فقہ

Ref. No. 2486/45-3782

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ استنجاء کرتے وقت قبلہ کی طرف چہرہ یا پیٹھ کرنا مکروہ ہے، یہ قبلہ کی تعظیم کے خلاف ہے، بعض صحابہ سے منقول ہے کہ جب وہ دوسرے ملکوں میں گئے تو وہاں کے بیت الخلاء قبلہ رخ بنے ہوئے تھے تو صحابہ ضرورت کی وجہ سے استعمال تو کرتے  تھے لیکن قبلہ رخ ہونے سے بچنے کے لئے ٹیڑھا ہوکر بیٹھتے تھے۔ آپ کے لئے مناسب یہ ہے کہ ویسٹرن ٹائلٹ کا رخ تبدیل کرائیں تاکہ ہمیشہ کے لئے قبلہ کی طرف پیشاب کرنا لازم نہ آئے، اور جب تک تبدیل نہیں ہوجاتاہے مجبوری میں کراہت کے ساتھ اسی کو استعمال کیاجاسکتاہے اور جتنا ٹیڑھا ہونا ممکن ہو اس کا خیال رکھاجائے،اور توبہ واستغفار کرتے رہیں ۔

اذا اتیتم الغائط لاتستقبلوا القبلۃ  بغائط ولابول ولکن شرقوا او غربوا فقدمنا الشام فوجدنا مراحیض قد بنیت قبل القبلۃ فکنا ننحرف عنھا ونستغفراللہ (سنن ابی داؤد 1/9)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مرزا غلام احمد قادیانی اور متبعین کے کفر اور ارتداد میں کوئی شبہ نہیں ہے وہ بلاشبہ مرتد اور کافر ہیں؛ کیونکہ اس کا اپنی نبوت کو ثابت کرنا ہی کفر ہے مزید براں ختم نبوت کا انکار صریح کفر ہے؛ اس لئے وہ سب کافر ہیں۔(۱)

(۱) إعلم أن الإجماع قد انعقد علی أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خاتم المرسلین کما أنہ خاتم النبیین وإن کان المراد بالنبیین في الآیۃ ہم المرسلون۔ (الیواقیت والجوامي: ج ۲، ص: ۳۷)…عن ثوبان: قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وإنہ سیکون في أمتي کذابون کلہم یزعم أنہ نبي وأنا خاتم النبیین لا نبي بعدي۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’أول کتاب الفتن: ذکر الفتن ودلائلہا‘‘: ج۲، ص: ۵۷۴، رقم: ۴۲۵۲)
ولا یجوز من الکفر إلا من أکفر ذلک الملحد (أي: غلام أحمد القادیاني) بلا تلعثم وتردد (مجموع رسائل کشمیري، إکفار الملحدین: ج ۱، ص: ۱۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص288

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:فقہاء نے لکھا ہے کہ بیت الخلا میں قدم رکھنے سے پہلے اور جنگل میں ستر کھولنے سے پہلے دعا پڑھی جائے، جیسا کہ الفتاویٰ الہندیہ میں مذکور ہے:
’’ویستحب لہ عند الدخول في الخلاء أن یقول: اللہم إني أعوذبک من الخبث والخبائث ویقدم رجلہ الیسری وعند الخروج یقدم الیمنیٰ‘‘(۱)
’’قبل الاستنجاء وبعدہ إلا حال انکشاف: قولہ: إلا حال انکشاف الظاہر أن المراد أنہ یسمی قبل رفع ثیابہ إن کان في غیر المکان المعد لقضاء الحاجۃ وإلا فقبل دخولہ فلو نسي فیہما سمی بقلبہ ولا یحرک لسانہ تعظیماً لإسم اللّٰہ تعالیٰ‘‘(۲)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السابع: في النجاسۃ وأحکامہا، الاستنجاء علی خمسۃ أوجہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۶۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: سنن الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۹۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص105

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق : اگر مسواک کرتے وقت خون نکلتا ہے اور وہ تھوک پر غالب آجاتاہے، تو ایسی صورت میں وضو درست نہیں ہوگا، آپ کو چاہیے کہ مسواک نہ کریں، ا س کے بجائے آہستگی سے دانتوں پر انگلی پھیرلیا کریں؛ یہ انگلی پھیرنا مسواک کے قائم مقام ہوجائے گا۔
و ینقضہ دم مائع من جوف أو فم غلب علی بزاق(۱) لا ینقضہ المغلوب بالبزاق(۲) و علامۃ کون الدم غالباً أو مساویاً أن یکون البزاق أحمر، و علامۃ۔ کونہ مغلوباً أن یکون أصفر۔(۳)  من خشي من السواک تحریک القئ ترکہ(۴) و عندہ فقدہ أو فقد أسنانہ، تقوم الخرقۃ الخشنۃ أو الأصبع مقامہ۔ (۵)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب: نواقض الوضوء،‘‘ ج ۱  ص:۲۶۷
(۲)ایضاً:        (۳)ایضاً:
(۴) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول في الوضوء، الفصل الثاني في سنن الوضوء و منھا السواک،‘‘ ج۱، ص:۵۷(مکتبہ فیصل دیوبند)
(۵) ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في منافع السواک،‘‘ ج ۱، ص:۲۳۶۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص205

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کے صحیح ہونے کے لیے طہارت ضروری ہے۔ اگر امام صاحب صرف پانی سے طہارت پر اکتفاء کرتے ہیں اور اس سے زائد احتیاط کی ضرورت نہ ہو تو ان کی اقتداء میں بلا شبہ نماز درست ہے، بظاہر اس قسم کا شبہ درست نہیں ہے۔(۲)

(۲) والاستنجاء بالماء أفضل إن أمکنہ ذلک من غیر کشف العورۃ      …یستنجي بالحجر ولا یستنجي بالماء، والأفضل أن یجمع بینہما … قیل ہو سنۃ في زماننا وقیل علی الإطلاق وعلیہ الفتویٰ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السابع في النجاسۃ وأحکامہا، الفصل الثالث في الاستنجاء‘‘: ج ، ص: ۱۰۴، زکریا دیوبند)
ثم اعلم أن الجمع بین الماء والحجر أفضل ویلیہ في الفضل الاقتصار علی الماء ویلیہ الإقصار علی الحجر وتحصل السنۃ بالکل وإن تفاوت الفضل۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس، مطلب إذا دخل المستنجي في الماء القلیل‘‘: ج ۱، ص: ۵۵۰، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص41

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: واضح رہے کہ ایسے تعویذ اور عملیات جو آیاتِ قرآنیہ اور ادعیہ ماثورہ یا کلماتِ صحیحہ پر مشتمل ہوں ان کو لکھنا، استعمال کرنا اور ان سے علاج کرنا شرعاً درست ہے، سوال میں مذکور امام اگر جائز تعویذات کا کام کرتے ہیں اور غیر محرم عورتوں سے پردہ بھی کرتے ہیں اور دیگر اوصافِ امامت سے متصف ہیں تو ان کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے اور اگر ناجائز تعویذات جن میں کلماتِ شرکیہ یا کلماتِ مجہولہ یا نامعلوم قسم کے منتر لکھے جاتے ہیں اور امام صاحب غیر محرم عورتوں سے پردہ نہیں کرتے تو ایسے امام کی امامت میں نماز پڑھنا کراہت سے خالی نہیں ہے امام صاحب کو چاہیے کہ متہم ہونے سے بچیں اور اپنے کردار پر خاص توجہ دیں اس لیے کہ امامت کا منصب بہت ہی مقدس اور بابرکت ہے جو تقویٰ طہارت اور اعلیٰ اخلاقی رویہ کا تقاضا کرتا ہے وہ عامۃ الناس کے لیے نمونہ اور قائد کی حیثیت رکھتے ہیں اس لیے امام صاحب کو ان سب چیزوں سے بچنا چاہئے جو عوام میں بحث کا موضوع بنتا ہو، تاہم ان کی اقتداء میں ادا کی گئی نماز درست ہو جائے گی اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔
’’عن عوف بن مالک الأشجعي، قال: کنا نرقي في الجاہلیۃ، فقلنا: یا رسول اللّٰہ کیف تری في ذلک؟ فقال: اعرضوا علی رقاکم، لا بأس بالرقی ما لم یکن فیہ شرک‘‘(۱)
’’عن أبي سعید الخدري أن رہطاً من أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم انطلقوا في سفر سافروہا، فنزلوا بحي من أحیاء العرب، فقال بعضہم: إن سیدنا لدغ، فہل عند أحد منکم شيء ینفع صاحبنا؟ فقال رجل من القوم: نعم، واللہ إني لأرقی، ولکن استضفناکم، فأبیتم أن تضیفونا، ما أنا براق حتی تجعلولي جعلاً، فجعلوا لہ قطیعاً من الشاء، فأتاہ، فقرأ علیہ أم الکتاب ویتفل حتی برأ کأنما نشط من عقال، قال: فأوفاہم جعلہم الذي صالحوہم علیہ، فقالوا: اقتسموا، فقال الذي رقی: لاتفعلوا حتی نأتي رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فنستأمرہ، فغدوا علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فذکروا لہ، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من أین علمتم أنہا رقیۃ؟ أحسنتم، اقتسموا واضربوا لي معکم بسہم‘‘(۱)
’’قال العیني: کأنہ أراد المبالغۃ في تصویبہ إیاہم۔ فیہ جواز الرقیۃ، وبہ قالت الأئمۃ الأربعۃ، وفیہ جواز أخذ الأجرۃ۔ قال محمد في الموطأ: لابأس بالرقی بما کان في القرآن وبما کان من ذکر اللّٰہ تعالی، فأما ماکان لایعرف من الکلام فلاینبغي أن یرقی بہ، انتہی۔ وأما ما کان من الآیات القرآنیۃ، والأسماء والصفات الربانیۃ، والدعوات المأثورۃ النبویۃ، فلا بأس، بل یستحب سواء کان تعویذاً أو رقیۃً أو نشرۃً، وأما علی لغۃ العبرانیۃ ونحوہا، فیمتنع؛ لاحتمال الشرک فیہا‘‘(۲)
’’رجل أم قوما وہم لہ کارہون إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ یکرہ لہ ذلک وإن کان ہو أحق بالإمامۃ، لا یکرہ‘‘(۳)

(۱) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الطب:باب کیف الرقی‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۴، رقم: ۳۹۰۰۔
(۲) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’ کتاب الطب والرقی، الفصل الثانی‘‘: ج ۷، ص: ۲۸۸۰، رقم: ۴۵۵۳۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس، في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۴، زکریا دیوبند۔

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص67

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: جس نے اپنی رضا مندی سے نسبندی کرائی ہو اس کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے۔ اس کے پیچھے نماز کراہت ِ تحریمی کے ساتھ ادا ہوگی۔(۱)
جس نے عذر اور مجبوری کی بنا پر کرائی ہو (چونکہ معذور و مجبور کے احکام جدا ہیں) اس کی امامت بلاکراہت درست ہے۔

(۱) ومنہا أي من صفات المؤذن أن یکون تقیًا؛ لقول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الإمام ضامن، والمؤذن مؤتمن، والأمانۃ لایؤدیہا إلا التقي۔ (ومنہا): أن یکون عالمًا بالسنۃ لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یؤمکم أقرؤکم، ویؤذن لکم خیارکم، وخیار الناس العلماء۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في بیان سنن الأذان وصفات المؤذن‘‘: ج۱، ص: ۳۷۲، ط: دارالکتب العلمیۃ)
وینبغي أن یکون المؤذن رجلاً عاقلاً صالحًا تقیًا عالمًا بالسنۃ، کذا في النہایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن‘‘: ج۱، ص: ۱۱۰)
خصاء بني آدم حرام بالاتفاق۔ (أیضاً: ’’کتاب الکراہیۃ، الباب التاسع عشر في الختان والخصاء وحلق‘‘:  ج۵، ص: ۴۱۲)    کذا أجذم ومجبوب وحاقن ومن لہ ید واحدۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’ ‘‘: ج۲، ص: ۲۰۳)
قولہ: وکرہ إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق … أما الکراہۃ فمبنیۃ علی قلۃ الناس في رغبۃ الناس في ہؤلاء فیؤدي إلی تقلیل الجماعۃ المطلوب تکثیرہا تکثیرا للآخر … والفاسق لایہتم لأمر دینہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۶۱۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص197

اجماع و قیاس

Ref. No. 2734/45-4467

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قیاس کے لغوی معنی اندازہ کرنے کے ہیں اور دو چیز کو ایک دوسرے کے برابر کرنے کے بھی۔  قیاس کے اصطلاحی معنی ہیں غیر منصوص واقعہ میں علت کے اشتراک کی وجہ سے نص کا حکم لگانا، یہ  قیاس کہلاتا ہے، قیاس سے متعلق مختلف شرطیں  ہیں،  ان شرطوں کے پائے جانے پر ہی قیاس کرنا درست ہے، شرطوں میں بعض کا تعلق مقیس علیہ یعنی اصل  سےہے ، بعض کا مقیس سے، بعض کا  حکم سےاور بعض کا علت سے۔  ان کی تفصیلات کتابوں میں موجود ہیں۔ قیاس کو ہی قیاس جلی کہتے ہیں اور استحسان کو قیاس خفی کہتے ہیں احناف کے بہت سے مسائل قیاس سے ثابت ہیں اس کی کوئی تحدید وتعیین نہیں ہو سکتی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مفلوج ہوجانا، پاؤں سے معذور ہوجانا، مسلسل بارش ہوتے رہنا، راستہ کا غیر مامون ہونا وغیرہ، ایسے اعذار میں جن کی وجہ سے جماعت ترک کرنے کی گنجائش ہے، اور اس پر مواخذہ نہیں ہوگا؛ بلکہ بعض صورتوں میں جماعت کا ثواب بھی ملے گا۔ (۱)

(۱) في نور الایضاح: وإذا انقطع عن الجماعۃ لعذر من أعذار وکانت نیتہ حضورہا لولا العذر یحصل لہ ثوابہا اہـ والظاہر أن المراد بہ العذر المانع کالمرض والشیخوخۃ والفلج بخلاف نحو المطر والطین وأبرد والعمی۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۹۱، زکریا دیوبند)
 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص392

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:جو سب سے پہلے آئے گا سب سے زیادہ ثواب کا مستحق ہوگا، جیسا کہ یوم جمعہ میں نماز جمعہ کے لیے سب سے پہلے آنے والے کا ثواب حدیث میں ہے۔
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: من اغتسل یوم الجمعۃ غسل الجنابۃ ثم راح فکأنما قرّب بدنۃً ومن راح في الساعۃ الثانیۃ فکأنما قرّب بقرۃ ومن راح في الساعۃ الثالثۃ فکأنما قرّب کبشا أقرن ومن راح في الساعۃ الرابعۃ فکأنما قرب دجاجۃ ومن راح في الساعۃ الخامسۃ فکأنما قرّب بیضۃ فإذا خرج الإمام حضرت الملائکۃ یستمعون الذکر‘‘(۲)

(۲) أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب في الغسل للجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۱، رقم: ۳۵۱، ط: نعیمیہ دیوبند
 وعن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا کان یوم الجمعۃ وقفت الملائکۃ علی باب المسجد یکتبون الأول فالأول الخ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الجمعۃ: باب الاستماع إلی الخطبۃ‘‘: ج۱ ، ص:۱۲۷ ، رقم:۸۸۷)

فتاوى دار العلوم وقف ج 4 ص: 37