Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: اگر وقت میں گنجائش ہو تو نیت توڑ کر پھر سے سنتوں کی نیت باندھ لے اور تکبیر تحریمہ دو بارہ سنت کی نیت سے کہے۔نیز فرض کی نیت سے بھی سنت ادا ہوجاتی ہے۔(۱)
(۱) فیجوز بناء النفل علی النفل وعلی الفرض، وإن کرہ لا فرض علی فرض أو نفل علی الظاہر، ولاتصالہا بالأرکان روعی لہا الشروط، وقد منعہ الزیلعي ثم رجع إلیہ بقولہ: ولئن سلم: نعم في التلویح تقدیم المنع علی التسلیم أولی۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب قدیطلق الفرض علی ما یقابل الرکن‘‘: ج۲، ص: ۱۲۸، ۱۲۹)
ثم أنہ إن جمع بین عبادات الوسائل فی النیۃ صح کما لو اغتسل لجنابۃ وعید وجمعۃ إجتمعت ونال ثواب الکل، وکما لو توضأ لنوم وبعد غیبۃ وأکل لحم جزور، وکذا یصح لو نوی نافلتین أو أکثر کما لو نوی تحیۃ مسجد وسنۃ وضوء وضحی وکسوف، والمعتمد أن العبادات ذات الأفعال یکتفی بالنیۃ في أولہا ولا یحتاج إلیہا فی کل جزء إکتفاء بإنسحابہا علیہا، ویشترط لہا الإسلام والتمییز والعلم بالمنوی وأن لا یأتی بمناف بین النیۃ والمنوی۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ وأرکانہا‘‘ ج۱، ص: ۲۱۶، ط: دارالکتب العلمیۃ)
وأما إذا نوی نافلتین کما إذا نوی برکعتی الفجر التحیۃ والسنۃ أجزأت عنہما، وفي حاشیتہ: لأن التحیۃ والسنۃ قریبان، إحدہما: وہي التحیۃ تحصل بلا قصد، فلا یمنع حصولہا قصد غیرہا، وکذا لو نوی الفرض والتحیۃ کما في فتح القدیر۔ قیل: ولو تعرض المصنف لنفل مختلف السبب لکان أولی کمن أخر التراویح إلی آخر اللیل، ونوی التراویح وقیام آخر اللیل لأن سبب التراویح غیر سبب قیام اللیل۔ (ابن نجیم، الأشباہ والنظائر، ’’الجمع بین عبادتین بنیۃ واحدۃ‘‘: القاعدۃ الأولی: الأمور بمقاصدہا‘‘: ج۱، ص: ۱۴۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص303
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: فجر و عصر میں تو تسبیح فاطمی منقول و معمول ہے ۔ پانچوں نمازوں کے بعد اگر کوئی پڑھے تو اس پر بھی ثواب ہے شرط یہ ہے کہ اس کو لازم نہ سمجھا جائے۔
’’عن کعب بن عجرۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال معقبات لا یخیب قائلہن، أو فاعلہن، دبر کل صلاۃ مکتوبۃ ثلاث وثلاثون تسبیحۃ وثلاث وثلاثون تحمیدۃ وأربع وثلثون تکبیرۃ‘‘(۱)
(۱) أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ وبیان صفتہ‘‘: ج ۱، ص:۲۱۸،رقم: ۵۹۶۔
وأما ماورد من الأحادیث في الأذکار عقیب الصلاۃ فلا دلالۃ فیہ علی الإتیان بہا قبل السنۃ، بل یحمل علی الإتیان بہا بعدہا؛ لأن السنۃ من لواحق الفریضۃ وتوابعہا ومکملاتہا فلم تکن أجنبیۃ عنہا، فما یفعل بعدہا یطلق علیہ أنہ عقیب الفریضۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب ہل یفارقہ الملکان‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص446
نکاح و شادی
Ref. No. 2799/45-4380
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میاں بیوی کے لئے ہر طرح کے کِس کی اجازت ہے، اس میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے، البتہ تنہائی میں یہ امور انجام دئے جائیں، عام جگہوں پر ایسا کرنا بے حیائی کی بات ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1099 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ایسی کوئی روایت ہماری نظر سے نہیں گذری، البتہ حدیث میں یہ ہے کہ اللہ کے راستہ میں ایک نیکی کا ثواب سات لاکھ تک ہوجاتاہے، تبلیغی جماعت میں جانا نیکی اور کار ثواب ہے، اور جماعت میں نکلنے والابھی اللہ کے راستے میں ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اس کو اس حدیث کی رو سے سات لاکھ اور اس سے بھی زیادہ ثواب مل سکتا ہے۔ اللہ تعالی جس قدر چاہیں اس کے اخلاص کے مطابق اس کا ثواب بڑھاسکتے ہیں۔واللہ یضاعف لمن یشاء ﴿القرآن﴾۔لیکن اللہ کے راستہ سے مراد صرف جماعت ہی نہیں ہے، جہاد وتعلیم وتعلم وغیرہ کےلئے نکلنا بھی اللہ ہی کے راستہ میں شمار ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 38/ 926
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: طلاق بائن واقع ہوگئی ۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 40/970
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہوم لون لے کر اپنی پریشانی میں اضافہ نہ کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ زیادہ کی لالچ میں اصل سرمایہ بھی ہاتھ سے نکل جائے۔ اخراجات کم کیجئے اور ذریعہ آمدنی بدل کر کوشش کیجئے اور دعاء کیجئے کہ اللہ تعالی آسانی پیدافرمائیں۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
آداب و اخلاق
Ref. No. 1369/42-787
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ سب عرف میں رائج ہیں اور پسند و ناپسند ظاہر کر نے کے مختصر ترین طریقے ہیں؛ اشارہ کی زبان ہیں۔ اشارہ کی زبان سیکھنے سے حاصل ہوتی ہے اور اس کے لئے اہل زبان کی طرف سے کچھ علامات متعین کردی جاتی ہیں تاکہ دیگر لوگوں کو اس حوالہ سے آسانی پیدا ہو۔ ان علامات کو استعمال کرنے میں شرعا کوئی قباحت نہیں ہے۔
وكنت أرى بعض العَجَم- كعبد الحكيم على (العقائد النسفية) (1) يكتب"اهـ" بدل "إِلخ"، مع أن "اهـ" عندنا علامةٌ على انتهاء الكلام، ولا مشاحة في الاصطلاح. (المطالع النصریۃ للمطابع المصریۃ فی الاصول، الرموز عن اسماء المشھور 1/398)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 1592/43-1138
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ "زمل" لے معنی بوجھ کے ہیں ، یہ نام مناسب نہیں ہے۔ "اِیزِل" (الف اور زاء کے نیچے زیر کے ساتھ) کے معنی ہیں: تصویر بنانے میں استعمال ہونے والی لکڑی۔ یہ نام مناسب نہیں ہے۔''آیت '' کے معنی ہیں :علامت اور نشانی ۔ہمارے عرف میں جب آیت بولا جائے تو اس سے قرآن کی آیت مراد ہوتی ہے اور اسی کی طرف ذہن منتقل ہوتاہے۔گوکہ آیت نام رکھنا جائز ہے، لیکن مناسب نہیں۔ "یشفع" کامعنی ہے: وہ سفارش کرتا ہے۔ یہ نام مناسب نہیں ہے، شفیعۃ(سفارش کرنےوالی) مناسب نام ہے۔ "اسراء" کے معنی : رات کے وقت چلنا، یہ نام لڑکی کے لیے رکھنا درست ہے۔ "یسری" کا معنی ہے:آسانی ، سہولت اور مالی وسعت۔ یہ لڑکی کا نام رکھا جاسکتا ہے، قرآن عظیم میں یہ لفظ جنت کے لیے استعمال ہوا ہے ۔ یسرا (الف کے ساتھ) مناسب نام نہیں ہے۔'سحر'' کا معنی ہے: طلوع آفتاب سے کچھ پہلے کا وقت۔ اور "نورِسحر" کا معنی ہوگا: طلوع آفتاب سے پہلے کی ہلکی روشنی۔ یہ نام رکھنا جائز ہے۔ "فجر" کا معنی ہے: رات کی تاریکی چھٹنا، صبح کی روشنی۔ مذکورہ نام رکھنا جائز ہے، البتہ بچے اور بچیوں کے نام انبیاء علیہم السلام یا صحابہ و صحابیات رضوان اللہ علیہم وعلیہن اجمعین کے اسماء میں سے کسی کے نام پر رکھنا چاہئے۔ اس لئے کوئی دوسرا نام تجویز کریں جو اچھے معنی والا ہو یا کسی صحابی و صحابیہ کے نام پر ہو۔
وقال أبو عبيد عن أصحابه سريت بالليل وأسريت فجاء باللغتين وقال أبو إسحق في قوله عز وجل سبحان الذي أسرى بعبده قال معناه سير عبده يقال أسريت وسريت إذا سرت ليلا (لسان العرب (14 / 377)
"الفَجْرُ : انكشافُ ظلمةِ الليل عن نور الصُّبْح. وهما فَجْرَانِ: أَحدهما: المستطيلُ، وهو الكاذبُ: والآخر: المستطيرُ المنتشرُ الأُفُقِ، وهو الصادقُ. يقال: طريقٌ فَجْرٌ: واضحٌ." (معجم الوسيط)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1673/43-1286
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مرغی کی دمچی حلال ہے۔مرغی کی دمچی اس کے چمڑے کا ایک حصہ ہے، شرمگاہ نہیں ہے، اس لئے اس کا کھانا جائز ہے۔
وأما بيان ما يحرم أكله من أجزاء الحيوان المأكول فالذي يحرم أكله منه سبعة: الدم المسفوح، والذكر، والأنثيان، والقبل، والغدة، والمثانة، والمرارة لقوله عز شأنه {ويحل لهم الطيبات ويحرم عليهم الخبائث} [الأعراف: 157] وهذه الأشياء السبعة مما تستخبثه الطباع السليمة فكانت محرمة. (بدائع، صفۃ التضحیۃ 5/61)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1771/43-1502
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کپڑے پر کوئی ظاہری نجاست نہیں ہے تو ان کو پاک ہی سمجھاجائے گا۔ غیرمسلم کا بدن بھی پاک ہے تو اس کا کپڑا بھی پاک شمار ہوگا الا یہ کہ اس کے کپڑے یا بدن پر کوئی نجاست ہو تو اب ان کی ناپاکی کا حکم لگے گا۔
" الأول من الأقسام: سؤر طاهر مطهر بالاتفاق من غیر کراهة في استعماله، وهوما شرب منه آدمي لیس بفمه نجاسة ... ولا فرق بین الصغیر والکبیر والمسلم والکافر والحائض والجنب."--------- )"وإذا تنجس فمه فشرب الماء من فوره تنجس.‘‘ (نورالإیضاح مع شرحه مراقي الفلاح، الطبعة الأولیٰ : ص ۱۸ ط مصطفیٰ البابي الحلبي وأولاده بمصر)
وأما نجاسة بدنه فالجمهور علی أنه لیس بنجس البدن والذات؛ لأن الله تعالیٰ أحل طعام أهل الکتاب". (تفسیر ابن کثیر تحت قوله تعالیٰ: ﴿اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ﴾ الآیة : ۲/۳۴۶ ط سهیل أکادمي)
’’قال محمد - رحمه الله تعالى -: ويكره الأكل والشرب في أواني المشركين قبل الغسل، ومع هذا لو أكل أو شرب فيها قبل الغسل جاز، ولايكون آكلاً ولا شارباً حراماً، وهذا إذا لم يعلم بنجاسة الأواني، فأما إذا علم فإنه لا يجوز أن يشرب ويأكل منها قبل الغسل، ولو شرب أو أكل كان شارباً وآكلاً حراماً(‘‘.الفتاوى الهندية (5/ 347)
’’شک فی وجود النجس فالاصل بقاء الطھارۃ.‘‘(الاشباہ و النظائر،صفحہ 61،مطبوعہ کراچی) ’’ولو شک فی نجاسۃ ماء أو ثوب أو طلاق أو عتق لم یعتبر) در مختار مع رد المحتار،جلد1،صفحہ310،مطبوعہ کوئٹہ(
’’قولہ:(ولو شک)فی التاتر خانیۃ: من شک فی انائہ أو ثوبہ أو بدنہ أصابتہ نجاسۃ أو لا، فھو طاھر ما لم یستیقن،و کذا لآبار والحیاض والحباب الموضوعۃ فی الطرقات و یستقی منھا الصغار و الکبار والمسلمون والکفار )رد المحتار مع الدر المختار،جلد1،صفحہ310،مطبوعہ کوئٹہ(
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند