اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آیت مذکورہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کی چند صفات بیان کی ہیں۔
{بِکَلِمَۃٍ مِنَ اللَّہِ}: یعنی حضرت یحییٰ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کی تصدیق کرنے والے ہوں گے۔
حضرت مولانا مفتی شفیع عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کلمۃ اللہ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ محض اللہ تعالیٰ کے حکم سے خلاف عادت بلا واسطہ والد کے پیدا کئے گئے۔
{حَصُوراً}: اپنے نفس کو لذات سے بہت روکنے والے ہوں گے اور مباح خواہشوں سے بھی بچیں گے مثلاً اچھا کھانا، اچھا پہننا اور نکاح وغیرہ کرنے سے بھی بچیں گے۔(۱)
’’قال البیضاوي: {مُصَدِّقاً بِکَلِمَۃٍ مِنَ اللّٰہِ} أي بعیسی علیہ السلام، سمی بذلک لأنہ وجد بأمرہ تعالی دون أب فشابہ البدعیات التي ہي عالم الأمر۔
وَحَصُوراً: وَحَصُوراً مبالغاً في حبس النفس عن الشہوات والملاہي۔(۲)

تفسیر مظہری میں لکھا ہے:
{بِکَلِمَۃٍ مِنَ اللّٰہِ} یعنی بعیسی علیہ السلام سمی بہ لأن اللّٰہ تعالی، قال: لہ کن من غیراب فکان فوقع علیہ اسم الکلمۃ لأنہ بہا کان -وقیل: سمی عیسیٰ کلمۃ لأنہ یہتدي بہ کما یہتدي بکلام اللّٰہ۔
{وَحَصُوراً}: أصلہ من الحصر وہو الحبس والمنع فقیل کان لا یأتي النساء۔(۳)
علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:
{بِکَلِمَۃٍ مِنَ اللَّہِ} والمراد بالکلمۃ عیسیٰ علیہ السلام وإنما سمی عیسیٰ علیہ السلام بذلک لأنہ وجد بکلمۃ کن من دون توسط سبب عادي فشابہ البدیعیات التي ہي عالم الأمر۔
{وَحَصُوراً} عطف علی ما قبلہ ومعناہ الذي لا یأتي النساء مع القدرۃ علی ذلک والإشارۃ إلی عدم انتفاعہ علیہ السلام بما عندہ لعدم میلہ للنکاح لما أنہ في شغل شاغل عن ذلک۔(
۴)  مذکورہ عبارتوں کا حاصل یہ ہے کہ {بِکَلِمَۃٍ مِنَ اللَّہِ} سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور {وَحَصُوراً} سے مراد اپنے نفس کو لذات اور خوہشوں سے روکنے والے ہیں، اور یہ دونوں صفتیں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی بیان کی جا رہی ہیں کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کی تصدیق کرنے والے اور نفس کو لذات سے بہت روکنے والے ہیں۔
(۱) مفتي محمد شفیع عثمانيؒ، معارف القرآن، ’’سورۃ آل عمران: ۳۹‘‘: ج ۲، ص: ۶۱۔
(۲) علامہ بیضاويؒ، تفسیر البیضاوي، ’’سورۃ آل عمران: ۳۰‘‘: ج ۳، ص: ۴۶۔
(۳) محمد ثناء اللّٰہ پاني پتيؒ، التفسیر المظہري، ’’سورۃ آل عمران: ۳۹‘‘: ج ۳، ص: ۴۹۔
(۴) علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ آل عمران: ۳۹‘‘: ج ۳، ص: ۲۳۸۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص49

اسلامی عقائد

Ref. No. 1768/43-1500

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جمعہ کی نماز اگر کسی وجہ سے درست نہیں ہوئی، تو وقت کے اندر دوبارہ جمعہ کی نماز دو رکعت  پڑھ لی جائے، اور اگر وقت نکلنے کے بعد فساد کا علم ہوا تو اب ظہر کی چار رکعت قضاء  کی جائے گی۔ قضاء انفرادی ہوگی  اور بہر صورت ظہر کی چار رکعت ہی پڑھی جائے گی۔ اگر کسی نے دو رکعت قضاء میں پڑھی تو وہ دوبارہ چار رکعت ظہر کی قضاء کرے۔  اس لئے آپ اگلے دن ظہر میں اور پھر اگلے جمعہ کو بھی اعلان کردیں کہ جن لوگوں نے کذشتہ جمعہ کو  جمعہ کی نماز اس مسجد میں پڑھی تھی وہ اپنی نماز دوہرالیں اور ظہر کی چار رکعت بطور قضاء کے پڑھ لیں۔

وکذا اہل مصر فاتتھم الجمعۃ فانھم یصلون الظھر بغیراذان ولا اقامۃ ولاجماعۃ (شامی، 2/157 سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند 

اسلامی عقائد

Ref. No. 38/ 931

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: مذکورہ شخص خارج از ایمان نہیں ہے۔ واللہ تعالی ا علم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1047/41-212

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بڑے جانور میں سات حصے ہوتے ہیں۔ پہلے دن کی قربانی میں ایک شخص چار حصے اور دوسرا تین حصے لے لے، اور تیسرے دن کی قربانی میں پہلا تین حصے اور دوسرا چار حصے لے لے یہ زیادہ بہتر ہے۔ اور اگردونوں نے ایک  جانور میں  نصف نصف  کی  شرکت پر قربانی کی تو یہ بھی جائز ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1872/43-1722

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  زید سودی کاروبار کرتاہے یقینا یہ بڑے افسوس کی بات ہے، البتہ زید کے سودی پیسے سے اپنے بیٹے کو سعودی بھیجنے کی وجہ سے بیٹے کی کمائی حرام کی نہیں ہوگی، اس لئے اگر زید اپنے بیٹے کی حلال  رقم  سے قربانی کے جانور میں  میں شراکت داری کرے تو اس کے  ساتھ شراکت کی گنجائش ہوگی۔ نیزجو کچھ زید کے بیٹے کے سعودی جانے میں خرچ ہوا، بیٹے کو چاہئے کہ اسی قدر رقم بلانیت ثواب صدقہ کردے۔ زید کو بھی چاہئے کہ اپنے اس عمل سے جلد توبہ کرے۔

"وإن كان كل واحد منهم صبياً أو كان شريك السبع من يريد اللحم أو كان نصرانياً ونحو ذلك لايجوز للآخرين أيضاً، كذا في السراجية. ولو كان أحد الشركاء ذمياً كتابياً أو غير كتابي وهو يريد اللحم أو يريد القربة في دينه لم يجزئهم عندنا؛ لأن الكافر لايتحقق منه القربة، فكانت نيته ملحقةً بالعدم، فكأنه يريد اللحم، والمسلم لو أراد اللحم لايجوز عندنا".  (الھندیۃ ۵ / ۳۰۴، رشیدیہ)

و فی الخانیۃ امراۃ زوجھا فی ارض الجور اذا اکلت من طعامہ ولم یکن عینہ غصبا او اشتری طعاما او کسوۃ من مال اصلہ لیس بطیب فھی فی سعۃ من ذلک والاثم علی الزوج۔ (شامی، کتاب الحظر والاباحۃ، فصل فی البیع 9/554 زکریا)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2049/44-0000

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ امداد سے مراد  شفاعت بھی ہوسکتی ہے، تاہم عوام کو ایسے اشعار سے احتراز ہی بہتر ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بڑی اچھی بات ہے؛ لیکن لازم نہ سمجھیں۔ (۱)

(۱) عن علي رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا یومہا فإن اللّٰہ تعالیٰ ینزل فیہا لغروب الشمس إلی السماء الدنیا، فیقول: ألا من مستغفر فأغفر لہ، ألا مسترزق فأرزقہ، ألا مبتلی فأعافیہ ألا کذا ألا کذا حتی یطلع الفجر، رواہ ابن ماجہ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب قیام شہر رمضان، الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵، رقم: ۱۳۰۸)
وقال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحیا اللیالي الخمس وجبت لہ الجنۃ لیلۃ الترویۃ ولیلۃ عرفۃ ولیلۃ النحر ولیلۃ الفطر ولیلۃ النصف من شعبان۔ وقال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من قام لیلۃ النصف من شعبان ولیلتی العیدین لم یمت قلبہ یوم تموت القلوب۔ (حسن بن عمار، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في تحیۃ المسجد وصلاۃ الضحیٰ وإحیاء اللیالي‘‘: ص: ۴۰۱)
ویکرہ الاجتماع علی إحیاء لیلۃ من ہذہ اللیالي المتقدم ذکرہا في المساجد وغیرہا: لأنہ لم یفعلہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا أصحابہ فأنکرہ أکثر العلماء من أہل الحجاز ……  وقالوا: ذلک کلہ بدعۃ۔ (’’أیضاً:‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۲)
ویکرہ الاجتماع علی إحیاء لیلۃ من ہذہ اللیالي في المساجد۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب في إحیاء لیالي العیدین والنصف وعشر الحجۃ ورمضان‘‘: ج ۲، ص: ۴۶۹)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص499

اسلامی عقائد

Ref. No. 2608/45-4118

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    ایک فرد کا انتظام کرنے پر کمپنی نے آپ کے لئے پانچ ڈالر کی اجرت طے کی ہے، آپ اپنی محنت سے جتنے افراد لائیں گے پانچ ڈالر فی نفر کے حساب سے آپ کو اجرت ملے گی ،  اس اجرت کے لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نیز اگرکمپنی  کسی موقع پر کوئی انعامی رقم دیوے  تو اس میں بھی کوئی  گناہ نہیں ہے، کیونکہ آپ نے اپنی محنت کا عوض وصول کیا ہے۔

جو دوسرا مسئلہ آپ نے پوچھا ہے وہ واضح نہیں ہے ۔ تیرہ سو روپئے آپ کو کہاں لگانے پڑتے ہیں اور کیوں، اس کی حیثیت کیا ہوتی ہے؟ پھر ٹیم بنانے کی کیا شکل ہے؟۔ اس مسئلہ کو بالتفصیل دوبارہ لکھ کر ارسال  کریں۔

"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا، فذاك حرام عليهم." (فتاوٰی شامی، مطلب في أجرة الدلال،63/6، ط: سعيد)

وفي الحاوي سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار فقال أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز فجوزوه لحاجة الناس إليه۔ (رد المحتار على الدر المختار ، كتاب الاجارة ،  باب ضمان الاجير ، 9/87)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1319/42-695

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بظاہر یہ سوال لاعلمی کی بنا پر کیا جاتا ہے ، اور آج سائنس کی ترقی نے ان سوالات کے عقلی اور عام فہم جوابات فراہم کردیے ہیں ۔قرآن کریم میں اللہ تعالی نے کائنات کی تخلیق کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا: ہو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعا(بقرۃ: 29) وہی اللہ ہے جس نے زمین میں جو کچھ پیدا کیا ہے وہ سب کا سب تمہارے لیے ہیں۔ایک جگہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وسخر لکم مافی السموات و مافی الارض جمعیا منہ (جاثیۃ: 13)اور اللہ تعالی نے اپنی طرف سے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب کو تمہارے لیے کام میں لگادیا ۔مذکورہ آیات سے معلوم ہوتاہے کہ زمین اور آسمان کے علاوہ ان دونوں میں جو کچھ بھی ہے وہ اللہ نے انسانوں کے لیے مسخر کردیا ہے اور کائنات کی یہ تمام چیزیں انسانوں کےنفع کے لیے ہیں یہ اور بات ہے کہ بعض چیزیں ایسی ہیں جن کا نفع حسی اور عام ہے اور وہ دنیاوی اعتبارسے قابل حیثیت سمجھی جاتی ہیں اوربعض چیزیں ایسی ہیں کہ بظاہر نفع بخش نہیں بلکہ بہت ضرر رساں ہیں لیکن فی الحقیقت وہ بھي انسانوں کے لیے فائدہ مند ہیں مثلا زہریلے سانپ ، بچھو وغیرہ کہنے کو تو نہایت خطرناک مخلوق ہیں مگر انسان ان ہی کے طفیل زہریلے جراثیم سے محفوظ ہے ، حکمت خداوندی کے مطابق مختلف مقاصد کے پیش نظر ماحول میں جو زہریلے اثرات پیدا ہوتے ہیں یہ زہریلے جانور ان اثرات کو اپنے اندر جذب کرلیتے ہیں اگر یہ جانور نہ ہوتو انسان زہریلے اور ہلاکت خیز جراثیم سے تباہ و برباد ہوجائے ۔

اسی طرح سیاروں کا بھي حال ہے ، جدید سائنس نے بھی ثابت کردیا ہے کہ چاند کرۂ ارض سے قریبی سیارہ ہے جو لگتا ہے کہ ہم سے نہایت قریب ہمارے سروں پر ایک چھوٹی سی ٹکیہ کی مانند معلق ہے ۔سائنسدانوں کی تحقیق یہ ہے کہ چاند ہم سے ڈھائی لاکھ میل سے کم دور نہیں ، اس طرح اس وسیع و عریض زمین سے چاند کے حجم کا موازنہ کیا جائے تو وہ زمین سے 50 گنا بڑا ہے ۔سورج کے بارے میں سائنسدان کہتے ہیں کہ وہ کرۂ ارض سے 13لاکھ گنا بڑا اورزمین سے تقریباً 149,6 ملین کلو میٹر دور ہے ۔ سورج ہی کی طرح بلکہ اس سے کئی گنا بڑے اور سورج سے بے انتہا بلندی پر بے شمار کواکب اﷲ کے حکم سے اپنے اپنے مدار پر گردش کررہے ہیں ۔ اُفق پر ٹمٹمانے والے ستارے اربوں کھربوں کی تعداد میں ہیں ۔علم ِفلکیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کے تمام ساحل پر ریت کی جتنی کنکریاں ہیں اُس سے زیادہ آسمان کی بلندی پر ستاروں کی تعداد ہے ۔ بظاہر انسان اپنی کم علمی کی بنا پر یہ سمجھتا ہے کہ یہ سیارے بے مقصد ہیں جب کہ ایک بدیہی بات ہے کہ ایک سمجھدار انسان کوئی کام یا کوئی چیز بلا مقصد  کے تیار نہیں کرتاتو احکم الحاکمین اور کائنات کا بنانے والا کیوں کر ان سیاروں کو بلا مقصد کے پیدا کرے گا ، مثال کے طور پر چاند بھي ایک سیارہ ہے جس کے بارے میں خود اللہ تعالی کا ارشاد ہے و بالنجم ہم یہتدون اور اللہ نے ستارے بنائے جن کے ذریعہ وہ راستہ تلاش کرتے ہیں ۔اس طرح قرآن کریم نے ستاروں کی تخلیق کا مقصد راستوں کی دریافت ، آسمان کی زینت اور شیاطین کے مارنے کا آلہ قرار دیا یہ سب صرف بطور نمونہ اور مثال کے بیان کیے ہیں ورنہ حقیقت میں ان چیزوں کی تخلیق کا مقصد اللہ رب العزت کی کبریائی ، عظمت اور اللہ کی کاریگری میں غور کرنا ہے ۔قرآن کریم میں اس طرح کے دلائل کثرت سے موجود ہیں : ( هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاءً وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللَّهُ ذَلِكَ إِلَّا بِالْحَقِّ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ . إِنَّ فِي اخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا خَلَقَ اللَّهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَّقُونَ ) يونس/5-6

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس طریقہ یا رسم کو بند کرا دینا ضروری ہے۔ پیسے کا لین دین خوش دلی سے ہونا چاہیے، جو ہدیہ زبردستی ہو وہ ہدیہ نہیں ہے اور زبردستی کرنے والے کے لیے وہ پیسہ حلال بھی نہیں ہے۔(۱)

(۱) {لاَ تَأْکُلُوْٓا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّآ أَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ قف} (سورۃ النساء: ۲۹)
عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال امرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: باب الغصب والعاریۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص452