نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اذان واقامت میں راء کو کھینچ کر پڑھنا غلطی ہے اس کی اصلاح کرنا ضروری ہے۔ تاہم اذان واقامت ادا ہوجائیں گی اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔ (۲)

(۲)وبفتح راء أکبر والعوام یضمونہا روضۃ، لکن في الطلبۃ معنی قولہ علیہ الصلاۃ والسلام: الأذان جزم أي مقطوع المد، فلا تقول: آللہ أکبر؛ لأنہ استفہام وإنہ لحن شرعي، أو مقطوع حرکۃ الآخر للوقف، فلایقف بالرفع؛ لأنہ لحن لغوي فتاوی الصیرفیۃ من الباب السادس والثلاثین۔…(قولہ: وبفتح راء أکبر إلی قولہ ولا ترجیع) نقل أنہ ملحق بخط الشارح علی ہامش نسخۃ الأولی، وفي مجموعۃ الحفید الہروي ما نصہ: فائدۃ: في روضۃ العلماء قال ابن الأنباري: عوام الناس یضمون الراء في أکبر، وکان المبرد یقول الأذان سمع موقوفا في مقاطیعہ، والأصل في أکبر تسکین الراء فحولت حرکۃ ألف اسم اللّٰہ إلي الراء کما في {الم، اللّٰہ} (آل عمران: ۱، ۲) وفي المغني: حرکۃ الراء فتحۃ وإن وصل بنیۃ الوقف، ثم قیل ہي حرکۃ الساکنین ولم یکسر حفظا لتفخیم اللّٰہ، وقیل نقلت حرکۃ الہمزۃ وکل ہذا خروج عن الظاہر؛ والصواب أن حرکۃ الراء ضمۃ إعراب، ولیس لہمزۃ الوصل ثبوت في الدرج فتنقل حرکتہا، وبالجملۃ الفرق بین الأذان۔ وبین الم اللّٰہ ظاہر فإنہ لیس لـ - الم اللّٰہ، حرکۃ إعراب أصلاً، وقد کانت لکلمات الأذان إعرابا إلا أنہ سمعت موقوفۃ۔ اہـ۔
وفي الإمداد: ویجزم الراء أي یسکنہا في التکبیر قال الزیلعي، یعني علی الوقف، لکن في الأذان حقیقۃ، وفي الإقامۃ ینوی الوقف اہـ أي للحدر، وروي ذلک عن النخعي موقوفا علیہ، ومرفوعا إلی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: الأذان جزم، والإقامۃ جزم، والتکبیر جزم)۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في المواضع التي یندب لھا الأذان في غیر الصلاۃ و في الکلام علی حدیث ’’الأذان جزم‘‘: ج ۲، ص: ۵۱، ۵۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص175

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نماز میں نیت کرنا فرض ہے اس کے بغیر نماز درست نہیں ہوگی؛ لیکن امامت کی علاحدہ نیت کرنا ضروری نہیں ہے۔ بغیر امامت کی نیت کے بھی مقتدیوں کی نماز درست ہوگی؛ البتہ نیت کرنے پر اس کو امامت کا ثواب بھی ملے گا ہاں اگر عورت بھی اقتدا کررہی ہو تو عورتوں کی امامت کی نیت کرنا ضروری ہے اگر امام نے عورتوں کی امامت کی نیت نہیں کی تو عورتوں کی نماز درست نہ ہوگی۔

’’والإمام ینوی صلاتہ فقط، ولا یشترط لصحۃ الاقتداء نیۃ إمامۃ المقتدی بل لنیل الثواب عند اقتداء أحد بہ الخ‘‘(۱)
ولا یحتاج الإمام في صحۃ الاقتداء بہ إلی نیۃ الإمامۃ حتی لو شرع علی نیۃ الإنفراد فاقتدی بہ یجوز إلا في حق جواز اقتداء النساء بہ فإن اقتدائہن بہ لایجوز مالم ینو أن یکون إماما لہن أو لمن تبعہ عموما‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، مطلب مضیٰ علیہ سنوات وہو یصلي الظہر قبل وقتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۳، ۱۰۴، ط: مکتبہ زکریا دیوبند۔
(۲) إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملي، شرح منیۃ المصلي، ’’کتاب الصلاۃ: الشرط السادس النیۃ ‘‘: ص:۲۱۹۔
وإن أم نساء فإن اقتدت بہ المرأۃ محاذیۃ لرجل في غیر صلاۃ جنازۃ فلا بد لصحۃ صلاتہا من نیۃ  إمامتہا … وإن لم تقتد محاذیۃ اختلف فیہ فقیل یشترط وقیل لا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، مطلب مضیٰ علیہ سنوات وہو یصلي الظہر قبل وقتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۴، زکریا دیوبند)
ولا یصیر إماماً للنساء إلا بالنیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ: ’’کتاب الصلاۃ:  الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۴، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص233

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فوراً دعا کرنا بھی درست ہے اور اگر آیۃ الکرسی یا کوئی دعا پڑھ لی جائے تو بھی درست ہے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔(۳)
(۳) وأما ماورد من الأحادیث في الأذکار عقیب الصلاۃ فلا دلالۃ فیہ علی الإتیان بہا قبل السنۃ، بل یحمل علی الإتیان بہا بعدہا؛ لأن السنۃ من لواحق الفریضۃ وتوابعہا ومکملاتہا فلم تکن أجنبیۃ عنہا، فما یفعل بعدہا یطلق علیہ أنہ عقیب الفریضۃ۔
وقول عائشۃ بمقدار لایفید أنہ کان یقول ذلک بعینہ، بل کان یقعد بقدر مایسعہ ونحوہ من القول تقریبا، فلا ینافي مافي الصحیحین من أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقول في دبر کل صلاۃ مکتوبۃ، لا إلہ إلا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شيء قدیر، اللّٰہم لامانع لما أعطیت ولا معطي لما منعت ولا ینفع ذا الجد منک الجد، وتمامہ في شرح المنیۃ، وکذا في الفتح۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب ہل یفارقہ الملکان‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۶؛ وابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص443

طلاق و تفریق

Ref. No. 1095 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔  زید نے اپنی بیوی کو جس دن طلاق دی اسی دن سے عدت بھی شروع ہوگئی۔ طلاق سے پہلے الگ رہنے کا اعتبار نہیں۔ عدت بہرحال طلاق کے بعد ہی سے شروع ہوتی ہے۔ اس لئے صورت مسئولہ میں مطلقہ عورت کی عدت ۲۵ جنوری سے ہی شروع ہوئی جوتین  ماہواری کے بعد پوری ہوگی۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اجماع و قیاس
Ref. No. 41/ In the name of Allah the most Gracious the most Merciful The answer to your question is as follows: The detail regarding Hoor you mentioned in the question is correct. The Holy Quran says: the God-fearing will have great achievements, gardens and grapes, and buxom maidens of matching age. (Quran Surah No. 78, verse No. 31, 32, 33). And in a hadith, the Messenger of Allah (saws) said that a martyr will have six blessings from Allah and one of them is that he will be married to seventy-two wives from hoor (beautiful and special girls of paradise). See Faizul Qadeer 4/183, Hadith No. 4963 And Allah knows best Darul Ifta Darul Uloom Waqf Deoband

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 41/1062

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The hadith is recorded in many books of hadith. Imam Tirmizi classified this narration as Ghareeb (strange). In some versions of Tirmizi this hadith is labeled with Hasan Ghareeb. The Muhaqqiq of Sunan Darimi says it is Hasan hadith. Some Muhadithin remarked it as dhaif (weak) due to a narrator namely Khalid bin Tahman. Nevertheless, this hadith is reliable in the chapter of fazail (virtues). 

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

طلاق و تفریق

Ref. No. 1034/41-199

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے۔ بچہ کی ولادت سے پہلے یعنی عدت کے اندر  رجوع کرنے گنجائش ہے۔

 واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن (القرآن: سورہ طلاق/ آیت نمبر٤)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1246/42-568

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عام دنوں میں اس طرح کے  خواب کے بعدسفید پانی  دیکھنے سے غسل واجب ہوجاتاہے۔ لیکن حیض کے زمانے میں اس کے لئے الگ سے غسل کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ جب پاک ہوں گی اسی وقت غسل کرنا ہوگا۔ اور دونوں سے پاکی حاصل ہوجائے گی۔

ھل علی المراۃ من غسل اذا ھی  احتلمت فقال رسول اللہ ﷺ نعم اذا رات الماء (بخاری شریف ، باب اذا احتلمت المراۃ ، 1/64 رقم: 282)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Miscellaneous

Ref. No. 1488/42-997

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

In the Holy Qur'an, Allah Almighty has clearly stated that the Jews plotted secretly and Allah Almighty also plotted and Allah Almighty is the best of plotters. The Jews wanted to kill Jesus and came to kill him. But they were deluded by resemblance and Jesus was lifted to the heaven alive. They killed that person instead of Jesus; the secret of which was later revealed to them. there is no deception and lies in it.

It is a common thing to take measures on the occasion of war and battle and it is also a requisite of human nature.

Here, in the light of this principle, Allah Almighty has revealed the weakness of human beings and the supremacy of divine power. For your satisfaction, read the Quranic commentary books.

And Allah knows best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

مساجد و مدارس

Ref. No. 1869/43-1730

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شریعت میں مال پر جرمانہ جائز نہیں، کیونکہ کسی مسلمان کو شرعی وجہ کے بغیر کسی کامال لینا جائز نہیں ہے ۔ ۔ظلم وزیادتی کے ذریعے لئے ہوئے مال کو مدرسہ میں  پر خرچ کرنا جائز نہیں ہے۔جس قدر جلد ہوسکے جرمانہ کی رقم ادا کردی جائے، اگر جلد اداکرنا ممکن نہ ہو تو اس  کو قسطوار اداکردیاجائے تاکہ حقدار کو اس کا حق مل جائے ۔ اس رقم سے تعمیر شدہ کمرے کو تعلیم کے لئے استعمال کیا جاسکتاہے، بشرطیکہ جس قدر رقم اس میں لگی ہے وہ اس کے مالک کو لوٹادی جائے۔

''وفي شرح الآثار : التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ .والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال''۔ (رد المحتار) (4/ 61)

"مطلب في التعزير بأخذ المال (قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اهـ ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان (قوله وفيه إلخ) أي في البحر، حيث قال: وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي." (رد المحتار) (4/ 61)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند