Frequently Asked Questions
تجارت و ملازمت
Ref. No. 39/ 1169
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں مالک کار کا ڈرائیور سے فائدہ و نقصان دونوں صورتوں میں متعینہ رقم لینا درست نہیں ہے۔ جواز کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ آپ گاڑی روزانہ دن بھر کے لئےیا ہفتہ ومہینہ بھر کے لئے ایک متعین کرایہ پر دیدیں کہ ایک دن کایا ایک ہفتہ یا ایک مہینہ کا اتنا کرایہ ہوگا تو اب یہ معاملہ درست ہوگا۔ جس طرح مکان کرایہ پر لینے والا چاہے مکان میں رہے یا نہ رہے، یا کم رہے ہر حال میں اس کو متعینہ کرایہ دینا لازم ہوگا۔ اسی طرح آپ نے جس کو کرایہ پر گاڑی دی ہے اس پر متعینہ کرایہ دینا لازم ہوگا چاہے وہ گاڑی چلائے یا نہ چلائے، کم چلائے یا زیادہ ، اس کوفائدہ ہو یا نقصان ہو۔ھذا ماظہرعندی
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1371/42-783
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شوہر پر لازم ہے کہ اپنی تمام بیویوں کے درمیان مساوات اور برابری کرے۔ رات گزارنے اور نان و نفقہ میں کوئی کوتاہی اور ناانصافی نہ کرے۔ اس سلسلہ میں اس سے قیامت میں پوچھ ہوگی۔ تاہم اگر آپ کو زیادہ پریشانی ہو تو خلع کا مطالبہ کرسکتی ہیں۔ اور اگر صبر کریں تو زیادہ بہتر بات ہے۔
واذا کان للرجل امراتان حرتان فعلیہ ان یعدل بینھما فی القسم بکرین کانتا اور ثیبین او احداھما بکرا والاخری ثیبا لقولہ علیہ السلام من کانت لہ امراتان ومال الی احداھما فی القسم جاء یوم القیامۃ وشقہ مائل (فتح القدیر ، باب القسم 3/433) فدل ان العدل بینھن فی القسم والنفقۃ واجب والیہ اشار فی آخرالآیۃ بقولہ ذلک "ادنی ان لا تعولوا" ای تجوروا، والجور حرام فکان العدل واجبا ضرورۃ۔ (بدائع، فصل وجوب العدل بین النساء فی حقوقھن 2/332)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
عائلی مسائل
Ref. No. 1783/43-1516
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آن لائن فتاوی عوام و خواص کے استفادہ کے لئے ہی ہوتے ہیں؛ اگر کوئی عالم دین مسئلہ بیان کرے اور اس میں آپ کو کوئی غلطی محسوس ہو تو ان سے اس کی وضاحت طلب کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ عالم صاحب نے جو مسئلہ بیان کیا پہلے ان سے ادب کے ساتھ اس کی وضاحت کرنے کی درخواست کریں پھر بھی کوئی بات خلاف واقعہ معلوم ہو تو ان کو آن لائن فتاوی کا حوالہ دینے میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔
فقہ فتاوی کا میدان کافی وسیع ہے ، مفتی اور عالم دین بھی انسان ہوتے ہیں اور غلطی کا امکان ہے، اس لئے مسئلہ کو سمجھنے اورحق کی رہنمائی کرنے میں کوئی حرج نہیں، نیز مفتی صاحب کو اصلاح قبول کرنے میں بھی دل تنگ نہ ہونا چاہئے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1969/44-1904
بسم اللہ الرحمن الرحیم: جو کچھ بطور قرض لیاگیا ہے اس کی واپسی لازم ہے، اس لئے سال کے ختم پر جب زکوۃ کا حساب کریں گے اس وقت تمام مال سے قرض کی رقم منہا کرنے کے بعد زکوۃ نکالی جائے گی؛ خواہ وہ قرض کسی شخص سے لیا ہو یا بینک سے، سودی ہو یا غیرسودی۔ خیال رہے کہ سود پر قرض لینا گناہ کبیرہ ہے، اس لئے شدید وشرعی مجبوری کے بغیر لون لینا جائز نہیں ہے۔ اس لئے لون لینے سے قبل کسی ماہر مفتی سے صورت حال بتاکر مسئلہ معلوم کرلیں۔
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِيْنَ فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِه وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ أَمْوَالِكُمْ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ وَإِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَة إِلٰى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْر لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾[البقرة : ۲۷۸ إلى ۲۸٠ ]
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2200/44-2323
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خالد کا کسی اجنبیہ سے بات کرنا حرام ہے، اور جب تک نکاح نہیں ہوجاتاہے وہ لڑکی اس کے لئے اجنبیہ ہے، البتہ اگر اس نے اپنی خوشی سے کچھ پیسے دئے اور تحفہ دیا تو اس کا استعمال کرنا جائز ہوگا۔ لیکن احتیاط اسی میں ہے کہ اجنبیہ سے کسی طرح کا کوئی تعلق نہ رکھے، نہ اس کو کچھ دے اور نہ اس سے کچھ لے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:آیت مذکورہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کی چند صفات بیان کی ہیں۔
{بِکَلِمَۃٍ مِنَ اللَّہِ}: یعنی حضرت یحییٰ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کی تصدیق کرنے والے ہوں گے۔
حضرت مولانا مفتی شفیع عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کلمۃ اللہ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ محض اللہ تعالیٰ کے حکم سے خلاف عادت بلا واسطہ والد کے پیدا کئے گئے۔
{حَصُوراً}: اپنے نفس کو لذات سے بہت روکنے والے ہوں گے اور مباح خواہشوں سے بھی بچیں گے مثلاً اچھا کھانا، اچھا پہننا اور نکاح وغیرہ کرنے سے بھی بچیں گے۔(۱)
’’قال البیضاوي: {مُصَدِّقاً بِکَلِمَۃٍ مِنَ اللّٰہِ} أي بعیسی علیہ السلام، سمی بذلک لأنہ وجد بأمرہ تعالی دون أب فشابہ البدعیات التي ہي عالم الأمر۔
وَحَصُوراً: وَحَصُوراً مبالغاً في حبس النفس عن الشہوات والملاہي۔(۲)
تفسیر مظہری میں لکھا ہے:
{بِکَلِمَۃٍ مِنَ اللّٰہِ} یعنی بعیسی علیہ السلام سمی بہ لأن اللّٰہ تعالی، قال: لہ کن من غیراب فکان فوقع علیہ اسم الکلمۃ لأنہ بہا کان -وقیل: سمی عیسیٰ کلمۃ لأنہ یہتدي بہ کما یہتدي بکلام اللّٰہ۔
{وَحَصُوراً}: أصلہ من الحصر وہو الحبس والمنع فقیل کان لا یأتي النساء۔(۳)
علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:
{بِکَلِمَۃٍ مِنَ اللَّہِ} والمراد بالکلمۃ عیسیٰ علیہ السلام وإنما سمی عیسیٰ علیہ السلام بذلک لأنہ وجد بکلمۃ کن من دون توسط سبب عادي فشابہ البدیعیات التي ہي عالم الأمر۔
{وَحَصُوراً} عطف علی ما قبلہ ومعناہ الذي لا یأتي النساء مع القدرۃ علی ذلک والإشارۃ إلی عدم انتفاعہ علیہ السلام بما عندہ لعدم میلہ للنکاح لما أنہ في شغل شاغل عن ذلک۔(۴) مذکورہ عبارتوں کا حاصل یہ ہے کہ {بِکَلِمَۃٍ مِنَ اللَّہِ} سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور {وَحَصُوراً} سے مراد اپنے نفس کو لذات اور خوہشوں سے روکنے والے ہیں، اور یہ دونوں صفتیں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی بیان کی جا رہی ہیں کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کی تصدیق کرنے والے اور نفس کو لذات سے بہت روکنے والے ہیں۔
(۱) مفتي محمد شفیع عثمانيؒ، معارف القرآن، ’’سورۃ آل عمران: ۳۹‘‘: ج ۲، ص: ۶۱۔
(۲) علامہ بیضاويؒ، تفسیر البیضاوي، ’’سورۃ آل عمران: ۳۰‘‘: ج ۳، ص: ۴۶۔
(۳) محمد ثناء اللّٰہ پاني پتيؒ، التفسیر المظہري، ’’سورۃ آل عمران: ۳۹‘‘: ج ۳، ص: ۴۹۔
(۴) علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ آل عمران: ۳۹‘‘: ج ۳، ص: ۲۳۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص49
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ شخص کی امامت درست اور جائز ہے۔ نومسلم کا بیٹا ہونا قطعاً کوئی عیب نہیں ہے جو اس کو عیب سمجھ کر اس کی امامت کو ناجائز کہے وہ خلاف شرع بات کہنے کی وجہ سے گناہ گار ہے اس پر توبہ لازم ہے۔(۱)
(۱) شروط صحۃ الإمامۃ للرجال الأصحاء ستۃ أشیاء، الإسلام، والبلوغ والعقل والذکورۃ والقراء ۃ والسلامۃ من الأعذار کالرعاف وألفأ مأۃ والتمتۃ واللثغ وفقد شرط کطہارۃ وستر عورۃ۔ (الشرنبلالي، نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۷۷، ۷۸، مکتبہ: عکاظ دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص47
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مذکورہ میں مذکورہ شخص کا عقیدہ بالکل درست ہے اور وہ نماز کو دل سے فرض مانتا ہے اور وہ نماز پڑھتا بھی ہے نیز اس کے کلام میں تاویل بھی ممکن ہے اس لیے وہ دائرۂ اسلام سے خارج نہیں ہوا؛ لیکن مذکورہ لفظ سے صراحت قرآن کا انکار ظاہر ہوتا ہے اس لیے مذکورہ شخص گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے اس پر لازم ہے کہ توبہ واستغفار کرے اور آئندہ ایسے الفاظ سے پرہیز کرے۔
’’لو قال لمریض:صل، فقال: واللّٰہ لا أصلي أبداً ولم یصل حتی مات یکفر
وقول الرجل: لا أصلي یحتمل أربعۃ أوجہ: أحدہا لاأصلي لأني صلیت، والثاني: لا أصلي بأمرک فقد أمرني بہا من ہو خیر منک، والثالث: لا أصلي فسقا مجانۃ فہذہ الثلاثۃ لیست بکفر، والرابع: لا أصلي، إذ لیس یجب علی الصلاۃ ولم أومر بہا یکفر وأطلق وقال لا أصلي لا یکفر‘‘(۱)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: مایتعلق بالصلاۃ والصوم والزکاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۰۔
فتاوى دار العلوم وقف ج 4 ص: 48 و 49
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مذکورہ میں جس نیت سے جو نماز شروع کی گئی ہے وہی نماز ہوگی درمیان میں صرف نیت کے بدلنے سے دوسری نماز کی طرف منتقل نہیں ہو سکتے، لہٰذا نیت کی تبدیلی سے وہ فرض اور قضاء نماز نہیں ہوئی، بلکہ جو نماز پہلی نیت سے شروع کی تھی یعنی سنت وہی ادا ہوگی؛ اس لیے کہ نماز صرف نیت سے منتقل نہیں ہوتی، بلکہ اس کے لیے تکبیر تحریمہ کہنا بھی ضروری ہے۔
’’الرابع في صفۃ المنوی من الفریضۃ والنافلۃ والأداء والقضاء، أما الصلاۃ فقال في البزازیۃ: إنہ ینوی الفریضۃ في الفرض فقال معزیاً إلی المجتبیٰ ’’لابد من نیۃ الصلاۃ ونیۃ الفرض ونیۃ التعیین الخ‘‘(۱)
’’(قولہ ولا تبطل بنیۃ القطع) وکذا بنیۃ الانتقال إلی غیرہا (قولہ ما لم یکبر بنیۃ مغایرۃ) بأن یکبر ناویا النفل بعد شروع الفرض وعکسہ، أو الفائتۃ بعد الوقتیۃ وعکسہ، أو الاقتداء بعد الإنفراد وعکسہ۔ وأما إذا کبر بنیۃ موافقۃ کأن نوی الظہر بعد رکعۃ الظہر من غیر تلفظ بالنیۃ فإن النیۃ الأولی لا تبطل ویبنی علیہا۔ ولو بنی علی الثانیۃ فسدت الصلاۃ‘‘(۲)
’’قولہ ولا عبرۃ بنیۃ متأخرۃ) لأن الجزء الخالي عن النیۃ لا یقع عبادۃ فلا یبنی الباقي علیہ، وفي الصوم جوزت للضرورۃ، حتی لو نوی عند قولہ اللّٰہ قبل أکبر لا یجوز لأن الشروع یصح بقولہ اللّٰہ فکأنہ نوی بعد التکبیر حلیۃ عن البدائع‘‘(۱)
(۱) ابن نجیم، الأشباہ والنظائر، القاعدۃ الثانیۃ: ص: ۱۵۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۶۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص307