Fiqh

Ref. No. 2785/45-4351

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

A Muslim woman is not allowed to get her body waxed by a non- muslim woman. In such cases, she should do it by her own hands as much as possible or seek help from her husband only. She should avoid taking help of strangers in this regard.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام یا غیر امام کو ایسی فضول حرکتوں سے اجتناب کرنا چاہیے اس سے نماز مکروہ ہو جاتی ہے اور ایسا عمل کبھی عمل کثیر بن جاتا ہے اور نماز کے فساد کی نوبت آ جاتی ہے، لہٰذا ایسے عبث فعل سے امام اور مصلیوں کو بچنا چاہیے۔ تاہم اگر رکوع یا سجدے سے اٹھتے وقت بدن سے چپکے ہوئے دامن کو ایک ہاتھ سے درست کر لیا تو کوئی مضائقہ نہیں۔(۱)
’’ویکرہ أیضاً: أن یکف ثوبہ وہو في الصلاۃ بعمل قلیل بأن یرفعہ من بین یدیہ أو من خلفہ عند السجود أو یدہ فیہا وہو مکفوف کما إذا دخل وہو مشمر الکم أوالذیل وأن یرفعہ‘‘(۲)

(۱) وکرہ کفہ أي رفعہ ولو لتراب کمشمر کم أو ذیل وعبثہ بہ أي بثوبہ وبجسدہ للنہي إلا لحاجۃ، قولہ وعبثہ ہو فعل لغرض غیر صحیح، قال في النہایۃ: وحاصلہ أن کل عمل ہو مفید للمصلی فلا بأس بہ۔ (الحکصفي و ابن عابدین، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب في الکراھۃ التحریمیۃ و التنزیھیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۶، زکریا دیوبند)
یکرہ للمصلي أن یعبث بثوبہ أو لحیتہ أو جسدہ وإن یکف ثوبہ بأن یرفع ثوبہ من بین یدیہ أو من خلفہ إذا أراد السجود، کذا في معراج الدرایۃ۔ ولا بأس بأن ینفض ثوبہ کیلا یلتف بجسدہ في الرکوع۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب السابع، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ و فیما لا یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۴، زکریا دیوبند)
(۲) إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري، ’’فصل في صفۃ الصلاۃ‘‘: ص: ۳۰۳، دار الکتاب دیوبند۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص128

اسلامی عقائد

Ref. No. 1319/42-695

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بظاہر یہ سوال لاعلمی کی بنا پر کیا جاتا ہے ، اور آج سائنس کی ترقی نے ان سوالات کے عقلی اور عام فہم جوابات فراہم کردیے ہیں ۔قرآن کریم میں اللہ تعالی نے کائنات کی تخلیق کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا: ہو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعا(بقرۃ: 29) وہی اللہ ہے جس نے زمین میں جو کچھ پیدا کیا ہے وہ سب کا سب تمہارے لیے ہیں۔ایک جگہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وسخر لکم مافی السموات و مافی الارض جمعیا منہ (جاثیۃ: 13)اور اللہ تعالی نے اپنی طرف سے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب کو تمہارے لیے کام میں لگادیا ۔مذکورہ آیات سے معلوم ہوتاہے کہ زمین اور آسمان کے علاوہ ان دونوں میں جو کچھ بھی ہے وہ اللہ نے انسانوں کے لیے مسخر کردیا ہے اور کائنات کی یہ تمام چیزیں انسانوں کےنفع کے لیے ہیں یہ اور بات ہے کہ بعض چیزیں ایسی ہیں جن کا نفع حسی اور عام ہے اور وہ دنیاوی اعتبارسے قابل حیثیت سمجھی جاتی ہیں اوربعض چیزیں ایسی ہیں کہ بظاہر نفع بخش نہیں بلکہ بہت ضرر رساں ہیں لیکن فی الحقیقت وہ بھي انسانوں کے لیے فائدہ مند ہیں مثلا زہریلے سانپ ، بچھو وغیرہ کہنے کو تو نہایت خطرناک مخلوق ہیں مگر انسان ان ہی کے طفیل زہریلے جراثیم سے محفوظ ہے ، حکمت خداوندی کے مطابق مختلف مقاصد کے پیش نظر ماحول میں جو زہریلے اثرات پیدا ہوتے ہیں یہ زہریلے جانور ان اثرات کو اپنے اندر جذب کرلیتے ہیں اگر یہ جانور نہ ہوتو انسان زہریلے اور ہلاکت خیز جراثیم سے تباہ و برباد ہوجائے ۔

اسی طرح سیاروں کا بھي حال ہے ، جدید سائنس نے بھی ثابت کردیا ہے کہ چاند کرۂ ارض سے قریبی سیارہ ہے جو لگتا ہے کہ ہم سے نہایت قریب ہمارے سروں پر ایک چھوٹی سی ٹکیہ کی مانند معلق ہے ۔سائنسدانوں کی تحقیق یہ ہے کہ چاند ہم سے ڈھائی لاکھ میل سے کم دور نہیں ، اس طرح اس وسیع و عریض زمین سے چاند کے حجم کا موازنہ کیا جائے تو وہ زمین سے 50 گنا بڑا ہے ۔سورج کے بارے میں سائنسدان کہتے ہیں کہ وہ کرۂ ارض سے 13لاکھ گنا بڑا اورزمین سے تقریباً 149,6 ملین کلو میٹر دور ہے ۔ سورج ہی کی طرح بلکہ اس سے کئی گنا بڑے اور سورج سے بے انتہا بلندی پر بے شمار کواکب اﷲ کے حکم سے اپنے اپنے مدار پر گردش کررہے ہیں ۔ اُفق پر ٹمٹمانے والے ستارے اربوں کھربوں کی تعداد میں ہیں ۔علم ِفلکیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کے تمام ساحل پر ریت کی جتنی کنکریاں ہیں اُس سے زیادہ آسمان کی بلندی پر ستاروں کی تعداد ہے ۔ بظاہر انسان اپنی کم علمی کی بنا پر یہ سمجھتا ہے کہ یہ سیارے بے مقصد ہیں جب کہ ایک بدیہی بات ہے کہ ایک سمجھدار انسان کوئی کام یا کوئی چیز بلا مقصد  کے تیار نہیں کرتاتو احکم الحاکمین اور کائنات کا بنانے والا کیوں کر ان سیاروں کو بلا مقصد کے پیدا کرے گا ، مثال کے طور پر چاند بھي ایک سیارہ ہے جس کے بارے میں خود اللہ تعالی کا ارشاد ہے و بالنجم ہم یہتدون اور اللہ نے ستارے بنائے جن کے ذریعہ وہ راستہ تلاش کرتے ہیں ۔اس طرح قرآن کریم نے ستاروں کی تخلیق کا مقصد راستوں کی دریافت ، آسمان کی زینت اور شیاطین کے مارنے کا آلہ قرار دیا یہ سب صرف بطور نمونہ اور مثال کے بیان کیے ہیں ورنہ حقیقت میں ان چیزوں کی تخلیق کا مقصد اللہ رب العزت کی کبریائی ، عظمت اور اللہ کی کاریگری میں غور کرنا ہے ۔قرآن کریم میں اس طرح کے دلائل کثرت سے موجود ہیں : ( هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاءً وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللَّهُ ذَلِكَ إِلَّا بِالْحَقِّ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ . إِنَّ فِي اخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا خَلَقَ اللَّهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَّقُونَ ) يونس/5-6

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 38 / 929

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: درست نہیں ہے۔ واللہ تعالی  اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 39 / 883

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔جی،یہ تجارت  جائز ہے ۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Marriage (Nikah)

Ref. No. 40/988

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

There is nothing wrong in getting married with such a woman. Whatever people are saying is totally baseless in shariah. So you should ignore whatever people say and marry her if you like her.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

Miscellaneous

Ref. No. 41/1058

In the name of Allah the most gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

It is duty of a husband to fulfill all the requirements of his wife including medicines etc. A wife should always inform her husband about her necessities and he should try his level best to fulfill them. If husband neglects them whereas he is able to do so, then she may take requisite amount even without his permission in an unavoidable case as it is her right. Phone bill is not included in the list of necessities.  

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

متفرقات

Ref. No. 1046/41-218

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  طلباء کا ذکر کی مجلس میں شرکت کرنا تربیت حاصل کرنے کی غرض سے درست ہے جبکہ مدرسہ نے اس وقت کو ذکر ہی کے لئے متعین کیا ہو؟ یہ بھی سیکھنے کی چیز ہے۔ البتہ محض ذکر کی مجلس ہو جس میں سب لوگ جمع ہوکر صرف ذکر میں بیٹھ جاتے ہوں اور کوئی وہاں شیخ نہ ہو جو تربیت کرے تو پھر اسباق میں ہی لگنا چاہئے کہ یہ بھی ذکر ہی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

آداب و اخلاق

Ref. No. 1377/42-787

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر  اس پر ایسے وقت کپڑا  ڈال دیں تو زیادہ بہتر بات ہے۔   اور اگر میاں بیوی چادر یا لحاف میں ہوں تو پھر کپڑا ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور اگر قرآن جزدان میں ہو تو اس پر کپڑا ڈالنے کی بھی ضرورت نہیں ہے، اس لئے کہ نظر سے غائب کے حکم میں ہے۔

وفي الحلبي: الخاتم المكتوب فيه شيء من ذلك إذا جعل فصه إلى باطن كفه، قيل: لا يكره، والتحرز أولى". ( حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح 54) "وليس بمستحسن كتابة القرآن على المحاريب والجدران؛ لما يخاف من سقوط الكتابة وأن توطأ (البرالرائق 2/40) "ولوكتب القرآن على الحيطان والجدران بعضهم قالوا:يرجى أن يجوز،وبعضهم كرهوا ذلك مخافة السقوط تحت أقدام الناس،كذا في فتاوى قاضي خان."(الھندیۃ، الباب الخامس فی آداب المسجد والقبلۃ 5/323)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1496/42-995

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسئلہ درست ہے، غریب نے خریدے ہوئے جانور کے گم ہونے پر دوسرا جانور جب قربانی کی نیت سے خریداتو دوسرے کی قربانی بھی نذر کے درجہ میں ہوکر واجب ہوگئی۔ لیکن اگر نیت یہ تھی کی پہلے جانور کی جگہ یہ دوسرا خریدرہاہے تو اس میں  پھر ایک ہی جانور قربانی کی نیت سے خریدنا  کہاجائے گا اور ایک ہی کی نذر مانی جائے گی۔ ایسے میں اگر پہلا جانور مل گیا تو چونکہ ایک ہی کی نیت تھی اس لئے ایک کی  قربانی کافی ہوگی۔

وفي فتاوى أهل سمرقند: الفقير إذا اشترى شاة للأضحية فسرقت فاشترى مكانها، ثم وجد الأولى فعليه أن يضحي بهما، ولو ضلت فليس عليه أن يشتري أخرى مكانها (البحر، کتاب الاضحیۃ 8/199) وفي «فتاوى أهل سمرقند» : الفقير إذا اشترى أضحية، فسرقت، فاشترى أخرى مكانها، ثم وجد الأولى، فعليه أن يضحي بهما، فرق بينه وبينما إذا كان غنياً، والفرق: أن الوجوب على الفقر بالشراء، والشراء يتعدد، فيتعدد الوجوب، والوجوب على الغني بإيجاب الشرع، والشرع لم يوجب الأضحية إلا واحدة. (المحیط البرھانی فی الفقہ النعمانی، الفصل الثانی فی وجوب الاضحیۃ بالنذر 6/87) وإن كان معسرا يلزمه ذبح الكل لأن الوجوب على الغني بالشرع ابتداء لا بالشراء فلم يتعين له وعلى الفقير بشرائه بنية الأضحية فتعينت عليه (الجوھرۃ النیرۃ علی القدوری، وقت الاضحیۃ 2/187) قالوا: إذا ماتت المشتراة للتضحية؛ على الموسر مكانها أخرى ولا شيء على الفقير، ولو ضلت أو سرقت فاشترى أخرى ثم ظهرت الأولى في أيام النحر على الموسر ذبح إحداهما وعلى الفقير ذبحهما (العنایۃ شرح الھدایۃ کتاب الاضحیۃ 9/516)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند