون بذلک الوضوء في الوقت ماشاؤا من الفرائض و النوافل … ویبطل الوضوء عند خروج وقت المفروضة بالحدث السابق … إذا کان به جرح سائل وقد شد علیه خرقةً فأصابها الدم أکثر من قدر الدرهم، أو أصاب ثوبه إن کان بحال لوغسله یتنجس ثانیاً قبل الفراغ من الصلاة، جاز أن لا یغسله وصلی قبل أن یغسله وإلا فلا، هذا هو المختار‘‘.(الهندیة(1/40,41)
(2)"(والإسراف) ومنه الزيادة على الثلاث (فيه) تحريمًا ولو بماء النهر، والمملوك له. أما الموقوف على من يتطهر به، ومنه ماء المدارس، فحرام.
(قوله: والإسراف) أي بأن يستعمل منه فوق الحاجة الشرعية، لما أخرج ابن ماجه وغيره عن عبد الله بن عمرو بن العاص «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر بسعد وهو يتوضأ فقال: ما هذا السرف؟ فقال: أفي الوضوء إسراف؟ فقال: نعم، وإن كنت على نهر جار»، حلية (قوله: ومنه) أي من الإسراف الزيادة على الثلاث أي في الغسلات مع اعتقاد أن ذلك هو السنة لما قدمناه من الصحيح أن النهي محمول على ذلك، فإذا لم يعتقد ذلك وقصد الطمأنينة عند الشك، أو قصد الوضوء على الوضوء بعد الفراغ منه فلا كراهة كما مر تقريره (قوله: فيه) أي في الماء (قوله: تحريمًا إلخ) نقل ذلك في الحلية عن بعض المتأخرين من الشافعية وتبعه عليه في البحر وغيره، وهو مخالف لما قدمناه عن الفتح من عده ترك التقتير والإسراف من المندوبات، ومثله في البدائع وغيرها، لكن قال في الحلية: ذكر الحلواني أنه سنة؛ وعليه مشى قاضي خان، وهو وجيه اهـ واستوجبه في البحر أيضا وكذا في النهر. قال: والمراد بالسنة المؤكدة لإطلاق النهي عن الإسراف، وجعل في المنتقى الإسراف من المنهيات فتكون تحريمية لأن إطلاق الكراهة مصروف إلى التحريم، وبه يضعف جعله مندوبا.
أقول: قد تقدم أن النهي عنه في حديث «فمن زاد على هذا أو نقص فقد تعدى وظلم» محمول على الاعتقاد عندنا، كما صرح به في الهداية وغيرها. وقال في البدائع: إنه الصحيح، حتى لو زاد أو نقص واعتقد أن الثلاث سنة لا يلحقه الوعيد وقدمنا أنه صريح في عدم كراهة ذلك يعني كراهة تحريم، فلاينافي الكراهة التنزيهية، فما مشى عليه هنا في الفتح والبدائع وغيرهما من جعل تركه مندوبًا مبني على ذلك التصحيح، فيكره تنزيهًا، ولاينافيه عده من المنهيات كما عد منها لطم الوجه بالماء، فإن المكروه تنزيهًا منهي عنه حقيقةً اصطلاحًا، ومجازًا لغةً كما في التحرير. وأيضًا فقد عده في الخزانة السمرقندية من المنهيات، لكن قيده بعدم اعتقاد تمام السنة بالثلاث، كما نقله الشيخ إسماعيل، وعليه يحمل قول من جعل تركه سنةً، وليست الكراهة مصروفة إلى التحريم مطلقًا كما ذكرناه آنفًا، على أن الصارف للنهي عن التحريم ظاهر، فإن من أسرف في الوضوء بماء النهر مثلاً مع عدم اعتقاد سنية ذلك نظير من ملأ إناء من النهر ثم أفرغه فيه، وليس في ذلك محذور سوى أنه عبث لا فائدة فيه، وهو في الوضوء زائد على المأمور به؛ فلذا سمي في الحديث إسرافًا". (لدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 132)
(3) ثم القدر الذي يتعلق به الفساد ما يفسد الصوم عزي إلى غريب الرواية لأبي جعفر وهو قدر الحمصة من بين أسنانه، أما من خارج فلو أدخل سمسمة فابتلعها تفسد، وعن أبي حنيفة وأبي يوسف لا تفسد، ولو كانت بين أسنانه فابتلعها لا تفسد، ولو كان عين سكرة في فيه فذابت فدخل حلقه فسدت، ولو لم يكن عينها بل صلى على أثر ابتلاعها فوجد الحلاوة لا تفسد، ولو لاك هليلجة فسدت كمضغ العلك، ولو لم يلكها لكن دخل في جوفه منه شيء يسير لا تفسد.۔ وذكر شيخ الإسلام أكل بعض اللقمة وبقي في فيه بعضها فدخل في الصلاة فابتلعه لا تفسد ما لم تكن ملء الفم (فتح القدیر للکمال، فصل یکرہ للمصلی ان یعبث بثوبہ 1/412)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 2047/44-2026
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بچوں کی تعلیم و تربیت نہایت اہم اور نیک کام ہے، لیکن اگر نیک کام میں شرعی اصول و ضوابط کی رعایت نہ کی جائے تو وہ نیک کام بھی گناہ کا باعث بن جاتاہے۔ بچوں کی تعلیم وتربیت میں نرمی و سختی دونوں پہلوؤں میں اعتدال کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ اس لئے صورت مسئولہ میں استاذ کا شاگردوں کے ساتھ حد سے زیادہ مارنا درست نہیں ہے۔ اگر متوجہ کرنے اور سمجھانے پر بھی استاذ مذکور کا یہی معمول رہے تو کسی دوسرے استاذ یا مدرسہ میں اپنی تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں ، لیکن مذکور ہ استاذ کے ادب واحترام کو ملحوظ رکھئے۔
لوضرب المعلم الصبی ضربا فاحشا فانہ یعزرہ ویضمنہ لومات (قولہ ضربا فاحشا) قید بہ لانہ لیس لہ ان یضربھا فی التادیب ضربا فاحشا وھو الذی یکسر العظم او یخرق الجلد او یسودہ کما فی التاتارخانیۃ قال فی البحر وصرحوا بانہ اذا ضربھا بغیرحق وجب علیہ التعزیر ای وان لم یکن فاحشا (ردالمحتار 4/79 کتاب الحدود ، باب التعزیر )
روی ان النبی ﷺ قال لمرداس المعلم رضی اللہ عنہ ایاک ان تضرب فوق الثلاث فانک اذا ضربت فوق الثلاث اقتص اللہ منک (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ 13/13 الضرب للتعلیم)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ بدعت اور مذموم و ناجائز ہے؛ البتہ دفن کے بعد تھوڑی دیر ٹھہر کر انفرادی طور پر میت کے لئے منکر نکیر کے سوالات کے جوابات دینے میں ثابت قدمی اورمغفرت کے لئے دعاء کرنی چاہئے۔(۲)
(۲) عن عثمان رضي اللّٰہ عنہ قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا فرغ من دفن المیت وقف علیہ فقال: استغفروا لأخیکم ثم سلوا لہ بالتثبیت فإنہ الآن یسأل۔ رواہ أبو داود۔ (مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان، باب إثبات عذاب القبر، الفصل الأول‘‘: ۲۶، رقم: ۱۳۳)
وعن عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما، قال: سمعت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: إذا مات أحدکم فلا تحبسوہ وأسرعوا بہ إلی قبرہ ولیقرأ عند رأسہ فاتحۃ البقرۃ وعند رجلیہ بخاتمۃ البقرۃ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الجنائز: باب البکاء علی المیت‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۹، رقم: ۱۷۱۷)
ویستحب … بعد دفنہ لدعاء وقراء ۃ بقدر ما ینحر الجزور ویفرق لحمہ إلخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت‘‘: ج۳، ص: ۱۴۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص363
زیب و زینت و حجاب
Ref. No. 2482/45-3805
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہم نے اس معالجہ کے بارے میں جو کچھ سمجھاہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ: انسانی جلد پر ایک قسم کا روغن ہوتاہے جس کو میلانین کہاجاتاہے، اسی میلانین روغن کو جو بے اثر ہوچکا ہوتاہے از سر نو پیداکرکے اگر فعال کردیا جائے تو جلد کے داغ دھبے ختم ہوسکتے ہیں۔ اس حوالہ سے وہائٹننگ کریم،فیشیئل ماسک، گاجر اور چقندر کا جوس، سبز سیب اور انار کاجوس، پپیتا، لیموں اور کھیرے کاجوس، برف،اور گلیسرین کا مساج اور زیادہ پانی پینا بھی مفید بتایاجاتاہے جو قدرتی طریقہ کارہے۔
ہماری معلومات کے مطابق 'لیزر اِسکِن وائٹننگ ٹریٹمنٹ' چہرہ کے سیاہ دھبوں پر لائٹ کی شعاعوں کی مدد سے جلد کو نرم کرکے اس دھبہ والے جلد کی اوپری سطح کوہٹانے کا یہ ایک طریقہ کار ہے۔ اس میں چہرہ کی نرم جلدوں پر جب شعاعیں پڑتی ہیں تو انسان کو تکلیف بھی ہوتی ہے، اور جلد کی اوپری انتہائی باریک سطح کو ہٹادیاجاتاہے، اس لئے یہ بھی سرجری کی ہی ایک ادنی قسم کہلائے گی ۔مزید برآں لیزر وائٹننگ معالجہ کے نقصانات بھی برداشت کرنے پڑسکتے ہیں۔ جیسے کہ خراش، جلد کی خشکی، سورج کی روشنی میں حساسیت، جکڑن، سوجن، داغ، جلد کے انفیکشن، جلد کی ساخت میں فرق، رنگت، جلد کی سرخی اور جلن۔ اور اس طریقہ علاج کے بعد جلد کے ٹھیک ہونے میں تقریبا تین ہفتے درکار ہوتے ہیں۔
الغرض اگرمیلانین روغن کی افزائش کا قدرتی اشیاء کے ذریعہ علاج کیاجائے ، یعنی مخصوص غذاؤں اور جوس کا استعمال، قدرتی چیزوں کا مساج اور میک اپ کے کریم وغیرہ کا استعمال کیاجائے تو بہت بہتر ہے اور اس طرح گورا ہونا اور چہرے کی رنگت کو نکھارنا درست جائز ہے، البتہ سوال میں مذکور طریقۂ علاج جائز نہیں ہے، یہ تغیر لخلق اللہ میں داخل ہے، اللہ رب العزت نے جس رنگ کا جس کو بنایا ہے، اسی پر انسان کو راضی رہنا چاہیے، اور مذکورہ طریقہ علاج سے گریز کرنا چاہئے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صحیح روایت میں ہے کہ مسجد حرام میں ایک نماز ایک لاکھ کے برابر اور مسجد نبوی میں ایک نماز ایک ہزار نمازوں کے برابر ہے۔ پچاس ہزار والی روایت ضعیف ہے، اور اس وقت مسجد حرام اور مسجد نبوی میں جو اضافہ کیا گیا ہے ان تمام حصوں میں نماز پڑھنے سے یہ ثواب حاصل ہو جاتا ہے، کسی مخصوص حصہ میں نماز پڑھنا ضروری نہیں ہے اور یہ ثواب فرض نمازوں کے بارے میں ہے، نفل نماز کے بارے میں نہیں، اس لیے کہ حدیث کے اندر نفل نماز گھر میں پڑھنے کو افضل قرار دیا ہے۔
’’ومعلوم أنہ قد زید في المسجد النبوي؛ فقد زاد فیہ عمر ثم عثمان ثم الولید ثم المہدي، والإشارۃ بہذا إلی المسجد المضاف المنسوب إلیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ولا شک أن جمیع المسجد الموجود الآن یسمی مسجدہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقد اتفقت الإشارۃ والتسمیۃ علی شیئ واحد، فلم تلغ التسمیۃ، فتحصل المضاعفۃ المذکورۃ في الحدیث فیما زید فیہ۔ وخصہا الإمام النووي بما کان في زمنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عملاً بالإشارۃ،(۱) قولہ: (إلا المسجد الحرام) وفي المفاضلۃ بین المسجد الحرام والمسجد النبوي کلام وحقق في الحاشیۃ أن الاستثناء لزیادۃ الأجر في المسجد الحرام۔ ثم ادعی العلماء بتضعیف أجر المسجد النبوي بعدہ، إلا أن ما استدلوا بہ لا یوازي روایۃ الصحیح۔ بقی أن الفضل یقتصر علی المسجد الذي کان في عہد صاحب النبوۃ خاصۃً أو یشمل کل بناء بعدہ أیضاً؟ فالمختار عند العیني رحمہ اللّٰہ تعالیٰ أنہ یشمل الکل، وذلک لأن الحدیث ورد بلفظ: مسجدي ہذا۔ فاجتمع فیہ الإشارۃ والتسمیہ۔ وفي مثلہ یعتبر بالتسمیۃ، کما یظہر من الضابطۃ التی ذکرہا صاحب (الہدایۃ) تنبیہ: قال الطحاوي رحمہ اللّٰہ تعالیٰ: إن الفضیلۃ في الحرمین تختص بالفرائض، أما النوافل فالفضل فیہا في البیت۔ قلت: وہو الصواب، فإن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یؤدہا إلا في البیت مع کونہ بجنب المسجد‘‘ (۲)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاو: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في ستر العورۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۲۶۔
(۲) علامۃ أنور شاہ الکشمیري، فیض الباري، ’’باب في مسجد قبا‘‘: ج ۳، ص: ۵۸۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص91
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:شیعوں کو روافض کہتے ہیں۔ فقہاء نے ان کو مبتدع لکھا ہے، کفر کا فتویٰ ان پر نہیں ہے(۱)۔ البتہ جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر بہتان لگاتے ہوں یا ضروریات دین میں سے کسی امر کے منکر ہوں، تو ان کے اس غلط عقیدے کی بناء پر ان پر کفر کا فتویٰ ہے۔ اور یہی فرقہ باطلہ ہے۔(۲)
(۱) وإن کان یفضل علیاً کرم اللّٰہ وجہہ علي أبي بکر رضي اللّٰہ عنہ لا یکون کافراً إلا أنہ مبتدع۔ (من جماعۃ علماء الہند: الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۳۷۶)
(۲) إن جبرائیل علیہ السلام غلط في الوحي أو کان ینکر صحبۃ الصدیق أو یقذف السیدۃ الصدیقۃ فہو کافر۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب مہم: في حکم سب الشیخین‘‘: ج ۶، ص: ۱۳۷۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص282