Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
Ref. No. 3006/46-4793
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر سوال میں مذکورہ امور واقعی ہیں تو یقینا یہ امور غیرشرعی ہونے کے ساتھ غیراخلاقی بھی ہیں۔ نیز دعا و تعویذ میں شرکیہ کلمات اور غیراللہ کے نام سے استعانت وغیرہ امور حرام بھی ہیں، اس لئے ایسے عامل سے علاج کرانا جائز نہیں ہے۔
وأما ما کان من الآیات القرآنیۃ والأسماء والصفات الربانیۃ والدعوات المأثورۃ النبویۃ فلا بأس بل یستحب سواء کان تعویذا أو فیہ أو نشرۃ وأما علی لفۃ العبرانیۃ نحوہا فیمتنع لاحتمال الشرک فیہا‘‘ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’الفصل الثاني: کتاب الطب والرقي‘‘: ج ۷، ص: ۱۸۱، رقم: ۴۵۵۳۔)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2963/46-4761
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میت کی جائداد میں اس کے ورثاء کا حق شرعی طور پر ثابت ہوتاہے، اس میں کسی کے دعوی کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ ہر تقسیم کرنے والے پر لازم ہے کہ وراثت تقسیم کرتے وقت تمام حقداروں کو ان کا حق تقسیم کرے، اور صرف اپنا حق وصول کرے، دیگر ورثہ کا حق چھوڑدے ۔ اگر کوئی جائداد پہلےسے تقسیم شدہ نہیں ہے تو اب جلد از جلد اس کو تقسیم کرلیا جائے۔ صورت مسئولہ میں دادا کو جو پشتینی زمین ورثہ میں ملی ہے اس میں ان کی تمام اولاد کا حق ہے۔ اس لئے جس طرح دو بیٹے وراثت کے مستحق ہیں ان کی چار بیٹیاں بھی وراثت کی مستحق ہیں۔ اب جبکہ دادا کے انتقال کے بعد تمام چچا اور پھوپھی بھی مرچکے ہیں تو ان کا جو حق بنتاہے اس کو ان کی اولاد کے حوالہ کردیاجائے وہ آپس میں شرعی طور پر تقسیم کرلیں گے۔ ان کے نام دنیاوی کاغذات میں گرچہ شامل نہ ہوں مگر اللہ کے یہاں ان کا حق متعین ہے، اس کو دنیا کے رسم و رواج سے ختم نہیں کیاجاسکتاہے۔ اس لئے پھوپھیوں کی اولاد کو ان کا حق دیاجائے اور ان کو بتایاجائے کہ یہ آپ کا شرعی حق ہے، اور مقدار یہ ہے ، اور ان کو اپنے حصے پر قبضہ کا مکمل اختیار دیدیاجائے۔ اس کے باوجود جو ان میں سے لینے سے انکار کرے تو پھر اس کا حصہ دیگر ورثاء میں شرعی طریقہ پر تقسیم کردیاجائے۔ ح جولوگ ناحق دوسروں کا مال کھائیں گے اور وراثت کی تقسیم شریعت کے مطابق نہیں کریں گے ان سے قیامت میں بازپرس ہوگی۔
قال اللہ تعالیٰ:{ يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا (11} [النساء: 11] "عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «ألا من ظلم معاهدا، أو انتقصه، أو كلفه فوق طاقته، أو أخذ منه شيئا بغير طيب نفس، فأنا حجيجه يوم القيامة»" سنن أبي داود (3/ 171) قالَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - : "(وَإِنْ أَخْرَجَتْ الْوَرَثَةُ احَدَهُمْ عَنْ عَرَضٍ أَوْ عَقَارٍ بِمَالٍ، أَوْ عَنْ ذَهَبٍ بِفِضَّةٍ، أَوْ بِالْعَكْسِ) أَيْ عَنْ فِضَّةٍ بِذَهَبٍ (صَحَّ قَلَّ، أَوْ كَثُرَ) يَعْنِي قَلَّ مَا أَعْطَوْهُ أَوْ كَثُرَ؛ لِأَنَّهُ يُحْمَلُ عَلَى الْمُبَادَلَةِ؛ لِأَنَّهُ صُلْحٌ عَنْ عَيْنٍ وَلَا يُمْكِنُ حَمْلُهُ عَلَى الْإِبْرَاءِ إذْ لَا دَيْنَ عَلَيْهِمْ وَلَا يُتَصَوَّرُ الْإِبْرَاءُ عَنْ الْعَيْنِ۔ "تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (5/ 49) وقال العلامۃ الشبلی –رحمہ اللہ- : " قَالَ الْأَتْقَانِيُّ مَعْنَى التَّخَارُجِ أَنْ يُصَالِحَ بَعْضُ الْوَرَثَةِ مِنْ نَصِيبِهِ عَلَى شَيْءٍ فَيَخْرُجُ مِنْ الْبَيْنِ وَإِنَّمَا أَخَّرَ هَذَا الْفَصْلَ لِقِلَّةِ وُقُوعِهِ؛ لِأَنَّ كُلَّ أَحَدٍ لَا يَرْضَى بِأَنْ يَخْرُجَ مِنْ الْبَيْنِ بِشَيْءٍ يَأْخُذُهُ؛ لِأَنَّ الظَّاهِرَ أَنَّ الَّذِي يَأْخُذُهُ دُونَ نَصِيبِهِ. اهـ. (قَوْلُهُ وَلَا يُتَصَوَّرُ الْإِبْرَاءُ) أَيْ؛ لِأَنَّ الْإِبْرَاءَ عَنْ الْأَعْيَانِ غَيْرِ الْمَضْمُونَةِ لَا يَصِحُّ. اهـ " حاشية الشلبي (5/ 49)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حج و عمرہ
Ref. No. 3005/46-4807
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی عورت کا بغیر محرم مرد کےسفر شرعی پر جانا جائز نہیں ہے، وہ عورت جو بغیر محرم مرد کے سفر کرتی ہے، اس کے لئے حدیث میں سخت ممانعت وارد ہے، اس لئے جب تک محرم مرد یعنی عورت کا بھائی ، باپ چچا یا شوہر وغیرہ ساتھ میں نہ ہو اس کا سفر کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لئے ابھی اپنی بیوی کو ماں اور بھائی کے ساتھ ہرگز نہ بھیجیں، جب استطاعت ہوجائے تو اپنی بیوی کے ساتھ خود آپ جائیں یا کسی محرم مرد کو اس کے ساتھ بھیج دیں۔ عمرہ کا سفر ایک مبارک سفر ہے، غیرشرعی طریقہ پر عمرہ پر جانا ہرگز مناسب نہیں ہے۔"عن عبد الله بن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر، تسافر مسيرة ثلاث ليال، إلا ومعها ذو محرم۔ (الصحیح لمسلم، 1/433، کتاب الحج، ط: قدیمی)" عن ابن عباس رضي الله عنهما، أنه: سمع النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: «لا يخلونّ رجل بامرأة، ولا تسافرنّ امرأة إلا ومعها محرم»، فقام رجل فقال: يا رسول الله، اكتتبتُ في غزوة كذا وكذا، وخرجت امرأتي حاجةً، قال: «اذهب فحجّ مع امرأتك»". (صحيح البخاري (4/ 59(ومنها المحرم للمرأة) شابة كانت أو عجوزا إذا كانت بينها وبين مكة مسيرة ثلاثة أيام هكذا في المحيط، وإن كان أقل من ذلك حجت بغير محرم كذا في البدائع (الھندیۃ: (218/1، ط: دار الفکر)
والمحرم في حق المرأۃ شرط، شابۃ کانت أو عجوزا۔ -إلی قولہ-: والمحرم الزوج ومن لا یجوز لہ مناکحتہا علی التأبید برضاع، أو صہریۃ۔(الفتاوی التاتارخانیة: (474/3، ط: زکریا)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Miscellaneous
Ref. No. 3004/46-4786
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
It is permissible for the person whose income is mostly from halal sources to donate to the mosque or to buy some goods to gift to a masjid. However, if someone's earnings are mixed with halal and haram income and it is not possible to distinguish, but he says that I am giving donations from halal earnings, then it is permissible to take his donation for the mosque. If he is participating in the clock with Halal money, no further investigation is required, and his donation is permissible. So the guardians of the mosque may accept the same clock as a donation.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Prayer / Friday & Eidain prayers
Ref. No. 3003/46-4788
In the name of Allah the most Gracious the most merciful
The answer to your question is as follows:
The Imam should live in a dignified manner and sit with dignified people. It is not appropriate for him to associate with people who are wicked in the society. However the prayers performed behind such imam are valid all the way without any doubt.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
تجارت و ملازمت
Ref. No. 3002/46-4787
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال واضح نہیں ہے کہ یہ پانچ لاکھ روپئے کس طرح لگائے گئے ہیں، آیا یہ کاروبار میں شرکت ہے یا منافع میں شرکت ہے۔ اگر منافع میں شرکت ہے کہ جو نفع ہوگا اس میں آٹھ فی صد دیں گے تو یہ درست ہے، اور اگر پانچ لاکھ کا آٹھ فیصد طے کیاگیا ہے تو یہ سودی معاملہ ہے جو حرام ہے۔ شرکت کے معاملہ میں نفع و نقصان دونوں میں شرکت ہوتی ہے، اگر کمپنی بند ہوگی تو مال کے شرکت کے اعتبار سے نقصان میں دونوں شریک ہوں گے، نقصان کی خاص مقدار طے کرنا درست نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3001/46-4789
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کا یہ خواب احکامِ شرع کی ادائیگی اور اتباع سنت میں تساہل کی طرف اشارہ کرتاہے، نیز نفسانی خواہشات کے غلبہ کو بھی بتاتاہے، اس کا حل یہی ہے کہ اپنے بڑے اور چھوٹے گناہوں سے سچی توبہ کرکے اتباع سنت میں اپنی زندگی گزاری جائے۔ دین کے فرائض و واجبات اور سنتوں پر خاص نظر رکھیں تاکہ کوئی چھوٹنے نہ پائے۔ توبہ کے لئے دو رکعت نماز پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے سابقہ تمام گناہوں پر نادم ہوکر توبہ کریں اور آئندہ حتی الامکان ہر گناہ سے بچنے کا پختہ ارادہ کریں ۔ نیز وقتا فوقتا صدقہ بھی کرتے رہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Fiqh
Ref. No. 2999/46-4790
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اجارہ کا معاملہ آپسی معاہدہ اور رضامندی کے مطابق ہوتاہے، جیسا معاہدہ ہو ویسی اجرت لازم ہوگی، اس لئے جب شروع میں یہ معاہدہ طے پایا کہ ساڑی بنانے میں اگر کوئی عیب ہوگا تو اس ساڑی کی اجرت نہیں ملے گی، تو سیٹھ معاہدہ کے مطابق اس کی اجرت دینے کا پابند نہیں ہے، تاہم اگر اخلاقی طور پر مزدور کی محنت کو دیکھتے ہوئے کچھ دیدے تو بہتر ہے اور باعث اجروثواب ہے۔ مزدور جب تک معاہدہ کے مطابق ساڑی تیار کرکے نہیں دے گا طے شدہ اجرت کا بھی مستحق نہیں ہوگا۔ اور اگر عیب کی صورت میں کوئی معاہدہ طے نہیں ہوا تھا تو ایسی صورت میں عیب کو ٹھیک کرانے میں جو نقصان ہو اس کے بقدر کاٹ کر باقی اجرت لازم ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Death / Inheritance & Will
Ref. No. 2998/46-4770
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والدین کا اپنی نافرمان اولاد کو میراث کا حقدار ہونے سے نااہل قرار دینا شرعا درست نہیں ہے۔ لہذا والدین نے اگر کسی کو عاق کیا ہے تب بھی والدین کی وفات کے بعد دیگر اولاد کی طرح وہ نافرمان بیٹا بھی برابر کا حقدار ہوگا؛ اس کو والدین کے مرنے کے بعد وراثت سے محروم کردینا گناہ ہے۔ البتہ اگرباپ اپنی زندگی میں اپنی فرمانبردار اولاد کی خدمت سے خوش ہو کر ان کو کچھ دیدے اور مالک بنادے تو پھر اس حصہ میں دوسروں کا کوئی حق نہیں ہوگا، ہاں یہ بھی خیال رہے کہ ہبہ اپنی تمام شرطوں کے ساتھ پورا ہوا ہو۔
ولوکان ولدہ فاسقا واراد ان یصرف مالہ الی وجوہ الخیر ویحرمہ عن المیراث ھذا خیر من ترکہ کذا فی الخلاصۃ (فتاوی امدادیہ 3/100) وفی الدر المختار ولو کان ولدہ مسیئا دون البعض لزیادۃ رشدہ لا باس بہ ولوکان سواء یجوز فی القضاء ولکن ھو آثم (مجموعۃ الفتاویٰ 4/393) الارث جبری لا یسقط بالاسقاط (تکملۃ رد المحتار 5/505، کتاب الدعوی باب التحالف ، فصل فی دفع الدعاوی 7/505)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
سیاست
Ref. No. 2997/46-4769
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قوم کی بہتر خدمت کے لئے سیاست میں حصہ لینا جائز ہے، وزیر اعظم بننے اور ملک میں امن و امان قائم کرنے کے لئے اپنی کوشش جاری رکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ سیاست میں عام طور پر جھوٹ ، مکر وفریب اور حرام مال کی قباحت دلوں سے نکل جاتی ہے ، اس لئے اگرشرعی حدود سے ہرگز سرِمو تجاوز نہ ہو، تو ملک کی ترقی اور امن وا مان قائم کرنے کی خاطر یہ نظریہ اور کوشش قابل قدر ہے۔
پولیٹیکل سائنس کا علم حاصل کرنا کوئی گناہ کی چیز نہیں ہے، تاہم جو امور اس میں خلاف شرع ہوں ا ن سے بچنا ہر حال میں لازم ہوگا۔ ان کی تفصیل آپ الگ سے دوبارہ معلوم کرلیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند