تجارت و ملازمت

Ref. No. 40/797

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ علماء نے اس صورت کو ناجائز لکھا ہے۔ اس لئے ان کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ ڈپازٹ کی صورت ختم کرکے کچھ کرایہ طے کرلیں۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 40/9752

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وہ تمام کتابیں یا ان کی قیمت میت کے اولیاء کو دیدیں، انشاء اللہ آپ فارغ الذمہ ہوجائیں گے۔ اور اگر اولیاء میں سے بھی کوئی نہ ہو تووہ  کتابیں  یا ا ن کی قیمت کسی غریب کو صدقہ کردیں۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1144/42-369

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زنا میں مبتلا شخص کو اس عظیم گناہ سے روکنے کے لئے حکمت و تدبر سے سمجھائیں ۔ ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلھم بالتی ھی احسن۔ والدین کے ادب کو بھی ملحوظ رکھیں۔ بے ادبی وبدتمیزی سے پرہیز کریں۔ اللہ تعالی نے حضرت موسی  وحضرت ہارون علیھما السلام کو حکم فرمایا : وقولا لہ قولا لینا لعلہ یتذکر او یخشی۔ گناہ سے نفرت کریں گنہگار سے نہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1244/42-564

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لوہا اگرپیسے سے خریدا گیا ہے اور سامنے موجود ہے اور اسی کی قیمت بتائی گئی ہے جبکہ یہ نہیں معلوم کہ اس میں صحیح وزن کتنا ہوگا تو چونکہ اس میں کسی قسم کے نزاع کا خطرہ نہیں ہے ، اس لئے اس طرح لوہا خریدنے اور بیچنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1370/42-782

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس طرح کے الفاظ عموما تعجب یا عاجزی کے اظہار کے لئے بولے جاتے ہیں، اس لئے اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔ اور غیرمسلموں کی کالی مائی وغیرہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ تاہم ایسے کلمات کے استعمال سے بچنا چاہئے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

خوردونوش

Ref. No. 1600/43-1149

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مذکورہ بالا صورت جوا وقمار اور دیگر بہت سے مفاسد  پر مشتمل ہونے کی وجہ سے حرام و ناجائز ہے۔  اس میں گرچہ اولا رضامندی ہے مگر قرعہ اندازی کرتے وقت ہرایک کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ میرا نام نہ آئے اور جب نام نکلتاہے تو اس کو اپنے عہد کی بناء پر بادل ناخواستہ کھانا کھلانا پڑتاہے، نیز بعض کی دعوت میں کم خرچ ہوگا اور بعض میں زیادہ تو اس سے آپسی نفرت جنم لے گی  اور اس طرح  اختلافات بڑھیں گےاور نتیجہ اس وقتی اور جزوی فائدہ سے کئی گنا زیادہ خطرناک ہوگا اس لئے اس صورت کو فوری طور پر بند کردینا ضروری ہے۔ 

 ﴿ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ﴾ (سورۃ المائدۃ،پارہ07، آیت 90)

القمارمشتق من القمر الذی یزداد وینقص سمی القمار قماراً لا ن کل واحد من المقامرین ممن یجوز ان یذهب مالہ الی صاحبہ ویستفیدمال صاحبہ فیزداد مال کل واحد منهما مرۃ وینتقص اخری فاذا کان المال مشروطاً من الجانبین کان قماراً والقمار حرام ولان فیہ تعلیق تملیک المال بالخطر وانہ لا یجوز(المحیط البرهانی فی الفقہ النعمانی ،جلد5،صفحہ323،دارالکتب العلمیۃ، بیروت) و لاخلاف بین اھل العلم فی تحریم القمار (احکام القرآن للجصاص،جلد2،صفحہ11،داراحیاء التراث العربی ،بیروت) الَا لا تَظْلِموا, أَلَا لا يَحِلُّ مالُ امرِىءٍ إلا بِطِيبِ نفسٍ منه (مشکوۃ المصابیح)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1769/43-1501

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر آپ شرعی معذورہیں تو وضو نماز کا وقت شروع ہوجانے کے بعد کریں۔ معذور کا وضو  ایک فرض نماز کا وقت  نکلنے  سے ختم ہو جاتا ہے، اس کے لیے اگلی نماز ادا کرنے کے لیے نیا وضو کرنا ضروری  ہوتاہے، مغرب میں وقت دیکھ کر  کہ جوں ہی    غروب آفتاب ہو وضو کرلیں، عام طور پر اذان دو تین منٹ بعد ہوتی ہے۔اس طرح  آپ کا وضو وقت کے اندر ہوگا اور نماز بھی جماعت سے مل جائے گی۔

و صاحب عذر من به سلس بول لايمكنه إمساكه أو استطلاق بطن أو انفلات ريح... إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة بأن لايجد في جميع وقتها زمناً يتوضؤ و يصلي فيه خالياً عن الحدث ولو حكماً؛ لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم". (شامی، باب الحيض: مطلب في أحكام المعذور ٣٠٥/١ ط سعيد)

المستحاضة ومن به سلس البول أو استطلاق البطن أو انفلات الريح أو رعاف دائم أو جرح لا يرقأ يتوضئون لوقت كل صلاة ويصلون بذلك الوضوء في الوقت ما شاءوا من الفرائض والنوافل هكذا في البحر الرائق. (الھندیۃ الفصل الرابع في أحكام الحيض والنفاس والاستحاضة1/41)

وإلى ثمرة الخلاف أشار بقوله (فالمتوضئ وقت الفجر لا يصلي به بعد الطلوع) عند علمائنا الثلاثة لانتفاض طهارته بالخروج (إلا عند زفر والمتوضئ بعد الطلوع) قبل الزوال ولو لعيد على الصحيح (يصلي به الظهر) عند الطرفين لعدم خروج وقت الفرض فلا ينتقض بخروج وقت الطهر (خلافا له) أي لزفر لوجود دخول الوقت ولأبي يوسف لوجود أحد الناقضين، وهو دخول الوقت. (مجمع الانھر، باب الانجاس 1/57)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 1719/43-1684

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حتی الامکان اس رشتہ کو نباہنے کی کوشش کرے، تاہم اگر شوہر وبیوی کے درمیان  اتفاق  نہ ہوسکے ، اور شوہر کسی طرح اس کے ساتھ رہنے کے لئے تیار نہیں ہے، اور مقاصد نکاح فوت ہوتے ہوں تو شوہر کو شرعاً اختیار ہے کہ اس کو  ایک طلاق رجعی  دے دےتاکہ عورت  عدت کے بعد کسی ایسے شخص سے نکاح کرلے جو پورے حقوق ادا کرسکے ۔

اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۪-فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍؕ-وَ لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْــٴًـا اِلَّاۤ اَنْ یَّخَافَاۤ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِؕ-فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِۙ-فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖؕ-تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَاۚ-وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ (سورۃ البقرۃ ۲۲۹)

الا اذا خافا ان لا یقیما حدود اللہ فلا باس ان یتفرقا (الدر المختار مع الشامی: 4/144)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 2141/44-2201

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ محض وہم اور وسوسہ کی وجہ سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ بیوی کی طرف صراحت سے کوئی نسبت نہیں پائی گئی۔ اس لئے صرف چھوڑتاہوں لکھنے سے نکاح پر کوئی فرق نہیں آیا۔ وسوسہ کا شکار نہ ہوں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ آیت سورہ التوبہ کی ہے اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے منافقین کو دوہری سزا دینے سے متعلق ارشاد فرمایا اور یہ دوہری سزا قبل آخرت ہوگی، جیساکہ بحر محیط میں ہے: وہ دوہرا عذاب (دنیا میں) قتل اور عذابِ قبر ہے یا فضیحت ورسوائی اور عذابِ قبر ہے۔ ’’فأکثر الناس علی أن العذاب الثاني ہو عذاب القبر وأما المرّۃ الأولیٰ، فقال ابن عباس -رضي اللّٰہ عنہ- في الأشہر عنہ: ہو فضیحتہم ووصمہم بالنفاق‘‘(۱)
منافقین کے لئے ایک عذاب تو اس دنیا میں مسلمانوں کے ہاتھوں ان کا قتل اور ان کی رسوائی ہے اور دوسرا عذاب عذابِ قبر ہے، یعنی برزخ میں قیامت سے قبل سزا ملے گی۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ روح المعانی میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’قد فضح اللّٰہ تعالیٰ المنافقین الیوم فہذا العذاب الأول والعذاب الثاني عذاب القبر‘‘(۲) حاشیہ جلالین میں لکھا ہے: دنیا میں فضیحت ورسوائی یا قتل اور قبر میں عذاب تو یہ ایک بار عذاب دنیا میں ہوا اور ایک بار قبر میں ’’بالفضیحۃ أو القتل في الدنیا وعذاب القبر مرۃ في الدنیا ومرۃ في القبر‘‘ (۳) تفسیر خازن میں مذکور ہے: ’’سنعذبہم مرتین اختلف المفسرون في العذاب الأول مع اتفاقہم علی أن العذاب الثاني ہو عذاب القبر بدلیل قولہ (ثم یردون إلی عذاب عظیم) وہو عذاب النار في الآخرۃ فثبت بہذا أنہ سبحانہ وتعالیٰ یعذب المنافقین ثلاث مرات مرۃ في الدنیا ومرۃ في القبر، ومرۃ في الآخرۃ‘‘(۴)
مفسرین کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ پہلے عذاب سے کیا مراد ہے؟ جب کہ اس بات پر سب متفق ہیں کہ دوسرے عذاب سے مراد عذاب قبر ہے۔
امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں لکھا: ’’قال الحسن والقتادۃ: عذاب الدنیا وعذاب القبر قال ابن زید: الأول بالمصائب في أموالہم وأولادہم والثاني عذاب القبر‘‘ حسن اور قتادہ رحمہما اللہ اس سے دنیا کا عذاب اور قبر کا عذاب مراد لیتے ہیں، جبکہ ابن زید کہتے ہیں: پہلا عذاب ان کے مالوں اور اولادوں کو نقصان پہونچنا اور دوسرا عذاب قبر کا ہے۔(۵) مفتی محمد شفیع عثمانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر معارف القرآن میں اس آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: آیت کریمہ میں ایسے منافقین کا ذکرہے جن کا نفاق انتہائی کمال پر ہونے کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اب تک مخفی تھا۔ اس آیت میں ایسے شدید منافقین پر آخرت سے قبل دو عذاب کا ذکر آیا ہے۔ ایک دنیا میں ہر وقت نفاق چھپانے کا ذکر اور مسلمانوں سے بغض وعداوت رکھنے کے باوجود ظاہر میں مسلمانوں کی تعظیم و تکریم، اور دوسرا عذابِ قبر مراد ہے۔(۱)
خلاصہ کلام آیت کریمہ میں دو مرتبہ عذاب سے مراد آخرت سے قبل دنیا میں قتل یا رسوائی مراد ہے اور مرنے کے بعد عالم برزخ یعنی قبر میں عذابِ قبر مراد ہے۔

(۱) اختلف الناس في تفسیر القرآن ہل یجوز لکل أحد الخوض فیہ؟ فقال قوم: لا یجوز لأحد أن یتعاطی تفسیر شيء من القرآن وإن کان عالماً أدیباً متسما في معرفۃ الأدلۃ والفقہ والنحو والأخبار والآثارالخ۔
من قال: یجوز تفسیرھ لمن کان جامعا للعلوم التي یحتاج المفسر إلیہا وہي خمسۃ عشر علماً:
أحدہا: اللغۃ۔ الثاني: النحو۔ الثالث: التصریف۔ الرابع: الاشتقاق۔ الخامس، والسادس، والسابع: المعاني والبیان والبدیع۔ الثامن: علم القراء ات۔ التاسع: أصول الدین۔ العاشر: أصول الفقہ۔ الحادي عشر: أسباب النزول والمنسوخ۔ الثالث: عشر: الفقہ۔ الرابع عشر: الأحادیث۔ المبینۃ۔ الخامس عشر: الموہبۃ۔ (عبد الرحمن أبي بکر، الإتقان في علوم القرآن، ’’النوع الثامن والسبعون: في معرفۃ مشروط الآداب‘‘: ج ۴، ص: ۲۱۳)

(۱) أبو حبان أندلسي، بحر محیط، ’’سورۃ التوبۃ: ۱۰۱‘‘: ج۵، ص: ۹۸۔
(۲) علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ التوبۃ: ۱۰۱‘‘: ج۷، ص: ۶۱۔
(۳) جلال الدین سیوطي، تفسیر جلالین، ’’سورۃ التوبۃ: ۱۰۱‘‘: ص: ۱۶۶۔
(۴) علاؤ الدین علي بن محمد، تفسیر خازن، ’’سورۃ التوبۃ: ۱۰۱‘‘: ج۲، ص: ۴۰۰۔
(۵) أبو عبد اللّٰہ القرطبي، تفسیر قرطبی، ’’سورۃ التوبۃ: ۱۰۱‘‘: ج۸، ص: ۱۵۳۔
(۱) مفتي محمد شفیع عثمانيؒ، معارف القرآن ،’’سورۃ التوبۃ: ۱۰۱‘‘، ج۴، ص ۴۵۱۔


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص47