مساجد و مدارس

Ref. No. 41/874

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حلال ہے، تاہم اگر کسی مفسدہ کا اندیشہ ہو تو لینے سے گریز کرنا چاہئے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1671/43-1341

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صفوں کی درستگی کا مسئلہ بہت اہم ہے، ، حدیث شریف میں صفوں کی درستگی پر بہت زور دیاگیا ہے اور اس میں کوتاہی پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ مسجد میں مقتدی حضرات صف میں کب کھڑے ہوں، اس سلسلہ میں مختلف طریقے ثابت ہیں:

 (1) امام جب اپنے کمرے سے باہر آئے تو امام کو دیکھتے ہی مقتدی حضرات کھڑے ہوجائیں، اور صفیں درست کرلیں،۔  (2) امام  جس صف سے گزرے اس صف کے مقتدی حضرات کھڑے ہوتے ہیں اور صفیں درست کرتے رہیں۔ (3) مؤذن اقامت شروع کرے اور مقتدی حضرات اپنی صفیں درست کرلیں اور پھر نماز شروع کریں۔ اول الذکر دونوں طریقے اسی وقت قابل عمل ہیں جبکہ امام اپنے کمرے سے نکلے اور مسجد میں پہلے سے موجود نہ ہو۔  لیکن اگر امام پہلے سے مسجد میں موجود ہو جیسا کہ آج کل عموما ہوتاہے تو پھر تیسرا طریقہ اختیار کریں کہ اقامت کے شروع سے ہی لوگ کھڑے ہوکر صفیں درست کرنا شروع کردیں تاکہ اقامت ختم ہوتے ہی جب امام نماز شروع کرے تو تکبیر اولی کے ساتھ مقتدی نماز شروع کرسکیں ۔ اگر لوگ حی علی الصلوۃ تک اپنی جگہ بیٹھے رہیں گے  تو اما م کے نماز شروع کرنے سے پہلے صفیں درست نہیں کرسکیں گے۔ جن کتابوں میں " حی علی الصلوۃ "پر کھڑے ہونے کی بات لکھی ہے اس کا مطلب بھی یہی ہے  کہ حی علی الصلوۃ کے بعد بیٹھے رہنا درست نہیں ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حی علی الصلوہ سے پہلے کھڑاا ہونا درست نہیں ہے۔ (کفایۃ المفتی ، باب مایتعلق بالاقامۃ ، 3/526 زکریا دیوبند) وقال الطحاوی تحت قولہ : والقیام لامام و مؤتم والظاہر انہ احتراز عن التاخیر لاالتقدیم حتی لو قام اول الاقامۃ  لاباس بہ۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی الدر ، باب صفۃ الصلوۃ 1/215، بیروت) (شامی، آداب الصلوۃ 2/177 زکریا دیوبند)   

حَدَّثَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّ النَّاسَ، " كَانُوا سَاعَةَ يَقُولُ الْمُؤَذِّنُ: اللَّهُ أَكْبَرُ يُقِيمُ الصَّلَاةَ، وَيَقُومُ النَّاسُ لِلصَّلَاةِ، وَلَا يَأْتِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [ص:120] مَقَامَهُ حَتَّى تَعْتَدِلَ الصُّفُوفُ " (المراسیل لابی داؤد، جامع الصلاۃ 1/119) (مصنف  عبدالرزاق ، باب قیام الناس عندالاقامۃ  1/507)  (فتح الباری، باب لایقوم الی الصلوۃ مستعجلا 2/120)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 219/44-2339

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مریض نے جو دوا آرڈر پر بنوائی ہے اور وہ دوا بن کر تیار ہوگئی تو اب مریض کو اختیار نہیں کہ وہ دوا لینے سے انکار کردے، اس لئے جب دوا بن کر تیار ہوگئی تو وہ دوا مریض کی ملک ہوگئی۔ کمپنی نے دوا بھیجی تو کمپنی نے اپنی ذمہ داری پوری کردی، اب اگر دوا پہنچنے سے پہل؛ے میرض فوت ہوگیا تو چونکہ کمپنی نے اپنا کام پورا کردیاتھا اس لئے وہ پوری رقم کی مستحق ہے۔ ہیلتھ کیئر کمیشن کے قانون پر دستخط کرنے کی بناء پر اس کی پاسداری آپ پر لازم ہوگی، فقہ کا قاعدہ ہے: :"الناس عند شروطہم"۔ لہذا مریض کے اہل خانہ اس دوا کو وصول کرکے کسی سے بیچ سکتے ہیں۔

وعن ابی یوسف انہ لاخیار لہما ، اما الصانع فلما ذکرنا، واما المستصنع فلان فی اثبات الخیار لہ اضرارا بالصانع لانہ لایشتریہ غیرہ بمثلہ  (ہدایہ ج3ص107 ، اشرفی بکڈپو دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 2288/44-3442

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شرکیہ کام کرنے یا شرکیہ کلمہ کہنے سے یقینا نکاح ٹوٹ جاتاہے۔ اور آدمی جتنی بار اور جب جب بھی شرک کرے گا اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا، اور اس پر تجدید ایمان اور تجدید نکاح لازم ہوگا۔ البتہ یہ نکاح ٹوٹنا طلاق کے حکم میں نہیں ہوگا بلکہ فسخ نکاح کے حکم میں ہوگا، اس لئے تین بار یا پانچ بار تجدید نکاح کرنے سے اس کی بیوی پر تین طلاق واقع نہیں ہوگی ۔

وارتداد أحدہما أي الزوجین فسخ فلا ینقص عدداً عاجل بلا قضاء الخ (درمختار مع الشامی: ۴/۳۶۶، ط:زکریا، والحیة الناجزة: ۲۰۸ تا ۲۱۲ جدید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ شخص کو اسلام کی اہمیت بتلائی جائے اور اس کو اگر شک و شبہ ہے تو اس کو دور کرنے کی کوشش کی جائے اور اس نیت سے اس کو کھانا وغیرہ دیا جائے عجیب نہیں کہ وہ پھر سے مسلمان ہو جائے۔ اگر وہ کفر کی حالت میں مر جائے تو پھر اس کا مال ورثہ کے درمیان تقسیم کیا جائے گا اور اگروہ اسی حالت میں مرے تو کافروں کے ہی حوالہ کیا جائے؛ لیکن پہلے اس کی پوری صورت حال لکھ کر معلوم کرلیا جائے کہ وہ واقعۃً خارج از اسلام ہے یا نہیں؟(۱) (۱) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من بدل دینہ فاقتلوہ۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’باب المرتد عن دینہ‘‘: ج ۲، ص: ۱۸۲، رقم: ۲۵۳۵) ومنہا أنہ یستحب أن یستتاب ویعرض علیہ الإسلام لاحتمال أن یسلم، لکن لا یجب؛ لأن الدعوۃ قد بلغتہ فإن أسلم فمرحبا وأہلا بالإسلام، وإن أبی نظر الإمام في ذلک فإن طمع في توبتہ، أو سأل ہو التأجیل أجلہ ثلاثۃ أیام وإن لم یطمع في توبتہ، ولم یسأل ہو التأجیل قتلہ من ساعتہ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب السیر: فصل في، بیان أحکام المرتدین‘‘: ج ۶، ص: ۱۱۸) فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص242

مساجد و مدارس

Ref. No. 2348/44-3528

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔     متولی صاحب کی ذمہ داری ہے کہ نمازیوں کی تکلیف دور کریں، اور مسجد کے سامان کی حفاظت کریں، جو چیز کام کی نہ ہو اس کو بیچ کر دوسری ضرورت  کی چیزیں خرید لیں۔ چند لوگ بیٹھ کر اگر ان کو سمجھائیں تو شاید ان کے پاس اگر کوئی وجہ ہو تو اس کی روشنی میں مسئلہ کا حل نکالا جاسکے۔   متولی صاحب کے پاس  اے سی نہ چلانے کی کوئی وجہ تو  ہوگی۔ اتنی سی بات کی وجہ سے متولی کو تولیت سے ہٹانے کی بات کرنا مناسب نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Slaughtering / Qurbani & Aqeeqah

 Ref. No. 2382/44-3601

In the name of Allah the most Gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

As per the Islamic Sharia, the sacrifice of a nursing animal is permissible, but if the child’s life is at risk, it is better to avoid slaughtering its mother.

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَاعَةٍ لَايَخْرُجُ فِيهَا، وَلايَلْقَاهُ فِيهَا أَحَدٌ، فَأَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ: مَا جَاءَ بِكَ يَا أَبَا بَكْرٍ؟ فَقَالَ: خَرَجْتُ أَلْقَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْظُرُ إِلَى وَجْهِهِ، وَالتَّسْلِيمَ عَلَيْهِ، فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ جَاءَ عُمَرُ، فَقَالَ: مَا جَاءَ بِكَ يَا عُمَرُ؟ قَالَ: الْجُوعُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَأَنَا قَدْ وَجَدْتُ بَعْضَ ذَلِكَ، فَانْطَلَقُوا إِلَى مَنْزِلِ أَبِي الْهَيْثَمِ بْنِ التَّيْهَانِ الأَنْصَارِيِّ، وَكَانَ رَجُلا كَثِيرَ النَّخْلِ وَالشَّاءِ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ خَدَمٌ، فَلَمْ يَجِدُوهُ، فَقَالُوا لامْرَأَتِهِ: أَيْنَ صَاحِبُكِ؟ فَقَالَتِ: انْطَلَقَ يَسْتَعْذِبُ لَنَا الْمَاءَ، فَلَمْ يَلْبَثُوا أَنْ جَاءَ أَبُو الْهَيْثَمِ بِقِرْبَةٍ يَزْعَبُهَا، فَوَضَعَهَا، ثُمَّ جَاءَ يَلْتَزِمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيُفَدِّيهِ بِأَبِيهِ وَأُمِّهِ، ثُمَّ انْطَلَقَ بِهِمْ إِلَى حَدِيقَتِهِ، فَبَسَطَ لَهُمْ بِسَاطًا، ثُمَّ انْطَلَقَ إِلَى نَخْلَةٍ، فَجَاءَ بِقِنْوٍ، فَوَضَعَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَفَلا تَنَقَّيْتَ لَنَا مِنْ رُطَبِهِ؟ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَرَدْتُ أَنْ تَخْبُرُوا أَوْ تَخَيَّرُوا مِنْ رُطَبِهِ وَبُسْرِهِ، فَأَكَلُوا وَشَرِبُوا مِنْ ذَلِكَ الْمَاءِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَذَا وَالَّذِي نَفْسِي فِي يَدِهِ النَّعِيمُ الَّذِي تُسْأَلُونَ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: ظِلٌّ بَارِدٌ، وَرُطَبٌ طَيَّبٌ، وَمَاءٌ بَارِدٌ، فانْطَلَقَ أَبُو الْهَيْثَمِ لِيَصْنَعَ لَهُمْ طَعَامًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَاتَذْبَحَنَّ ذَاتَ دَرٍّ، فَذَبَحَ لَهُمْ عَنَاقًا أَوْ جَدْيًا، فَأَتَاهُمْ بِهَا، فَأَكَلُوا، ... الحديث. (شرح السنة للبغوي، كتاب البر والصلة،بَاب المشورة وَأَن المستشار مؤتمن،13/189-190،رقم الحديث: 3612، ط: المكتب الإسلامي - دمشق، بيروت )

19192 -أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ الْأَرْدَسْتَانِيُّ، أنبأ أَبُو نَصْرٍ الْعِرَاقِيُّ، ثنا سُفْيَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، ثنا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ، ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ الْوَلِيدِ، ثنا سُفْيَانُ، ثنا زُهَيْرُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ مُغِيرَةَ بْنِ حَذْفٍ الْعَبْسِيِّ، قَالَ: كُنَّا مَعَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ بِالرَّحْبَةِ، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ هَمْدَانَ يَسُوقُ بَقَرَةً مَعَهَا وَلَدُهَا، فَقَالَ: إِنِّي اشْتَرَيْتُهَا أُضَحِّي بِهَا وَإِنَّهَا وَلَدَتْ. قَالَ: فَلَاتَشْرَبْ مِنْ لَبَنِهَا إِلَّا فَضْلًا عَنْ وَلَدِهَا، فَإِذَا كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ فَانْحَرْهَا هِيَ وَوَلَدَهَا عَنْ سَبْعَةٍ". (سنن الكبري للبيهقي، كتاب الضحايا، بَابُ مَا جَاءَ فِي وَلَدِ الْأُضْحِيَّةِ وَلَبَنِهَا، 9 / 485، ط: دار الكتب العلمية)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

متفرقات

Ref. No. 2433/45-3689

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   والد نے اپنی بیوی یا اپنی اولاد میں سے کسی کواپنی زندگی میں  کچھ دے کر ان کو  مالک بنادیا  تووہ خاص اس کا ہی ہے، دوسروں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ اور اگر والد نے صرف وعدہ کیا تھا یا صرف قانونی طور پر کوئی زمین یا مکان کسی کے نام رجسٹر کردیا تھا لیکن مالک نہیں بنایا تھا تو ان تمام جائداد کو اور والد کے مرنے کے وقت جو کچھ ان کی ملکیت میں تھا سب کو ایک ساتھ ترکہ میں شامل کرکے وراثت کی تقسیم عمل میں آئے گی۔  ترکہ کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ مرحوم کی کل جائداد میں سے بیوی کو آٹھواں  حصہ دے کر باقی سات حصوں کو اولاد میں اس طرح تقسیم کیاجائے  کہ لڑکوں کو دوہرا اور لڑکیوں کو اکہرا حصہ دیاجائے۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ روایت سنن ابن ماجہ میں ہے اور سند کے اعتبار سے ضعیف ہے۔ البتہ اس سلسلے میں زیادہ صحیح روایت یہ ہے کہ مسجد نبوی میں نماز کا ثواب ایک ہزار نماز کے برابر ہے۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں: ’’صلاۃ في مسجدي ہذا أفضل من ألف صلاۃ في غیرہ من المساجد إلا المسجد الحرام، وإسنادہ علی شرط الشیخین‘‘(۱)

(۱) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب إمامۃ الصلاۃ: باب ماجاء في الصلوۃ في المسجد الجامع‘‘: ص: ۱۰۲، رقم: ۱۴۱۳)
ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب المساجد ومواضع الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۶۶، رقم: ۶۹۲)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص96

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2585/45-4115

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   شیئر مارکیٹ میں پیسہ لگانے سے پہلے متعلقہ لوگوں سے معلوم کرنا چاہئے کہ وہ سرمایہ کاری کے کس ضابطہ کو اختیار کرتے ہیں، اور شرعی طور پر اس کی حیثیت کیا ہے۔ کسی  قریبی ماہرمفتی کے سامنے بالمشافہ اس کو سمجھ لیں یا اپنا سوال تفصیل سے لکھ کر دوبارہ ارسال کریں ۔دوسرا سوال بھی واضح نہیں ہے تاہم   اگر کسی صحیح کمپنی میں آپ نے پیسہ لگایا ہے تو سالانہ حساب  رکھنا زیادہ بہتر ہوگا اور ہر سال کل مالیت پر واجب زکوۃ کی ادائیگی بھی ضروری ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند