Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:’’حسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل‘‘ روزانہ پانچ سو مرتبہ پڑھتے رہیں، ہر نماز کے بعد ایک سو گیارہ مرتبہ ’’یا فتاح‘‘ پڑھ کر دعاء کریں (۲) نیز روزانہ سونے سے قبل یا مغرب کے بعد سورہ واقعہ ضرور پڑھا کریں، اسی طرح ہر نماز کے بعد ’’یا لطیف‘‘ ایک سو گیارہ مرتبہ اور ’’یا سبوح، یا قدوس‘‘ ۲۵؍ مرتبہ پڑھا کریں۔ حدیث میں ایک دعاء ہے اس کو بھی کثرت سے پڑھیں: ’’اللہم أکفني بحلالک عن حرامک واغنني بفضلک عمن سواک‘‘ (۱) اے اللہ مجھے حلال روزی عنایت فرما، حرام روزی سے حفاظت فرما اور اپنے علاوہ سب سے بے نیاز کردے۔
(۲) صدیق أحمد باندوي، مجربات صدیق، ’’باب‘‘ ۱۲، ص: ۱۱۱۔
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الدعوات، باب منہ‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۵، رقم: ۳۵۶۳۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص379
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جی ہاں دھونا چاہیے۔(۱)
(۱) والغسل بالماء إلی أنہ یقع في قلبہ لہ طھر مالم یکن موسوسا فیقدر بثلاث، (ابن عابدین الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في الاستنجاء،‘‘ ج۱، ص:۵۴۹)؛ والبداء ۃ (بغسل الیدین الطاھرتین ثلاثا) قبل الإستنجاء و بعدہٗ ۔(ابن عابدین،رد المحتار علی الدر المختار، ’’سنن الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۲۶-۲۲۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص93
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2718/45-4217
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ و باللہ التوفیق: فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق بہتر یہ ہے کہ آدمی کا انتقال جس جگہ پر ہو جائےاسی جگہ قریبی قبرستان میں اس کو دفن کیا جائے البتہ امام محمدؒنےایک میل یا دومیل کی مسافت پر منتقل کرنے کو جائز کہا ہے ۔لیکن ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل کرنا یا ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنا مکروہ تحریمی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انتقال کے بعد جلدی تجہیز و تکفین کا حکم دیا گیا ہےجب کہ منتقل کرنے میں خاص کر ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل کرنے میں غیرمعمولی تاخیر ہوگی جو پسندیدہ عمل نہیں ہے ۔
(قوله ولا بأس بنقله قبل دفنه) قيل مطلقا، وقيل إلى ما دون مدة السفر، وقيده محمد بقدر ميل أو ميلين لأن مقابر البلد ربما بلغت هذه المسافة فيكره فيما زاد.(ردالمحتار على درالمختار ،كتاب الصلاة،باب صلاةالجنازة،ج:2،ص:146)أما إذا أرادوا نقله قبل الدفن أو تسوية اللبن فلا بأس بنقله نحو ميل أو ميلين.قال المصنف في التجنيس: لأن المسافة إلى المقابر قد تبلغ هذا المقدار. وقال السرخسي: قول محمد بن سلمة ذلك دليل على أن نقله من بلد إلى بلد مكروه، والمستحب أن يدفن كل في مقبرة البلدة التي مات بها۔(فتح القدير،فصل في الدفن،ج:2،ص:141)
نقل من بلد إلى بلد مكروه" أي تحريما لأن قدر الميلين فيه ضرورة ولا ضرورة في النقل إلى بلد آخر وقيل أيجوز ذلك إلى ما دون مدة السفر وقيل في مدة السفر أيضا(حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح، أحمد بن محمد بن إسماعيل الطحطاوي الحنفي، كتاب الصلاة، فصل في حملها و دفنها،ص614
جہاں تک منتقل کرنے کی صورت میں الکوحل کے استعمال کا حکم ہے اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ تمام قسم کے الکوحل حرام اور ناپاک نہیں ہیں بلکہ جو کجھور ،انگور اور منقی سے بنے وہ الکحل نجس ہیں جب کہ آج کے دور میں دوائی اور عطر میں جوالکوحل کا استعمال ہورہاہے عموما ان چیزوں کے علاوہ سے بنتے ہیں اس لیے جائز ہیں ۔فقہ البیوع میں مفتی تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں ،
وقد ثبت من مذہب الحنفیۃ المختار ان غیر الأشربۃ ( المصنوعۃ من التمر او من العنب ) لیست نجسۃ(فقہ البیوع ١/٢٩٤)تکملۃ فتح الملہم میں ہے : ان معظم الکحول التی تستعمل الیوم الادویۃ و العطور و غیرہا لا تتخذ من العنب أو التمر انما تتخذ من الحبوب أو القشور أو البترول وغیرہ کما ذکر نا فی باب بیوع الخمر ( تکملۃ فتح الملہم ،کتاب الاشربۃ، ٣/ ٦٠٨)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکور ہ فی السوال جرم کی اگر شرعی شہادت نہیں ہے، توجرم ثابت نہیں ہوتا، نیزجب تک جرم ثابت نہ ہو، اس کو زبانوں پر لانا اورالزام تراشی کرنا شرعاً گناہ کبیرہ ہے۔(۱) جن لوگوں نے الزام لگایا وہ گناہ کبیرہ کے مرتکب ہیں تاہم اس امام کو بھی انتہائی احتیاط لازم ہے جرم ثابت ہونے سے قبل اس کی امامت بلا کراہت درست ہے۔(۲)
(۱) {وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُھَدَآئَ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً وَّلَاتَقْبَلُوْا لَھُمْ شَہَادَۃً اَبَدًاج وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَہلا ۴ } (سورۃ النور: ۴)
لایرمی رجل رجلا بالفسوق ولایرمیہ بالکفر إلا إذا ارتدت علیہ إن لم یکن صاحبہ کذلک۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ص: ۴۱۱)
(۲) {وَالّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآئِکُمْ فَاسْتَشْھِدُوْا عَلَیْھِنَّ اَرْبَعَۃً مِّنْکُمْج} (سورۃ النساء: ۱۵)
{لَوْلَا جَآئُ وْ عَلَیْہِ بِاَرْبَعَۃِ شُھَدَآئَج فَاِذْلَمْ یَاْتُوْا بِالشُّہَدَآئِ فَاُولٰٓئِکَ عِنْدَ اللّٰہِ ھُمُ الْکٰذِبُوْنَہ۱۳} (سورہ النور: ۱۳)
وفیہ لو أم قوماً وہم لہ کارہون، فہو من ثلاثۃ أوجہ: إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ، أو کانوا أحق بالإمامۃ منہ، یکرہ، وإن کان ہو أحق بہا منہم ولا فساد فیہ ومع ہذا یکرہونہ لا یکرہ لہ التقدم۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في الأحق بالإمامۃ وترتیب الصفوف‘‘: ص: ۱۱۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص57
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: بلا وجہ شرعی کسی کو گولی مارنا اور زخمی کرنا یہ گناہ کبیرہ موجب فسق ہے؛ اس لیے مذکورہ امام گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے؛ البتہ جو نمازیں اس کی اقتداء میں پڑھی گئیں یا پڑھی جائیں ان کو لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے۔ نیز مذکورہ گناہ کبیرہ کی وجہ سے توبہ و استغفار اور آئندہ ایسی حرکت سے باز رہنا ضروری ہے۔(۱)
(۱) والأحق بالإمامۃ تقدیما بل نصباً مجمع الأنہر الأعلم بأحکام الصلاۃ فقط صحۃ وفساداً بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ۔ ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
الأعلم بشرط اجتنابہ الخ کذا في الدرایۃ عن المجتبی وعبارۃ الکافي وغیرہ، قولہ بالسنۃ أولی إلا أن یطعن علیہ في دینہ لأن الناس لایرغبون في الاقتداء بہ، ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق وأعمی ومبتدع أي صاحب بدعۃ، وفي النہر عن المحیط: صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولی من الإنفراد لکن لاینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي۔ (أیضًا: ص: ۲۹۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص185
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس کی گنجائش ہے، کیوں کہ مسجد میں دینے والوں کا مقصد مسجد اور مصالح مسجد میں دینا ہے۔(۲)
(۲) کالإمام للمسجد والمدرس للمدرسۃ یصرف إلیہم إلی قدر کفایتہم ثم السراج والبساط کذلک إلی آخر المصالح أي قولہ: أي مصالح المسجد یدخل فیہ المؤذن والناظر ویدخل تحت الإمام الخطیب الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الوقف، مطلب یبداء بعد العمارۃ بما ہو أقرب إلیہا‘‘: ج۴، ص: ۳۲۷؛ وابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الوقف، الاستدانۃ لأجل العمارۃ في الوقف‘‘: ج ۵، ص: ۲۳۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص274
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: مذکورہ شخص نے اگر راضی ہوکر نسبندی کرائی ہے، تو وہ گناہگار ہے(۱) مگر جماعت میں شامل ہوکر نماز اس کی درست ہے، دوسروں کو اعتراض کرنے کا حق شرعاً نہیں ہے۔(۲)
(۱) {وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہِ ط} (سورۃ النساء: ۱۱۹)
روي عن أنس وعکرمۃ أن معنی تغییر خلق اللّٰہ ہو الإخصاء وقطع الآذان۔ (فخر الدین الرازي، تفسیر کبیر: ج ۱۱، ص: ۳۹)
أما خصاء الآدمي فحرام۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الحظر والإباحۃ، باب الاستبراء وغیرہ‘‘: ج ۹، ص: ۵۵۷)
(۲) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من سمع المنادي فلم یمنعہ من اتباعہ عذر، قالوا وما العذر، قال: خوف أو مرض لم تقبل منہ الصلاۃ التي صلی۔ (سلیمان بن الأشعث، سنن أبي داؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب في التشدید في ترک الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۱، رقم: ۵۵۱)
الجماعۃ سنۃ مؤکدۃ للرجال۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب شروط الإمامۃ الکبریٰ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۷)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص379
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:اذان سنت ہے جماعت کے لیے شرط نہیں ہے اور بغیر اذان جماعت درست ہوجاتی ہے لیکن بغیر اذان جماعت نہیں کرنی چاہئے اذان کی سنت کو چھوڑ دینا اور سنت سے محرومی کوئی معمولی بات نہیں ہے۔(۱)
(۱) ویکرہ أداء المکتوبۃ بالجماعۃ في المسجد بغیر أذان وإقامۃ۔ کذا في فتاوی قاضي خان ولا یکرہ ترکہما لمن یصلی في المصر إذا وجد في المحلۃ ولا فرق بین الواحد والجماعۃ۔ ہکذا في التبیین والأفضل أن یصلي بالأذان والإقامۃ کذا في التمرتاشي وإذا لم یؤذن في تلک المحلۃ یکرہ لہ ترکہما ولوترک الأذان وحدہ لا یکرہ کذا في المحیط ولو ترک الإقامۃ یکرہ، کذا في التمرتاشي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الأول: في صفتہ وأحوال المؤذن‘‘: : ج۱، ص: ۱۱۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص162
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: تینوں صورتیں (دائیں بائیں اور پشت قبلہ رخ کر کے بیٹھنا) جائز ہیں، البتہ دائیں بائیں رخ کرنا اولیٰ ہے۔(۲)
(۲) عن أنس بن مالک، قال: أخَّرَ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الصلاۃ ذات لیلۃ إلی شطر اللیل، ثم خرج علینا، فلما صلی أقبل علینا بوجہہ، فقال: إن الناس قد صلوا ورقدوا، وإنکم لن تزالوا في صلاۃ ما انتظرتم الصلاۃ، (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب یستقبل الإمام الناس إذ اسلم‘‘: ج۱، ص: ۱۱۷، رقم: ۸۴۷)
یستحب للإمام التحول لیمین القبلۃ یعني یسار المصلي لتنفل أو ورد۔ وخیرہ في المنیۃ بین تحویلہ یمیناً وشمالاً وأمامًا وخلفاً وذہابہ لبیتہ، واستقبالہ الناس بوجہہ۔ (الحصکفي، الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب فیما زاد علی العدد في التسبیح عقب الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۴۸)
و یستحب ’’أن یستقبل بعدہ‘‘ أي بعد التطوع وعقب الفرض إن لم یکن بعدہ نافلۃ یستقبل ’’الناس‘‘ إن شاء إن لم یکن في مقابلۃ مصل لما في الصحیحین کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا صلی أقبل علینا بوجہہ وإن شاء الإمام انحرف عن یسارہ وجعل القبلۃ عن یمینہ وإن شاء انحرف عن یمینہ وجعل القبلۃ عن یسارہ وہذا أولیٰ لما في مسلم: کنا إذا صلینا خلف رسول اللہ أحببنا أن نکون عن یمینہ حتی یقبل علینا بوجہہ۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الأذکار الواردۃ بعد الفرض‘‘: ج ۱، ص:۱۱۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص430
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ سورہ کافرون و سورہ اخلاص مذکورہ سنتوں میں نہیں پڑھی ہیں؛ بلکہ کبھی کبھی کافرون و اخلاص اور کبھی قولو آمنا باللہ اور قل یا اہل الکتاب تعالو الآیۃ پڑھی ہیں، البتہ اگر کوئی شخص مذکورہ سنتوں میں یہ دونوں صورتیں مستحب سمجھ کر پڑھتا ہے تو کراہت نہیں ہے اگر لازم سمجھ کر پڑھتا ہے تو مکروہ وبدعت ہوگا۔ بہتر یہ ہے کہ کبھی کبھی بدل کر دوسری سورتیں و آیات بھی پڑھے تاکہ التزام باقی نہ رہے۔(۱)
(۱) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قرأ في رکعتي الفجر {قل یا أیہا الکافرون} و {قل ہو اللّٰہ أحد}۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب استحباب رکعتي سنۃ الفجر‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۱، رقم: ۷۲۶)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: رمقت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عشرین مرۃ یقرأ في الرکعتین بعد المغرب، وفي الرکعتین قبل الفجر {قل یا أیہا الکافرون} و{قل ہو اللّٰہ أحد} (أخرجہ النسائي، في سننہ، ’’کتاب الافتتاح: القراء ۃ في الرکعتین بعد المغرب‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۴، رقم: ۹۹۲)
کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوتر بـ سبح اسم ربک الأعلی، وقل یا أیہا الکافرون وقل ہو اللہ أحد۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، باب ما جاء فیما یقرأ في الوتر‘‘: ج ۱، ص: ۸۲، رقم: ۱۱۷۱)
کان یقرأ في الرکعتین قل ہو اللّٰہ أحد، وقل یا أیہا الکافرون۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الحج، باب حجۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص:۳۹۵، رقم: ۱۲۱۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص228