Frequently Asked Questions
بدعات و منکرات
Ref. No. 1595/43-1139
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والدہ کمزور ہیں، ان کی اطاعت اور خدمت لازم ہے، اور والدہ کی ضرورت اور منع کرنےکے باوجود جماعت میں نکلنا ناجائز ہے۔ گھر پر رہ کر نماز وغیرہ امور کی پابندی کریں اور والدہ کی خدمت کریں۔ ہاں جب والدہ کی اجازت ہو یا دوسرا کوئی خدمت کرنےوالا موجود ہو تو والدہ سے بات کرکے نکلنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
کما فی الرد المحتار أي إن لم یخف علی والدیہ الضعیفة إن کانا موسرین ولم تکن نفقتہما علیہ، وفي الخانیة لو أراد الخروج إلی الحج وکرہ ذلک قالوا: إن استغنی الأب عن خدمتہ فلا بأس وإلا فلا یسعہ الخروج وفي بعض الروایات لا یخرج إلی الجہاد إلا بإذنہما ولو آذن أحدہما فقط لا ینبغي لہ الخروج لأن مراعاة حقہما فرض عین والجہاد فرض کفایة (شامي کتاب الحظر والإباحة، فصل في البیع: 6/408)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1670/431277
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سورہ فاتحہ و سورہ پڑھنے کے بعد ہی رکوع کرنا ضروری ہے، اگر امام مذکور نے سورہ پڑھے بغیر رکوع کرلیا ، اور پھر واپس آکراس نے سورہ پڑھی اور رکوع کیا تو یہ دوسرا رکوع ہی نماز کا رکن ہوگا اور اس میں شرکت کرنے والے رکعت پانے والے ہوں گے۔ اس لئے جن لوگوں نے دوسری رکعت کے دوسرے رکوع میں شرکت کی وہ دوسری رکعت کے پانے والے ہوئے، ان مسبوقین کو صرف ایک رکعت امام کے سلام کے بعد ادا کرنی ہوگی۔ البتہ اگر مام نے سورہ فاتحہ وسورہ پڑھنے کے بعد رکوع کیا اور پھر شبہہ کی بناء پر کھڑاہوکر سورہ پڑھی اور رکوع کیا تو یہ دوسرا رکوع زائد ہے، اس میں شرکت کرنے والا رکوع کا پانےوالا شمار نہیں ہوگا۔ اس کو دوسری رکعت کی بھی قضا کرنی ہوگی۔
ولو قرأ الفاتحة ثم ركع ساهيا ثم رفع رأسه فقرأ سورة ثم ركع فاقتدى به رجل في الركوع الثاني فهو مدرك للركعة؛ لأن المعتد به هو الركوع الثاني، والأول حصل قبل أوانه؛ لأن الركوع ما كان بعد قراءة الفاتحة والسورة، ولو كان قرأ الفاتحة والسورة ثم ظن بعدما رفع رأسه من الركوع أنه لم يقرأ فقرأ، وركع الثاني فأدرك رجل معه الركوع الثاني لم يكن مدركا للركعة؛ لأن المعتد به هو الركوع الأول فإنه حصل في أوانه والركوع الثاني وقع مكررا فلا يكون معتدا به (المبسوط للسرخسی، جھرالامام فیما یخافت فیہ او خافت فیما یجھر2/113)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Death / Inheritance & Will
Ref. No. 1860/43-1715
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
In father’s property after his death, the son gets double share and daughter gets single share. So, if the legal heirs are only one son and four daughters, then the entire property left by father shall be divided into six shares, out of which two shares shall go to the son, and each daughter will get one share.
لقوله تعالى: يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ . [النساء : 11
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
اسلامی عقائد
Ref. No. 2290/44-3454
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نبی کے لغوی معنی 'بلند مرتبہ' کے ہیں،اس لئے لغوی اعتبار سے درست ہے، تاہم اس لفظ کے بولتے وقت اصطلاحی معنی کی طرف ذہن جاتاہے اس لئے بہتر نہیں ہے۔
اسی طرح بھگوان کے معنی ہیں 'خوش قسمتی والا'۔ اس اعتبار سےیہ نام درست ہے، نیز غیروں کے یہاں بھگوان کاجو مفہوم ہو، ضروری نہیں ہے کہ لفظ 'اللہ' اور 'رب' کا جومفہوم ہمارے یہاں ہوتاہے وہی ان کےن یہاں بھی ہو، اس لئے اس لفظ سے اسکو پکارنے میں حرج نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وبا اللّٰہ التوفیق:قیامت برحق ہے اس کا منکر کافر ہے {اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْھَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّاج وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ قف أَدْخِلُوْٓا أٰلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّا لْعَذَابِہ۴۶}(۱) اور آواگون کا عقیدہ بھی کفریہ عقیدہ ہے، اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو ایسے عقیدوں سے پرہیز کرنے کی توفیق عطا فرمائے مسلمانوں کو چاہئے کہ ایسے غلط عقیدے اور کفریہ عقائد رکھنے والے حضرات کو سمجھائیں کہ وہ اس سے باز آجائیں، باز نہ آنے پر ان سے ربط ختم کردیاجائے تاکہ ان کو عبرت ہوجائے۔(۲)
۱) {إِلَیْہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعًا ط وَعْدَ اللّٰہِ حَقًا ط إِنَّہٗ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ لِیَجْزِيَ الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ بِالْقِسْطِ ط وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَھُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِیْمٍ وَّ عَذَابٌ أَلِیمٌ م بِمَا کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ ہ۴ } (سورۃ یونس: ۴)
{ثُمَّ إِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ تُبْعَثُوْنَ ہ۱۶} (سورۃ المؤمن: ۱۶)
والحساب والمیزان والجنۃ والنار حق کلہ وکذا الصراط والحوض وغیرہما من مواقف القیامۃ۔ (أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ- شرح الفقہ الأکبر، ’’بحث في أن اللّٰہ تعالیٰ واحد لا من طریق العدد‘‘: ص: ۳۰)
من أنکر القیامۃ أو الجنۃ أو النار أو المیزان أو الصراط أو الصحائف المکتوبۃ فیہا أعمال العباد یکفر، ولو أنکر البعث فکذلک۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجباب الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بیوم القیامۃ وما فیہا: ج ۲، ص: ۲۸۵)
إذا أنکر آیۃ من القرآن أواستخف بالقرآن أو بالمسجد، أو بنحوہ مما یعظم في الشرع یکفر۔ (عبد الرحمن بن محمد بن سلیمان، مجمع الأنھر في شرح ملتقی الأبحر، ’’کتاب السیر والجہاد: ثم إن ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص241
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2347/44-3529
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ صورت میں عورت کےہاتھ پاؤں کے نماز ی کے کسی عضو سے مس ہوجانے سے نماز خراب نہیں ہوگی۔
حضرت عائشہ فرماتی ہیں: میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لیٹی ہوتی تھی اور میرے پیر آپ ﷺ کے قبلہ کی جانب ہوتے تھے، پس جب آپ ﷺ سجدہ کرتے تو میرے پیر کو دبا دیتے میں پیر سمیٹ لیتی، پھر جب آپ ﷺ کھڑے ہو جاتے تو میں پیر پھیلا دیتی اور ان ایام میں گھروں میں چراغ نہیں ہوتے تھے۔ (موطا مالک باب صلوٰۃ اللیل)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ایک رات کو میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بستر پر نہیں پایا، تو میں نے ٹٹولا تو میرے ہاتھ آپ ﷺ کے تلووں پر لگے، آپ ﷺ سجدہ کر رہے تھے اور آپ ﷺ کے پاؤں مبارک کھڑے تھے۔ (صحیح مسلم باب ما یقال فی الرکوع السجود)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:سنت کی دو قسمیں ہیں، موکدہ اور غیر موکدہ، اول کے اصرار کے ساتھ ترک پر گناہ ہے اور دوسرے پر نہیں(۲)۔ اگرچہ غیرموکدہ میں بھی اتباع سنت ہی میں خیر ہے اور اسی کو اپنانا چاہئے۔
(۲) السنۃ سنتان: سنۃ أخذہا ہدی وترکہا ضلالۃ: وسنۃ أخذہا حسن وترکہا لا بأس بہ۔ (السرخسي، أصول السرخسي: ج۱، ص: ۴۱۱)… وذکر في المبسوط قال مکحول: السنۃ سنتان: سنۃ أخذہا ہدی وترکہا ضلالۃ، وسنۃ أخذہا حسن وترکہا لا بأس بہ، السنن التی لم یواظب علیہا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أخذہا ہدی وترکھا ضلالۃ کالأذان والإقامۃ وصلاۃ العید۔ (البزدوي، کشف الأسرار شرح أصول البزدوي، ’’أقسام العزیمۃ‘‘: ج ۳، ص: ۳۱۰)
فتاوی دارلعلوم وقف دیوبند ج2ص95
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:فرقۂ باطلہ کی تردید اہم فریضہ ہے، جسے اہل حق ہر دور میں انجام دیتے رہے۔ قادیانیت ایک باطل فرقے کا نام ہے اس کا رد بھی اہم فریضہ ہے، ان کے عقائد اور دجل وفریب کو واضح کرکے لوگوں کو گمراہی سے بچانے کی کوشش ایک ممدوح سعی ہے، اس سلسلہ میں اکابر علماء کی بہت کتابیں طبع ہو کر منظر عام پر آچکی ہیں، مذکور ہ فی السوال طریقہ بھی اس کے لئے بہتر ہے؛ لیکن تجربہ کار علماء کی نگرانی میں ہو، اسلام سچا اور کامل مذہب ہے اس کی ترجمانی اور اس کے خلاف اور باطل کے رد کے لئے علم وسلیقہ بھی ضروری ہے۔(۱) {وَلَا تَرْکَنُوْٓا إِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُلا} (۲)
(۱) حضرات اکابر علماء دیوبند سے قادیانیوں کے خلاف باضابطہ کتابیں لکھنا ثابت ہے؛ چنانچہ مفتی کفایت اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ’’البرہان‘‘ نامی مستقل رسالہ: ۱۹۰۳؍ میں مدرسہ عین العلم شاہجہاں پور سے جاری کیا اور اپنے شاگردوں کی ایک کھیپ اس میدان میں کام کرنے کے لیے تیار کی، اسی طرح حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانیؒ صاحب نے ختم نبوت نامی ایک کتاب لکھ دی ہے، نیز علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے تو باقاعدہ ختم نبوت پر ’’اکفار الملحدین‘‘ کے نام سے کتاب بھی لکھی اور عدالت میں جاکر مقدمہ بھی لڑے ہیں۔
(۲) سورۃ ہود: ۱۱۳۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص290
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 2654/45-4011
Answer:
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Private meeting (khalwate Sahiha) has the same ruling as intercourse. Therefore, when the husband gave triple talaq after khalwat-e-Sahiha, they will be considered as three Mugallaza talaq and she will be haram for her husband and she cannot remarry the same person. The woman has to complete her iddat (three menstruations). The woman is free to marry another man after completing three periods of Iddat. It is forbidden to marry a person temporarily for a few days, so one should marry a suitable person after careful consideration.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
طلاق و تفریق
Ref. No. 2694/45-4157
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صرف لفظ طلا‘ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، کیونکہ طلاق کا مادہ ط ل ق کا پورا تلفظ ضروری ہے۔ اگر دو الفاظ ادا کئے تو طلاق نہ ہوگی، ترخیم کا قاعدہ یہاں جاری نہ ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند