اسلامی عقائد

Ref. No. 1672/43-1291

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی غیرمسلم سے مسجد کے فرنیچر کا کام کرانا، اور مسجد کی صفائی وغیرہ کرانا درست  اور جائز ہے۔  یہی امام ابوحنیفہ کا مسلک ہے۔ قرآنی آیت میں جو مشرکین کو مسجد حرام سے روک دیا گیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ مشرکین کو آئندہ سال سے ان کے مشرکانہ طرز پر حج وعمرہ  کرنے کی اجازت نہیں ہوگی،  اور دلیل یہ ہے کہ جس وقت موسم حج میں حضرت علی رضی اللہ عنہ  کے ذریعہ اعلان برائت کردیا گیا تو اس میں اعلان اسی کا تھا کہ لایحجن بعد العام مشرک ، جس میں ظاہر کردیاگیاتھا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرسکے گا، یعنی حج و عمرہ کی ممانعت ہے، کسی ضرورت سے باجازت امیر المومنین داخل ہوسکتے ہیں، وفد ثقیف کا واقعہ اس کا شاہد ہے کہ فتح مکہ کے بعد جب ان کا ایک وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہواتو آپﷺ نے ان کو مسجد میں ٹھہرایاحالانکہ یہ لوگ اس وقت کافر تھے، صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ نجس قوم ہے، تو آپ نے فرمایاکہ مسجد کی زمین پر ان کی نجاست کا کوئی اثر نہیں پڑتا-جصاص۔  (مستفاد از معارف القرآن ج4 ص355 تفسیر سورہ توبہ آیت 28)

قال: ولا بأس بأن يدخل أهل الذمة المسجد الحرام وقال الشافعي - رَحِمَهُ اللَّهُ -: يكره ذلك. وقال مالك - رَحِمَهُ اللَّهُ -: يكره في كل مسجد، للشافعي - رَحِمَهُ اللَّهُ - قَوْله تَعَالَى: {إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا} [التوبة: 28] ولأن الكافر لا يخلو عن جنابة؛ لأنه لا يغتسل اغتسالا يخرجه عنها، والجنب يجنب المسجد، وبهذا يحتج مالك، والتعليل بالنجاسة عام فينتظم المساجد كلها. ولنا ما روي أن النبي - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - أنزل وفد ثقيف في مسجده وهم كفار ولأن الخبث في اعتقادهم فلا يؤدي إلى تلويث المسجد، والآية محمولة على الحضور استيلاء واستعلاء،أو طائفين عراة كما كانت عادتهم في الجاهلية. (البنایۃشرح الھدایۃ، باب دخول اھل الذمۃ المسجد الحرام 12/238-240)

ولا یکرہ عندنا دخول الذمي المسجد الحرام، وکرہہ الشافعي لقولہ تعالی: ”إِنَّمَا الْمُشْرِکُونَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہَذَا“، ولأن الکافر لا یخلو عن جنابة․ وأُجیب بأنہ محمول علی منعہم أن یدخلوہ طائفین عراةً، وأو مستولین، وعلی أہل الإسلام مستعلین، وبأنّ النجاسة محمولة علی خبث عقائدہم، وکرہہ مالک في کل مسجد اعتبارًا بالمسجد الحرام لعموم العلة وہي النجاسة․ ولنا: ما في ”سنن أبی داوٴد“ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِی الْعَاصِ، أَنَّ وَفْدَ ثَقِیفٍ لَمَّا قَدِمُوا عَلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَنْزَلَہُمُ الْمَسْجِدَ لِیَکُونَ أَرَقَّ لِقُلُوبِہِمْ، فَاشْتَرَطُوا عَلَیْہِ أَنْ لَا یُحْشَرُوا، وَلَا یُعْشَرُوا، وَلَا یُجَبَّوْا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَکُمْ أَنْ لَا تُحْشَرُوا، وَلَا تُعْشَرُوا، وَلَا خَیْرَ فِی دِینٍ لَیْسَ فِیہِ رُکُوعٌ․ والتجبیة بالجیم والموحدة وضع الیدین علی الرکبتین․ وفي ”مراسلة“ عن الحسن أن وفدَ ثقیف أتوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فضرب لہم قبة فی موٴخر المسجد لینظروا صلاة المسلمین، فقیل لہ: یا رسول اللہ أتنزلہم في المسجد وہم مشرکون؟ قال: إن الأرض لا تتنجس بابن آدم (۔شرح الوقایة لعلي الحنفي: ۵/ ۱۸۷)

وفي الحاوي لا بأس أن یدخلَ الکافر وأہل الذمة المسجد الحرام وبیت المقدس وسائر المساجد لمصالح المسجد وغیرہا من المہمّات (البحر الرائق شرح کنز الدقائق) (قولہ: حتی الکافر) اعترض بأن الکافر لا یمنع من دخول المسجد حتی المسجد الحرام، فلا وجہ لجعلہ غایة ہنا، قلت: في البحر عن الحاوي: ولا بأس أن یدخل الکافر وأہل الذمة المسجد الحرام وبیت المقدس وسائر المساجد لمصالح المسجد وغیرہا من المہمات إھ ومفہومہ أن في دخولہ لغیر مہمة بأسا وبہ یتجہ ماہنا فافہم․ (رد المحتار: ۶/ ۵۷۵)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

 الجواب وباللّٰہ التوفیق:بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ میدان عرفات میں جمع کیا جائے گا اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ وہ میدان کون سا ہے اور کہاں ہوگا۔ البتہ بعض علماء نے مسند احمد وغیرہ سے سیدہ میمونہ بنت سعد رضی اللہ عنہا کی حدیث نقل فرمائی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شام حشر ونشر کی سرزمین ہے۔(۱)

(۱)  قال أبو ذر -رضي اللّٰہ عنہ-: یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فأین أنام، ہل لي من بیت غیرہ؟ فجلس إلیہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقال لہ: کیف أنت إذا أخرجوک منہ؟ قال إذاً الحق بالشام فإن الشام أرض الجہرۃ، وأرض المحشر، وأرض الأنبیاء۔ (أخرجہ أحمد بن حنبل، في مسندہ، ’’حدیث أسماء بنت یزید‘‘: ج ۴۵، ص: ۵۶۸، رقم: ۲۷۵۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج1ص243

اسلامی عقائد

Ref. No. 1099 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔  ایسی کوئی روایت ہماری نظر سے نہیں گذری، البتہ حدیث میں یہ ہے کہ اللہ کے راستہ میں ایک نیکی کا ثواب سات لاکھ  تک ہوجاتاہے، تبلیغی جماعت میں جانا نیکی اور کار ثواب ہے، اور جماعت میں نکلنے والابھی اللہ کے راستے میں ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اس کو اس حدیث کی رو سے سات لاکھ اور اس سے بھی زیادہ ثواب مل سکتا ہے۔ اللہ تعالی جس قدر چاہیں اس کے اخلاص کے مطابق اس کا ثواب بڑھاسکتے ہیں۔واللہ یضاعف لمن یشاء ﴿القرآن﴾۔لیکن اللہ کے راستہ سے مراد صرف جماعت ہی نہیں  ہے، جہاد وتعلیم وتعلم وغیرہ کےلئے نکلنا بھی اللہ ہی کے راستہ میں شمار ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حسا ب و کتاب تو آخرت میں ہوگا قبر میں دو امور ہیں سوال و جواب اور فتنہ قبر اس کو عذاب قبر بھی کہہ سکتے ہیں، جہاں تک سوال و جواب کی بات ہے اس کے بارے میں بعض فقہاء نے کہا ہے کہ ہر ذی نفس سے سوال ہوگا، لیکن یہ قول مرجوح ہے۔ شارح بخاری شریف علامہ قسطلانی اور شارح جامع صغیر علقمہ کی تحقیق یہ ہے کہ کچھ مستثنیات بھی ہیں جن سے سوال نہیں ہوگا؛ علامہ سیوطی نے بھی ان کو بیان کیا ہے جن سے سوال نہیں ہوگا۔
مثلاً: (۱)شہیدوں سے اور جو اسلامی حکومت کی سرحد کی فوجی حفاظت پر مامور ہیں۔ (۲) طاعون کی بیماری میں مبتلا ہوکر جو مرے۔ (۴) طاعون کا مرض جب پھیل رہا ہو اور وہ دوسری جگہ منتقل نہ ہو۔ اور انہی ایام میں اس کا انتقال ہوجائے۔
(۵) صدیقین سے۔ (۶) جمعہ کے دن یا رات میں جس کا انتقال ہو۔ (۷) اطفال۔ (۸) جو ہر رات میں سورہ ملک پڑھتا ہو اور بعض نے سورہ سجدہ کا اضافہ کیا ہے۔ رمضان میں مرنے والا اور انبیاء علیہم السلام، فتنۂ قبر اور عذاب قبر کے بارے میں وارد ہے۔
’’قال علیہ الصلوٰۃ والسلام: ما من مسلم یموت یوم الجمعۃ أو لیلۃ الجمعۃ إلا وقاہ اللّٰہ فتنۃ القبر الخ‘‘(۱) مصنف بن عبدالرزاق اور مسند دیلمی میں حضرت علی کرم اللہ وجہ سے روایت ہے ’’من مات لیلۃ الجمعۃ أو یوم الجمعۃ دفع اللّٰہ عنہ عذاب القبر‘‘ (۲)
معلوم ہوا کہ جس کا انتقال جمعہ کی رات یا جمعہ کے دن ہوا ہو اس کو عذاب بھی نہیں ہوگا۔

۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الجنائز: باب ما جاء في من یموتیوم الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۵، رقم: ۱۰۷۴۔
(۲) محمد السخاوي، مقاصد حسنہ: ج ۱، ص: ۶۷۲، رقم: ۱۱۷۷۔
ثم ذکر أن من لا یسأل ثمانیۃ: الشہید، والمرابط، والمطعون، والمیت زمن الطاعون بغیرہ إذا کان صابرا محتسبا، والصدیق، والأطفال، والمیت یوم الجمعۃ أو لیلتہا، والقارئ کل لیلۃ تبارک الملک وبعضہم ضم إلیہا السجدۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: ثمانیۃ لا یسألون في قبورہم‘‘: ج ۳، ص: ۸۱)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص244

اسلامی عقائد

Ref. No. 2487/45-3781

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حساب و کتاب رسید کے ذریعہ ہوتاہے،  اس لئے مدرس یا سفیر نےجو رسید کاٹ دی ہے  اس کا حساب دینا ہوگا، اگر اس نے ادھار رسید کاٹی ہے تو کچھ مزید مہلت لے لے اور انتظامیہ کو چاہئے کہ مہلت دے دے ، اور اگر مہلت کے بعد بھی پیسے وصول نہیں ہوئے تو مدرس و سفیر کی ذمہ داری ہوگی کہ بینہ کے ذریعہ یہ ثابت کرے کہ یہ پیسے وصول نہیں ہوئے ہیں، اور اگر مدرس وسفیر کے پاس کوئی بینہ نہیں ہے تو مدرسہ کو رقم واپس کرنا ضروری ہوگا۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1593/43-1137

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ معذور سے کس قسم کا معذور مراد ہے، اس کی وضاحت ضروری ہے ۔ اگر کسی کو پاکی ناپاکی کا عذر شرعی ہے تو ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔اگر اس  نے نماز پڑھادی تو اس کے پیچھے نماز درست نہیں ہوئی، اعادہ کرنا ضروری ہے۔اور اگر پیر وغیرہ کسی عضو سے معذور ہے تو اگر وہ کھڑا ہوکر تمام ارکان کے ساتھ نماز اداکرنے پر قادر ہے تو اس کے پیچھے نماز درست ہے۔ لیکن اگر وہ تمام ارکان ادا کرنے پر قادر نہ  ہومثلا بیٹھ کر نماز اداکرے تو اس کے پیچھے نماز نہیں ہوگی۔ کوئی دوسرا امام منتخب کرلینا چاہئے۔ اگر کوئی نہ ہو تو ایسی مجبوری میں کسی فاسق کو امام بنالینا بھی درست ہے۔

قال الحصکفي: وصاحب عذر من بہ سلسل بول إن استوعب عذرہ تمام وقت صلاة مفروضة بإن لا یجد في جمیع وقتہا زمنًا یتوضأ ویصلي فیہ خالیًّا عن الحدث- قال ابن عابدین نقلاً عن الرحمتي: ثم ہل یشترط أن لا یمکنا مع سننہما أو الاقتصار علی فرضہما؟ یراجع اھ أقول الظاہر الثاني (شامی مطلب في أحکام المعذور 1/504) وقال الحصکفي: ولا طاہر بمعذور (شامی باب الإمامة 2/278) وقال: وتکرہ إمامة -فسق- وفي النہر عن المحیط: صلی خلف فاسق- نال فضل الجماعة- قال ابن عابدین: لکن لا ینال کما ینال خلف تقي ورع۔ (شامی، باب الإمامة 2/254) (وصح اقتداء متوضئ) لا ماء معه (بمتيمم) - - - (وقائم بقاعد) يركع ويسجد؛ «لأنه صلى الله عليه وسلم صلى آخر صلاته قاعدا وهم قيام وأبو بكر يبلغهم تكبيره» (قوله وقائم بقاعد) أي قائم راكع ساجد أو موم، وهذا عندهما خلافا لمحمد. وقيد القاعد بكونه يركع ويسجد لأنه لو كان موميا لم يجز اتفاقاً''۔(شامی، باب الامامۃ 1/588)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1370/42-782

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس طرح کے الفاظ عموما تعجب یا عاجزی کے اظہار کے لئے بولے جاتے ہیں، اس لئے اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔ اور غیرمسلموں کی کالی مائی وغیرہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ تاہم ایسے کلمات کے استعمال سے بچنا چاہئے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ آیت سورہ التوبہ کی ہے اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے منافقین کو دوہری سزا دینے سے متعلق ارشاد فرمایا اور یہ دوہری سزا قبل آخرت ہوگی، جیساکہ بحر محیط میں ہے: وہ دوہرا عذاب (دنیا میں) قتل اور عذابِ قبر ہے یا فضیحت ورسوائی اور عذابِ قبر ہے۔ ’’فأکثر الناس علی أن العذاب الثاني ہو عذاب القبر وأما المرّۃ الأولیٰ، فقال ابن عباس -رضي اللّٰہ عنہ- في الأشہر عنہ: ہو فضیحتہم ووصمہم بالنفاق‘‘(۱)
منافقین کے لئے ایک عذاب تو اس دنیا میں مسلمانوں کے ہاتھوں ان کا قتل اور ان کی رسوائی ہے اور دوسرا عذاب عذابِ قبر ہے، یعنی برزخ میں قیامت سے قبل سزا ملے گی۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ روح المعانی میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’قد فضح اللّٰہ تعالیٰ المنافقین الیوم فہذا العذاب الأول والعذاب الثاني عذاب القبر‘‘(۲) حاشیہ جلالین میں لکھا ہے: دنیا میں فضیحت ورسوائی یا قتل اور قبر میں عذاب تو یہ ایک بار عذاب دنیا میں ہوا اور ایک بار قبر میں ’’بالفضیحۃ أو القتل في الدنیا وعذاب القبر مرۃ في الدنیا ومرۃ في القبر‘‘ (۳) تفسیر خازن میں مذکور ہے: ’’سنعذبہم مرتین اختلف المفسرون في العذاب الأول مع اتفاقہم علی أن العذاب الثاني ہو عذاب القبر بدلیل قولہ (ثم یردون إلی عذاب عظیم) وہو عذاب النار في الآخرۃ فثبت بہذا أنہ سبحانہ وتعالیٰ یعذب المنافقین ثلاث مرات مرۃ في الدنیا ومرۃ في القبر، ومرۃ في الآخرۃ‘‘(۴)
مفسرین کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ پہلے عذاب سے کیا مراد ہے؟ جب کہ اس بات پر سب متفق ہیں کہ دوسرے عذاب سے مراد عذاب قبر ہے۔
امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں لکھا: ’’قال الحسن والقتادۃ: عذاب الدنیا وعذاب القبر قال ابن زید: الأول بالمصائب في أموالہم وأولادہم والثاني عذاب القبر‘‘ حسن اور قتادہ رحمہما اللہ اس سے دنیا کا عذاب اور قبر کا عذاب مراد لیتے ہیں، جبکہ ابن زید کہتے ہیں: پہلا عذاب ان کے مالوں اور اولادوں کو نقصان پہونچنا اور دوسرا عذاب قبر کا ہے۔(۵) مفتی محمد شفیع عثمانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر معارف القرآن میں اس آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: آیت کریمہ میں ایسے منافقین کا ذکرہے جن کا نفاق انتہائی کمال پر ہونے کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اب تک مخفی تھا۔ اس آیت میں ایسے شدید منافقین پر آخرت سے قبل دو عذاب کا ذکر آیا ہے۔ ایک دنیا میں ہر وقت نفاق چھپانے کا ذکر اور مسلمانوں سے بغض وعداوت رکھنے کے باوجود ظاہر میں مسلمانوں کی تعظیم و تکریم، اور دوسرا عذابِ قبر مراد ہے۔(۱)
خلاصہ کلام آیت کریمہ میں دو مرتبہ عذاب سے مراد آخرت سے قبل دنیا میں قتل یا رسوائی مراد ہے اور مرنے کے بعد عالم برزخ یعنی قبر میں عذابِ قبر مراد ہے۔

(۱) اختلف الناس في تفسیر القرآن ہل یجوز لکل أحد الخوض فیہ؟ فقال قوم: لا یجوز لأحد أن یتعاطی تفسیر شيء من القرآن وإن کان عالماً أدیباً متسما في معرفۃ الأدلۃ والفقہ والنحو والأخبار والآثارالخ۔
من قال: یجوز تفسیرھ لمن کان جامعا للعلوم التي یحتاج المفسر إلیہا وہي خمسۃ عشر علماً:
أحدہا: اللغۃ۔ الثاني: النحو۔ الثالث: التصریف۔ الرابع: الاشتقاق۔ الخامس، والسادس، والسابع: المعاني والبیان والبدیع۔ الثامن: علم القراء ات۔ التاسع: أصول الدین۔ العاشر: أصول الفقہ۔ الحادي عشر: أسباب النزول والمنسوخ۔ الثالث: عشر: الفقہ۔ الرابع عشر: الأحادیث۔ المبینۃ۔ الخامس عشر: الموہبۃ۔ (عبد الرحمن أبي بکر، الإتقان في علوم القرآن، ’’النوع الثامن والسبعون: في معرفۃ مشروط الآداب‘‘: ج ۴، ص: ۲۱۳)

(۱) أبو حبان أندلسي، بحر محیط، ’’سورۃ التوبۃ: ۱۰۱‘‘: ج۵، ص: ۹۸۔
(۲) علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ التوبۃ: ۱۰۱‘‘: ج۷، ص: ۶۱۔
(۳) جلال الدین سیوطي، تفسیر جلالین، ’’سورۃ التوبۃ: ۱۰۱‘‘: ص: ۱۶۶۔
(۴) علاؤ الدین علي بن محمد، تفسیر خازن، ’’سورۃ التوبۃ: ۱۰۱‘‘: ج۲، ص: ۴۰۰۔
(۵) أبو عبد اللّٰہ القرطبي، تفسیر قرطبی، ’’سورۃ التوبۃ: ۱۰۱‘‘: ج۸، ص: ۱۵۳۔
(۱) مفتي محمد شفیع عثمانيؒ، معارف القرآن ،’’سورۃ التوبۃ: ۱۰۱‘‘، ج۴، ص ۴۵۱۔


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص47

اسلامی عقائد

 

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم: اس طرح کے جملہ کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے  کہ مانگنے کی ترغیب ہو،  اور توجہ اللہ کی طرف ہو، اس لئے اس جملہ میں کوئی حرج نہیں  اور نہ ایمان کو کوئی خطرہ۔ تاہم اگر قائل یہ عقیدہ رکھے کہ بغیر مانگے اللہ تعالی کچھ نہیں دیتے تو ایسے جملوں سے پرہیز ضروری ہے۔ واللہ اعلم

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1969/44-1904

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  جو کچھ بطور قرض لیاگیا ہے اس کی واپسی لازم ہے، اس لئے سال کے ختم پر جب زکوۃ کا حساب کریں گے اس وقت تمام مال سے  قرض کی رقم منہا کرنے کے بعد زکوۃ نکالی جائے گی؛  خواہ وہ قرض کسی شخص سے لیا ہو یا بینک سے، سودی ہو یا غیرسودی۔  خیال رہے کہ  سود پر قرض لینا گناہ کبیرہ ہے، اس لئے شدید وشرعی مجبوری کے بغیر  لون لینا جائز نہیں ہے۔ اس لئے لون لینے سے قبل کسی ماہر مفتی سے صورت حال بتاکر مسئلہ معلوم کرلیں۔

﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ  وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِيْنَ فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِه وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ أَمْوَالِكُمْ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ وَإِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَة إِلٰى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْر لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾[البقرة : ۲۷۸ إلى ۲۸٠ ]

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند