Frequently Asked Questions
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مباہلہ کے معنی ایک دوسرے پر لعنت وبددعا کرنے کے ہیں۔ دو افراد یا دو گروہ جو اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کے مقابلے میں بارگاہ الٰہی میں التجا کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ خداوند تعالیٰ جھوٹے پر لعنت کرے تاکہ سب کے سامنے واضح ہوجائے کہ کو ن سا فریق حق پرہے۔
قرآن کریم کی سورہ آل عمران میں مباہلہ کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے نصاری کی جانب ایک فرمان بھیجا جس میں تین چیزیں ترتیب وار ذکر کی گئیں (۱) اسلام قبول کرو (۲) یا جزیہ ادا کرو (۳) یا جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ۔ نصاریٰ نے آپس میں مشورہ کرکے شرحبیل، عبد اللہ بن شرحبیل، اور جبار بن قیص کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا ان لوگوں نے آکر مذہبی امور پر بات چیت کی یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی الوہیت ثابت کرنے میں ان لوگوں نے انتہائی بحث وتکرار سے کام لیا اتنے میں یہ آیت مباہلہ نازل ہوئی اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصاریٰ کو مباہلہ کی دعوت اور انھوں نے یہ دعوت قبول کرلی؛ لیکن مقررہ وقت پر انھوں نے مباہلے سے اجتناب کیا؛ کیونکہ انھوں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قریب ترین افراد یعنی اپنی بیٹی: فاطمہ زہراء، اپنے داماد حضرت علی رضی اللہ عنہ، اپنے نواسوں اور فرزندوں حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کو ساتھ لے کر آئے ہیں، چنانچہ شرحبیل نے اپنے دونوں ساتھیوں سے کہاکہ تمہیں معلوم ہے کہ یہ اللہ کانبی ہے اور نبی سے مباہلہ کرنے میں ہماری ہلاکت اور بربادی یقینی ہے؛ اس لیے نجات کا کوئی راستہ تلاش کرو بالآخر ان لوگوں نے صلح کی تجویز منظور کرلی اور اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت ظاہر ہوگئی۔(۱)
(۱) مفتي محمد شفیع العثمانيؒ، معارف القرآن: ج ۲، ص: ۸۵۔
وکان أہل نجران جاؤا إلی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لیناظروہ في أمر عیسیٰ علیہ السلام فلما لم یقبلوا الحق دعاہم إلی المباہلۃ، فہذا دلیل علی أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قد بأہلہم علی حیاتہ أیضاً۔ (الکشمیري، فیض الباري علی صحیح البخاري، ’’باب قصۃ أہل نجران‘‘: ج ۵، ص: ۱۴۰، رقم: ۴۳۸۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص51
تجارت و ملازمت
Ref. No. 2686/45-4144
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بینک سودی کاروبار کرتاہے، اس لئے اس کے منافع سود پر مشتمل ہوتے ہیں ، لہذا بینک کے شیئر خریدنا جائز نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: واضح رہے کہ ایک نماز سے دوسری نماز میں داخل ہونے کے لیے نیت کے ساتھ دوبارہ تکبیر تحریمہ کہنا ضروری ہے۔ صورت مذکور میں سنت ادا کرنے کی زید نے نیت کی تھی اور اس نے دو رکعت ادا بھی کر لی تھی، لیکن وہ سلام پھیرنے کے بجائے تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہو گیا اور تیسری رکعت میں اس نے وتر کی نیت کرلی، تو صورت میں وتر ادا نہیں ہوئی کیوں کہ زید کا وتر کی طرف منتقل ہونا درست نہیں ہے۔ اس لیے وتر کا اعادہ کرنا ہوگا اور چوں کہ سنت کی نیت سے نماز شروع کی ہے، اس لیے دو رکعت سنت نماز درست ہوگئی اور ایک رکعت لغو ہو جائے گی۔
’’الرابع في صفۃ المنوی من الفریضۃ والنافلۃ والأداء والقضاء، أما الصلاۃ فقال في البزازیۃ: إنہ ینوی الفریضۃ في الفرض فقال معزیاً إلی المجتبیٰ ’’لابد من نیۃ الصلاۃ ونیۃ الفرض ونیۃ التعیین الخ‘‘(۱)
’’(قولہ ولا تبطل بنیۃ القطع) وکذا بنیۃ الانتقال إلی غیرہا (قولہ ما لم یکبر بنیۃ مغایرۃ) بأن یکبر ناویا النفل بعد شروع الفرض وعکسہ، أو الفائتۃ بعد الوقتیۃ وعکسہ، أو الاقتداء بعد الإنفراد وعکسہ۔ وأما إذا کبر بنیۃ موافقۃ کأن نوی الظہر بعد رکعۃ الظہر من غیر تلفظ بالنیۃ فإن النیۃ الأولی لا تبطل ویبنی علیہا۔ ولو بنی علی الثانیۃ فسدت الصلاۃ‘‘(۲)
’’قولہ (ولا عبرۃ بنیۃ متأخرۃ) لأن الجزء الخالي عن النیۃ لا یقع عبادۃ فلا یبنی الباقي علیہ، وفي الصوم جوزت للضرورۃ۔، حتی لو نوی عند قولہ اللّٰہ قبل أکبر لا یجوز لأن الشروع یصح بقولہ اللّٰہ فکأنہ نوی بعد التکبیر حلیۃ عن البدائع‘‘(۳)
(۱) ابن نجیم، الاشباہ والنظائر، القاعدۃ الثانیۃ: ص: ۱۵۔
(۲) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۶۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، مطلب في حضور القلب والخشوع‘‘: ج۲، ص: ۹۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص308
متفرقات
Ref. No. 2784/45-4343
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فرض نماز میں اس طرح کسی آیت کو بار بار دوہرانا پسندیدہ نہیں ہے، تاہم اس کی وجہ سے سجدہ سہو واجب نہ ہوگا خاص طور پر جبکہ تصحیح تلفظ مقصود ہو۔ اسی طرح التحیات میں بھی صحیح پڑھنے کی غرض سے اعادہ کرنے میں حرج نہیں ہے تاہم اس سے سجدہ سہو واجب نہ ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں قیام یا رکوع کی حالت میں گری ہوئی ٹوپی اٹھا کر سر پر رکھنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ اس صورت میں عمل کثیر ہو جائے گا جس سے نماز ہی ٹوٹ جائے گی، البتہ حالت سجدہ میں سر سے گری ہوئی ٹوپی عمل قلیل کے ساتھ مثلاً ایک ہاتھ سے اٹھا کر پہنی جا سکتی ہے، بلکہ ایسا کرنا افضل ہے اس سے نماز میں خرابی نہیں ہوگی۔(۱)
’’ولو سقطت قلنسوۃ فإعادتہا أفضل، إلا إذا احتاجت لتکویر أو عمل کثیر‘‘(۲)
(۱) الأول أن ما یقام بالیدین عادۃ کثیرٌ، وإن فعلہ بید واحدۃ کالتعمم… ولبس القلنسوۃ ونزعہا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ، و ما یکرہ فیھا‘ النوع الثاني: في الأفعال المفسدۃ للصلوٰۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۰، زکریا دیوبند)
(۲) الحصکفي، رد المحتارمع الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۸، زکریا دیوبند۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص127
بدعات و منکرات
Ref. No. 1102 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ گیارہویں منانا کہیں ثابت نہیں، یہ محض ایک رسم ہے، نیز بہت سے اعتقادی ، عملی واخلاقی مفاسد پر مشتمل ہونے کی وجہ سے واجب الترک ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
خوردونوش
Ref. No. 862 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: اگرمذکورہ شخص کا کاروبار صرف سود ہی کا ہے، تو اس کے یہاں دعوت میں شرکت جائز نہیں ہے، خواہ اسے تکلیف ہو یا نہ ہو، اللہ تعالی کو ناراض کرکے کسی کوراضی رکھنا عقلمندی نہیں ہے۔ اور اگر مال مخلوط ہو تو اس کی دعوت میں شرکت کی گنجائش ہے۔ مذکورہ کاپی میں چندہ جمع کرکے نیت کرنے سے کوئی حاصل نہیں ہوگا۔ ردالمحتار لابن عابدین الشامی ، الاشباہ والنظائر لابن نجیم المصری اور فتاوی محمودیہ للشیخ محمود گنگوہی میں یہ وضاحت موجود ہے حوالہ کے لئے دیکھ سکتے ہیں۔ واللہ تعالی اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 38/ 931
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: مذکورہ شخص خارج از ایمان نہیں ہے۔ واللہ تعالی ا علم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
Ref. No. 39 / 872
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسی کوئی روایت ہماری نظر سے نہیں گزری، ہوسکتا ہے کسی بزرگ کا قول ہو اور انھوں نے کسی خاص پس منظر میں کہا ہو؛ البتہ کار ثواب ہے ، دین کی فکر میں لگے رہنا محبوب عمل ہے ان شاء اللہ اس پر ثواب مرتب ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. no. 40/967
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ رقم کمپنی کی طرف سے بطور انعام دی جاتی ہے اس لئے یہ درست ہے، اس طرح کے آفر اپنی کمپنی کے تعارف کو عام کرنے کے لئے دئے جاتے ہیں ، اس کو سود نہیں کہا جاسکتا ۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند