نکاح و شادی

Ref. No. 2834/45-4452

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) سنت ولیمہ کی ادائیگی کے لیے نکاح کے بعد بیوی کے ساتھ رات گزارنا یا  ہمبستری وغیرہ کرنا ضروری نہیں؛ البتہ مسنون وافضل یہ ہے کہ نکاح اور رخصتی کے بعد جب زفاف ہوجائے تو ولیمہ کیا جائے، تاہم اگر کسی نے ایک دن میں نکاح اور ولیمہ کردیا تو ولیمہ کی نفس سنت ادا ہوجائے گی؛  اور اعادہ کی ضرورت نہیں ہوگی۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب بنت جحش کا ولیمہ زفاف سے پہلے فرمایاتھا، نیز نجاشی شاہ حبشہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح حضرت ام حبیبہ سے کیا اور لوگوں کو کھانا کھلایا، اور یہ رخصتی سے پہلے ہوا، پس رخصتی سے قبل بھی ولیمہ کیاجاسکتاہے۔(2) البتہ عام طور  ازواج مطہرات کے نکاح میں ولیمہ زفاف کے بعد ہی  ہوا  ہے، اس لئے  اصل سنت یہی ہے کہ ولیمہ زفاف کے بعد ہو۔ (3) نکاح کے  فورا بعد  زفاف سے پہلے بھی ولیمہ کیاجاسکتاہے، جیسا کہ اوپر بیان کیاگیا،  تاہم عورت سے ہمبستری یا کم از کم خلوت صحیحہ کے بعد  ولیمہ کیاجائے تو یہ افضل ہے۔(4) زید کو چاہئے کہ نکاح کے بعد اپنی بیوی سے خلوت میں تھوڑی دیر کے لئے ملاقات کرلے اور پھر ولیمہ کا کھانا کھلادے، تو اس سے پورے طور پر سنت ادا ہوجائے گی۔ 

ذکر ابن السبکي أن أباہ………قال:والمنقول من فعل النبي صلی اللہ علیہ وسلم أنھا بعد الدخول (فتح الباری، ۹: ۲۸۷)، ولیمة العرس سنة وفیھا مثوبة عظیمة ،وھي إذا بنی الرجل بامرأتہ ینبغي أن یدعو الجیران والأقرباء والأصدقاء ویذبح لھم ویصنع لھم طعاما کذا في خزانة المفتین (الفتاوی الھندیة،کتاب الکراہیة،الباب الثاني عشر فی الھدایا والضیافات،۵: ۳۴۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

"وعن أنس قال: أولم رسول الله صلى الله عليه وسلم حين بنى بزينب بنت جحش فأشبع الناس خبزاً ولحماً. رواه البخاري".(مشکاۃ المصابیح، (2/278)، الفصل الاول، باب الولیمہ، ط: قدیمی)

"یجوز أن یؤلم بعد النکاح، أو بعد الرخصة، أو بعد أن یبنی بها، والثالث هو الأولی". (بذل المجهود، کتاب الأطعمة، باب في استحباب الولیمة للنکاح، مطبع سهارن پور قدیم۴/ ۳۴۵، دارالبشائر الإسلامیة بیروت۱۱/ ۴۷۱، تحت رقم الحدیث :۳۷۴۳

"وقت الولیمة عند العقد، أو عقبه، أو عند الدخول، أو عقبه، وهذا أمر یتوسع فیه حسب العرف والعادة، وعند البخاري أنه صلی اﷲ علیه وسلم دعا القوم بعد الدخول بزینب". (فقه السنة، دارالکتاب العربي۲/ ۲۱۰)

"وفيه فوائد: ... الثالثة: اتخاذ الوليمة في العرس، قال ابن العربي: بعد الدخول، وقال البيهقي: كان دخوله صلى الله عليه وسلم بعد هذه الوليمة"

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (20/ 151(

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم : نفس بارات جائز ہے لیکن اس کا لحاظ ضروری ہے کہ وہ لڑکی والے کے لئے پریشانی کا سبب نہ ہو، جتنے لوگوں کی گنجائش و اجازت ہو  اس سے زیادہ نہ ہوں۔ جہیز مانگنا جائز نہیں، اپنی خوشی سے اپنی بچی یا داماد کو کوئی کچھ دیدے تو اس میں حرج نہیں لیکن اس کی بھی نمائش درست نہیں۔

واللہ تعالی  اعلم

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 877 Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم:تصویر کشی کی شریعت میں اجازت نہیں ہے۔ جان، مال، عزت و آبرو کے حفاظتی انتظام کے لئے بدرجہء مجبوری  اور بقدر ضرورت  اس کی  اجازت ہے ۔ لیکن خبروں میں دینا کوئی ایسی شرعی ضرورت نہیں ہے اس لئے اس سے گریز کیا جائے۔ اور اگر مالک اخبار اسی پر مصر ہو اور روزگار خطرہ میں پڑجائے تو جب تک دوسری ملازمت نہ مل جائے ، بادل ناخواستہ اس کی گنجائش ہوگی لیکن پوری دیانت کے ساتھ دوسری ملازمت کی تلاش جاری رکھیں  اور جوں ہی کسی متبادل کا انتظام ہوجائے یہ غیرشرعی امور چھوڑدیں ۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Manners & Behaviours
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful Then answer to your question is as follows: You must repent sincerely to Allah for whatever you did in the past. And also you have to consult a knowledgeable and experienced doctor or hakeem for the treatment of the same without any delay. May Allah help you to get rid of this kind of acts. And Allah knows best Darul Ifta Darul Uloom Waqf Deoband

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 39/1112

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔انشورنس  کا معاملہ مکمل سود ی معاملہ ہے، اور سودی معاملہ کرنا حرام ہے۔ البتہ شریعت میں ضرورت کے مواقع میں گنجائش دی گئی ہے۔ اس لئے جن چیزوں کے استعمال کے لئے انشورنس کرانا لازم ہو اور قانونی مجبوری ہو تو ایسی صورت میں انشورنس کرانے کی گنجائش ہے۔ اور اگر قانونی مجبوری نہ ہو تو پھر انشورنس ضرورت نہیں ہے۔ جیون بیمہ قانونی طور پر لازم نہیں اس لئے حرام ہوگا۔ دوکان کا بیمہ بھی اسی طرح ہے کہ اگر قانونی مجبوری کے تحت کرایا جائے تو ہی جائز ہوگا ورنہ نہیں۔   

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Miscellaneous

Ref. No. 40/971

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

 

 Read the following as much as you can:

رَبِّ اِنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ

 May Allah give you full shifa! Ameen

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

روزہ و رمضان

Ref. No. 41/888

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  روزہ فاسد نہیں ہوا، البتہ نماز از سر نو پڑھے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 41/1048

In the name of Allah the most gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

Corona-virus, by the will of Allah, is epidemic disease which effects one after another. Islam guides in term of such diseases not to travel in the affected areas and suggests the other people to keep away from the affected area.

  مثال الجمع حدیث لاعدوی مع حدیث لایورد ممرض علی مصح۔ وجہ الجمع ان الامراض لاتعدی بطبعھا ولکن جعل اللہ مخالطتھا سببا للاعداء فنفی فی الحدیث الاول مایعتقدہ الجاہلیۃ من العدوی بطبعھا وارشد فی الثانیۃ الی مجانبۃ مایحصل عندہ الضرر عادۃ بقضاء اللہ وقدرہ۔ (شرح النووی علی مسلم 1/35)

And Allah knows best

Darul Ifta            

Darul Uloom Waqf Deoband

فقہ

Ref. No. 1375/42-780

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اقرار طلاق سے بھی شرعا طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ نیز جس طرح زبان سے طلاق واقع ہو جاتی ہے اسی طرح تحریر سے یا طلاق نامہ پر برضا دستخط کرنے سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے خواہ زبان سے تلفظ کیا ہو یا نہ کیا ہو ۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں بیوی پر فقہ حنفی کے مطابق  تین طلاقیں مغلظہ واقع ہوگئیں۔۔ بیوی عدت گزار نے کے بعد اگر نکاح کرنا چاہے تو کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔ 

"الاقرار بالطلاق کاذبا یقع بہ قضاءً لا دیانۃً ۔" (حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار 2/113) ولو قال للكاتب: اكتب طلاق امرأتي كان إقرارا بالطلاق وإن لم يكتب (شامی، مطلب فی الطلاق بالکتابۃ 3/246)
واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1499/42-998

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔جی ہاں، ایسی بیوہ عورت پر بھی قربانی واجب ہے۔ ایام قربانی میں کسی کے پاس اگر بقدر نصاب مال موجود ہے تو اس پر قربانی واجب ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پیسے ہدیہ میں آئے یا صدقہ میں یا بطور میراث ملے۔ اور قربانی کے لئے سال کا گزرنا بھی شرط نہیں ہے۔ اس لئے اگر بیوہ کوگزشتہ  رمضان میں ساٹھ ہزار روپئے صدقہ کے  موصول ہوئے، اور قربانی کے دن آگئے اور اس کے پاس نصاب کے بقدر مال اب بھی موجود ہے تو اس پر قربانی واجب ہے۔  

وأما شرائط الوجوب، منہا: الیسار،وہو من لہ مائتا درہم أو عشرون دینارًا أو شيء یبلغ ذلک سوی مسکنہ - - - الی قولہ  - - -  في حاجتہ التی لا یستغني عنہا (هندیة: الباب الاول فی تفسیر الاضحیۃ ورکنھا 5/292) بدائع: فصل فی انواع کیفیۃ الوجوب 5/68)

"وهي واجبة على الحر المسلم المالك لمقدار النصاب فاضلاً عن حوائجه الأصلية، كذا في الاختيار شرح المختار، ولايعتبر فيه وصف النماء، ويتعلق بهذا النصاب وجوب الأضحية، ووجوب نفقة الأقارب، هكذا في فتاوى قاضي خان (الفتاوى الهندية (1/ 191)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند