طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1766/43-1508

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  

مرغی کی بیٹ ناپاک ہے، اور ماء قلیل میں مرغی کی بیٹ ملنے سے پانی ناپاک ہوجاتاہے۔ اس لئے گھر دھوتے وقت  جس حصہ میں  پانی جمع ہے  اور اس میں مرغی کی بیٹ ملی ہوئی ہے، وہ ناپاک ہے۔ بیٹ ملنے کے بعد گھر کا جو حصہ دھویاگیاہے وہ بھی ناپاک ہے، اس کو دوبارہ دھونا ضروری ہے۔

واما العذرات و خرء الدجاج والبط فنجاستھا غلیظۃ بالاجماع (بدائع الصنائع، کتاب الطہارۃ، باب الارواث والعذرات 1/235 زکریا دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1972/44-1914

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  راستہ میں جمع پانی اگر نجاست سے قریب ہو اور اس کے اثرات اس میں نظر آرہے ہوں یا آپ کو یقین ہو کہ یہ ناپاک ہے تو اس کو ناپاک ہی سمجھیں، اگر وہ کپڑے یا بند پر لگ گیا تو ناپاک کردے گا۔ اور اگر پانی کے بارے میں یقین نہیں ہے، اور کوئی ناپاکی بھی پانی میں نظر نہیں آرہی ہے تو اس کو پاک سمجھیں اور کپڑے یا بدن پر لگ جائے تو  دھونا ضروری نہیں ہے، تاہم دھولینا بہتر ہے۔

"مطلب في العفو عن طين الشارع

(قوله: وطين شارع) مبتدأ خبره قوله: عفو والشارع الطريق ط. وفي الفيض: طين الشوارع عفو وإن ملأ الثوب للضرورة ولو مختلطا بالعذرات وتجوز الصلاة معه. اهـ. . وقدمنا أن هذا قاسه المشايخ على قول محمد آخرا بطهارة الروث والخثي، ومقتضاه أنه طاهر لكن لم يقبله الإمام الحلواني كما في الخلاصة. قال في الحلية: أي: لا يقبل كونه طاهرا وهو متجه، بل الأشبه المنع بالقدر الفاحش منه إلا لمن ابتلي به بحيث يجيء ويذهب في أيام الأوحال في بلادنا الشامية لعدم انفكاك طرقها من النجاسة غالبا مع عسر الاحتراز، بخلاف من لايمر بها أصلاً في هذه الحالة فلايعفى في حقه حتى إن هذا لايصلي في ثوب ذاك. اهـ.
أقول: والعفو مقيد بما إذا لم يظهر فيه أثر النجاسة كما نقله في الفتح عن التجنيس. وقال القهستاني: إنه الصحيح، لكن حكى في القنية قولين وارتضاهما؛ فحكى عن أبي نصر الدبوسي أنه طاهر إلا إذا رأى عين النجاسة، وقال: وهو صحيح من حيث الرواية وقريب من حيث المنصوص؛ ثم نقل عن غيره فقال: إن غلبت النجاسة لم يجز، وإن غلب الطين فطاهر. ثم قال: وإنه حسن عند المنصف دون المعاند اهـ.
والقول الثاني مبني على القول بأنه إذا اختلط ماء وتراب وأحدهما نجس فالعبرة للغالب، وفيه أقوال ستأتي في الفروع.
والحاصل أن الذي ينبغي أنه حيث كان العفو للضرورة، وعدم إمكان الاحتراز أن يقال بالعفو وإن غلبت النجاسة ما لم ير عينها لو أصابه بلا قصد وكان ممن يذهب ويجيء، وإلا فلا ضرورة. وقد حكى في القنية أيضًا قولين فيما لو ابتلت قدماه مما رش في الأسواق الغالبة النجاسة، ثم نقل أنه لو أصاب ثوبه طين السوق أو السكة ثم وقع الثوب في الماء تنجس".(شامی 1/324)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

Ref. No. 2070/44-2071

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نبی کریم ﷺ کی جانب کسی واقعہ کی نسبت کسی مستند کتاب کے حوالہ سے ہونی ضروری ہے، اور مذکورہ واقعہ کسی مستند کتاب میں موجود نہیں ہے اس لئے اس کو بیان کرنے سے احتراز کرنا ضروری ہے،۔ نبی کریم ﷺ کے اعلی اخلاق بیان کرنے کے لئے مستند واقعات کثیر تعداد میں ہیں ان کو ہی بیان کرنا چاہئے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Usury / Insurance

Ref. No. 2144/44-2205

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

It is not permissible to use interest money in toilets or bathrooms. It is not permissible to use interest money in any charitable work. The interest money must be received from bank and given to the poor without any intention of reward.

(رد المحتار: مَطْلَبٌ فِيمَنْ وَرِثَ مَالًا حَرَامًا، 99/5، ط: سعید)
"والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه".
و فیہ ایضاً: (385/6، ط: دار الفکر)
أن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه اه

 

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ باتیں غلط ہیں، شریعت میں ان کی کوئی اصل نہیں ہے اور حدیث میں ایسی کوئی روایت نہیں ہے۔(۱)

۱) {کَلَّآ إِنَّ کِتٰبَ الْفُجَّارِ لَفِيْ سِجِّیْنٍہط ۷ }
{کَلَّآ إِنَّ کِتٰبَ الْأَبْرَارِ لَفِيْ عِلِّیِّیْنَہط ۱۸} (سورۃ المطففین: ۷ اور ۱۸)
قال صاحب المظہري: أن مقر أرواح المؤمنین في علین أو في المساء السابعۃ ونحو ذلک کما مر، ومقر أرواح الکفار في سجین۔ (قاضي ثناء اللّٰہ -رحمہ اللّٰہ- التفسیر المظہري، ’’سورۃ المطففین: آیۃ: ۲۶‘‘: ج ۱۰، ص: ۱۹۶)
حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃاللہ علیہ نے اشرف الجواب میں لکھا ہے کہ: مردے کی روح دنیا میں واپس نہیں آتی ہے۔ (اشرف علی تھانویؒ، اشرف الجواب، ص: ۱۵۶)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص247

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں جن چیزوں کا ذکر ہے ان کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے؛ بلکہ یہ سب چیزیں بدعت اور باعث شرک ہیں اس لیے شریعت نے ایسی چیزوں کی قطعاً اجازت نہیں دی ہے۔ مزارات پر عرس ودیگر تقریبات عرس میں شریک ہونا شرعاً جائز نہیں۔(۱)

(۱) ومن جملۃ ما أحدثوہ من البدع مع اعتقادہم أن ذلک من أکبر العبادات وأظہر الشعائر ما یفعلونہ في شہر ربیع الأول من المولد وقد احتوی علی بدع ومحرمات جملۃ۔ (موسوعۃ الرد علی الصوفیۃ، ’’البدع الحولیۃ‘‘: ج ۲۲، ص: ۱۹۳)
وقد فصل صاحب الہدایۃ فیہا أن المغني للناس إنما لا یقبل شہادتہ لا یجمعہم علی کبیرۃ والقرطبي علی أن ہذا الغناء وضرب القضیب والرقص حرام بالإجماع عند مالک وأبي حنیفۃ وأحمد رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہم في مواضع من کتابہ إلخ۔ (جماعۃ من علماء الہند، فتاویٰ بزازیہ علی ہامش الہندیۃ، ’’کتاب ألفاظ تکون إسلاماً أو کفراً أو خطأً: باب في المتفرقات‘‘: ج ۶، ص: ۳۴۹)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص367

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ ایک غیر شرعی رسم ہے اور لڑکے یا لڑکی والوں پر بلاوجہ کا خرچ اور مصارف کا ڈالنا ہے۔ بعض مقروض بھی ہو جاتے ہیں اور برادری، خاندان کے طعنہ زنی سے بچنے کے لئے پریشانیاں اٹھاتے ہیں۔ شریعت میں اس کی نظیر نہیں، ضرورت ہے کہ اصلاح کی جائے اور اس طریقے کو بند کرایا جائے۔(۲)

(۲) لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحدود: باب التعزیر‘‘: ج ۶، ص: ۱۰۶)عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: باب الغصب والعاریۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا تظلموا ألا لا تظلموا، إنہ لا یحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’حدیث عم أبي حرۃ الرقاشي‘‘: ج ۳۴، ص: ۲۹۹، رقم: ۲۰۶۹۵)
عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: باب الغصب والعاریۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص455

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شب برأت میں تنہا تنہا عبادت منقول ہے؛ اس لیے دعوت دے کر لوگوں کو جمع کرنا مکروہ ہے؛(۱) البتہ اگر اتفاقاً لوگ تنہا تنہا آکر تعداد مجمع کی ہوجائے، تو مضائقہ نہیں اور اتفاقاً چائے وغیرہ پلا دینے میں بھی حرج نہیں ہے، لیکن ثواب سمجھ کر اس کا رواج بنا لینا جائز نہیں۔

(۱) عن علي رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا یومہا فإن اللّٰہ تعالیٰ ینزل فیہا لغروب الشمس إلی السماء الدنیا، فیقول: ألا من مستغفر فأغفر لہ، ألا مسترزق فأرزقہ، ألا مبتلی فأعافیہ ألا کذا ألا کذا حتی یطلع الفجر، رواہ ابن ماجہ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب قیام شہر رمضان، الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵، رقم: ۱۳۰۸)وقال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحیا اللیالي الخمس وجبت لہ الجنۃ لیلۃ الترویۃ ولیلۃ عرفۃ ولیلۃ النحر ولیلۃ الفطر ولیلۃ النصف من شعبان۔ وقال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من قام لیلۃ النصف من شعبان ولیلتی العیدین لم یمت قلبہ یوم تموت القلوب۔ (حسن بن عمار، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في تحیۃ المسجد وصلاۃ الضحیٰ وإحیاء اللیالي‘‘: ص: ۴۰۱)
ویکرہ الاجتماع علی إحیاء لیلۃ من ہذہ اللیالي المتقدم ذکرہا في المساجد وغیرہا: … لأنہ لم یفعلہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا أصحابہ فأنکرہ أکثر العلماء من أہل الحجاز …  وقالوا: ذلک کلہ بدعۃ۔ (’’أیضاً:‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۲)
ویکرہ الاجتماع علی إحیاء لیلۃ من ہذہ اللیالي في المساجد۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب في إحیاء لیالي العیدین والنصف وعشر الحجۃ ورمضان‘‘: ج ۲، ص: ۴۶۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص503

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جو مرد یا عورتیں قرآن پاک پڑھے ہوئے نہیں ہوتے اور قرآن کی محبت وعقیدت کی وجہ سے قرآن کریم کی ہر سطر پر انگلی پھیرتے اور نظر ڈالتے جاتے ہیں اور ہر سطر پر ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ پڑھتے جاتے ہیں، اس سے ان کا مقصد قرآن کریم کو ثواب وعقیدت کی نیت سے دیکھنا اور ’’بسم اللّٰہ‘‘ پڑھ کر ثواب حاصل کرنا ہوتا ہے، اس میں کوئی مضائقہ معلوم نہیں ہوتا؛ لیکن یہ ضروری ہے کہ قرآن کریم پڑھنا سیکھتا رہے جب کہ بعض لوگ یہ عمل لاٹری کا نمبر معلوم کرنے کے لیے کرتے ہیں، ایسا کرنا گناہ کبیرہ اور حرام ہے۔ کتاب ہدایت سے بھی گمراہی ڈھونڈتے ہیں {یضل بہ کثیراً ویہدي بہ کثراً}(۱)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الماہر بالقرآن مع السفرۃ الکرام البررۃ والذي یقرأ القرآن ویتتعتع فیہ وہو علیہ شاق لہ أجران۔
والذي یقرأ القرآن ویتتعتع فیہ)، أي یتردد ویتبلد علیہ لسانہ ویقف في قراء تہ …لعدم مہارتہ، والتعتعۃ في الکلام التردد فیہ من حصرٍ أو عيٍّ، یقال: تعتع لسانہ إذ توقف في الکلام ولم یطعہ لسانہ (وہو) أي القرآن، أي حصولہ أو ترددہ فیہ (علیہ)، أي علی ذلک القاري (شاق)، أي شدید یصیبہ مشقۃ جملۃ حالیۃ (لہ أجران)، أي أجر لقراء تہ أجر لتحمل مشقتہ وہذا تحریض علی تحصیل القراء ۃ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب فضائل القرآن: الفصل الأول‘‘: ج ۴، ص: ۹، رقم: ۲۱۱۲)

 
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص54

Hajj & Umrah

Ref. No. 2564/45-3919

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

It should be noted that as it is preferable for women to perform daily prayers at home in their homeland, in the same way it is preferable for women to pray at their residences (hotels) in Makkah and Madinah without attending congregational daily prayers or Friday prayer. To pray the salah in the hotels, will be rewarded the same as in Haramain. However, when women go to visit the House of Kaba or the Rauza of the Prophet (saws), they can pray in congregation daily prayers or Friday prayer in Haramain. But they must not pray in Muhazat of men. So the question of attending just Friday prayer is meaningless.

عن عبداللہ عن النبی ﷺ قال صلوۃ المراۃ فی بیتھا افضل من صلوتھا فی حجرتھا وصلوتھا فی مخدعھا افضل من صلوتھا فی بیتھا (ابوداؤد ، کتاب الصلوۃ ، باب ماجاء فی خروج النساء ، الرقم 570)

 

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband