نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض نماز کے فوراً بعد دعا ثابت ہے اور یہ وقت دعا کی قبولیت میں خاص اثر رکھتا ہے، چندہ کی وجہ سے اس فضیلت کو گنوانا درست نہیں ،چندہ دعا کے بعد کرنا چاہئے ہاں اتفاقاً ایسا کبھی ہوجائے تو حرج نہیں۔
’’قیل لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أي الدعاء أسمع قال جوف اللیل الآخر ودبر الصلوٰت المکتوبات‘‘(۲)
’’حدثنا محمد بن أبي یحي قال رأیت عبد اللّٰہ بن الزبیر ورأي رجلاً رافعاً یدیہ بد عوات قبل أن یفرغ من صلاتہ فلما فرغ منہا، قال: إن رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم لم یکن یرفع یدیہ حتی یفرغ من صلاتہ‘‘(۱)
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الدعوات عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۹، رقم:۳۴۹۹۔
(۱)الطبراني، المعجم الکبیر، محمد بن أبي یحییٰ الأسلمي عن ابن الزبیر: ج ۱۳، ص: ۱۲۹، رقم: ۳۲۴۔(شاملہ)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص447

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:نماز درست ہو جاتی ہے، لیکن سنت طریقہ یہ ہے کامل اور صاف طور پر ’’السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ‘‘ کہے ورنہ سنت کو ترک کرنے والا ہوگا، البتہ اگر وہ ادائیگی پر قدرت نہ رکھتا ہو تو معاف ہے۔(۱)

(۱) قولہ: ہو السنۃ) قال في البحر، وہو علی وجہ الأکمل أن یقول: السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ مرتین، فإن قال: السلام علیکم أو السلام أو سلام علیکم أو علیکم السلام أجزأہ و کان تارکاً للسنۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ السلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۱، زکریا دیوبند)
وفي القنیۃ: ہو الأصح ہکذا في شرح النقایۃ للشیخ أبي المکارم ویقول السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث، في سنن الصلاۃ ، و آدابھا و کیفیتھا‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۴، زکریا دیوبند)
ثم یسلم عن یمینہ مع الإمام فیقول: السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وعن یسارہ کذلک۔ (شیخ زادہ إبراہیم بن محمد، ملتقی الأبحر مع مجمع الأنھر، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۴، بیروت، لبنان)
عن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ کان یسلم عن یمینہ وعن یسارہ: السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ، السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’ أبواب الصلاۃ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، باب ما جاء في التسلیم في الصلاۃ ‘‘: ج ۱، ص: ۶۵، رقم۲۹۵)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص124

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1825/43-1625

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  محض اس خیال کے آنے سے کوئی کفر لازم نہیں آیا جب تک کہ زبان سے کچھ نہ کہاجائے۔ یہ ایک وسوسہ تھا۔ احتیاطا توبہ کرنے اور تجدید ایمان میں کوئی حرج نہیں ہے، کلمہ پڑھ لیں اور آئندہ اس طرح کا خیال آئے تو اعوذ باللہ باللہ کا ورد کرکے اپنے نفس پر مشقت ڈال کر اٹھیں اور نماز ادا کریں، آپ کو ایک عجیب سی خوشی محسوس ہوگی۔ اللہ تعالی ہم سب کے ایمان کی حفاظت فرمائے۔

عن أبي هريرة، قال: جاءه أناس من أصحابه، فقالوا: يا رسول الله، نجد في أنفسنا الشيء نعظم أن نتكلم به -أو الكلام به- ما نحب أن لنا وأنا تكلمنا به، قال: "أوقد وجدتموه؟ " قالوا: نعم، قال: "ذاك صريح الإيمان" (سنن ابی داؤد، با فی رد الوسوسۃ 7/434 الرقم 5111)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

آداب و اخلاق

Ref. No. 114/ -1097 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔  دادا دادی کے پاس کھانے پہننے وغیرہ کا نظم نہ ہو تو ان کے کھانے پینے وغیرہ کی ضروریات پوری کی جائیں، اور آرائش و تفریح وغیرہ کے مطالبات پورے کرنے ضروری نہیں، تاہم ان کو سمجھاکر مطمئن رکھنے کی کوشش کیجائے تو بہتر ہے۔ واللہ تعالی اعلم

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Usury / Insurance

Ref. No. 39 / 873

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is hereunder:

No, it is not allowed. You have to give this amount of interest to needy and poor people without making any intention of reward.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

تجارت و ملازمت

Ref. No. 41/892

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مذکورہ صورت درست نہیں ہے، یہ قرض سے انتفاع کی ایک شکل ہے جو حرام ہے۔ جائز صورت یہ ہے کہ نفع و نقصان میں شریک ہوں اور منافع فی صد کے اعتبار سے متعین ہوں۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Miscellaneous

Ref. No. 1143/42-375

click on the link below to see the answer to your question

https://dud.edu.in/darulifta/?qa=2462/salamualaikum-muftisahab-permissible-companies-especially&show=2462#q2462

Masajid & Madaris

Ref. No. 1368/42-781

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follow:

The letters of Hazrat Maulana Hussain Ahmad Madani also contain answers to some jurisprudential questions, which have been published separately with the title “Fatawa Shaikh-ul-Islam”.

In this Fatwas collection, we could not find any mention of twenty plus acts of the Masjid during the time of the Companions. Yes, there are some issues in which Shaikh-ul-Islam has his own personal opinion.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

اسلامی عقائد

Ref. No. 1593/43-1137

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ معذور سے کس قسم کا معذور مراد ہے، اس کی وضاحت ضروری ہے ۔ اگر کسی کو پاکی ناپاکی کا عذر شرعی ہے تو ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔اگر اس  نے نماز پڑھادی تو اس کے پیچھے نماز درست نہیں ہوئی، اعادہ کرنا ضروری ہے۔اور اگر پیر وغیرہ کسی عضو سے معذور ہے تو اگر وہ کھڑا ہوکر تمام ارکان کے ساتھ نماز اداکرنے پر قادر ہے تو اس کے پیچھے نماز درست ہے۔ لیکن اگر وہ تمام ارکان ادا کرنے پر قادر نہ  ہومثلا بیٹھ کر نماز اداکرے تو اس کے پیچھے نماز نہیں ہوگی۔ کوئی دوسرا امام منتخب کرلینا چاہئے۔ اگر کوئی نہ ہو تو ایسی مجبوری میں کسی فاسق کو امام بنالینا بھی درست ہے۔

قال الحصکفي: وصاحب عذر من بہ سلسل بول إن استوعب عذرہ تمام وقت صلاة مفروضة بإن لا یجد في جمیع وقتہا زمنًا یتوضأ ویصلي فیہ خالیًّا عن الحدث- قال ابن عابدین نقلاً عن الرحمتي: ثم ہل یشترط أن لا یمکنا مع سننہما أو الاقتصار علی فرضہما؟ یراجع اھ أقول الظاہر الثاني (شامی مطلب في أحکام المعذور 1/504) وقال الحصکفي: ولا طاہر بمعذور (شامی باب الإمامة 2/278) وقال: وتکرہ إمامة -فسق- وفي النہر عن المحیط: صلی خلف فاسق- نال فضل الجماعة- قال ابن عابدین: لکن لا ینال کما ینال خلف تقي ورع۔ (شامی، باب الإمامة 2/254) (وصح اقتداء متوضئ) لا ماء معه (بمتيمم) - - - (وقائم بقاعد) يركع ويسجد؛ «لأنه صلى الله عليه وسلم صلى آخر صلاته قاعدا وهم قيام وأبو بكر يبلغهم تكبيره» (قوله وقائم بقاعد) أي قائم راكع ساجد أو موم، وهذا عندهما خلافا لمحمد. وقيد القاعد بكونه يركع ويسجد لأنه لو كان موميا لم يجز اتفاقاً''۔(شامی، باب الامامۃ 1/588)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1674/43-1287

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کمیٹی کی رضامندی سے ایسا کرنا درست ہے۔  تاہم معاملہ بالکل صاف ستھرا ہونا چاہئے تاکہ بعد میں کسی نزاع کا اندیشہ نہ ہو۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند