اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:پندرہویں شعبان کی رات میں انفرادی طور پر دعاء، تلاوت، نماز وغیرہ عبادات میں مشغول ہونے اور دن میں روزہ رکھنے کی فضیلت روایات سے ثابت ہے۔
’’عن علي رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا یومہا فإن اللّٰہ تعالیٰ ینزل فیہا لغروب الشمس إلی السماء الدنیا، فیقول: ألا من مستغفر فأغفر لہ، ألا مسترزق فأرزقہ، ألا مبتلی فأعافیہ ألا کذا ألا کذا حتی یطلع الفجر، رواہ ابن ماجہ‘‘(۱)
اس وجہ سے دیگر راتوں کے مقابلہ میں اس رات کی نوافل کا ثواب زیادہ ہے۔اس کے علاوہ دیگر خرافات اور بدعات جو آج کل شروع ہوگئی ہیں، مثلاً: حلوہ پکانا، چراغاں کرنا، رات بھر جاگ کرمسجد اور قبرستان میں شور شرابہ کرنا یہ سب خلاف شریعت امور ہیں۔(۲) قبرستان جانا بھی حدیث سے ثابت ہے؛ اس لیے اگر کبھی چلاجائے، تو حرج نہیں تاہم اس کو رسم نہ بنایا جائے اور قبرستان کے تقدس کی پامالی اور شور وغل سے اجتناب کیا جائے، قبرستان جانے کا مقصد تذکیر آخرت اور اہل قبور کے احوال سے عبرت حاصل کرنا ہی ہو۔(۳)

(۱)  مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب قیام شہر رمضان، الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵۔
(۲) السراج الکثیر الزائد عن الحاجۃ لیلۃ البراء ۃ ہل یجوز؟ … ہو بدعۃ۔ (نفع المفتي والسائل: ص: ۱۳۸)
من عمل عملاً لیس علیہ أمرنا فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام الباطلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۷)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’من قام لیلۃ النصف من شعبان ولیلتی العیدین لم یمت قلبہ یوم تموت القلوب‘‘ ومعنی القیام أن یکون مشتغلا معظم اللیل بطاعۃ وقیل بساعۃ منہ یقرأ أو یسمع القرآن أو الحدیث أو یسبح أو یصلي علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وعن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ بصلاۃ العشاء جماعۃ والعزم علی صلاۃ الصبح جماعۃ کما في إحیاء لیلتی العیدین، وقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ لیہ وسلم: من صلی العشاء في جماعۃ فکأنما قام نصف اللیل، …بقیہ حاشیہ آئندہ صفحہ: پر…
ومن صلی الصبح في جماعۃ فکأنما قام اللیل کلہ (رواہ مسلم) ویکرہ الاجتماع علی إحیاء لیلۃ من ہذہ اللیالي المتقدم ذکرہا في المساجد وغیرہا لأنہ لم یفعلہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا الصحابۃ، فأنکرہ أکثر العلماء من أہل الحجاز: منہم عطاء وابن أبي ملیکۃ وفقہاء أہل المدینۃ وأصحاب مالک وغیرہم وقالوا: ذلک کلہ بدعۃ۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في تحیۃ المسجد، وصلاۃ الضحیٰ وإحیاء اللیالي‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۲)
(۳) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، أنہا قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم- کلما کان لیلتہا من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یخرج من آخر اللیل إلی البقیع۔ فیقول: السلام علیکم دار قوم مؤمنین، وأتاکم ما توعدون غدا، مؤجلون، وإنا إن شاء اللّٰہ بکم لاحقون، اللّٰہم اغفر لأہل بقیع الغرقد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الجنائز: فصل في التسلیم علی أہل القبور والدعاء والاستغفار لہم‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۳، رقم: ۹۷۴)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص500

اسلامی عقائد

Ref. No. 2563/45-3962

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مساجد میں اہل سنت والجماعت کے باشرع اور متدین علماء کو مدعو کرنا چاہئے، جن کے افکار علماء دیوبند سے قریب تر ہوں زیادہ بہتر ہے ۔ ایسے لوگوں کو بلانا جن کے افکار میں انحراف و اعتزال ہو درست نہیں ہے۔ اس میں عوام الناس فکری انتشار وانحراف میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ علماء دیوبند داڑھی کے سلسلہ میں متشدد ہیں وہ غلطی پر ہیں ، داڑھی تو تمام انبیاء کرام کی مشترکہ سنت ہے، اور داڑھی کا کاٹنا ائمہ اربعہ کے مطابق ناجائز ہے، اس میں علماء دیوبند کی تخصیص کیا ہے۔؟

 عن عائشۃ قالت: قال رسول اللہ ﷺ عشر من الفطرۃ قص الشارب واعفاء اللحیۃ (صحیح مسلم 1/223) کان حلق اللحیۃ محرما عند ائمۃ المسلمین المجتھدین ابی حنیفۃ ومالک والشافعی واحمد وغیرھم (المنھل العذب المورود 1/186)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:بارش کا پانی اگر سڑک پر جمع ہو اور وہ صرف بارش کا ہی پانی ہو، اس میں گٹر کے پانی یا دیگر نجاستوںکی آمیزش نہ ہو تو وہ پانی پاک ہے،کپڑوں پر لگنے سے کپڑے ناپاک نہیں ہوں گے اور اگر بارش کے پانی میں گٹر کے پانی یا دیگر نجاستوں کی آمیزش ہوجائے اور وہ کسی کے کپڑے یا جسم پر لگ جائے، تو اس کی دو صورتیں ہیں: اگر اس علاقے میںمسلسل بارش ہوتی ہے اور اس راستہ پر کثرت سے آمد و رفت ہوتی ہے اور اس سے بچنا مشکل ہے، تو اگر بعینہ نجاست نظر نہ آئے تو ضرورت کی وجہ سے یہ پاک سمجھا جائے گا یعنی اس حالت میں نماز ادا ہوجائے گی، اگر چہ اسے بھی دھو لینا چاہیے اور اگر اس طرح کی ضرورت نہیں، تو وہ ناپاک ہے، بہرصورت اس کو پاک کرنا ضروری ہوگا۔ الحاصل أن الذي ینبغي أنہ حیث کان العفو للضرورۃ، و عدم إمکان الاحتراز أن یقال بالعفو و إن غلبت النجاسۃ مالم یر عینھا لو أصابہ بلا قصد و کان ممن یذھب و یجیء، و إلا فلا ضرورۃ، و قد حکی في القنیۃ أیضا قولین فیما لو ابتلت قدماہ مما رش في الأسواق الغالبۃ النجاسۃ، ثم نقل أنہ لو أصاب ثوبہ طین السوق أو السکۃ ثم وقع الثوب في الماء تنجس۔(۱)

(۱)ابن عابدین، حاشیہ رد المحتار، کتاب الطہارت، باب الأنجاس، ج ۱، ص:۳۲۴

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص444

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز ایک اہم عبادت ہے، سنن ومستحبات کی رعایت کرتے ہوئے اداء کی جانی چاہئے اور امام کو مقتدیوں کی رعایت کرنی چاہئے۔ التحیات کے بعد درود شریف ودعاء اسی طرح رکوع وسجود میں کم از کم تین تین مرتبہ تسبیحات مسنون ہیں تمام ہی کی رعایت کرنی چاہئے۔(۱)

(۱) وفی المنیۃ: ویکرہ للإمام أن یعجلہم عن إکمال السنۃ. ونقل فی الحلیۃ عن عبد اللہ بن المبارک وإسحاق وإبراہیم والثوری أنہ یستحب للإمام أن یسبح خمس تسبیحات لیدرک من خلفہ الثلاث۔
والحاصل: أن فی تثلیث التسبیح فی الرکوع والسجود ثلاثۃ أقوال عندنا، أرجحہا من حیث الدلیل الوجوب تخریجاً علی القواعد المذہبیۃ، فینبغی اعتمادہ کما اعتمد ابن الہمام ومن تبعہ روایۃ وجوب القومۃ والجلسۃ والطمأنینۃ فیہما کما مر. وأما من حیث الروایۃ فالأرجح السنیۃ؛ لأنہا المصرح بہا فی مشاہیر الکتب، وصرحوا بأنہ یکرہ أن ینقص عن الثلاث وأن الزیادۃ مستحبۃ بعد أن یختم علی وتر خمس أو سبع أو تسع ما لم یکن إماماً فلایطول، وقدمنا فی سنن الصلاۃ عن أصول أبی الیسر أن حکم السنۃ أن یندب إلی تحصیلہا ویلام علی ترکہا مع حصول إثم یسیر وہذا یفید أن کراہۃ ترکہا فوق التنزیہ وتحت المکروہ تحریماً. وبہذا یضعف قول البحر: إن الکراہۃ ہنا للتنزیہ؛ لأنہ مستحب وإن تبعہ الشارح وغیرہ، فتدبر۔ابن عابدین؛ رد المحتار۔ج:۱،ص:۴۹۵

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص50

 

متفرقات

Ref. No. 2736/45-4310

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نابالغ بچہ، پاگل اور مجنون اپنا وکیل نہیں بنا سکتا ہے اور نہ ہی اس کا وکیل بنانا درست ہے خواہ وہ مدعی ہوں یا مدعی علیہ دونوں صورتوں میں حکم یہ ہے کہ اس کے ولی اس کی طرف سے وکالت کریں گے اور یہی لوگ اس کے نگراں اور پاسبان ہوں گے۔

صورت مذکورہ میں اگر قضا کا معاملہ پیش آ جائے تو یہی لوگ ان کی نگہداشت کا فریضہ انجام دیں گے یہی لوگ ان کی طرف سے وکالت کریں گے اوران کے معاملے کی پیروی کریں گے۔

فلا يصح توكيل مجنون وصبي لا يعقل مطلقا وصبي يعقل (رد المحتار: ج 8، ص: 242)

وليس لغير ابيه وجده ووصيها التصرف في حاله وكذا لووهب له فيمن هو في حجره‘‘ (جامع الفصولين: ج 2، ص: 9)

الولاية في ما له الصغير الأب ثم وصيه ثم وصي وصيه وبعد فلو مات الأب ولم يوص فالولاية لأبي الأب ثم وصيه ثم وصي وصيه فان ما لم يكن فللقاضي‘‘ (رد المحتار: ج 6، ص: 714)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر امام رکوع میں ہے اور اس وقت کوئی شخص امام کے ساتھ رکوع میں شامل ہونا چاہتا ہے، تو مسنون طریقہ یہ ہے کہ کھڑے ہوکر تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد پھر دوسری تکبیر کہہ کر رکوع میں جائے اور اگر کھڑے ہوکر تکبیر تحریمہ نہ کہی اور رکوع کے مانند جھکتے ہوئے تکبیر کہہ کر رکوع میں چلا گیا، تو اس کی نماز نہ ہوگی۔(۱)

(۱) فلو کبّر قائمًا فرکع ولم یقف صح، لأن ما أتی بہ من القیام إلی أن یبلغ الرکوع یکفیہ، ’’قنیہ‘‘۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: بحث القیام، ج ۲، ص: ۱۳۱، مکتبہ: زکریا دیوبند)
ولا یصیر شارعاً بالتکبیر إلا في حالۃ القیام … ولو أدرک الإمام وہو راکع فکبّر قائماً وہو یرید تکبیرۃ الرکوع جازت صلاتہ ولغت نیتہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ،’’الباب الرابع: في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۶، مکتبہ: زکریا دیوبند)
لو أدرک الإمام راکعاً فحنی ظہرہ ثم کبّر إن کان إلی القیام أقرب صح الشروع ولو أراد بہ تکبیر الرکوع وتلغو نیتہ لأن مدرک الإمام في الرکوع لا یحتاج إلی التکبیر مرتین خلافاً لبعضہم وإن کان إلی الرکوع أقرب لا یصح الشروع۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ وفروعہا‘‘: ص: ۲۱۸، مکتبہ: شیخ الہند دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص312

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں نماز بغیر کسی کراہت کے جائز ہے۔(۱)

(۱) ولا یکرہ (السجود علی بساط فیہ تصاویر) ذي روح (لم یسجد علیہا) لإہانتہا بالوطء علیہا۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل فیما لا یکرہ للمصلي‘‘: ص: ۳۶۹، شیخ الہند)
قال في الہدایۃ: لو کانت الصورۃ علی وسادۃ ملقاۃ أو علی بساط مفروش لا یکرہ لأنہا تداس وتوطأ بخلاف ما إذا کانت الوسادۃ منصوبۃ أو کانت علی الستر لأنہا تعظیم لہا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۴۱۷، زکریا دیوبند)
وفي البساط روایتان : والصحیح : أنہ لا یکرہ علی البساط إذا لم یسجد علی التصاویر، وہذا إذا کانت الصورۃ کبیرۃ تبدو للناظر من غیر تکلف۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع، فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا،  الفصل الثاني،  فیما یکرہ في الصلاۃ وما لا یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۶، زکریا)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص130

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:منفرداً نماز پڑھنے کی صورت میں مطلق قرأت فرض ہے اور سورۂ فاتحہ پڑھنا واجب ہے اور اگر امام کی اقتداء میں نماز پڑھے تو مقتدی پر قرأت نہیں ہے نہ سورۂ فاتحہ، نہ کوئی دوسری سورت۔(۱)

(۱) وبیان ذلک أن القراء ۃ وإن انقسمت إلی فرض و واجب وسنۃ إلا أنہ مہما أطال یقع فرضا، وکذا إذا أطال الرکوع والسجود علی ما ہو قول الأکثر والأصح، لأن قولہ تعالیٰ {فاقرؤا ما تیسر} لوجوب أحد الأمرین الآیۃ، فما فوقہا مطلقاً، لصدق ما تیسر علی کل فرض، فمہما قرأ یکون الفرض ومعنی الأقسام المذکورۃ أن جعل الفرض مقدار کذا واجب وجعلہ دون ذلک مکروہ، وجعلہ فوق ذلک سنۃ إلی حد کذا سنۃ … وقالوا: الفاتحۃ واجب، وکذا الکلام فیما بعد الواجب إلی حد السنۃ فلیتأمل۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: تحقیق مہم فیما لو تذکر في رکوعہ الخ،  فصل في القراء ۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۵۵)…واجبہا قراء ۃ الفاتحۃ وضم سورۃ الخ۔ (إبراھیم حلبي، ملتقی الأبحر مع مجمع الأنھر، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص:۱۳۰، بیروت،لبنان)
وفرض القراء ۃ آیۃ وقالا: ثلاث آیات قصار أو آیۃ طویلۃ … ولا یقرأ المؤتم بل یستمع وینصت۔ (إبراھیم حلبي، ملتقی الأبحر مع مجمع الأنھر، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فصل یجہر الإمام بالقراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۷- ۱۶۰، بیروت، لبنان)
وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَہ۲۰۴ (سورۃ الأعراف: ۲۰۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص239

 

تجارت و ملازمت
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان کرام اس مسئلے میں کہ اگر ایسا کاروبار کیا جائے کہ جس میں فلم وغیرہ (جیسا کہ آج کل لوگوں نے ایسی دکانیں کهول رکهی ہیں کہ جس میں لوگ جاکر میموری کارڈ میں فلمیں اور گانے بهرواتے ہیں اور اس میں اپنے پیسے لگاتے ہیں کہ جسمیں بیع و شرا کی صورت معلوم ہوتی ہے ) تو اب دریافت یہ کرنا ہے کہ کیا ایسی بیع و شرا جائز ہے؟ اور کیا اس سے کمایا ہوا پیسا صحیح ہوگا؟ جیسا بھی ہو مسئلے کی تشفی بخش جواب دیں نیز اس مسئلے کی بہی وضاحت فرما دیں کہ فلم انڈسٹری میں جانا اور اسکا رکن بننا اور اس سے بھی کمائے ہوئے پیسے کیسے ہیں اس بارے میں بھی مسئلے کی وضاحت فرمائیں

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 39/1113

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔بینک سے  جو سودی رقم آپ کو ملے اس کو بلانیت ثواب غریبوں اور مستحقین پر صدقہ کرنا واجب ہے۔  اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے، الا یہ کہ آپ خود غریب ومستحق ہوں تو آپ اس کو اپنے استعمال میں بھی لاسکتے ہیں۔  

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند